” مجرم کو بھی سزا سنانے سے پہلے ایک بار بولنے کا موقع دیا جاتا ہے “ میں نے اِسکے دونوں بازو اِسکی کمر کے پیچھے لےجاکر ان پر گرفت مضبوط کردی۔۔۔
” مجرم کو نا؟؟؟ تم تو قاتل ہو “ وہ پھنکاری۔۔
” تمہیں غصّہ کس بات کا ہے؟؟؟ “ میں نے ابرو اچکا کے پوچھا پھر ایک سوچ آتے ہی شیطانی مسکراہٹ نے میرے ہونٹوں کا احاطہ کیا۔۔۔
” کہیں مجھ سے محبت؟؟؟ “ میری بہکی ، خمار آلودہ آنکھیں اُس پل چمک اٹھیں جو رابی کی آنکھوں میں محبت کے اس روشن دیے کو ڈھونڈ رہیں تھیں۔۔
” خوش فہمی کی بھی حد ہوتی ہے!!! “ وہ میری گرفت میں مچلتی میرا خون کرنے کے در پر تھی اور اِسکی حالت دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی جسے دیکھتے ہی اِسنے غصّے سے منہ پھیر لیا میری مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔۔۔
” رابی وہ سانولی لڑکی تم تھیں؟؟؟ “ میں نے یاد آنے پر اِس سے پوچھا ایک ہاتھ سے اِسکی ٹھوڑی تھامی جب کے دوسرا ہاتھ اِسکے ہاتھوں پر گرفت جمائے ہوئے تھا۔۔
” کون سی سانولی اور کیا میں سانولی ہوں؟؟ “ وہ چونکی تھی پھر جیسے اس موضوع کو بدلنے کے لئے جان بوجھ کر اس نے مجھے الزام دیا۔ میں غور سے اِسکا بدلتا انداز دیکھ رہا تھا اتنا تو جانتا تھا میری
” رجیکشن “ کی وجہ سے وہ انجان ہے ورنہ ضرور مجھے اپنے سسرال سے پھنک کر مائکے چھوڑ آتی۔۔
” سانولا ہونا عام بات ہے بس میں نے یہ پوچھا ہے کہ اِس اسکیچ سے تمہارا کیا تعلق؟؟؟ “ میں نے سنجیدہ لب و لہجے میں پوچھا۔
” کون سا اسکیچ؟؟؟؟ “ وہی اِسکا انجان بنا
” تمہیں نہیں لگتا بہت ہو رہا اب یہ انجان بنا بند کرو “ میں نے دانت پیستے کہا اور ایک جھٹکا دیکر اسے وارن کیا۔۔
” تم اپنی باتوں کو جسٹیفائے کرو مجھے تمہارا ایک لفظ تک سمجھ نہیں آیا “ کہتے ہی آخر میں اسکی وہ فتح مند چلینجگ مسکراہٹ۔۔ میں ضبط سے جبڑے بھینچ گیا۔۔
” تم مجھے غصّہ دلا رہی ہو “ میں نے شعلے برساتی نظروں سے اسے گھورتے ڈرانا چاہا لیکن وہ ازل کی ڈھیٹ بندی۔۔
” جیسے مجھے پروا ہے؟؟ “ اب بھی مسکرا کر وہ گویا ہوئی میں نے اسے چھوڑ کر بالکنی کا رُخ کیا اور جو اسکیچز ڈھونڈنے آیا تھا وہ کیا ملتا یہاں سے تو ڈور ہی غائب تھا اتنا بڑا ڈرو اچانک سے گیا کہاں؟؟ میں نے دانت پر دانت جما کر غصّہ قابو کرنا چاہا آج یہ میرے ہاتھوں کسی کا قتل کروائے گی میں دندناتا ہوا کمرے میں پہنچا تو وہ مزے سے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی دونوں ہاتھ دائیں بائیں رکھ کے ہاتھوں کی مدد سے اونچا ہوکر مجھے گھور رہی تھی پھر میرے آتے ہی گردن نیچے کردی۔۔
” فون دیکھائو “ میں نے کڑے تیوروں سے اسے گھورتے حکم دیا اور وہ میسنی؟ تابعداری سے فون تھمایا جیسے پہلے سے جانتی تھی یہی مانگوں گا۔ فون پر سے پاسوورڈ وہ ہٹا چکی تھی مجھے یقین تھا اندر کچھ نہیں ملنے والا لیکن یہ کھجلی انسان کو جس چیز سے منع کرو وہی کرتا ہے اور اول اِسی کو ترجیع دیتا ہے میں نے وہی کیا اور منہ کے بٙل گرا ایک پوسٹ تک اِس نے ریل اکاؤنٹ سے کوئی ڈرائنگ تک کی پوسٹ نہیں کی کچھ خاص نا تھا اکاؤنٹ میں۔۔ کچھ ایسا تھا نہیں جو اسکی خاصیت کا خلاصہ کرتا میں نے باقاعدہ فون کو دیوار پر مارنا چاہا لیکن پھر بیڈ پر پھنک کر رابی کی طرف متوجہ ہوا جو آنکھوں میں جیت کی چمک لئے مجھے دیکھ رہی تھی۔۔۔
” چچا نے سختی کی ہوتی تو اتنی بگڑی ہوئی نا ہوتیں سنا ہے جن کا اثر ہے تم پر؟؟ “ میں اب طنزیہ مسکراتے ہوے ایک ٹانگ بیڈ پر رکھے دوسری ٹانگ کی مدد سے کھڑا اسپر جھکا ہوا تھا۔ میری بدلتی ٹون سے وہ تشویش میں مبتلا لگ رہی تھی ارد گرد دیکھتے نجانے کسے ڈھونڈ رہی تھی یا شاید میرے قریب آنے پر خوفزدہ تھی۔۔
” کیا ہوا؟؟ میرے ساتھ رہنا تو تم نے ہے نہیں۔ جس طرح میرے گناہ گنوا کر گئی ہو لگتا نہیں ہے تمہارا یہ غصّہ تمہیں میرے ساتھ رہنے دیگا۔۔ “ میں نے اسکی شہ رگ
” غصّے “ پر وار کیا سب سے سنا ہے غصّے میں وہ آپے سے باہر ہوتی ہے اب یہی ایک راستہ تھا اسکی عقل ٹھکانے لگانے کا۔۔
” تمہارا کوئی پیج نہیں لیکن کل ہی ایک عورت کے پیج پر میسج کر کے میں نے کہا تھا میں کنوارا ہوں اور واقعی شادی جیسی کوئی فیلنگ بھی تو نہیں آتی؟؟؟ تمہیں کیا لگتا ہے؟؟ اب تو ہاتھ پیلے کرنے چاہیے نا ویسے اسنے اوفر بھی کی تھی پیج پر پوسٹ لگانے کی “
” عورت کسے کہا تم نے؟؟؟ “ وہ ساری باتیں چھوڑ کر
” عورت “ لفظ پر چلا اٹھی باقاعدہ ایک بار پھر میرا کولر پکڑا میرا ہلق پھاڑ قہقہ پورے کمرے میں گونجا۔۔
” اسی عورت کو جسے میرا کنوارا بتانا ہضم نہیں ہوا اور اپنے ہاضمے کے لیے لمبی داستان نکال ڈالی “ میں نے اسے مزید چھیڑا۔ اب غصّے کی وجہ میں بھی جان چکا تھا وہ ” جذبات “ جن سے وہ خود انجان ہے وہ ” محبت “ جسکا اظہار وہ مر کر بھی نہیں کریگی وہ جانتی ہے میں اُسے تنگ کر رہا ہوں یہ بھی کے دوسری شادی کی صورت میں جنازہ میرا ہی اس گھر سے نکلنا ہے۔۔
” تم دنیا کے آخری انسان ہوگے تب بھی کوئی تم سے شادی نہیں کریگی“ میرے چھیڑنے پر قہر برساتی نگاہوں سے مجھے نواز کر وہ پھنکاری اور میرا کالر چھوڑا۔۔۔
” کریگی نہیں یا تم کرنے نہیں دوگی “ میں نے اسکا جملا مکمل کیا جس نے اسے مزید غصّہ دلایا۔۔
” آئ ڈونٹ کیر “ وہ دانت پیستے بولی اسکا غصّہ دیکھ کر میں نے طنزیہ کہا۔۔
” اوہ جن کا اثر اب بھی قائم ہے؟؟ اچھے سے جن نکالونگا سارے حربے جانتا ہوں جن بھگانے کے۔۔ “ آخری لائن شوخی سے کہکے مزید اسکے قریب ہوا۔۔۔
” دور ہٹو “ لیکن ظالم نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کے دور دھکیلا اور تب اندازہ ہوا سُکڑے لوگوں کو ہلکا نہیں لینا چاہیے دھکا ایسا تھا کے باقاعدہ میں الماری سے جا لگا اور وہ پہلوان کی بہن ویسے ہی بیٹھی رہی جیسے یہ اُسکا روز کا معمول تھا۔۔
میں بھی سیدھا ہوکر کھڑا ہوگیا ایسے ظاہر کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں شکر ہے کے ناراضگی میں اسکی نظریں دروازہ کی طرف تھیں ورنہ عزت کا بھرتا بن جاتا۔۔۔۔
” رابی۔۔۔ “ میں نے اب کے سنجیدگی سے اسے پکارا اسکے پاس نیچے زمین پر بیٹھ گیا۔ گودھ میں دھرے اسکے ہاتھوں کو سختی سے تھام لیا تاکے میری بات مکمل ہونے سے پہلے کہیں بھاگے نا۔۔
” میں جسکا گنہگار تھا کل دت میں نے اُس سے معافی مانگی تم میں کوئی نقص، کوئی خرابی نا تھی خرابی میری ان آنکھوں میں تھی جس نے پرکھا دوسرے کی آنکھ سے۔۔ میں گہنگار تمہارا نہیں رابی تم تو واقف بھی نہیں وہ وجہ کیا۔۔۔۔۔۔“ میں بتاتے بتاتے رُک گیا۔ وہ سانس روکے مجھے سن رہی تھی جب ”اس “ وجہ کو راز رکھا گیا ہے تو میں کیوں رابی کو بتا کر خود کو کم ظرف ظاہر کر رہا ہوں یہ بڑی بات نہیں کے میرے اعمال چھپ گئے تھےاللہ کا شکر تھا میں نے بابا امی کو بھی کبھی نہیں بتایا۔
” میں بس کچھ لمحوں کے لئے بھٹکا تھا لیکن اب لوٹ آیا ہوں جن، جیل جانا سب فضول باتیں ہیں میں جانتا ہوں۔۔ بس میرا کیس اسٹرونگ کرنے کے لئے میں نے نانی سے کہا تھا لیکن یقین جانو اچھی بےعزتی ہوئی تھی میری۔۔ رابی میں نے کبھی تمہارے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی میں ضرور اپنے آپ میں رہنے والا کتابوں کی دنیا کا مکین ہوں لیکن انسان کی نیت سے واقف ہوں بریانی میرے خون میں دوڑتی ہے چھینی بھی تو اپنی بیوی سے تھی نا؟؟ یہ سب باتیں میں کل رات سوچتا رہا ہوں کے تم پاس تھیں پھر بھی میں تمہارے وجود سے انجان رہا۔ تمہیں کبھی وہ خاص مقام نہیں دیا شادی کے دن گنوائے اسکے بعد بھی بہت دن فضول سوچوں میں چلے گئے لیکن بس میری ایک خوائش کی وجہ سے۔۔۔ ” خاص “ تمہیں کیسے بتاؤں بھٹکتا رہا ڈھونڈتا رہا پل پل لیکن وہ تو میرے قریب تھی بس ایک خطا تھی۔۔ میری جستجو تھی خاص کی۔۔ میں اندھا تھا کیوں کے قریب ہوکر بھی تمہیں جان نا پایا اور چچا انھیں دیکھو ہمارے رشتے کی نزاکت کا انہیں پہلے ہی علم ہوگیا تھا انہوں نے وہ سب اسکیچز دیکھائے تمہاری خوبی کا بتایا تاکے میں پل پل بھٹکتا نا پھروں۔۔ میری غلطی بس اتنی تھی مجھے خوائش تھی ” خاص “ کی ورنہ رابی میں نے تمہارے علاوہ آج تک کسی لڑکی کو نہیں سوچا میری زندگی میں تم پہلی لڑکی ہو۔ تم سے انجان نہیں میں۔۔ میں تو خود کے وجود سے بھی بیگانہ تھا بس پڑھائی جاب یہی سوار تھا ورنہ میرے لئے دنیا کی پہلی لڑکی تم ہو اور آخری۔۔۔۔ نہیں وہ تو میری بیٹی ہوگی نا؟؟؟ “ اپنی صفائی دے کر آخر میں اسے چھیڑنے سے بعض نا آیا اور وہی لمحہ دوبارہ میری آنکھوں نے دیکھا ایک دفع تب جب رابی کی پیشانی چومی تھی جاب سے پہلے اور اب میرا بیٹی کا فقرا وہ شرم سے سرخ پڑ گئی نظریں نیچے جھکیں ہوئیں تھیں مجھے لگ رہا تھا جیسے وہ سانس روکے بیٹھی ہے۔۔
” رابی “
” رابی “ مجھے ہنسی آرہی تھی وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح ناراض ہوکر بیٹھ گئی تھی۔ عادی نہیں تھی ایسے جملوں کی اور اب شرم سے چہرہ جھکائے بیٹھی تھی جیسے کوئی گناہ کر دیا ہو میرے بلانے پر بھی اس نے اپنا سر نا اٹھایا۔۔۔
” ویسے اب تو بتا دو میرے رشتے کا اشتیار دینے والی تم تھیں نا؟؟ پتا نہیں کیوں کبھی کبھی لگتا ہے چچا اور تم ملکر مجھ معصوم کو پاگل بنا رہے ہو “ میں نے بےچارگی سے کہا شکر تھا میرے بات سن کر اسکی نظریں اٹھیں اور وہ مسکرائی تھی۔۔۔
” اب بتاؤ بھی سب کہاں چھپایا ہے؟؟؟ “ میں نے لہجے میں تھوری غصّے کی رمک رکھی تاکہ وہ اس سحر سے باہر نکلے۔۔
” کیوں اب کیسا لگتا ہے جب انسان چپ کی مار مارتا ہے؟؟ آپ بےبس ہوتے ہو نا؟؟ اب سمجھ آیا جب مجھے اس طرح تنگ کرتے تھے کتنا پریشان ہوتی تھی “ میں اِسکا منہ دیکھتا رہ گیا یہ تو میرا پیدا ہونا بھی جیسے مجھ سے گِنوا کر رہنے والی تھی کے گناہ ہے۔۔
” جہاں آپ بیٹھیں ہیں ذرا غور سے سامنے دیکھیں “ وہ دانتوں سے ہونٹ کا کنارہ دبا کر مسکراہٹ روکے ہوے تھی جب کے میں تو بیوقوف بننے کا سوچ کر ہی خود پر لعنت ملامت کر رہا تھا۔۔۔
میں نے اسکے کہنے پر سامنے دیکھا تو بیڈ کے نیچے ڈور تھا یہ پتا نہیں کسنے کب بنوایا میں نے اسے فوراً سے کھولا تو اندر وہی سامان تھا یا اللہ یہ بندی تیری مجھے سکھ کا سانس نہیں لینے دیگی وہ ڈرو سیم اسی سائز کا تھا جیسے گیلری میں فٹ تھا۔۔
” یہ ہر بات میں مثالیں کیوں لے آتی ہو “
میں نے اسے گھور کر پوچھا بیوقوف بننا کہاں ہضم تھا مجھے؟؟
” انسان جس ماحول میں رہتا ہے اُسکا لفظ لفظ حفظ کرنا چاہیے کیا پتا کب ضرورت پڑ جائے؟؟؟ “ مجھے رائے دیکر وہ اٹھ کر جانے لگی لیکن اس بار بھی میں اسکی راہ میں حائل ہوگیا۔۔۔۔۔۔
” اب بھی مجھ سے ناراض ہو؟؟ “
میری پوچھنے پر اسنے سر نا ہاں میں ہلایا میں نے اسکے دونوں ہاتھوں کو محبت سے تھاما۔۔
” اداس بھی ہو؟؟؟ “
ایک بار پھر سر ہاں میں ہلایا
”اور غصّہ بھی آرہا ہے ؟؟ “ پھر سے گردن ہلانے پر اکتفا کیا کہ ہاں بہت آ رہا ہے۔۔۔
” اور کیا اب بھی مجھ سے تنگ ہو ؟؟ “ میں نے مسکراہٹ دبائی
” ہاں “ ہلکا سا مسکراتے ہوئے وہ سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔۔
” اچھا تو لگتا ہے اب خوش بھی نہیں ہو؟؟ “
پھر سے جواب ہاں میں ملا تو آنکھیں شرارت سے چمکی
” مجھ سے محبت ہے نا؟؟ “ میں نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے پوچھا کہیں ہونٹ ہی نا پھوڑ دے۔۔
” ہاں “ اب کے کہتے ساتھ اسنے ایک دفع ناسمجھی سے مجھے دیکھا میں جو آنکھوں میں محبت سموئے اسے دیکھ رہا تھا اگلے لمحے کراہ کر رہ گیا کیوں کے ہاتھ کا مکا بنا کر اسنے میرے پیٹ میں دے مارا۔۔
☆.............☆.............☆
” صاف جواب ہے میری بیوی میری اجازت کے بغیر کہیں نہیں جائے گی “ ڈھٹائی سے جواب دیا
” تمہاری بیوی بننے سے پہلے بیٹی ہے وہ میری “ فون کے اُس پار وہ چلائے
” نہیں مانتا “ پُر سکون انداز تھا۔۔
” غلطی ہوگئی غلط ہاتھوں میں ہاتھ تھمایا “ وہ باقاعدہ چیخ اٹھے
” اب پچھتاوے کا کیا فائدہ جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت؟؟ جس طرح آپ کی ٹنڈ پر اب بال نہیں پک سکتے ویسے ہی گزرا وقت لوٹ نہیں سکتا۔۔ اب رکھتا ہوں سسر جی میری بیوی کے سونے کا وقت ہو چلا ہے اور میرے بغیر اُسے نیند نہیں آتی۔۔“ صارم نے دوسرے طرف سے جواب سننے سے پہلے ہی فون کاٹ دیا۔ انھیں تپا کر اب وہ سکون سے افشین کے پاس جانے کا سوچ رہا تھا۔۔۔
” کیا ہو رہا ہے جانِ من “ لاؤنچ کے صوفہ سے اٹھ کر وہ افشین کے پاس کچن میں چلا آیا جس نے صارم کو دیکھتے ہی بائول کو ڈھک دیا۔۔۔
” ک۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔“ چھپا بھی وہ کس سے رہی تو جو دور سے پوسٹ مارٹم کرتا اب بھی اسکی حرکت سے وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔
” چاکلیٹ کیک میری برتھ ڈے کا “ وہ اسکی لڑکھڑائٹ اور کچن میں رکھی چیزوں سے جان چکا تھا چوکلیٹ, کنڈینس ملک، شوگر جو سامنے پڑیں ہوئیں تھیں۔ عاشی تو اسکے منہ پھٹ انداز پر رو دینے کو تھی جسنے سارا سرپرائز خراب کردیا۔۔
” بات نا کریں پتا بھی چل گیا تو خاموش نہیں رہ
سکتے “ وہ باقاعدہ جیسے رونے والی تھی غصّے سے بائول سے کپڑا ہٹا کر کے ” دیکھ لو “ جسکا بھانڈا پھوڑا وہ کچن سے جانے لگی تھی۔۔۔
” یار اب بچا تھوری ہوں میں یہ سیلیبریٹ نہیں کرتا تمہارے لئے چلو کرلونگا۔۔ “ صارم نے اسکا ہاتھ پکڑ وہیں سے کھنچا اور اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پر رکھی۔۔
” ویسے وہ میں یہ کہنے آیا تم نے کچھ میٹھا نہیں بنایا اسکے علاوہ “ صارم کو اچانک ہی یاد آیا وہ کس کام کے لئے آیا تھا تبھی کچن کی حالت پر ایک نظر ڈالتے ہوے اُسنے پوچھا۔۔
” کیا بناؤں؟؟ “ صارم کی حرکت سے وہ پزل سی ہوکر اُسی جگہ جم گئی۔۔
” ہم۔۔ گلاب جامن “ وہ کچھ سوچ کر بولا
” وہ تو دو منٹ میں بن جائیں گے “ عاشی نے چھٹکی بجا کر پرجوش ہوکر کہا
” اچھا۔۔۔ پھر برفی؟؟؟ اس میں کتنا ٹائم لگنا؟؟ “ صارم نے اب کے اسکا رخ اپنی طرف کر کے پوچھا۔۔
” نہیں اس میں دو تین گھنٹے لگنے “ تھکن سے چُور لہجہ تھا سوچ کر ہی عاشی کو نیند آنے لگی۔۔
” ویری گڈ۔۔۔ “ وہ تو گویا خوش ہوگیا عاشی نے ابرو اچکا کے اسے دیکھا۔۔
” آہاں!!!! میری برتھ ڈے کا تحفہ میری پسندیدہ
برفی “ اسکے گھورنے پر صارم نے تحفہ لفظ کا اضافہ کیا جسے سن کر عاشی کے چہرے کے تااثرات نورمل ہوے۔۔۔
” بناؤگی نا “ اب کے اسنے آس بھرے لہجے میں پوچھا عاشی نے بھی جوش سے کہا۔۔
” ہاں۔۔ اور کسکا فون تھا “ اسے اچانک سے وہ فون کال یاد آگئی اور ٹنڈ سن کر ہنسی بھی آئی تھی۔۔
” ایلیکٹریشن کا “ صارم نے قریب ہوکر اسکی بالوں کی لٹ کو گھمایا۔ اسنے خود ہی کٹنگ ایسی کروائی تھی کے کچھ بال چہرے پر جھولیں جنکو انگلی میں لپیٹنا صارم کا شوق تھا۔۔۔
” کیا کہہ رہا تھا اور اب کیوں فون کیا کل بلا رہے تھے تب نہیں آیا؟؟ “ لہجے میں خفگی سموئے وہ صارم کا بدلتا موڈ دیکھ کر باتوں کا رخ اُسی طرف کر رہی تھی۔۔
” وہی تو ضرورت کے وقت منہ پھیر لیتے ہیں۔۔ خیر اچھی خاصی سنائی ہے اُسے یہ بھی کہا کے اب نئے کنیکشن جُڑ گئے ہیں پرانے کی ضرورت نہیں “ وہ اسکے قریب آکر اسکی پیشانی چوم کر بولا آج بھی وہ ” ہینگر“ والی بات نہیں بھولا تھا نا اُنکی بےاعتباری اسلئے عاشی کو ابھی ان سے دور ہی رکھا تھا۔۔
” سہی کہا نا “ وہ اسکی تائید چاہ رہا تھا افشین نے معصومیت سے سر ہاں میں ہلایا۔۔
” گڈ۔۔ اچھا عاشی میں چلتا ہوں تم نے سارا دھیان برفی پر دینا ہے فضول نہیں سوچنا اور یہ میں نے تمہارا ڈرامہ ڈاون لوڈ کرلیا ہے دیکھ لینا لیکن میرے آنے کے بعد ایک سیکنڈ بھی نہیں دیکھنے دونگا “ لائونچ میں ہی سامنے اوپن کچن تھا وہ اپنی جیکٹ چابی والٹ ریولور اور چھوٹا سا بیگ اٹھاتا اسے ھدایت دیتا جا رہا تھا۔ جبکے اسکی آخری بات پر عاشی نے زبان چڑائی کے نہیں مانے گی کیوں کے اکثر وہ گھر میں تبھی داخل ہوتا جب عاشی کوئی ڈرامہ دیکھ رہی ہوتی اور وہ اینڈنگ کی طرف ہوتا تب وہ اسے صاف اگنور کرتی جس سے صارم چڑ جاتا۔۔۔
” آکر بتاتا ہوں “ اسکے زبان چڑانے پر وہ جلدبازی میں کہکر ہلکی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے اسے دھمکی دیکر بیرونی دروازے سے باہر نکل گیا۔۔۔