میں کزنز سے ملکر الٹا جیسے شرمندہ ہو رہی تھی وہ سنجیدگی سے بیٹھا تھا سب مستی مذاق کرنے میں مصروف تھے کوئی اسے چھیڑتا بھی تو آبی اسکو وہ سناتا کے اگلا بندہ چپ رہ جاتا۔ ناجانے کیوں مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی جیسے کسی پر میں زبردستی مسلط کی گئی ہوں۔۔۔
” اداس کیوں ہو؟؟ “
” تم سب جانتے ہو نا؟؟ “ میں نے سخت نظروں سے اسے گھورا وہ ڈھٹائی سے مسکرایا۔۔۔
” نجومی ہوں کیا؟؟ “ معصومانا انداز تھا میں تپ اٹھی۔۔
” اسکے بارے میں سب بتاؤ میں تنگ ہو رہی ہوں “ وہ میرے بےبسی کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا آج مجھے سچ میں کوفت ہو رہی ہے ایسا سرد لہجہ اجنبی پن کہاں عادی تھی آبی کے ایسے رویہ کی۔۔
” کس کے بارے میں؟؟ “ جان بوجھ کر انجان بن کر وہ میرا ضبط آزما رہا تھا۔۔
” وہی جس سے قسمت پھوٹی ہے “ میں نے کلس کر کہا سامنے سب کزنز ہمیں ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔
” غیبت گناہ ہے توبہ “ اسنے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا میں نے اسکے بازو پر زور سے چٹکی کاٹی لیکن وہ ڈھیٹ بن کر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
میں اُس پر لعنت بھیجتی اپنے کمرے سے نیچے جاتی سیڑھیاں اترتی گارڈن میں آگئی۔ آبی میں کزنز کے ساتھ بیٹھے تھے کے صارم اور افشین ہمارے لئے ناشتہ لے آئے صارم نے آبی سے بات کرنا چاہی لیکن وہ تو سب کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا بس سلام کر کے وہ میرے پاس رکھی کرسی پر آبیٹھا جبکہ افشین وہ ناشتہ امی کے پاس لے گئی تاکہ باقی بنائے ناشتے کے ساتھ ہی رکھیں۔۔
اب وہ صارم کو بھی کوس کر یہاں آگئی۔ جو دماغ میں آیا وہ ڈرا کرنے لگی آبی کا چہرہ جو اس وقت آنکھوں کے آگے گھوم رہا تھا غم و غصّے کی کیفیت میں اسے اس چارٹ پیپر پر پنسل کے ذریعے اتارنے لگی۔ یہ کرتے نجانے کب میری آنکھوں میں آنسوں آگے مجھے اندازہ نا ہوا۔۔۔
” تم واقعی رو رہی ہو؟؟؟ “ نجانے کب وہ آیا تھا؟؟ حیران کن لہجہ تھا اسکا۔۔
” پتا نہیں صارم مجھے اس لڑکی کی لائف نہیں چاہیے مجھ میں بلکل صبر نہیں نا حوصلہ ہے میں تو مار کر آگے نکل جاتی ہوں۔ لیکن یہاں کیا کروں؟ “ میری آنکھوں سے آنسوؤں بہتے چلے گئے عکس دھندھلا گیا لیکن میرا ہاتھ نا رُکا۔۔
” کون لڑکی؟؟ “ اسکی نظریں میرے چہرے سے ہوتے اسکیچ پر گئیں وہ حیران تھا کیوں کے اس چہرے کو ادھورا چھوڑ کر میں نے بڑا سا اے لکھ کر بیچ میں ہارٹ بنا کر بڑا سا آر لکھا مجھے بھی نہیں پتا چلا۔۔ یہ بےاختیاری کیفیت تھی میرا دل جس کے لئے رو رہا تھا وہی چیز میرے ہاتھوں نے اس چارٹ پر نفش کردی۔۔۔ صارم نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے سیڑھیوں پر بٹھایا خود گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میرا چہرہ اونچا کر کے پوچھا۔
اور میں اس عورت کے بارے میں سب بتاتی چلی گئی جس نے کہا تھا ” اگر تم ہوتیں تو؟؟ “ اور یہی وجہ ہے مجھے اب خوف آتا ہے۔۔۔۔ صارم نے ساری بات سن کر ایک سرد آبھری۔۔
” رابی تمہیں پتا ہے یہ دنیا آزمائش ہے، ہمارا اصّل مقصد یہی تو ہے نفس پر قابو پانا لیکن ہم اس دنیا کی خوبصورتی میں اتنا کھو جاتے ہیں کے اپنا اصّل تک بھلا دیتے ہیں اور اس نفس کی چاہ میں کسی کی ہستی تک تباہ کرنے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچتے۔۔۔۔۔۔“ آخری جملے کو ادا کرتے اسکا لہجہ اسکا چہرہ سخت تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔
” اس کے شوہر نے بھی یہی کیا نفس کی چاہ میں ہیرے کو ٹھوکر مار دی لیکن انھیں پتا نہیں اُسکا اثر صرف ایک شخص پر نہیں خاندانوں پر پڑتا ہے آنے والی اولاد پر پڑتا ہے ایسا ہے نا؟؟ “ مجھے دیکھتے اس نے تائید چاہی میں نے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔
” کوئی اس دنیا میں پیرفیکٹ نہیں رابی نا کسی کو محنت کے بغیر تھالی ہاتھوں میں سجی ہوئی ملتی “
اسکی بات کی گہرائی مجھے افشین تک لے گئی۔۔
” صارم افشین بھی بکھری ہوئی تھی؟؟؟ “
میرے پوچھنے پر اسنے اثبات میں سر ہلاتے بتانا شروع کیا۔۔
میں شادی رات جب کمرے میں پہنچا وہ سہمی ہوئی سی اپنے بازو سے ان جلے داغوں کو مٹا رہی تھی۔۔۔
” یہ کیا کر رہی ہو “ افشین جو دلہن کے لباس میں ملبوس بیڈ سائیڈ کورنر پر بیٹھی بُری طرح اپنے بازو پر کوئی کریم مل رہی تھی اس آواز پر چونک اٹھی۔۔۔
” ی۔۔۔ یہ داغ “ اسکی کپکپاتی سہمی آواز اسکا اجڑا حلیہ اسکے سہمے دل کی داستان بیان کر رہا تھا۔ وہ اس وقت مجھے کوئی دماغی مریضہ لگی جسکے آنسوؤں سے پورا میک اپ خراب ہو چکا تھا کاجل آنکھوں سے نکل کر گالوں تک راستہ بنا آیا تھا اور ہونٹ ان آنسوؤں کے پانی سے نم تھے۔۔ وہ اس وقت کسی چڑیل سے کم نہیں لگ رہی تھی جو اسکے حسن کے قصیدے پڑھ رہے تھے آگر اسے اس حالت میں دیکھتے خود کو پیٹتے۔
” یہ کیا لگایا ہے؟؟ “ میں نے اس کے بازوں کو دیکھ کر پوچھا جس پر سفید کریم بھر بھر کے لگائی تھی۔۔
” کری۔۔۔۔کریم۔۔۔ااس سے یہ داغ “ میں نے اسکی کپکپاہٹ نظرانداز کر کے آگے بڑھ کے وہ کریم لی اور اسکے سائیڈ ایفکس پڑھ کے افسوس سے افشین کو دیکھا جس نے اب کے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ اس کریم سے داغ تو کچھ دن میں مٹ جائیں گئے لیکن جلدبازی میں اسکا جو سائیڈ افیکٹ ہوگا وہ؟؟؟
میں نے وہ کریم وہیں سے سامنے کھڑکی سے باہر پھنکی اور روم سے نکل گیا۔ فرسٹ ایڈ باکس ساتھ ایلوویرا جیل لیکر میں کمرے میں آکر اسکے قریب آبیٹھا میرے بیٹھتے ہی وہ تھوڑا پیچھے کھسکی جبکے میں نے بنا ایک نظر اسے دیکھے اسکا بازو تھاما اور کاٹن سے کریم صاف کرنے لگا۔۔۔
” میرا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے۔۔ “ دھچکا ہی تو لگا تھا سن کر لیکن میں نے چہرے کے تاثرات نارمل رکھے مجھے اسکی دلی کیفیت بھی سمجھنی تھی۔ شادی رات کوئی دلہن خود کو ابنارمل ظاہر نہیں کرتی نا صفائی دیکر خود کو نقصان میں ڈالتی۔۔۔
” میں نے پوچھا؟؟ “ کریم صاف کرتے الٹا میں نے ٹوکا۔۔
” میں نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا “ اسکی آواز میں نمی گھلنے لگی جو اِسکے اندر کی وحشت کا چیخ چیخ کر اظہار کر رہی تھی۔۔
” جانتا ہوں “ اب بھی میرا انداز لہجہ ویسا ہی تھا پُر سکون۔۔
”میں بدکردار نہیں میں قسم۔۔ “ وہ رو دینے کو تھی۔۔
” یقین کرتا ہوں “ سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے سہارا دوں؟؟ کبھی ایسے رشتے کی نزاکت کو محسوس ہی نہیں کیا وہ تھی ایک کے بعد ایک عجیب صفائیاں پیش کر رہی تھی جسکی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
” میں سچ کہہ رہی ہوں مجھے نہیں پتا ان دنوں میرے ساتھ “ وہ اب میرے کندھے پر سر رکھے سسک پڑی۔ میں نے اسکی کمر میں بازو حمائل کر کے اسے خود سے قریب کرکے سینے میں بھینچ لیا۔۔
” لفظ لفظ پر یقین ہے۔۔۔ پھر خوف کس چیز کا؟؟ کیا میرا اعتبار کافی نہیں؟؟ “ میں نے دوسرے ہاتھ سے اسکی کمر سہلای۔ وہ باقاعدہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔
” آپ نے مجبوراً شادی کی ہے “ سینے پر سر رکھے اسنے وہیں سے میرا قصور گنوایا وہ پوچھ نہیں رہی تھی غصّے کا اظہار کر رہی تھی کے یہ احسان کیوں کیا؟؟؟ ۔۔۔
” کی ہوتی تو درزی سے راتوں رات یہ ساٹھ ہزار کا کُرتا سلواتا؟؟؟ مجبور ہوتا تو کمرے کی یہ شاندار ڈیکوریشن کراتا؟؟ مجبور ہوتا تو ہنی مون ٹکٹس بُک کرواتا؟؟؟؟ “
میں صفائی نہیں دے رہا تھا بلکے اس سے جواب مانگ رہا تھا جو اب میرے کُرتے کے بٹنز کو چھیڑ رہی تھی اُسکا رونا اب بند ہوچکا تھا۔۔۔
” یہ اتنا مہنگا کُرتا ہے؟؟ “ وہ میرے سینے پر ہاتھ پھیرتی اس کُرتے کو پرکھ رہی تھی اور میں شکر کر رہا تھا کے اسکی سوچوں کو دوسرا راستہ ملا۔۔۔
” بلکل شک ہے تو بل دکھائوں؟؟ “ میں نے اپنی بات پر زور دیا۔۔ اور سینے پر دھرا ہاتھ جو مجھے بےچین کر رہا تھا اسے تھام کر ہونٹوں سے لگانا چاہا کہ وہ اعتبار کی بات زبان سے کر کے عمل سے مکر گئی اور جھٹکے سے ہاتھ چھڑوا کر پیچھے ہوئی۔۔۔
” نہیں مجھے آپ پر ٹرسٹ ہے۔۔ “
وہ شاید اپنی جلد بازی پر خود شرمندہ تھی تبھی ہاتھوں کو آپس میں مسلنے لگی۔ مجھے اسکی حرکت بےحد بُری لگی جسکا اظہار میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر کیا جسے جھجک کر اُسنے تھاما۔۔
” بلکل تم اعتبار کرتی ہو “ مہندی سے سجے ہاتھ کی پشت پر میں نے اپنے ہونٹ رکھ کے اعتراف کیا وہ خود میں سمٹ کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔
” پلیز یہ میک اپ اتارو کچھ دیر اسی طرح رہا تو خوف سے میرا دل جواب دے جائے گا “ میں نے اسکے چہرے کو تکتے کہا جو میک اپ میں بےحد خوفناک لگ رہا تھا۔۔۔
میرا ارادہ بس پل پل اسے اپنے دل کی کیفیت سے نکالنا تھا جسکا سن کر وہ عجیب باتیں کر رہی تھی۔ جبکے میری اس بات پر وہ خفگی سے مجھے دیکھنے لگی میں نے اپنی امڈتی مسکراہٹ بامشکل قابو کی۔۔
” پتا نہیں سوٹ کیس کہاں ہے۔۔۔ “ روٹھا روٹھا سا انداز تھا اُسکا۔ میں نے اٹھ کر الماری کے اوپر سے اُسکا بڑا سا سوٹ کیس نکالا اور اُس میں سے کوئی ہلکا پھلکا سوٹ نکالا ساتھ اُسکا ایک باکس بھی دیکھا جس میں ضرورت کی ساری چیزیں تھیں پرفیوم میک اپ ایسے ایسے پروڈکٹز جنکا کام تک مجھے نہیں پتا لیکن تھا سارا میک اپ کا سامان۔ میں نے اس میں سے فیس واش نکال کر کپڑوں کے ساتھ اِسکے ہاتھوں میں تھمایا۔ جبکے میرے اس عمل پر بُت بنی وہ مجھے تکتی رہی۔۔۔
” ایسے مت گھورو خوش فہم ہو جاؤنگا “
سنجیدگی سے کہتے میں نے شرارت سے اسے آنکھ ماری اور وہ تو جیسے نیند سے بیدار ہوئی جھٹکا کھا کر منہ کھولے مجھے دیکھا پھر فوراً واشروم کی طرف بھاگی۔شرمندگی سے سر جھکائے اسنے دوڑ لگائی اسکے جاتے ہی میرا قہقہ پورے کمرے میں گونجا۔۔ میں نے وہ سوٹ کیس اوپر رکھا ایک کال کی اور وہیں اپنی اس شیروانی سے چھٹکارا پایا۔۔۔۔
وہ واپس آئ تو میرا حلیہ دیکھ کر پھر گھورنے لگی جائزہ لینے کے بعد جب میری نظروں سے اسکی نظریں ملیں تو فوراً سٹپٹا کر میرے پہلو سے نکل کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔
میں اسکی اس حرکت پر بھی مسکراتا بےاختیار ہی اس پر غور کرنے لگا سرخ و سفید رنگت تیکھے نین نفش واقعی کوئی اس پر ایک نظر ڈالے تو نظریں ہٹانا بھول جائے گا۔ لیکن مجھے اسکا حسن مومی کی یاد دلا گیا میں نے ہمیشہ انکو ساتھ دیکھا ہے لیکن کبھی مومی سے ہٹ کر میری نظروں یا اس دل نے افشین کی چاہ نہیں کی۔۔
” آپ باہر کیوں گئے؟؟ یہیں ویٹ کر لیتے میں جلدی آ تو گئی ڈریسنگ روم میں ہی چینج کر لیتے۔۔ “ میری نظروں سے گھبرا کر اسنے بات شروع کی میں نے فوراً اس سے نظریں پھیر لی کیا بےاختیاری کیفیت ہے؟؟ سوچ کچھ اور رہا تھا سمجھ وہ کچھ اور گی؟؟ رابی اور میری گھورنے کی عادت کسی دن ہمارا ہی نقصان کروائے گی۔۔۔۔۔
” یہیں چینج کیے۔۔ “ جواب دیکر میں نے ایک نظر فون پر ڈالی جہاں اب کال آرہی تھی۔۔
” آ۔۔۔ آپ انتظار کرلیتے۔۔ “ اس نے کہا۔
” وقت کی قدر کرتا ہوں وقت کسی کے لئے رُکتا نہیں “
میں نے جواب دیکر بالکنی کا رخ کیا۔ پھر کچھ سوچ کر رُک گیا۔۔
” سنو یہاں آؤ “ افشین جو اب اپنی جلے بازو کو دیکھ رہی تھی میری پُکار پر اٹھ کھری ہوئی۔۔
” جی۔۔ “ وہ مجھے ایسے حیرانگی سے دیکھ رہی تھی جیسے میں نے اس سے مُرغا زبح کروانا ہے۔۔
” یہاں بالکنی میں کھڑی رہو ایک شوپر رسی سے باندھ کر اشارہ کرونگا اُسے اپنی طرف کھنچنا “ میں نے اسکے جی کی تفصیل دی۔۔
” جی “ وہ معصومیت سے سر اثبات میں ہلا گئی شکر سوال جواب نہیں کیے۔۔۔
” اور اب چلانا نہیں میں کود رہا ہوں “ اسے حکم دیتے ہی میں نے نیچے چھلانگ ماری ابھی وہ ناسمجھی کی کیفیت میں تھی میرا اگلا جملہ سمجھ بھی نا پائی تھی کے میں کودا اور وہ وہیں سے چیخنے ہی والی تھی کے نیچے پہنچ کر اسکے چیخنے سے پہلے میں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی تو بےاختیار اسنے اپنے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھا۔۔ میں نے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا اور اسنے مجھے زندہ دیکھ کر سکون بھرا سانس خارج کیا پھر میں پیچھے سےباہر کے گیٹ کی طرف گیا جہاں ڈیلیوری بوائے پیزا لیکر کھڑا تھا۔۔۔
اسے پیسے دیکر پیزا لیا اور اپنے روم کی بالکنی سے لٹکتی رسی کو شوپر سے باندھا میرے ہلانے پر افشین نے رسی اوپر کھنچی پھر اسی لٹکتی رسی سے میں خود اوپر چڑ کے آگیا۔ پیزا اور کوک نکال کر میں نے اسے کھانے کا کہا جب جب وہ رُکی میں نے ٹوکا اور خود سے اسے کھلانے لگا مجھے یقین تھا اس نے رات کیا دن کا کھانا بھی نہیں کھایا ہوگا اور پیٹ کے بغیر دماغ کہاں چلتا ہے؟؟ مجھے اس سے سب اُگلوانا تھا آخر اس سب کے بعد اسکے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے جو وہ اپنا اعتماد کھو چکی ہے؟؟
پیزا کھانے کے بعد میں اسکے بےحد قریب آن بیٹھا وہ چونکی ضرور تھی لیکن میں نے عمل جاری رکھا اسکی بازو کی سیلیوز اوپر کیں۔ وہ میری ان حرکتوں سے جھجکنے کے ساتھ حیران بھی ہو رہی تھی۔ میں اسکی نظریں خود پر محسوس کرتے بھی بس اپنے کام میں مگن رہا۔ایلویرا جیل بہت نرمی سے اسکے بازو پر لگاتے کیا کچھ نا یاد آگیا۔ میں لڑکا ہوکر یکترفہ محبت نا بھلا پایا تو وہ کیسے سات سال کے رشتے کو آسانی سے بھول سکتی ہے؟؟؟
” میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں جو دل میں ہے کہہ دو مجھے ۔۔۔۔تمہاری کسی بات کا میں بُرا نہیں مانونگا “
اسکے بازو پر جیل لگاتے نرمی سے کہا تبھی مجھے اپنے بازو پر نمی سی محسوس ہوئی میں نے چہرہ اوپر کیا تو وہ رو رہی تھی۔۔
” درد ہو رہا ہے؟؟ “ میں یہی سمجھا تھا۔۔۔
” اب نہیں ہوتا۔۔ “ کرب سے کہتے اسنے آنکھیں میچ لیں میرے کہنے سے پہلے اسکے اگلے لفظوں نے مجھے تیش دلایا۔۔
” موحد کہتا ہے میری غلطی کی سزا مجھے ملی ہے “
” وہ تو خود ہی ایک غلطی ہے جسکی سزا یہ لمبی زندگی ہے بن من چاہے ہمسفر کے “ میں نے غصّے سے کہا اسکا ذکر مجھے سخت ناگوار گزرا اور ناچاہتے ہوے بھی میرا لہجہ سخت تھا۔۔
” آئ۔۔۔آئی۔۔ ایم۔۔۔س۔۔۔سوری میرے منہ سے نکل گیا۔۔ “
وہ اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کرتی پیچھے ہو رہی تھی اسکی آنکھوں اور لہجے سے جھلکتے خوف نے مجھے
احساس دلایا وہ اس لہجے کی عادی نہیں۔۔
” آئی ایم سوری ڈرو نہیں ریلیکس۔۔ عاشی“ میں نے اسکی پیٹھ سہلاتے محبت بھرے لہجے میں کہا تبھی اسکی چیخ نکلی۔۔۔
” کیا ہوا؟؟؟ “ میں گھبرا ہی تو گیا تھا اسکی چیخ سن کر پھر میری چھٹی حس نے مجھے الارم دیا میں نے اسکا دوسرا بازو اوپر کیا تو پورا سرخ ہو رہا تھا اور وہی لمحہ تھا جب میری آنکھوں نے ان سرخ آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا ” کس نے کیا یہ؟؟ “ اسکی آنکھوں سے آبشار بہہ نکلا وہ باقائدہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔
میں نے اسکے ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹا کر اپنے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ تھاما اور اسکی پوری پیشانی کو اپنے ہونٹوں کے لمس سے آہستہ آہستہ نوازنے لگا احساس دلانے لگا وہ اس دنیا میں تنہا نہیں نا رشتوں سے عاری ہے۔۔۔
” پل۔۔۔پلیز۔۔ “ اسکی رندھی آواز کی پروا بھی نہ کی
”پورے زندگی اسی طرح گزاردونگا اگر تمہارے منہ سے نکلے اگلے الفاظ میرا جواب نہیں ہوے تو “ میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے بےخودی کے عالَم میں کہا اور اسی لمس کا ہتھیار تھا کے وہ اپنے اوپر ہوے ظلم کا لفظ لفظ میرے کانوں میں کسی زہر کی طرح گول گئی۔۔۔
” وہ کہتا ہے میں نے اُسے دھوکہ دیا۔۔۔ اُس نے بدکردار تک کہا مجھے۔۔ کہا میرا کسی کے ساتھ افیر۔۔۔۔ اور اسی لئے کسی نے میرا چہرہ جلانا چاہا۔۔ یہاں تک کے ڈیڈ بھی۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بھی اُسکا یقین کرلیا۔۔۔ مجھے سب نے ملکر اپنے خاندان کی عزت بچانے کے لئے توڑا، زخمی کردیا۔۔ میں نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی امی نے بند کمرے میں مجھے ہیںنگر سے مارا اتنا مارا ک۔۔۔۔۔۔۔۔“ بلکتی، سسکتی وہ کسی بچے کی طرح ہاتھوں سے آنسوؤں صاف کرتے نڈھال ہو رہی تھی۔۔
” او۔۔۔۔اور۔۔۔ ت۔۔۔تب۔۔۔۔۔تک مارا۔۔۔۔ ج۔۔۔جب تک مانی نہیں وہ بس مارتی گئیں انھیں ڈیڈ نے دھمکی دی تھی اگر نا مانی۔۔۔ت۔۔۔تو۔۔۔د۔۔۔۔۔د۔۔دونوں کو گھر سے نکال۔۔۔۔۔ “ ہچکیوں کے درمیان بولتی وہ میرے سینے میں آگ لگا گئی اسی پل سوچا تھا کبھی اُسے اس گھر کی دہلیز بھی پھلانگنے نہیں دونگا میری عزت کوئی کھلونا نہیں جس پر انہوں نے ہاتھ اٹھایا۔۔
” کمزور انسان دھمکی دینے کے علاوہ کر کیا سکتے ہیں؟؟ عاشی ۔۔۔ “ میں نے دانت پیستے کہا اس وقت ایک آگ جل رہی تھی میرے سینے میں جسے فرج سے ٹھنڈا پانی پی کر بھی نا بجھا سکا۔۔۔
وہ رات تھی جب میں نے اُسے اپنا اعتبار سونپا ایک پل کو اُسکے ذہن میں موحد یا اُسکے ماں باپ کی سوچ آنے نہیں دی۔وہ اُس رات اپنے سارے دُکھ سونپ کر میرے کندھے پر سر رکھے سو گئی پوری رات اسکے بال سہلاتے ایک پل کو مجھے نیند نہیں آئی وجہ وہ نفرت تھی جسے میں سوچ رہا تھا وہ انتہا جس نے مومی سے ایک لڑکی کی زندگی تباہ کروا دی۔۔۔
صبح میرے اٹھنے سے پہلے وہ اٹھ گئی میرے کندھے سے اپنا سر اٹھایا تو اس کوشش میں میری آنکھ کھل گئی۔۔
” عاشی۔۔۔ “ میں نے اسے محبت سے پکارا میری سرخ آنکھیں رات جگے کا اعلان کر رہیں تھیں جب کے وہ فریش تھی۔ میرے عاشی پکارنے پر وہ ناسمجھی سے مجھے دیکھنے لگی۔۔۔
” مجھے یہی نام اچھا لگتا ہے۔۔ تم میرے نام سے میری زندگی سے جُڑ چکی ہو۔۔ میرا خدا جانتا ہے ایک پل کو بھی میں نے تم پر شک نہیں کیا۔۔ بس میں چاہتا ہوں یہ انمول آنسو تم بےمول لوگوں کے لئے نا بہائو۔۔ “ میں نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھامے کہا جسکی آنکھیں ہلکی سے نم ہوگئیں۔۔
” مجھ پر اعتبار کر کے دیکھو تمہاری طرف اٹھنے والے لفظ انہی کے منہ پر مارونگا۔ ان گندی نظروں سے انھیں ہی نچوڑونگا۔۔“ محبت سے میں نے اسکی پیشانی چومی۔ میں نے ہنی مون کا نہیں سوچا تھا لیکن اُس دن کے بعد میں نے اپنی عاشی کو اپنے رنگوں میں ڈھال دیا۔ ایک پل کو میں نے اُسے اُس کے ماں باپ کے بارے میں سوچنے نہیں دیا ان دنوں سائے کی طرح اُسکے ساتھ رہا اُس سے سوال کرتا کبھی اُسے کچھ کھلاتا کبھی کچھ اور یہ میں اُسکے سوال اور جھنجھلاہٹ سے بچنے کے لئے کرتا اُسے بولنے کا موقع نہیں دیتا کے ” کتنا بولتے ہیں آپ؟ “ ہنی مون پر بھی اُسے لے گیا وہاں بھی اُسکے جسم کی روح بن کر ساتھ رہا اُسے دنیا کے مناظر میں بھلا کر میں نے اُس ” ڈپریشن “ کو موقع ہی نا دیا کے وہ اُسکے دماغ کے ساتھ کھیلے اگر میں اُسے اُسکے حال پر چھوڑ دیتا نا رابی تو اب تک کھو چکا ہوتا۔ آج میں اُسے تنگ کر رہا ہوں کل ہمارا بچہ ہوگا اور وہ کبھی ان منزلوں کو نا سوچے گی نا روئے گی جو اُسکی قسمت میں نہیں تھیں۔۔۔“
” سمجھیں کبھی کبھی انسان کو کھل کر پہل کرنی چاہیے آج یہ کوشش تم کرو کل دیکھنا وہ خود تمہارے پاس آئے گا بس اُسے اسکے حال پر چھوڑنا نہیں کبھی کبھی اِس انا کو رشتوں سے دور رکھ کے دیکھو حسین زندگی تمہارا مقدر بنے گی۔۔ “
صارم کی باتوں کا ہی اثر تھا جو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے آبی کے لئے چائے بنائی جس نے پینے سے صاف انکار کردیا میں نے بھی زور نہیں دیا ویسے بھی اُس دن مجھے بوس کو میل کرنی تھی سر الگ دکھ رہا تھا اسلئے بڑے سے مگ میں چائے نکال کر پی۔ لیکن اس آبی کے بچے کو ہضم کہاں ہونا تھا بھیج دیا پانی لانے ساتھ حکم دیا میرے سامنے چائے نا پیو۔۔۔ کوئی موقع ہاتھ آنے دو چائے کی بالٹی میں تمہیں ہی نہلائونگی دل کو تسلی دیکر میں جان بوجھ کر پانی کا گلاس دیر سے لائی اور میرے دل کو سکون تب ملا جب وہ میرے کمرے سے دفع ہوا سکون ہی سکون میری روح میں جو بیوی کی قدر نہیں کرتا اسی طرح بے چین ہوکر در بدر ہوتا ہے۔۔۔۔