آج مہندی کی رات تھی دن میں ہی امی نے پارلر والی کو بلا کر میرے ہاتھوں میں مہندی لگوائی اور آج صارم کو آنا تھا کیوں کے دو دن سے اسے کوئی فلائٹ نہیں مل رہی تھی وہ خود وہاں پریشان تھا بابا سب کیسے سنبھالیں گئے؟؟ اور یہ بات مجھے امی نے ہی بتائی وہ بار بار اُن سے فون کر کے پوچھتا اور کافی ارینجمنٹس والوں سے اُس نے وہیں سے کال کر کے بابا سے بات کروائی میں اسی کے انتظار میں بیٹھی آج آبنوس کے پورے اکاؤنٹ کا چھاپا مار کر آئی تھی جہاں سے مجھے خاص کچھ نہیں ملا۔۔
میں ریلنگ کے پاس کھڑی نیچے کا منظر دیکھ رہی تھیں جہاں لڑکیاں ڈھولک بجا رہیں تھیں تبھی کسی نے آکر میرے دونوں بازو تھامے ایک پل کو تو مہندی خراب ہونے کی سوچ نے ہی مجھے کپکپا دیا لیکن سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر میری جان میں جان آئی وہ صارم تھا جو مہندی کو غور سے دیکھتا شاید کچھ تلاش کر رہا تھا۔۔۔
” دل چاہتا ہے تمہیں شوٹ کردوں لیکن پھر تمھاری بیوی کا خیال آتا جس بیچاری کی قسمت تمہارے ساتھ پھوٹی ہے ۔۔ “ میں نے دانت پیستے کہا کیوں کے ہاتھ چلا نہیں سکتی ورنہ ابھی اِسکا سر پھوڑتی۔۔۔۔
” اور میری آباد “ وہ میرا بازو چھوڑ کے تھوڑا پیچھے ہٹا۔ اسکا چہرہ بہت کچھ عیاں کر رہا تھا جیسے وہ اس شادی سے خوش ہے بلکے بےحد خوش۔۔۔۔
” ناراضگی ابھی تک ہے؟؟؟ “ صارم نے ابرو اچکا کے پوچھا۔۔
” تمہیں کون سی پروا ہے؟؟ میں نے بےزاری سے کہتے نظریں نیچے ڈھولک بجاتی لڑکیوں پر گاڑھ دیں۔ مجھے یقین تھا اب بھی آگر خود سے پوچھا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کے وہ کچھ بتائے گا۔۔
” رابی تمہارے بعد وہ پہلی لڑکی تھی جو مجھے خاص لگی۔۔ بہت خاص پتا ہے کیوں؟؟ کیوں کے وہ ایک پہیلی ہے تمہاری بنائے گئے اسکیچز کی طرح۔۔ بارہ سال کی عمر تک سب ٹھیک تھا پھر اچانک ہی وہ ہم سب کزنز سے دور رہنے لگی خود کو گھر کے کاموں میں الُجھا لیا اکثر جب چچا کے یہاں جاتا وہ مجھے کسی نا کسی کام میں مصروف ملتی لیکن اُسکا ذہن کہیں اور ہوتا میں اُسے پڑھنا چاہتا تھا اُسکے ذہن میں مچی ہلچل کو جاننا چاہتا تھا لیکن اُسنے خود کو ایک پہیلی بنا دیا جو سب پر عیاں ہوکر بھی سُلجھتی نہیں۔۔ میری دلچسپی اُس میں مزید بڑھتی گئی اور اسے پڑھ کے میں خود کھو گیا۔ اِس پہیلی کو سُلجھاتے سُلجھاتے خود اُلجھ گیا جب واپس آنا چاہا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔۔۔۔۔ “ وہ آج اپنے دل کا حال عیاں کر گیا کے کس طرح محبّت کی زنجیروں میں اس سخت بندھن میں صارم نے خود کو خود ہی باندھ دیا۔ جبکے دوسرا وجود اُس سے یکسر بےنیاز تھا۔۔۔
” تمہیں کیسے پتا چلا اُس نے ایسڈ اٹیک کروایا اور تب روکا کیوں نہیں “ میں نے دل میں امڈتا سوال پوچھا۔۔
” میں نے اُسے پڑھنے کے لیے ایک عرصے سے اُسکا فون ٹیب کیا تھا وہ کسی سے بات نہیں کرتی۔ ہوئی بھی تو مہینے میں کوئی ایک کال۔۔ لیکن اُس دن لگاتار اُس نے اپنی دوست کو فون کیا جس نے اپنے کسی بوائے فرنڈ کے ذریعے وہ اٹیک کروایا اور یہ بات مجھے اِس ایکسیڈنٹ سے آدھا گھنٹہ پہلے پتا لگی۔۔۔ “ صارم نے دانت بھینچے اُسے خود پر غصّہ تھا اُس دن وہ ایک آفیسر سے ملنے گیا تھا جب واپس آیا تب وہ ریکارڈنگ سن کر جو اسنے دوڑ لگائی تھی بھولے سے بھی نہیں بھولتی۔۔۔۔
” میں جب تک پہنچتا افشین زمین پر پڑی بُری طرح چیخ رہی تھی اور آس پاس لوگ اُسکی ویڈیو بنا رہے تھے۔۔۔۔۔۔“ اُسنے اپنے بال مٹھی میں جکڑے جو اسکے غصّے اور ناپسندیدگی کو صاف واضع کر رہا تھا۔۔
” تمہیں یقین نہیں آئے گا رابی لیکن یہ سچ ہے اُس دن مومی سے مجھے شدید نفرت محسوس ہوئی اور افشین اُسکی چیخیں اُسکا بلکنا میرا دل ہلا گیا اسی وقت میں نے سوچا تھا چاہے کتنا بڑا ہی نقصان کیوں نا ہو ادا میں کرونگا۔۔۔ بس مجھے خود نہیں پتا اُس دن اوپریشن تھیٹر کے باہر مجھے کیا ہوا لیکن میری لبوں سے ہر دعا بس اُسکے لئے نکلی۔۔۔ بس پھر ڈیڈ نے بھی مجھے مجبور کیا کے اُس سے نکاح کرو میں تو پہلے سے ہی راضی تھا۔۔۔۔ اور رابی ہمارے یہاں خاندان سے باہر شادی نہیں کی
جاتی۔۔۔ “ وہ تفصیل بتا کر اب میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو اب ناراضگی ختم؟؟؟
” تمہیں کیسے پتا لگا وہ حسد کی آگ میں جل رہی “ میرا موڈ ابھی بھی ویسا ہی تھا لہجے کو بھی سنجیدہ رکھا۔۔۔
” ایک وہ لمحہ جب ہم چاروں اسٹیج پر فوٹو سیسیشن کے لئے کھڑے تھے۔۔۔۔“ وہ کہتے ہی خود مسکرایا میں جہاں تک سمجھی تھی یہی تھا کے شاید وہ افشین کو برائیڈل ڈریس میں تصور کر رہا تھا۔۔ پھر یکدم ہی اسکا چہرے کے تااثرات سخت ہوگے۔۔۔۔
” موحد کی نظریں بار بار افشین پر اٹھ رہیں تھیں تب مومی بھی اپنے ہاتھ کو دیکھتے افشین کے چہرے کو لگاتار دیکھ رہی تھی کے ایسا کیا ہے اس سفید حسن میں جو اس سانولے حسن میں نہیں؟؟؟۔۔۔میں اُسکے دل کا سوال دور سے بھی سن چکا تھا آخر اُس بیوی کی حالت کیا ہوگی؟؟ جسکا شوہر نکاح کے پاک بندھن میں بندھنے کے بعد بھی میری بیوی پر نظریں۔۔۔۔ “ صارم نے مٹھی بھینچ لی بھلے پسند کی شادی نہیں لیکن تھی تو وہ اسکی بیوی، اسکی عزت وہ بھی کیسے برداشت کرتا کسی اور کی نظریں اپنی بیوی پر۔۔۔
” وہ رو رہی تھی بہت گیلٹی ہے “ بلاآخر اُسے آگاہ کردیا اور میری بات سن کر وہ آنکھیں سکوڑ کے مجھے گھورنے لگا جیسے پوچھ رہا ہو پھر مجھ سے تفصیل کیوں بلوائی؟؟؟ پھر ایک گہرا سانس خارج کرتے آس پاس نظریں دوڑائیں شاید وہ خود کو ریلیکس کر رہا تھا۔۔۔
” تو گیلٹ سے نکالو اُسے ورنہ ان اندھریوں سے کبھی واپس نہیں آئے گی اسے بولو معافی مانگ لے۔۔ “ اب بھی کہیں نا کہیں صارم کو اُسکی پروا تھی۔۔۔
” اُسے سزا کیوں نہیں دیتے؟؟ تم تو اصولوں کے پکے
ہو۔۔ “ میرا اُسے تنگ کرنے کا ارادہ نہیں تھا بس جاننا چاہ رہی تھی کیا اُسکے اپنے بھی اگر گناہ کریں تو وہ اپنے اصولوں پر برقرار رہے گا؟؟؟
” میں نے جو سزا اُسکے مقدر کی ہے وہ جیل کی سلاخوں سے زیادہ خوفناک اور مضبوط ہے “ وہ سچ کہہ رہا تھا بلکل سچ وہ اسے جس سزا سے نواز چکا ہے ساری زندگی شاید افشین اسے معاف کردے لیکن وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر پائے گی کیوں کے اُس نے محبت جیسے انمول خزانے کو ٹھوکر ماری وہ بھی وہ محبت جسے کیسے شیشے کی طرح دنیا سے محفوظ رکھا تھا ایک بدنامی کی کھروچ بھی صارم نے مومی پر آنے نہیں دی۔ میں صارم کو دیکھتے سوچ رہی تھی جو نجانے کہاں دیکھ رہا تھا میرا دماغ مومی کی طرف تھا لیکن یہ کیا صارم یکدم مسکرایا اسکی آنکھیں بھی نجانے کسے بےخودی کے عالَم میں دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔
” جوس “ میرا ذہن اس آواز کی طرف متوجہ ہوا تھوڑا پیچھے ہٹ کر دیکھا تو صارم کی بیوی افشین دو گلاس جوس کے ٹرے میں لئے کھڑی تھی اب سمجھ آیا ایک ہفتے میں ہی دل ہار گیا ایسے گھور رہا ہے جسے نگل ہی ڈالے گا۔۔ پر حیرت ہے افشین وہ آتے ہی کچن میں گھس گئی خالہ تو کل سے ہی امی کا ہاتھ بٹا رہیں تھیں پر افشین؟؟ مجھے تھوڑا عجیب لگا ابھی تو اسکی شادی ہوئی تھی۔۔
وہ ٹرے ہاتھ میں لئے کھڑی تھی صارم نے ہی اس سے ٹرے لی اور وہ تو جیسے اسی کی منتظر تھی ٹرے دیکر فوراً سے الٹے پیر بھاگتی تیزی سے واپس کچن میں گم ہوگئی میں اسے ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پائی تھی کے وہ آندھی کی طرح آئی اور طوفان کی طرح چلی گئی۔۔
” یہ اتنا ڈر کیوں رہی ہے “ میں نے اسکی حرکت دیکھ کر حیرانگی سے صارم سے پوچھا۔۔۔
” پہلی شادی ہے نا “ وہ تو جیسے اسے دیکھ کر مذاق کے موڈ میں آچکا تھا۔ میں نے ایک سخت گھوری سے نوازا تو ہنستے ہوے اسنے بولنا شروع کیا۔۔
” میں نے پورے ہنی مون کے دوران کوئی پانچ سو دفع تمہارا نام لیا ہے تب سے سمجھ رہی ہے تمہیں امپریس کر کے میرا دل جیتے گی حالانکہ کافی دفعہ سمجھا چکا ہوں میں گزرے کل کو نا دیکھتا ہوں نا سوچتا ہوں بس آج میں جیتا ہوں کل کے انتظار میں رہتا ہوں “
” مطلب؟؟ “ اسکی بات واقعی میرے پلے نہیں پڑی۔۔۔
” وہ موحد کی فیملی اُسکے ننیال ایون ہر کسی سے اٹیچ ہے لیکن میرے کسی رشتے سے خاص واقف تک نہیں ایون یہاں آنے سے بھی ڈر رہی تھی اور اسے لگتا ہے میں نے مجبوری میں شادی کی ہے بہت سمجھایا بہت رابی لیکن انسان تب تک نہیں سمجھتا جب تک خود سمجھنا نا چاہے۔۔ یہ جوس بھی میں نے نہیں بولا وہ خود لائی ہے ہاں کچن میں ہلپ کے لیے میں نے عرض کیا تھا۔۔۔ “ وہ جوس پیتے بول رہا تھا نظریں کچن پر مرکوز تھیں جہاں افشین خالہ کے ساتھ کام کروا رہی تھی۔۔۔
” میرا فون کبھی ٹیب کیا ہے؟؟ “ اسکا دھیان ہٹانے کو میں نے ایسے ہی پوچھا مجھے یقین تھا ایسی حرکت کم سے کم وہ میرے ساتھ نہیں کر سکتا۔۔
” دو مہینے پہلے ٹیب سے ہٹایا تھا “ بدتمیز نے سر کھجاتے ہوئے کہا ساتھ ہی اپنا جوس ختم کر کے دوسرا بھرا گلاس میرے ہونٹوں کے قریب لے آیا۔ ایک تو خود پی نہیں سکتی دوسرا اسکی دلی کیفیت سمجھتی تھی اسے ڈر ہوگا کہیں بیوی کے سامنے عزت کر کے یہ جوس ہی نا اسکے منہ پر دے ماروں۔۔
” پہلی فرصت میں دفع ہو “ میں نے باقاعدہ تیز لہجے میں کہا وہ ہنستا چلا گیا۔....
” جوس پیو ورنہ جو شوہر کا نام ان مہندی لگے ہاتھوں میں چھپا ہے نا اس پر الٹ دونگا سوچ لو مرضی تمہاری عمل میرا “ میں نے خون خوار نظروں سے اسے گھورا جبکے وہ پیار سے جوس پلا رہا تھا پہلی دفع تھا کے میں بےبس تھی چپ چاپ چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر رہی تھی۔۔
” آج کل تمہارے شوہر کی جاسوسی کر رہا ہوں “ اسکی بات سن کر بامشکل جوس گلے میں اتارا جو منہ سے نکل رہا تھا جبکے وہ کمینگی سے مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
*صارم اب اُسے کیسے بتاتا سکندر نے آبنوس کا بےزار انداز ان دنوں نوٹ کر کے ہی صارم سے ریکویسٹ کی تھی اور صارم نے جو سنا تھا اسے آبنوس پر حیرت غصّے سے زیادہ ترس آیا جو خود تو سانولے پن کا مطلب بھی نہیں جانتا تھا بس دوست اور لوگوں کی باتوں جنہیں وہ اپنا دکھ بتاتا اور وہ سمجھانے کے بجاۓ مزید اسکے دل میں بدگمانی کا زہر ڈال رہے تھے۔ ایک فون کال صارم نے سنی تھی جو آبنوس نے اپنی نانی کو کی تھی کے آکر امی ابو کو سمجھائیں کے ایسی سانولی لڑکی سے اُسکی شادی نا کریں جب انہوں نے اسے ڈانٹا کے اللہ کی بنائی تخلیق میں نقص نکال رہے ہو تو آبنوس نے مزید ان سے کہا کے جیل جا چکی ہے اور اپنی طرف سے دو تین باتیں کیں جنہیں سن کر صارم کا وہیں دل چاہا اسکی پٹائی کروائے اور رابی کو ریکارڈنگ سنا کر شیرنی کو اسکے پیچھے لگا دے لیکن بس بُرا حال تب ہوا جب یہی سب باتیں اس نے سکندر بابا کو بھی بتائیں پھر بس انہوں نے جو اس سے التجا کی اُس سے صارم ناچاہتے ہوے بھی زہر کے گھونٹ پی کر رہ گیا آخر وہ بھی انہیں باپ ہی مانتا تھا کافی جگہ انہوں نے اسے گائیڈ کیا تھا اور رابی کی دیکھا دیکھی وہ بھی انھیں بابا بلاتا ہے ساتھ بیٹے کے فرض بھی پورے کرتا انکی مدد کرکے۔۔ لیکن ایک بات اسنے سکندر کی نہیں مانی اور وہ مان بھی نہیں سکتا وہ چاہتا تھا رابی جب وہاں جائے خود کو ہر طریقے سے پریپیر کر کے جائے ٹوٹ کر رہنا ہے تو یہاں سے سنبھل کر نکلے بس اسی وجہ سے آج وہ اس کے دماغ میں کچھ باتیں بٹھانا چاہتا ہے۔۔۔۔
” نہایت گھٹیا حرکت ہے “ میں نے دانت پیستے کہا۔۔
” کتابی کیڑا ہے لیکن عقل سے پیدل “ صارم کو جیسے کوئی فرق ہی نا پڑا لیکن ” عقل سے پیدل “ سن کر مجھے بہت عجیب لگا اسکی بات کبھی غلط نہیں نکلتی کسی کے پیچھے لگ جائے تو اگلا پچھلا سارا ریکارڈ نکال لیتا تھا لیکن آخر برائی میرے شوہر کی کر رہا تھا کیسے برداشت کرتی صارم خود بھی تو بیوی کے لئے کچھ غلط برداشت نہیں کرتا۔۔
” نہیں بہت انٹیلیجنٹ ہے “ میں نے جیسے اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔۔
” لیکن کان کا کچا “ جھٹ سے اگلی برائی آئی۔۔۔
” کان ہی کاٹ دونگی “ میں نے گھور کے کہا وہ مسکرایا پھر خاموش ہوگیا لیکن مجھے تھوری دیر گھورنے کے بعد اسکا اگلا سوال آیا۔۔
“ واٹ اس بیوٹی رابی؟؟ “
” کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟ “ کوئی بہت ہی عجیب سوال تھا۔۔
” بس ایسے ہی جاننا چاہتا ہوں تمہاری نظر میں خوبصورتی حسن میں ہے یا۔۔۔۔ “ میں اُسکی بات سمجھ گئی مومنہ اور افشین کے بیچ وہ مجھ سے خوبصورتی کا فرق پوچھ رہا تھا۔۔ یہاں بھی آکر میری شادی میں بات اپنی بیوی کی کر رہا؟؟ میں سلگ ہی تو گئی تھی اسے کیسے بتاتی اس آبی کے بچے نے مجھے ریجیکٹ کیا ہے جب اسے ہی کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔
” میری آنکھوں کو جو چیز اچھی لگی وہ دنیا کی خوبصورت چیزوں میں سے ایک ہوگی میری نظر میں۔۔ اینڈ آئ ڈونٹ کئیر چاہے وہ چیز دوسرے کو بدصورت لگے۔۔۔ “ میں نے اسے اپنی رائے سے آگاہ کیا اسکے چہرے سے لگ رہا تھا اسے میرے رائے پسند آئی وہ مطمئن تھا۔۔۔
” اگر تمہیں کوئی مجبور کرے اپنا نظریہ بدلو تو؟؟ “
جوس کا گلاس ایک بار پھر میرے ہونٹوں سے لگا کر وہ پوچھ رہا تھا بچپن میں مجھے یاد ہے جب اکثر میں اسکے سوالوں سے تنگ آتی وہ اسطرح کچھ نا کچھ کھلا کر مجھ سے پوچھتا۔۔
” میں کیوں بدلوں؟؟؟ ڈی ایف ایم “ میں نے ایک گھونٹ بڑھتے کہا جبکے وہ ڈی ایف ایم پر ناسمجھی سے مجھے دیکھنے لگا۔۔ ” مطلب؟؟ “
” تمہاری یاد میں ایک نیا ورڈ ایجاد کیا ہے دُر فِٹے منہ “ میں پہلی دفع مسکرائی تھی وہ بھی مجھے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔
” زبردستی کرے؟؟ مجبور کرے؟؟ “ آخر کیا بتانا چاہتا تھا وہ؟؟ بےحد سنجیدہ لہجہ تھا اسکا۔۔ ساتھ اسرار جیسے یہ سوال چھوڑنا نہیں۔۔۔
” کرنے نہیں دونگی جہاں کوئی ایک چھوٹی بات چُبھی اسے سُدھارے بنا آگے نہیں بڑھونگی “ میں نے مضبوط لہجے میں کہا وہ جیسے سمجھ کر مطمئن ہوا۔۔
” لیٹس سی “ وہ جوس کا گلاس ختم کروا کر اٹھا۔۔ کیوں کے نیچے سے بابا اسے آوازیں دے رہے تھے اور کچھ ہی دیر میں سب لڑکیاں اوپر آئیں گی مہندی کی رسم کے لئے۔ جانے سے پہلے اس نے افشین کو کچن سے بلایا اور اسے کچھ ھدایت دیکر آس پاس ایک نظر پورے حل میں گھوما کر نرمی سے اسکا گال چوما اور میں آج پہلی دفع پوری آنکھیں اور منہ کھول کر اسکی بےشرمی دیکھ رہی تھی آگر پھپھو یا دادی اسے اس طرح دیکھتیں تو حشر بهگاڑ دیتیں اور پہلی ہی دفع تھا جب میں نے افشین پر غور کیا وہ بلکل کسی گلاب کے پھول کی طرح کھل رہی تھی۔۔۔
پھر رات کو مہندی کی رسم ہوئی اُس پورے فنکشن کے دوران افشین میرے ساتھ کسی سائے کی طرح چپکی
رہی اور رسم بھی بہت خوش دلی سے کی۔۔ انسان اپنی عادت سی کتنا مجبور ہوتا ہے اُس دن پتا لگا۔۔۔
” کتنا گھور کر دیکھ رہی ہو؟؟؟ جیسے جاسوس مہندی لگانے آئے ہیں “ یہ میری کزن نے مجھ سے تیز لہجے میں کہا ساتھ ایک تھپڑ میرے کندھے پر رسید کیا میں بھول چکی تھی کے دلہن ہوں نیچے دیکھنا ہے گھورنے کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کے جو اسٹیج پر آرہا تھا اسے گھورے جا رہی تھی۔ مہندی کی رسم ختم ہوتے ہی افشین اور میری کزنز مجھے روم میں لے آئیں۔ تین بجے تک فضول میں آبنوس کی باتیں کر رہیں تھیں اور میں انگرائی لیتے لیتے تھک گئی تھی۔۔ فکرے بھی عجیب کٙس رہیں تھیں۔۔
” ویسے آبی بکس کو دیکھے گا یا رابی کو کہیں نیوٹن کا لاء نا پوچھنے بیٹھ جائے رابی تمہیں آتا تو ہے نا ناک نا کٹوانا ہماری؟؟ “
یہ آبنوس کے بھائی صائم کی بیوی کی طرف سے تھا۔۔۔
” مجھے لگ رہا رابی ڈائریکٹ جیل کی سیر کراے گی اسے “
یہ سن کر ہلق تک کڑوا ہوگیا میرا اور سمجھنے میں دیر نہیں لگی اسلئے آبنوس نے شادی سے انکار کیا؟؟؟ یعنی سب جانتے تھے یہ بات عام ہوگئی؟؟ اور کان کا کچا آبنوس جو صارم نے کہا ؟؟؟ واقعی وہ کان کا کچا ہے اور اب عقل کا پیدل اسکے آنے سے پتا لگے گا۔۔۔
ہمارا گھر تھا تو بہت بڑا لیکن رہنے والوں کے لئے کمرے سب مختصر تھے تبھی میری رخصتی میرے ہی روم میں ہوئی۔ نکاح تو ہوچکا تھا بس جیسے ہی افشین اور صارم کے ساتھ پارلر سے حال گئی وہاں رسموں کی ادائیگی کے بعد کزنز مجھے اپنے ہی کمرے میں چھوڑ گئیں۔۔ میں کتنی ہی دیر آبنوس کا انتظار کرتی رہی میرے دل میں اسکے لئے خاص کوئی جذبہ نا تھا لیکن عزت و احترام تھا نکاح کے حوالے سے، اُس دن جب اُسنے آدمی کی مدد کی مجھے خاص لگا تھا پر اسکے بعد اسکا اجنبی انداز مجھے اس سے دور کر رہا تھا میں بھاگنے والوں کے پیچھے بھاگنے والی نہیں جو مجھے اپنی زندگی میں امپورٹنس نہیں دیتا میں مڑ کر اُس سے سلام بھی نا کرتی۔۔۔
کوئی خاص جذبہ نا تھا لیکن شادی رات اُسکا سرد لہجہ اُسکی نفرت مجھے توڑ گئی مجھے وہ لڑکی یاد آئی جسکی آنکھوں سے خواب نوچے تھے میں اُسکی طرح نہیں بننا چاہتی تھی نا کمزور ہونا چاہتی تھی لیکن اُس دن میں نے دو حربے آزمائے پہلے اسے جاننا ضروری تھا ورنہ میں خود اپنی جال میں پھنستی میں نے اپنا لہجہ بھیگا رکھا مشکل بھی ہوئی لیکن نا ممکن نہیں تھا مجھے لگا میرے رونے سے شاید وہ پگھلے گا لیکن وہ اُن گھٹیا لوگوں میں سے تھا جسے نئی نویلی دلہن کے آنسوؤں بھی نا پگھلا سکے تو میں نے اُسی کا حربہ آزمایا اور گدے والا جھوٹ بولا مجھے اپنی بےعزتی کسی طور قبول نا تھی میں جانتی تھی وہ کبھی چیک نہیں کریگا ایسا رسک وہ لے نہیں سکتا تھا کیوں کے اگر میرا ہی نکلتا تو اُسی کی عزت افزائی ہوتی اور وہی ہوا وہ بغیر چیک کیے لیٹ گیا مجھ وارن بھی کیا اپنا رعب جھاڑنا چاہا لیکن میں پوری رات جان بوجھ کر پہلے سے زیادہ کروٹ بدل بدل کر اُسے تنگ کرتی رہی وہ ہوتا کون ہے مجھ پر حکم چلانے والا؟؟؟ میں کوئی اُسکی خریدی غلام نہیں ہوں نا اُسکے ساتھ بھاگ کر شادی کی ہے مجھے پتا ہوتا ایسا گھٹیا شخص ہے کبھی اسکی راہ سے گزرتی بھی نہیں رخصتی تو دور کی بات اور وہ پہلی رات تھی جو میری آنکھوں میں کٹی۔۔۔ بس میرا اب ایک مقصد تھا ” مجھے وہ لڑکی نہیں بنا، مجھے اس جیسا مقدر نہیں چاہیے جب تک خود وہ نہیں آئے گا مجھے اپنے ہی گھر میں اپنے قریب پاتے ہوے بھی اس دنیا کی طرح اجنبی پائے گا۔۔۔۔ “
صبح اٹھ کر بھی میں نے نرمی سے اسے کُرتا تھمایا اس وقت بھی جھوٹ بولا کے تائی دے گئیں ہیں جسے سن کر اس نے مجھے طنزیہ الفاظ میں اپنی ناپسندیدگی سے آغا کیا اور میں اُسکے زہریلے الفاظ سن کر بھی وجہ سمجھ نہیں پائی نا اسکی یہ بات مجھے آج تک سمجھ آئی ” تمہیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں “ میں تیار ہو رہی تھی اسنے مجھ سے کہا لیکن یہ تعریف تھی یا طنز؟ طنز تھا تو کس صورت میں؟؟ میں واقعی اُس شخص کو سمجھ نہیں پائی آخر ریجیکٹ کیا کیوں؟؟؟؟