” میرے سر پر سوار کھڑی کیا کر رہی ہو؟؟ جاؤ جاکر ناشتہ بناؤ زندگی عذاب کردی ہے۔۔ “ میں غصّے سے بڑبڑاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ جبکے میری بیوی رابیل ” جی “ کہ کر کچن میں ناشتہ بنانے چلی گئی۔ رابیل میری بچپن کی منگیتر تھی جس سے میں جوانی تک چڑتا تھا اور امید ہے بڑھاپے تک یہی حال رہے گا۔ میں خود پر افسوس کرتا غصّے سے بڑابڑاتا نہانے چلا گیا۔۔
رابیل میرے سب سے چھوٹے چچا کی اکلوتی بیٹی ہے وہ چچا جنہوں نے خاندان میں شادی کرنے کے بجاے اپنی کلاس فیلو سے شادی کی اور آج تک میں اپنے سگے چچا کو دنیا کا سب سے بڑا گدھا سمجھتا ہوں جنہوں نے اپنی خوبصورت پھوپی زاد کو ٹھکرا کر ایک سانولی لڑکی سے شادی کی جس کی بدولت رابیل جیسا عذاب میرے سر پر سوار ہوا۔ کیا ہوتا اگر پھوپی زاد سے شادی کرلیتے کم سے کم ایسی سانولی اولاد تو نا ہوتی آج تک میں اپنی غلطی ماننے کے بجائے انھیں ہی قصوار سمجھتا ہوں حالانکہ امی نے مجھ سے پوچھ کر یہ رشتہ جوڑا تھا لیکن اس وقت میں نویں کلاس کا طالب علم تھا پتا نہیں بیٹھے بیٹھائے بڑوں کو کیا سوجھتا جو ایسی فضول سوچیں لاکر بچوں کی جوانی تباہ کر دیتے اور میں وہی گدھا پاگل جس نے بنا سوچے سمجھے ماں باپ کی نظر میں اپنا نمبر بڑھانے کے لیے " ہاں “ کر دی لیکن امی ابو کے چہرے سے ہی لگ رہا تھا منع کرتا تب بھی انہوں نے رشتہ یہیں کرنا تھا آخر حکم میری دادی کا جو تھا۔۔
جی ہاں سہی سنا آپ نے بات دراصل یہ ہے کے میرے چچا کے اس اقدام نے سب کو ہلا کر رکھ دیا شادی کی یہ بات میرے دادا کو ناگوار گزری ساتھ انکی انا کو چوٹ بس تبھی انہوں نے چچا کو جائیداد سے عاق کرنے کے ساتھ گھر سے بےدخل کر دیا۔ میری دادی پندرہ سال بیٹے کے لئے ترستی رہیں جو اب لاہور سے کراچی اپنے سسرال کے پاس شفٹ ہوگیا تھا یہی حال دادا کا تھا لیکن انا انسان کو کہاں جھکنے دیتی ہے؟؟ آخری سانس تک وہ نا جھکے اور ایک دن اچانک سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اسی دن ابا نے چچا کو کال کی اور انھیں لینے ایئر پورٹ ماموں کو بھیجا۔۔۔
آج بھی وہ دن مجھے یاد ہے دادی اپنی بیٹے کو دیکھ کر سب گلے شکوے مٹا بیٹھیں اور تلوار میرے گلے میں آلٹکی رابیل کی صورت میں۔۔ دادا کو گئے ابھی ایک ماہ نہیں ہوا کے دادی نے فوراً سے نکاح کا اعلان کر دیا مجھ سے برائے نام پوچھ کر صاف ظاہر کر دیا ہم اولاد کے حقوق نبھانا باخوبی جانتے ہیں میں اس وقت میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا فرمابرداری سے اقرار کر کے زندگی کی سب سے بڑی بیوقوفی کردی لیکن اِسکا ادراک مجھے اُس وقت نہیں بلکے نکاح کے کچھ ماہ بعد ہوا۔ اول تو انکے آنے سے سب گھر والے خوش تھے گھر کے بڑوں سے لیکر نوکر تک جو عرصے سے ہمارے یہاں کام کر رہے تھے ایک سوائے میرے جسے دنیا جہاں کی کوئی پروا نہیں تھی بس ایگزیمز کی ٹینشن تھی۔۔
مجھے بعد میں یہ بات پتا چلی کے دادی نے جان بوجھ کر چچا کو روکنے کے لیے یہ نکاح کیا تھا اور انھیں یہیں رہنے کے لیے اوپر کا سارا پورشن دیا البتہ کھانا پورا گھر ساتھ ہی نیچے کھاتا باقی مصروفیت سب کی خود تک محدود رہتیں۔ رابیل اپنے ماں باپ کے ساتھ زیادہ تر اوپر ہی رہتی اسلئے ہماری ملاقات نا ہونے کے برابر ہوتی کبھی کبار دیکھ بھی لیتا تو بس سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ جاتا لیکن حیرانگی کی بات ہے مجھے اُس وقت رابیل سے کسی قسم کی چڑ نہیں تھی چڑنے میں تب لگا جب میری سگی پھپھو ” کیا ہے اس سانولی میں جو میرے شہزادے جیسے بھانجے کو تھما دی “ ایسے فقرہ میرے سامنے بولتیں آہستہ آہستہ انکی باتیں میرے دماغ میں گردش کرنے لگیں ایک ہی فقرے روز روز سن کر میں بھی اب رابیل پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری کزنز کے ساتھ اس کا موازنہ بھی کرتا۔ جہاں میرے بھائی میرے کزنز کی بیویاں خوبصورت تھیں وہیں پرکشکش بھی اور رابیل اس میں کوئی ایک ایسی خوبی نہیں تھی جسے دیکھ کر میں ترس تک کھا کر اُس سے شادی کرتا بس تب سے جہاں رابیل دکھتی میں وہاں جانے سے بھی گریز کرتا کے کہیں کزنز مذاق مذاق میں میرا ہی مذاق نا بنا دیں آہستہ آہستہ میں سب سے دور ہوتا چلا گیا پڑھاکو تو پہلے ہی مشہور تھا یونیورسٹی میں گولڈ میڈلسٹ بن کر میں نے ثابت کردیا اس خاندان میں ایک میں ہی لائق بیٹا ہوں بابا چچا سب میری اس کامیابی سے خوش تھے اور اسی کامیابی کا فائدہ اٹھاتے لگے ہاتھ میں نے اپنے زندگی سنوارنے کا سوچا اور اسی سوچ پر عمل کر کے بابا کے پاس چلا آیا۔۔۔۔
” واہ بابا مانا پڑے گا اس عمر میں بھی سلمان خان سے کم نہیں لگ رہے “ میں نے انکا خوش گوار موڈ کچھ اور روشن کرنا چاہا۔ آج وہ بلیک شلوار قمیص میں ہمیشہ کی طرح وجیہہ لگ رہے تھے
” نالائق مثال تو پاکستان کی دیتا “ میں سر کھجا کے رہ گیا بابا کو بولی ووڈ سخت نا پسند تھا
” سوری ہمایوں۔۔ “ کہتے ہی میں نے زبان دانتوں تلے دبا دی بھول گیا بابا کو یہ بھی پسند نہیں سب پر لعنت بھیج کر میں اپنے اصل مدعے پر آیا۔۔۔
” بابا کیا میں اپنی اس خوشی میں آپ سے کچھ مانگ سکتا ہوں؟؟ “ میں نے دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پر سجائے پوچھا۔۔
” ضرور۔۔ “ بابا کی مسکراہٹ نے میری حوصلہ افزائی کی۔۔
” بابا میں۔۔ میں رابیل سے شادی نہیں کرنا چاہتا میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں۔۔۔ “ میں نے سر جھکا کر کہا نجانے تھپڑ پڑنے کا ڈر تھا یا بےعزت ہونے کا۔۔۔
” مذاق تھا تو گھٹیا تھا ہضم نہیں ہو رہا سچ ہے تو جسے پسند کرتے ہو بہن کی نظر سے دیکھو کیوں کے کسی نے تم سے زبردستی گن پوائنٹ پر قبول ہے نہیں بلوایا تھا دانت نکال کر خود تم نے تین دفع زور سے قبول ہے کہا تھا اور ساتھ پورے حق سے سلامیاں بھی لیں تھیں یاد ہے یا یاد دلاؤں؟؟ “ انکا لہجہ بلکل نارمل تھا اور بےاختیار مجھے وہ منظر یاد آیا جب گلے میں سو سو کے نوٹوں کی گڈیاں تھیں جسے دیکھ کر میں ایسے خوش ہو رہا تھا جیسے زرداری اچانک سے میرا رشتےدار نکل آیا اور آدھی جائیداد میرے نام کردی ساتھ وہ وقت بھی جب میں دانت نکال کر خوشی خوشی سب سے ہاتھ ملا رہا تھا جو مجھے نکاح کی مبارکباد دے رہے تھے میرا دل چاہا خود کو دس دفع شوٹ کروں، کہیں کسی گھڑے میں سر چھپا لوں یا ہمیشہ کے لئے خود کو کمرہ نشین کر لوں۔ تھوک نگلتے جب ابا کی نظریں خود پر جمی محسوس کیں تو ہلکا سا احتجاج کیا۔۔۔
” بچا تھا میں بابا “ معصوم سا احتجاج مجھے خود کھوکلا لگا۔۔۔
” اسے کہتے ہیں مذاق گڈ گوئنگ تمہیں سن کر خوشی ہوگی آج اسی کی انائوسنمنٹ کرنی تھی اگلے ماہ رخصتی ہے تمہاری۔۔ “ وہ پر سکون لہجہ میں کہہ کر میرے تن من میں آگ لگا گے جب کے خود کی رخصتی کا سن کر مجھے شک ہوگیا بابا کا دماغ اس عمر میں جواب دے گیا ہے کیا؟؟؟
” میری رخصتی؟؟ بابا یہ انتہائی فضول مذاق تھا لڑکی رخصت ہوکر آتی ہے “ میں نے غصّے کو بامشکل قابو کر کے آرام سے کہا جب کہ مجھے اپنا لہجہ خود تیز لگا۔۔
” تمہارا میرا مذاق کا رشتہ ہے؟؟ “ انہوں نے ابرو اچکا کے پوچھا پھر اخبار تہہ کر کے مجھے دیکھتے وہ مسکرائے یہ مسکراہٹ مجھے کچھ غلط ہونے کا اعلان دے رہی تھی
” سہی سنا تمہاری ہی رخصتی ہے صائم تمہاری بھابی کے ساتھ کینیڈا سے آرہا ہے اور آتے ہی اس نے اپنا کمرہ تم سے لینا ہے انفکٹ کل اُس نے تمہاری ماں سے یہی کہا کے صفائی اچھے سے کرنا آبنوس کا سایہ بھی مجھے وہاں نا
دیکھے “
” کمینہ کہیں کا۔۔۔ “ ساری تفصیل سن کر میں دانت پیستا رہ گیا جب کے بابا نے مجھے ایک گھوری سے نوازتے آخری دھمکی دے ڈالی۔۔۔
” تمہاری وجہ سے میں دوبارہ اپنا بھائی نہیں کھونا چاہتا آنکھیں کھول کر دیکھو گئے تو وہ تمہیں بہت مختلف اور خاص لگے گی۔۔۔ “ بابا نے نہایت نرمی سے کہا اور عینک لیکر کمرے سے نکل گئے اس وقت اکثر وہ شام کی چائے پینے کے بعد دوستوں کے ساتھ پارک جاتے جہاں سب بوڑھے مل کر جوانی کے دن یاد کرتے۔۔۔
” یہ صابن سے نہاتی ہے یا کوئلے سے جب آتی ہوں کلر کھلنے کے بجاے مزید کم ہوتا جاتا ہے “ مجھے پھپھو کی بات یاد آئی جو انہوں نے پرسوں ہی مجھ سے کہی تھی ایک بھائی کہتا ہے خاص ہے اور ایک بہن کہتی اس جیسی عام پورے خاندان میں کوئی نہیں اصل میں خاص وہ نہیں محبت ہے بابا کی اپنی بھتیجی کے لئے جو انکی نظر میں وہ عام خاص لگتی ہے مگر میری پھپھو کی نظر میں وہ لڑکی حقیقی ہے جسکا سانولا روپ مجھے اُس سے نفرت میں مبتلا رکتا ہے میں نے بابا سے بات کرنے کے بعد بھی ہار نہیں مانی بلکے اب میرا مقصد اپنی ناپسندیدگی سے سب کو آگاہ کرنا تھا اور یہ شروع ہوا ٹی وی لاؤنچ سے جہاں اکثر سب بڑے ساتھ شام کی چائے پیتے جب کے ینگ پارٹی گارڈن میں گپے ہانکتی میں تو کبھی بھولے سے بھی اپنے کزنز کے ساتھ نہیں بیٹھا کے کہیں کالی بیوی کا طعنہ نا دیں دوسرا اسکی موجودگی میں میرا وہاں بیٹھنا ناممکن ہے کیوں کے۔۔۔
مجھے اس جگہ سے بھی وحشت ہوتی ہے
جہاں اسکا وجود سانس لیتا ہے۔۔
جی بلکل آئ ہیٹ ہر فروم دی کور اوف مائے ہارٹ اسکا سانولا وجود تک میری خوبصورت آنکھوں کو دیکھنا گوارا نہیں اور میں اسے جھیلوں گا زندگی بھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔
” ماں باپ کا فرض ہے بچوں کی شادی انکی رضامندی سے کریں۔۔۔۔ “ مولانہ کا بیان آتے ہی میں نے ریموٹ سے والیوم کچھ اور بڑھا دیا اور میری یہ حرکت میرے بابا سے چھپی نا رہ سکی انہوں نے گھور کے مجھے دیکھا جب کے میں بےنیاز بنا چائے کی چسکیاں لینے لگا اب سب غور سے سن رہے تھے آگر بابا کو پتا چل جاتا یہ پروگرام میں نے خود انٹرنیٹ کے تھرو چلایا ہے تو ضرور مجھے پنکھے سے الٹا ٹانگ دیتے۔۔۔
” سن سکندر میں کبھی نہیں بولی تھی تیرے اور ان کے معملے میں مجھے تو تیری پسند پر کوئی احتراض نہیں تھا آخر بچوں کی خوشی میں ہی تو ماں باپ کی خوشی ہے۔۔ “ دادی نے بیان سنتے ہی ایک ہی پل میں اپنا پرانا کھاتا کلئیر کیا جب کے اب ماحول سنجیدہ ہو چکا تھا چچا اپنا حال احوال سنا رہے تھے کے کس طرح انہوں نے راتوں رات گھر کا انتظام کیا اس دوران کتنی مشکلات پیش آئیں اور چچی کی ڈیلیوری کے وقت کوئی اپنا انکے ساتھ نا تھا کتنے کٹھن امتحان تھے جسے انہوں نے اکیلے فیس کیا اور اسی بیچ انہوں نے اپنے ایکسیڈنٹ کا بتایا جس پر میری دادی نے وہی انڈین سیریلز کی طرح چائے کا کپ گرا دیا اب بتاؤ بیٹا سامنے ہے پھر بھی پوچھ رہیں ہیں ” درد تو نہیں ہو رہا؟؟؟ “ جیسے ابھی ایکسیڈنٹ کروا کر گھر لوٹیں ہیں پھر کیا ہونا تھا وہی سب اموشنل ہوگے اور میں سوچ رہا تھا کس بیوقوف سے آئیڈیا لیکر یہاں بیٹھا؟؟ یہاں ایک سے بڑھ کے ایک ڈرامے باز ہے میں ماحول دیکھ کر خود ہی اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں چلا آیا۔ پھر کیا ہونا تھا اتنی کوششوں کے بعد بھی کسی نے میری ایک نا سنی بابا کو بھائی کے بچڑنے کا ڈر تھا ماں کو خاندان کی عزت اور دادی جی جو میرے اوپر واری جاتیں تھیں صاف کہ دیا عزت رکھ لے ہماری۔۔۔
جتنا میں دعائیں کرتا یہ دن نا آئے جتنی سپیڈ سے میں اس دن سے بھاگ رہا تھا اسی رفتار سے یہ دن میرے پیچھے دوڑ لگا رہا تھا اور محض منٹوں میں میرے ساتھ دوڑنے لگا۔ اور آج حال تھا میرا کے میں رخصت ہوکر اپنی بیوی کے کمرے میں جا رہا تھا۔۔۔۔
صبر یا خون کہیں بس بےبسی سے گھونٹ پیتے میں کمرے میں داخل ہوا میری پسند کے مطابق روم کو سیٹ کیا گیا تھا بیڈ سے لیکر صوفہ تک میں نے اپنے ذاتی پیسوں سے خریدا تاکے اس لڑکی پر روعب جما سکوں موقع ہی نا دوں کہنے کا کے بیڈ میرے جہیز کا ہے۔۔۔ میں اندر داخل ہوا تو حسب مطابق وہ گھونگٹ اوڑھے بیٹھی تھی میرا بس نہیں چل رہا تھا اسے اٹھا کے کھڑکی سے باہر پھنکوں۔۔۔
” اٹھو یہ میرا بیڈ ہے۔۔ “ کمرے میں آتے ہی میں نے سرد لہجے میں اسے حکم سنایا
” میں؟؟ “ گھونگٹ کے اندر سے ہی اسکی نرم آواز ابھری
” جی یہاں کوئی اور دکھ رہا ہے؟؟ “ آنکھیں سکوڑ کے میں نے دانت پیسے۔ کاش اسے کچا چبا سکتا۔۔ میری حسرت ہائے میں نے سرد آ بھری
” پھر میں کہاں سوں؟؟ “ اسکی آواز سے صاف لگ رہا تھا وہ میرا ایسا رویہ دیکھ کر پریشان ہو رہی ہے۔۔
” جہاں بھی لیکن میری خریدی ہوئی کسی چیز پر
نہیں۔۔ “ بارعب لہجہ میں کہتے میں جھنجلاتا ہوا تکیہ درست کر کے بیڈ پر لیٹ گیا دو تین منٹ بعد بھی جب وہ اسی طرح بیٹھی رہی تو میں بولنے ہی لگا تھا کے وہ بول اٹھی
” سنیں؟؟ “ مجھے اسکی آواز میں نمی گھلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ لیکن میں کٹھور بنا رہا
” کیا ہے ؟؟ “ میں بھڑک اُٹھا۔۔۔
” یہاں سب کچھ آپ کا خریدا ہوا ہے “ وہ نہایت دھیمی آواز میں بےبسی سے بولی اسکی آواز ابھی بھی رندھی ہوئی تھی۔۔
” تو؟؟ “ میں نے دانت پیستے کہا
” تو آپ اٹھیں میں اپنا گدا لے لوں پھر آرام سے سو جانا “ اب کے میں بُری طرح چونک اٹھا جبکہ وہ نہایت سنجیدگی سے مجھے سے کہہ رہی تھی۔۔
” گدا؟؟ “ میں نے پھر دُہرایا مجھے یقین نا تھا یہاں آکر میرے پیر پر کلہاڑی لگنے والی ہے سب کچھ سوچ رکھا تھا اور یہاں اکر سہی معینوں میں سٹپٹا گیا۔۔
” جی یہ گدا میرا ہے اس کے بغیر نیند نہیں آتی یہ میں نے آرڈر پر بنوایا ہے “ اب کے وہ زارا پھیل کر بیڈ پر بیٹھ گئی وہ بھول چکی تھی نئی نویلی دلہن ہے بلکے اب کے گھونگھٹ اٹھا کر مجھے تنبیہی نظروں سے گھورنے لگی جیسے کہہ رہی ہو اب اٹھنے کی باری تمہاری ہے میں اسکی ڈھٹائی دیکھتا رہا آخر ایسا پیس پورے خاندان میں نہیں جو اس طرح مرد کو جواب دے سکے۔۔
” سوجاؤ لیکن پوری رات ایک پیپر تک کی آواز نا آئے سمجھی؟؟ میں سکون چاہتا ہوں۔۔۔ “
” میں بھی۔۔ “ میرے سرد مہری سے کہنے پر اس نے بھی سنجیدگی سے کہا اور چینج کرنے واشروم میں گھس گئی میں اسکی حاضر جوابی پر سرتا پا سلگ اٹھا یہ ہے چچا کی پرورش؟؟ ایسی حاضر جوابی؟ ایسی لڑکیاں دو پل بھی نہیں ٹکتیں سسرال۔ میں اسے کی سوچوں کو جھٹک کے لیٹ گیا جہاں آیندہ زندگی کی ٹینشن تھی وہیں اس رابیل کے ہلنے سے میری نیند ڈسٹرب ہو رہی تھی۔
” تم سکون سے نہیں سو سکتیں؟؟ “ میں آخر کار تنگ آکر بھڑک اٹھا۔۔
” عادت ہے پوزیشن چینج کرنے کی جہاں کمفرٹ ملا اسی جگی سو جاتی اسلئے تو گدا اسپیشلی بنوایا ہے “ میں جانتا تھا یہ مجھے چڑانے اور باور کرانے کے لیے ہے کے سو جاؤ تمہاری نہیں چلنی میں اس بدتمیز اخلاق سے عاری لڑکی سے بحث بھی نہیں کرنا چاہتا تھا اسلئے چپ چاپ خون کے گھونٹ پی گیا۔۔۔۔
*************
اگلے دن وہ صبح ہی نئی نویلی دلہنوں کی طرح تیار ہو کر بیٹھ گئی میں نیند سے جاگا تو وہ میرے ہی انتظار میں تھی میں اسکی جرات پر ہکا بکا رہ گیا جب وہ میری اٹھتے ہی میرے ہاتھ میں استری شدہ کُرتا تھما گئی۔۔
” یہ آپ کے کپڑے پریس کیے ہیں تیار ہو جائیں “ میں واشروم جانے لگا تھا کے وہ راہ میں حائل ہوگئی۔۔۔
” کس سے پوچھ کے یہ سوٹ نکالا؟؟ میں اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا پھنک دو کہیں “ میں نے اسکے ہاتھ سے خود ہی سوٹ لیکر غصّے سے بیڈ پر پھنکا۔۔
” لیکن تائی نے تو کہا یہ سوٹ آپ نے خود اپنی پسند سے سلوایا ہے وہی دیکر گئیں ہیں۔۔ “ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہر تیر مجھے ہی آکر کیوں لگتا ہے ؟؟؟
” پسند نا پسند پل بھر میں بدلتی ہے اور جو پسند نا پسند بن جائے اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا یہاں تک کے جلا دینا بہتر سمجھتا ہوں گیٹ ڈیٹ “ میں نے غصیلے لہجے میں کہ کر وارڈ روب سے سفید شلوار قمیض نکالی اور اسے ایک قہر آلودہ نگاہ سے نوازتے نہانے چلا گیا۔ اندر لگی آگ کسی طرح تو بُھجانی تھی وہ بھی مزہ چکھے اس احساس کو محسوس کرے کے کسی کی زندگی میں زبردستی گھسنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟؟
میں نہا کر نکلا تو وہ میڈم سانولے روپ کو سنوارنے میں لگی تھی میرا دل اتنا بدمزہ ہوا کے اپنی ہنسی تک کا گلا گھونٹ دیا جسے بیوٹیشن اتنے پیسے لیکر نا سنوار سگی اُسے یہ پھوہڑ سنوارنے چلی ہے؟؟ میں سنجیدہ تااثرات لئے اسکا ہاتھ سختی سے دبوچے اپنے ساتھ کھنچتا ہوا لے آیا میرے اس جارحانہ انداز پر وہ پوری آنکھیں کھولے مجھے دیکھتی رہی میرے ساتھ کھنچتی وہ لب سیے بس میری پیروی کر رہی تھی تبھی میں ایک پل کو روکا اور نظر اسکے چہرے پر گاڑھ دی پنک لپسٹک ہونٹوں کو لگاتے پھیل چکی تھی جو یقیناً میری اس حرکت کا نتیجہ ہے۔۔
” تمہیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں یہ تمہارے لئے
نہیں “ میں نے کہتے ہی رومال اسکی طرف بڑھایا اشارہ تھا ہونٹ صاف کر لے لیکن وہ تو میرے طنز کو تعریف سمجھ کر خوش ہوگئی میرا بڑھایا ہوا رومال لینے کے بجائے خوشی سے مسکراتے ہوے مجھ سے کہا ۔
” جی جیسا آپ چاہیں کیا میں بس تیس سیکنڈس کے لئے اندر جا سکتی ہوں ؟؟ “
وہ اتنی پُر امیدی سے مسکراتے ہوے مجھے دیکھ رہی تھی کے میں منع بھی نا کر سکا اور وہ بھاگتے ہوے اندر چلی گئی
میری نگاہؤں نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔۔۔ پانچ منٹ دس منٹ پندرہ منٹ میں جب ہمت جواب دیگئی میں اندر جانے ہی لگا لیکن وہ بھاگتی ہوئی ہانپتی میرے قریب آن رکی۔۔
”چلیں “ وہ پہلے سے بہت مختلف لگ رہی تھی بالوں کی پونی ٹیل بنا رکھی تھی ہونٹوں پر اب گلابی رنگ نا تھا بلکے ہونٹوں پر کوئی گیلی چیز لگا رکھی تھی شاید بام نہیں ویزلین ہاں ویزلین ہو سکتی ہونٹوں کے گرد براؤن لائنیں بنی تھیں رنگ سانولا ہونے کی وجہ سے ہونٹ سرخ نا تھے بلکے ارد گرد براؤن لائن بنی تھی جس سے واضع لگ رہا تھا لیپ لائنر لگایا ہے۔۔
” اب چلیں؟؟ “ میں جو اسے دیکھنے میں محو تھا چونک اٹھا اب چلیں کا صاف مطلب تھا وہ اسے طعنہ دے رہی تھی اگر گھور لیا تو اب چلیں؟؟ میرا ہلق تک کڑوا ہوگیا میں اپنی ایک خوبصورت نظر تک سے اسے نا نوازوں اور یہ اترا رہی؟؟ مائے فٹ۔۔ میں غصّے سے بنبھناتا اب کے سختی سے اسکا ہاتھ دبوچے اپنے ساتھ کھنچتا ہوا لاونچ میں لے آیا۔۔۔
نیچے سب انتظار میں بیٹھے تھے میرے کزنز نے مجھ سے فری ہونے کی کوشش کی لیکن میرے سنجیدہ تااثرات دیکھ کر سب نے چُپ سادھ لی میں نے نا مما سے اُس دن بات کی نا ابا سے بلکہ اُس دن کے بعد سے میرے اور ان کے بیچ خاموشی کی ایک سرد دیوار حائل ہوگئی جسے نا میں نے نا انہوں نے گرانے کی کوشش کی۔۔
آج ہماری شادی ہوئے تیسرا دن تھا مجھے فرق نہیں پڑتا وہ کیا سوچتی ہے؟؟ سمجھتی ہے؟؟ میرے لئے وہ ایکزیسٹ ہی نہیں کرتی اسکی موجودگی میں روز نئے سرے سے فراموش کرتا ہوں مجھے نا اسکی موجودگی پسند ہے نا اسکا بولنا بس ایک خوائش ہے کے وہ میرے سامنے نا آئے لیکن آج بھی وہ میرے منع کرنے کے باوجود میرے سر پر سوار کھڑی مجھے آفس کے لیے اٹھا رہی تھی۔ میں نے اسے نہیں کہا اٹھانے کے لیے بس الارم کی آواز سے نا اٹھا تو میڈم نے خود یہ کام سر انجام دیا۔۔۔۔
میں نے بنا کچھ کہے اسکا لایا ہوا ناشتہ کیا اور آفس چلا آیا باس نے ایک امپورٹنٹ میٹنگ کے لیے مجھے پریزنٹیشن تیار کرنے کو کہا جبکے آج کل میرا موڈ کافی اوف رہنے لگا تھا وجہ گھر میں بیٹھیں وہ محترمہ ہیں جسکی وجہ سے میرا گھر جانے تک کا موڈ نہیں ہوتا اور امی کہتیں ہے نئی نئی شادی ہے رابیل کو ٹائم دو ٹائم کیا ذہر دیتا ہوں کھا کر سکون سے سوجائے۔ آج بھی بگڑے تااثرات لیے میں ٹھیک چھ بجے گھر پہنچا لان میں ہی مجھے امی ملیں اب ماں سے کب تک ناراض رہتا اسلئے خود ہی انکے آگے جھک کر دعا لی انہوں نے میرا ماتھا چوما۔۔۔
” صدا خوش رہو اللہ میری بھی عمر لگا دے “ امی کی دعا سے بھی نجانے کیوں مجھے رابیل یاد آگئی اور بےاختیار ایک سوچ نے میرا ہلق تک کڑوا کر دیا کیا بڑھاپے تک وہ میرے ساتھ رہے گی؟؟ استغفار کا ورد کرتے میں کمرے تک پہنچا تو وہ میڈم لپ ٹاپ لیے کچھ ٹائپنگ کرنے میں مصروف تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی وہ مسکرائی جبکہ میں نے اسے بھرپور نظر انداز کیا پھر کچھ کہے بغیر وہ کمرے سے چلی گئی میں تقریباً آدھے گھنٹے بعد فریش ہوکر واشروم سے نکلا تو وہ دو چائے کے کپ لیے کمرے میں داخل ہوئی میں اسکی جُرات پر حیران تھا۔۔ بےعزتی کے بعد بھی وہ مزے سے بار بار میرے آگے پیچھے گھوم رہی ہے؟؟
” چائے “ میں بیڈ پر آ بیٹھا تو اسنے مگ میری طرف بڑھاتے کہا
” نہیں چاہئیے لے جائو۔۔ “میں نے سرد لہجے میں اسے کہکر موبائل پر نظر گاڑھ دی مجھے لگا وہ میری منت کریگی لیکن معملہ اسکے براعکس ہوا وہ الماری کی طرف بڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک گفٹ ریپ کیا ہوا نکالا۔
” اب بچوں کی طرح تحفہ دیکر منائے گی؟؟ “ میں اسکی بچکانہ حرکت پر دل ہی دل میں قہقے لگاتا ایک فخر سا محسوس کر رہا تھا لیکن یہ فخر منٹوں میں چکنا چور ہوا جب واشروم کی ٹینک سے وہ ریپ کیے ہوے گفٹ میں سے مگ نکال کر دھو لائی اور میری اور اپنی چائے اس بڑے سے مگ میں ڈال کر واپس لپ ٹاپ میں بزی ہوگئی وہ تو گویا خوشی خوشی چائے پی رہی تھی جیسے میرے منع کرنے کی دل و جان سے دعا کی تھی۔۔۔
میں نے سنا تھا لوگ چائے کے لیے پاگل ہوتے ہیں ایک تو میں نے ایسا شیر بھی پڑھا تھا۔۔۔۔
چائے کا احترام کیا کریں
یہ تمام مشروبات کی مرشد ہے
لیکن ایسا بھی کیا پاگل پن کے شوہر کو ہی بھول جائیں؟؟ میرا موڈ سخت خراب ہو چکا تھا میں بھی اپنا لیپ ٹاپ لیے کام کرنے لگا۔۔۔۔
” آئندہ سے تمہیں چائے پیتے نا دیکھوں۔ پانی لاؤ سخت پیاس لگی ہے۔۔ “ اسے مزے سے بیٹھا مجھ سے دیکھا نا گیا پتا نہیں کیوں اسے دیکھتے ہی غصّہ چڑھ جاتا بار بار پھپھو کے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے اور ایک نئے سرے سے مجھے اپنی بربادی کا احساس ہوتا۔۔۔۔۔