جوگندر پال ہمارے دور کا وہ افسانہ نگار ہے جو قد آور لگتا نہیں کہ بلا جھجھک عظیم کہلایا جا سکے لیکن اُس کا قلم تھامنے والا ہاتھ شاید ساری دنیا کو اپنے احاطۂ تحریر میں سمیٹے ہوئے ہے اور اپنے مالک کو نہ صرف عظیم بلکہ لمحہ بہ لمحہ عظیم سے عظیم تر بنانے میں مصروف ہے۔ آج کے دور میں جب مشرق کے شعر و ادب پر مغرب کے شعر و ادب کی نئی نئی سچّی جھوٹی ، کھری کھوٹی تحاریک کی یلغار جاری ہے جوگندر پال ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں سے ایک ہے جو اس یلغار سے انتہائی کامیاب اور مثبت انداز میں عہدہ بر أ ہو رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے قدرتی حقِ انتخاب سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوئے۔ بیرونی اثرات میں سے صرف اُن کو قبول کیا جو دیس کی مٹی کے ہم طینت اور ہم مزاج محسوس ہوئے اور ان کو نظر انداز کر دیا جو بالکل اجنبی اور بے جوڑ لگے۔ مثال کے طور پر علامت پال کے افسانوں میں ہے بھی اور نہیں بھی۔ ہے، ان معنوں میں کہ اس کے کردار ہوتے ہوئے بھی گوشت پوست کے جیتے جاگتے آدمی ہوتے ہیں۔ نہیں ہے۔۔، ان معنوں میں کہ اس کا علامتی افسانہ یعنی وہ افسانہ جس کو نقادوں نے علامتی افسانہ تسلیم کیا ہے علامتی ہونے کے باوجود افسانہ ہونے سے باز نہیں رہتا۔ اُس کا استعاراتی پہلو اپنی طوالت اور وسعت کے باوجود واقعیت کا خاتمہ نہیں کرتا۔ نتیجے کے طور پر افسانے میں کہانی کا وجود برقرار رہتا ہے۔ ہمارے اردو+ہندی یا ہندی+ اردو ادب میں آج کے افسانے پر جو کڑا وقت آیا ہے اس کا بڑا سبب ہمارا احساس کمتری ہے جس کو مغربی ادب کے مقابلے میں ہم میں سے بیشتر لکھنے والے اور ادب کے پارکھ یعنے تنقید نگار اپنے آپ پر مسلط کئے رہتے ہیں۔ احساس کمتری ہم کو نقالی کے راستے پر لگا دیتا ہے۔ نقالی کے راستے پر چل کر ہم یہ بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ہم کون ہیں ؟ہماری اصلیت کیا ہے ؟ہماری جڑیں کہاں ہیں ؟جبکہ مغرب کا ادب نئے نئے رجحانات، تجربات اور میلانات کی زد میں ہونے کے باوجود اور نئی نئی ادبی تحاریک کی آپسی کش مکش کے سائے میں بار بار پلٹ پلٹ کر اپنی گراس روٹس کی جانب مراجعت کرتا رہتا ہے۔ اس ضمن میں امریکی شعر و ادب کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
ایک جانب امریکہ جدید ترین ادبی میلانات، رجحانات اور تحاریک کی سب سے بڑی منڈی ہے اور امریکی نقاد اور ادیب ان کے عالمی آڑھتی تو دوسری جانب امریکہ کا شعر و ادب قدیمی نخلِ ثقافت سے وابستہ و پیوستہ رہتا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے مَیں لارافرمینLAURA FURMANکے ایک تبصرے سے دو فقروں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ سوزان فوم برگ شائفر کے مشہور افسانے ‘‘ بھیڑئیے ‘‘ پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہے: ‘‘ اس کی کہانی ، بھیڑئیے ، قاری کو اس جرأت سے آشنا کرتی ہے جو شائفر سے مخصوص ہے اور ساتھ ہی استعارے پر اس کے عبور سے ، اس کی تخیلاتی پرواز اور بحفاظت زمین پر اُتر آنے کی صلاحیت سے۔ کہانی قاری سے واقعیت کی سطح پر ابلاغ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے طول دئیے ہوئے استعارے کی سطح پر بھی باتیں کرتی ہے۔ لمبی ازدواجی زندگی اور بڑھتی عمر کی دہشت سے لبریز ‘‘ ۔ آج کے امریکی ادب نے کہانی کی واقعیت کو بَلی چڑھا کر علامتی افسانے کو پروان چڑھانا گوارا نہیں کیا اور نہ ہی اس کی قدر افزائی کی۔ لارا فرمین کا ذکر چھڑ گیا ہے تو یہ بھی ملاحظہ کریں کہ مشہور امریکی افسانہ نگارالائیس منرو کے بارے میں وہ کہتی ہے: ‘‘ یوں لگتا ہے کہ منرو افسانے کے فارم کو پیچیدہ سے پیچیدہ بنانے میں لطف لیتی ہے لیکن اُس کو ٹوٹنے نہیں دیتی۔ ‘‘
آپ نے ایک مرتبہ پھر ملاحظہ کیا کہ آج کے امریکی ادب میں جدت کو روایت کی شکستگی کے بغیر قبول کرنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج کا امریکی افسانہ کسی طور بھی بے جڑا نہیں کہلایا جا سکتا۔ اسی طرح جوگندر پال بھی جدید بلکہ جدید ترافسانہ نگار ہے لیکن بے جڑا نہیں۔ اس کا قلم اُسی زمین سے اُگا ہے جس زمین سے منشی پریم چند کا قلم اُگا تھا۔ جس کی زبان بھی پریم چند کی زبان کی مانند عوام کی زبان ہے۔ اس زبان کا تانا،بانا کھڑی بولی اور ہلکی سی پنجابی بولی سے تیار ہوا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی بولی میں لچر پن نہیں ملتا۔ وہ بازار کی زبان میں لکھتا ہے لیکن اُس کی زبان بازاری نہیں۔ اس کی زبان یوں بھی اس کی اپنی نہیں۔
مَیں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن میرا قیاس یہی کہتا ہے کہ وہ گھر میں پنجابی بو لتا ہو گا۔ باہر پنجابی آمیز ہندی+اردو جبکہ ساری عمراُس نے انگریزی پڑھائی۔ اس کے افسانوں کی زبان اُس کے کرداروں کی زبان ہے اس کے کرداروں کی اکثریت نچلے اور درمیانی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا قلم اونچے طبقے پر نہیں چلا۔ اُس کے افسانوں میں اونچا طبقہ بالراست داخل نہیں ہوتا۔ وہ ایک سچا قلم کار ہے۔ وہ اپنے چاروں طرف بکھرے ہوئے افسانوں کو اپنے مشاہدے سے پا بہ زنجیر کر کے اپنے سوچنے والے ذہن اور محسوس کرنے والے دل سے گزار کر فطری اور انتہائی بے ساختہ انداز میں کاغذ پر منتقل کر دیتا ہے۔ اس کی افسانہ نگاری کا کمال یہ ہے کہ اس کی ٹکنیک، اُس کی فن کاری ، اُس کی محنت اور وہ خود کبھی ظاہر نہیں ہوتے۔ وہ پڑھنے والے کو اپنے افسانے کے اندر داخل کر لیتا ہے۔ پڑھنے والا افسانے کو واقع ہوتے ہوئے نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ کرداروں کے اندر اُتر کر اُن کو محسوس بھی کرتا ہے۔ پڑھنے والا افسانے کے اندر سے اور افسانہ پڑھنے والے کے اندر سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہاں مَیں افسانہ ، کردار اور قاری کی بات کر رہا ہوں کہانی کار کی بات نہیں کر رہا۔ وہ تو اِن سب میں ہے لیکن سب سے الگ اپنی موجودگی کا مکمل اِخفا کیے ہوئے۔ یہ معاملہ تو ہے ہی کہ فن کا اِخفا ہی فن ہے لیکن یہ فن کار کا اخفا ہمارے نقادانِ فن کی نظروں سے کس طرح اوجھل رہا؟
جوگندر پال کے کرداروں پر بات کرتے ہوئے مَیں اس نکتے پر زور دینا پسند کروں گا کہ اس کے کردار بظاہر سیدھے سادھے ہوتے ہیں لیکن ہوتے بے حد پیچیدہ (complex)ہیں۔ پیاز کی مانند وہ پرت پرت کھولنے پر کھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہر پرت گنجینہ معنیٰ کا طلسم ثابت ہوتا ہے اور پڑھنے والے کو ایک نئی معنویت سے یا معنوی اشاریت سے آشنا کرتا ہے۔ اس معنویت یا معنوی اشاریت کا ابلاغ کرداروں کی خارجی سطح پر بھی ہوتا ہے اور داخلی سطح پر بھی۔ کرداروں اور پلاٹ کا باہمی رشتہ ایسا نہیں کہ اس سے صرفِ نظر کیا جا سکے۔ جوگندر پال کا افسانہ کرداروں کے اعمال اور افعال سے تشکیل ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ کردار اپنے قول اور فعل میں آزاد دکھائی دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہر کردار زندہ اور منفرد ہے۔ اگر تابع ہے تو اپنی انفرادی سوچ کا پابند ہے تو اُس ماحول کا جس میں وہ سانس لے رہا ہے۔ اس کے علامتی کردار، نمائندہ کردار بھی زندہ ، منفرد اور با اختیار افراد ہونے کے حق سے دست بردار ہوتے نظر نہیں آتے۔ افسانے کی مرکزیت اگر ان کو باندھے رکھتی ہے تو وہ ڈور نظر نہیں آتی جس سے وہ بندھے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی بات ایسی کسی ڈور کو حرکت دینے والی انگلیاں بھی دکھائی نہیں دیتیں جن سے لکھنے والے ہاتھ تک رسائی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پلاٹ جیسی کوئی چیز جوگندر پال کے افسانوں میں ہوتی بھی ہے یا نہیں ہوتی؟اس کا جواب یہ ہے کہ پال کے افسانوں میں پلاٹ ہوتا ہے اپنے سارے لوازمات کے ساتھ۔ وہی کہانی کو اپنے سفر پر لے جاتا ہے اور سفر کو اختتام پذیر کرتا ہے۔ یہ اور بات کہ وہ اپنے ہونے کا اعلان نہیں کرتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جوگندر پال اپنے کردار اور پلاٹ کے ساتھ کیا کرتا ہے اس کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر میں ایسا کرنے بیٹھ جاؤں تو اپنے آپ کو ، اُوور سمپلی فائی، کئے بغیر نہ رہ سکوں گا۔ میرے خیال میں وہ کردار اور پلاٹ کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اس کے ذہن کے تخلیقی نہاں خانے میں افسانہ پورا کا پورا تخلیق پاتا ہے اور کاغذ پر اتارے جانے سے پہلے کچھ وقت رہتا ہے۔ اس دوران افسانے کے جملہ عناصر ایک دوسرے سے شیرو شکر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تخلیق و تشکیل ، تعمیر و تخریب اور تکمیل کرتے ہیں۔ افسانہ نگار کو یہ سہولت حاصل ہے جب کہ ناول نگار اس سے محروم ہے۔ افسانہ نگار ڈیوڈمینس David Meansنے کیا خوب کہا ہے: ‘‘ مجھے کہانیاں لکھنا زیادہ پسند ہے۔ مجھے یہ اچھا لگتا ہے کہ ایک پوری چیز کو اپنے سر میں رکھوں اور اس کو دیر تک گھماتا رہوں۔ ‘‘
جوگندر پال کرتا کیا ہے ؟کہانیاں لکھتا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کو پڑھاتا رہا ہے۔ کوئی تعجب نہیں آج بھی کسی کو پڑھاتا ہو۔ کہتے ہیں استاد آخری سانسوں تک استاد رہتا ہے۔ پڑھانے لکھانے کی عادت کبھی نہیں چھوٹتی۔ پڑھانے لکھانے کے ساتھ ساتھ وہ پڑھتا لکھتا بھی ہے۔ یہ پڑھنا لکھنا بھی ساری عمر کا سودا ہے، سودائے عشق کی طرح۔ پال اس معاملے میں بھی پیچھے نہیں اگرچہ عمر ڈھل چکی۔ اگر یقین نہ آئے تو اُن کتاب ‘‘ کھلا‘‘ کا انتساب دیکھ لیجئے۔ ایک جانب لکھا ہے ‘‘ تیرا ہی تیرا‘‘ اور دوسری جانب تحریر ہے ‘‘ کرشنا کے لیے ‘‘ ۔ جوگندر پال کتابیں پڑھنے کے ساتھ آدمیوں کو بھی پڑھتا ہے۔ آدمیوں کو چھوڑئیے وہ جانوروں کو بھی پڑھتا ہے۔ اللہ کی جملہ مخلوقات کو پڑھتا ہے۔ جاندار اور بے جان۔ پڑھنے کے ساتھ وہ جانتا بھی ہے۔ وہ ہونے کو اور نہ ہونے کو جانتا اور سمجھتا ہے۔ اس کی کہانیوں میں مغرب کی وجودیت بھی ہے اور مشرق کی بھی۔ کبھی تو کبھی وہ نی ہیلسٹ Nihilist بھی لگنے لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ بس جاننے میں لگا ہوا ہے اور اپنے پڑھنے والوں کو بھی اس پر مائل کرنا چاہتا ہے۔ اپنی کہانیوں میں خود تو کچھ نہیں کہتا البتہ اس کی کہانیاں بہت کچھ کہتی ہیں اس کی کہانی کا قاری کہانی پڑھنے کے بعد وہ نہیں رہتا جو وہ پڑھنے سے پہلے تھا۔ اس نے ایسی کہانیاں بھی لکھی ہیں جو اینٹی سٹوریز (کہانیاں )بھی کہلائی جا سکتی ہیں لیکن پڑھنے والا شاید یہ محسوس نہیں کر سکتا۔ اس کو ایسا ہی لگتا ہے کہ اس نے جو کچھ پڑھا وہ کہانی ہی تھی۔ ایک بھلی یا شاید بُری بات پال میں یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہراتا ہے۔ بعض اوقات وہ پلاٹ کو دہراتا ہے اور کبھی کردار کو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کو کوئی موضوع ، کوئی مرکزی خیال Theme، کوئی کردار ہانٹ کرتا ہے تو اس کو نئے انداز میں ٹریٹ کرنے کے لیے دہرانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بہرحال اس مرحلے پر اس کے چند ایک افسانوں کا حوالہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ میرا خیال ہے سب سے پہلے اس کے افسانے ‘‘ عفریت ‘‘ کو پڑھا جائے۔ اس کے بنیادی کردار ہیں مَیں ، بچہ اور۔۔ ۔۔ راون۔ راون جس کو ہر سال جلایا جاتا ہے لیکن وہ ہر سال بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ نہ صرف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے بلکہ ہر نئے سال وہ اونچے سے اونچا ہوتا جاتا ہے۔
، بچہ، جو ، میں ، کا بچہ ہے۔ شاید ، میں ، کی بیوی کے عاشق کا ، بچہ ، ہے۔ میں ، اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی بچے سے اس قدر وابستہ ہو چکا ہے کہ اس سے دستبردار ہونے پر راضی نہیں۔ بچے کی ماں کا یہ مسئلہ تھا کہ وہ کسی شادی شدہ آدمی پر عاشق تھی۔ چونکہ وہ حاملہ ہو چکی تھی تو مجبوراً ، میں ، سے شادی کی اور جب عاشق کی بیوی پر اسرار حالات میں چل بسی تو اس نے ، میں ، سے طلاق لے کر عاشق سے شادی کر لی اس کہانی میں مرد کردار چار ہیں۔ پہلا مرد تو راون ہے جس نے دس سروں کا مالک ہونے کے باوجود رام کی بیوی اور لکشمن کی بھابی کو ہرنے کی حماقت کی۔ دوسرامرد ، میں ، ہے جس کی بیوی کو ایک اور مرد یا ایک راون اپنی سیتاکو ٹھکانے لگا کر ہر لیتا ہے لیکن یہ ، میں ، رام کہلانے کا مستحق نہیں ہے ایک تو اس کا لکشمن جیسا کوئی بھائی نہیں ہے دوسرے وہ خود بھی ایک ، راون، ہے یعنے تیسرا راون جس نے ایک غریب آدمی کی بیوی کو ہر لیا ہے جو اس کے گھر نوکرانی بن کر آئی ہے لیکن ، میں ، کی عورت اور ، میں ، کے حرامی بچے کی ماں بن کر رہنے پر مجبور ہے جب کہ اس کا اپنا شوہر بیوی سے اور بچہ ماں سے محروم ہو گیا ہے۔ دونوں مردوں نے دو مردوں سے ان کی بیویاں اور بچے سے اس کی ماں ہر لی ہیں اور راون کے پتلے کا قد سال بہ سال دراز سے دراز تر ہوتا جاتا ہے۔ کہانی کا ایک اور رخ۔ مَیں ہوٹل کے کاروبار کی آڑ میں افیون اور کوکین کے عوض مغربی ممالک سے ہتھیار سمگل کر رہا ہے۔ مغرب اپنی طاقت سے اتنا خوفزدہ ہے کہ ہوش و حواس کھو کر جینا چاہتا ہے اور مشرق لڑتا بھڑتا نہ رہے تو اسے اپنی آزادی کا یقین نہیں ہوتا۔ ، میں ، دونوں کی ضروریات پوری کرنے میں جُٹاہوا ہے۔ چنانچہ کہانی میں دسہرے کی رسومات کا اختتام تخریب کاروں کی شوٹنگ پر ہوتا ہے۔ مَیں اپنے آپ کو حق بجانب گردانتے ہوئے سوچتا ہے ‘‘ لوگ مرتے ہیں تو میرا کیا دوش؟مُردے گننا بے کار لوگوں کا شغل ہے۔ میں تو سیدھے سیدھے اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔ جیسے بھی ایک کے دس بن جائیں۔ ‘‘
‘‘ عفریت‘‘ کو آپ نے دیکھا کہ انسانی زندگی پر کس طرح محیط ہے۔ یہ عفریت ہمہ جہتی ہے۔ بین الاقوامی عفریت جو اپنی عسکری طاقت کو سنبھالنے میں ناکام ہو کر بَولا ہو گیا ہے۔ جنس کا عفریت جس کا قد سال بہ سال دراز تر ہوتا جاتا ہے۔ معاشی بدحالی کا عفریت جو بچوں کو ماؤں سے اور بیویوں کو شوہروں سے محروم بنا رہا ہے اور تخریب کاری اور دہشت گردی کا عفریت انسانی خون سے ہولی کھیلنے میں مصروف ہے۔ اس کا علاوہ ڈرگ ایڈکشن کا جو ساری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ ، عفریت ، جیسے افسانے کو پڑھ کر ہم ایک اس سے مختلف افسانے کو پڑھتے ہیں جو مکالمہ ہے یا شاید خود کلامی اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ، گلزار، ۔ یہ افسانہ مشتمل ہے دو کرداروں مرشد اور مرید پر اور دو مقامات ویرانہ اور گلزار پر۔ چونکہ یہ فقرات کے تانے بانے سے تشکیل پاتا ہے اس سبب سے چند ایک فقرے ہم بھی اٹھا لیتے ہیں۔
‘‘ آنکھ کھلنے پر نظر چھن جاتی ہے ‘‘
‘‘ ہماری نجات صرف اسی مقام پر ممکن ہے جہاں ہمارے اعزأ ہمیں یکا و تنہا چھوڑ کر اپنی راہ ہولیتے ہیں ‘‘
‘‘ ہاں مرشد۔ مجھے اپنا ہونا تو بہرحال محسوس ہوتا ہے ‘‘
‘‘ نہیں پسرم۔ ہونا در اصل نہ ہونا ہے ‘‘
‘‘ تمہاری باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ مرشد‘‘
‘‘ تمہارے سر ہو تو اس پر سے بھی گزریں مگر تمہارے تو سر ہے نہ دھڑ۔ تم ہو ہی کیا جو کچھ ہوتے۔ ‘‘
‘‘ بلیک مَین‘‘ عفریت کی طرح جوگندر پال کی ایک قابل ذکر کہانی ہے۔ ظاہر میں توایک ایسے آدمی کی کہانی جو ایک عقبی گلی میں رکھے ہوئے ڈرموں کے کوڑے سے کباڑئیے کے مطلب کی چیزیں بٹور کر پیٹ پالتا ہے جس کی اپنی ایک کہانی ہے لیکن ڈرموں سے متعلقہ کوٹھیوں کی کہانیاں بھی اس آدمی کی کہانی سے جُڑی ہوئی ہیں۔ جوگندر پال کے اندر پریم چند اور منٹو اور کبھی کبھی بیدی جھلکنے لگتا ہے۔ اس افسانہ نگار کو کسی عصر یا کسی مکتبہ فکر تک محدود کرنا بڑی زیادتی ہو گی۔ وہ حد بندیوں میں آنے والا فن کار نہیں ہے اسی میں اس کی بڑائی ہے۔ منٹو کا ذکر آ گیا ہے تو یہ بھی کہنا پڑ رہ ہے کہ منٹو کی کہانیوں کی مانند جوگندر پال کی کہانیاں بھی غیر متوقع انجام سے دوچار ہوتی ہیں۔ یہ اور بات کہ پال کی کہانی میں یہ ٹوئیسٹTwistاکثر و بیشتر فکر کی سطح پر ہوتا ہے۔ یہاں اس کا بھی ذکر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا کہ منٹو کے بارے میں یہ بھی کہا گیا (یہ سچ بھی ہو سکتا ہے )کہ اس نے یہ ٹکنیک مشہور امریکی افسانہ نگار او۔ ہنری سے لی تھی جس کا اصل نام ولیم سڈنی پورٹر تھا۔ غیر متوقع انجام والی کہانیوں کی جوگندر پال کے ہاں بہتات ہے کیوں کہ یہی اس کا فن ٹھہرا ہے لیکن جن کہانیوں کا موضوع جنس ہے اور وہ غیر متوقع انجام سے بھی دو چار ہوتی ہیں کچھ کم نہیں، بغیر تلاش کے مل جاتی ہیں۔
‘‘ ہری کیرتن‘‘ کے بڑے بابو بِگڑے بابو تھے کسی اوباش عورت کی زلف میں الجھے ہوئے۔ بڑے بابو کی سورگباشی ماں نے ان کی پتنی کو اس ٹارگٹ پر لگا رکھا تھا کہ صبر کے ساتھ اپنے میاں کو راہ راست پر لے آئے۔ ایک مدت کے بعد حالات کے کسی دھچکے نے اُن کو اس عورت سے چھڑایا اور اِن کی راتوں کو گھر اور بیوی کا راستہ دکھایا۔ ساتھ ہی انہوں نے دفتر سے چھٹی لے کر پتا کی خدمت شروع کر دی۔ ان کو دوائیاں بھی باقاعدگی سے دینے لگے۔ پتا بہت جلد سدھار گئے۔ ایک دن جب ان کی پتنی کسی مذہبی عورت کے انداز میں ہری کیرتن کی باتیں کر رہی ہوتی ہے تو بڑے بابو اس پر یہ راز افشاک ر تے ہیں کہ انہوں نے ایک دن پتنی اور سسر کو منہ سے منہ ملائے دیکھ لیا تب ہی چھٹی لے کر پتا کی خدمت شروع کی لیکن ایسی خدمت کہ دوائی جگہ سادی گولیاں دیتے رہے تا آنکہ وہ مر گئے۔ ، جادو، کی نوکرانی بھابو جو ، عفریت ، کی نوکرانی کی مانند جوان نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی جو گھر کی مالکن کو پسند آئی اس کا تنخواہ کے لیے بارے تنگ نہ کرنا۔ البتہ اس کے بارے میں یہ سنا تھا کہ اس نے جہاں پہلے کام کرتی تھی اس کے بچے پر جادو کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مالکن نے اپنے بچے کو اس سے دور رکھا جب کہ بھابو بچے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھی۔ بھابو کا اپنا ایک بچہ تھا اس کے ساتھ کسی کے بلاد کار (Rape)کی نشانی۔ وہ مَسیں بھیگنے سے پہلے ہی گھر سے بھاگ گیا تھا۔ وہ ایک آس لگائے رکھتی شاید وہ اس کے پاس لوٹ آئے ساتھ ہی وہ یہ سوچنے لگتی کہ وہ کیسے آئے گا وہ تو کسی عورت کے ساتھ مزے سے رہتا ہو گا۔ وہ بے جان اشیاسے بھی باتیں کرتی تھی جیسے وہ زندہ افراد ہوں۔ ان سے وہ اپنے لڑکے کا ذکر بھی کرتی تھی۔
گھر کی مالکن نے اپنے بچے کو بھابو سے محفوظ رکھا کیوں کہ اس نے یہی سنا تھا کہ وہ بچوں پر جادو کرتی ہے۔ اس کہانی کا انجام مالکن کی توقع کے برخلاف ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
‘‘ میں پتھر کا پتھر دیوار سے جڑا ہوا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر دیکھے جا رہا تھا کہ اپنی جان چھڑک چھڑک کر بھابو نے ایک ایک بے جان شے میں جان ڈال دی ہے۔ مجھ میں بھی!‘‘
آپ جان گئے ہوں گے کہ یہاں ، مَیں ، گھر کا مالک ہے۔ مالکن کا شوہر۔
افسانہ ‘‘ پھول‘‘ کا خاص کردار دریائے گنگا ہے جس کو لوگ گنگا میّا پکارتے ہیں۔ گنگا میّا گزر بھی جائے تو عین میں وہیں ہوتی ہے جہاں سے گزر گئی ہو۔ گنگا میّا سے مرادیں مانگنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ عقیدہ یہ بھی ہے کہ جو کوئی گنگا میں اشنان کر لے اس کے گناہ دھُل جاتے ہیں۔ یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب تک مرنے والے کی ہڈیاں جن کو پھول بھی کہا جا تا ہے گنگا میں نہ بہا ئی جائیں اس کا کریا کرم پورا نہیں ہوتا۔ افسانے کا اسلوب مکالماتی ہے۔ غیر متوقع انجام دیکھنے کے لیے ان مکالموں سے گزرئیے:
‘‘ تمہارا کوئی بیٹا نہیں کہ تمہارے پھول گنگا کے سپرد کرے ؟‘‘
‘‘ تمہارا کوئی پوتا نہیں کہ تمہارے پھول۔۔ ۔۔ ‘‘
‘‘ جب بیٹا نہیں تو پوتا کیسے ہو؟‘‘
‘‘ ارے تم تو آ بھی گئے ہو‘‘
‘‘ ہاں !آ تو گیا ہوں لیکن پھر شاید جانا نہ ہو۔ ‘‘
‘‘ کیوں۔۔ ۔ ؟گنگا نے تم سے کیا کہا۔۔ ؟تم نے اس سے اپنے لیے بیٹا مانگا؟‘‘
‘‘ ہاں۔ ‘‘
‘‘ تو پھر گنگا نے تم سے کیا کہا؟‘‘
‘‘ گنگا نے میری ساری بات سن کر صرف یہ کہا۔ اپنی ہڈیاں آپ ہی لے کر آ گئے ہو تو اب آپ ہی انہیں یہاں ڈال دو!‘‘
جوگندر پال کے افسانوں میں انڈر کرنٹ کے طور پر جو فکری قدر ملتی ہے وہ اس کے افسانوں کو اٹھا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے وہ اپنی ذات میں ایک چھوٹا موٹا فلسفی ہے اور اپنے قاری کو ایسی سوچوں میں الجھا لیتا ہے جو انجام کار اس کی ماہئیت قلبی پر منتج ہوتی ہیں۔
٭٭٭
‘‘ ایک اعلیٰ تخلیق کار یہی کمال ہے کہ وہ حقیقت کی کنہ میں جھانکنے پر قادر ہوتا ہے۔ ایک دنیا کے غروب اور دوسری دنیا کے طلوع ہونے کے عین درمیان ‘‘ ہونے اور نہ ہونے ‘‘ کا جو عالم ایک عام شخص کی گرفت میں آنے سے گریزاں ہوتا ہے، جوگندر پال نے فاصلے پر ہونے کے باوجود اسے اتنے قریب سے دیکھ لیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ ایک گتھی ہوئی کہانی ہے جس کی بنت میں جوگندر پال نے اپنی ہنر مندی کا بھر پور احساس دلایا ہے۔ ہجرت کے بارے میں لکھی گئی اکثر اردو کہانیاں اور ناول بند گلی کا سا منظر پیش کرتے ہیں جس میں ہر شے رکی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر جوگندر پال کہانی کی طرفوں کو کھلا رکھنا جانتے ہیں۔ ‘‘ خواب رو‘‘ کے دیوانے مولوی صاحب کی جنت جب حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتی ہے تو وہ اس جنت کو بڑے پیار سے اٹھا کر اپنے خوابوں کی دھرتی پر سجا لیتے ہیں۔ گویا وہ رُکتے نہیں ہیں بلکہ ہمہ وقت بننے اور بگڑنے کے عالم میں رہتے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا
اقتباس از مضمون ‘‘ خواب رو‘‘ بحوالہ کتاب جوگندر پال، ذکر، فکر، فن مرتب ڈاکٹر ارتضیٰ کریم
٭٭٭