وہ دونوں بہت جلد بہت قریب آ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔ ولید کو لگتا وہ کئی سالوں سے زجاجہ سکندر کو جانتا ہے ۔۔۔۔۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وہ لڑکی اس کے لئے بہت قیمتی ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ولید کا بس چلتا تو اسے سب سے چھپا کے کہیں محفوظ کر لیتا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ زجاجہ کی دیوانگی سے بھی واقف تھا ۔۔۔۔۔وہ اکثر کہتا
"یہ تمہارے جذبے کی سچائی تھی زجاجہ جو مجھے یہاں تک لے آئی ورنہ زندگی نے بہت مواقع دیے اور ولید حسن اونی جگہ سے نہیں ہلا تھا "
اس اقرار پر زجاجہ اترا جاتی اور کہتی "ولی میں مغرور ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔ اور آپ کو پتا ھے نا غرور اللہ پاک کو پسند نہیں ھے "
"کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔ ہو جاؤ مغرور ۔۔۔۔۔ میں اللہ پاک سے معافی مانگ لوں گا " ولید کے جواب پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی اور ولید حسن دیکھتا رہ جاتا ۔۔۔
سکول میں ایک بار پھر ٹرپ کا شور اٹھا تھا ۔۔۔۔ لیکن دن اور جگہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا ۔۔۔۔ میم سے پوچھا جاتا تو وہ بال ولید کے کورٹ میں پھینک دیتیں ۔۔۔۔ اور ولید سے اس طرح کی بات کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی ۔۔
"او کوئی ٹرپ کا پتا کرو کہ کب اور کہاں جا رہا ہے " مس عفت نے دہائی دی ۔۔۔۔ وہ گھومنے پھرنے کی بہت شوقین تھیں ۔۔۔۔ ہر وقت ہر جگہ جانے کے لئے تیار رہتی تھیں ۔۔
"کس سے پوچھیں۔۔۔۔ میم کو پتا نہیں اور بھڑوں کے چھتے کو ہم چھیڑتے نہیں " مس فوزیہ نے ولید حسن کو بھڑوں کا چھتا قرار دیتے ہوئے ہاتھ جھاڑے ۔
زجاجہ کو ان کی بات پر ہنسی آ گئی ۔۔۔۔۔ سارا سٹاف بہت ڈرتا تھا ولید سے ۔۔۔۔۔ ولید اپنے اور سٹاف کے درمیان ایک فاصلے کا قائل تھا ۔۔۔۔۔ لیکن اس ڈر کے باوجود ہر ٹیچر کو ولید کے ہوتے ہوئے تحفظ کا احساس رہتا ۔۔۔۔۔ اور جب کوئی ٹیچر ولید کے کردار کی پختگی کی تعریف کرتی تو زجاجہ کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ۔۔۔۔۔
آج سب نے ولید سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔ ماریہ اور زجاجہ پیش پیش تھیں ۔۔۔۔ سلطان سر سے ولید کی موجودگی کنفرم کر کے وہ اس کے آفس کے دروازے پہ موجود تھیں ۔۔۔۔۔
"پہلے مس آسیہ جائیں گی اندر " مس عفت نے مشورہ دیا ۔
"نہ جی کیوں ۔۔۔۔ میں کیوں جاؤں گی " مس آسیہ نے قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا
"وہ کیا ہے نا مس ۔۔۔۔ آپ سینیئر ہیں نا ۔۔۔۔ سر آپ کو کچھ نہیں کہیں گے " ماریہ نے ان کے جانے کی وجہ بھی بتا دی ۔
اور یہ بات سچ بھی تھی ۔۔۔۔ ولید ان سے بہت نرمی سی پیش آتا تھا ۔۔۔اور ایک بڑی بہن کی طرح ان کی عزت کرتا تھا ۔۔۔۔ وہ پچھلے دس سال سے اس سکول میں پڑھا رہی تھیں ۔۔۔۔۔ ان کا ایک خاص مقام تھا ۔۔۔۔۔ وہ ایک طلاق یافتہ خاتون تھیں ۔۔۔۔۔ اور ایک بیٹے کے ساتھ بھائی کے گھر رہتی تھیں ۔۔۔۔۔ اپنی نوکری کر کے اپنا اور بیٹے کا پیٹ پالتی تھیں ۔۔۔۔۔
"چلو جی ۔۔۔۔ میں ہی چلی جاتی ہوں " انہوں نے حامی بھرتے ہوئے دروازے کی ناب گھمائی۔۔۔۔
"مے آئی کم ان سر " مس آسیہ نے اجازت مانگی ۔
"یس ۔۔۔۔ کم ان " حسب معمول ولید نے دیکھے بغیر جواب دیا۔ وہ کچھ ٹائپ کر رہا تھا اور سکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔
"میں نے کچھ بات کرنی ہے سر " مس آسیہ نے بات شروع کی ۔
ولید نے سکرین سے نظر ہٹائی۔۔۔۔
"اوہ مس آسیہ ۔۔۔۔ آپ ۔۔۔ آئیں بیٹھیں پلیز ۔۔۔۔ سوری میں ذرا بزی تھا " ولید پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
"آپ نے ایک بار ٹرپ کا کہا تھا ۔۔۔۔۔ تو اب سٹاف چاہ رہا ہے کہ آپ ڈیٹ کنفرم کر دیں اگر تو " انہوں نے بات ادھوری چھوڑی ۔
"ویل ۔۔۔آپ میرے لئے بڑی بہن کا درجہ رکھتی ہیں مس آسیہ ۔۔۔ اب بات کرنے آپ آئی ہیں تو جو حکم آپ کا ۔۔۔۔۔ویسے میں ابھی جانے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔لیکن کرتے ہیں ڈیٹ کنفرم ۔۔۔۔ جگہ آپ لوگ decide کر لیں " ولید نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس عزت افزائی پر مس آسیہ کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔۔
" بہت شکریہ سر ۔۔۔ اللہ پاک خوش رکھے آپ کو " انہوں نے دل سے ولید حسن کو دعا دی ۔ اور آفس سے نکل آئیں ۔
باہر بیتابی سے مس آسیہ کے برآمد ہونے کا انتظار ہو رہا تھا ۔۔۔۔ جونہی دروازہ کھلا سب الرٹ ہو گئیں ۔۔۔۔
"کیا خبر ہے مس آسیہ " زجاجہ فورا آگے بڑھی ۔۔۔
"صبر لڑکی صبر ۔۔۔۔" انہوں نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ۔ " آؤ بتاتی ہوں "
"ہاں تو ولید سر نے فرمایا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ " انہوں نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا " جگہ بتاؤ آپ لوگ ۔۔۔میں ڈیٹ کنفرم کرتا ہوں "
"واہ ۔۔۔۔۔ چھا گئیں آپ میم ۔۔۔۔۔ چیتی لگی ہیں ۔۔۔۔ صدقے جاؤں " ماریہ نے تو باقاعدہ ان کا ماتھا چوم لیا ۔
اب سٹاف روم میں خالص خواتین والی گفتگو ہو رہی تھی ۔۔۔۔ کپڑے ۔۔۔جوتے ۔۔۔ بیگ decide ہو رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" تو کہاں چلیں زجاجہ سکندر صاحبہ" ولید نے زجاجہ سے پوچھا ۔
" جہاں آپ کہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن جہاں بھی جائیں گے stay کریں گے پلیز " اس نے بچوں کی طرح منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ولید فون پر بھی اس کے چہرے کا زاویہ محسوس کر کے ہنس پڑا ۔۔۔
"ہمم ۔۔۔۔۔۔ باقی سٹاف کے لئے مشکل ہو جائے گا چندا " وہ اسے بعض اوقات بچوں کی طرح ہی ڈیل کرتا تھا ۔۔۔۔
"نہیں ہو گا نا ۔۔۔۔۔ اور 30 کے سٹاف میں سے 4 یا 5 لوگوں کے لئے ہی مشکل ہو گا نا ۔۔۔۔ پلیز مان جائیں نا " وہ اپنی بات پر قائم تھی ۔
"اوکے ۔۔۔۔۔ جیسے میری جھلی چاہے " ولید کو مانتے ہی بنی "پھر اسلام آباد چلیں ؟؟؟"
"واؤ۔۔۔۔۔۔ بیوٹی فل لینڈ " وہ خوش ہو گئی تھی " تھینکس آ لاٹ ولی "
"اٹس یور رائٹ زجاجہ " ولید اسے تصور میں خوش دیکھ کر ہی مطمئن ہو گیا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما ہمارے سکول کا ٹرپ جا رہا ہے اسلام آباد " وہ ماما کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی "ایک ہفتے کا stay ہے "
"کوئی ضرورت نہیں جانے کی " ماما نے فیصلہ سنایا ۔
"کیا مطلب " وہ کرنٹ کھا کے اٹھی " کیوں نہیں ضرورت ۔۔۔۔سب جا رہے ہیں "
" ایک ہفتہ وہاں رہ کر کیا کرو گے تم لوگ " ماما مطمئن نہیں ہو رہی تھیں ۔۔۔
"ماما پلیز جانے دیں نا " وہ منت پہ اتر آئ تھی ۔۔۔۔ اتنے میں سکندر صاحب بھی آ گئے ۔
"بابا آپ مجھے جانے دیں گے نا اسلام آباد " وہ چھلانگ لگا کر ان کے پاس پہنچ گئی ۔ " میرے سکول سے ٹرپ جا رہا ہے ۔۔۔۔ ون ویک stay ہے "
"بیٹا کیا کرو گی جا کے ۔۔۔۔۔ حالات تمہارے سامنے ہیں " وہ فکر مند ہوئے ۔
"آپ خود تو کہتے ہیں سب اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔ اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا تو پھر حالات کا کیا ڈر بابا " وہ دوسرے حربے پہ اتر آئ تھی ۔۔۔۔ آخر تھوڑی سی بحث کے بعد انہیں اجازت دیتے ہی بنی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بیا کو بتایا تو وہ بھی ساتھ چلنے کو تیار ہو گئی ۔۔۔۔ لیکن جانے سے ایک دن پہلے اس کی خالہ قصور سے آ گئیں تو اسے اپنا پروگرام کینسل کرنا پڑا ۔۔۔۔۔ مسز یزدانی نے بھی جانے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔ وہ اسلام آباد کی سردی سے گھبراتی تھیں ۔۔۔۔۔۔
"بہت مزہ آئے گا " وہ اور ماریہ بچوں کی طرح خوش ہو رہی تھیں ۔۔۔۔
راستے میں دو تین جگہ رک کر چائے کے ساتھ انصاف کیا گیا ۔۔۔۔۔ جوں جوں اسلام آباد سے فاصلہ کم ہو رہا تھا ۔۔۔۔فضا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ لاہور سے اسلام آباد تک کا 4 گھنٹے کا سفر اس قافلے نے 6 گھنٹوں میں طے کیا ۔۔۔۔۔
جب وہ لوگ اسلام آباد پہنچے تو سورج اپنی رات کی منزل کی طرف رواں دواں تھا ۔۔۔۔۔۔ زجاجہ نے ڈوبتے سورج کے منظر کو اپنے موبائل میں محفوظ کیا اور ریسٹ ہاؤس کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔ وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ جب وہ سورج کو اپنے موبائل میں محفوظ کر رہی تھی ، کسی نے اس لمحے کو زجاجہ سمیت اپنے موبائل میں قید کر لیا تھا ۔۔۔۔۔
ریسٹ ہاؤس پہنچ کر سب نے چائے پی اور بیڈ کا رخ کیا ۔۔۔۔۔ اس کا دل بہت اداس ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ اٹھ کر باہر آ گئی ۔۔۔۔۔ باہر کافی ٹھنڈ تھی ۔۔۔۔۔ ہر چیز کو دھند کی چادر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔۔۔۔۔ وہ شال کندهوں کے گرد لپیٹتی سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔ باہر سے آتے ولید کی نظر اس پر پڑی تو وہ قریب آ گیا ۔
" کیا ہوا زجاجہ ۔۔۔۔۔ ادھر کیوں بیٹھی ہو "
زجاجہ نے سر اٹھا کر ولید کو دیکھا "کچھ نہیں ولی ۔۔۔۔۔ گھبراہٹ هو رہی تھی تو باہر آ گئی " وہ ایک ہاتھ سے بال پیچھے کرتے ہوئے بولی ۔۔۔
ولید نے غور سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ وہ بلیک کرتے کے ساتھ بلو جینز پہنے ۔۔۔۔ کندهوں کے گرد شال لپیٹے ۔۔۔۔ اس اداس شام کا حصہ لگ رہی تھی ۔۔۔۔ اس لمحے وہ ولید کو دل سی بہت قریب محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔
"ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں " زجاجہ نے اسے یوں محویت سے اپنی طرف دیکھتے پایا تو پوچھے بنا نہ رہ سکی ۔
"دیکھ رہا ہوں تم اسلام آباد آ کے سردیوں جیسی لگ رہی هو "
"سردیوں جیسی مطلب " وہ نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔
" مطلب کو چھوڑو ۔۔۔۔ یہ بتاؤ کافی پیو گی " وہ وہیں سیڑھیوں پر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔۔۔۔
" ضرور ۔۔۔۔ کافی تو کبھی بھی کہیں بھی " وہ کافی اور چاکلیٹ کی دیوانی تھی ۔۔۔۔ ولید "ابھی لایا " کہہ کر اندر چلا گیا ۔۔۔
واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دو کافی کپ تھے ۔۔۔۔۔
"کوئی خاص وجہ اداسی کی ؟؟؟" ایک کپ زجاجہ کو پکڑاتے ہوئے اس نے اس کی اداسی کا سبب پوچھا ۔۔۔۔
"پتا نہیں ولی ۔۔۔۔۔ بس ایک دم دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو ۔۔۔۔۔اور پتا ہے ایسا اکثر ہوتا ہے میرے ساتھ " وہ بتاتے ہوئے پوری ولید کی طرف مڑ گئی ۔۔۔۔
"سب کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ ہمارے unconscious میں سٹورڈ کوئی بات ہوتی ہے ۔۔۔۔ وہ جب conscious میں آتی ہے تو ایسی سچویشن ہوتی ہے ۔۔۔۔کیونکہ conscious اسے recognize نہیں کر پا رہا ہوتا " ولید نے اسے اس کیفیت کی سائنسی وجہ بتائی ۔۔۔۔
زجاجہ : "ولی "
ولید : "حاضر میم "
زجاجہ : "ہر بات کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے نا "
ولید : "بلکل ہوتی ہے "
زجاجہ : "ہمارے ملنے کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے "
ولید : "مجھے یہ تو نہیں پتا زجی ۔۔۔۔۔ ہاں اتنا جانتا ہوں کوئی بہت بڑی وجہ ہے "
زجاجہ : "آپ کو کیسے پتا "
ولید : "میرا دل کہتا ہے"
زجاجہ : "ہمم ۔۔۔۔۔۔ آپ کبھی مجھے چھوڑ تو نہیں دیں گے نا "
ولید : "کوئی سانس لینا چھوڑ سکتا ہے کیا "
ولید کے جواب پر زجاجہ نے بےیقینی سی ولید حسن کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اتنا کھلا اقرار تو وہ کبھی نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔ ولید کی خوبصورت بھوری آنکھوں میں بےپناہ محبت تھی ۔۔۔۔۔ زجاجہ نے نظریں ہاتھ میں پکڑے کپ کی طرف پھیر لیں ۔۔۔۔۔ چند لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے ۔۔۔۔۔ گہری خاموشی ۔۔۔۔۔۔۔
"میں چلتی ہوں " زجاجہ نے خاموشی کو توڑا ۔۔۔
"اوکے ۔۔۔۔۔ ریلیکس ہو جاؤ ۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے " وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولا ۔
زجاجہ نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا ۔۔۔۔۔۔ اور اندر کی طرف قدم بڑھا دیے ۔
"سنو " ولید کی آواز پر اس نے رک کر پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔
"اداس مت ہوا کرو ۔۔۔۔۔تم اداس ہوتی هو تو میری عمر گھٹنے لگتی ہے " ولید نے اس کو وارفتگی سی دیکھتے ہوئے کہا
زجاجہ کو لگا آج روۓ زمین پر اس جتنا خوش قسمت کوئی نہیں هو گا ۔۔۔۔۔۔ وہ اثبات میں سر ہلا کر اندر چلی گئی ۔۔۔۔ ولید نے مسکرا کے کافی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ زجاجہ کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب ولید نے اپنا اور اس کا کپ آپس میں بدل دیے ۔۔۔۔۔۔
"میری جھلی " اس نے زیر لب کہا اور کپ ہونٹوں سے لگا لیا ۔۔۔۔
قسط 8۔
اسلام آباد کی صبح حسب معمول بہت خوبصورت تھی ۔۔۔۔۔ زجاجہ ابھی تک بستر میں دبکی پڑی تھی ۔۔۔۔ ماریہ اٹھ کر باہر جا چکی تھی ۔۔۔ زجاجہ اٹھنے کا سوچ رہی تھی کہ ماریہ نے دھواں دار انٹری دی
"زجی ۔۔۔یہ دیکھ " وہ ایک ہی جست میں بیڈ پر چڑھی۔
"کیا هو گیا ہے ۔۔۔۔۔ ہر وقت بندریا بنی رہتی ہو" زجاجہ نے اسے پرے دھکیلتے ہوئے کہا "کبھی تو خود کو انسان ثابت کیا کرو"
"او یار چھوڑ ۔۔۔۔ ادھر دیکھو ۔۔۔ خوبصورت صبح کا شاندار منظر ۔۔۔۔ میں ایک کلک میں قید کر لائی " وہ سورج طلوع ہونے کے منظر کی تصاویر دکھاتے ہوئے خوش ہو رہی تھی ۔
واؤ ۔۔۔۔۔ اٹس امیزنگ نا " زجاجہ موبائل سکرین پر انگلیاں گھماتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ ایک تصویر پر اس کی نظر اور ہاتھ رک گیا ۔۔۔۔۔۔اس تصویر میں ولید حسن گرے کلر کا ٹریک سوٹ پہنے ریسٹ ہاؤس کے لان میں ورزش کرتا دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔
"اس شہر بےمثال کی صبح کتنی خوبصورت ہوتی ہے نا " ماریہ پاؤں کو شوز سے آزاد کرتے ہوئے بولی ۔
"ہاں ۔۔۔۔۔ یہ صبح واقعی بہت خوبصورت ہے " زجاجہ اس تصویر کو دیکھتے ہوئے ٹرانس کی کیفیت میں بولی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب نیچے ہال میں ناشتے کی میز پر اکٹھے آج کا دن پلان کر رہے تھے ۔۔۔۔ آخر راول جھیل دیکھنے کا فیصلہ ہوا۔۔۔۔۔ شام کو دامن کوہ جانا بھی آج کے پلان کا حصہ تھا ۔۔۔
"اوکے لیڈیز ۔۔۔۔۔دیر نہیں ہونی چاہیے پلیز " ولید ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولا اور اٹھ گیا ۔
سب تیاری میں مصروف ہو گئے ۔۔۔۔ سر آصف اور سر وقاص بھی پہنچ گئے ۔۔۔۔۔وہ کسی وجہ سے سٹاف کے ساتھ نہیں آ سکے تھے ۔۔۔۔
"دیٹس گریٹ مائی بوائز " ولید حسن ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے خوش دلی سے بولا ۔۔۔۔۔
زجاجہ تیار ہو کر شیشے کے سامنے کھڑی خود کو تنقیدی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے ریڈ کلر کے کرتے کے ساتھ بلو جینز پہن رکھی تھی ۔۔۔۔ لمبے خوبصورت لیئر شیپ میں کٹے شہد رنگ بال پونی ٹیل میں قید تھے۔۔۔۔ کانوں میں سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے نفیس سے ایئر رنگز اس کو مزید دلکش بنا رہے تھے ۔۔۔۔ وہ جیکٹ پہن رہی تھی کہ اس کا موبائل گنگنا اٹھا ۔۔۔۔ بابا کی کال تھی ۔۔۔۔ وہ موبائل لے کر باہر آ گئی ۔۔
"السلام علیکم بابا جانی " وہ بابا کی آواز سن کر فریش ہو گئی تھی ۔۔۔ " جی میں بلکل ٹھیک ۔۔۔۔۔ ماما کیسی ہیں ۔۔۔۔ جی بابا ابھی بس نکل رہے ہیں ہم لوگ ۔۔۔۔۔ بہت خیال رکھوں گی۔۔۔۔۔ آپ بھی اپنا خیال رکھیئے گا ۔۔۔۔اللہ حافظ بابا "
وہ فون بند کر کے مڑی ہی تھی کہ اسے ولید حسن اپنی طرف دیکھتا نظر آیا ۔۔۔۔۔ وہ وہیں رک گئی ۔۔۔۔ ولید حسن اس کے پاس آ گیا ۔
"لکنگ ۔۔۔ ہمممم " وہ اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے بولا ۔
" یہ کون سی لکس ہوتی ہیں ؟؟؟؟ اب کیا سمجھوں کیسی لگ رہی ہوں " وہ مسکراتے ہوۓ بولی ۔
"اسے کہتے ہیں spell bound...... جب الفاظ نہیں رہتے تو میں ہممم سے کام چلاتا ہوں "
"ہا ہا ہا" وہ کھلکھلا کر ہنس دی ۔۔۔۔۔ "آپ کے پاس واقعی ہر مسئلے کا حل ہے "
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا مس عفت اور مس تہمینہ آتی دکھائی دیں ۔۔۔۔ ولید کو خاموش ہونا پڑا ۔
"چلیں سر ۔۔۔۔۔ " مس عفت نے ولید سے کہا
"جی ۔۔۔۔سب کو آ لینے دیں ۔۔۔۔نکلتے ہیں پھر "ولید کہتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا
راول جھیل کا منظر ہمیشہ کی طرح روح کو ترو تازہ کرنے والا تھا ۔۔۔۔ دن کا وقت ہونے کی وجہ سے رش زیادہ نہیں تھا ۔۔۔۔ ولید آصف اور وقاص کو ساتھ لے کر ایک طرف نکل گیا تھا ۔۔۔۔ اب وہ سب اپنے انداز میں انجوائے کرنے کے لئے آزاد تھیں ۔۔۔۔ زجاجہ ساتھ ساتھ بیا کو بھی تصاویر بھیج رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کا بیا اور ثنا کے بغیر آنے کا پہلا چانس تھا ۔۔۔۔۔ جھیل کا پانی اپنی موج دکھا رہا تھا ۔۔۔۔ لوگ بوٹنگ کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ وہ سب بھی ایک کشتی میں گھس گئیں ۔۔۔۔
"بھائی ذرا آرام سی چلانا " مس آسیہ نے ملاح کو نصیحت کرنا ضروری سمجھا کیونکہ وہ سب کے کہنے پر بیٹھ تو گئیں تھیں مگر ڈر رہی تھیں ۔۔۔ اور جب تک کشتی نے ان کو
واپس کنارے پر نہ اتار دیا ،مس آسیہ ورد ھی کرتی رہیں ۔
"آپ سب کا لنچ کا کیا پلان ہے " سر آصف نے اں کے قریب آتے ہوئے پوچھا
"لنچ ریسٹ ہاؤس جا کر کریں گے " مس عطیہ فورا بولیں ۔
"واپس جا کر کیوں " زجاجہ نے حیران ہو کر کہا ۔
"بس یار ۔۔۔۔ دل کر رہا ہے واپس جانے کا " انہوں نے تھکاوٹ سے کہا تو سب نے واپسی کے لئے قدم بڑھا دئے ۔
"جھیل پر پریاں تھیں کیا " کھانا کھاتے ہوئے وقاص نے پوچھا ۔۔۔۔ وہ ایک شوخ مزاج لڑکا تھا ۔۔۔اس کے عتاب سے کم ھی کوئی بچ پاتا ۔۔۔
"وہ پہاڑوں پر اترتی ہیں سر " آصف نے تصحیح کی ۔۔۔۔
"اتنی ڈھیر ساری پریاں آپ کو نظر آ رہیں وقاص سر " مس نورین نے سب ٹیچرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وقاص کو مخاطب کیا ۔۔۔۔
"یا اللہ رحم ۔۔۔۔۔۔ "وہ اس انداز میں بولا کہ سب کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی ۔۔
"مغرب کے بعد دامن کوہ کے لئے نکلیں گے " ولید نے کھانے کی ٹیبل سے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
وہ سب بھی کھانے کے بعد کمروں میں آ گئیں ۔۔۔۔۔
"سر نے اپنے ریسٹ ہاؤس میں کیوں نہیں ٹھہرایا ہمیں " مس فوزیہ نے عفت سے پوچھا
"ولید صاحب کا ریسٹ ہاؤس بھی ہے کیا " زجاجہ نے حیرت کا اظہار کیا ۔
"ایک ریسٹ ہاؤس " عفت نے بھنویں اچکائیں "سر کی ریسٹورینٹس کی چین ہے وہ بھی UK میں ۔۔۔۔ سکول تو میم کا شوق ہے "
زجاجہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔۔۔۔۔۔