ایک لمحے کے لیے ولید کی نظر اس سے ملی تھی اور وہی لمحہ ولید حسن کی زندگی میں فیصلہ کن ثابت ہوا ۔۔۔۔ جو فیصلہ وہ پچھلے کئی دنوں میں نہیں کر سکا تھا تقدیر نے ایک لمحے میں کر دیا ۔۔۔ وہ ابھی تک زجاجہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
"بیا میں جا رہی ہوں ۔۔۔۔ماما کئی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی " وہ بیا کو بتاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
"موسم ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔ میں ڈراپ کر دیتا ہوں تمہیں " حیدر نے آفر کی۔۔
"نہیں حیدر ۔۔۔۔ میں چلی جاؤں گی ۔۔۔۔تم لوگ انجوائے کرو " اس نے مسکرا کے جواب دیا اور وہاں سے چلی آئی ۔
ایک دم دل اداس ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ یونیورسٹی کے سیدھے ٹریک پر چلتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی اب بھی جاری تھی ۔۔۔۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو بادلوں نے کسی بھی وقت موسلا دھار برسنے کا سندیسہ سنایا ۔۔۔
"اوہ گاڈ ۔۔۔۔۔ مجھے جلدی چلنا چاہئے ۔۔۔۔۔ حیدر کو بھی منع کر دیا ۔۔۔۔ بارش تیز نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔ " وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگی ۔۔۔۔
" آپ بہت تیز چلتی ہیں مس زجاجہ " اسے ولید حسن کی آواز آئ تو اس نے چونک کر دائیں جانب دیکھا ۔
"سر آپ۔۔۔۔۔ کب آئے " وہ حیرانگی سے بولی " سوری مجھے پتا ہی نہیں چلا "
" بہت سی باتوں کا پتا نہیں چلتا آپ کو " ولید نے مسکراہٹ دباتے ہوئے جواب دیا " جیسا کہ بھری محفل میں آپ کی آنکھ نم ہو جاتی ہے اور آپ کو پتا نہیں چلتا "
"ایسا نہیں ہے سر " وہ شرمندہ ہو گئی "وہ بس یونہی "
" چلیں اگر ایسا نہیں ہے تو اٹس گڈ ۔۔۔۔۔ آئ ہیو ٹو لیو ناؤ ۔۔۔۔ اللہ حافظ " وہ پارکنگ کئی طرف مڑ گیا ۔۔۔۔ زجاجہ دور تک اسے جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔ "میرا دیوتا " اس نے زیر لب کہا اور گیٹ کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔
وہ پوائنٹ کے انتظار میں کھڑی تھی کہ بیا اور ثنا بھی پہنچ گئیں ۔۔۔۔۔
" تم لوگ کیوں آ گئی ہو " اس نے ان دونوں سے پوچھا ۔
" یار موسم کے تیور ٹھیک نہیں ہیں ۔۔۔۔۔ کلاس بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ تو بہتر ہے گھر پہنچ جائیں " ثنا نے پھولی سانس کے ساتھ جواب دیا ۔۔۔۔۔
" تمہیں اتنی آوازیں دیں لیکن تمہارے کان پہ جوں تک نہیں رینگی " بیا نے ناراض ہوتے ہوئے شکوہ کیا ۔
" اچھا ۔۔۔۔۔ مجھے سچ میں نہیں پتا " وہ حیران ہوئی " اور جہاں تک سوال ہے جوؤں کا ۔۔۔تو وہ اتنے خوبصورت بالوں میں ہیں ہی نہیں " اس نے خود ہی اپنی تعریف کی جو بیا کو مزید تپا گئی ۔۔۔۔۔
" تم لوگ ادھر کھڑی کیا کر رہی ہو " رضا نے ان کے پاس آ کر گاڑی روکی ۔
" مچھلیاں پکڑ رہے ہیں " ثنا نے جل کر جواب دیا " نظر نہیں آ رہا وین کا ویٹ کر رہی ہیں "
" اوہ بی بی تمہارے روٹ کی وین نہ آئ آج ۔۔۔۔آؤ بیٹھو ڈراپ کر دوں گا " اس نے آفر کی ۔
" نہیں رضا ۔۔۔۔ تمہیں بہت آوٹ آف وے جانا پڑے گا ۔۔۔۔۔ تم ایسا کرو ثنا کو لے جاؤ ۔۔۔۔ہم چلی جائیں گی " زجاجہ نے رضا کا خیال کرتے ہوئے کہا۔
" آر یو شیور زجی " رضا اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔ ثنا اور رضا کے جانے کے کچھ دیر بعد بھی جب ان کے روٹ کی وین نہ آئ یو بیا سچ میں پریشان ہو گئی ۔۔۔۔ بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔ زیادہ تر سٹوڈنٹس بھی جا چکے تھے ۔۔۔۔۔ اسٹاپ پر ان کے علاوہ کوئی گنے چنے لوگ ہی کھڑے تھے ۔۔۔
" مجھے سچ میں ٹینشن ہو رہی ہے زجی " بیا پریشانی سے بولی " وین نہ آئی تو کیا ہو گا "
"پلیز بیا اچھا اچھا بولو ۔۔۔۔۔ پہلے ہی پریشان ہوں میں۔۔۔۔تم اور ڈراؤ" اس نے بیا کو گھورتے ہوئے کہا ۔۔ اتنے میں ایک گاڑی ان کے پاس آ کر رکی ۔۔۔۔۔ زجاجہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی ۔
" آ جائیں مس ۔۔۔۔ میں ڈراپ کر دیتا ہوں آپ کو " ولید نے فرنٹ سائیڈ ونڈو کھول کے ان کی طرف جھکتے ہوئے کہا " اس موسم میں یہاں اسٹاپ پر کھڑے ہونا مناسب نہیں ہے "
" جی سر ۔۔۔۔ بہت شکریہ ۔۔۔۔ ہم واقعی پریشان تھے " اس سے پہلے کہ زجاجہ انکار کرتی بیا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ اسے بھی بیٹھنا پڑا ۔۔۔۔۔
"اس موسم میں آپ کو تھوڑی care کرنی چاہئے ۔۔۔۔۔ میں بھی اگر جمشید ماموں کو ڈراپ کرنے نہ چلا جاتا تو اب تک گھر جا چکا ہوتا " زجاجہ کو لگا وہ اس کی سوچ پڑھ رہا ہے کیونکہ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ یہ ابھی تک یہاں کیسے۔۔۔۔
گاڑی میں مانوس سی خوشبو پھیلی تھی ۔۔۔۔نصرت فتح علی خان کی "دل لگی " بہت ہلکی آواز میں چل رہی تھی ۔۔۔ فرنٹ سکرین پر بارش کے قطروں نے سامنے کا منظر دھندلا دیا تھا ۔۔۔۔
" آپ نے کدھر اترنا ہے مس " اس نے بیا کو مخاطب کیا ۔۔۔۔۔ بیا اسے راستہ سمجھانے لگی تو زجاجہ نے مرر میں ولید کو دیکھا ۔۔۔۔ وہ بہت غور سے بیا کی بات سن رہا تھا ۔۔۔۔۔ زجاجہ کو لگا اگر وہ ان آنکھوں کو مزید ایک پل بھی دیکھے گی تو ہوش کھو بیٹھے گی ۔۔۔۔۔ وہ باہر دیکھنا شروع ہو گئی ۔۔۔
"زمانے کو اپنا بنا کر تو دیکھا
مجھے بھی تم اپنا بنا کر تو دیکھو "
یکبارگی دونوں کی نظر ٹکرائی ۔۔۔۔ زجاجہ نے فورا آنکھیں جھکا لیں ۔۔۔۔۔ اور ولید کے لبوں کو ایک دلفریب سی مسکراہٹ چھو گئی ۔۔۔۔
" چلیں مس؟؟؟ " بیا کو ڈراپ کر کے وہ فرنٹ مرر میں پیچھے دیکھتے ہوۓ زجاجہ سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔۔
" جی سر " زجاجہ نے ولید کی طرف دیکھا تو وہ ہونٹوں میں مسکراہٹ دبائے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ اس نے گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔۔۔۔
" آپ اس دن کیا کہہ رہی تھیں مس زجاجہ " وہ آنکھوں میں شرارت لئے زجاجہ کے دل کی دھڑکن بڑھا گیا ۔۔۔
"کک۔ کچھ نہیں سر " اس کے ہاتھوں میں پسینہ آ گیا ۔
" ہممم ۔۔۔۔۔ لیکن میں کچھ کہنا چاہتا ہوں زجاجہ " ولید کا لہجہ بدل گیا ۔۔۔۔۔ اس نے پہلی بار زجاجہ کا نام لیا بغیر کسی سابقے کے ۔۔۔۔۔۔ زجاجہ کو لگا اس کے نام جیسا خوبصورت کسی کا نام نہیں ہو گا ۔۔۔
" میں ولید حسن یزدانی اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں اپناتا ہوں زجاجہ سکندر "
کہنے والا کہہ چکا تھا مگر سننے والے پر سکتہ طاری ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ یقین کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ اس لمحے کو تو اس نے اپنے رب سے مانگا تھا ۔۔۔۔۔ وہ بت بنی بس ولید کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ آنکھ بھی جھپکے گی تو منظر بدل جائے گا اور یہ منظر وہ کبھی بدلنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔۔
" زجاجہ ۔۔۔۔۔ کیا ہوا " ولید نے اسے پکارا " کچھ کہو گی نہیں "
" ہاں ۔۔۔۔۔" وہ جیسے نیند سے جاگی " آپ نے کیا کہا ولید سر ۔۔۔۔ کیا آپ نے وہی کہا جو میں نے سنا "
" ہاں زجاجہ ۔۔۔۔۔ میں نے وہی کہا جو آپ نے سنا " ولید کو اس معصوم سی لڑکی پہ ڈھیروں پیار آیا
زجاجہ کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔۔۔۔۔ وہ گردن جھکا گئی ۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے ۔۔۔
"اوہو ۔۔۔۔ تو آپ شرماتی بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔امیزنگ " ولید اس کی حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے بولا
" پلیز مجھے ڈراپ کر دیں ۔۔۔۔ " وہ جان چھڑا رہی تھی ۔۔۔۔
" ایسے کیسے ڈراپ کر دوں ۔۔۔۔ مجھے میری بات کا جواب تو دیں محترمہ " ولید حسن شوخ ہوا
" آپ کو پتا تو ہے ولید سر " وہ بیچارگی سے بولی ۔۔۔۔۔
" نہیں ۔۔۔۔۔۔ جو میں نے کہا وہ کہیں " ولید کا کچھ اور ہی ارادہ تھا ۔۔۔۔ وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کر رہا تھا
" اوہ نو ۔۔۔۔۔۔ " زجاجہ واقعی کنفیوز ہو گئی تھی ۔۔۔۔ جونہی ولید نے اس کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تو وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ایسے اتری جیسے اگر ایک پل دیر کی تو ولید اسے ساتھ ہی لے جائے گا۔۔۔۔
" زجاجہ سکندر ہوش میں بھی اور ہوش سے بیگانہ ہو کر بھی آپ کی ہے ولید حسن۔۔۔۔ اللہ حافظ " وہ جاتے جاتے پیچھے مڑ کر بولی اور گیٹ پار کر گئی ۔۔۔
ولید حسن کچھ پل گیٹ کی طرف دیکھ کے کچھ سوچتا رہا ۔۔۔۔ " میری جھلی " زیرلب بولا اور گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔۔۔
----------؛
گھر آ کر وہ سیدھا آصفہ کی طرف گیا ۔۔۔۔۔ "مما کیا کر رہی ہیں " اس نے ان کو کچن میں مصروف دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔ اس وقت وہ عموما اپنے کمرے میں ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔
"میرا بیٹا آ گیا " انہوں نے پیار سے اس کی پیشانی چوم لی ۔۔۔۔ "تمہارے لئے بریانی بنا رہی تھی ۔۔۔۔"
بریانی اس کی کمزوری تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی کھا سکتا تھا ۔۔۔۔۔
" اوہو ۔۔۔۔۔۔ آپ کیوں خود کو ہلکان کرتی رہتی ہیں میرے لئے " اس نے انہیں کندھوں سے پکڑ کر کرسی پر بٹھا دیا ۔۔۔۔۔ "لیں پانی پیئں"
"تم ہی تم تو ہو ۔۔۔۔۔ تمہارے لئے بھی نہ کروں تو کس کے لئے کروں ولید " وہ جذباتی ہو گئیں " پتا ہے تمہارے پاپا بھی بہت شوق سے بریانی کھاتے تھے اور اکثر کہتے تھے آصفہ دیکھنا میرا بیٹا بھی دیوانہ ہو گا اس کا " وہ کہیں ماضی میں کھو گئیں ۔۔۔۔۔
"آئ لو یو سو مچ " ولید نے ماں کو سینے سے لگا لیا " چلیں اب اٹھ جائیں یہاں سے ۔۔۔۔ باقی کا کام سکینہ بوا دیکھ لیں گی " وہ انہیں زبردستی کمرے میں لے آیا ۔۔۔۔۔
" اچھا جاؤ ۔۔۔۔ تم بھی فریش ہو لو ۔۔۔۔۔۔پھر کھانا کھاتے ہیں " آصفہ نے اس کے بال سلجھاتے ہوئے کہا تو وہ اٹھ کر کمرے میں آ گیا ۔۔۔۔۔
شیشے کے سامنے تولیے سے بال خشک کرتے ہوئے اس کا دھیان زجاجہ کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔ " تو زجاجہ سکندر تم وہ کر گئی جو آج تک کوئی نہ کر پایا تھا " زجاجہ کا دھیان مسکراہٹ کی صورت ولید حسن کے چہرے پر ٹھہر گیا ۔۔۔۔ اس نے گہری سانس لی اور کمرے سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔
؛؛--------------------؛
زجاجہ کی دنیا بدل چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ چاہے جانے کا احساس اسے ہر پل ہواؤں میں اڑائے پھرتا ۔۔۔۔۔۔ سب نے اس تبدیلی کو محسوس کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ شوخ تو وہ پہلے ہی تھی اب مزید خوش رہنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کی چمک جگنوؤں کو مات دیتی نظر آتی تھی ۔۔۔۔۔۔ ولید حسن کے لئے وہ کوئی گڑیا تھی جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جانے کا خطرہ تھا ۔۔۔۔ وہ ہر پل اس کا خیال رکھتا ۔۔۔۔۔ اس کی شرارتیں ولید کو کتنی دیر تک ہنساتی رہتیں ۔۔۔۔۔
یونیورسٹی میں اس کے فائنلز سٹارٹ تھے ۔۔۔۔۔۔ وہ پوری دلجمعی سے تیاری کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ ولید کی طرف سے بھی بہت سخت آرڈرز تھے امتحانات کے لئے ۔۔۔۔ سو وہ ارد گرد سے بےنیاز اپنے پیپرز میں گم تھی ۔۔۔۔۔۔
"شکر ہے یار یہ پیپر اچھا ہو گیا " وہ کیفے کی طرف جاتے ہوئے بولی "میں بہت پریشان تھی اس کے لئے "
"ہمم ۔۔۔۔۔ میں بھی " ثنا نے بھی اس کی تائید کی " یہ ولید سر ہیں نا ۔۔۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ والے " ثنا ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی " یہ میمونہ کے ساتھ کیا کر رہے ہیں "
زجاجہ نے اس سمت دیکھا جس طرف ثنا نے اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔ وہ واقعی ولید تھا ۔۔۔۔۔ اور فائن آرٹس کی میمونہ سبحان کے ساتھ کافی خوشگوار موڈ میں بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔۔۔۔۔ زجاجہ کے ماتھے پر بل پڑ گیا ۔۔۔۔
اس نے گلاس زور سے میز پر پٹخا ۔۔۔۔۔۔ جو کیفے میں موجود باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ ولید کو بھی متوجہ کر گیا ۔۔۔۔۔۔
"چلو ثنا ۔۔۔۔ دیر ہو رہی ہے " اس نے ثنا سے کہا اور اس کے جواب دینے سے پہلے ہی اٹھ کر چل پڑی ۔۔۔۔۔ ثنا کو بھی مجبورا اس کے پیچھے آنا پڑا ۔۔۔۔۔
فریش ہو کے اس نے موبائل اٹھایا تو ولید کا میسج اس کا منتظر تھا
"پیپر کیسا ہوا زجی " اب وہ اکثر اسے اسی نام سے بلاتا تھا ۔
زجاجہ کو کیفے والا منظر یاد آ گیا ۔۔۔۔۔ حالانکہ ایسا کچھ غلط بھی نہیں تھا اس میں ۔۔۔۔۔۔ وہ صرف ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ لیکن زجاجہ کے ذہن میں وہ اٹک گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
"آپ فری ہیں ۔۔۔۔۔۔ امیزنگ ۔۔۔۔۔ میں تو سمجھی تھی آپ میمونہ کے ساتھ ڈنر پہ ہوں گے " اس نے جوابی میسج بھیجا ۔۔۔
ایک پل کے لئے تو ولید کو سمجھ نہ آئ کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہے لیکن اگلے ہی لمحے وہ زجاجہ کا اشارہ سمجھ گیا ۔۔۔۔۔ ولید سے آج تک کسی نے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔۔ زجاجہ کا طنز اس کا دماغ خراب کر گیا ۔۔۔۔۔ اس نے زجاجہ کے نمبر پر کال ملائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تھوڑی دیر بعد دوسری طرف سے اٹھا لو گئی ۔۔۔
"ہیلو " زجاجہ کی آواز ابھری
"مجھ سے آج تک اس طرح میری ماں نے بھی پوچھ گچھ نہیں کی زجاجہ سکندر ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ مجھے اس لہجے کی عادت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بہتر ہو گا کہ آپ بھی احتیاط کریں " وہ دھاڑا اور ساتھ ہی کال ڈراپ کر دی ۔۔۔۔۔۔
زجاجہ حیرت کی تصویر بنی موبائل کو گھورتی رہی ۔۔۔۔۔۔ قطرہ قطرہ آنسو اس کے چہرے کو بھگونے لگے ۔
قسط 6۔
زجاجہ کو لگا ولید نے اسے اس کئی اوقات دکھائی ہے ۔۔۔۔۔ آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔۔ وہ کمرے میں اندھیرا کئے آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی تھی جب ماما اندر آئیں ۔۔۔
"زجی کیا ہوا بیٹا " انہوں نے لائٹ آن کی اور زجاجہ کے پاس آ کے بیٹھ گئیں ۔۔۔۔۔ "تمہیں تو بخار ہے " وہ اس کی پیشانی چھوتے ہوئے فکرمندی سے بولیں
"کچھ نہیں ہے ماما ۔۔۔۔۔ تھکن کی وجہ سے ہے ۔۔۔۔ٹھیک ہو جائے گا " وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
"ایسے کیسے ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔ کہتی ہوں تمہارے بابا کو کہ ڈاکٹر کے پاس لے کے جائیں تمہیں" وہ کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں ۔۔۔۔۔
زجاجہ جانتی تھی اب کچھ کہنا بیکار ہے ۔۔۔ سو وہ خاموشی سے اٹھ گئی ۔۔۔۔۔
بابا اسے قریبی کلینک لے آئے ۔۔۔۔۔ اس کی باری آنے میں ابھی دیر تھی ۔۔۔۔بابا نماز پڑھنے چلے گئے تو وہ وقت گزاری کے لئے اطراف کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔۔ ایک بنچ پر اسے مسز یزدانی بیٹھی نظر آئیں ۔
"میم یہاں کیسے ۔۔۔۔۔ پتا نہیں کیا ہوا میم کو " وہ اٹھ کر ان کے پاس چلی گئی ۔
"السلام علیکم میم " اس نے قریب جا کر انہیں سلام کیا ۔۔
*وعلیکم السلام ۔۔۔۔ زجاجہ بیٹا آپ ادھر ۔۔۔۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟؟؟ " مسز یزدانی نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا ۔۔
"جی میم ۔۔۔ہلکا سا بخار آ گیا تھا " وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئی" لیکن ماما بابا کو کون سمجھائے یہ کوئی ایسی بیماری نہیں کہ ڈاکٹر کے پاس آ جائے بندہ ۔۔۔۔ سو میں چپ چاپ آ گئی "
"بیماری تو ہے یہ بھی ۔۔۔۔ آپ میرے ولید کئی طرح بخار کو بیماری نہیں سمجھتی نا " ولید کے نام پر زجاجہ کے دل نے بیٹ مس کی ۔۔۔۔۔ "مان لیا کہ بخار بذات خود بیماری نہیں ہے " انہوں نے اپنی بات جاری رکھی ۔۔۔۔۔
"چلیں مما " ولید ان کے پاس آ کر بولا ۔۔۔۔ اس کی نظر زجاجہ پر پڑی تو ٹھٹک گیا "انہیں کیا ہوا "
"ہاں بیٹا چلتے ہیں ۔۔۔۔ یہ زجاجہ بھی ادھر آئ ہوئی ہیں۔۔۔ بخار ہے ان کو ۔۔۔۔" وہ ولید کو بتانے لگیں "لیکن یہ بھی وہی تم نوجوان نسل کی لاجک دے رہی ہیں کہ بخار کوئی بیماری تو نہیں نا ۔۔۔۔ میں کہہ رہی تھی اگر بخار بیماری نہیں ہے تو اس کے پیچھے کوئی وجہ تو ہو گی نا ۔۔۔۔ بلاوجہ تو بخار نہیں ہوتا نا بیٹا "
ان کی اس بات پر اس نے قہر آلود نظروں سے ولید کئی طرف دیکھا ۔۔۔ جیسے کہنا چاہ رہی ہو "میرے بخار کی وجہ آپ کا بیٹا ہے "۔۔۔۔۔ ولید اس کی نظروں کا مطلب سمجھ گیا تھا ۔۔۔۔ اس نے بمشکل ہنسی کنٹرول کی ۔۔۔۔ زجاجہ منہ پھیر گئی ۔
"میں بلڈ پریشر چیک کروانے آئی تھی۔۔۔۔ اللہ پاک آپ کو صحت دے ۔۔۔۔ " مسز یزدانی اٹھتے ہوئے بولیں "اور ہاں اگر طبیعت نہ ٹھیک ہو تو صبح چھٹی کر لینا " انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ نرمی سے مسکرا دی ۔۔۔۔ وہ ان کو جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔۔
ولید نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک لے جاتے ہوئے دور سے ہی سوری بولا تو زجاجہ کو اس کے انداز پر ہنسی آ گئی ۔۔۔ ولید بھی مسکرا کے باہر نکل گیا ۔۔۔
اتنے میں بابا بھی آ گئے ۔۔۔۔وہ بابا کو مسز یزدانی کے بارے میں بتانے لگی ۔۔۔۔۔ اس کا نام بلایا گیا تو وہ ڈاکٹر کے روم میں چلی گئی ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے اسے موسم کا اثر بتا کر آرام کرنے کو کہا ۔۔۔۔۔ بابا نے اس کی دوائی لی اور کلینک سے نکل آئے ۔۔۔۔۔ واپسی پر بھی وہ ولید کے بارے میں ہی سوچتی رہی ۔۔۔
"زجاجہ کھاؤ گی کچھ " ماما اس کے بال سہلاتے ہوئے بولیں
"نہیں ماما ۔۔۔۔ بلکل بھوک نہیں ہے ۔۔۔بس اب سونا چاہ رہی ہوں " وہ ان کا ہاتھ تھام کر بولی ۔۔
"ٹھیک ہے میری جان ۔۔۔۔ آرام کرو " وہ اس کا ماتھا چوم کر باہر آ گئیں ۔۔۔۔ زجاجہ نے سونے کی غرض سے آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ موبائل کی بپ ہوئی ۔۔۔ اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو ولید کا میسج تھا
"صبح چھٹی نہیں کرنا "
اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔
عجیب شخص ہے مجھ سے گریز پا بھی ہے
نظر نہ آؤں تو مجھے ڈھونڈتا بھی ہے
زجاجہ نے موبائل سائیڈ پہ رکھا اور آنکھیں موند لیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقاش بہت دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ ولید کچھ بدل سا گیا ہے ۔۔۔۔۔ بات بے بات ہنس پڑتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اس کا دھیان موبائل میں بھی کچھ زیادہ رہنے لگا ہے ۔۔۔۔۔ آج وہ سوچ کر آیا تھا کہ وجہ معلوم کر کے رہے گا ۔۔۔۔ وہ اچانک اس کے آفس ہی آ گیا ۔۔۔۔
"ہیلو ہینڈسم کزن " نقاش نے دروازہ کھولتے ہی ہانک لگائی ۔
"اوئے تم کدھر ۔۔۔۔ بتایا بھی نہیں " ولید حیران ہوا ۔
"بس میں تمہیں راہ فرار نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔"نقاش آنکھیں سکیڑ کر بولا
"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔ کیسی راہ فرار " ولید اس کی بات سمجھ نہیں پایا ۔
"شانتی شانتی ڈیئر برو ۔۔۔۔ جلدی کیا ہے " نقاش نے پیپر ویٹ گھماتے ہوئے کہا "پہلے کوئی چائے پانی تو منگواؤ"
"بھوکے ہی مرتے رہنا ہر وقت " ولید نے کہتے ہوئے انٹر کام اٹھا لیا ۔۔۔۔۔
"وہ لڑکی کون ہے " نقاش کا حملہ براہ راست تھا ۔۔۔۔
"کون لڑکی " ولید نے اپنے پیچھے دیکھتے ہوئے نا سمجھی سے کہا
"بس بس ولید حسن ۔۔۔۔۔ مانا تو معصوم ہے لیکن اتنا کاکا چوچا بھی نہیں کہ میری بات نہ سمجھ سکے " نقاش نے اس کی معصومیت کو اس انداز میں بیان کیا کہ وہ تلملا کے رہ گیا "اب سیدھا سیدھا بتا "
"یار وہ ۔۔۔۔۔" ولید کہتے کہتے رکا "وہ بس ہے کوئی ۔۔۔تجھے کیا لگے " ولید نے تیزی سے کہتے ہوئے فائل کھول لی ۔۔
"ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔۔ جیسے تمہاری مرضی " نقاش نے کندھے اچکائے "ویسے جنگل میں رہتے ہوئے شیر سے دشمنی مہنگی بھی پڑ سکتی ھے "
اس کی بات پر ولید کا قہقہہ بلند ہوا "بڑی چیز ھے تو ۔۔۔۔ماموں ٹھیک تجھے استاد کہتے ہیں "
نقاش نے کالر جھاڑے اور ولید کی بات کی طرف متوجہ ہو گیا جو اسے بتانے پر آمادہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ ولید کے ساتھ یونیورسٹی آئی تھی ۔۔۔۔ وہ بھی میم کے کہنے پر ۔۔۔ ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال کر رکھی تھی اور اس کی بہت ضروری کلاس تھی ۔۔۔۔۔ میم نے اسے پریشان دیکھا تو ولید کے ساتھ چلے جانے کا کہا
"نہیں میم ۔۔۔۔۔ اٹس اوکے ۔۔۔میں کچھ ارینج کرتی ہوں " اس نے انکار کرنا چاہا ۔
"دیکھیں بیٹا میں نے سارے سٹاف کو ہمیشہ اپنی فیملی ہی سمجھا ھے ۔۔۔۔ اور اگر انسان ہی انسان کے کام نہ آئے تو انسان ہونے کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ھے ۔۔۔۔ ولید ادھر ہی تو جا رہا ھے ۔۔۔۔۔آپ بھی چلی جاؤ ساتھ " انہوں نے اس انداز سے کہا کہ وہ منع نہ کر سکی ۔۔۔۔۔
ولید : "زجاجہ "
زجاجہ : "جی "
ولید : "گرمی تو نہیں لگ رہی "
زجاجہ : "گرمی وہ بھی نومبر میں " زجاجہ کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا
ولید : "میں نے سنا تھا محبت میں بندہ ہر چیز کا فرق بھول جاتا ھے ۔۔۔ اس لئے ذرا چیک کر رہا تھا "
زجاجہ اس کی شرارت پر محض دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
ولید : " اس دن میں نے shout کیا ۔۔۔۔ اس کے لئے سوری۔۔۔۔ اصل میں مجھے عادت نہیں ھے اس طرح کی باتوں کی اور محبت کا بھی پہلا experience ھے نا سو۔۔۔۔۔۔۔ "
"اٹس اوکے ۔۔۔۔۔ غلطی میری تھی ولید سر " زجاجہ اعتراف کرتے ہوئے بولی " میں اوور ری ایکٹ کر گئی تھی "
" ہمم ۔۔۔۔ مے بی ۔۔۔۔۔ لیکن مجھے اس طرح بی ہیو نہیں کرنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔۔ " وہ سچ میں شرمندہ ہو رہا تھا " یو نو زجی میں کبھی کبھی بہت جلدی ہائپر ہو جاتا ہوں ۔۔۔۔ پلیز آپ برداشت کرنا "
"آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں سر " وہ کنفیوز ہو گئی ۔۔۔"جو ہو گیا بھول جائیں "
"لیکن یقین کریں آپ کے بخار میں میرا کوئی ہاتھ نہیں تھا "
اس کی بات پر زجاجہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔۔۔ یونیورسٹی پہنچ کر وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے پاس اترتے ہوئے رک گئی
"مجھے آپ مت بولا کریں ولید سر ۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا "
"ہمم ۔۔۔۔۔۔ مشکل میں ڈال دیا ہے " وہ سر کھجانے لگا "چلو صحیح ہے ڈیل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں آپ نہیں بولوں گا اور آپ سکول سے باہر مجھے سر نہیں بولیں گی ۔۔۔۔ منظور ؟؟؟" ولید نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔۔۔ جو کچھ توقف کے بعد زجاجہ نے "اوکے " کہہ کر تھام لیا ۔۔۔۔
"واپسی پہ ادھر سے ہی پک کر لوں گا ۔۔۔۔۔ ٹیک کیئر " ولید نے کہتے ہوئے گاڑی پارکنگ کی طرف بڑھا دی ۔۔۔۔ جبکہ اس کی "دیوانی " وہیں کھڑی اس راستے کو دیکھتی رہی جدھر وہ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"داستان کا آغاز کئی سو سال پہلے ان پلیٹوں سے ہوا تھا جو ایک مدفون شہر کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئی تھیں اور ان پر ایک داستان لکھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ داستان ایک شہزاد ے کی تھی جس کا نام گل گامش تھا اور جو اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک شیطان کا مقابلہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔ "پروفیسر سہیل کی آواز ہال میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ سب سٹوڈنٹس بہت غور سے لیکچر سن رہے تھے ۔۔۔۔
"بیا میں ولید سر کے ساتھ واپس جاؤں گی ۔۔۔۔۔ ہی ول ڈراپ می " اس نے سر گوشی میں بیا کو بتایا
"میں بھی چلوں گی ساتھ " بیا نے سکون سے جواب دیا ۔
"تم کیوں چلو گی" اس نے حیرت کا اظہار کیا ۔
" کیونکہ مجھے تم پہ اعتبار نہیں ہے " بیا نے شرارت سے آنکھ دبائی تو وہ کچھ دیر ناسمجھی کی کیفیت میں اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔ اور سمجھ آنے پر اس کی پسلیوں میں زور دار کہنی مارتے ہوئے غصے سے بولی
"شرم کر بےشرم عورت ۔۔۔۔۔۔ تجھے میں ایسی دکھتی ہوں "
"ایسی دکھتی نہیں ہو ۔۔۔۔یہی تو مسئلہ ہے نا " بیا اپنا پہلو سہلاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ زجاجہ دانت پیس کر رہ گئی ۔
کلاس ختم ہوئی تو ڈیپارٹمنٹ کے باہر اس نے ولید کو اپنا منتظر پایا ۔۔۔۔ آج ولید حسن فل بلیک میں تھا۔۔۔۔۔۔ بلیک پینٹ شرٹ کے ساتھ بلیک جیکٹ پہنے ۔۔۔۔۔ بلیک سن گلاسز لگائے وہ نظر لگنے کی حد تک شاندار لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ زجاجہ نے اسے نظر بھر دیکھا لیکن اگلے ہی پل نظر لگ جانے کے خیال سے آنکھیں جھکا لیں ۔۔۔۔۔۔ وہ اور بیا گاڑی کے پاس آ کر رک گئیں ۔۔۔۔بیا نے ولید کو سلام کر کے ڈراپ کرنے کی ریکویسٹ کی تو ولید نے "شیور " کہتے ہوئے دروازہ کھول دیا ۔۔۔۔۔
"وہ دیکھو میمونہ " بیا نے زجاجہ کی توجہ سامنے سے آتی میمونہ کی طرف موڑی تو زجاجہ کے ماتھے پر شکن پڑ گئی
"چلیں ولید سر " اس نے ولید سے چلنے کو کہا ۔۔۔
ولید بھی میمونہ کو دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔ اور زجاجہ کا موڈ بھی بھانپ چکا تھا لیکن وہ کوئی بدمزگی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔ اس لئے خاموشی سے گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔