(مولوی اکرام الدین مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ پہلوان اور انوار آتے ہیں۔ دونوں الگ بیٹھ جاتے ہیں۔ مولوی نماز پڑھنے کے بعد پیچھے مڑتے ہیں۔)
پہلوان: سلام علیکم مولوی صاحب۔
مولوی: وعلیکم السلام۔۔۔ کہو بھائی کیسے ہو۔
پہلوان: جی شکر ہے اللہ کا، ٹھیک ہوں۔
مولوی: محلے پڑوس میں خیریت ہے؟
پہلوان: جی ہاں۔۔۔ شکر ہے۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔
(پہلوان خاموش ہو جاتا ہے۔ مولوی کو لگتا ہے کہ وہ کچھ پوچھنا چاہتا ہے لیکن خاموش ہے۔)
مولوی: کیا کچھ بات کرنا چاہتے ہو۔
پہلوان: (سٹپٹا کر) جی ہاں۔۔۔ بات ہے جی اور بہت بڑی بات ہے۔۔۔
مولوی: کیا بات ہے؟
پہلوان: اپنے محلے میں ایک ہندو عورت رہ گئی ہے۔
مولوی: رہ گئی ہے، مطلب؟
پہلوان: بھارت نہیں گئی ہے۔
مولوی: تو؟
پہلوان: (گھبرا کر) ت۔۔۔ تو۔۔۔ یہیں چھپ گئی ہے۔ بھارت نہیں گئی ہے۔
مولوی: تو پھر؟
پہلوان: کیا ہندو عورت یہاں رہ سکتی ہے؟
مولوی: (ہنس کر) ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیوں نہیں۔
انوار: کچھ سمجھے نہیں ملا جی۔
مولوی: وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ ۔۔۔ حکم خداوندی ہے کہ اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دو۔
پہلوان: ملا جی وہ کافرہ بھارت چلی جائے گی تو اس مکان میں ہمارا کوئی مسلمان بھائی رہے گا۔
مولوی: کیا مسلمان بھائی کے لیے اللہ کا حکم قابل قبول نہیں ہے۔
(دونوں کے منھ لٹک جاتے ہیں۔)
پہلوان: ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل عام دیکھا ہے۔ ہمارے دلوں میں بدلے کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ہم کسی کافر کو اس ملک میں نہیں رہنے دیں گے۔
مولوی: ارشاد ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔۔ ۔۔ ۔۔ اور جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، خدا اس پر رحم نہیں کرتا۔
(پہلوان اور انوار خاموش ہو جاتے ہیں اور اپنے سر جھکا لیتے ہیں۔)
مولوی: میں تم دونوں کو نماز کے وقت نہیں دیکھتا۔ پابندی سے نماز پڑھا کرو۔۔۔ مجاہد وہ ہیں جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔۔۔ سمجھے؟
پہلوان: جی۔۔۔
انوار: اچھا تو ہم۔۔۔ چلیں صاحب۔۔۔
مولانا: جاؤ۔۔۔ السلام علیکم۔
دونوں: وعلیکم سلام۔