(سکندر مرزا بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ دروازے پر کوئی دستک دیتا ہے۔)
سکندر مرزا: آئیے۔۔۔ تشریف لائیے۔
(پہلوان یعقوب کے ساتھ انور، سراج، رضا اور محمد شاہ اندر آتے ہیں۔)
سب ایک ساتھ: سلام علیکم۔۔۔
سکندر مرزا: وعلیکم سلام۔۔۔ تشریف رکھیے۔
(سب بیٹھ جاتے ہیں۔)
پہلوان: آپ کا اسمِ شریف سکندر مرزا ہے نا؟
سکندر مرزا: جی ہاں۔
پہلوان: یہ کوچہ جوہریاں میں رتن لال جوہری کی حویلی ہے نا؟
سکندر مرزا: جی ہاں بیشک۔
پہلوان: یہ میرے دوست ہیں محمد شاہ۔ ان کو حویلی کی دوسری منزل الاٹ ہو چکی ہے۔
محمد شاہ: حویلی کی پہلی منزل تو آپ کے قبضہ میں نہیں ہے نا؟
سکندر مرزا: یہ آپ کو کس نے بتایا؟
پہلوان: آپ کے بیٹے جاوید کہہ رہے تھے کہ اوپری منزل میں رتن لال جوہری کی ماں رہ رہی ہے۔ مطلب پاکستان کے بھی شہرِ لاہور میں ایک کافرہ۔۔۔
سکندر مرزا: اچھا تو آپ وہی ہیں جن سے جاوید کی بات ہوئی تھی۔
پہلوان: جی ہاں، جی ہاں۔۔۔
سکندر مرزا: تو جناب پہلوان صاحب، آپ کے نام اوپری منزل الاٹ نہیں ہوئی ہے۔۔۔ آپ بس اس پر قبضہ۔۔۔
پہلوان: آپ ٹھیک سمجھے۔۔۔ کافرہ کے رہنے سے تو اچھا ہے کہ اپنا اپنا کوئی مسلمان بھائی رہے۔
سکندر مرزا: لیکن یہ پوری حویلی مجھے الاٹ ہوئی ہے۔
پہلوان: ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے لیکن قبضہ تو نہیں ہے آپ کا اوپری منزل پر۔
سکندر مرزا: آپ کو اس سے کیا مطلب۔
پہلوان: اس کا تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ آپ نے ایک ہندو کافرہ کو اپنے گھر میں چھپا رکھا ہے۔
سکندر مرزا: تو تم مجھے دھمکا رہے ہو جوان۔
رضا: جی نہیں، بات در اصل یہ ہے۔۔۔
سکندر مرزا: (بات کاٹ کر) کہ اوپر کے گیارہ کمرے کیوں نہ آپ لوگوں کے قبضہ میں آ جائیں۔۔۔
پہلوان: ہم تو اسلامی برادری کے ناطے آپ کی مدد کرنے آئے تھے۔ لیکن آپ کو مسلمان سے زیادہ کافر پیارا ہے۔
سکندر مرزا: محمد شاہ صاحب۔ آپ کسٹوڈین والوں کو بلا کر لے آئین۔۔۔ وہ آپ کو قبضہ دلا سکتے ہیں۔۔۔ اس بات میں اسلام اور کفر کہاں سے آ گیا۔
پہلوان: مرزا صاحب آپ بتا سکتے ہیں کہ کیا پاکستان اسی لیے بنا تھا کہ یہاں کافر رہیں؟
سکندر مرزا: یہ آپ پاکستان بنوانے والوں سے پوچھیے۔
پہلوان: مرزا صاحب ہم یہ گوارہ نہیں کر سکتے کہ شہرِ لاہور کے کوچہ جوہریاں میں کوئی کافر دندناتا پھرے۔
سکندر مرزا: جناب والا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔
پہلوان: ہماری مدد کیجئے۔۔۔ ہم ایک منٹ میں اوپری منزل کا فیصلہ کئے دیتے ہیں۔ وہاں اس کافرہ کی جگہ محمد شاہ۔۔۔
سکندر مرزا: دیکھیے حویلی پوری کی پوری میرے نام الاٹ ہوئی ہے۔
پہلوان: چاہے اس میں کافرہ ہی کیوں نہ رہے۔۔۔ آپ۔۔۔
سکندر مرزا: مشورے کے لیے شکریہ۔
پہلوان: مرزا، تو پھر ایسا نہ ہو سکے گا جیسا آپ چاہتے ہیں۔۔۔ کسی کافرہ کے وجود کو یہاں نہیں برداشت کیا جائے گا۔۔۔
(اٹھتے ہوئے سب سے)
چلو۔
(سکندر مرزا حیرت اور ڈر سے سب کو دیکھتے ہیں۔ وہ چلے جاتے ہیں۔ کچھ لمحے بعد حمیدہ بیگم اندر آتی ہیں۔)
حمیدہ بیگم: کیوں صاحب یہ کون لوگ تھے۔۔۔ اونچی آواز میں کیا باتیں کر رہے تھے؟
سکندر مرزا: یہ وہی بدمعاش تھا جس سے جاوید نے بات کی تھی۔
حمیدہ بیگم: لیکن۔
سکندر مرزا: ہاں، پھر جاوید نے اسے منع کر دیا تھا۔ صاف کہہ دیا تھا کہ ایسا ہم نہیں چاہتے۔۔۔ لیکن کمبخت کو گیارہ کمروں کا لالچ یہاں کھینچ لایا۔
حمیدہ بیگم: کیا مطلب؟
سکندر مرزا: پہلے کہنے لگا کہ اسے اوپری منزل کے گیارہ کمرے کسٹوڈین والوں نے الاٹ کر دیے ہیں۔
حمیدہ بیگم: ہائے اللہ۔۔۔ یہ کیسے۔۔۔ ایک مکان دو آدمیوں کو کیسے الاٹ ہو سکتا ہے؟
سکندر مرزا: وہ سب جھوٹ ہے۔۔۔
حمیدہ بیگم: پھر۔
سکندر مرزا: پھر اسلام کا خادم بن گیا۔ کہنے لگا پاکستان کے شہر لاہور میں کوئی کافرہ کیسے رہ سکتی ہے۔۔۔ جاتے جاتے دھمکی دے گیا ہے کہ رتن جوہری کی ماں کا کام تمام کر دے گا۔
حمیدہ بیگم: ہائے اللہ۔۔۔ اب کیا ہو گا۔
سکندر مرزا: آدمی بدمعاش ہے۔۔۔ میرے خیال سے اسے شک ہے کہ رتن کی ماں نے کچھ چھپا رکھا ہے۔۔۔ در اصل اس کی نظر اسی پر ہے۔
حمیدہ بیگم: ہائے تو کیا مار ڈالے گا بچاری کو؟
سکندر مرزا: کچھ بھی کر سکتا ہے۔
حمیدہ بیگم: یہ تو بڑا برا ہو گا۔
سکندر مرزا: اجی پھنسیں گے تو ہم۔۔۔ وہ تو مار مور اور لوٹ کھا کر چل دے گا۔۔۔ پھنس جائیں گے ہم لوگ۔
حمیدہ بیگم: ہائے اللہ پھر کیا کروں۔
سکندر مرزا: رات میں دروازے اچھی طرح بند کر کے سونا۔
حمیدہ بیگم: سنیے، ان کو بتاؤں یا نہ بتاؤں۔
(سکندر مرزا سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔)
حمیدہ بیگم: بتانا تو ہمارا فرض ہے۔
سکندر مرزا: کہیں وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ سب ہماری چال ہے؟
حمیدہ بیگم: تو، یہ تم نے اور الجھن میں ڈال دیا۔
سکندر مرزا: ایسا کرو کہ ان کی حفاظت کا پورا انتظام اس طرح کرو کہ انہیں پتہ نہ لگنے پائے۔
حمیدہ بیگم: یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
سکندر مرزا: یہی تو سوچنا ہے۔
حمیدہ بیگم: ہائے اللہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔ کیا میں فریادی ماتم پڑھوں۔۔۔
سکندر مرزا: امام باڑا کہاں ہے گھر میں۔۔۔ خیر۔۔۔ دیکھو۔۔۔ وہ اکیلی رہتی ہیں۔۔۔ ان کے ساتھ کسی مرد کا رہنا۔۔۔
حمیدہ بیگم: مطلب تم۔۔۔
سکندر مرزا: (گھبرا کر) نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ جاوید۔۔۔
حمیدہ بیگم: وہ جاوید کو اوپر کیوں سلائیں گی۔۔۔ اور جاوید کو میں ویسے بھی نہیں جانے دوں گی۔
سکندر مرزا: ضد مت کرو۔
حمیدہ بیگم: کیا چاہتے ہو۔۔۔ میرا اکلوتا لڑکا تھا۔۔۔
سکندر مرزا: بکواس مت کرو۔
حمیدہ بیگم: پھر کیا کروں۔
سکندر مرزا: (ڈرتے ڈرتے) تم وہاں۔۔۔ اس کے ساتھ سو جاؤ۔۔۔
حمیدہ بیگم: (جل کر) لو مرد ہو کر مجھے آگ کے منہ میں جھونک رہے ہو۔
سکندر مرزا: (جھنجھلا کر) ارے تو میں۔۔۔ وہاں سو بھی نہیں سکتا۔
حمیدہ بیگم: ٹھیک ہے تو میں ہی اوپر جاتی ہوں۔
سکندر مرزا: نہیں۔
حمیدہ بیگم: یہ لو۔۔۔ اب پھر نہیں۔
سکندر مرزا: ٹھیک ہے، دیکھو ان سے کہنا۔۔۔
حمیدہ بیگم: ارے مجھے اچھی طرح معلوم ہے ان سے کیا کہنا ہے کیا نہیں کہنا۔