(سکندر مرزا، حمیدہ بیگم، تنو اور جاوید خاموش بیٹھے ہیں سب سوچ رہے ہیں۔)
حمیدہ بیگم: تو کسٹوڈین والے موئے بولے کیا؟
سکندر مرزا: بھئی وہی تو بتایا تمہیں۔۔۔ انہوں نے کہا اس معاملے کو آپ اپنے طور پر ہی سجھا لیں تو آپ کا فائدہ ہے۔ کیونکہ اگر آپ نے اس کی شکایت کی تو سندھی کسٹوڈین آفیسر آپ سے یہ مکان چھین کر کسی سندھی کو دے دے گا۔
حمیدہ بیگم: واہ بھائی واہ یہ خوب رہی۔۔۔ مارے بھی اور رونے بھی نہ دے۔
سکندر مرزا: یہ سب چھوڑو، اب یہ بتاؤ کہ ان محترمہ سے کیسے نپٹا جائے۔
حمیدہ بیگم: اے میں اس حرامزادی کو چوٹی پکڑ کر باہر نکالے دیتی ہوں۔۔۔ ہو گیا قصہ۔
جاوید: اور کیا ہمارے پاس سارے کاغذات ہیں۔
سکندر مرزا: کاغذات تو اس کے پاس بھی ہیں۔
تنو: اس کے کاغذات زیادہ اہم ہیں۔
جاوید: کیوں؟
تنو: بھیا، اگر کوئی شخص ادھر سے ادھر آیا گیا نہیں تو اس کی جائداد کسٹوڈین میں کیسے چلی جائے گی۔
سکندر مرزا: ہاں، فرض کرو بڑھیا کو ہم نکال دیتے ہیں اور وہ پولس میں جا کر رپٹ لکھواتی ہے کہ وہ بھارت نہیں گئی ہے اور اس کی حویلی پر کسٹوڈین کو کوئی اختیار نہیں، کیا ہو گا۔
حمیدہ بیگم: پھر کیا کیا جائے۔
سکندر مرزا: بڑھیا چلی بھی جائے اور ہائے توبہ بھی نہ مچے۔۔۔ جاوید میاں اسے چپ چاپ لے جائیں اور ہندوؤں کے کیمپ میں چھوڑ آئیں۔
حمیدہ بیگم: تو بلاؤں اسے؟
سکندر مرزا: رک جاؤ۔۔۔ بات پوری طرح سمجھ لو۔۔۔ دیکھو اس سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اب صرف مسلمان ہی رہ سکیں گے۔۔۔ اور اسے یہاں رہنے کے لیے مذہب بدلنا پڑے گا۔۔۔ یہ کہنے پر ہو سکتا ہے وہ بھارت جانے کے لیے تیار ہو جائے۔
حمیدہ بیگم: سمجھ گئی۔۔۔ تنو بیٹی جاؤ جا کر اسے آواز دو۔
تنو: کیا کہہ کر آواز دوں۔۔۔ بڑی بی کہہ کر پکاروں۔
حمیدہ بیگم: اے اپنا کام نکالنا ہے، دادی کہہ کر آواز دے دینا، بڑھیا خوش ہو جائے گی۔
(تنو لوہے کی سلاخوں والے دروازے کے پاس جا کر آواز دیتی ہے)
تنو: دادی۔۔۔ دادی۔۔ سنیے دادی۔۔۔
(اوپر سے بڑھیا کی کانپتی ہوئی آواز آتی ہے۔)
رتن کی ماں: کون اے۔۔۔ کون آواز دے ریا اے۔
تنو: میں ہوں دادی تنو۔۔۔ نیچے آئیے۔۔۔
رتن کی ماں: آندیاں بیٹی آندیاں۔
(رتن کی ماں دروازے پر آ جاتی ہے)
رتن کی ماں: اج کنیاں دناں بعد حویلی ہچ دادی دادی دی آواز سنی اے۔ (کانپتی آواز میں) اپنی پوتری رادھا دی یاد آ گئی۔۔۔
تنو: (گھبرا کر) دادی، ابا اور اماں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔
(رتن کی ماں دروازہ کھول کر آ جاتی ہے اور تنو کے ساتھ چلتی وہاں تک آتی ہے جہاں سکندر مرزا اور حمیدہ بیگم بیٹھے ہیں)
سکندر مرزا: آداب عرض ہے۔۔۔ تشریف رکھیے۔
حمیدہ بیگم: آئیے بیٹھیے۔
رتن کی ماں: جیندے رہو۔۔۔ بیٹا جیندے رہو۔۔۔ تواڈی کڑی نے اج میں نوں دادی کہہ کے پکاریا (آنکھ سے آنسو پونچھتی ہوئی)
سکندر مرزا: معاف کیجئے آپ کے جذبات کو مجروح کرنا ہمیں منظور نہ تھا۔ ہم آپ کا دل نہیں دکھانا چاہتے تھے۔۔۔
رتن کی ماں: نئی۔۔۔ نئی۔ دل کتھے دکھ یا ہے۔ اس سے میں نوں خوش کر دیتا اے ۔۔۔ بہت خوش۔
سکندر مرزا: دیکھیے ۔۔۔ آپ ہماری مجبوری کو سمجھئے ۔۔۔ ہم وہاں سے لٹے پٹے آئے ہیں ۔۔۔ مال و دولت لٹ گیا۔۔۔ بےسہارا اور بے مدد گار یہاں کے کیمپ میں مہینوں پڑے رہے۔۔۔ کھانے کا ٹھیک نہ سونے کا ٹھکانا۔۔۔ اب خدا خدا کر کے ہمیں یہ مکان الاٹ ہوا ہے۔۔۔ اپنے لیے نہ سہی بچوں کی خاطر ہی سہی اب لاہور جمنا ہے۔ لکھنؤ میں میرا چکن کا کار خانہ تھا۔ یہاں دیکھیے اللہ کس طرح روزی روٹی دیتا ہے۔۔۔
حمیدہ بیگم: اماں، ہم نے بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ اتنا د کھ اٹھایا ہے کہ اب رونے کے لیے آنکھ میں آنسو بھی نہیں ہیں۔
رتن کی ماں: بیٹی، تسی فکر نہ کرو۔۔۔ میرے کولوں جو ہو سکے گا، کراں گی۔
حمیدہ بیگم: دیکھیے ہماری آپ سے یہی گزارش ہے کہ یہ حویلی ہمیں الاٹ ہو چکی ہے۔۔۔ اور پاکستان بن چکا ہے۔۔۔ آپ ہندو ہیں۔۔۔ آپ کا یہاں رہنا ٹھیک بھی نہیں ہے۔۔۔ آپ مطلب۔۔۔
سکندر مرزا: بغیر جڑ کے درخت کب تک ہرا بھرا رہ سکتا ہے؟ آپ کے عزیز رشتے دار، محلے دار سب ہندوستان جا چکے ہیں۔۔۔ اب وہی آپ کا ملک ہے۔۔۔ یہاں کب تک رہئے گا؟
حمیدہ بیگم: ابھی تک تو پھر بھی غنیمت ہے۔۔۔ لیکن سنتے ہیں پاکستان میں جتنے بھی غیر مسلم رہ جائیں گے انہیں زبردستی مسلمان بنایا جائے گا۔۔۔ اس لئے۔۔۔
رتن کی ماں: بیٹی، کوئی بار بار نہیں مرتا۔۔۔ میں مر چکی ہاں میں نوں پتہ ہے پتہ ہے تے اوسدے بیوی بچہ ہون اس دنیاں وچ نئی نیں۔۔۔ موت اور زندگی وچ میرے واسطے کوئی فرق نئی بچیا۔
سکندر مرزا: لیکن۔۔۔
رتن کی ماں: حویلی توہاڈے ناں الاٹ ہو گئی ہے۔ تسی رہو۔ توانوں رہن توں کون روک ریا ہے۔۔۔ جتھوں تک میری حویلی توں نکل جان دا سوال اے۔۔۔ میں پہلے ہی منع کر چکی آں۔۔۔
سکندر مرزا: (غصے میں) دیکھیے آپ ہمیں غیر مناسب حرکت کرنے کے لیے مجبور۔۔۔
رتن کی ماں: اگر تسیں ایس طراں ای سمجھدے ہوتے جو مرجی آئے کرو۔۔۔
(رتن کی ماں اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف چلی جاتی ہے۔)
حمیدہ بیگم: نہایت سخت دل عورت ہے، ڈائن۔
تنو: کسی بات پر تیار ہی نہیں ہوتی۔
جاوید: ابا جان اب مجھے اجازت دیجیے۔
سکندر مرزا: ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ تم جو چاہو کرو۔۔۔
حمیدہ بیگم: لیکن خطرہ نہ اٹھانا بیٹا۔
جاوید: (ہنس کر) خطرہ۔۔۔