(کسٹوڈین آفیسر کا دفتر۔ دوچار میزوں پر کلرک بیٹھے ہیں۔ سامنے دروازے پر ’کسٹوڈین آفیسر‘ کا بورڈ لگا ہے۔ دروازے پر خان چوکیدار نما چپراسی بیٹھا ہے۔ آفس میں بڑی بھیڑ ہے۔ سکندر مرزا کسی کلرک سے باتیں کر رہے ہیں۔ اچانک کلرک زوردار قہقہہ لگاتا ہے۔ دوسرے کلرک چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔)
کلرک 1: ہا ہا ہا۔۔۔ یہ بھی خوب رہی۔۔۔ (دوسرے کلرکوں سے) ارے یارو کام تو ہوتا ہی رہے گا ہوتا ہی آیا ہے، ذرا تفریح بھی کر لو۔۔۔ یہ بھائی جان ایک بڑی مصیبت میں پڑ گئے ہیں۔ ان کی مدد کرو۔
کلرک 2: بائیس کمروں کی حویلی الاٹ کرانے کے بعد بھی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔
کلرک 3: ارے یہ تو بائیس کمروں کی حویلی کا کباڑ ہی نیلام کر دیں تو پریشانیاں بھاگ کھڑی ہوں۔
(کلرک ہنستے ہیں۔)
کلرک 1: میاں، ان کی جان کے لالے پڑے ہیں اور آپ لوگ ہنستے ہیں۔
کلرک 2: اماں صاف صاف بتاؤ۔۔۔ پہیلیاں کیوں بجھا رہے ہو۔
سکندر مرزا: جناب بات یہ ہے کہ جو حویلی مجھے الاٹ ہوئی ہے اس میں ایک بڑھیا رہ رہی ہے۔
کلرک 2: کیا مطلب؟
سکندر مرزا: میں اس میں۔۔۔ مطلب حویلی خالی ہی نہیں ہے۔۔۔ وہ مجھے الاٹ کیسے ہو سکتی ہے۔
کلرک 3: ہم سمجھے نہیں آپ کو پریشانی کیا ہے۔
سکندر مرزا: ارے صاحب، حویلی میں ایک بڑھیا رونق افروز ہے۔۔۔ کہتی ہے ان کے رہتے وہاں کوئی اور رہ نہیں سکتا۔۔۔ مجھے پولس دیجیے۔۔۔ تاکہ میں اس کمبخت سے حویلی خالی کرا سکوں۔
کلرک 1: مرزا صاحب ایک بڑھیا کو حویلی سے نکالنے کے لیے آپ کو پولس کی درکار ہے۔
سکندر مرزا: پھر میں کیا کروں؟
کلرک 2: کریں کیا۔۔۔ ہٹوا دیجیے اسے۔
سکندر مرزا: جی مطلب۔۔۔
کلرک 2: اب ’ہٹوا‘ دینے کا تو میں آپ کو مطلب بتا نہیں سکتا؟
کلرک 3: جناب مرزا صاحب آپ چاہتے کیا ہیں۔
سکندر مرزا: بڑھیا حویلی سے چلی جائے۔۔۔ اسے کیمپ میں داخل کرا دیا جائے اور وہ ہندوستان۔۔۔
کلرک 3: ہندوستان نہیں بھارت کہئے۔۔۔ بھارت۔۔۔
سکندر مرزا: جی بھارت بھیج دی جائے۔
کلرک 3: تو آپ اس کی درخواست کسٹم آفیسر سے کریں گے۔۔۔
سکندر مرزا: جی جناب۔۔۔ میں درخواست لایا ہوں۔
(جیب سے درخواست نکالتا ہے۔)
کلرک 1: مرزا صاحب آپ جانتے ہیں ہمارے کسٹوڈین آفیسر جناب علی محمد صاحب کیا تحریر فرمائیں گے؟
سکندر مرزا: کیا؟
کلرک 1: وہ لکھیں گے۔۔۔ آپ کے نام دوسرا مکان الاٹ کر دیا جائے۔
سکندر مرزا: ج۔۔۔ ج۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ دوسرا۔
کلرک 1: اور بائیس کمروں کی حویلی کو اپنے کسی سندھی عزیز کی جیب میں ڈال دے گا۔۔۔
سکندر مرزا: کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔
کلرک 2: جناب آپ قسمت والے ہیں جو دھپل میں آپ کو اتنی بڑی حویلی شہرے لاہور کے دل کوچہ جوہریاں میں مل گئی۔
کلرک 2: آپ کے درخواست دیتے ہی آپ اور بڑھیا دونوں پہنچ جائیں گے کیمپ میں اور کوئی سندھی بائیس کمروں کی حویلی میں دندناتا پھرے گا۔
سکندر مرزا: کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ کیا کروں۔
کلرک 1: ارے چپ بیٹھیے۔
سکندر مرزا: اور بڑھیا؟
کلرک 3: ارے صاحب بڑھیا نہ ہوئی شیر ہو گیا۔۔۔ کیا آپ کو کھائے جا رہی ہے؟ کیا آپ کو مارے ڈال رہی ہے؟ کیا آپ کو حویلی سے نکال دے رہی ہے؟ نہیں، تو بیٹھیے۔۔۔ آرام سے۔
کلرک 1: کیا عمر بتاتے ہیں آپ؟
سکندر مرزا: پینسٹھ سے اوپر ہے۔
کلرک 1: ارے جناب تو بڑھیا آب حیات پیے ہوئے تو ہو گی نہیں۔۔۔ دوچار سال میں جہنم واصل ہو جائے گی۔۔۔ پوری حویلی پر آپ کا قبضہ ہو جائے گا۔۔۔ آرام سے رہئے گا آپ۔ قسم خدا کی بلا وجہ پریشان ہو رہے ہیں۔
سکندر مرزا: بجا فرماتے ہیں آپ۔۔۔ کیمپ میں گزارے دو مہینے یاد آ جاتے ہیں تو چاروں طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ الامان و الحفیظ۔۔۔ اب میں کسی قیمت پر حویلی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
کلرک 2: اجی مرزا صاحب ایک بڑھیا کو نہ را ہِ راست پر لا سکے تو پھر حد ہے۔
سکندر مرزا: آ جائے گی۔۔۔ آ جائے گی۔۔۔ وقت لگے گا۔
کلرک 1: ارے صاحب اور کچھ نہیں تو یعقوب صاحب سے بات کر لیجئے۔۔۔ جی ہاں یعقوب خان۔۔۔ پورا کام بنا دیں گے ایک جھٹکے میں۔۔۔
(انگلی گردن پر رکھ کر گردن کٹنے کی آواز نکالتا ہے۔)