(سکندر مرزا کے مکان کے ایک کمرے میں فرش پر رتن کی ماں کی لاش رکھی ہے۔ کمرے میں سکندر مرزا، مولانا، ناصر کاظمی، ہدایت حسین، کبن، تقی، جاوید اور ایک دو اور لوگ بیٹھے ہیں۔)
سکندر مرزا: مولانا سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ مرحومہ کو جلایا کہاں جائے کیوں کہ قدیمی شمشان تو اب رہا نہیں۔
ہدایت: اور جناب ان لوگوں کی دوسری رسمیں کیا ہوتی ہیں یہ ہمیں کیا معلوم؟
مولانا: دیکھیے شمشان اگر نہیں رہا تو راوی کا کنارا تو ہے۔ ہم مرحومہ کی لاش کو راوی کے کنارے کسی غیر آباد اور سنسان جگہ لے کر سپرد آتش کر سکتے ہیں۔
کبن: کیا یہ ان کے مذہب کے مطابق ہو گا؟
مولانا: بیشک۔ ہندو اپنے مردوں کو ندی کے کنارے جلاتے ہیں اور پھر خاک دریا میں بہا دیتے ہیں۔
تقی: لیکن اور بھی تو سیکڑوں رسمیں ہوتی ہوں گی۔۔۔ مثال کے طور پر کفن کیسے لیا جاتا ہے۔
ناصر: بھئی آپ لوگ شاید نہ جانتے ہوں، انبالہ میں میرے بہت سے دوست ہندو تھے، ان کے یہاں کفن کاٹا یا سیا نہیں جاتا بلکہ ایک بڑے ٹکڑے میں مردے کو لپیٹا جاتا ہے۔
ہدایت: اس کے بعد؟
تقی: بھئی اس کے بعد تو ٹھٹھری پر رکھ کر گھاٹ لے جاتے ہوں گے۔
کبن: ٹھٹھری کیسے بنتی ہے؟
مولانا: ٹھٹھری سمجھو یہ ایک قسم کی سیڑھی ہوتی ہے جس میں تین ڈنڈے لگے ہوتے ہیں۔
کبن: تو ٹھٹھری بنانے کا کام تو کیا ہی جا سکتا ہے۔۔۔ آپ حضرات کہیں تو میں بانس وغیرہ لا کر ٹھٹھری بناؤں۔
سکندر مرزا: ہاں ہاں ضرور۔
(کبن باہر نکل جاتے ہیں۔)
تقی: لکڑیوں کو راوی کے کنارے پہنچانے کی ذمے داری میں لے سکتا ہوں۔
مولانا: بسم اللہ تو آپ راوی کے کنارے لکڑیاں پہنچوائیے۔
(تقی بھی باہر چلے جاتے ہیں۔)
سکندر مرزا: مولانا مجھے یاد آتا ہے کہ ہندو مردے کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی جلاتے ہیں۔۔۔ شاید آم کی پتیاں۔۔۔
مولانا: آم ہی نہیں، بلکہ پتیاں بھی جلائی جاتی ہیں۔
سکندر مرزا: (جاوید سے) جاوید بیٹا، تم یہ پتیاں لے آؤ۔
ہدایت: کیا ان کے یہاں مردے کو نہلایا بھی جاتا ہے۔
مولانا: یہ مجھے علم نہیں؟
ناصر: جی ہاں نہلایا جاتا ہے۔
ہدایت: کیسے؟
ناصر: یہ تو مجھے نہیں معلوم۔
مولانا: بھئی نہلانے سے مراد یہی کہ مردہ پاک ہو جائے اور اس کے ساتھ کوئی غلاظت نہ رہے۔
سکندر مرزا: جی ہاں اور کیا۔۔۔
مولانا: تو مرزا صاحب یہ کام تو گھر ہی میں ہو سکتا ہے۔
سکندر مرزا: جی ہاں بیشک۔۔۔ دیکھیے میں بیگم سے کہتا ہوں۔
(سکندر مرزا اندر جاتے ہیں۔)
مولانا: ناصر صاحب پتیوں کے علاوہ اور کن کن چیزوں کا استعمال ہوتا ہے۔
ناصر: ہاں یاد آیا جناب۔۔۔ اصلی گھی ڈال کر مردہ جلایا جاتا ہے اور بڑا لڑکا آگ لگاتا ہے۔
مولانا: مرحومہ کا کوئی لڑکا تو یہاں ہے نہیں۔
ناصر: سکندر مرزا صاحب کو وہ لڑکے کے برابر مانتی تھیں۔ یہ کام انہیں کو کرنا چاہیئے۔
صاحب 1: مولانا ہندو مردے کے ساتھ ہون کی چیزیں بھی جلاتے ہیں۔
مولانا: ہون کی چیزوں میں کیا کیا ہوتا ہے؟
صاحب 1: جناب یہ تو مجھ نہیں معلوم۔
(سکندر مرزا آتے ہیں۔)
مولانا: مرزا صاحب ہون میں کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں، آپ کو معلوم ہے۔
صاحب 1: نہیں یہ تو نہیں معلوم۔
مولانا: دیکھیے اب اگر کوئی رسم رہ بھی جاتی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(کبن ٹھٹھری لے کر آتے ہیں۔ اسے سب دیکھتے ہیں۔)
مولانا: اندر بھجوا دیجیے۔
(کبن ٹھٹھری سکندر مرزا کو دے دیتے ہیں۔)
مولانا: ہون کی جو چیزیں باقی رہ گئی ہیں انہیں مرزا صاحب آپ حاصل کر لیجئے۔ دس بجے تک انشا اللہ جنازہ لے چلیں گے۔
کبن: مولانا، جنازے کے ساتھ رام نام ست ہے، یہی تمہاری گت ہے۔ کہتے ہوئے جانا پڑے گا۔
مولانا: ہاں بھائی یہ تو ہوتا ہی ہے۔۔۔ اچھا تو میں ایک گھنٹے بعد آتا ہوں۔
(اٹھتے ہیں۔)