(آدھی رات بیت چکی ہے۔ علیم کے ہوٹل میں سناٹا ہے۔ وہ ایک بنچ پر پڑا سو رہا ہے۔ ناصر اور حمید آتے ہیں)
ناصر: (حمید سے) لگتا ہے یہ تو سو گیا۔۔۔ (زور سے) علیم۔۔۔ ارے بھئی سو گئے کیا؟
علیم: ابھی ابھی آنکھ لگی تھی کہ۔۔۔ ناصر صاحب۔۔۔ آئیے۔۔۔
ناصر: سو جاؤ۔۔۔ لیکن یار چائے پینی تھی۔۔
حمید: بھٹی تو سلگ رہی ہے۔
ناصر: تو ٹھیک ہے یار تم سو، ہم لوگ چائے بنا لیں گے۔ کیوں حمید۔
حمید: ناصر صاحب بڑھیا چائے پلاؤں گا۔
ناصر: اماں علیم ایک کپ تم بھی پی لینا۔
علیم: نیند اڑ جائے گی ناصر صاحب۔
ناصر: اماں نیند بھی کوئی پری ہے جو اڑ جائے گی۔۔۔ چائے پی کر سو جانا اور سونے کا موڈ نہ بنے تو ہمارے ساتھ چلنا۔۔۔ لاہور سے ملاقات تو رات میں ہی ہوتی ہے۔
حمید: (حمید پانی بھٹی پر رکھتا ہے) کڑک چائے پئیں گے ناصر صاحب۔
ناصر: بھئی ہم تو کڑک کے ہی قائل ہیں کڑک چائے، چائے، کڑک آدمی، کڑک رات، کڑک شاعری۔۔۔
(ناصر بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ حمید چائے بنانے لگتا ہے۔ علیم بھی اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔)
حمید: کوئی کڑک شعر سنائیے۔
ناصر: سنو۔
غم جس کی مزدوری ہو۔
حمید: (دہراتا ہوں) غم جس کی مزدوری ہو۔
ناصر: جلد گرے گی وہ دیوار۔
حمید: واہ ناصر صاحب واہ۔
(علیم دونوں کے سامنے چائے رکھتا ہے اور خود بھی چائے لے کر بیٹھ جاتا ہے۔)
علیم: ناصر صاحب، پہلوان آپ کو بہت پوچھتا رہتا ہے، ملا؟
ناصر: جن میں بوئے وفا نہیں ناصر
ایسے لوگوں سے ہم نہیں ملتے۔
حمید: واہ صاحب واہ۔۔۔ جن میں بوئے وفا نہیں ناصر۔
ناصر: ایسے لو گوں سے ہم نہیں ملتے۔
حمید: آج کل لکھ رہے ہیں ناصر صاحب۔
ناصر: بھائی لکھنے کے لیے ہی تو ہم زندہ ہیں، ورنہ موت کیا بری ہے؟
(جاوید کی گھبرائی ہوئی آواز آتی ہے۔ وہ چیختا ہوا داخل ہوتا ہے)
جاوید: علیم میاں۔۔۔ علیم میاں۔۔۔
(جاوید پریشان لگ رہا ہے۔ اسے دیکھ کر تینوں کھڑے ہو جاتے ہیں)
ناصر: کیا ہوا جاوید؟
جاوید: مائی کا انتقال ہو گیا۔
ناصر: ارے، کیسے۔۔۔ کب؟
جاوید: شام کو سینہ میں درد بتا رہی تھیں۔۔۔ ڈاکٹر فاروق کو لے کے آیا تھا، انہوں نے انجکشن اور دوائیں دیں۔۔۔ اچانک کبھی درد بہت بڑھ گیا۔۔۔ اور۔۔
ناصر: حمید میاں ذرا ہدایت صاحب کو خبر کر آؤ۔۔۔ اور کریم میاں سے بھی کہہ دینا۔۔۔ جاوید تم کدھر جا رہے ہو۔
جاوید: میں تو علیم کو جگانے آیا تھا۔۔۔ ابا کی تو عجیب کیفیت ہے۔۔۔
علیم: مرحومہ کا یہاں کوئی رشتے دار بھی تو نہیں ہے۔
ناصر: ارے بھائی ہم سب ان کے کون ہیں؟ رشتے دار ہی ہیں۔ علیم تم کبن صاحب اور تقی میاں کو بلا لاؤ۔۔۔
(علیم جاتا ہے۔ اسی وقت ہدایت صاحب، کریم میاں اور حمید آتے ہیں۔)
ہدایت: وطن میں کیسی بے وطنی کی موت ہے۔
ناصر: ہدایت صاحب ہم سب ان کے ہیں۔۔۔ سب ہو جائے گا۔
کریم: بھائی لیکن کرو گے کیا۔
ناصر: کیا مطلب۔
کریم: بھائی رامو کا باغ جو شہر کا پرانا شمشان تھا، وہ اب رہا نہیں، وہاں مکانات بن گئے ہیں۔
ہدایت: یہ تو بڑی مشکل ہو گئی۔
(علیم، کبن اور تقی آتے ہیں۔)
کریم: اور شہر میں کوئی دوسرا ہندو بھی نہیں ہے جو کوئی راستہ بتاتا۔
ہدایت: ارے صاحب ہم لوگوں کو کچھ معلوم بھی تو نہیں کہ ہندوؤں میں کیا ہوتا ہے۔
(سکندر مرزا آتے ہیں۔ ان کا چہرہ لال ہے اور بہت غمزدہ لگ رہے ہیں۔)
کریم: بھئی اصلی مشکل تو شمشان کی ہے۔ جب شمشان ہی نہیں تو آخری رسم کیسے ادا ہو گی۔
کبن: ہاں یہ تو بڑی مشکل ہے۔
تقی: مرزا صاحب آپ کچھ تجویز کیجئے۔
سکندر مرزا: میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔۔۔ جو آپ لوگوں کی رائے ہو، وہی کیا جائے۔
ہدایت: بھائی ہم تو یہی کر سکتے ہیں بڑی عزت اور بڑے احترام کے ساتھ مرحومہ کو دفن کر دیں۔۔۔ اس سے زیادہ نہ ہم کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہمارے اختیار میں ہے۔
ناصر: لیکن مائی ہندو تھیں اور ان کو۔۔۔
ہدایت: ناصر بھائی ہم سب جانتے ہیں وہ ہندو تھیں لیکن کریں کیا؟ جب شمشان ہی نہیں ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ آپ ہی بتائیے؟
(ناصر چپ ہو جاتے ہیں۔)
تقی: ہدایت صاحب کی رائے مناسب ہے، میرا بھی یہی خیال ہے کہ محترمہ کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ دفن کیا جائے۔۔۔ ان کے وارثوں کا تو پتہ ہے نہیں۔۔۔ ورنہ ان کو بلوایا جاتا یا رائے لی جاتی۔
سکندر مرزا: جو آپ لوگ ٹھیک سمجھیں۔
کبن: علیم میاں اپ مسجد چلے جائیے اور کھٹولا لیتے آئیے۔۔۔ جاوید میاں تم کفن کے لیے گیارہ گز سفید کپڑا لے آؤ۔۔۔ حاجی صاحب کی دکان بند ہو تو پیچھے گلی میں گھر ہے، وہ اندر سے ہی کپڑا نکال دیں گے۔
(علیم اور جاوید چلے جاتے ہیں۔)
تقی: بڑی خوبیوں کی مالک تھیں مرحومہ۔۔۔ میرے بچہ کو جب چیچک نکلی تھی تو رات رات بھی اس کے سرہانے بیٹھی رہا کرتی تھیں۔
ہدایت: ارے بھائی ان کے جیسا مددگار اور خدمتی میں نے تو آج تک دیکھا نہیں۔۔۔ ایسی نیک دل عورت کمال ہے صاحب۔
کبن: جب سے ان کے مرنے کی خبر میری بی بی نے سنی ہے روئے جا رہی ہے اب کچھ تو ایسی انسیت ہو گی ہی۔
ناصر: زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھی جو دامِ اجل میں آئے
(علیم آ کر کہتا ہے۔)
علیم: مولوی صاحب یہیں آ رہے ہیں۔
(پہلوان، انور اور سراج کے ساتھ آ کر بھیڑ میں کھڑا ہو جاتا ہے۔)
کبن: کیا کہہ رہے تھے مولوی صاحب۔
علیم: کہہ رہے تھے، ابھی کچھ مت کرنا میں خود آتا ہوں۔
تقی: مرحومہ کا ایک ایک لمحہ دوسروں کے لیے ہی ہوتا تھا۔۔۔ کبھی اپنے لیے کچھ نہ مانگا۔۔۔
پہلوان: اجی انہیں کیا ضرورت تھی کس سے کچھ مانگنے کی۔۔۔ بڑی دولت تھی ان کے پاس۔
(سب پہلوان کو گھور کر دیکھتے ہیں۔ کوئی کچھ جواب نہیں دیتا، اسی وقت مولوی صاحب آتے ہیں۔ جو لوگ بیٹھے ہیں وہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔)
مولانا: السلام علیکم۔
سب: وعلیکم السلام۔
مولانا: رتن کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔
ہدایت: جی ہاں۔
مولانا: آپ لوگوں نے کیا طے کیا ہے؟
ہدایت: حضور پرانا شمشان رامو کا باغ تو رہا نہیں، اور ہم لوگوں کو ہندوؤں کا طریقہ معلوم نہیں، شہر میں کوئی دوسرا ہندو نہیں ہے جو اس سے کچھ پوچھا جا سکتا۔۔۔ اب ایسی حالت میں ہمیں وہی مناسب لگا کہ مرحومہ کو بڑی عزت اور احترام کے ساتھ سپرد خاک کر دیا جائے۔
مولانا: کیا مرنے سے پہلے مرحومہ مسلمان ہو گئی تھی۔
سکندر مرزا: جی نہیں۔
مولانا: تب آپ ان کو دفن کیسے کر سکتے ہیں۔
پہلوان: (غصے میں) تو اور کیا کریں گے۔
مولانا: یہ میں آپ لوگوں سے پوچھ رہا ہوں۔
سکندر مرزا: جناب ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا۔
مولانا: دیکھیے وہ نیک عورت مر چکی ہے۔ مرتے وقت وہ ہندو تھی۔ اس کے آخری رسوم اسی طرح ہونے چاہیئے۔
پہلوان: (چڑھ کر) واہ یہ اچھی تعلیم دے رہے ہیں آپ۔
مولانا: (اسے جواب نہیں دیتے) دیکھیے وہ مر چکی ہے۔ اس کی میت کے ساتھ آپ لوگ جو سلوک چاہیں کر سکتے ہیں۔۔۔ اسے چاہے دفنا دیجیے چاہے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالئے، چاہے غرق آب کر دیجیے۔۔۔ اس کا اب اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔۔۔ اس کے ایمان پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔۔۔ لیکن آپ اس کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں، اس سے آپ کے ایمان پر ضرور آنچ آ سکتی ہے۔
(سب چپ ہو جاتے ہیں۔)
مردہ وہ چاہے کسی بھی مذہب کا ہو، اس کا احترام فرض ہے۔۔۔ اور ہم جب کسی کا احترام کرتے ہیں تو اس کے یقین اور اس کے مذہب کو ٹھیس تو نہیں پہنچاتے؟
ناصر: آپ بجا فرما رہے ہیں مولانا۔
پہلوان: اسلام یہی کہتا ہے؟ اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ ایک ہندو بڑھیا کے پیچھے ہم سب رام رام ست کریں؟
مولانا: بیٹے اسلام خود غرضی نہیں سکھاتا۔ اسلام دوسرے کے مذہب اور جذبات کا احترام کرنا سکھاتا ہے اگر تم سچے مسلمان ہو تو یہ کر کے دکھاؤ؟ کفار اور مشرکوں کے ساتھ معاہدہ پورا کرنا پرہیزگاری کی شان ہے۔۔۔
پہلوان: (غصے میں) یہ غلط بات ہے، کفر ہے۔
مولانا: بیٹا غصہ اور عقل کبھی ایک ساتھ نہیں ہوتے۔ (کچھ ٹھہر کر) تم میں سے کتنے لوگ ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ رتن کی ماں تمہارے کام نہیں آئی؟ کہ تم پر اس کے احسانات نہیں ہیں؟ کہ تم لوگوں کی خدمت نہیں کی۔
(کوئی کچھ نہیں بولتا۔)
مولانا: آج وہ عورت مر چکی ہے جس کے تم سب پر احسانات ہیں، تم سب کو اس نے اپنا بچہ سمجھا تھا، آج جب کہ وہ موت کے آغوش میں سو چکی ہے، تم اسے اپنی ماں ماننے سے انکار کر دو گے۔۔۔ اور اگر وہ تمہاری ماں ہے تو اس کا جو مذہب تھا اس کا احترام کرنا تمہارا فرض ہے۔
سکندر مرزا: آپ بجا فرماتے ہیں مولانا۔۔۔ ہمیں مرحومہ کے مذہبی اصولوں کے مطابق ہی ان کا کفن دفن کرنا چاہیئے۔
کچھ اور لوگ: ہاں، یہی مناسب ہے۔
مولانا: فجر کی نماز کا وقت ہو رہا ہے۔ میں مسجد جا رہا ہوں۔ آپ لوگ بھی نماز ادا کریں۔ نماز کے میں مرزا صاحب کے مکان پر جاؤں گا۔
(مولانا چلے جاتے ہیں۔ باقی لوگ بھی دھیرے دھیرے چلے جاتے ہیں۔ پہلوان اور اس کے ساتھی رہ جاتے ہیں۔ سب کے جانے کے بعد پہلوان اچانک علیم کی طرف جھپٹتا ہے اور اس کا گریبان پکڑ لیتا ہے۔)
پہلوان: علیم میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ چاہے مجھے۔۔۔ چاہے مجھے۔۔۔
علیم: ارے پہلوان میرا گلا تو چھوڑو۔۔۔ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔
(پہلوان گلا چھوڑ دیتا ہے۔)
پہلوان: (غصے میں اپنے ساتھیوں سے) چلو۔
(وہ تینوں نکل جاتے ہیں۔)