(رتن کی ماں بیٹھی ہے۔ اس کے پاس وہ بکسا رکھا ہے۔ جو پچھلے سین میں لے کر وہ ناصر کے گھر گئی تھی۔ سامنے حمیدہ بیگم، تنو اور جاوید بیٹھے ہیں۔ مرزا صاحب کچھ فاصلے پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں۔)
حمیدہ بیگم: ہرگز نہیں، ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔۔۔ مائی یہ خیال آپ کے دماغ میں آیا کیسے؟
تنو: کیا ہم لوگوں سے کوئی غلطی ہو گئی مائی۔
رتن کی ماں: بیٹی توں وی کمال کر دی ایں ، آپنڑے بچیاں تو وی بھلا کوئی گلتی ہوندی اے؟ ۔۔۔ میں تیری دادی آں جے گر تیرے کولوں کوئی گلتی ہوندی وی تے میں تینوں ڈانٹ دیندی ۔۔۔ دوچار چپیڑاں مار سکدی سی۔ مینوں کون روک سکدا سی۔
سکندر مرزا: بیشک یہ آپ کی پوتی ہے آپ کا اس پر پورا حق ہے۔
حمیدہ بیگم: پھر آپ کیوں ضد کر رہی ہیں ہندوستان کی؟
رتن کی ماں: بیٹی ویکھ، مینوں سب پتہ اے۔۔۔ اک گل ضرور اے کہ تسی لوکاں نے مینوں کجھ نئیں دسیا، بلکہ میرےکولوں لکایا اے، لیکن ایہہ حقیقت اے کہ کچھ لوک میری وجہ توں تہانوں ساریاں نوں پریشان کر رہے ہن۔
جاوید: نہیں مائی نہیں، ہمیں کون پریشان کرے گا؟
رتن کی ماں: دیکھے بیٹا، اپنی دادی نال جھوٹھ نہ بول۔۔۔ میں دن بھر محلے وچ گھومدی رہدی ہاں۔۔۔ منو سب پتہ ہے۔ اناں لیکوں نے تنو چا دے ڈھابے تے دھمکی نہیں سی دتی۔۔۔ دس؟
جاوید: ارے مائی ویسی دھمکیاں تو جانے کتنے دیتے رہتے ہیں۔
رتن کی ماں: بیٹے میری وجہ نال تہانوں کچھ ہو گیا تے میں تے فیر کدھرے دی ناں رئی۔۔۔ اے ہی وجہ ہے کہ میں جانا چاہندی آں۔
سکندر مرزا: مائی جب ہمارا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، جب ہم پریشانی اور تکلیف میں تھے، جب ہم یہ جانتے تھے کہ لاہور کس چڑیا کا نام ہے تب آپ نے ہمیں بچوں کی طرح رکھا، ہم پر ہر طرح کا احسان کیا اور آج جب ہم اس شہر میں جم چکے ہیں تو کیا ہم ان احسانوں کو بھول جائیں؟
رتن کی ماں: بیٹے تو ٹھیک کہہ دا ہے، لیکن میرا وی تے کوئی فرض ہے۔
سکندر مرزا: آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنے بیٹے، بہو، پوتے، پوتی کے ساتھ رہیں۔۔ ۔۔
رتن کی ماں: دیکھ بیٹا میں نو کی فرق پیندا اے؟ ساٹھ توں اوپر دی ہوگئی آں۔۔۔ آج مری یاں کل مری۔۔۔ کیہہ لاہور وچ مری کیہہ دلی وچ ۔۔۔ میں تے ہن مرنا ہی مرنا ہے۔
تنو: مائی پہلے تو آپ یہ مرنے ورنے کی باتیں نہ کریں۔۔۔ مریں آپ کے دشمن۔
(تنو مائی کے گلے میں باہیں ڈال دیتی ہے۔ مائی اسے پیار کرتی ہے۔)
سکندر مرزا: مائی آپ کو ہم سے آج ایک وعدہ کرنا پڑے گا۔۔۔ بڑا پکا وعدہ۔۔۔ (جاوید سے) جاوید بیٹے پہلے تو بکسا اوپر لے جاؤ اور مائی کے کمرے میں رکھ آؤ۔
جاوید: جی ابا۔
(جاوید بکسا لے کر چلا جاتا ہے۔)
سکندر مرزا: وعدہ یہ کہ آپ ہم لوگوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گی۔
(رتن کی ماں چپ ہو جاتی ہے اور سر جھکا لیتی ہے۔)
حمیدہ بیگم: بالکل آپ کہیں نہیں جائیں گی۔
(جاوید لوٹ کر آتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے۔)
تنو: دادی بولو نہ۔۔ کیوں ہم لوگوں کو ستا رہی ہو؟ کہہ دو کہ نہیں جاؤ گی۔
(رتن کی ماں چپ رہتی ہے۔ جاوید اٹھ کر مائی کے پاس آتا ہے۔ مائی کے دونوں کندھے پکڑتا ہے۔ جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہے اور بہت سختی کہتا ہے)
جاوید: دادی، تمہیں میری قسم ہے، اگر تم کہیں گئیں۔
(رتن کی ماں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے اور روتے راتے کہتی ہے)
رتن کی ماں: میں کدھرے نہیں جاواں گی۔۔۔ کدھرے نہیں۔۔۔ تواڈے لوکاں چوں ہی اٹھاں گی تاں سدھے رب دے کول جاواں گی، بس۔۔۔