(ناصر کاظمی سڑک کے کنارے اکیلے چلے جا رہے ہیں۔ پیچھے سے ہدایت آتے ہیں۔)
ہدایت: ارے بھائی ناصر صاحب قبلہ۔۔۔ آداب بجا لاتا ہوں۔
(ناصر مڑ کر دیکھتے ہیں۔ رک جاتے ہیں۔)
ہدایت: (پاس آ کر) کدھر جا رہے ہیں جناب۔۔۔ اس قدر خیالوں میں کھوئے ہوئے۔۔۔
ناصر: کہیں نہیں جا رہا۔۔۔ ملاقات کر رہا ہوں۔
ہدایت: یہاں تو آپ کے علاوہ کوئی ہے نہیں، کس سے ملاقات کر رہے ہیں۔
ناصر: پتوں سے۔
ہدایت: (حیرت سے) پتوں سے۔
ناصر: جی ہاں۔۔۔ پتوں سے ملاقات کرنے آیا ہوں۔
ہدایت: پتوں سے ملاقات کیسے ہوتی ہے ناصر صاحب؟
ناصر: ...آج کل پت جھڑ ہے نہ۔۔۔ پیڑوں کے پیلے پتوں کو جھڑتا دیکھتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں۔۔۔ اتنی اور اس طرح کی اداسی کبھی نہیں طاری ہوتی مجھ پر۔ اس لئے پت جھڑ میں میں پتوں کے غم میں شامل ہونے چلا آتا ہوں۔
ہدایت: مجھے بھی ایک چیز کی تلاش ہیں۔۔۔ میں جب سے لاہور آیا ہوں ڈھونڈھ رہا ہوں آج تک نہیں ملی۔
ناصر: کیا چیز؟
ہدایت: بھئی ہماری طرف ایک چڑیا ہوا کرتی تھی شیاما چڑیا۔۔۔ وہ ادھر دکھائی نہیں دیتی۔
ناصر: شام چڑی۔
ہدایت: ہاں۔۔ ۔۔
ناصر: شام چڑی میں آپ کو دکھاؤں گا۔۔۔ اسے یہاں تلاش کیا ہے۔۔۔ اس کی تلاش میرے لیے ترقی پسند ادب اور اسلامی ادب سے بڑا مسئلہ تھا۔۔۔ جب میں یہاں شروع شروع میں آیا تو ان سب چیزوں کی تلاش تھی جنہیں دل و جان سے چاہتا تھا۔۔۔ سرسوں کے کھیتوں سے بھی مجھے عشق ہے۔۔۔ تو بھائی میں نے لاہور آتے ہی کئی لوگوں سے پوچھا تھا کہ کیا سرسوں یہاں بھی ویسی ہی پھولتی ہے جیسی ہندوستان میں پھولتی تھی۔ میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یہاں ساون کی جھڑی لگتی ہے۔۔۔ برسات کے دنوں کی شامیں کیا مور کی جھنکار سے گونجتی ہیں؟ بسنت میں آسمان کا رنگ کیسا ہوتا ہے؟
ہدایت: بھئی تم شاعروں کی باتیں ہم لوگ کیا سمجھیں گے۔۔۔ ہاں سننے میں اچھی بہت لگتی ہیں۔
ناصر: در اصل ایک ایک پتی میرے لیے شہر ہے، پھول بھی شہر ہے اور سب سے بڑا شہر ہے دل۔ اس سے بڑا کوئی شہر کیا ہو گا۔۔۔ باقی جو شہر ہیں سب اس کی گلیاں ہیں۔
ہدایت: میں مانتا ہوں ناصر، شاعر اور دوسرے لوگوں میں بڑا فرق ہے۔۔۔
ناصر: (بات کاٹ کر) نہیں نہیں یہ بات نہیں ہے، ہر جگہ، زندگی کے ہر شعبے میں شاعر ہیں۔۔۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ شاعری کر رہے ہوں۔۔۔ وہ تخلیقی لوگ ہیں۔ چھوٹے موٹے مزدور، دفتروں کے کلرک اپنے کام سے کام رکھنے والے ایماندار لوگ۔۔۔ ٹرین کے انجن کا ڈرائیور جو اتنے ہزار لوگوں کو لاہور سے کرانچی اور کرانچی سے لاہور لے جاتا ہے۔ مجھے یہ آدمی بہت پسند ہے۔ اور ایک وہ آدمی جو ریلوے کے پھاٹک بند کرتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے اگر وہ پھاٹک کھول دے، جب گاڑی آ رہی ہو تو کیا قیامت آئے؟ بس شعر کا بھی یہی کام ہے کہ کس وقت پھاٹک بند کرنا ہے، کس وقت کھولنا ہے۔
(ہدایت کچھ فاصلے پر جاتی رتن کی ماں کو دیکھتا ہے۔)
ہدایت: ارے یہ اس وقت یہاں کیسے؟
ناصر: یہ تو مائی ہے۔
(دونوں مائی کے پاس پہنچتے ہیں۔)
ناصر: نمستے مائی۔۔۔ آپ؟
رتن کی ماں: جیدیں رہو۔۔۔ جیندے رہو۔
ناصر: خیریت مائی؟ اس وقت یہ سامان لیے آپ کہاں جا رہی ہیں۔
رتن کی ماں: بیٹا میں دلی جانا چاہندی ہاں۔
ناصر: (اچھل پڑتے ہیں) نہیں مائی، نہیں۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہیں۔۔۔ یہ نا ممکن ہے۔
رتن کی ماں: بس پاہیا بہت رہ لئی لاہور وچ۔۔۔ ہن لگدا ہے ایتھے دا دانا پانی نہیں رہیا۔
ہدایت: لیکن کیوں مائی؟
ناصر: کیا کوئی تکلیف ہے۔
رتن کی ماں: بیٹا تکلیف اوس نوں ہوندی ہے جو تکلیف نوں تکلیف سمجھدا اے ۔۔۔ مینوں کوئی تکلیف نہیں اے۔
ناصر: تب کیوں جانا چاہتی ہیں؟ آپ کو پورا محلہ مائی کہتا ہے، لوگ آپ کے راستے میں آنکھیں بچھاتے ہیں، ہم سب کو آپ پر ناز ہیں۔۔۔
رتن کی ماں: ارے سب تواڈے پیار دا صدقہ ہے۔
ناصر: تو ہمارا پیار چھوڑ کر آپ کیوں جانا چاہتی ہیں۔
رتن کی ماں: بیٹا، تسی لوکاں نے مینوں اوہ پیار تے عزت دتی ہے جیہڑی آپ نے وی نہیں دیندے۔
ناصر: مائی جو جس کا اہل ہوتا ہے، وہ اسے ملتا ہے، آپ نے ہمیں اتنا دیا ہے کہ ہم بتا ہی نہیں سکتے۔
رتن کی ماں: پیار ای مینوں لہور چھڈن تے مجبور کر ریا اے۔
ہدایت: بات ہے کیا مائی۔
رتن کی ماں: میرا لاہور وچ رہنا کچھ لوگاں نوں پسند نئیں اے، مرزا صاحب نوں دھمکیاں دتیاں جا رہیاں نیں تاں کہ اوہ مینوں اپنے گھر تو کڈ دین۔۔۔ راہ جاندیں اونہاں نے فقرے کسے جاندے نے ، اونہاں دی کڑی تنو تے منڈے جاوید دا لوگ نک ہِچ دم کیتے ہوئے نے۔۔۔ پر مرزا صاحب کسے وی صورت ہِچ نئی چاہندے کہ میں جاواں ۔
ہدایت: تب آپ کیوں جانا چاہتی ہیں مائی۔
رتن کی ماں: میں اتھے روانگی تے مرزا صاحب۔۔۔
ناصر: مائی مرزا صاحب کا کوئی بال بانکا نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔
رتن کی ماں: بیٹا، مینوں توہاڈے سب تے مان اے، پر توہانوں کسی چمہیلے وچ پھسان توں چنگا اے کہ میں آپےای چلی جاواں۔۔۔ تسی مینوں دلی جان دیو۔۔۔ میرے کول روپیہ پیسہ ہے اے ۔ زیور ہے نیں ، میں اؤتھے دو وقت دی روٹی کھا لواں گی تے نئیں روواں گی۔
ناصر: (سخت لہجے میں) یہ ہرغز نہیں ہو سکتا۔۔۔ یہ نا ممکن ہیں۔۔۔ کبھی بیٹے بھی اپنی ماں کو پڑا رہنے کے لیے چھوڑتے ہیں؟
رتن کی ماں: میرا کہنا منو بیٹا، میں توانوں دعائیں دو اں گی۔
ناصر: (دردناک لہجے میں) مائی لاہور چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔ تمہیں لاہور کہیں اور نہ ملے گا۔۔۔ اسی طرح جیسے مجھے انبالہ کہیں اور نہیں ملا۔۔۔ ہدایت بھائی کو لکھنؤ کہیں نہیں ملا۔۔۔ زندوں کو مردہ نہ بناؤ۔۔۔
(رتن کی ماں آنکھ سے آنسو پونچھنے لگتی ہے۔)
ناصر: تم ہماری ماں ہو۔۔۔ ہم سے جو کہو گی کریں گے۔۔۔ لیکن یہ مت کہو کہ تم ہماری ماں نہیں رہنا چاہتیں۔۔۔
رتن کی ماں: پھر میں کی کراں، دس۔
ناصر: تم واپس چلو، دوچار بدمعاش کچھ نہیں کر سکتے۔
رتن کی ماں: بیٹا، میں تاں اپنی اکھیں سب ویکھیا اے ، اوس ویلے وی سب ایہہ ہی کہن دے سن کہ دو چار بدمعاش کچھ نہیں کر سکدے ۔۔۔ ویکھ دی ایں ہن پورے لہور ہِچ میں ای کلی ہندو آں۔۔۔ میرے ایتھوں جان نال ایہہ شہر پاک ہو جاوے گا۔
ناصر: تم اگر یہاں نہ رہیں تو ہم سب ننگے ہو جائیں گے مائی۔۔۔ ننگا آدمی ننگا ہوتا ہے، نہ ہندو ہوتا ہے اور نہ مسلمان۔۔۔
(ہدایت مائی کا سوٹ کیس اٹھا لیتے ہیں اور تینوں واپس لوٹتے ہیں۔)