(صبح کا وقت ہے۔ علیم اپنے چائے خانے میں ہے۔ بھٹی سلگا رہا ہے۔ اسی وقت ناصر کاظمی اور ان کے پیچھے پیچھے ایک تانگے والا حمید اپنے ہاتھ میں چابک لیے اندر آتے ہیں۔)
ناصر: حمید میاں بیٹھو۔۔۔ روز کی طرح آج بھی علیم پوری رات سوتا رہا ہے اور بھٹی ٹھنڈی پڑی رہی۔
علیم: آپ بڑی صبح صبح آ گئے ناصر صاحب۔
ناصر: صبح کہاں ہوئی؟
علیم: کیوں یہ صبح نہیں ہے؟
ناصر: بھائی، جو رات میں سویا ہو، اسی کے لیے تو صبح ہوتی ہے۔
(قہقہہ لگا کر ہنستا ہے۔)
علیم: کیا پوری رات سوئے نہیں؟
ناصر: بس میاں پوری رات آوارہ گردی اور پانچ شعر کی غزل کی نذر ہو گئی۔
حمید: ویسے بھی آپ کہاں سوتے ہیں؟
ناصر: راتیں کسی چھت کے نیچے سو کر برباد کر دینے کے لیے نہیں ہوتیں۔
علیم: کیوں ناصر صاحب؟
ناصر: اس لئے کہ رات میں ہی دنیا کے اہم کام ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پھولوں میں رس پڑتا ہے رات کو، سمندروں میں جوار بھاٹا آتا ہے رات کو، خوشبوئیں رات کو ہی جنم لیتی ہیں، فرشتے رات کو ہی اترتے ہیں، سب سے بڑی وحی رات کو نازل ہوئی ہے۔
علیم: آپ کی باتیں میری سمجھ میں تو آتی نہیں۔
ناصر: اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ چائے نہ پلاؤ گے۔
علیم: ضرور ضرور، بس دو منٹ میں تیار ہوتی ہے۔
(بھٹی سلگانے لگتا ہے۔)
علیم: ناصر صاحب کچھ نوکری وغیرہ کا سلسلہ لگا؟
ناصر: نوکری؟ ارے بھائی شاعری سے بڑی بھی کوئی نوکری ہے؟
علیم: (ہنس کر) شاعری نوکری کہاں ہوتی ہے ناصر صاحب۔
ناصر: بھئی دیکھو، دوسرے لوگ آٹھ گھنٹے کی نوکری کرتے ہیں، کچھ لوگ دس گھنٹے کام کرتے ہیں، کچھ بیچاروں سے تو بارہ بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن ہم شاعر تو چوبیس گھنٹے کی نوکری کرتے ہیں۔
(ناصر زور سے ہنستے ہیں۔ حمید اس کا ساتھ دیتا ہے۔)
حمید: پوری رات آپ ٹالتے آئے۔۔۔ اب تو کچھ شعر سنا دیجیے ناصر صاحب۔
(پہلوان، انوار، سراج اور رضا اندر آتے ہیں۔)
پہلوان: لا جلدی جلدی چار چائے پلا۔
علیم: اچھے موقع سے آ گئے پہلوان۔
پہلوان: کیوں؟ کیا ہوا۔
علیم: ناصر صاحب غزل سنا رہے ہیں۔
پہلوان: (برا سا منہ بنا کر) سناؤ جی۔۔۔ سناؤ غزل۔
ناصر: (پہلوان سے) اب ایک غزل آپ کے لیے سناتا ہوں
تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالۂ نے نہیں
ترا دل گداز ہو کس طرح یہ تیرے مزاج کی لے نہیں
ترا ہر کمال ہے ظاہری، ترا ہر خیال ہے سرسری
کوئی دل کی بات کروں تو کیا، ترے دل میں آگ تو ہے نہیں
جسے سن کے روح مہک اٹھے، جسے پی کے درد چہک اٹھے
ترے ساز میں وہ صدا نہیں، ترے میکدے میں وہ مے نہیں
یہی شعر ہے میری سلطنت، اسی فن میں ہے مجھے عافیت
میرے کاسۂ شب و روز میں، ترے کام کی کوئی شے نہیں
(غزل کے بیچ میں حمید اور علیم داد دیتے ہیں۔ پہلوان اور اس کے ساتھی خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔)
پہلوان: اجی شاعروں کا کیا ہے، جو جی میں آتا ہے لکھ مارتے ہیں۔
انوار: اور کیا استاد۔۔۔
سراج: میں تو سمجھتا ہوں سب جھوٹ ہوتا ہے۔
حمید: تم اسے اس لئے جھوٹ کہتے ہو کہ وہ اتنا بڑا سچ ہوتا ہے کہ تمہارے گلے سے نہیں اترتا۔
پہلوان: (سراج سے) چھوڑ چھوڑ یہ بیکار کی باتیں چھوڑ۔ (بڑبڑاتا ہے) پاکستان میں کفر پھیل رہا ہے اور یہ بیٹھے شاعری کر رہے ہیں۔
علیم: کیسے استاد؟ کیا ہوا؟
پہلوان: ارے وہ ہندو بڑھیا دندناتی پھرتی ہے، روز راوی میں نہانے آتی ہے، پوجا کرتی ہے۔۔۔ ہم سب کو ٹھینگا دکھاتی ہے اور ہم سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ یہ کفر نہیں پھیل رہا تو کیا ہو رہا ہے؟
ناصر: اگر اسے آپ کفر مانتے ہیں تو آپ کی نظر میں ایمان کا مطلب روز راوی میں نہ نہانا، پوجا نہ کرنا اور کسی کو انگوٹھا نہ دکھانا ہو گا۔
پہلوان: (بگڑ کر) کیا مطلب ہے آپ کا۔
ناصر: آپ کو سمجھانا کس کے بس کا کام ہے؟
پہلوان: ارے صاحب وہ ہندو بڑھیا ہم لوگوں کے گھروں میں جاتی ہے، ہماری عورتوں، لڑکیوں سے ملتی ہے، ان سے بات چیت کرتی ہے، انہیں اپنے مذہب کی باتیں بتاتی ہے۔
ناصر: تو کسی اور مذہب کی باتیں سننا کفر ہے۔
پہلوان: (برا مانتے ہوئے) تو کیا یہ اچھی بات ہے کہ ہماری بہنیں بیٹیاں ہندو مذہب کی باتیں سیکھیں۔
ناصر: کسی اور مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا کفر نہیں ہے۔
پہلوان: پھر بھی برا تو ہے۔
ناصر: نہیں، برا بھی نہیں ہے۔۔۔ آپ کو پتہ ہی ہو گا قرآن میں یہودی اور عیسائی مذہب کا ذکر ہے۔
(پہلوان چپ ہو جاتا ہے۔)
پہلوان: عیسائی اور یہودی مذہبوں کی بات اور ہے، ہندو مذہب کی بات اور ہے۔
ناصر: کیا فرق ہے؟
پہلوان: ج۔۔۔ ج۔۔۔ جی۔۔۔ فرق ہے۔۔۔ کچھ نہ کچھ تو فرق ہے۔۔۔
ناصر: تو بتائیے نا۔۔۔
(پہلوان چپ ہو جاتا ہے۔)
انوار: اجی وہ تو کسی سے نہیں ڈرتی۔
ناصر: کیوں ڈرے وہ کسی سے؟ کیا اس نے چوری کی ہے یا ڈاکہ ڈالا ہے، یا کسی کا قتل کیا ہے۔
سراج: لیکن ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے۔
ناصر: کیا برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔ کسی کا نہ ڈرنا آپ برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔ یعنی سب آپ سے ڈرا کریں؟
پہلوان: اجی سو کی سیدھی بات ہے، اسے بھارت کیوں نہیں بھیج دیا جاتا۔
ناصر: کیا آپ نے ٹھیکہ لیا ہے لوگوں کو ادھر سے ادھر بھیجنے کا؟ یہ اس کی مرضی ہے وہ چاہے یہاں رہے یا بھارت جائے۔
پہلوان: (اپنے چیلوں سے) چلو، آؤ چلیں۔۔۔
(پہلوان غصے میں ناصر کو دیکھتا ہے۔)
ناصر: ہے یہی عین وفا دل نہ کسی کا دکھا
اپنے بھلے کے لیے سب کا بھلا چاہیئے
(پہلوان اٹھ جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس کے ساتھ باہر نکل جاتے ہیں۔)
ناصر: یار علیم ایک بات بتا۔
علیم: پوچھیے ناصر صاحب۔
ناصر: تم مسلمان ہو۔
علیم: ہاں، ہوں ناصر صاحب۔
ناصر: تم کیوں مسلمان ہو؟
علیم: (سوچتے ہوئے) یہ تو کبھی نہیں سوچا ناصر صاحب۔
ناصر: ارے بھائی تو ابھی سوچ لو۔
علیم: ابھی؟
ناصر: ہاں ہاں ابھی۔۔۔ دیکھو تم کیا اس لئے مسلمان ہو کہ جب تم سمجھدار ہوئے تو تمہارے سامنے ہر مذہب کی تعلیمات رکھی گئیں اور کہا گیا کہ اس میں سے جو مذہب تمہیں پسند آئے، اچھا لگے، اسے چن لو؟
علیم: نہیں ناصر صاحب۔۔۔ میں تو دوسرے مذہبوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
ناصر: اس کا مطلب ہے، تمہارا جو مذہب ہے اس میں تمہارا کوئی دخل نہیں ہے۔۔۔ تمہارے ماں باپ کا جو مذہب تھا وہی تمہارا ہے۔
علیم: ہاں جی بات تو ٹھیک ہے۔
ناصر: تو یار جس بات میں تمہارا کوئی دخل نہیں ہے اس کے لیے خون بہانا کہاں تک واجب ہے؟
حمید: خون بہانا تو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے ناصر صاحب۔
ناصر: ارے تو سمجھاؤ نہ ان پہلوانوں کو۔ ۔۔۔ لاؤ یار ایک پیالی چائے اور لاؤ۔۔۔ سالے نے موڈ خراب کر دیا۔