میں نور کی کرنوں میں کھڑا تھا اور سرتاپا ایک دبیز اور انتہائی کیف آور روشنی میرے پورے بدن سے پھوٹ رہی تھی۔ میری آنکھیں ہنوز بند تھیں مگر قلب و ذہن کی راہداریوں میں سرگرداں روح اپنی بصیرت کے جلوے دکھا رہی تھی۔ میرے اندر حقیقی انسان گوشت پوست سے مبرا ہو کر ایک لطیف وجود کی شکل میں اس نظارے سے لطف اٹھا رہا تھا۔ میرے اختیار میں ہوتا تو اپنی روح کے دیدار اور لطف و کرم کی سنہری بارش سے ملاقات کا ناطہ کبھی نہ توڑتا۔ مگر یہ ابتدا کے دن تھے۔ ارتکاز ابھی پختہ نہیں ہوا تھا۔ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گیا تھا اور میں بیدار ہو گیا۔ میری آنکھیں بوجھل اور کن پٹیاں بھاری ہو رہی تھیں۔ دل کی دھڑکن بہت تیز ہو گئی تھی اور سانس میں گرماہٹ اور اکتاہٹ کا احساس ہو رہا تھا۔
ٹاہلی والی سرکار نے میری حالت دیکھی تو اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پھر پہلے دائیں اور پھر بائیں کندھے پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
”میاں .... دیکھا یہ لطف و کرم۔ وجدان کی یہ دنیا بڑی نرالی ہے۔ سچ بتاﺅ۔ اگر تمہارے اختیار میں ہوتا تو کیا تم اس دنیا سے واپس آنا پسند کرتے۔ اپنی آنکھیں کھول کر اس عارضی دنیا کی کراہتوں کو سہنا پسند کرتے“
”سرکار .... آپ صحیح فرماتے ہیں سرکار۔ میں نے چند گھڑیوں میں جو لطف اٹھایا ہے روح کی سرشاری اور اس کے نور کی لطافت میں جو راحت پائی ہے خود کو ایک جیتا جاگتا اور محسوسات سے بھرا ہوا انسان پایا ہے میں اس دنیا سے بالکل واپس آنا پسند نہ کرتا“
”حق اللہ .... حق اللہ“
ٹاہلی والی سرکار نے انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور سر دھنتے ہوئے کہنے لگے ”یہ راز حقیقت کی ایک بہت ہی چھوٹی سی جھلک تھی میاں .... اب کہو تمہاری دنیا اور ہماری دنیا میں کتنا فرق ہے۔ میرے مرشد نے جب مجھے یہ منظر دکھایا تھا تو میں نے دنیا تیاگ دی تھی۔ اپنے سکول کالج اور یونیورسٹی کی ساری ڈگریاں جلا دی تھیں۔ میں اپنے رب سے شرمندہ تھا۔ اتنے برسوں ایسی تعلیم اور علم حاصل کرتا رہا جو مجھے اس ذات کبریا سے دور لے گیا تھا۔ بابا .... یہ دنیاوی علم اپنے رب کی پہچان کسی کسی کو ہی دیتا ہے۔ یہ بڑا سطحی علم ہے۔ ہم جیسے ملنگ اور مجذوب لوگ اپنی روح کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنے ظاہری بدن کے قید خانے میں عمریں کاٹ رہے ہوتے ہیں مگر بدن کے اس پنجرے میں طائر روح کہیں اور پرواز کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اپنی پروازوں اور لطافتوں کی دنیا سے ہرگز واپس نہیں آنا چاہتے۔ تم جیسے لوگ ان ملنگوں درویشوں مجذوبوں اور بابوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہو۔ ان کے بدن پر لٹکتے غلیظ چیتھڑے نما ملبوسات کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے ہو۔ ہائے تم کیا جانو۔ ان کے قلب و ذہن کس بیداری میں رہتے ہیں“
ٹاہلی والی سرکار کی باتیں میرے دل پر نقش ہو رہی تھیں اور میرا دل بار بار اسی دنیا کی لطافتوں کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا۔ میرے دل میں آیا کہ ان کے ہاتھوں بیعت ہو جاﺅں مناسب الفاظ تلاش کرکے اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش میں تھا کہ وہ بولے
”تم جس شش و پنج میں مبتلا ہو یہ تمہیں کوئی بہتر حل نہیں بتا سکے گا۔ تم ہماری دنیا کے آدمی ہو مگر تمہیں ہماری دنیا سے فی الحال دور ہی رہنا ہے۔ تم پر بھی بزرگوں کا سایہ ہے۔ تم کسی کی دعا کی لاج ہو۔ جاﺅ پہلے اپنا کھوج لگاﺅ۔ تمہاری کمر پر کسی ہستی نے مہر لگائی تھی اسکے سلسلہ میں بیعت ہونا ہے تجھے “ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا
”میں کچھ سمجھا نہیں سرکار“
”اپنے گھر جاﺅ .... اور اپنے والدین سے پوچھنا۔ تم بڑی دعاﺅں اور منتوں کے بعد اس دنیا میں آئے ہو۔ اللہ ذوالجلال نے اپنے کسی ولی کی دعا کو قبول فرمایا اور تمہارے والدین کے حق میں دعا فرمائی تھی۔ جاﺅ اور اپنی شناخت تلاش کرو“ میں ان کی باتیں سن کر سوچنے لگا کہ نہ جانے وہ کس وہم و گماں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ میں نے اپنے والدین سے ایسی کوئی بات نہیں سنی تھی کہ میری پیدائش سے پہلے انہوں نے کسی بزرگ سے دعا کرائی تھی۔ ٹاہلی والی سرکار نے میرے ماتھے پر نظریں جمائیں جیسے کسی دستاویز کو پڑھ رہے تھے۔ ان کے لبوں پر مسکان تھی۔
”میاں .... میں نے شریعت کے خلاف کوئی بات نہیں کی .... تم کس گماں میں ہو۔ یہ طریقت کا سلیقہ ہے۔ طریقت شریعت پر رہے تو کسی بدگمانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے اور تم تو ویسے بھی بڑے خوش بخت ہو ،تمہارے لئے ایک صاحب طریقت نے دعا کی تھی۔ جاﺅ اور اب ان کی دعاﺅ ں کا حق ادا کرو اور ان کے لئے بھی دعا کرو۔ میاں .... دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔ بس دعا کا سلیقہ سیکھ لو۔ اپنے اللہ سے محبت کرو۔ اس قدر محبت سے اس کو چاہو کہ وہ تمہیں چاہنے لگے۔ رب ذوالجلال سے اس کا فضل مانگ کر اپنے حق میں دعا کرو گے تو فیض پاﺅ گے .... جاﺅ اور اپنی منزل کے نشان تلاش کرو“
ٹاہلی والی سرکار کی باتوں سے میرے اندر کشمکش جاری ہو گئی تھی کہ وہ کون سی ہستی ہے جس کی دعاﺅں کا میں ثمر ہوں۔ مجھے اپنے متعلق جاننے کی کھدبد ہونے لگی تھی اور یہ رات میرے لئے کاٹنا بڑی مشکل ہو رہی تھی۔ میں واپس حویلی چلا گیا تو شاہ صاحب نے مجھے دیکھتے ہی بتایا کہ شادی کچھ دنوں کے لئے موخر کر دی گئی ہے۔ ان کا چہرہ ستا ہوا تھا مگر مجھے اس خبر سے آگاہ کرتے ہوئے وہ خاصے ہیجان میں تھے۔
”کیا ہوا“ میں نے دریافت کیا
”زلیخا کی طبیعت خراب ہے۔ چاچی نے بابا جی سے بات کی ہے کہ شادی کچھ دنوں کے لئے موخر کر دی جائے“
یہ پہلا موقع تھا جب یہ خبر سن کر مجھے کچھ عجیب نہیں لگا نہ ہی اس شادی کے موخر ہونے کی خبر سن کر میرے اندر لڈو پھوٹے تھے اور نہ ہی میں نے زیادہ استفسار کیا۔ میں تو اپنی کھوج کے بھنوروں میں غرقاب ہو رہا تھا۔ میں نے چاچی سے بھی یہ پوچھنا گوارا نہ کیا اور کمرے میں پہنچ کر کتابیں کھول کر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ نصیر کمرے میں آ گیا اور اس نے اطلاع دی کہ بابا جی سرکار نے مجھے یاد کیا ہے۔
یہ وہی رات تھی جب بابا جی سرکار نے مجھے افیون لانے کے لئے کہا تھا اور اگلے روز میں دو رتی افیون کے لئے دیہاتوں کی خاک چھانتا پھرا تھا۔ اس سے اگلے روز میرا پرچہ تھا۔ میں نے جس ذہنی الجھن اور غیر متوقع حالات میں انگریزی کا پرچہ دیا تھا اس کا ذکر آغاز میں کر چکا ہوں اور یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اس روز سبزی منڈی میں غازی کی حماقتوں اور شرارتوں کے نتیجہ میں ایک درویش۔۔۔۔۔۔ بابا تیلے شاہ کی کٹیا میں پہنچ گیا تھا۔ بابا تیلے شاہ میرے لئے ایک معمہ سے کم نہیں تھا۔ اس کا یہ کہنا کہ وہ مجھے خود اپنے پاس کھینچ کر لایا ہے ایک عجیب سی بات تھی۔ میں تو ایک غیر اہم اور عام سا نوجوان تھا۔ میرے اندر ایسے کون سے لعل جڑے ہوئے تھے کہ یہ بابے اور ملنگ مجھے اہمیت دے رہے تھے۔ ایک طرف ٹاہلی والی سرکار اور دوسری طرف بابا تیلے شاہ .... تیسری جانب شاہ جی او ر بابا جی سرکار تھے۔ میں تو ایک ہجوم اسرار میں گھر چکا تھا۔ میں نے غازی کو بابا تیلے شاہ سے بڑی مشکل سے بچایا تھا مگر اب ہم دونوں اپنی اصلیت بھی ظاہر کر چکے تھے۔ بابا تیلے شاہ نے بتایا تھا کہ جنات کی پکھیوں کی سرگرمیوں نے پورے علاقے کے بزرگوں کو بے زار کر دیا ہے اور اس سے دوسری ہوائی اور کافر مخلوق میں بھی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ان کے استفسار پر میں نے اپنے گزشتہ چار دنوں کی پوری داستان سنا دی تھی کہ میں بابا جی سرکار سے کیسے ملا۔ غازی سے میرا تعلق کیا تھا ۔ اب تک ہونے والے تمام حالات کی پٹاری کھول کر رکھ دی۔
”پھر تم کہتے ہو کہ میں اتنا غیر اہم کیسے ہو گیا“ بابا تیلے شاہ نے معنی خیز انداز میں میری طرف دیکھا ”جو بھی انسان اس آتشی مخلوق سے تعلق واسطہ رکھے گا وہ خود بخود اہم ہو جاتا ہے۔ میری ایک بات یاد رکھو۔ مقناطیس ہی مقناطیس کو کھینچتا ہے اور یہ لوہے کا برادہ .... اس مقناطیسی ڈنڈے کے ساتھ کھنچا چلا آتا ہے۔ کبھی تم نے دیکھا ہے ان منگتوں کو۔ وہ مزدوری بھی کرتے ہیں اور لوہے کا برادہ بھی اکٹھا کرتے ہیں۔ وہ خاک اور گندگی میں بھی مقناطیسی ڈنڈا پھیرتے رہتے ہیں۔ جہاں جہاں لوہا چھپا ہو گا ڈنڈے کے ساتھ کھنچا چلا آئے گا۔ تمہیں بھی اس روحانی ڈنڈے نے کھینچ نکالا۔ چاہے تم پاتال میں ہوتے۔ تمہاری باری آنی تھی اور تمہیں ظاہر ہونا تھا“میں انہماک سے بابا تیلے شاہ کی باتیں سن رہا تھا مگر میں پھر بھی اس نکتہ کو نہ جان سکا جو وہ مجھے سمجھانا چاہتے تھے۔
”تم میرے ساتھ چلو گے“ انہوں نے رمز و کنایہ کی گفتگو سے باہر نکلتے ہوئے پوچھا
”کہاں“ میں نے استفسار کیا
”ادھر سیداں والی .... پیر کاکے شاہ کے مزار پر جانا ہے چلو گے“ انہوں نے کہا۔اور کچھ سوچنے لگا۔
میں نے سیداں والی کا نام تو سنا ہوا تھا مگر آج تک وہاں جانا نہیں ہوا تھا۔ میرے والدین بہت سال پہلے وہاں کچھ عرصہ گزار کر آئے تھے۔ سیداں والی سیالکوٹ شہر سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر ”نالہ ایک“ کے کنارے ایک قدیمی قصبہ تھا۔ وہاں بزرگوں کی قبور تھیں اور ان کے اعلیٰ حضرت پیر جماعت علی شاہ کے ساتھ خاندانی مراسم بھی تھے۔ اس سے زیادہ میں نہیں جانتا تھا۔ اگلے روز بھی میرا پرچہ تھا اس لئے میں وہ دن کسی اور مصروفیت میں نہیں گزارنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے امتحان کا عذر پیش کیا اور کہا
”سرکار اگر اجازت دیں تو دو چار روز بعد میں حاضر ہو جاﺅں گا۔ میں ان دنوں امتحان میں مصروف ہوں“
وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھنے لگے ”تجھے اس امتحان کی پڑی ہے اور اس امتحان کی تجھے کوئی فکر نہیں ہے جو ترے سر پر کھڑا ہے“ میں خاموش ہو کر انہیں دیکھتا رہا اور زبان سے کچھ نہیں بولا۔”میری خاموشی دیکھ کر وہ دوبارہ بولے
”ٹھیک ہے تم دوبارہ آنا۔ ہم تمہارا سیداں والی میں انتظار کریں گے“
میں نے موقع غنیمت جانا اور جلدی سے وعدہ کرکے اپنے گھر چلا گیا۔ میں نے اپنی والدہ کو بھی خود پر گزرنے والے حالات سے آگاہ کیا تو وہ پریشان ہو گئیں ۔ انہوں نے مجھے منع کر دیا کہ اب میں ملکوال ہرگز نہیں جاﺅں گا۔ میں نے جب ٹاہلی والی سرکار کی رمزیہ گفتگو سے انہیں آگاہ کیا تو وہ سوچ بچار میں پڑ گئیں۔ پھر بتانے لگیں ممکن ہے وہ درست ہی کہہ رہے ہوں۔ ہم نے بیٹیوں کی پیدائش کے بعد اولاد نرینہ کے لئے سیداں والی کے بزرگ پیر کاکے شاہ کے مزار پر جا کر دعا کرائی تھی اور منت مانگی تھی کہ اگر اللہ ہمیں اس بار بیٹا عطا کرے گا تو ہم پاکپتن شریف جا کر دیگیں چڑھائیں گے۔ تمہاری پیدائش کے بعد ہم نے اپنی منتیں پوری کی تھیں۔ ممکن ہے ٹاہلی والے بزرگ کا یہی منشا ہو۔ تم کبھی سیداں والی گئے بھی نہیں ہو گے اور نہ ہی پاکپتن شریف جا کر خواجہ فرید الدین گنج شکر کے مزار پر تم نے حاضری دی ہے۔ والدہ کی باتیں سن کر مجھے بابا تیلے شاہ کی باتیں یاد آ گئیں۔ وہ مجھے سیداں والی لے کر جانا چاہتے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ ٹاہلی والی سرکار اور بابا تیلے شاہ دونوں مجھے ایک نئے راستے اور منزل کی تلاش میں ڈال رہے تھے۔
میں نے والدہ سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں اب ملکوال نہیں جاﺅں گا مگر جب شام ہونے لگی تو میرے اندر بے تابیوں کے الاﺅ بھڑکنے لگے اور میں خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ میرے ذہن پر ان ہستیوں کی عقیدت کا اس قدر تسلط ہو چکا تھا کہ مجھے اب امتحان کی فکر ہی نہیں رہی تھی۔ اللہ نے مجھے اپنی پراسرار دنیاﺅں کے مکینوں سے ملا دیا تھا اور میں اس موقع کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت میرے اندر عقیدت کا سمندر موجزن ہو چکا تھا ۔ایک صحافی کا فطری تجسس بھی مجھے اس بات پر آمادہ کر رہا تھا کہ مجھے ان لوگوں سے دور نہیں رہنا چاہئے۔ پس میں والدہ کو بمشکل قائل کرکے ملکوال چلا گیا۔
وہ رات میرے لئے بڑی اہمیت اختیار کر گئی تھی۔ بابا جی سرکار مہمان خانے میں ہی تشریف فرما تھے اور خاصے مسرور تھے۔ میں جب پہنچا تو دیکھتے ہی فرمائش کی ”شاہد میاں .... غازی کو آئس کریم اور جلیبیاں کھلاتے رہتے ہو مگر ہمارے لئے آم نہیں لے کر آ سکے“
میں شرمندہ ہو گیا۔ شہر سے خالی ہاتھ ہی گاﺅں پہنچا تھا۔ ذہن میں ایک لحظہ کے لئے بھی خیال نہیں آیا تھا کہ ان کے لئے کو ئی شے ہی لے جاﺅں” میں کل شہر سے آم لے کر آﺅ ں گا سرکار“ بابا جی کو جلدی تھی اس لئے وہ چلے گئے اس روز شاہ صاحب بھی بڑے مسرور تھے۔
”تم نے خاصی دیر لگا دی واپس آنے میں“
میں نے انہیں دن بھر کی ساری تفصیلات سے آگاہ کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ بابا تیلے شاہ سے کیا بات چیت ہوئی۔
”اگر تم وقت پر آ جاتے تو تمہیں ایک کیس میں اپنے ساتھ لے جاتا“
”کیسا کیس“ میں نے استفسار کیا ”پولیس پھر آ گئی تھی“
”نہیں یار“ وہ ہنس دئیے ”ہم لوگ جب کسی کا کوئی مسئلہ حل کرنے جاتے ہیں تو اسے کیس بولتے ہیں“ وہ بتانے لگے ”ادھر ساتھ ایک بڑے قصبہ میں ملک صاحب کے ایک دوست کی بیٹی پر جن قابض ہو گیا تھا لڑکی بھی اس کی گرفت میں آ چکی تھی اور وہ اس جن کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھی۔ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اللہ کا شکرہے کہ میں نے بابا جی کی موجودگی کے بغیر اس لڑکی کو جن سے آزاد کرا دیا ہے“
یہ سن کر مجھے اس کہانی میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ شاہ صاحب کہنے لگے ”یہ بڑی عجیب اور متنازعہ سی بات ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے اور اس کو کسی اور وقت پر اٹھا دیتے ہیں کہ جنات اور انسانوں میں شادیاں ہو سکتی ہیں کہ نہیں .... فی الحال اس لڑکی اور جن کی داستان سن لو جو شادی پر آمادہ تھے .... مگر میں نے یہ خلاف فطرت اور خلاف شریعت حرکت سرزد نہیں ہونے دی۔
اس لڑکی کی منگنی ہو چکی تھی لیکن جب سے وہ جن اس پر عاشق ہوا تھا اس نے منگنی توڑنے کا اعلان کر دیا۔ پہلے پہل تو اس کے گھر والوں کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ان کی لڑکی یکایک باغی کیوں ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہ شادی اس کی پسند کے لڑکے سے ہو رہی تھی۔ لڑکی کا چہرہ روز بروز پیلا ہوتا جا رہا تھا اور اس کے خوبصورت چہرے پر جھریاں پڑنے لگی تھیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے اور وہ کھوئی کھوئی سی مدہوش سی نظر آتی۔ ماں کو شک ہوا کہ وہ بیمار ہے۔ اس نے بیٹی سے بہت پوچھا مگر اس نے کچھ نہیں بتایا۔ ماں اس کی ٹوہ میں لگ گئی۔ اس نے بیٹی کے معمولات پر نظر رکھی۔ اس نے غور کیا کہ وہ رات ہونے کا بے چینی سے انتظار کرتی ہے اور اس کے سونے کے معمولات و عادات بدل رہی ہے۔ لڑکی پہلے کمرے سے باہر گھر کے باقی افراد کے ساتھ صحن میں سوتی تھی۔ اسے اندر سوتے ہوئے ڈر لگتا تھا لیکن اب وہ باہر سونے سے گھبراتی اور کمرے کے اندر اکیلی سوتی تھی۔ اس کمرے کے پیچھے ایک پرانی طرز کا سٹور نما بڑا کمرہ تھا۔ ایک روز اس کی ماں اس کے پہرے پر بیٹھ گئی گھر کے لوگ جونہی سوئے وہ کمرے کے دروازے کے ساتھ بیٹھ گئی اور اندر کی سن گن لینے لگی۔ رات آدھی سے زیادہ بیتی تو اسے محسوس ہوا کہ اندرکوئی نہایت بھاری بھرم آواز والا شخص دبی زبان میں بول رہا ہے۔صبح ہوئی تو وہ عورت اندر داخل ہوئی۔ اس نے پورا کمرہ اور سٹور چھان مارا مگر اندر کوئی مرد دکھائی نہیں دیا۔ اس نے ایک نظر بیٹی پر ڈالی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر اذیت کے آثارتھے۔ اس نے بیٹی کو ہلا جلا کر اٹھایا تو اس نے خوابیدہ حالت میں نظریںکھولیں۔ماں اس کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر ڈر گئی۔ بیٹی بھرائی آواز میں بولی۔
”جا ماں سو جا مجھے بھی سونے دے“۔
ماں اس کی حالت دیکھ کر کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی۔ دوپہر کے وقت وہ اٹھی تو اس کی حالت اب نارمل تھی۔ ماں نے بڑی رازداری سے اس سے پوچھا کہ اس کی یہ حالت ایسی کیوں ہو رہی ہے۔ لیکن اس نے کچھ نہیں بتایا۔ عورت نے محسوس کیا اس کی بیٹی نہایت لاغر ہو گئی ہے۔ اس نے کئی راتیں لگاتار بیٹی کی جاسوسی کی۔ اس روز اس نے بیٹی کو بڑی واضح آواز میں کسی سے شکایت کے لہجے میں بات کرنے سنا تھا وہ کہہ رہی تھی
”تم دو دنوںسے کہاں تھے؟“
کسی نے بھاری بھرکم مردانہ آواز میں کہا ”میں بہت دور اپنے گھر والوں سے ملنے چلا گیا تھا“۔
”تجھے میری کوئی فکر نہیں ہے میری نظروں سے دور ہو جاﺅ۔ میں تم سے نہیں بولوں گی“۔
جو اباً وہ بڑے پیار بھرے انداز میں بولا ” میں تم سے دور کہا جا سکتا ہوں۔ دیکھو میں تمہارے لئے یہ انگوٹھی لے کر آیا ہوں۔ یہ ہیرے کی انگوٹھی پہن کر دیکھو۔ تمہیں کتنی سجتی ہے“۔
اس کی بیٹی انگوٹھی پکڑ کر بولی ”واقعی بہت خوبصورت ہے ۔تمہاری آنکھوں کی طرح چمک ہے اس میں“
”نہیں یہ چمک تمہارے چہرے کی چاندنی کے آگے ماند پڑ جاتی ہے۔ تم وہ ہیراہو جس کی تلاش میں میں برسوں بھٹکتا رہا ہوں۔“
”چل جھوٹے! تم جن لوگ بڑے ہی جھوٹے دغا باز اور باتونی ہوتے ہو۔ بالکل ہمارے مردوں کی طرح عورتوں کو جھانسہ دیتے ہو“۔
اس کے بعد اس کی بیٹی اور اس شخص نے کیا کہا تھا‘ وہ عورت سننے کی تاب نہ لا سکی۔ اس پر یہ عقدہ کھل گیا تھا کہ وہ مرد.... دراصل ایک جن ہے جو اس کی بیٹی کی زندگی بربادکر رہا تھا۔ وہ خوف زدہ ہو گئی۔ پاکباز عورت تھی۔ اللہ اور قرآن پاک پر پورا پورا یقین رکھتی تھی۔ اس نے جلدی سے چاروں قل اورآیت الکرسی پڑھی اور کمرے پر پھونک مار دی۔ جواب میں اندر سے وہ جن اس قدر اذیت ناک انداز میں چیخا کہ پورا کمرہ اس کی دہشت سے تھرا گیا اور صحن میں سوئے مرد عورتیں سبھی جاگ پڑے۔ جن نے بڑی غلیظ گالی دی اور چیخ کر لڑکی سے بولا!
”تیری ماں نے یہ اچھا نہیں کیا۔ میں اسے مار ڈالوں گا“ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا اور اسی لمحہ لڑکی دندناتی باہر آئی اور ماں کا گریبان پکڑ کر چلائی۔”تو نے کیا کیا ہے۔ وہ کیوں تڑپا ہے‘ بتا ورنہ میں تجھے مار ڈالوں گی“۔
گھر کے مردوں نے فوراً لڑکی کو قابو کیا....مگر اس میں جناتی قوت داخل ہو چکی تھی۔ عورت بدحواس اور خوفزدہ ہو کر بے ہوش ہو گئی تھی۔ اسے قطعی توقع نہیں تھی کہ اس کے دم کرنے کا نتیجہ اتنا خوفناک ہو سکتا ہے۔
ساری صورتحال گھر والوں پر کھل گئی تھی۔ عورت نے جن اور بیٹی کے دوستانہ تعلق کا عقدہ تو نہ کھولا۔ البتہ یہ کہا وہ اسے گمراہ کر رہا ہے۔ پورا گھر محلے کے مولوی صاحب اور پیروں فقیروں کی طرف بھاگا۔ اس دوران روزانہ گھر میں آیت الکریمہ پڑھایا جانے لگا۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ جتنے روز آیت کریمہ پڑھایا جاتا رہا وہ عفریت نما جن دوبارہ نہیں آیا۔ مگر ان کی بیٹی کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی ، دنوں میں سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ چہرہ سیاہ پڑ گیا اور اس سے چلنا پھرنا دوبھر ہو گیا‘ اوپر سے مختلف عاملوں اور پیروں فقیروں نے اسے تعویذ پلا پلا کر پاگل کر دیا تھا۔ پھر آج اسکا باپ حویلی آگیا۔میں نے اس کی داستان سنی ۔میں اسکے ساتھ اسکے گھر گیا۔ وہ ساڑھے پانچ فٹ کی اچھے نین نقش والی لڑکی تھی لیکن اس کی حالت اب انتہائی بدتر ہو چکی تھی۔ میں نے لڑکی سے سوال جواب کئے تو وہ کہنے لگی۔
”شاہ صاحب! آپ جو مرضی کر لیں‘ مگر یہ بات طے ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی“وہ بے قراری سے اٹھ پڑی تھی۔” میں اس سے شادی کروں گی“
اس کی ماں پریشان ہو کر میرا منہ تکنے لگی۔ میں نے اسے سمجھایا ”تم ایک پڑھی لکھی لڑکی ہو اس لئے میری بات جلد سمجھ جاﺅ گی۔ ادھر آرام سے بیٹھ جاﺅ اور غور سے میری بات سنو....“ وہ بے دلی سے بیٹھ گئی تو میں نے اس دوران ایک عمل پڑھا اور اس کے گرد حصار قائم کر دیا اور کہا ”تم اس دائرے سے باہر نہیں نکلو گئی“۔
پھر میں نے اسے سمجھایا ”تم کہتی ہو کہ اس بدذات جن سے تم شادی کر نا چاہتی ہو۔۔۔۔میرے بات یاد رکھو لڑکی۔ اسلام میں کسی عورت کو جن کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں ہے۔ وہ تمہیںگمراہ کر رہا ہے۔ تمہارا خون چوس رہا ہے‘ وہ شیطان ہے شیطان وہ آگ سے بنا ہے اور تم مٹی سے۔ تم کبھی گرم کوئلے کو کاغذ پر رکھ کر دیکھو‘ جہاں رکھو گی وہ اسے دھیرے دھیرے جلا ڈالے گا۔ یہی تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ جن زادہ آگ ہے۔ آگ انسان کی دشمن ہے۔ یہ جنات ہوں یا شیاطین ان کی انسان سے ازل سے دشمنی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ اس بات سے سختی سے منع فرماتے ہیں۔“
میں نے پہلے اسے واعظ کیا تووہ سٹپٹا کر بولی ”وہ آگ نہیں ہے“
”میری بہن وہ آگ ہی ہے مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے“
”وہ راحت اور سرور ہے‘ ٹھنڈک اور پیار کا سمندر ہے“ لڑکی مخمور لہجے میں بولی اور انگلی میں پہنی انگوٹھی کو سہلانے لگی۔ انگوٹھی پر نظر پڑتے ہی میں چونکا اور اس کی ماں سے پوچھا ”یہ انگوٹھی اس کے منگیتر نے دی ہے“
ماں کے بولنے سے پہلے لڑکی بولی ”وہ مسکین مجھے چاندی کی انگوٹھی لے کر نہیں دے سکا تو ہیرے کی یہ انگوٹھی کہاں سے خرید پاتا“ اس کے لہجے میں تفاخر تھا ”یہ تو میرے جن زادے نے دی ہے“
مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اس جن نے لڑکی کو پوری طرح اپنے قابو میں کیا ہوا ہے۔ میں نے لڑکی سے کہا ”کیا میں یہ انگوٹھی دیکھ سکتا ہوں“ مجھے لگتا ہے یہ اصلی ہیرے کی نہیں ہے“
اس کی بھنوئیں تن گئیں سخت لہجے میں بولی ”تمہیں ہیرے کی پہچان کیا ہو گی“
”مجھے پتھروں کی پہچان ہے“ میں نے اسے سمجھایا کیونکہ میں اس انگوٹھی کو اپنی دسترس میں کرکے اس جن تک پہنچنا چاہتا تھا۔ یہ جنات کی کمزوری ہوتی ہے ۔جب وہ کوئی شے تحفہ میں کسی انسان کو دیتے ہیں تو اس میں ان کی مانوس خوشبو شامل ہو جاتی ہے۔ اس طرح انہیں یہ احساس رہتا ہے کہ وہ اپنے معمول کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے اس سے انگوٹھی حاصل کی اور پھر اس پر دم کرکے انے پاس رکھ لی۔
٭٭
لڑکی سٹپٹائی اور حصار سے نکل کر انگوٹھی لینے کے لئے مجھ پر جھپٹی مگر میں نے اسے حصار میں ہی بند کر دیا اور پھر دھونی سلگا کر اور پانی دم کرکے اس کے اوپر چھینٹے مارے اس کے بعد میں نے اسے زیادہ مہلت نہیں دی۔ میں نے انگوٹھی کو سلگتی دھونی کے اندر پھینک دیا تو کچھ ہی دیر بعد وہ جن آگ بگولا ہو کر حاضر ہو گیا۔ لڑکی کی حالت بگڑ گئی اس کا پیلا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آنکھیں خون اگلنے لگیںاس کی آنکھوں کی پتلیوں میں مجھے اس جن کا اصلی چہرہ نظر آنے لگا۔ پھر مجھے یہ معلوم کرنے میں دیر نہ لگی کہ اس جن کی حقیقت کیا ہے۔ میں نے حسب روایت اس سے مکالمہ شروع کیا۔ کوئی بھی اچھا عامل سب سے پہلے جنات کا حدوداربعہ اور ان کے مقاصد معلوم کرتا ہے پھر اسے موقع دیتا ہے کہ وہ مغلوب کی جان چھوڑ کر چلا جائے۔ اگر وہ سرکش اور ہٹ دھرم ہو تو پھر عامل اس سے مقابلہ کرتا ہے اور اسے اپنے قابو میں کر لیتا ہے۔ اس موقع پر اگر وہ جن عامل سے طاقتور ہو تو پھر عامل کی خیر نہیں ہوتی۔ نہ صرف عامل بلکہ مغلوب کے گھر والوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
میں نے اس سے اس کا نام پوچھنا چاہا تو وہ زخمی درندے کی طرح ڈکرایا اور بولا ”میں نام نہیں بتاﺅں گا“۔
”تم کہاں کے رہنے والے ہو“؟
اس پر وہ مجھے دھمکی دے کر بولا ” میں جہاں بھی رہتا ہوں تمہیں اس سے کیا؟ یاد رکھو اگر تم نے کوئی عمل پڑھا تو میں اس لڑکی کو بھی مار ڈالوں گا اور تمہیں بھی اور اس بڈھی کو بھی“
لڑکی کی ماں سہم کر دیوار سے لگ گئی۔ میں نے دم شدہ پانی اس پر چھڑکا اور جن سے مخاطب ہوا۔
”بس ایک موقع تمہیں دے رہا ہوں۔ لڑکی کی جان چھوڑ دو اور چلے جاﺅ میں جان گیا ہوں کہ تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو“۔
”تمہیں کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ میں یہاںکا رہنے والا نہیں ہوں“۔ وہ خونخوار نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔
”یہاںرہنے والے جنات میرے نام سے آگاہ ہیں۔ تمہارا رنگ اور بو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ تمہاراپنجاب سے تعلق نہیں ہے۔ میں پنجاب کے جنات کی بو پہچان لیتا ہوں .... کیا میں غلط کہہ رہا ہوں“۔
جواب میںوہ مجھے گھور کر رہ گیا۔
میں نے اسے زیادہ موقع نہیں دیا اور اس پر گھیرا تنگ کرنے کے لئے وظیفہ پڑھنے لگا اور جنات کو تسخیر کرنے والا عمل پڑھ کر اسے حصار کے اندر ہی قید کر لیا۔ وہ بہت بھنبھنایا‘ چلایا‘ دھمکیاں دیتا رہا‘ اکڑ دکھاتا رہا لیکن میں نے اسے بے بس کر دیا۔ وہ سرکش جن تھا جو اس کے باوجود جلدی قابو میں آ گیا۔ اس کی عمر ابھی 70سال تھی اور تازہ تازہ بالغ ہوا تھا اس لئے میرے علوم کے آگے زیادہ دیر تک نہ ٹھہر سکا۔ میں نے اسے لڑکی کے اندر سے باہر نکالا اور دھونی تیز کرکے اسے دھوئیں کے اندر قید کر دیا۔ اب وہ اپنی اصلی شکل میں مردہ چھپکلی کی طرح دھوئیں میں بیٹھا تھا۔ عورت صرف اس کی آواز سن سکتی تھی۔ وہ اسے دیکھتی تو غش کھا کر گر جاتی۔ لڑکی بے ہوش ہو کر حصار میں گر گئی تھی۔ عورت اس کی طرف بڑھی تو میں نے اسے روک دیا۔
”ہاں اب بتاﺅ کہ تم کون ہو“ میں نے پورے جلال کے ساتھ اس سے پوچھا
وہ گھگھیا کر ہاتھ جوڑنے لگا بولا ” آپ کو یسوع مسیح کا واسطہ آپ کو اپنے رسولﷺ کا واسطہ مجھے چھوڑ دیں“
”میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا تم بدکردار اور کافر ہو‘ تم نے ایک مسلمان لڑکی کو تباہ کیا ہے میں تمہیں مار ڈالوں گا“۔
وہ کہنے لگا ”میں عیسائی ہوں اور سکھر سے آیا ہوںمیں لاہر کے گوراقبرستان میں اپنے عزیزوں سے ملنے آیا تھا۔ ان کی پوری پکھی یہاں کئی سالوں سے رہ رہی ہے۔ ایک روز میں نے اس لڑکی کو اس کے منگیتر کے ساتھ لاہور کے باغ جناح میں دیکھا۔ میں تب اس پر بیٹھ گیا مجھے اس لڑکی کی خوشبوبڑی اچھی لگتی تھی میرے دوست نے مجھے سمجھایا بھی کہ اسے خراب نہ کروں لیکن میں بہک گیا تھا“۔
میں نے اس کافر جن کو گدی سے پکڑا اور ایک دم شدہ کیل اس کی پیٹھ میں ٹھونک دی۔ وہ دہشت ناک چیخ مار کر بولا ”ہائے میں مر گیا۔ تم نے مجھے اپاہج کر دیا ہے“ پھر میں نے دھونی کو تیز کیا اور اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد بہت سے وظائف پڑھے‘ کمرے کو پاکیزہ کیا اور صدقہ خیرات کیا۔ کسی جن چاہے وہ کافر ہی ہو۔ اسے مارنے کے بعد عامل کو بہت سے حفاظتی وظائف پڑھنے پڑھتے ہیں۔ آدھ گھنٹہ تک میں اپنے وظائف میں مصروف رہنے کے بعد لڑکی کو ہوش میں لایا۔ اسے دم شدہ پانی اور تعویذ دیا۔ جن کے اثرات نے اسے کئی بیماریوں میں مبتلا کر دیا تھا میں نے اس کی ماں کو سمجھایا کہ اسے ٹھیک ہونے میں کم از کم تین ماہ لگیں گے۔
”میں اس لڑکی سے مل سکتا ہوں“ شاہ صاحب خاموش ہوئے تو میں نے تجسّس کے مارے سوال کیا۔
”میں پرسوں دوبارہ وہاں جاﺅں گا۔ یا ہو سکتا ہے وہ لوگ خود ہی کل ادھر حویلی میں آ جائیں۔“ شاہ صاحب کے چہرے پر بڑی جاندار اور معنی خیز مسکراہٹ بار بار نمودار ہو رہی تھی۔
”آپ بہت خوش ہیں۔“ میں نے ان کی اندرونی کیفیت کو بھانپتے ہوئے پوچھا۔
”خوش تو ہوں۔“ وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکے۔ ”تمہارے چاچا جی بھی اب نرم ہو گئے ہیں....“
”کیا مطلب....“ میں نے کہا۔ ”پتھر میں گلاب کیسے کھل سکتا ہے....“
”یہ لڑکی انکے دوست کی بیٹی تھی.... اس نے انہیں میرے متعلق بتایا ہے۔ میرا شکریہ ادا کرنے آئے تھے....“
”چلیں یہ تو بہت اچھا ہوا۔“ میرے ذہن سے جیسے منوں بوجھ اتر گیا۔
اور میں سوچنے لگا کہ زلیخا بھی تو ایک سحر زدہ لڑکی ہے۔ اگر کسی پہنچے ہوئے بزرگ سے مشورہ کر کے اسکو بھی سحری اثرات سے آزاد کرا لیا جائے تو ممکن ہے اسکی شخصیت بحال ہو جائے۔ اس وقت بھی میرے دل میں شاہ صاحب کے بارے میں بدگمانی بھری ہوئی تھی۔ یہ بات اپنی جگہ درست تھی کہ میں ان کی پراسرار قوتوں سے متاثر تھا بلکہ یہ سمجھئے کہ خائف اور اس وجہ سے انکی عزت کرتا تھا۔ لیکن زلیخا کا معاملہ جب بھی سامنے آتا میری روح کی بے کلی بڑھ جاتی تھی اور مجھے چاچا جی کی طرح ایک خلش اور بے سکونی کا احساس ہوتا تھا۔ میرا دل بار بار یہ کہتا تھا کہ کہیں نہ کہیں اس سچائی میں کھوٹ ہے۔ مگر یہ کھوٹ کس نے بھری تھی۔ میرے لئے یہ پہچاننا بہت مشکل تھا۔ اس وقت میں نے دل میں طے کر لیا کہ میں ٹاہلی والی سرکار کی بجائے بابا تیلے شاہ کے سامنے یہ معاملہ رکھوں گا اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کروں گا کہ مجھے میری زلیخا واپس لوٹا دیں۔ اسے طاغوتی قوتوں سے آزاد کرا دیں۔ میرے ذہن سے بوجھ کی بھاری چادر تو سرک گئی تھی مگر دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں بند کر لیا تھا۔
رات ہو چکی تھی۔ نماز مغرب پڑھنے کے بعد زنان خانے میں چلا گیا۔ چاچی نماز پڑھنے کے بعد تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ مجھے دیکھا تو اشارے سے اپنے پاس بلا لیا۔ میں انکے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ تسبیح کے دانے ان کی انگلی کی گردش سے آگے آگے سرک رہے تھے‘ زیر لب وہ کچھ پڑھ رہی تھیں‘ مگر انکی آنکھوں میں سرخ ڈورے بہت نمایاں تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے خون اور نمکین پانی پتلیوں کے گرد منڈلا رہا ہے۔ چہرے سے رنجیدگی مترشح تھی۔ بوڑھے عارض تھرتھرا رہے تھے۔
میں خاموش نظروں سے انہیں دیکھتا رہا۔ تسبیح مکمل کر چکیں تو میرے اوپر پھونک مار کر بولیں۔
”شاہد پتر تو بھی میرے لئے نصیر جیسا ہے۔ میں نے تجھ میں اور اس میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔“ ان کی آواز میں ارتعاش تھا۔
”چاچی۔ خیریت تو ہے۔ کیا بات ہوئی ہے....“ میں نے چاچی کو کبھی اس قدر دل گرفتہ اور بجھا ہوا نہیں دیکھا تھا۔
”پتر میں تمہیں کیا بتاﺅں۔ کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔ میں تو دو کشتیوں کی سوار ہوں۔ ایک طرف تمہارے چاچا جی اور دوسری طرف شاہ جی۔ ایک کی بات مانتی ہوں تو دوسرا ناراض ہوتا ہے۔ ایک طرف سہاگ ہے تو دوسری جانب میرا ایمان.... اور“
”چاچی....“ میں نے بے اختیار ہو کر انکے لبوں پر انگلی رکھ دی۔“ نہیں چاچی.... بالکل نہیں۔ یہ آپ کا ایمان نہیں ہے۔ یہ دین بھی نہیں مذہب بھی.... نہیں چاچی.... ایسا بالکل نہیں سوچنا.... وہ جو دوسری طرف ہے ناں.... تمہارا سہاگ وہ سب سے مقدم ہے۔ یہ جسے آپ دین سمجھتی ہو۔ یہ شیطانی چرخہ ہے جو دکھوں کو کات رہا ہے۔ سچائی کو ادھیڑ رہا ہے چاچی۔ تو مصلے پر بیٹھی ہے۔ ترے ہاتھ میں تسبیح ہے۔ چاچی۔ مانگ۔ اس ذات کبریا سے مانگ چاچی جو ادھر.... تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہ ایسا نہیں کرتا اس کا دین یہ نہیں کہتا جو شاہ صاحب کرتے اور دکھاتے ہیں۔“ نہ جانے مجھے کیا ہوا تھا۔ یہ چاچی کی کم علمی‘ معصومیت اور اندھی عقیدت کا دباﺅ تھا کہ میرے اندر کا طوفان اسکی ایک ضرب سے پھوٹ پڑا.... اور پھر میں اپنی زبان کو نہ روک سکا۔ چاچی کے لب کھلے رہ گئے۔ آنکھوں کا پانی خشک ہو گیا اور اسکے بوڑھے عارضوں کا ارتعاش تھم گیا۔
”پتر.... تو کیا کہہ رہا ہے.... یہ شیطانی چرخہ.... اور پھر یہ بابا جی....“
”چاچی.... میں بابا جی کی بات نہیں کر رہا۔ وہ اللہ اور اسکے رسول کا نام لیتے اور ساری ساری رات عبادت کرتے رہتے ہیں۔ میں انہیں نہیں سمجھ سکا چاچی.... مگر یہ جو ہیں اپنے شاہ صاحب۔ ان کے اندر مجھے کھوٹ نظر آتی ہے۔ چاچی وہ جو کہتے ہیں سچ نہیں دکھتا۔ انہوں نے ملک صاحب کی بیٹی کو جن سے آزاد کرا دیا ہے لیکن چاچی ہماری زلیخا کو نارمل کیوں نہیں کر سکے۔ اس لئے.... اس لئے کہ انکے اندر ہوس ہے۔ وہ زلیخا کو اپنی دلہن بنانا چاہتے ہیں اور ہم لوگوں کو اسکی صحت سے ڈرا دھمکا کر خوفزدہ رکھنا چاہتے ہیں.... اور چاچی آپ سمجھتی ہیں کہ زلیخا کے دکھوں کا مداوا صرف شاہ صاحب کر سکتے ہیں.... نہیں چاچی‘ بالکل نہیں.... خدا کے لئے چاچی کچھ کرو.... اور اس مکار شخص کو گھر سے نکال دو.... ورنہ یہ ہمیں برباد کر دے گا.... اور تو اپنی جس زلیخا کے سکھ کے لئے یہ سب کر رہی ہے ناں.... پھر ساری عمر روگ میں گزار دے گی۔“ جذبات سے میری آواز کانپ رہی تھی اور میرا لہجہ بہت تیز ہو گیا تھا۔ چاچی میری حالت دیکھ کر گھبرا گئی۔
”پتر ہوش کر....“ وہ میرا ہاتھ تھام کر سہلانے لگیں۔ اسی لمحہ بڑے ملک صاحب کی آواز سنائی دی۔
”اسکو ہوش نہ دلا رضیہ۔ یہ ٹھیک کہتا ہے۔ ہوش دلانا ہے تو اپنے آپ کو دلا۔ تیرا ضمیر منوں مٹی تلے دبا ہوا ہے۔ شاہد پتر اسے کھود کر باہر نکال رہا ہے.... رضیہ ابھی بھی وقت ہے۔ اپنے آپ کو عقیدتوں کے سراب سے باہر نکال لا....“
پھر تو جیسے برسوں کا پانی چاچی کی آنکھوں سے سیل رواں کی طرح رواں ہو گیا۔ وہ تڑپ تڑپ کر رونے لگیں۔ ملک صاحب اور میرا دل بھی بھر آیا۔
”ٹھیک ہے۔ میں ہی اندھی ہوں۔ بے رحم اور کم عقل ہوں۔ اپنی بیٹی کی دشمن بن گئی تھی۔ مگر اب میں اسکو جوتے مار کر گھر سے نکال دوں گی....“
”نہیں بالکل نہیں چاچی....“ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
”تو اب خاموش ہو جا پتر.... میں نے ہی آگ لگائی تھی میں ہی اسے بجھاﺅں گی۔“ چاچی نے اپنے آنسو صاف کئے اور مصلیٰ لپیٹ کر اضطراری حالت میں جوتی پہننے لگیں۔
”چاچی.... اس طرح معاملہ بگڑ جائے گا۔ ہم اس وقت آتش فشاں کے منہ پر بیٹھے ہیں۔“ میں نے سمجھایا۔ ”شاہ صاحب کے پاس پراسرار قوتیں ہیں۔ وہ ہمیں پریشان کر سکتے ہیں۔ زلیخا کو مار ڈالیں گے....“
”یہ ٹھیک کہتا ہے۔ رضیہ سمجھداری سے کام لو....“ ملک صاحب بھی انہیں سمجھانے لگے۔
”چاچی۔ اللہ نے ہماری مدد کی ہے۔ یہ شادی کچھ دنوں کے لئے ملتوی ہو چکی ہے لہٰذا اس التوا کو مزید آگے کر دیں۔ ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہئے۔ وہ ہی ہمیں اس مشکل سے نکال سکتا ہے۔ ہم خود بھی اس ذات کریم کے سہارے سے کچھ کرتے ہیں۔“ میں نے چاچی کو مزید مشورے دئیے اور انہیں سمجھا دیا کہ اگر اب بابا جی سرکار بھی کہیں تو زلیخا کی بیماری کو آڑ بنا کر اس معاملے کو مزید آگے لے جایا جائے۔
ہم اپنے طور پر بہت مطمئن ہو گئے تھے مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہماری آزمائشوں کے ابھی اور بھی امتحان تھے۔ میں کمرے میں سونے چلا گیا تھا۔ ابھی میری آنکھ لگی تھی کہ باہر گولی کی آواز سنائی دی۔ میں دہشت زدہ ہو کر اٹھ پڑا۔ باہر شور برپا تھا۔ میں جھٹ سے باہر نکلا.... راہداری میں نوکر نصیر کو قابو کر رہے تھے۔ اسکے ہاتھ میں بارہ بور کی بندوق تھی اور وہ اس سے چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں انکی طرف بھاگا۔
”کیا ہو رہا ہے یہ....“
”شاہد پتر یہ پاگل ہو گیا ہے....“ چاچی دروازے کے پاس کھڑی تھیں۔ ”اپنے باپ کو قتل کرنا چاہتا ہے یہ....“
”کک۔کیا....“
”ہاں میں قتل کر دوں گا اسے۔ تم سب کو مار ڈالوں گا میں۔ سب کچھ ختم کر دوں گا....“ نصیر بپھرا ہوا تھا، تین نوکروں کے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ اسی چھینا جھپٹی میں گولی چل گئی تھی۔ یہ تو خدا کا شکر تھا کہ نالی کا رخ باہر باغیچے کی طرف ہو گیا تھا ورنہ اب تک کسی ایک کا خون ہو چکا ہوتا۔
”نصیر میرے بھائی.... ہوش میں آﺅ....“ میں نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے بندوق چھین لی۔ سنگل نالی کی بندوق تھی۔ اس میں ایک ہی کارتوس استعمال ہوتا تھا اور اب یہ خالی ہو چکی تھی۔
”تم بھی انکے ساتھ ملے ہوئے ہو۔ میں تمہیں بھی مار ڈالوں گا....“ نصیر مجھے گالیاں بکتے ہوئے چلانے لگا۔“ تم سب نے میرے بابا جی سرکار سے کیا ہوا وعدہ توڑا ہے۔ تم سب نے دھوکا کیا ہے۔ میرے شاہ صاحب کو ٹھیس پہنچائی ہے تم لوگوں نے....“ اسکے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی اور آنکھیں کسی طاغوتی انسان کی طرح سرخ ہو کر الٹ رہی تھیں۔ اسکے پورے بدن پر رعشہ طاری تھا۔
”ایسا کچھ نہیں ہوا نصیر.... ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے نوکروں سے کہا۔ ”پیچھے ہٹو تم.... چھوڑ دو اسے.... جاﺅ اور پانی لیکر آﺅ....“ میں نے اس دوران راہداری میں دور تک دیکھا۔ شاہ صاحب دکھائی نہیں دئیے۔ میرے ذہن میں دھماکے ہو رہے تھے کہ نصیر کو یکایک کیا ہو گیا ہے۔ ہم نے تو اسے اپنے منصوبے سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ مجھے شک ہوا کہ ممکن ہے شاہ صاحب کو اس منصوبے کی خبر ہو گئی ہو اور انہوں نے اپنے اندھے عقیدت مند نصیر کو ورغلا لیا ہو۔
میرا شک صحیح ثابت ہوا۔ نوکروں نے نصیر کو چھوڑا تو وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپنے کے بعد بے ہوش کر گر پڑا۔ مجھے میرے وجدان نے احساس دلایا کہ شاہ صاحب نے لازماً اپنے کسی عمل کے ذریعے نصیر کو قابو کر کے اپنے والد کے قتل پر اکسایا ہو گا۔ اگر واقعی ایسی بات تھی اور نصیر انکے کسی ”عمل“ کا شکار ہوا تھا تو اسے ہوش میں لانا بہت مشکل تھا۔ اگر اسے کوئی ہوش میں لا سکتا تھا تو یہ صرف شاہ صاحب ہی تھے.... یا پھر بابا جی سرکار یا ٹاہلی والی سرکار.... مگر اس وقت بابا جی اور ٹاہلی والی سرکار ہمیں میسر نہیں ہو سکتے تھے میں نے سوچا کہ اگر وہ میسر ہوتے بھی تو لازماً وہ شاہ صاحب کی ہی طرف داری کرتے۔
پتر شاہ صاحب کو بلاﺅ۔ اس کو ہوش میں لائیں....“ چاچی نے اپنے لخت جگر کو تڑپ تڑپ کر بے ہوش ہوتے دیکھا تو ان کی ممتا ایک بار پھر ہارنے لگیں۔
”چاچی۔ انہیں نہیں بلانا۔“ میں نے انکے کان میں سرگوشی کی۔ ”وہ یہی تو چاہتے ہیں۔ انہوں نے نصیر پر جادو کر کے اسکی عقل باندھ دی ہے۔ اس لئے تو یہ اپنے باپ کے خون کا پیاسا ہو گیا تھا۔“
”کچھ کرو.... میں مر جاﺅں گی۔ میرا پتر تڑپ رہا ہے۔ اس کو ہوش میں لاﺅ....“ چاچی اس وقت کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھیں۔ بڑے ملک صاحب بھی اندر سے باہر آ گئے تھے۔ وہ نصیر کو ہوش میں لانے لگے۔ نصیر کی آنکھیں کھلی پڑی تھیں اور پتھرانے لگی تھیں.... میرا دماغ بڑی تیزی سے حرکت کر رہا تھا۔ معاً میرے ذہن میں جھماکا ہوا ٹاہلی والی سرکار کی بہت سی باتیں میرے ذہن میں تازہ ہو گئیں۔ انہوں نے مجھے کچھ وظائف عطا کئے تھے۔ میں کوئی عامل کامل تو تھا نہیں۔ لیکن میرا اسلامی علوم پر پختہ یقین تھا۔ یہ آیات ربانی پر مشتمل چند آیات اور اسمائے ربی تھے۔ میں نے فوراً وضو کیا اور پانی لیکر ان وظائف کو پڑھ کر پانی پر دم کیا اور پھر دم شدہ پانی نصیر کے پورے بدن پر چھڑک دیا۔ اللہ کا ہم پر کرم ہو اور کچھ ہی دیر بعد نصیر کی حالت بہتر ہونے لگی اور کچھ ہی دیر بعد وہ ہوش میں آ گیا۔ وہ خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھنے لگا.... لیکن ابھی اس کی حالت سنبھلی نہیں تھی۔ اس کا پورا بدن لرز رہا تھا اور آواز میں کپکپاہٹ تھی۔
”مجھے کیا ہوا ہے....“ وہ سب کے چہرے دیکھنے لگا۔
چاچی اس کا منہ چومنے لگی۔ ”میرے لال۔ ماں تجھ پر واری.... کچھ نہیں ہوا تجھے۔“
”نہیں ماں....“ وہ کچھ کہتے کہتے رکا اور اسکی نظریں راہداری میں گری پڑی بندوق پر پڑیں۔” یہ بندوق یہاں کیوں پڑی ہے ماں....“
”میں بتاتا ہوں تجھے....“ میں نے کہا ”لیکن ابھی تیری حالت ٹھیک ہے۔“ میں نوکروں کی مدد سے اسے اٹھا کر کمرے میں لے آیا اور بستر پر لٹا دیا۔
”تم بتاتے کیوں نہیں.... مجھے کیا ہوا ہے....“ وہ بار بار مجھے پوچھ رہا تھا اسکے بدن پر ابھی تک لرزہ طاری تھا۔ اور پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا....
”اوہ میرے خدایا.... میں کیا کرنے جا رہا تھا....“ اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا اور پھر اسکی نظریں ندامت سے جھک گئیں۔
”شاہ صاحب۔ آپ نے اچھا نہیں کیا....“ وہ نظریں گرا کر آہستہ آہستہ کہنے لگا۔ ”یہ اچھا نہیں ہوا....“وہ سر تھام کر رونے لگا۔
”کیا ہوا تھا.... مجھے بتاﺅ....“ میں نے اسے سہارا دیا۔ ”خدا کا شکر ہے کہ تم بہت بڑے گناہ اور جرم سے بچ گئے ہو.... مجھے بتاﺅ شاہ صاحب نے کیا کیا تھا....“
”وہ....“ نصیر کچھ کہتے کہتے رک گیا اور نوکروں کا منہ تکنے لگا۔
”تم باہر جاﺅ....“ نوکر باہر چلے گئے.... تو وہ بولا۔ ”مجھے شاہ صاحب نے کہا تھا کہ تم لوگوں نے‘ بابا جی اور شاہ صاحب کی توہین کی ہے اور انکے خلاف بڑی گندی باتیں کی ہیں۔ شاہ صاحب نے مجھے کہا تھا کہ وہ مجھے بابا جی جیسے بزرگ جنات کو قابو کرنے کے لئے علوم سکھانا چاہتے تھے۔ رشتہ داری کے بعد وہ مجھ پر ہی انحصار کرتے لیکن میرے والد ایسا نہیں چاہتے.... انہوں نے مجھے اور بھی بہت کچھ کہا تھا.... جس سے مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اپنے والد کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا“ اس سے آگے وہ نہ بول سکا۔
میں سناٹے میں آ گیا
”شاہ صاحب نے قتل عمد کی کوشش کی ہے نصیر۔ انہوں نے قتل پر اکسایا ہے۔ اف میرے خدایا۔ یہ کیسا پیر عامل ہے جو اولاد کو اپنے باپ کے قتل پر اکساتا ہے۔“ میں نے سر تھام لیا۔ میرے ذہن میں شاہ صاحب کی عبادتیں ریاضتیں اور نمازیں تازہ ہو گئیں۔ رات کے آخری پہر خدا کے حضور سر جھکا کر ان کی گڑگڑاتی صدائیں گونجنے لگیں۔ مجھے ان کا وہ روپ بھی یاد آ گیا جب قبرستان میں ان کے دھڑ پر کسی انسان کی بجائے درندے کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔
”میں تو کہتا ہوں پولیس کو اطلاع کر دیتے ہیں“ ملک صاحب کہنے لگے ”مجھے شک ہے چودھری کے گھر میں چوری بھی اسی نے کرائی ہے“
”مگر چاچا جی اس طرح تو آگ بھڑک اٹھے گی“ مجھے ریاض شاہ کی شیطانی قوتوں کا بھی خوف تھا۔ اگرچہ اس وقت میرے دل کو اتنی تقویت پہنچ چکی تھی اور میرا ایمان بھی تازہ ہو چکا تھا کہ اگر میں بھی وظائف پڑھتا رہوں تو اس کے سحری اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہوں لیکن میں کوئی عامل نہیں تھا اور نہ ہی عامل بننا چاہتا تھا۔ مجھے ان کی روحانی قوتوں کو پڑھتے ہوئے ایک انجانا سا خوف بھی لاحق ہو رہا تھا۔
”ہمیں کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کا دن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اور کیا کچھ کر سکتا ہے۔ میں شہر جا رہا ہوں۔ وہاں مجھے ایک بزرگ ملے تھے ممکن ہے وہ ہماری کچھ مدد کر دیں“ میں نے جان کر بوجھ کر بابا تیلے شاہ کے بارے زیادہ باتیں نہیں بتائی تھیں۔
ملک صاحب سوچ میں پڑ گئے پھر بولے ”ایسا نہ ہو کہ ہم ایک اور مصیبت میں پڑ جائیں“
”اس کے سوا چارہ بھی تو نہیں“ میں نے نصیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”میں اسے ابتدائی مدد دے کر ہوش میں لے آیا ہوں مگر یہ اس کا علاج نہیں ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ رہ کر میں نے یہ بات جان لی ہے کہ وظائف اور عملیات پر قدرت حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے تب کہیں جا کر ان سے حسب توقع نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ نصیر کا علاج نہ کیا گیا تو یہ بھی زلیخا کی طرح بیمار ہو جائے گا“
چاچی نے سنا تو تڑپ اٹھی ”اللہ نہ کرے پتر“ ممتا کی ماری اپنے بیٹے سے لپٹ گئی ”سوہنے پروردگار میرے لعل کی حفاظت فرما“
”تو نے یہ عمل کس سے سیکھا ہے پتر“ ملک صاحب نے مجھ سے سوال کیا
میں نے انہیں مختصر بتایا کہ کسی بزرگ نے پڑھنے کے لئے دیا تھا۔ میں نے انہیں ٹاہلی والی سرکار کے بارے اس لئے نہیں بتایا کیونکہ وہ انہیں جانتے تھے۔ اگر میں انہیں یہ وظیفہ حاصل کرنے کی داستان سناتا تو ان کے ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہو جاتے جن کے جواب دینا میرے لئے مشکل ہو جاتا۔
”پتر جی اس وظیفے میں اتنی طاقت ہے تو یہ نصیر ہوش میں آ گیا ہے ناں۔۔۔۔ تو کسی اور کے پاس جانے کی بجائے خود اس کا علاج کیوں نہیں کرتے“
”نہیں چاچا جی۔ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ میری مثال تو اس شخص جیسی ہے جو چند دواﺅں کے نام جانتا ہے اور کسی عام مرض کے لئے دوا تجویز کر سکتا ہے لیکن مکمل علاج نہیں کر سکتا۔ علاج کے لئے کسی ماہر معالج سے ہی رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ عامل کامل وغیرہ ڈاکٹر ہیں جس طرح ایک ڈاکٹر کئی سال تک شب و روز پڑھائی اور تربیت کے بعد علاج معالجہ پر دسترس حاصل کرتا ہے اسی طرح روحانی معالج بننے کے لئے مجاہدے اور چلے کاٹنے پڑتے ہیں۔ میں تو اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا“
”تم ٹھیک کہتے ہو پتر جی .... لیکن میرا ایمان کہتا ہے کہ اگر ہمارا ایمان پختہ ہے اور کتاب الہٰی سے ہماری محبت بے پناہ ہے تو پھر کوئی بھی شیطانی قوت ہم پر غالب نہیں آ سکتی“ چاچا جی نے میرے دل کی بات چھین لی تھی۔
”آپ صحیح کہتے ہیں“ میں نے ان کی بات کی تائید کی ”ہمارا ایمان مضبوط اور اللہ کا ذکر ہمارے لبوں اور قلبوں پر بہتے پانیوں کی طرح رواں دواں رہے تو یہ جادو ٹونے کی کثافتیں ہمیں کبھی آلودہ نہیں کر سکتیں۔ لیکن چاچا جی یہاں ایک لطیف پردے نے معاملات کو مختلف بنا دیا ہوا ہے۔ یہی معاملہ ہماری عقلوں سے ماورا ہے۔ ایمان کمزور پڑ جائے تو انسان ڈھے جاتا ہے لیکن اگر ایمان کی پختگی برقرار رہے تو انسان گرتا نہیں ہے۔ ہمیں اپنے ایمان کی مضبوطی کے ساتھ اپنے معاملات کو چلانا ہے۔ کمزور نہیں ہونا ہمیں“
میں نے ان سب سے اجازت لی اور اسی وقت شہر کے لئے حویلی سے نکلنے لگا۔ میں شاہ صاحب سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔ ان سے نظریں بچا کر میں جا رہا تھا کہ معاً ان کی آواز نے میرے قدم روک لئے۔ میں نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا
”ادھر آﺅ“ ان کے لہجے میں سختی تھی۔ میں اسی جگہ ٹھہرا رہا۔
”میں کہتا ہوں ادھر آﺅ“ وہ جلال میں بولے
اس بار میں ان کے پاس چلا گیا
”تم کیا سمجھتے ہو میں کچھ نہیں جانتا“ وہ غصے میں کھولتے ہوئے مجھے دھمکی دینے لگے ”تم نے دیکھ لیا نصیر کو کس طرح بے بس کر دیا تھا میں نے .... تم کیا چیز ہو۔ ایک دو لفظ سیکھ لئے خود کو طرم خاں سمجھنے لگے ہو۔ یاد رکھو میں اگر چاہوں تو تمہارے سینے میں انگلی ڈال کر تمہارا دل نکال دوں“ وہ انگشت شہادت میرے دل کے مقام پر چبھونے لگے ”تمہیں بڑا مان ہے ناں خود پر“
میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموش کھڑا رہا۔
”تمہاری ساری ہوا نکال دوں گا“ ان کے اندر کا درندہ میرے سامنے عریاں ہو رہا تھا۔ ”میں اتنی جلدی ہار ماننے والا نہیں ہوں“
”میں آپ کی شکایت باباجی سے کروں گا“ میں نے کہا
وہ قہقہے لگانے لگے ”بابا جی سے کہوں گا .... ارے جاﺅ اور انہیں تلاش کرکے بتاﺅ کہ ریاض شاہ نے تم لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے“ انہوں نے انگلی میری ناک پر رکھی اور زور سے دبا کر بولے ”میرے لعل ۔۔۔۔۔بابا جی میری بات مانتے ہیں .... تم لاکھ ان کی منتیں کرو۔ جب تک میں نہیں چاہوں گا وہ کچھ نہیں کر سکتے ۔اگر نہیں یقین تو اب بابا جی سے ملاقات ہو تو آزما کر دیکھ لینا“
”اچھا دیکھ لوں گا“ میں نے اکھڑے لہجے میں جواب دیا۔ میں ان سے الجھنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے خدشہ تھا اگر میں الجھ پڑا تو وہ کوئی شیطانی حرکت کر سکتے تھے۔
”اب جاﺅں میں“ میں نے کہا
”جاﺅ .... لیکن اپنے کمرے میں“ وہ مجھے تنبیہ کرتے ہوئے بولے ”اگر تم نے اپنے کمرے سے نکلنے کی کوشش کی تو اس کے بعد جو ہو گا اس کے ذمہ دار تم خود ہو گے .... جاﺅ اور اپنے یار کی تیمارداری کرو“
میں جان گیا تھا کہ انہوں نے لازماً کوئی ایسی پیش بندی کر دی ہو گی کہ میں اب حویلی سے باہر نہ جا سکوں۔ میں واپس اپنے کمرے میں گیا تو نصیر چارپائی پر لیٹا ہوا تھا اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں۔ چاچی ، زلیخا اور ملک صاحب اس کے پاس غمزدہ سے بیٹھے تھے مجھے دیکھا تو ان کے چہروں پر سراسیمگی سی پیدا ہو گئی۔
”تم گئے نہیں“ چاچی بولیں
”میں جانا چاہتا تھا لیکن شاہ صاحب نے روک دیا ہے“ میں نے لاچارگی سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے جواب دیا ”اسے کیا ہوا ہے؟“ میں نصیر کے پاس پہنچا
”تمہارے جاتے ہی اس کی حالت خراب ہو گئی تھی“ ملک صاحب پریشانی کے عالم میں بولے ”اب کیا ہو گا بیٹا“
میں نصیر کے سرہانے بیٹھ گیا
”اللہ ہمارے ساتھ ہے“
”کہاں ہے اللہ ....“ زلیخا آہستگی سے بولی۔ اس کا لہجہ شکووں شکایتوں سے بھرا ہوا تھا۔
”وہ بے کسوں سے دور کیوں ہے“ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے
”اللہ ہمارے ساتھ ہے زلیخا“ میں اس کے قریب گیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے سمجھایا ”زلیخا .... دل چھوٹا نہ کرو .... مایوسی کفر ہے“
وہ خاموش ہو گئی ہمیشہ کی طرح ۔۔۔گو اس کی آنکھوں میں شکوے شکایات حزن و ملال تیرتے رہے۔
میں نصیر کے سرہانے بیٹھ گیا۔ پاس ہی پانی سے بھرا گلاس رکھا تھا۔ میں نے ان تین آیات
٭وَاللّٰہُ خَی±ر’‘ حٰفِظًا وَ ھُوَ اَر±حَمَ الرّٰاحِمِی±ن
٭ َواتَّبَعُو± مَا تَت±لُوا الشَّیٰطِی±نُ سے لَو± کَانُو± یَع±لَمُو±ن
٭حَس±بُنَا اللّٰہُ وَ نِع±مَ ال±وَکِی±ل
کو ایک خاص طریقہ سےپڑھا اور پانی پر پھونک کر نصیر پر چھڑک دیا تو کچھ ہی دیر بعد اس کی حالت سنبھلنے لگی۔ ایک گھنٹے تک میں اس کے سرہانے بیٹھا وظائف پڑھتا رہا۔ اس کی طبیعت کچھ بحال ہو گئی تھی مگر لگتا تھا اس کا خون کسی نے چوس لیا ہے۔ سرخ و سپید رنگت زرد اور مٹیالی ہو گئی تھی۔ آنکھوں کے گرد سیاہی مائل حلقے نمایاں ہو رہے تھے۔ یہی حالت میں نے زلیخا کی بھی دیکھی تھی۔ اس کی حالت قدرے سنبھلی تو میں نے ایک بار پھر حویلی سے نکلنے کی کوشش کی اس بار میں پچھواڑے سے باہر جانا چاہتا تھا۔ میں نے جونہی کمرے سے باہر پاﺅں رکھے‘ نصیر کی کربناک آواز سنائی دی اور جلدی سے واپس لوٹ آیا۔
”او مائی گاڈ“ میں سمجھ گیا تھا۔ شاہ صاحب نے ہمیں اپنے شیطانی جال میں بری طرح پھنسا دیا تھا انہوں نے نصیر کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا۔ جونہی میں اس سے پرے ہٹتا تھا تو اس کی حالت بگڑ جاتی تھی۔ میں جان گیا تھا کہ انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ میں بے بسی سے کمرے میں چکر لگانے لگا۔ سوائے اللہ کے ہمارا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کے منہ تکتے اور دلاسے دیتے رہتے تھے۔ یونہی شام ڈھل گئی۔ اس رات ہم سب ایک ہی کمرے میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔ نہ چولہا گرم ہوا نہ کوئی برتن کھٹکا۔ میں کمرے میں نصیر کے پاس ایک چوکیدار کی طرح بیٹھ کر رہ گیا۔
یہ عشا کے قریب کا وقت تھا جب غازی ہمارے کمرے میں آ گیا۔ وہ انسانی روپ میں ہی تھا اور اس کا لہجہ بھی بگڑا ہوا تھا کہنے لگا ”تمہیں شاہ صاحب نے بلایا ہے“
میں نے غازی کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کی مگر تاب نظر برداشت نہ کر سکا۔ اس سے قبل اس نے مجھے کبھی تو اور تم کہہ کر مخاطب نہیں کیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں جنات کی روایتی وحشت اور غضب تھا۔ وہ غائب ہو گیا اور میں شاہ صاحب کے کمرے میں چلا گیا۔ کمرہ گھپ اندھیرے میں غرق تھا میں چوکھٹ کے پاس ہی کھڑا ہو گیا
”اندر آ جاﺅ“ بابا جی کی بھاری بھرکم آواز سنائی دی۔
”میں اندھیرے میں داخل ہو گیا اور چند قدم چلنے کے بعد رک گیا۔
”تمہارا خون بڑا گرم ہو رہا ہے“ بابا جی میرے سامنے کھڑے تھے اور ان کی تیز گرم سانسیں میرے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ اس وقت وہ اپنے جناتی روپ میں ہی تھے۔ میں نے آنکھیں بند کر لی تھیں مگر میری ساری حسیات چوکس ہو گئی تھیں۔ دل بھی بے اختیار ہو کر دھڑکنے لگا تھا لیکن اس لمحے بھی میں اپنے اللہ کو نہیں بھولا۔ متلاطم دل کے ساتھ درود شریف پڑھنے لگا۔ اپنے اندر کے جواربھاٹا کو اس سے قرار آ سکتا تھا۔ بابا جی جب جناتی روپ میں آتے تھے تو اسی طرح گھپ اندھیرا کیا جاتا تھا تاکہ ان کے اصلی خدوخال نظر نہ آ سکیں۔
”تم نے ہمارے بیٹے ریاض شاہ کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرکے سب کو ان کے خلاف کر دیا ہے“ باباجی غضب ناک لہجے میں بول رہے تھے
”سرکار .... میں نے کچھ نہیں کیا“ میں نے جرات کرکے لب کھولے۔
”بکواس کرتے ہو ۔ہم سب جانتے ہیں“ وہ دھاڑے تو میرا دل سینے کی دیواریں توڑ کر باہر پھدک جانے لگا۔ کمرے کے درودیوار تھرا اٹھے۔ انہوں نے اپنے لطیف روئی جیسے ہاتھ سے میرے بازو پر تھپڑ مارا اور میں کانپ کر رہ گیا۔
”سرکار! آپ سب کچھ جانتے ہیں اور پھر بھی خاموش ہیں“ میں بولنے سے باز نہیں آیا۔ ”آپ کو ہر بات کی خبر ہے مگر آپ یہ نہیں جان سکے کہ یہ شاہ صاحب اندر سے کتنے گھناﺅنے ہیں۔ یہ پاپی ہیں سرکار۔ انہوں نے آج ایک معصوم اور آپ کے عقیدت مند نوجوان کو اس کے باپ کے قتل پر اکسایا۔ سرکار آپ اگر یہ سب جانتے ہیں تو مجھے بتائیں کیا ہمارا مذہب ہمیں یہ آداب سکھاتا ہے“ میں روہانسا ہو گیا ”اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ شاہ صاحب سیاہ کریں یا سفید‘ ان کا ہر فعل درست ہے تو پھر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آپ کا اسلام اور سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے“ میری بات سن کر بابا جی کی سانسیں تیز ہو گئیں ۔ میں اب ہر طرح کے عذاب کو سینے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو چکا تھا۔ ہر طرح کی فکر اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر میں بولتا رہا ”سرکار! ہم تو آپ جیسی ہستیوں کے عقیدت مند تھے لیکن آپ نے .... ہماری ساری عقیدت کو پشیمانی میں بدل دیا ہے۔ یہ انتقام لے رہے ہیں ہم سب سے۔ مجبور اور بے بس لوگوں کا ایمان خراب کرکے انہیں کمزور بنا کر اپنی اطاعت کرانا کہاں کا اسلام ہے۔ میں نے دیکھا ہے اور سنا ہے آپ اور آپ کے جنات پیروکار پہروں قرآن پاک پڑھتے رہتے ہیں۔ میرے پیارے رسول کی ثنا بیان کرتے ہیں۔ سرکار ۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف آپ کا یہ مقام ہے اور دوسری طرف آپ ایک ایسے شخص کے ہاتھوں مجبور نظر آ رہے ہیں جو ایمان فروش ہے“
”شاہد .... خاموش ہو جاﺅ“ باباجی دھاڑے ”خاموش ہو جاﺅ تم .... .... “
”ریاض شاہ .... تم نے سنا یہ کیا کہہ رہا ہے“ باباجی گھمبیر آواز میں بولے
”سنا ہے سرکار .... یہ بکواس کرتا ہے صحافی ہے ناں .... زبان بہت چلاتا ہے“ ریاض شاہ بابا جی کا نبض شناس تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ میری حقیقت کشائی نے بابا جی کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے تو اسے صورتحال بدلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ “
”بکواس نہیں کر رہا یہ “ باباجی نے تیز لہجے میں کہا ”تم اپنے ساتھ ہمیں بھی ذلیل کراتے ہو میں نے تم سے کہا تھا کہ ہم تمہاری والدہ کی وجہ سے تمہیں رعایت دیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم لوگوں کا ایمان بیچتے پھرو اور ہم تمہیں معاف کر دیں۔ میں تمہیں چھوڑ کر چلا جاﺅں گا“
”سرکار .... میری بات تو سنیں“
”اب سننے کو رہ ہی کیا گیا ہے“ بابا جی بولے ”روشنی جلا دو تم نے معاملات کو جس حد تک خراب کیا ہے اسے اب درست کرنا ہو گا۔ تمہیں میں شروع دن سے یہ بات سمجھا رہا ہوں کہ اگر ایک عامل منتقم مزاج ہو جائے تو اس سے بڑا ظالم انسان کوئی نہیں ہوتا۔ تم نے اپنی ہوس اور انتقام کی خاطر یہ گھناﺅنا کھیل کھیلا ہے“
”میں معافی چاہتا ہوں سرکار“ ریاض شاہ نے لائٹ جلا دی تھی اور پھر میں نے اسے بابا جی کے قدموں میں جھکے دیکھا۔ بابا جی انسانی روپ میں آ چکے تھے۔
”آﺅ میرے بچو .... ادھر میرے پاس آﺅ“ بابا جی نے ہاتھ آگے بڑھا کر میرا ہاتھ تھام لیا اور ریاض شاہ کو پیروں سے ہٹا دیا تھا۔
”میرے پاس بیٹھو“ وہ پلنگ پر بیٹھ گئے”غازی .... تم جاﺅ اور باقی سب لوگوں کو بھی بلا لاﺅ“ غازی چلا گیا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے ”شاہد میاں یہ شاہ صاحب ابھی نادان ہیں۔ جوانی کا عالم ہے۔ میاں تم جانتے ہو۔ ندی ، دریا کے کنارے کمزور ہوں تو پانی میں ذرا سی تیزی آ جانے سے کنارے ٹوٹ جاتے اور پانی بہہ نکلتا ہے۔یہ ریاض شاہ کے اندر علوم کی طغیانی برپا رہتی ہے لیکن اس کا ظرف کمزور ہے۔ اس میں برداشت بہت کم ہے۔ کینہ بھرا ہوا ہے اس میں۔ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ جنات میں کینہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان میں غضب کی شرح انسانوں کی نسبت زیادہ ہے لیکن ہم بھی اس وقت دنگ رہ جاتے ہیں جب کسی انسان کو کینہ اور غضب کی حالت میں دیکھتے ہیں۔ معاف کرنا ، یہ جنات کا روایتی غضب ہی تھا کہ میں ریاض شاہ کی باتوں میں آ گیا“ ان کے لہجے سے شرمندگی جھلک رہی تھی ”میں اب اسے سمجھا دوں گا تو بھی ملک صاحب اور دوسرے لوگوں کے دلوں سے اس کے لئے نفرت کم کر دو۔ اب تم لوگوں کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہو گی“
”جی سرکار .... جیسے آپ کہیں گے ویسا ہی ہو گا“ میں اب بے حد خوش تھا۔ ریاض شاہ پر میری یہ فتح تھی۔ میں نے باطل کو حق سے تہ تیغ کر دیا تھا۔ میرا انگ انگ مسرور تھا۔
کچھ دیر بعد ملک صاحب نصیر کو سہارا دیتے ہوئے اندر لے آئے۔ چاچی اور زلیخا بھی ساتھ تھے۔ بابا جی نے ان کے شکوے شکایات بھی سنیں اور ریاض شاہ کی طرف سے معافی مانگ لی اور وعدہ کیا کہ وہ چند روز تک یہاں سے چلے جائیں گے۔ ہم سب مطمئن ہو گئے تھے۔ نصیر اسی رات بھلا چنگا ہو گیا تھا اور زلیخا کی حالت بھی سنبھل گئی تھی۔
لیکن یہ اطمینان تو ایک طفل تسلی تھی۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ طوفان گزر چکا ہے منافقت اور مکر و فریب نے سچائی کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ روشنی کو اندھیروں کے اژدھے نے ڈس لیا تھا۔ اگلے روز میں شہر امتحان دینے چلا گیا۔ میرے دل میں آیا کہ بابا تیلے شاہ سے مل آﺅں۔ لیکن میں نے ارادہ بدل دیا کیونکہ اب حویلی کے حالات تبدیل ہو گئے تھے۔ میں شام کے قریب حویلی پہنچا تو اس کا جہازی دروازہ خلاف توقع کھلا ہوا تھا۔ ہر طرف ویرانی اور وحشت کا راج تھا۔ میں اندر گیا تو ملک صاحب چاچی اور نصیر نڈھال سے زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی دہائی دینے لگیں۔
”ہم لٹ گئے برباد ہو گئے شاہد پتر“
میں پریشان ہو گیا ”کیا ہوا ہے“
ملک صاحب نے سوجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا۔
”وہ لے گیا ہے زلیخا“
”کون لے گیا ہے“
”ریاض شاہ .... اسے اپنے ساتھ لے گیا ہے“ وہ سرجھکا کر رونے لگے۔
میری ٹانگوں سے جیسے کسی نے جان نکال لی تھی۔ میں نیچے بیٹھ گیا۔
”کک .... کب کیسے .... وہ تو“ میں ہکلا کر رہ گیا۔
”بیٹے یہ سب جھوٹ تھا‘ فریب تھا۔ انہوں نے ہمہیں پھر دھوکا دیا ہے“ چاچی چلانے لگیں ”رات کو رام رام کہہ رہے تھے۔ ہم ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئے۔ بابا جی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اب کسی سے زیادتی نہیں کرے گا .... لیکن آج وہ بابا جی کے کہنے پر اسے لے گیا ہے۔ ہم تو برباد ہو گئے پتر جی ہم برباد ہو گئے“ وہ اپنا سر پیٹنے لگیں
”میں اس بے غیرت کو قتل کر دوں گا خدا کی قسم ایک بار مجھے اس کا پتہ مل جائے“ نصیر کی حالت پھر بگڑی ہوئی تھی لیکن وہ اپنی قوتوں کو مجتمع کرکے بول رہا تھا۔
”بابا جی نے کہا تھا کہ زلیخا ہماری امانت ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے اسے اپنی بہو بنا کر لے جائیں“ چاچی کہہ رہی تھیں ”اسے کہیں سے ڈھونڈو پتر جی .... ہم تو بہت کوشش کر چکے ہیں“
”میں کہاں تلاش کروں انہیں“ میں سوچنے لگا۔ ”بابا جی آپ نے اچھا نہیں کیا۔ آپ مجھے کس امتحان میں مبتلا کر گئے ہیں۔ ان کی رات کو کی ہوئی ساری باتیں میرے ذہن میں گونجنے لگیں۔ میر ے لبوں پر اب ایک ہی سوال بار بار آ رہا تھا
”بابا جی .... وہ سب کیا تھا۔ کیا آپ بھی جھوٹ اور مکاری اور ہوس کے غلام تھے۔ ایک اسلام پرست جن ایسی گھناﺅنی حرکت کیسے کر سکتا ہے۔ کیا آپ ریاض شاہ کے ہاتھوں اتنے مجبور ہو چکے ہیں کہ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے“ مگر کوئی میرے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ میں نڈھال سے بدن کے ساتھ اٹھا معاً میرے ذہن میں ایک خیال آیا میں نے موٹر سائیکل نکالی اور قبرستان کی طرف چلا گیا۔
موٹر سائیکل قبرستان کے پاس روکی اور بھاگ کر اس قبر کے پاس چلا گیا جہاں ٹاہلی والی سرکار رونق افروز ہوتی تھی۔ ان کے والد گرامی کی قبر پر وہی بوسیدہ بوری کا ٹکڑا پڑا تھا جس پر وہ بیٹھا کرتے تھے۔ وہ پیالا بھی رکھا ہوا تھا جس میں خون ٹپکا کر کالی داس کو پکڑا تھا۔ ٹاہلی والی سرکار وہاں موجود نہیں تھی۔ انہیں اردگرد تلاش کرنے لگا۔ پھر اونچی اونچی آواز میں انہیں پکارنے لگا۔ آواز سن کر درختوں پر پرندے پھڑپھڑا کر اڑ گئے مگر ٹاہلی والی سرکار کی موجودگی کے آثار نہیں ملے۔ میں نیم دلبرداشتہ ہو کر واپس ہونے لگا تو معاً مجھے بہت قریب کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے۔ میں نے اسے نظرانداز کیا اور قبرستان سے نکلنے لگا تھا کہ کتا دردناک آواز میں بھونکنے لگا۔ اس کے فوراً بعد کسی عورت کی ہذیانی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ میں نے آواز کی سمت کا اندازہ لگایا۔
آوازیں شیشم کے ایک بوڑھے درخت کی طرف سے آ رہی تھیں۔ میں ادھر پہنچا تو یہ دیکھ کر لرز کر رہ گیا۔ ایک عورت کا درخت کی کھو میں سر پھنسا ہوا تھا اور اس کا پورا بدن باہر لٹکا ہوا تھا۔ بازو کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ چیخیں اس عورت کی تھیں
”کک کون ہو تم“ میں اس کے قریب پہنچا تو معاً درخت کی کھو سے کتے کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں گھبرا گیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ معاملہ کیا ہے۔
میں نے بسم اللہ پڑھ کر عورت کے بازﺅں کی رسیاں کھولیں اور اس کا سر کھو کے شکنجے سے بمشکل نکالا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر میں دہشت زدہ ہو گیا۔ اس کی آنکھیں سرخ انگارے کی طرح دہک رہی تھیں۔ زبان کتے کی طرح باہر لٹکی ہوئی تھی اور ابرو کمان کی طرح تنے ہوئے تھے۔ وہ سانسیں یوں لے رہی تھی جیسے کتا ہانپتا ہے۔ اس کی عمر چالیس برس ہو گی، رنگت سانولی اور چہرے پر کرختگی نمایاں تھی۔ ہاتھوں کے ناخن گندے اور بڑھے ہوئے تھے۔ کپڑے قدرے صاف ستھرے تھے۔
”کک کون ہو تم“ میں نے بمشکل پوچھا
”تم نے میری مدد کی ہے۔ بولو میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں“ اس کے چہرے سے اب تناﺅ کم ہو رہا تھا مجھے اس سے بے حد خوف محسوس ہو رہا تھا اس سے قبل کہ میں کچھ بولتا ، ٹاہلی والی سرکار کی آواز فضاﺅں کا سینہ چیرتے ہوئے میری سماعتوں سے ٹکرائی۔
”یہ تم نے کیا کر دیا۔ اس خرافہ جادوگرنی کو آزاد کرا دیا ہے تو نے .... غضب کر دیا“
اس سے پہلے کہ میں صورتحال کو سمجھتا۔ وہ عورت کسی عقاب کی طرح اڑتی ہوئی میرے پاس آئی اور اپنے آہن نما ہاتھوں میں میری گردن دبوچ لی۔
”خبردار .... اب جو مجھے ہاتھ لگایا ورنہ میں اسے مار ڈالوں گی“ وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔
اس کی آواز سنتے ہی ٹاہلی والی سرکار شیشم کی کھوہ سے باہر نکلنے لگے۔ میں حیران و پریشان تھا اور اس ناقابل بیاں منظر کو دیکھنے لگا۔ وہ کھوہ جس میں اس عورت کا سر پھنسا ہوا تھا اس سے ٹاہلی والی سرکار اپنے پورے وجود اور جاہ وجلال کے ساتھ باہر آ رہے تھے۔
٭٭٭٭