انسان کتنا بے اختیار ہوتا ہے ۔اگر اسے اس بات کا احساس ہو جائے اپنی کم مائیگی، بے وقعتی کا یقین ہو جائے تو وہ امیدوں کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ارمانوں کے محلات میں داخل ہوتے وقت ایک بار تو سوچنے لگے۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے ۔انسان سوچتا رہتا ہے بے شک اسے اس کی سوچوں کے مطابق کچھ بھی نہ ملے۔ لیکن بے اختیار سوچوں اور ارمانوں کے پنڈولم میں لٹکتے لٹکتے ہی اس کی عمر کا ایک قیمتی عرصہ گزر جاتا ہے ۔
چاچا جی نے زلیخا اور پیر ریاض شاہ کی شادی کے بارے میں بات کر کے مجھے طوفانوں کی نذر کر دیا تھا۔ میں جو ابھی چاہتوں کا آشیانہ بنا رہا تھا وہ تندو تیز اندھیروں اور جھکڑوں میں تہ وبالا ہو رہا تھا۔
”چاچا جی ....میں حیران ہوں زلیخا کیسے مان گئی؟“ میں نے افسردہ اور حیران نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”میں بھی حیران تھا پتر جی کہ زلیخانے اس پا جی سے شادی کا اقرار کیسے کر لیا وہ حقہ کی نے ہاتھ میں تھامتے ہوئے کچھ دیر کے لئے خلاﺅں میں گھونے لگے”میرا خیال ہے بلکہ مجھے یقین ہے پتر جی۔ریاض شاہ اور اس کے بابا جی نے زلیخا پر جادو کر دیا ہے “
”چاچاجی.... میں ان پیروں فقیروں کو نہیں مانتا۔پیر اور فقیر وہی ہے جو شریعت اور روحانیت کی اصل روح کے مطابق زندگی گزارے۔ باقی تو کاروباری لوگ ہیں۔لیکن آج رات کو میں نے جو مناظر دیکھے ہیں اس کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پیر ریاض شاہ دوسرے بہت سے پیروں سے مختلف ہے ۔اس کے پاس جنات کی طاقت ہے۔اگر میں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا ہوتا تو شاید میں نصیر کی باتوں پر یقین نہ کرتا۔اب آپ نے جس مسئلہ کی طرف نشاندہی کی ہے اس کا حل تلاش کرنا بہت مشکل ہو گا“میں نے کچھ سوچتے ہوئے مگر الجھے ہوئے انداز میں پوچھا ”آپ اتنا سب کچھ جاننے کے باوجود ابھی بھی اس محفل سے اٹھ کر آرہے ہیں“۔
”مجبوری سے پتر جی مجبوری“حقہ گڑ گڑاتے ہوئے انہیں کھانسی کا دورہ پڑ گیا اور وہ کافی دیر تک کھانستے اور ہانپتے رہے۔ میں اٹھا اوران کے لئے پانی کا گلاس لایا۔ یہ کھانسی کی شدت تھی یا سینے میں اٹکے طوفانوں کی شدت کہ ان کی آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔ پانی پی چکنے کے بعد بولے”میں اگر بابا جی کی محفل میں نہیں بیٹھوں گا تو وہ جو چاہیے کر سکتے ہیں۔انہیں کم از کم اس وقت میرا خیال تو ہوتا ہے۔“
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے چاچاجی“ میں نے کہا ”اگر اس کے ذہن پر شیطان سوار ہے تو وہ آپ کے جانے کے بعد بھی کچھ کر سکتا ہے ۔وہ آپ کو اپنی طاقتوں سے بے بس بھی تو کر سکتا ہے “۔
”ہاں کر سکتا ہے “چاچا جی شکستہ خاطر ہو گئے او رچار پائی کی ٹیک سے سرٹکا کر زیرلب کچھ بولتے رہے نہ معلوم اس وقت وہ کیا کہنا چاہتے تھے لیکن ان کے چہرے پر آزردگی اور بے بسی دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ ایک طاقتور اسنان پر جب زوال آتا ہے تو بے کسی کا ہتھوڑا اس کے کلیجے کو کیسے پیستا ہے۔اپنے علاقے کے طاقتور ترین زمیندار کو اس کے اپنے ہی گھر میں اس قدر مجبور اور مقہور دیکھ کر مجھے رحم آرہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ میں ان کی مدد کیسے کر سکتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے خود بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔کچھ دیر پہلے ہی تو میں نے بابا جی جیسی پر اسرار مخلوق کے درشن کئے تھے۔ یہ کوئی گماں آمیز صورتحال نہیں تھی میں نے جیتی جاگتی آنکھوں اور اپنی پوری حسیات کے ساتھ بابا جی کو دیکھ کر اور محسوس کیا تھا پھر میں کیسے ان کے وجود کی حقیقت سے انکار کر سکتا تھا۔چاچا جی خود بھی بابا جی کے وفود کی حقیقت سے آشنا تھے۔ اگر ان پر بیٹی کی عزت کا سوال نہ آتا تو یقیناً وہ اس کیفیت سے دو چار نہ ہوتے۔وہ زلیخا کو پیر ریاض شاہ سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے لیکن زلیخا اور اس کی والدہ دونوں ہی اس شادی پر تیار تھے۔
”آپ کو آرام کرنا چاہیے“ میں نے چاچا جی سے کہا”مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کسی بڑی مشکل میں نہیں ڈالے گا“۔
”پتر جی“ وہ دکھ سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے”کیا تم میری مدد کر سکتے ہو“۔
”جی چاچا جی....کہئے میری جان بھی حاضر ہے“میں نے کہا”آپ جیسے شفیق انسان کے لئے اپنی جان قربان کرتے ہوئے مجھے دکھ نہیں ہو گا“۔
”تم زلیخان کو سمجھاﺅ.... میں اسے سمجھا چکا ہوں“ وہ آہستگی سے بولے ”مجھے یقین ہے وہ تمہاری لاج رکھ لے گی“۔
”میری لاج“ میں نے سوچا جو بیٹی اپنے باپ کی لاج نہ رکھ سکی وہ میری لاج کیسے رکھ سکتی تھی۔ میرا اس کے ساتھ رشتہ ہی کیا تھا۔ کس بھروسے پر اس کو سمجھاتا۔ اگر میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا تو ممکن ہے وہ مجھے برا بھلا کہہ دیتی۔ میری اس کے سامنے حیثیت ہی کیا تھی۔ لازمی تو نہیں تھا وہ اپنے اور میرے خاموش رشتے کوتسلیم بھی کرتی ہو۔ میں کسی خوش فہمی میں بھی مبتلا نہیں رہنا چاہتا لیکن کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ میرے پاس کوئی ایسی طاقت بھی نہیں تھی کہ پیر ریاض شاہ کو اس کے زور پر روک دیتا یا بابا جی کو قائل کر سکتا؟ لیکن ایک اضطراب ہیجان اور برہمگی تھی جو میرے اندر لاوے کی صورت ابلنے لگی تھی۔
میں نے چاچا جی کو تسلی دی اور انہیں کہا کہ وہ آرام سکون سے سوجائیں میں کوئی راستہ تلاش کرتا ہوں۔ایک بھٹکے ہوئے انسان کو جب اپنا ہی راستہ معلوم نہ ہو تو وہ دوسروں کے لئے راستے کیسے تلاش کر سکتاہے۔ لیکن دوسروں کے زخموں کے اندر مال کے لئے یہ تسلیاں تو دینی ہی پڑتی ہیں۔
میں چاچا جی کے کمرے سے نکلنے ہی لگا تھا کہ نصیر ادھر آگیا۔
”تم ادھر کیا کررہے ہو۔ ادھر آجاﺅ ۔بابا جی سرکار بلارہے ہیں“ اس کے چہرے پر اشتیاق تھا۔
”نصیر میری بات سنو“ میں نے اس کا بازو تھام لیا
”کیا بات ہے “ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ”خیرت تو ہے“۔
”میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں“میں اسے کچھ کہنا چاہتا تھا کہ وہ یکدم کچھ یاد کرتے ہوئے تڑپ اٹھا “باتیں بعد میں کرنا۔ اس وقت جو محفل سجی ہوئی ہے اگر تم نے اس کا لطف نہ اٹھایا تو ساری زندگی پچھتاﺅ گے۔جلدی کرو۔ میں تو ابا جی کو بھی بلانے آیا تھا لیکن میرا خیال ہے وہ سو گئے ہیں۔بس تم جلدی چلو۔ آج تو بابا جی سرکار نے کمال ہی کر دیا ہے “۔
”کیا کمال کر دیا ہے“میں نے پوچھا۔
”وہ زلیخا کے لئے اپنے دیس سے بری لے کر آئے ہیں“اس کی بات سن کر جامد ہو گیا۔
”کک....کیا....بری....کس لئے.... کیوںذ‘میں نے نصیر کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر خوشیاں رقصاں کررہی تھیں۔اس بے وقوف کو شاید یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ بری کتنی بری شے ثابت ہو گی۔
”نصیر تم ہوش میں تو ہو“میں نے اسے مخاطب کیا ”کیا تم جانتے ہو کہ حویلی میں کیا ہونے جارہا ہے۔ چاچاجی بہت پریشان ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ پیر ریاض شاہ اور زلیخا کی شادی ہو“۔
”ان کا تو دماغ چل گیا ہے“نصیر کے چہرے پر اپنے والد کا ذکر سن کر عجیب سی نفرت ابھرآئی”وہ بے وجہ بابا جی پر شک کرتے ہیں،جب باقی گھر والے راضی ہیں تو ابا جی کو ضد نہیں کرنی چاہیے“۔
”لیکن نصیر....یہ بات مناسب نہیں ہے ۔تم سمجھنے کی کوشش“....میں نے اسے سمجھانا چاہا تو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا:
”شاہد تم اس مسئلے میں نہ ہی آﺅ تو اچھا ہے ۔یہ میرے گھر کا معاملہ ہے ہمیں کیا کرنا ہے ہم بہتر جانتے ہیں۔تمہیں بولنے کی ضرورت نہیںہے۔ اور ہاں مجھے لگتا ہے اباجی نے تمہیں بھی بابا جی کے بارے بدگماں کرنے کی کوشش کی ہے ۔تمہارے دل میں بابا جی سرکار کے لئے بدگمانی پیدا ہو رہی ہے تو تم ابھی یہاں سے جا سکتے ہو۔میں بابا جی سرکار کو ناراض نہیں کرسکتا۔ ان پر میری سات زندگیاں بھی قربان“ میں نصیر کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ وہ شخص جو کبھی میرے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کرتا تھا،میرا سایہ بنا رہتا تھا مجھے یوں مخاطب کررہا تھا۔
”میں چلا جاتا ہوں لیکن یادرکھنا نصیر تم نے جس آگ کو اپنے ریشم کی حفاظت کے لئے جلا رکھا ہے وہ سب کچھ تباہ کر دے گی“اس سے پہلے کہ نصیر مجھے کچھ کہتا اندر زنان خانے سے کسی کی چیخ سنائی دی۔ نصیر نے میری طرف دیکھا اور پھر جلدی سے زنان خانے کی طرف بھاگا۔ میں بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ اندر ہڑبونگ سی مچھی ہوئی تھی۔ بابا جی با آواز کسی کو ڈانٹ رہے تھے لیکن ایک نسوانی آواز شو مچاتی دہائیاں دیتی ہوئی کمرے سے بھاگ رہی تھی۔
”غازی اس کو پکڑ اور چار چھتر مار کر اس کا دماغ ٹھیک کر دے “بابا جی سخت آواز میں کہہ رہے تھے۔ اسی لمحے میں زنان خانے کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک عجیب سا سیاہ رنگ کا ہیولا جس کی آنکھیں دہکتے انگاروں جیسی تھیں۔منہ لمبوترا اور دانت باہر کو نکلتے ہوئے تھے۔بال بکھرے ہوئے عجیب ہیئت میں مجھ سے آٹکرائی اورمیں کئی فٹ دور جاگرا۔ میرا دماغ گھوم گیا اور اس مکروہ ہیولے کا عکس میری آنکھوں میں جیسے منجمد ہو کر رہ گیا۔ خوف کی ایک سرد لہر نے میرے بدن کو جکڑ لیا تھا اور میں فرش پر یوں پڑا رہ گیا جیسے چھت سے کوئی چھپکلی زمین پرگرتی ہے۔
”ٹھہروآوارہ کمینی“غازی ہیولے کو پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
”نصیر اپنے دوست کو اندر اٹھا کر لے آﺅ“بابا جی نے نصیر کو میری طرف بھیجا تو وہ مجھے تقریباً گھسیٹتا ہوا اندر لے آیا۔
”دروازہ بند کردو“ بابا جی بولے”اس حرام خور کو آج ہی آنا تھا۔ دیکھا رضیہ.... میں نے کہا تھا تجھے کہ تیرے گھر میں چڑیلوں کی پکھی ہے۔یہ وہی ہیں جنہوں نے تیری حویلی اور تیری بیٹی پر اپنی نحوست پھیلا رکھی ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ یہاں ظاہر ہوں۔میں انہیں مارڈالتا مگر یہ غازی کوئی کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر رہی دیتا ہے کہ تمہیں پریشانی اٹھانی پڑ جاتی ہے ۔ریاض شاہ تم شاہد کو ہوش میں لاﺅ“میرے میرے اعصاب پتھرائے ہوئے تھے لیکن مجھے بابا جی کی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔
ریاض شاہ میرے قریب آیا اور اس نے کچھ پڑھنے کے بعد میرے سر پردم کیا اور مجھے پانی پلا کر میرے حواس بحال کرنے لگا۔تھوڑی دیر بعد مجھے مکمل ہوش آگیا۔
”یہ سب کیا تھا “میرے منہ سے بے اختیار نکلا بابا جی بولے”بیٹا یہ ہماری دنیا کی ایک بدکار اور گندی مخلوق ہے ۔ تم انہیں چڑیلیں کہتے ہو۔ یہ کافر جنات میں سے ہیں۔ان کا پورا قبیلہ اس حویلی کے پچھواڑے میں رہتا ہے ۔ یہ وہی چڑیل ہے جس نے ہماری بیٹی زلیخا پر سایہ کیا ہوا ہے بلکہ اس نے نصیر کے والد پر بھی اثر کیا ہوا ہے۔ یہ ان کے دلوں پر بیٹھی ہے اور انہیں بدگماں کرتی رہتی ہے “بابا جی مجھے بتا رہے تھے”آج جب ہم اپنی بیٹی زلیخا کو بری دکھا رہے تھے تو اس نے دیکھ لیا اور ہماری محفل کا ناس مارنے کے لئے یہاں آگئی۔ حالانکہ میں نے غازی سے کہا تھا کہ وہ محفل کی حفاظت کرے لیکن اس حرام خور کو باتوں کا اتنا چسکا لگ چکا ہے کہ اپنے کام پر دھیان ہی نہیں دیتا۔ اس کی ذرا سی چوک سے یہ چڑیل اندر آگئی اور بری کو الٹ پلٹ دیا “
بابا جی کی باتوں کے دوران ہی غازی واپس آگیا۔اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی کسی کی گھٹی گھٹی چیخیں بھی سنائیں دینے لگیں۔
”تو اسے پھر یہاں لے آیا غازی“ بابا جی غصے سے چلائے۔
”سرکار.... میں نے مار مار کر اس کا دماغ ٹھیک کر دیا ہے “غازی بولا۔”اب کیا حکم ہے اسے جلا دوں“۔
”جاﺅ اور اسے باہر لے جاکر جلا ڈالو“بابا جی گرجدار آواز میں بولے۔
”نہ سرکار مجھے معاف کر دیں۔ غازی نے مجھے بہت مارا ہے“چڑیل چیختی ہوئی التجائیں کرنے لگی تو کمرے میں عجیب سی بو پھیلنے لگی۔
”غازی اسے باہر لے جاﺅ۔ یہ گند پھیلا رہی ہے “بابا جی گرجے اس کی ناپاکی سے سارا کمرہ گندہ ہو گیا ہے“۔
”سرکار “چڑیل چیختی”مجھے معاف کردیں“۔
”تمہیں کوئی معافی نہیں ملے گی....تم نے ہماری محفل کو غارت کر دیاہے“بابا جی بولے۔
”اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا تو میری ساری پکھی حویلی میں جنگ شروع کر دے گی “وہ اپنی جان بچانے کے لئے دھمکیاں دینے لگی۔ ”میں زلیخا کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی بابا جی.... آپ مجھے چھوڑ دیں ورنہ بہت پچھتائیں گے“
”بکواس کرتی حرامی کی اولاد “اس کے ساتھ ہی زنا ٹے دار تھپڑ کی باز گشت سنائی دی۔”مجھے بلیک میل کرتی ہے ۔دھمکاتی ہے مجھے“بابا جی پر جلال لہجے میں بولے”غازی مارڈال اسے “اتنا سننا تھا کہ غازی نے نہ جانے کیا کیا ہو گا کہ اس جگہ جہاں وہ کھڑے تھے ایک ناریخی رنگ کا شعلہ سا ابھر اور پھر ایک نہایت کریہہ دلدوز چیخ گونجی۔ایسا لگا جیسے کوئی شے گہرے ترین کنویں میں گرتی چلی جارہی ہے ۔اس کے ساتھ ہی کمرے میں ناگواربدبو کا احساس ہوا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے پورا کمرہ کا فور کی مہک سے بھر گیا اور چند ہی منٹ مزید گزرے ہو ں گے کہ کمرے کا ماحول نہایت پر سکون ہو گیا ۔میرے حواس پر یہ منظر نقش ہو کر رہ گیا۔ میرا ذہن جو بابا جی کی باکمال ہستی سے متنفر ہو رہا تھا ایک بار پھر ان کی طاقتور ہستی کے سامنے کمزورپڑگیا۔
بابا جی اور پیر ریاض شاہ کسی غیر مانوس زبان میں گفتگو کرنے لگ گئے ، جب خاصی دیر گزر گئی تو بابا جی نے سب لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا
”میں تم لوگوں کو ایک خوشخبری سنانے لگا ہوں “سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔
”میں نے جیسا کہ کہا ہے زلیخا میری بیٹی ہے اور اس کی شادی پیر ریاض شاہ سے ہو کر رہے گی۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ شادی اگلی جمعرات کو ہو گی۔نکاح مغرب کے وقت ہو گا اور ہاں رضیہ بیٹی۔ مہمانوں کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے۔اس شادی میں شرکت کے لئے ہمارے مہمان آنے والے ہیں“۔
بابا جی کی بات سن کر میرے اندر بے قراری اور وحشت ابھرنے لگی اور پھر اس لمحہ بابا جی نے مجھے مخاطب کیا۔
”شاہد پتر....اچھا ہوا تم بھی یہاں ہو۔ میرے بچے تمہیں اپنے بھائی ریاض شاہ کی طرف سے گواہ نامزد کرنا ہے ۔ اس لئے تم اتنے دن ادھر ہی رہو اور یہاں رہ کر اپنے امتحان کی تیاری کرو“۔
میں خاموش رہا۔کیا کہتا کہ آپ مجھے کس امتحان سے نکال کر کس امتحان میں مبتلا کررہے ہیں۔
تھوڑی ہی دیر بعد زنان خانے میں روشنی ہو گئی۔دیکھا تو بابا جی بڑے بستر پر گاﺅتکیہ کے سہارے لیٹے ہوئے تھے۔ ان کا بدن سفید چادر سے ڈھکا ہوا تھا مگر چہرہ تھوڑا سا عیاں تھا۔ پورا زنان خانہ شادی بیاہ کے کپڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک طرف سونے کے زیورات پڑے تھے اور دوسری طرف خوش پاش لباس۔ میں انہیں حسرت سے دیکھنے لگا۔ زلیخا یہ سب پہنے گی۔ کس کے لئے ۔پیر ریاض شاہ کے لئے۔اس پر کتنا جوبن ہو گا جب وہ دلہن بنے گی۔
”رضیہ....یہ سامان صندوق میں ڈال کر سنبھال دے“بابا جی بولے”ریاض شاہ ان پر دم کر دے، گندی چڑیل نے اس پر چھینٹے گرادئیے ہوں گے“بابا نے اس خیال کے ساتھ ہی نصیر کو مخاطب کیا اور کہا ”نصیر بزرگوں کی عزت ہر حال میں کرنا سیکھو۔ تم اپنے والدسے گستاخی کررہے تھے۔بیٹے کسی دوسرے کی عزت کو بڑھانے کے لئے اپنے بزرگوں کی عزت کو کم نہیں کیا جاتا۔ یہ بے ادبی اور گستاخی ہے۔تمہارے والدکو ان کی سوچ سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ نہیں جانتے کہ ہم کون ہیں اور ریاض شاہ کون ہیں۔یہ تو ان کے نصیب اچھے ہیں کہ ہم نے زلیخا بیٹی کو اپنے لاڈلے بیٹے کے لئے منتخب کیا ہے “۔
”میں معافی چاہتا ہوں بابا جی “نصیر شرمندہ ہو گیا۔
رات خاصی گزر رہی تھی اور ایک بار محفل پہلے بھی برخواست ہو گئی تھی لیکن یہ محفل زلیخا کی شادی کے سامان کو دکھانے کے لئے سجائی گئی تھی۔ اس میں زلیخا شامل نہیں تھی غالباً وہ اپنے کمرے میں تھی۔ میں زلیخا سے ملنا چاہتا تھا اور ایک بار اس سے اس شادی کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا تھا لیکن اب اس بات کا سمے نہیں تھا مجھے صبح کا انتظار کرنا تھا۔
نصیر اور میں دونوں جب سونے کے لئے کمرے میں آئے تو اس نے آتے ہی اشتیاق کے مارے پوچھا”شاہد سناﺅ تمہیں میرے بابا جی کیسے لگے“۔
میں خاموش نظروں سے اسے دیکھتا رہ گیا۔ وہ تو عقل سے پیدل ہو گیا تھا۔اسے کیا کہتا۔ اس کی آنکھوں پر بابا جی طاقت کا پردہ پڑ گیا۔
”تم بتاتے کیوں نہیں“ اس نے دوبارہ کہا تو میں نے کہا”باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن زلیخا کی ریاض شاہ کے ساتھ شادی....یہ اچھی بات نہیں ہے “۔
”یار اس سے کیا فرق پڑتا ہے ”وہ بے حسی سے بولا“زلیخا کی شادی تو ایک دن کرنی ہی تھی۔ تمہیں پتہ ہے ویسے بھی وہ بڑی خاموش رہتی ہے ۔ اس پر سایہ ہے ۔ یہ تم نے دیکھ ہی لیا ہے اس کا علاج بھی یہی ہے ۔ بابا جی کہتے ہیں اگر کسی دوسرے شخص کے ساتھ اس کی شادی کر دی گئی تو وہ شخص زندہ نہیں رہ سکے گا۔“۔
”کیوں ....ایسی کیا بات ہے ؟“میں نے چونکتے ہوئے سوال کیا۔
”میں نے بھی یہی سوال کیا تھا“نصیر بولا ”بابا جی نے کہا تھا کہ جن لڑکیوں پر جنات اور چڑیلوں کی حکمرانی ہوجائے وہ ان کے زیر اثر رہتی ہوں تو ان کی شادیاں کامیاب نہیں ہو سکتیں ہاں کوئی روحانی طورپر طاقتور شخص ہی ایسی عورتوں کو سحری اثرات سے نکال کر انہیں ایک صحت یاب زندگی دے سکتا ہے۔ بابا جی کہتے ہیں کہ زلیخا جب سے پیدا ہوئی ہے اس پر حویلی میں رہنے والی چڑیلوں نے اپنا سایہ ڈال رکھا ہے ۔اس وجہ سے ان کے خون میں ایسے جراثیم داخل ہو چکے ہیں جو کسی دوسرے وجود کو تخلیق نہیں دینے دیں گے۔....اور بھی بہت سی باتیں بابا جی نے بتائیں تھیں مجھے تو ان کی سمجھ نہیں آ سکی“۔
میں بھونچکا رہ گیا۔
”بابا جی کو یقین ہے کہ زلیخا پیر ریاض شاہ کے ساتھ بہت خوشی بھی رہے گی اور محفوظ بھی۔تم نے دیکھ لیا اس چڑیل نے کتنی ہڑبونگ مچائی تھی۔ بابا جی نے ہمیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ حویلی میں جنات کی پکھی موجود ہے جو اس شادی کو کامیاب نہیں ہونے دے گی اور فتنے جگائے گی ان کی یہ بات سچ ثابت ہو گئی ہے“۔
نصیر کی یہ باتیں مجھے خرافات اور اوہام پر ستی لگنی چاہئے تھیں لیکن میں انہیں فی الفور جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ میرے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں تھا کہ میں بابا جی اور پیر ریاض شاہ کی ہر بات کو پرکھ سکتا اور پھر ان سے بحث و مباحثہ کرتا۔ میں بھی خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے پر مجبور ہو رہا تھا۔رات میں نے آیت الکرسی پڑھتے پڑھتے گزار دی۔ میرے بچپن کے اساتذہ جن سے میں نے قرآن شریف پڑھا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ آیت الکرسی پڑھنے سے انسان شیطانی وسوسوں اور اس کی دسترس سے محفوظ ہو جاتا ہے لہٰذا میں نے کم و بیش تیس چالیس بار آیت الکرسی پڑھی اور سونے کی کوشش کرتا رہا۔ فجر کے وقت مجھے نیند نے آلیا لیکن نیند کچھ ہی دیر بعد کھل گئی ایسا لگا جیسے میں ابھی اونگھ لے رہا تھا کہ کسی نے مجھے جگا دیا ہے ۔
میں نے غور کیا تو واقعی میں اونگھ رہا تھا۔ اس وقت کمرے میں حویلی کا ملازم نورا داخل ہوا تھا اور نصیر کو اٹھا رہاتھا۔نصیر نے کیا اٹھنا تھا میری آنکھ کھل گئی۔
”کیا بات ہے نورے“میں نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے سوال کیا۔
”وہ جی.... بڑے ملک صاحب بلا رہے ہیں اسے“وہ تھوڑا سا گھبرایا ہوا تھا۔
”خیر تو ہے “میں نے سوال کیا۔
”خیر نہیں لگتی۔باہر پولیس آئی ہوئی ہے ۔پورا تھانہ ہی آگیا ہے سرکار“۔
”اس میں کیا پریشانی ہے “میں نے کہا”پولیس کو حویلی میں آتی ہی رہتی ہے “۔
”جناب.... بات ہی کچھ ایسی ہے ۔ملک صاحب بڑے پریشان ہیں۔پولیس نے کہا ہے کہ ساتھ والے گاﺅں کے چودھری سردار حسین کی بیٹی کا سارا جہیز اور بری چوری ہو گئی ہے ۔ اس سلسلے میں پولیس ملک صاحب کے پاس آئی ہے تاکہ ان کی مدد بھی حاصل کی جا سکے“۔
شادی کا سامان چوری ہو گیا۔ تو پولیس یہاں کیوں آئی ہے ۔ملک صاحب نے چوروں کو یہاں چھپا رکھا ہے کیا؟“ میں نے الجھے ہوئے لہجے میں سوچا کہ ملک صاحب اور اس زمیندار کی آپس میں لگتی تھی ممکن ہے اس نے اس خیال کے تحت اس چوری کا شک ملک صاحب پر کیا ہو گا۔ میں نے نصیر کو اٹھایا اور ہاتھ منہ دھوکر باہر بیٹھک آنے لگے تو پیر ریاض شاہ کو راہداری میں ٹہلتے ہوئے دیکھ کر ہم رک گئے اس کی آنکھوں میں عجیب سی تشویش تھی۔ اس نے ہم دونوں کو بلایا اور کہا”پولیس کو میرے بابا جی کے بارے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔بابا جی نے منع کیا ہے کہ اس طرح ان کی شخصیت کا چرچا ہو جائے گا اور یہ وہ پسند نہیں کرتے۔“۔
ہم دونوں بیٹھک میں پہنچے تو پولیس کی بھاری نفری وہاں موجود تھی۔ ڈی ایس پی عبداللہ قریشی خود تفتیش کے سلسلے میں آیا ہوا تھا زمیندار چودھری سردار حسین اور ملک صاحب سمیت علاقہ کے بہت سے معززین بیٹھے تھے ملک صاحب خاصے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ڈی ایس پی مجھے جانتا تھا۔ اس نے دیکھتے ہی کہا”لوجی صحافی بھی پہنچ گئے“۔
”یہ اپنا بچہ ہے“ملک صاحب کہنے لگے”ادھر کل رات سے آیا ہوا ہے “انہوں نے تعارف کرایا تو میں نے اس چوری کے بارے ڈی ایس پی سے پوچھا۔اس کی بات سن کر میرا ماتھا ٹھنک گیا۔ میرے ذہن میں ان گنت مانظر گھومنے لگے وہ کہہ رہا تھا ”چور نے اتنی صفائی سے چوری کی ہے کہ چودھری صاحب کی حویلی کا کوئی دروازہ اندر باہر سے کھلا نہیں پایا گیا۔ بری کے کپڑے اور زیورات ہی چرائے گئے ہیں۔چور کوئی بہت ہی ہوشیار ہے اس نے ایک نشان بھی نہیں چھوڑا۔ اگر اس واقعہ پر غور کروں تو لگتا ہے یہ چوری ہوئی ہی نہیں ہے ۔کھوجیوں کے مطابق اس کمرے میں کسی انجانے بندوں کے قدموں کے نشان بھی نہیں پائے گئے۔گھروالوں سے بھی تفتیش کر لی ہے۔مجھے تو لگتا ہے ۔یہ واردات کسی جن نے کی ہو گی “۔
ڈی ایس پی کا یہ کہنا تھا کہ میرے اعصاب چٹخنے لگے اور میں نصیر کی طرف دیکھنے لگا۔ نصیر کے ذہن میں شاید وہ بات نہیں آئی تھی جو میں نے محسوس کی تھی ۔وہ ڈی ایس پی کی باتوں میں منہک تھا اور میرا ذہن رات والے واقعات کے گرد گھومنے لگا۔زلیخا کی بری....خوش پوش قیمتی سہاگنوں والا لباس اور زیورات سے بھرے ڈبے میری آنکھوں میں ناچنے لگے۔
ملک صاحب نے ڈی ایس پی کو ساری حویلی کا معائنہ کرا دیا مگر انہیں کچھ نہیں ملا۔ وہ مہمان خانے میں‘ حویلی کے پچھواڑے میں‘ باغیچے میں‘ اوپر بالکونیوں اور اندر پرانے تہ خانے میں بھی لے گئے۔ میں ان کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ ان کے چہرے پر تشویش ابھر رہی تھی۔ وہ میری طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔ مگر میں خاموش اور بے تاثر رہا۔ آدھ گھنٹہ بعد پولیس واپس بیٹھک میں آ گئی لیکن چاچا جی کے چہرے پر جو کدورت ابھری تھی ابھی تک غائب نہیں ہوئی تھی۔
”چودھری صاحب .... کچھ نہیں ملا۔ ملک صاحب نے بڑی محبت کا ثبوت دیا ہے۔ ایک ایک کونہ‘ صندوق‘ برتن سب کچھ دیکھ لیا ہے۔ اچھا ملک صاحب بڑی مہربانی۔ اگر آپ کو کسی پر کوئی شک ہو یا کوئی اطلاع ملے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ یہ بیٹی کے جہیز کا مسئلہ ہے۔ بیٹی غریب کی ہو یا امیر کی۔ جب شادی ہو رہی ہوتی ہے تو سب کے ارمان ایک سے ہوتے ہیں۔ اپنی بری اور جہیز سے اس کو عشق ہو جاتا ہے“
ڈی ایس پی اٹھتا ہوا بولا اور پھر جب ملک صاحب اور میں پولیس کو حویلی سے باہر چھوڑ کر آئے تو ملک صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
”پتر وہ“ وہ بولنے لگے تو میں نے آہستگی سے ان کا ہاتھ دبایا اور سرگوشی کی۔ ”چاچا جی کچھ نہیں کہنا۔ خاموشی سے دیکھیں کیا ہوتا ہے“
”حیرت ہے بھئی“ اس کے باوجود وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔
ہم حویلی کے اندر پہنچے اور پھر دونوں ہی اکٹھے مہمان خانے کی طرف دیکھنے لگے۔ اسی وقت مہمان خانے کا دروازہ کھلا اور پیر ریاض شاہ اور نصیر باہر آ گئے۔
”ابا جی آپ نے اچھا نہیں کیا“ وہ گستاخ لہجے میں اپنے والد کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ”اور تم نے ....“ وہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے نفرت سے بولا ”تم نے پولیس کو جان بوجھ کر اکسایا تھا‘ ان کی راہ ہموار کی تھی کہ وہ حویلی کی تلاشی لیں“
”دیکھو .... ایسی بات نہیں ہے“ میں نے صفائی دیتے ہوئے کہا ”میں نے تو ان کی کمینگی کو پکڑ لیا تھا کہ دراصل ان کی اپنی نیت کیا تھی“
”ان کی نیت جیسی بھی تھی لیکن تمہاری نیت صاف ظاہر ہو گئی ہے“ نصیر غصے میں بول رہا تھا ”تم اپنا بوریا بستر اٹھاﺅ اور یہاں سے چلے جاﺅ“
”نصیرے“ ملک صاحب غصے سے کھول اٹھے۔ ”تمہاری جرات کیسے ہوئی۔ شاہد حویلی سے نہیں جائے گا۔ اس کی بجائے تمہیں حویلی سے نکال دوں گا۔ خبردار جو اب ایک بھی بات کی“
”ابا جی .... آپ نہیں سمجھتے۔ اس نے۔ اس نے“ وہ پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھ کر بولنے لگا ”اس نے اس لئے پولیس کو حویلی کی تلاشی پر اکسایا تاکہ پیر صاحب اور پولیس کا ٹکراﺅ ہو جائے“
”اوئے تیرے پیر صاحب چور ہیں کیا“ ملک صاحب تیوری چڑھاتے ہوئے کہنے لگے ”ہو جاتا ٹاکرا۔ پھر کیا ہوتا۔ باباجی پولیس کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے۔ پاگل دے پتر۔ پولیس کو کیا غرض ہے کہ ہمارے گھر میں کون رہتا ہے اور کب سے رہ رہا ہے اور پھر تمہارے پیر صاحب کو کس بات کا خوف ہے۔ کیوں جی“ وہ پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھنے لگے ”کیوںشاہ صاحب کوئی پریشانی تھی اس میں“
”نہیں .... بس یہ ویسے ہی باﺅلا ہو رہا ہے“ پیر ریاض شاہ نے نصیر کے کاندھے پر ہاتھ رکھا ”تم بے وجہ شک نہ کیا کرو۔ بابا جی نے تمہیں منع بھی کیا تھا کہ اپنے والد کے ساتھ گستاخی نہ کیا کرو۔ لیکن تم پھر بھی باز نہیں آتے“
تھوڑی دیر بعد چاچا جی ڈیرے پر جانے کے لئے حویلی سے چلے گئے۔ میرا ذہن بہت سے سوالوں کے گرد گھوم رہا تھا۔ نصیر نے کچھ غلط بھی نہیں کہا تھا۔ میں نے اس غرض سے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق پولیس اور پیر صاحب کا آمنا سامنا کرا دینا تھا اور اس کے بعد جب موقع ملتا پولیس کو کچھ باتیں بتائی جا سکتی تھیں کہ پیر صاحب کے ساتھ کچھ چور جنات بھی ہیں۔ لیکن نصیر نے میری چوری پکڑ لی تھی اور مجھے سب کے سامنے بے نقاب کر دیا تھا۔ مجھے اب شرم بھی آ رہی تھی کہ شاہ صاحب میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔۔ میں ان کا سامنا کیسے کروں گا۔ کیا مجھے اب حویلی سے چلے جانا چاہئے۔ شرمندگی اور خفت کا احساس اتنا بڑھا کہ میں نے اپنا سامان اٹھایا اور حویلی سے جانے لگا۔ لیکن نصیر کی والدہ نے مجھے واپس نہیں جانے دیا۔
”پتر جمعرات کو زلیخا کی شادی ہے تم یہیں رہو گے۔ نصیرا تو پاگل ہے۔ میں اس کے کان سیدھے کر دوں گی“ وہ بڑے لاڈ سے کہہ رہی تھیں ”بابا جی بھی تم سے محبت کرنے لگے ہیں۔ ابھی کل مجھے کہہ رہے تھے کہ شاہد بہت تابعدار اور مخلص لڑکا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو میرے لئے نصیر جیسا ہے“ چاچی جی کے لہجے میں ماﺅں جیسی شفقت تھی۔ انہوں نے نصیر کو بلایا اور اسے میرے سامنے ڈانٹ دیا۔ اس نے مجھ سے معافی مانگ لی اور جپھی ڈال کر کہنے لگا ”اگر تو میری باتوں پر اسی طرح روٹھنے لگا تو پھر ہماری دوستی جلد ختم ہو جائے گی۔ یار کبھی کبھی میرا غصہ برداشت کر لیا کر“
میں ان جیسے پرخلوص لوگوں کی باتوں میں جلد بہل گیا۔
صبح کی افراتفری کی وجہ سے اس روز حویلی کی صبح خاصی مکدر رہی۔ زلیخا چاچی جی کے ساتھ ہمیں ناشتہ کرایا کرتی تھی لیکن اس روز وہ سامنے نہیں آئی۔
”زلیخا کہاں ہے رضیہ“ ملک صاحب نے ڈیرے سے واپس آ کر جب ناشتے پر اسے نہ پایا تو بولے بغیر نہ رہ سکے۔
وہ پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھ کر بولیں ”اندر ہے آرام کر رہی ہے“
”طبیعت تو ٹھیک ہے اس کی“ چاچا جی بولے
”ٹھیک ہے“ وہ معنی خیز انداز میں شاہ صاحب کی طرف دیکھنے لگیں پھر خود ہی مسکرا دیں ”شرما رہی ہے۔ شاہ صاحب جو یہاں بیٹھے ہیں“ یہ سن کر ملک صاحب اور خود میری طبیعت یکدم مکدر ہو گئی۔ غصہ نفرت اور لاچارگی ہمارے ذہنوں اور قلبوں سے نکل کر پورے بدن میں چیونٹیوں کی طرح رینگنے اور گدگدی کرنے لگی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگے۔
”اچھا میں چلتا ہوں۔ اب مجھے آرام کرنا ہے“ شاہ صاحب نے غالباً ماحول میں پیدا ہونے والے تناﺅ کو محسوس کر لیا تھا۔ان کے جاتے ہی چاچا جی برس پڑے ”رضیہ تم مجھے برباد کر دو گی“
”اللہ نہ کرے ملک صاحب“ وہ گرم دودھ کا پیالہ ان کے سامنے سرکاتے ہوئے بولیں ”بابا جی سرکار نے کہا ہے کہ زلیخا بہت خوش رہے گی“
”کیسے خوش رہے گی۔ اس کا آگے ہے نہ پیچھے۔ یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے اور تم بیٹی اس کے سپرد کر رہی ہو۔ بڑا ظلم کر رہی ہے تو لیکن میں تمہیں صاف صاف کہہ دیتا ہوں میں یہ ہونے نہیں دوں گا“ ملک صاحب دودھ کا پیالہ پئے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔
”پتر میں کیا کروں اب تو زلیخا بھی کہتی ہے جو بابا جی کہیں گے میں وہی کروں گی۔آج رات جن زادیاں اسکی مہندی لیکر آنے والی ہیں۔وہ بڑی خوش ہے“ وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں ”تو ایسا کر ایک بار تو زلیخا سے مل لے اور پھر اپنے چاچا جی کو بتا دے کہ وہ کیا چاہتی ہے“
میں ۔۔۔ اور زلیخا سے ۔۔۔۔۔ مل کر۔۔۔ یہ پوچھوں کہ وہ شاہ صاحب سے شادی کیوں کر رہی ہے۔ نہیں نہیں۔ مجھے یہ جرات ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ میں کیسے سوال کر سکتا تھا۔
”چاچی یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن میرا خیال بھی یہی ہے کہ یہ جوڑ مناسب نہیں ہے۔ اگر آپ یہ چاہتی بھی ہیں تو کم از کم ایک بار شاہ صاحب کے بارے پوری چھان بین تو کر لیں۔ آپ لاہور جائیں اور ان کے بہن بھائیوں والدین وغیرہ سے مل لیں۔ ہو سکتا ہے کہ شاہ صاحب پہلے سے شادی شدہ ہوں اور۔۔۔۔۔“
یہ سن کر چاچی کے چہرے پر زردی چھا گئی۔ یہ پچھتاوے کا رنگ تھا۔ ”کہتا تو ٹھیک ہے تو“ وہ ماتھا پکڑ کر بیٹھ گئیں
”ایسا کر“ انہوں نے نصیر کی طرف دیکھا جو خاموشی سے زمین پر کوئلے کی مدد سے لکیریں کھینچ رہاتھا
”تو اور نصیر لاہور جا کر شاہ صاحب کے بارے پتہ کر لو“
”ماں .... اگر شاہ صاحب کو معلوم ہو گیا تو“ نصیر نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
”میں بابا جی سے خود بات کر لوں گی“ چاچی نے پہلی بار جرات سے کام لیا ”ملک صاحب کا وہم بھی دور ہو جائے گا“
ادھر ہم یہ باتیں کر رہے تھے اور ادھر ایک اور ہی طوفان اٹھ رہا تھا۔ ناشتہ کرکے میں اپنے کمرے میں پہنچا اور کتابیں لے کر باغیچے میں چلا گیا۔ حویلی کے پچھواڑے میں کھلے رنگ برنگے پھلدار اور پھولدار پودے جنت جیسی راحتوں سے بھرے ہوئے لگتے تھے۔ مجھے یہاں بیٹھ کر بڑا لطف اور سکون آتا تھا۔ حویلی کی شہتیروں والی بالکونی کا چھجا اس باغیچے کی طرف بڑھا ہوا تھا۔ زلیخا عموماً اس چھجے میں آ جاتی تھی اور باغیچے کو دیکھتی رہتی تھی۔ میں نے غیرارادی طور پر اس جانب دیکھا تو چھجا سنسان پڑا تھا۔ میرے دل پر افسردگی طاری تھی لیکن امتحان کا اضطراب بھی اپنی جگہ موجود تھا۔ میں پڑھنے میں منہمک تھا کہ یکدم احساس ہوا جیسے میرے چاروں طرف آنکھیں تیر رہی ہوں۔ گہری‘ خاموش‘ بے کس مگر اپنے اندر ہزاروں شکوے لئے ہوئے۔ باغیچے کی فضا میں بھی مانوس سی مہک بڑھنے لگی۔ زلیخا‘ بے ساختہ اک مہک نے مجھے اس کے وجود کا احساس دلایا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ چھجا اب سنسان نہیں تھا۔ زلیخا کھڑی تھیں اور بے خیال نظروں سے باغیچے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی زلفیں بکھری ہوئی تھیں۔ چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی۔ اس کی یہ حالت احساس دلاتی تھی کہ وہ جیسے برسوں سے سوئی ہی نہیں ہے‘ جاگ رہی ہے‘ صدیوں سے۔ لیکن چاچی تو کہتی تھی وہ اس شادی پر بہت خوش ہے ،تو کیا کوئی لڑکی ایسے خوش نظر آتی ہے،جیسی وہ دکھائی دے رہی تھی۔ میں اس کی جانب تکے جا رہا تھا۔ کتاب میرے ہاتھوں سے پھسل کر نیچے جا گری۔ کوئی احساس ایسا تھا جو مجھے بے ساختہ اس طرف کھینچ رہا تھا۔ میں اٹھا اور باغیچے کے رخ پر ہی چھجے کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو گیا اور ماحول سے بالکل بیگانہ ہو کر زلیخا کی طرف دیکھنے لگا۔ مگر وہ اپنے اندر کہیں کھوئی ہوئی تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ کوئی باغیچے میں کھڑا ہو کر اس کو دیکھ رہا ہے۔ میں خاصی دیر تک یونہی اس کو تکتا رہا اور سوچتا رہا۔ کیا زلیخا اور میرے بیچ اس چھجے جتنی مسافتیں ہیں۔ وہ بلندی پر اور میں پستی پر کھڑا اس کے وصل کی تمنا کر رہا ہوں۔ کیا ایک طالب مطلوب کی خواہش ناتمام کو پا سکتا ہے۔ میں اسی ادھیڑ پن میں مستغرق تھا کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور زلیخا کی پریشان سیاہ زلفیں لہرانے لگیں۔ ہوا ایک دم تیز ہو گئی تھی ایسی تیز کہ اس میں خنکی بھی تھی۔ موسم یکبارگی اپنے تیور بدل رہا تھا اور ہوا جیسے آندھی میں بدل کر رہ گئی۔ معاً زلیخا کی ایک دردناک چیخ ابھری اور پھر اس کے ساتھ ہی ہوائیں آندھیاں اور خنکی سب کافور ہو گیا۔ ایسا لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
زلیخا کی چیخ پوری حویلی میں سنی گئی تھی۔ میں تیزی سے اندر گیا لیکن میرے اوپر بالکونی میں پہنچنے سے پہلے ہی شاہ صاحب نصیر اور چاچی وہاں موجود تھے
”وار کر گئے کافر“ شاہ صاحب تیزی سے بولے۔ زلیخا پر تشنج کا دورہ پڑا تھا اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی
”شاہ صاحب نظر لگ گئی میری بچی کو“ رضیہ چاچی چلانے لگیں۔
”نظر“ میرے دل سے آہ نکلی ”شاید اسے میری نظر لگ گئی ہے۔ میں ہی تو اسے دیکھ رہا تھا“
”اٹھاﺅ اسے .... اور نیچے لے کر آﺅ“ شاہ صاحب کا چہرہ اس وقت پسینے میں شرابور تھا۔ میں حیران تھا کہ انہیں اس قدر پسینہ کیوں آیا ہوا ہے۔
”جلدی کرو“ وہ بڑے اضطراری انداز میں بول رہے تھے اور بے چینی و بے قراری ان کے انگ انگ سے نمایاں ہو رہی تھی ”وار بڑا سخت کیا گیا ہے۔ اس کا توڑ کرنا ہے جلدی کرو“
”شاہ صاحب میرے بابا جی کو بلاﺅ۔ جلدی کرو۔ باباجی کو بلاﺅ۔ ہائے اللہ میری بچی“ چاچی رونے لگی تھیں۔
”بابا جی سرکار نہیں آ سکتے اس وقت“ شاہ صاحب بولے ”مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا“ وہ میری طرف دیکھ کر بولے ”تم میرے ساتھ چلو“ نصیر نے زلیخا کو اٹھایا اور نیچے زنان خانے میں لے گیا اور شاہ صاحب مجھے مہمان خانے میں لے گئے۔
”دیکھو۔ اس وقت مجھ سے سوال جواب مت کرنا۔ زلیخا کی زندگی خطرے میں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم نہیں چاہو گے کہ وہ مر جائے۔ حویلی میں مقیم کافر جنات کی پکھی نے اپنی چڑیل کی موت کا بدلہ لینے کے لئے زلیخا پر وار کیا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ مجھے جلد معلوم ہو گیا“
”آپ کو کیسے معلوم ہو گیا۔ آپ تو آرام کررہے تھے“۔ میں سوال کئے بغیر نہ رہ سکا
”ہم کبھی نہیں سوتے“ وہ بے ساختہ بولا ”سنو ہم لوگوں کی دنیا تمہاری دنیا سے بڑی مختلف ہے۔ ہماری یاریاں اور دشمنیاں بڑی مہنگی ہوتی ہیں اور اس کا ہمیں خراج دینا پڑتا ہے۔ یہ نیند بھی ایک خراج ہے۔ ہم بظاہر سو رہے ہوتے ہیں مگر ہماری روح ہماری حفاظت کر رہی ہوتی ہے۔ اس لئے تو ہمارا سارا بدن دکھتا ہے۔ آگ بدن کو جھلساتی رہتی ہے۔ تم کسی عامل پیر کے بدن کو چھو کر دیکھو۔ تمہیں لگے گا جیسے دہکتے ہوئے گوشت کو چھو لیا ہے۔ میں اس وقت آرام کر رہا تھا جب کافر جنات زلیخا پر حملہ کرنے کے لئے آئے تھے لیکن میری مامور روحانی قوتوں نے مجھے آگاہ کر دیا لیکن افسوس اس وقت تک حملہ ہو چکا تھا خیر“ میں بھونچکا ہو کر ریاض شاہ کی باتیں سن رہا تھا جو نہ جانے کس خیال کے تحت میرے سامنے کھل رہا تھا۔
”دیکھو بابا جی آج دستیاب نہیں ہیں۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ پولیس کو میرے بارے نہ بتانا۔ میں نصیر کے کہنے پر اس وقت پردہ کر گیا تھا۔ اتنی قوت ہے مجھ میں کہ میں عام لوگوں کی نظروں سے پردہ کر جاﺅں لیکن روحانی علوم میں بعض معاملات ایسے ہیں جو پردہ میں چلے جانے کے باوجود عامل کو بے بس کر دیتے ہیں۔ میں زلیخا کو ہوش میں لا سکتا ہوں لیکن کچھ تاخیر ہو جائے گی۔ میں دیر نہیں کرنا چاہتا مجھے اس وقت ایک پیالا خون کا چاہئے تم اس کا فی الفور بندوبست کر دو“
”خخ خون .... کک کس کا“ میں بوکھلا گیا اور پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھنے لگا
”تمہارا“ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولنے لگا تو مجھے یوں لگا جیسے میں ایک انسان کے سامنے نہیں کسی درندے کے سامنے کھڑا ہوں اور وہ مجھ کو میری رضا سے مانگ رہا ہے۔
***
پیر صاحب کی فرمائش کو پورا کرنا میرے لئے اتنا آسان نہیں تھا۔
”اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل ہے“ میں نے اپنے اندر کے لرزتے ہوئے انسان کی مجبوری کو ڈھال بناتے ہوئے کہا ”میرا مقصد ہے اگر اس کا کوئی متبادل ....“
”ہو تو سکتا ہے .... مگر اس میں وقت لگ جائے گا تاخیر کا مطلب ہے زلیخا کی موت“ پیر ریاض شاہ کی گہری اور ساحروں جیسی آنکھیں میری آنکھوں میں جھانک رہی تھیں“ میں تمہیں یہ بتا ہی دیتا ہوں کہ زلیخا کو کافر جنات کے حملے سے بچانے کے لئے تمہارے خون کا ایک پیالا کیوں چاہئے؟“ پیر ریاض شاہ کچھ کہتا رہا اور میں سنتا رہا ”جو شخص بھی زلیخا کو دل سے چاہے گا اس کا خون ہی اس مقصد کے کام آ سکتا ہے“ اس کا مطلب تھا کہ پیر ریاض شاہ میرے دل کی گہرائیوں میں بسنے والے کی کھوج پا گیا تھا۔ ایک لحظہ کے لئے تو میرے چہرے پر گھبراہٹ نمودار ہو گئی تھی اور میں شرم سے پانی پانی ہو گیا تھا لیکن چند ہی ثانئے بعد میں کہنے لگا ”شاہ صاحب! چاہتے تو اب آپ بھی ہیں۔ شادی آپ سے ہو رہی ہے اس کی پھر آپ خود“ میں شاید جرات کرکے یہ کہہ دیتا لیکن الفاظ حلق میں ہڈی کی طرح پھنس گئے۔ میرے دل نے کہا کہ شاید یہ کام تمہیں کر جانا چاہئے۔ یہ ریاض شاہ تو فقط اپنی ہوس کی خاطر زلیخا سے شادی کر رہا ہے۔ اس کے دل میں زلیخا کے لئے کیسی محبت۔
”ٹھیک ہے .... لیکن خون کیسے لیں گے“ میں نے رضامندی ظاہر کی ”سرنج تو یہاں نہیں ہو گی“
”فکر نہ کرو اس کا بندوبست ہے میرے پاس“ اس کے لبوں پر زہریلی مسکراہٹ کھلنے لگی۔ اس نے مہمان خانے ہی میں رکھے ہوئے اپنے بیگ کو کھولا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ بیگ اس کے کپڑوں سے بھرا ہو گا مگر یہ کیا۔ اس نے تہ کئے ہوئے کلف شدہ کپڑے نکال کر ایک طرف رکھ دئیے۔ ان کے نیچے کافی سارا ایسا سامان تھا جسے خرافات کے علاوہ کوئی نام نہیں دے سکتا تھا۔ نہ جانے کس کس جانور یا پرندے کی ہڈیاں ایک لفافے میں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک کپڑے کی بھدی سی گڑیا تھی۔ ایک نوکدار چھری تھی اور کچھ ایسی ہی جڑی بوٹیاں بڑی احتیاط سے سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔
”یہ کیا ہے“ میں نہ رہ سکا تو سوال کر ہی دیا۔
پیر ریاض شاہ نے مڑ کر ترچھی نظروں سے میری جانب دیکھا۔ پہلے خاموش رہا پھر کچھ سوچ کر جواب دیا ”یہ عملیات کا سامان ہے“
”عملیات کا سامان“ معاً میرے ذہن میں بجلی کوندی ”اوہ پیر ریاض شاہ تو اصل کھیل یہ ہے“ میں نے سوچا چند سال پہلے سیالکوٹ میں پولیس نے ایک کالا علم کرنے والے عامل کو پکڑا تھا میں نے ایک فیچر تحریر کیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ جب وہ کسی پر جادو ٹونہ کرتے ہیں اور اس کے لئے ہوائی مخلوق سے بھی خدمات لیتے ہیں تو ان پکڑنے اور کام پر مجبور کرنے کے لئے عملیات کا سامان استعمال کرتے ہیں۔ اس نے مجھے الو کے خون سے لکھے تعویذ‘ اونٹ کے کولہے کی ہڈی‘ کافور‘ سندور‘ اگر کا برادہ۔ مردوں کی راکھ‘ نہ جانے کیا کیا اس نے بتایا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ سامان عموماً سندھ سے منگوایا جاتا ہے اور اس کام کے لئے مخصوص لوگ ہی اس کے لئے خدمات انجام دیتے ہیں۔
پیر ریاض شاہ کے اس سامان نے کئی سوال پیدا کر دئیے۔ اگر میں اس عامل کی باتوں کا تجزیہ کرتا تو پیر ریاض شاہ اور اس میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ چاچا جی (بڑے ملک صاحب) کا شک درست تھا کہ یہ پیر صاحب کا دراصل کوئی اور ہی چکر ہے۔ اگر واقعی ان میں حقیقی روحانیت بدرجہ اتم موجود ہوتی تو انہیں اپنی قوتوں کے اظہار کے لئے ایسے حیلے بہانوں کی ضرورت نہ ہوتی۔ ان کی زبان سے ادا ہونے والا کلمہ ہی کسی بھی بگڑے کام کی اصلاح کر سکتا تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہی تھا کہ پیر ریاض شاہ عاملوں کی بگڑی ہوئی شکل تھا۔
میں جب یہ سوچ رہا تھا اس دوران پیر ریاض شاہ نے سامان میں سے ایک بلیڈ اور کانسی کا چھوٹا سا پیالا نکالا۔ پیالا کسی پرانے دور کی ایجاد نظر آتا تھا۔ اس کے کناروں پر چھوٹی چھوٹی مورتیاں بنی تھیں۔ اس میں آدھ پاﺅ مائع شے آتی ہو گی۔ اس کی شکل مجھے تو دئیے کی طرح لگی تھی۔ میں زندگی میں بہت سارے لوگوں کو خون کی بوتلیں دے چکا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں ابھی مرے کالج سیالکوٹ میں ایف ایس سی کر رہا تھا تو والدہ محترمہ کے بیمار ہونے پر پہلی بار میں نے انہیں خون کی بوتل دی تھی۔ اس کے بعد تو عادت سی بن گئی سال میں دو تین بار کسی نہ کسی کو خون دے ہی دیتا تھا اور کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن آج .... پیر ریاض شاہ جن حالات اور طریقہ کار کے ذریعے میرا خون لے رہا تھا یہ کسی بھی ہوش مند اور دلیر آدمی کو بھی چونکا دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ میرے لئے اب فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
ریاض شاہ نے دائیں کلائی پکڑی اور پیالا اس کے نیچے رکھ کر ک لائی پر کوئی خاص قسم کا سفوف ملنے لگا۔ مجھے کلائی پر ٹھنڈک سی محسوس ہونے لگی او پھر کچھ ہی لمحے بعد جب اس نے اس جگہ پر بلیڈ سے چیرا دیا تو گوشت دو حصوں میں بٹ گیا اور خون پیالے میں گرنے لگا۔ پیالا بھر گیا تو اس نے دوبارہ وہی سفوف میرے زخم پر لگا دیا مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ وہ زخم ایک روز میں یوں مندمل بلکہ غائب ہو گیا تھا جیسے یہاں سے کاٹا ہی نہ گیا ہو۔ بعد میں میرے دل میں کئی مرتبہ یہ خیال آیا کہ ان سے اس دوائی کے بارے میں پوچھ لوں اور اس پر مضمون لکھ دوں زخموں کو حیرت انگیز طور پر مندمل کرنے اور جوڑنے والی دوا سے استفادہ عام کیا جا سکے لیکن اس کا مجھے موقع ہی نہیں ملا تھا۔
پیر ریاض شاہ کے ہاتھ اور لب خون کو دیکھتے ہی تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ اس نے تھیلے میں سے روئی نکالی اور اس کی بتی بنا کر پیالے میں یوں رکھ دی جیسے یہ واقعی کسی دئیے کی لو ہو۔ وہ زیر لب کچھ پڑھنے لگا پھر اس نے بیگ سے کچھ چیزیں نکالیں اور وہ بھدی سی گڑیا بھی میرے سپرد کر دی خون سے بھرا ہوا ........ اس نے خود اٹھایا تھا اور پھر ہم تیزی سے زنان خانے کی طرف ہو لئے۔
زلیخا ماہی بےآب کی طرح تڑپ رہی تھی۔ اس کے گلے سے کسی ذبح ہوتے ہوئے بیل کی طرح آوازیں آ رہی تھیں۔ چاچی اس کی ہر آواز پر تڑپ تڑپ جاتی تھیں۔ اس وقت اگر ملک صاحب یہاں ہوتے تو اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر نہ جانے کیا کر جاتے نصیر کا رنگ بھی زرد تھا۔
”نہیں چھوڑیں گے۔ مار دیں گے اسے۔ تم نے ہماری عورت کو قتل کیا ہے ہم اسے مار دیں گے“
زلیخا کے منہ سے اب کسی کی بھاری بھرکم آواز نکل رہی تھی۔ ”تم جتنے مرضی منتر پڑھ لو مگر یہ نہیں چھوٹے گی“
”شاہ صاحب خدا کے واسطے میری بچی کو بچا لیں“ چاچی اس کی آواز سننے کے بعد شاہ صاحب کے قدموں میں گر گئیں۔
”انشاءاللہ .... میرے مولا نے چاہا تو زلیخا کو کچھ نہیں ہو گا۔ یہ حرام زادہ بکواس کر رہا ہے۔ میں اس کو بھی مار ڈالوں گا اور دیکھتا ہوں کون مجھے روکتا ہے“ شاہ صاحب جب یہ کہہ رہے تھے تو ان کی آنکھیں سرخ اور متورم ہو گئی تھیں۔ انہوں نے جلدی سے کچھ پڑھتے ہوئے زلیخا کے گرد ایک دائرہ (حصار) لگا دیا اور باقی لوگوں کو دائرے سے پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ دائرہ قائم ہوتے ہی زلیخا کا بدن زمین سے اچھلنے لگا اور وہ شے جو اس کے اندر سے بول رہی تھی اسے پٹخنے لگی چاچی کی تو چیخیں ہی نکل گئیں۔
”باز آ جا .... باز آ جا“ شاہ صاحب گرجے ”تری دم میں نمدہ بھر دوں گا تو تب آرام سے بیٹھے گا چھوڑ دے اس بچی کو“
”بھگوان کی سوگند نہیں چھوڑوں گا“ وہ ڈکراتے ہوئے بولا تھا
”اچھا تو .... ہندو ہے تو“ شاہ صاحب نے سوال کیا۔ اس دوران وہ کچھ پڑھتے جا رے تھے اور اس کے بولنے سے قبل ہی انہوں نے سات بار زلیخا کی طرف پھونک ماری۔ میں نے محسوس کیا کہ پھونک کے ردعمل میں زلیخا کے بدن پر طاری لرزہ ختم ہو گیا تھا۔ شاہ صاحب نے دائرہ سے ایک فٹ کے فاصلہ پر خون سے بھرا دیا رکھا اور اس کی لو کو آگ دکھا دی۔ پھر اس میں انگلی ڈبوئی اور مجھ سے گڑیا لے کر اس کے سر پر خون سے مانگ بھر دی۔
”کھی کھی“ اب کی بار کوئی کھسیانے انداز میں ہنسا تھا اور آواز زلیخا کے اندر سے ہی اٹھی تھی ”میں سب جانتا ہوں مہاراج۔ بے وقوف بنا رہے ہو انہیں اگر انہیں معلوم ہو گیا کہ تم کیا ہو تو .... کیا بنے گا تمہارا“
”بکواس بند کرو“ شاہ صاحب بولے ”تو مکار‘ دغاباز‘ شیطان ہے تو مجھے گمراہ نہیں کر سکتا یہ تیری باتوں سے بدگمان نہیں ہو سکتے“
”کھی کھی کھی“ زلیخا پر قابض ماورائی شے ہنستی رہی۔ اس لمحہ شاہ صاحب نے کچھ پڑھائی شروع کر دی اور بار بار دئیے میں انگلی ڈبو کر گڑیا کے بدن پر نکتے لگاتے رہے اور پھر ایک حیرت انگیز اور دہشت ناک منظر ہمارے سامنے رونما ہو گیا
پیر ریاض شاہ نے ایک ہاتھ میں نوک دار چھری پکڑی اور دوسرے میں خون والا روشن دیہ۔ زلیخا کے اندر مچلنے والا اب خاموش تھا اور اس کی آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں۔ پیر ریاض شاہ نے زلیخا کی کلائی پکڑی اور اس پر زخم لگا کر خون لگانے لگے اور وہ خون بھی انہوں نے دئیے میں شامل کر دیا۔ انہوں نے جیسے ہی چھری سے زلیخا کی کلائی کو چیرا تھا تو اس کے اندر چھپے طاغوت نے بڑی دلدوز چیخ ماری تھی اور وہ اس زور سے لرزنے لگا تھا جیسے اس پر نزع طاری ہو۔ یہ سب ایک آدھ منٹ میں ہی ہو گیا۔ شاہ صاحب خون کی مخصوص تعداد حاصل کر چکے تو انہوں نے زلیخا کی کلائی پر بھی وہی سفوف مل دیا جو میری کلائی پر لگایا تھا۔ اس کا خون بہنا بند ہو گیا۔ وہ دائرے سے باہر نکل آئے اور پھر کچھ پڑھتے ہوئے دائرے کے گرد چکر لگانے لگے۔ معاً کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے زور زور سے بجنے لگے جیسے باہر تیز طوفان آ گیا ہو اور وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا ہو۔ پوری حویلی جیسے زلزلوں کی زد میں آ گئی تھی۔ چاچی تو اس دہشت ناک منظر سے بے ہوش ہو گئی تھی۔ دیوار گیر الماریوں میں رکھے برتن نیچے گر گئے تھے اور پورا کمرہ یوں ہچکولے لینے لگا تھا جیسے کوئی کشتی پانی کے بھنور میں پھنس جانے کے بعد ہچکولے کھانے لگتی ہے۔
یہ دیکھ کر شاہ صاحب نے دائرے کے گرد چکر تیز کر دئیے۔ ساتواں چکر لگاتے ہی انہوں نے دئیے کو پھونک مار کر بجھا دیا اور پھر سارا خون گڑیا کے اوپر گرا کر گڑیا کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔ گڑیا خون میں تروتازہ ہو گئی تھی اور اس کی ہیئت ہی بدل گئی تھی۔ لیکن چند ثانئے بعد یوں لگا جیسے گڑیا کا سارا خون کسی نے چوس لیا۔ یہ منظر ناقابل فہم تھا ادھر خون میں تربتر گڑیا کا خون خشک ہو رہا تھا اور ادھر زلیخا کے مردہ زرد چہرے کے گلابی خدوخال دوبارہ سے تروتازہ ہو رہے تھے۔
پیر ریاض شاہ احساس تفاخر سے میری طرف دیکھ رہا تھا اور میں سمجھ رہا تھا کہ وہ ستائش کا منتظر ہے۔ یہ عقل سے ماورا پراسرار دنیا کے باسیوں اور ایک انسان کے علم میں مجادلہ کے بعد جو نتیجہ نکل کر سامنے آ رہا تھا اسے بار بار جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے چاہے جو بھی طریقہ اختیار کیا تھا مگر اس کا مثبت نتیجہ یہ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا کہ یہ شخص واقعی مخفی علوم کی قوت رکھتا ہے۔
گڑیا کا رنگ بالکل سفید ہو گیا تھا اور ادھر زلیخا بالکل ہشاش بشاش۔ بالکل ویسی جیسے میں اسے باغیچے میں کھڑے ہو کر کبھی کبھار دیکھتا تھا۔ اس کی نسوانی تمکنت اور معصومیت دیکھ کر میرا دل کف افسوس ملنے لگا کہ اے زلیخا .... تیری قسمت پھر بھی پھوٹ گئی۔ تو پیر ریاض شاہ جیسے فتنہ علم کی بیوی ہونے جا رہی تھی۔
اس دوران زلزلے اور طوفان کی شدت ختم ہو گئی تھی البتہ کھڑکیاں سرسراتی ہوا سے ابھی تک بج رہی تھیں۔ لیکن پھر۔ دس منٹ کے اندر ہی اندر زنان خانے میں سکون لوٹ آیا تھا۔ زلیخا اٹھ پڑی تھی اور بڑی حیرت سے سب کو دیکھ رہی تھی۔ چاچی بھی ہوش میں آ چکی تھی اور شاہ صاحب نے انہیں منع کر دیا تھا کہ وہ زلیخا کو اس کی بے ہوشی وغیرہ کے بارے میں کچھ نہ بتائیں۔ شاہ صاحب نے چاچی سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگلے چالیس گھنٹے بڑے نازک ہیں لہٰذا زلیخا سے کہہ دیا جائے کہ وہ باغیچے کی طرف نہ جائے۔ اسے نظر لگ جائے گی اور پھر کوئی وار کر دے گا۔
اس شام تک میں شاہ صاحب کے پاس ہی بیٹھا رہا۔ میں ان سے پہلے بھی مرعوب تھا لیکن زلیخا کو جس صورتحال سے انہوں نے نکالا تھا ہزاروں وساوس کے باوجود میں ان کی علمی طاقتوں کا معترف ہو گیا تھا۔ میں پہلے اندر سے بدظن ہو رہا تھا مگر اب بدظنی کو دور کر رہا تھا۔ ملک صاحب کا بھی خیال آ رہا تھا کہ وہ کیا سوچیں گے کہ میں بھی گیا۔ دوسروں کی طرح پیر ریاض شاہ کے تلوے چاٹنے لگوں گا۔ مگر جب کوئی ایسی طاقت جس کے بارے میں آپ نے تمام عمر سن رکھا ہو جب اپنے ساتھ ظہور پذیر ہوتے دیکھتے ہیں تو آپ کے خیالات کا بدل جانا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ شاہ صاحب کی عزت میں یکایک نہیں کر رہا تھا بلکہ میں ایسے متعدد حیرت العقول واقعات کا مجھے بھی حصہ بننا پڑا تو میں ان کی مخفی صلاحیتوں کا معترف ہوتا چلا گیا۔ اس روز شاہ صاحب نے مجھے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں بہت کچھ بتایا حتیٰ کہ یہ بھی بتا دیا کہ بابا جی سرکار ان کے پاس کیسے آئے۔ اس وقت چونکہ وہ فارغ تھے۔ بابا جی کا اس روز ناغہ تھا اس لئے فراغت میں ہم دونوں باتیں کرتے رہے اور زوال کا وقت ہو گیا تو معاً شاہ صاحب چونکے اور کہنے لگے۔
”یار .... میں تو بھول ہی گیا تھا۔ ابھی ایک کام رہتا ہے“ یہ کہہ کر انہوں نے وہی گڑیا نکالی۔ اب اس کا رنگ نیلا پڑ چکا تھا۔
”تم نے دیکھا اس گڑیا نے کتنے رنگ بدلے ہیں“ وہ کہنے لگے ”یہ زہر ہے جو تجھے نظر آ رہا ہے۔ بعض جنات جب کسی پر قابض ہوتے ہیں تو جاتے جاتے اپنا زہریلا مواد انسان کی رگوں میں اتار جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیر صاحب نے جن تو ان کے سامنے نکالا اور مارا تھا مگر بندہ پھر بھی صحت یاب نہیں ہو رہا اسی لئے اس بندے کو تعویذات‘ دم شدہ پانی اور بعض اوقات کچھ ادویات بھی کھلائی جاتی ہیں۔ لیکن زلیخا کو کوئی دوائی نہیں کھلاﺅں گا۔ میں نے جو عمل کیا ہے اسے کوئی انسان نہیں کر سکتا اس لئے کہ مجھے یہ عمل بابا جی سرکار نے سکھایا ہے۔ اگر مجھے اس عمل پر دسترس نہ ہوتی تو یقین کرو یہ قابض جنات میرا بھرتہ بنا دیتے اور حویلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ خیر“ وہ کہنے لگے ”مغرب ہوتے ہی یہ گڑیا قبرستان میں دفن کرنی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں بڑا گوشت ایک کلو چاہئے۔ اس کا بندوبست میں نے کر لیا تھا“ یہ کہہ کر انہوں نے دروازے کے پاس رکھا ایک گوشت کا تھیلا اٹھایا اور مجھے پکڑا کر کہنے لگے ”یہ سارا کام تمہیں کرنا ہے“
”مم .... مجھے کرنا ہے میں اور قبرستان جاﺅں گا اور پھر .... یہ گڑیا وہاں دفن کروں گا“ میں گھبرا گیا
”گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نصیر کو نہیں بھیجنا چاہتا میں سمجھتا ہوں کہ اس کام کے لئے تم سے معقول بندہ کوئی نہیں“ انہوں نے مجھے سارا کام سمجھایا اور میرا ان کے لئے اور زلیخا کے لئے حکم بجا لانا بہت ضروری تھا۔