”لو بادشاہو دو رتی کیا آپ پوری ڈلی رکھ لو۔“ اس نے افیون میری طرف بڑھائی۔” سرکار کا کہا میں ٹال سکتا ہوں بھلا۔“
میں اس بے شرم کا منہ تک رہا تھا اور وہ ڈھٹائی اور اور رذالت کے ساتھ مسکرا رہا تھا۔
”یہ تمہارے پاس تھی تو مجھے کیوں نہیں دے رہے تھے۔“ میں نے لالو قصائی سے افیون لیتے ہوئے ناراضگی کے ساتھ کہا۔ وہ منہ سے کچھ نہ بولا مگر اس کی اضطراری حالت بتا رہی تھی کہ اس نے باامر مجبوری مجھ پر یہ عنایت کی ہے۔
”اوئے کسی شریف آدمی کو زیادہ تنگ نہ کیا کر۔“ مکھن سائیں نے لالو کو اپنے پاس بلایا اور استہزائیہ انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا‘ مجھے مکھن سائیں کی باتوں کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا یا مجھے طنز کر رہا تھا۔ طنز کر رہا تھا تو کیوں‘ ایک طرف وہ ایسے اشارے بھی دے رہا تھا جیسے وہ میرے حالات سے باخبر ہو۔ اس کے بارے ایسی ہی باتیں مشہور تھیں کہ وہ دلوں کی باتیں پکڑ لیتا تھا۔
”جا اب اسے واپس لے جا“ مکھن سائیں نے اس کی کمر پر تھاپڑا دیا۔ لالو قصائی نے عقیدت سے جھک کر مکھن سائیں کے گھٹنے چھوئے تو وہ مجھے گہری نظروں کے ساتھ مسکرا کر دیکھنے لگا۔ بولا ”میاں! کبھی دل مچلے اور کچھ باتوں کی سمجھ نہ آئے تو چلے آنا‘ مکھن سائیں کا دروازہ کھلا ملے گا۔“ میں نے غیر ارادی طور پر اثبات میں سر ہلایا۔ ”اور ہاں۔ اپنے بابا جی کو میرا سلام کہنا....“
میں چونکا اور کسی اصیل گھوڑے کی طرح میرے اندر کوئی شے بدکی‘ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ ”تو کیا مکھن سائیں اس حد تک باطنی ہے‘ اسے کیا معلوم مجھے کس نے‘ کس کام سے بھیجا ہے۔“
خدا گواہ ہے‘ میں اس لمحے مجبور ہو گیا اور اس کے لئے میرے دل میں رعب پیدا ہوا....میں دل و جان سے مکھن سائیں کو ایک فریب کار‘ شیطان کا چیلا اور ڈھونگی سمجھتا تھا۔ اس سے منسوب واقعات اس کے چیلوں کے کاروباری ہتھکنڈے سمجھتا تھا۔ مگر آنکھوں دیکھی کانوں سنی کون جھٹلا سکتا ہے۔ سو یہ میرے ساتھ بھی ہوا۔
”آپ باباجی سرکار کو جانتے ہیں۔“ میں بے اختیار ہو کر مکھن سائیں کے پاس پہنچ گیا۔
”ترے باباجی سرکار مجھے بھی جانتے ہیں‘ پُتر جی“۔ مکھن سائیں دھیرے سے بدلا....مگر اس کا انداز معنی خیز تھا۔ ایسے جیسے مجھے کچھ سمجھانا چاہ رہا تھا۔
وقت خاصا ہو چکا تھا مجھے واپسی کی بھی فکر تھی لہٰذا میں نے اس مرعوبیت کے حصار سے باہر نکلتے ہوئے لالو قصائی سے واپس چلنے کے لئے کہا‘ مکھن سائیں اپنے ڈیرے کی طرف چل دیا لیکن اس کا ایک ملنگ پیچھے رہ گیا۔ اس نے لالو قصائی کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا
”نذرانہ....“
لالو قصائی نے ذردیدہ نظروں سے میری جانب دیکھا اور ایک بار پھر شلوار کے نیفے سے افیون کی دو تین ڈلیاں نکال کر ملنگ کو پکڑا دیں۔ وہ ایک ایک ڈلی کو سونگھ کر بے خودی سے جھومنے لگا اور حق سائیں سرکار مکھن سائیں کے نعرے لگاتا ہوا اپنے مرشد کے پیچھے ہو لیا۔
لالو قصائی کا یہ روپ مجھے الجھن میں ڈال رہا تھا۔ میں خاصی دیر سے اس کے ساتھ خوار ہو رہا تھا وہ مجھے یہ کہہ کر دوسرے گاﺅں لے جاتا تھا کہ اسے افیون اس گاﺅں سے نہیں ملی لہٰذا دوسرے گاﺅں سے مل جائے گی مگر اب وہ بڑے سکون سے مجھے اور ملنگ کو افیون دے چکا تھا۔ میں اس سے یہ پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ اسی اثنا میں دو سپاہی گشت کرتے ہوئے ادھر آ نکلے۔ لالو کو دیکھتے ہی بولے‘ ” اوئے کالیے تو ادھر“ اس نے گالی دیکر کر مخاطب کیا۔ ”منشی جی۔ یہ لالو قصائی ہے۔ پھڑیا ہے۔ آج قابو آ ہی گیا۔“
میں اس دوران موٹر سائیکل پر بیٹھ چکا تھا اور کک مارنے ہی لگا تھا کہ دوسرے سپاہی نے جھٹ سے چابی نکال لی ”اوئے تو کدھر بھاگ رہا ہے....“ اس لمحے میں ڈر گیا۔ خوف کی جھرجھری سے میں کانپ گیا۔ میرے پاس تو افیون تھی اور میرا دھر لیا جانا یقینی تھا۔
”جناب مسئلہ کیا ہے....“ میں نے جرات سے کام لیتے ہوئے اپنا تعارف کرایا تو چابی چھیننے والا ایک لحظہ کے لئے رکا اور بولا۔
”کارڈ ہے آپ کے پاس ہے۔“ میں نے اخبار کا کارڈ نکال کر دکھایا تو وہ بولا‘ ”آپ اس پھڑیے کے ساتھ یہاں کیا کر رہے ہیں....“
اس لمحہ دوسرے سپاہی نے لالو قصائی کی مکمل تلاشی لی اور بولا۔ ”حیرت ہے بھئی.... لالو آج تیرے پاس ایک رتی افیون بھی نہیں ہے۔“
میں نے لالو کی طرف دیکھا تو وہ کمینہ اکھیوں میں مسکرا رہا تھا۔
”صحافی بادشاہ ہیں بھئی۔ ادھر راجو ڈوگر ‘ ادھر مکھن سرکار اور ادھر آپ....جاﺅ جی۔ قانون بھی تمہارا۔ حکمرانی بھی تمہاری ہم تو آوارہ گردی اور چوکیداری کے لئے بھرتی کئے ہوئے لوگ ہیں۔ ڈھب ڈھب تلاشی لو۔ ملا‘ کچھ نہ ملا۔ مل بھی گیا تو اوپر سے سفارش آ گئی اور چھوڑ دیا‘ چور کمینے ہم سے تگڑے ہیں جناب....“
”جناب آپ تو ناراض ہو گئے ہیں۔ کل اپنا بندہ بھیج دیجئے گا۔ آپ کے لیے بچھڑے کی ران کا گوشت رکھ چھوڑوں گا....“ لالو قصائی بولا۔
”ہاں یار....“ سپاہی نے یہ سنتے ہی لہجہ بدل لیا۔“ ”کئی دن ہو گئے ہیں گوشت نہیں چکھا....اب تو اس پٹری پر چائے پانی بھی بند ہو گیا ہے....کل میں اور منشی جی خود آئیں گے....“
یہ کہہ کر وہ دونوں مکھن سائیں کے ڈیرے کی طرف چل دئیے اور میری ناک جڑوں سے کٹتے کٹتے رہ گئی۔
ملک وال پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی تھی۔ میں نے لالو کو اس کی دکان پر اتارا اور جلدی سے اپنے دوست ملک نصیر احمد کی حویلی پہنچ گیا۔ نصیر اپنے پیر صاحب کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھا ہوا تھا۔ گھر کے دوسرے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ پیر صاحب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور نصیر ان کے بالوں میں جناتی تیل سے مالش کر رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی پیر صاحب اٹھ پڑے اور قہقہہ لگا کر بولے۔ ”آﺅ شہزادے کیسا رہا....“
”سرکار۔ مرتے مرتے بچا ہوں....“ میں نے مصنوعی خفگی کا اظہار کیا۔“ آپ تو جانتے ہیں یہ کام میرے کرنے کا نہ تھا....پولیس سے بار بار ٹکراﺅ ہوتا رہا ہے۔ بس اللہ نے عزت رکھ لی ہے....“
پیر صاحب نے یہ سنتے ہی ایک لحظہ کے لئے میرے سر کے اوپر دیکھا پھر چونکے اور جلدی سے نصیر سے کہا‘ ”دروازے کھڑکیاں بند کر دو اور ان کے پردے گرا دو.... باباجی آ گئے ہیں‘ اور ہاں باہر ملازموں سے کہہ دو....اندر نہ آئیں....“ پیر صاحب نے نصیر کی والدہ کی طرف دیکھا اور کہا ”ماں جی۔ آپ نے اگربتیاں نہیں جلائیں....“
”ہائے میں بھول گئی“ وہ اٹھنے لگیں تو ان کی بیٹی زلیخا اپنے سر پر چادر درست کرتے ہوئے بولی ”ماں ٹھہرو.... میں اگربتیاں لاتی ہوں....“
” تم بیٹھو.... ماں کو اگربتیاں جلانے دو....“ پیر صاحب نے گدلی اور جلالی آنکھوں سے زلیخا کی طرف دیکھا تو وہ اپنی جگہ پر کسمسا کر رہ گئی۔ نصیر کی والدہ نے طاق میں رکھی اگربتیاں جلا دیں تو بیٹھک میں خوشگوار خوشبو پھیل گئی۔ کھڑکیوں پر پردے گرانے سے بیٹھک میں قدرے اندھیرا ہو گیا تھا۔ سب لوگ حسب معمول درود شریف پڑھنے لگے میرا دل بے تابی سے دھڑکنے لگا۔ آج سے پہلے بابا جی سرکار شام کے وقت بالخصوص جب ابھی دن کی روشنی موجود ہوتی وہ حاضری نہیں دیتے تھے مگر آج ان کا غیر معمولی پھیرا تھا۔ اس بار ایک اور عجیب بات ہوئی تھی۔ پیر صاحب کو کچھ پڑھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل جب بھی بابا جی سرکار کی حاضری لگوانا ہوتی‘ پیر صاحب کسی غیر مانوس زبان میں کچھ پڑھنے لگتے اور کبھی کبھار بجلی کے سوئچ بورڈ کے پاس کھڑے ہو کر کوئی ایک بلب جلانے اور بجھانے لگتے تھے جب باباجی سرکار آ جاتے تو وہ لائٹ آف کر دیتے تھے مگر آج انہیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
ہم سب اگربتیوں کے فسوں زدہ ماحول میں آنکھیں بند کئے ہوتے تھے جب باباجی کی بھاری بھاری سانس مجھے اپنے آس پاس محسوس ہونے لگیں۔ ان کے وجود کا احساس ہر کسی کو ہو رہا تھا اور صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بیٹھک میں گھوم رہے ہیں۔ ایک لحظہ کے لئے تو میری سانسیں اٹ کر رہ گئیں جب باباجی سرکار میرے پاس آئے انہوں نے اپنے ریشمی ہاتھوں سے میری کمر پر تھاپڑا مارا اور پھر بے اختیار ہو کر ہنسنے لگے۔
شاہد پتر‘ لالو بڑا ہی کمینہ نکلا“ یہ کہہ کر وہ دوبارہ ہنسنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی شرارتی غازی کے قہقہے بھی گونجنے لگے۔
”غازی ذرا صحافی صاحب کو پورا قصہ تو سنا ، اگر آج ہمارا مکھن سائیں ادھر نہ آ نکلتا تو یہ تو گئے تھے جیل میں....“
”بابا جی۔ میرا آدھا خون تو خوف سے سڑ گیا ہے“ میں نے کہا
”آپ نے مجھے اتنے کڑے امتحان میں ڈال دیا تھا۔“
”ہماری محبت تو خود ایک کڑا امتحان ہے میاں....“ باباجی بولے۔ ”ہاں غازی....پھر کیا ہوا....؟“
غازی نے بے ساختہ قہقہوں کے درمیان بتایا ”لالو قصائی بڑا کایاں انسان ہے بھیا۔ آج کل اس پر خاصی سختی ہو رہی تھی۔ آپ نے جب اس سے افیون مانگی تو اس نے آپ کو استعمال کرنے کا پروگرام بنا لیا اس نے یہاں....اپنے گاﺅں سے افیون کی خاصی مقدار اٹھا لی تھی آپ کو تو یہ کہہ کر ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں لے کر جاتا رہا کہ وہ افیون ڈھونڈ رہا ہے مگر حقیقت میں وہ گاﺅں گاﺅں افیون بیچتا رہا۔ آپ کی وجہ سے پولیس اس کو جانے دیتی تھی۔ آپ نے دیکھا جب مکھن سائیں نے اسے کہا تو اس نے فوراً افیون نکال کر آپ کی ہتھیلی پر رکھ دی....“
”بڑا بے غیرت نکلا لالو....“ مجھے اس پر غصہ آنے لگا” مجھے ساتھ لیکر دھندہ کرتا رہا وہ....باباجی سرکار۔ اگر میں پکڑا جاتا تو آپ جانتے ہیں میرے ساتھ کیا ہوتا....“
”تو کیوں پکڑا جاتا....“ باباجی نے میرے کاندھے پر روئی جیسے ہاتھ میرے کاندھے پر رکھے۔ ان کی تیز بوجھل اور گرم سانسیں میرے چہرے پر محسوس ہونے لگیں۔ لگا وہ میرے مقابل کھڑے ہیں مگر میں آنکھیں بند کئے ہوئے تھا۔” یہ غازی ترے ساتھ ساتھ تھا....“ باباجی بولے ”پتر جی‘ ہم اپنے پیار کرنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑتے۔ غازی پولیس والوں کی عقل مار دیتا تھا۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ و ہ لالو جیسے شکار کو آسانی سے جانے دیتے....“
”باباجی....صبح میرا انگریزی کا پرچہ ہے۔ میں آج گھر جانا چاہتا ہوں۔ اباجی ناراض ہوں گے....“ میں نے افیون باباجی کو دے دی۔ اب مجھے اپنے امتحان کی فکر تھی۔
”تو فکر کیوں کرتاہے۔ اللہ خیر کرے گا۔“ باباجی نے مجھے امید دلائی.... ”تو بس ا یک کام کرنا‘ صبح امتحانی سنٹر میں داخل ہوتے وقت سورہ یاسین کا ورد کرتے رہنا۔ اللہ خیر کرے گا۔“ یہ کہہ کر باباجی چارپائی پر جا بیٹھے۔
”آج رات ادھر ہی رہ جا....صبح سویرے یہاں سے شہر چلے جانا“ فقیر کہنے لگا....
”نہیں اسے جانے دے“ باباجی بولے
”بابا جی رات ہو رہی ہے‘ نہر کی پٹری پر کیسے سفر کرے گا۔“
”چلا جائے گا یہ.... غازی پتر تو اس کے ساتھ چلا جا اور اسے اس کے گھر تک پہنچا کر واپس آ جانا....“ بابا جی نے کہا اور پھر بولے ”بھئی وہ فاطمہ بی بی کی دوائی بھی بنانی ہے افیون تو آ گئی ہے اب دس سیر گائے کا دددھ اور آدھ پاﺅ سپاری چاہئے۔ نصیر پتر تو اس کا خود بندوبست کر....“
”جی اچھا بابا جی۔ کب چاہئے سامان....“
”صبح منگوا لینا اور اپنے ریاض شاہ کے حوالے کر دینا....“ بابا جی نے پیر صاحب کی طرف اشارہ کیا“ ریاض بیٹے‘ میں تمہیں دوا بنانے کا طریقہ سکھا دوں گا‘ تو کل ہی فاطمہ بی بی کو دوائی بنا کر دے دینا‘ ہو سکتا ہے میں کل نہ آ سکوں‘ میں نے بڑی سرکار کے ساتھ پاکپتن جانا ہے اور کل سارا دن اور رات ہمیں وجد کی محفل میں حاضری دینی ہے۔ اس لئے تو یہ کام خود نپٹا لینا۔ اگر کوئی مسئلہ ہو تو تب یاد کر لینا....“
”باباجی! کیا فاطمہ کے ہاں اولاد ہو جائے گی۔“ میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔
”مارا گیا“ میں پریشان ہو گیا۔ شہر جانے میں گھنٹہ لگ جاتا تھا۔ میں نے گھڑی دیکھی تو پورے سات بجے تھے۔ میں نے سوچا اگر سوا سات بجے والی ریل گاڑی پکڑ لوں تو دس پندرہ منٹ میں سیالکوٹ پہنچا جا سکتا تھا۔ میں جتنی جلدی تیار ہو رہا تھا دماغ اس سے بھی تیزی سے سوچ رہا تھا کہ جلد از جلد کیسے پہنچا جائے۔ موٹر سائیکل پر جاتا تو آدھ پون گھنٹہ تب بھی لگ سکتا تھا بس اور ویگن پر جانے کا مطلب تھا ایک گھنٹہ ضائع۔ لہٰذا میں نے ریل گاڑی پکڑنے کا سوچا اور بھائی سے کہا کہ مجھے اگوکی ریلوے سٹیشن تک چھوڑ آئے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے ریل گاڑی اسٹیشن چھوڑ رہی تھی۔ بھائی چلتی گاڑی کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل دوڑانے لگا۔ صبح کی گاڑی تھی خوب رش تھا‘ اس کی چھتوں اور پائیدانوں پر بھی مسافر بیٹھے اور لٹکے ہوئے تھے۔ بھائی کہنے لگا ”رش بہت ہے۔ جگہ نہیں ملے گی۔ میں اسی رفتار سے موٹر سائیکل تیزی کے ساتھ ساتھ دوڑاتا ہوں‘ ہم یونہی سیالکوٹ پہنچ جائیں گے“ پٹری کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل چلانا خطرناک کام تھا۔ میں نے منع کیا اور اسے کہا کہ وہ موٹر سائیکل ذرا آہستہ کرے میں چلتی گاڑی پر سوار ہو جاتا ہوں۔ اس وقت گارڈ کا ڈبہ میرے سامنے تھا‘ اس کے پیچھے ایک مال ڈبہ تھا جس میں غالباً جانور بھرے ہوئے تھے‘ اس کے پیچھے آخری ڈبہ زنانہ تھا۔ بھائی بضد ہوا ”یار میں تمہیں چلتی گاڑی پر سوار نہیں ہونے دوں گا“ بھائی کا خوف بجا تھا۔ گاڑی تیز ہو رہی تھی اور کسی بھی ڈبے کے ہینڈل کو پکڑ کر پائیدان پر پاﺅں رکھنے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ مگر مجھے دیر ہو جانے کے خوف نے بہادر بنا دیا تھا۔
میں نے زبردستی بھائی سے موٹر سائیکل رکوائی اور پھر چلتی گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگا۔ گارڈ نے دیکھا کہ میں سوار ہونا چاہتا ہوں تو وہ اونچی آواز میں چلایا۔
”اوئے انسان بن.... سوار نہ ہونا گر جائے گا“
مگر میں نے اس کی سنی ان سنی کر دی۔ گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا چلتی گاڑی پر سوار ہونے کی کوشش کرتا رہا۔مجھے قدرے پریکٹس بھی تھی۔ اسٹوڈنٹس تو عموماً سوار ہی چلتی گاڑی پر ہوتے تھے لہٰذا مجھے یہ یقین تھا کہ میں چلتی گاڑی پر سوار ہو جاﺅں گا۔ مگر میرے لئے اس وقت مسئلہ یہ تھا کہ گارڈ کے پیچھے جانوروں کی بوگی تھی اور اس کے پیچھے زنانہ ڈبہ جس کا درازہ بند تھا۔ میں نے اللہ کا نام لیا اور جانوروں کی بوگی پر سوار ہونے کے لئے اس کا ہینڈل تھام لیا۔ میں نے محسوس کیا کہ پوری گاڑی میں سوار مسافر پلٹ کر مجھے دیکھ رہے تھے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ نوجوان کیوں سوار ہونا چاہتا ہے۔
ہینڈل پکڑتے ہی میں پائیدان پر پاﺅں رکھنے کے لئے اچھلا تو بدقسمتی سے یہ نہ دیکھ سکا کہ پائیدان ٹوٹا ہوا ہے۔ جونہی میرے پاﺅں پٹری سے اٹھے اور پائیدان پر رکھنے لگا تو پائیدان دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے میرے پاﺅں سیدھے گاڑی کے نیچے پہیوں سے ٹکرائے۔ میرے بھائی کی چیخ نکل گئی‘ گاڑی کے شور میں بھی مسافروں کی سسکیاں سنائی دیں‘ میرا انجام ان کی نظروں میں گھوم گیا۔ میں ہینڈل کے ساتھ لٹک گیا تھا خدا کا شکر تھا کہ پاﺅں پہیوں کے نیچے نہیں آگے مگر پٹری پر پتھروں سے ٹکرانے کے بعد میں گاڑی کے ساتھ ساتھ گھسیٹا جانے لگا تھا۔ اب اگر میں ہینڈل چھوڑ دیتا تو گاڑی کے نیچے آ سکتا تھا مگر دوسری طرف میں زیادہ دیر تک لٹکا بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ میرے بچاﺅ کی دو ہی صورتیں تھیں یا تو گاڑی فوراً رک جاتی یا دوسرے پائیدان پر پاﺅں رکھنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اضطراری حالت میں‘ میں پاﺅں پٹری سے اٹھانے کی کوشش تو کر رہا تھا مگر میرے گھٹنے اور پنڈلیاں بری طرح چھل چکی تھیں اور گاڑی جب تک رکتی میرا کام تمام ہو چکا ہوتا۔
مجھے یاد ہے میں نے اونچی آواز میں اپنے پیارے اللہ کو پکارا تھا ”یا اللہ مدد“ میرے ہاتھوں کی گرفت کمزور ہو رہی تھی اور کچھ ہی لمحے بعد میں گر جاتا کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی نادیدہ طاقت میرے اندر سرایت کر گئی ہے اورپھر میرے کمزور بازوﺅں میں اتنی طاقت عود آئی کہ میں نے اپنے لٹکے ہوئے وجود کو سکیڑ لیا اور بڑے آرام سے پائیدان پر پاﺅں رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر میں جونہی بوگی میں داخل ہوا جانور مجھے دیکھ کر بدک گئے اور خوف سے چلانے لگے۔ میں پسینے میں شرابور ہو چکا تھا۔ پنڈلیاں اور ایڑھیاں گھائل تھیں مگر اس سمے مجھے کسی قسم کی تکلیف کا احساس نہیں ہوا۔ جانوروں کی بوگی میں ایک بیل اور تین بکریاں اور ایک کتا اپنی اپنی زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ جانوروں نے خوفزدگی کے مارے پوری بوگی میں اچھل کود شروع کر دی تھی۔ کتا تو خوف سے مجھ پر بھونک رہا تھا مگر چند ہی ساعتوں کے بعد سارے جانور مطمئن ہو گئے۔ میں اس وقت تو نہ سمجھ سکا کہ یہ کیوں پریشان تھے۔ مگر کچھ ہی دیر بعد مجھے غازی کی ایک بات یاد آ گئی۔ اس نے کہا تھا کہ بعض جانور جنات کے وجود کا احساس ہوتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ تو کیا اس سمے غازی یا کوئی اور جن میرے ساتھ بوگی میں موجود تھا جس کا احساس ان جانوروں نے دلایا تھا‘ لیکن شاید اب وہ چلا گیا تھا کیونکہ جانور اب شانت ہو چکے تھے۔
گارڈ نے ویکیوم کھینچ کر گاڑی نہیں روکی تھی۔ اگر وہ گاڑی روک لیتا تو مجھے پکڑ کر یقیناً پولیس کے حوالے کر دیتا۔ میرے ذہن میں آیا کہ اسٹیشن پر گاڑی رکتے ہی وہ مجھے پکڑنے کی کوشش کرے گا لہٰذا میں نے سوچا کہ اگر ایک کام غلط کیا ہے تو دوسری بار غلط کام کرکے ہی بچ سکوں گا۔ لیکن دوسری بار مجھے غلط کام کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
ریل گاڑی سیالکوٹ اسٹیشن سے پہلے سبزی منڈی کے پھاٹک سے پیچھے رک گئی۔ غالباً سگنل ڈاﺅن نہیں ہوا تھا۔ یا کسی سبزی منڈی میں اترنے والے نے ویکیوم کھینچ کر گاڑی روک لی تھی۔ علامہ اقبال کالج سبزی منڈی کے سامنے تھا لہٰذا گاڑی رکھتے ہی میں تیزی سے باہر نکلا اس دوران دیکھا گارڈ میری طرف آ رہا تھا۔
”اوئے ادھر آﺅ“ اس نے جھنڈی کا ڈنڈا میری طرف کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ میں نے اس کی سنی ان سنی کی اور بھاگ کر سبزی منڈی میں داخل ہو گیا۔ گارڈ میرے پیچھے نہیں آیا تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کالج کی طرف چل دیا۔
سبزی منڈی میں جابجا فروٹ اور سبزیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور آڑھتی ان کی بولیاں لگانے میں مصروف تھے۔ گلے سڑے پھلوں کے ڈھیر بھی ہر طرف بکھرے ہوئے تھے ۔ ان سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ مگر آڑھتی اور خریدار اس گندگی سے بے نیاز تھے۔ میں ناک پر ہاتھ رکھے منڈی سے باہر نکلنے لگا تو یکدم میرے عقب سے ایک آدمی کے چلانے کی آواز آئی۔ دیکھا تو ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ پھلوں کے ایک ڈھیر کے پاس مجذوب بچہ کھڑا تھا۔ اس نے کیلوں کا ایک بڑا گچھا اٹھایا ہوا تھا اور آڑھتی اس سے وہ گچھا چھیننے کی کوشش کر رہا تھا۔
”اوئے چور کے پتر سرعام چوری کرتا ہے“ آڑھتی نے بچے سے جو تقریباً دس سال کا ہو گا اس کے منہ پر تھپڑ مار کر کیلوں کا گچھا چھین لیا۔ اسی لمحہ بچے نے منہ بسورتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں ویران تھیں‘ چہرہ صدیوں کی میل سے بھرا ہوا تھا‘ کپڑے پھٹے ہوئے تھے‘ پاﺅں اور ہاتھوں کے ناخنوں میں سیاہ مٹی بھری تھی۔ میرے دل میں اس کے لئے رحم بھر آیا۔ میں نے سوچا کہ شاہد تمہیں آج خدا نے دوسری زندگی دی ہے اور پھر تم امتحان دینے جا رہے ہو‘ چلو سخاوت کرتے جاﺅ۔ اپنا صدقہ خیرات کرکے امتحان میں بیٹھو گے تو ممکن ہے اللہ کو تمہاری یہ ادا پسند آ جائے۔ یہ سوچ کر میں آڑھتی کے پاس پہنچا وہ بچے کو دوبارہ تھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ میرے تیور دیکھ کر رک گیا ”یہ چور کا پتر....“
”بس بس .... رہنے دو تمہارے چار کیلے اس نے اٹھا لئے ہیں تو کون سی قیامت آ گئی ہے“ میں نے کہا ”کتنے پیسے ہیں ان کے“
”جناب یہ چار نہیں پورے پانچ درجن کیلوں کا گچھا ہے۔ اس نے میری ڈنڈی خراب کر دی ہے۔ دو تین کیلے تو اب اتار کر نہیں دے سکتا۔ پانچ درجن کیلوں کی قیمت دیں مجھے“ آڑھتی بہت ہی نادیدہ قسم کا شخص تھا۔
”تم لوگوں کو خدا کا خوف نہیں۔ مال بے شک گل سڑ جائے مگر کسی غریب کو نہیں دینا۔ کتنے پیسے ہیں اس کے“ میں نے پرس نکالا۔
”100 روپے“ وہ بولا۔
”سو روپے .... 20 روپے درجن۔ پندرہ روپے درجن میں تو باہر سے مل جاتے ہیں ادھر منڈی میں تو دس روپے درجن ہونے چاہئیں“ میں نے تیوری چڑھا کر کہا
”پانچ درجن لو گے تو یہی قیمت ہے زیادہ مال کی قیمت کم ہوتی ہے“ آڑھتی کاروباری انداز میں بولا”اچھا تم اس میں سے ایک درجن کیلے نکال دو۔ تمہیں کیا فرق پڑے گا“ میں نے اس دوران گھڑی دیکھی تو آٹھ بجنے میں صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے تھے۔ میں جلدی سے بولا ”دیکھو میرے پاس صرف سو روپیہ ہے اور ابھی مجھے واپس گاﺅںبھی جانا ہے۔ یہ پچاس روپے لو اور اس میں جتنے کیلے آتے ہیں دے دو“ اس نے جھٹ سے پچاس روپے پکڑے۔ اس لمحہ بچے نے آڑھتی کے ہاتھوں سے گچھا چھین لیا اور بولا ”میں سارے کھاﺅں گا“
میں نیکی کرکے واپس مڑنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے بچے نے چھ سات کیلے مٹھی میں پکڑے اور چھلکے اتارے بغیر منہ میں ڈال لئے
”ارے .... یہ کیا کر رہے ہو .... چھیل تو لو“ میں یہ کہتا ہی رہ گیا اور بچہ سات کیلوں کا ایک لقمہ بنا کر کھا گیا اور دوسرا لقمہ لینے کے لئے چھ سات کیلے مزید منہ میں ڈال لئے۔ میں پہلے تو حیران ہوا۔ پھر سوچا کہ مجذوب بچہ ہے اسے کھانے پینے کے آداب کیا آئے ہوں گے۔
میں واپس پلٹا تو آڑھتی یکدم چلانے لگا ”حرام خور اب دفع ہو جا۔ اب کون تیرے پیسے دے گا“ میں نے پلٹ کر دیکھا بچہ کیلوں کا خالی ڈنڈا پرے پھینک رہا تھا اور ایک دوسرے گچھے کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”صاحب جی“ آڑھتی نے مجھے پکارا۔
”اور پیسے دیتے ہیں تو یہ گچھا بھی اسے دے دوں ۔ یہ جن کا بچہ پانچ درجن کیلے کھا گیا ہے اور کیلے کھانا چاہتا ہے“ اس کی آواز سنتے ہی میرا ذہن گھوم گیا اور میں میکانکی انداز میں واپس آیا۔ ایک خیال بجلی کی طرح میرے ذہن میں کوندا اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا
”غازی“
مجذوب بچہ گڑبڑا گیا اور خالی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔
”غازی .... باز آ جا“ میں نے مجذوب بچے کی طرف دیکھ کر کہا تو اب کی بار اس کی خالی نظروں میں شرارتوں کے قندیل روشن ہو گئے۔ مجھے بابا جی سرکار کی بات یاد آ گئی ”شاہد اسے زیادہ پیسے نہ دیا کرو۔ یہ تمہیں برباد کر دے گا“ میں بھی دھیرے سے مسکرا دیا۔ مجذوب بچے کے روپ میں غازی کھڑا تھا اور ندیدوں کی طرح کیلے کھانے کے لئے مچل رہا تھا۔
میں نے منہ اس کے کان کے قریب کیا۔
”غازی یار .... میں جانتا ہوں تو یہ ساری سبزی منڈی بھی ہڑپ کر جائے تو تیری ایک آنت بھی نہیں بھرے گی۔ مگر یار .... میرے پاس اب پچاس روپے بچے ہیں۔ میں نے کل بھی پرچہ دینے آنا ہے۔ ویسے بھی تیری اس حرکت سے یہاں تھرتھلی مچ جائے گی۔ شرافت سے واپس چلا جاتا .... ورنہ باباجی کو خبر ہو گئی تو تیرے ساتھ مجھے بھی چھترول ہو گی“
”بھیا تمہاری جان روپے پیسوں سے مہنگی ہے‘ تو پچاس روپے صدقہ دے کر خوش ہو رہا تھا“ غازی منمناتے ہوئے بولا ”خیر اب تم پر قرض ہے۔ اگر میں وقت پر نہ آتا تو ریل کی پٹری پر تمہارے اتنے ٹکڑے نظر آتے جتنے یہاں کیلے پڑے ہیں“
”اوہ .... شکریہ غازی .... میں جان گیا تھا کہ اس کرامت میں تمہارا ہاتھ ہو گا“ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا ”آڑھتی پریشان ہو رہا ہے تمہاری بے احتیاطی سے یہاں دہائی مچ جائے گی“
میں نے غازی کو سمجھایا۔ آڑھتی کو ہماری باتیں سنائی نہیں دیں۔ غازی نے کیلوں کا گچھا واپس رکھ دیا اور بولا ”اچھا اب تم جاﺅ بھیا اور پیپر دے آﺅ.... ہاں یاد آیا سورہ یٰسین پڑھنا نہ بھولنا“
میں نے جیپ کو ٹٹولا تو سورة یٰسین چھوٹی سی کتابی صورت میں میرے پاس تھی۔ میں نے غازی کو ادھر ہی چھوڑا اور امتحانی سنٹر میں پہنچتے ہی جلدی سے غسل خانے میں گیا اور ہاتھ پاﺅں صاف کرکے وضو کیا اور پھر امتحانی کمرے میں پہنچ گیا۔ نگران نے رول نمبر سلپ دیکھنے کے بعد مجھے میز اور کرسی پر بٹھا دیا۔ میں نے کرسی پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے سورة یٰسین جیب سے نکالی اور پڑھنے لگا۔
اس دوران شیٹس تقسیم کرنے والا میرے پاس آیا اور مجھے شیٹ پکڑانے کے بعد کہنے لگا ”اچھی بات ہے‘ برکت ہو گی پڑھ لو۔ ابھی پرچہ تقسیم ہونے والا ہے“ میں سورة یٰسین پڑھنے میں اس قدر مستغرق ہو گیا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب ایک نگران سوالنامہ لے کر میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے متوجہ کرکے سوالنامہ دیا اور بولا ”مولانا اب پرچے کی فکر کرو“ میں نے اس سے سوالنامہ لے لیا اور دوبارہ سورہ یٰسین پڑھنے لگ گیا۔ میں نے جب تک تین بار مکمل سورة نہیں پڑھ لی پرچے پر نظر نہیں ڈالی۔ اس دوران آدھ گھنٹہ تو گذر ہی گیا ہو گا۔ نگران اور پھر سپرنٹنڈنٹ تک اب پریشان ہو رہے تھے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ اس قدر بے فکری کے ساتھ سورة یٰسین پڑھنے میں مصروف ہوں اور پرچے کی کوئی فکر ہی نہیں کر رہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھ میں سوالنامہ پر نظریں دوڑانے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ کوئی قوت تھی یا کوئی اور خیال جو مجھے کہہ رہی تھی گھبراﺅ نہیں۔ پڑھتے جاﺅ۔ تمہارا پرچہ انشاءاللہ ٹھیک ہو گا“ مگر اس خیال کے سہارے میں زیادہ دیر تک وہاں بیٹھا نہیں رہ سکتا تھا۔ مجھے پرچہ حل کرنا ہی تھا۔ کب تک حقائق سے نظریں چراتا۔ آخر میں نے جرات کرکے سورة یٰسین جیب میں ڈالی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ”یا اللہ اس گناہ گار کی عزت رکھ لینا۔ اس پرچے میں مجھے پاس کر دینا“ میں نے بالاخر سوالنامہ پر نظر دوڑائی پہلا ہی سوال پڑھتے ہوئے میرا دل خوشیوں سے بھر گیا۔ اس قدر آسان سوال .... پھر سارے سوالنامے میں سے میں نے پانچ سوال منتخب کرکے گھڑی پر نظر دوڑائی تو معلوم ہواکہ پرچہ شروع ہوئے تقریباً چالیس منٹ گزر چکے ہیں۔ میں نے اللہ کا نام لیا اور پھر لکھنا شروع کیا تو ایسے لگا جیسے میرے قلم کو پر لگ گئے ہیں یا اس میں کوئی مشین فٹ ہو گئی ہے۔ اس قدر تیز رفتاری سے لکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو میں نے بی اے میں انگریزی کے پرچہ الف میں رفتار پکڑی تھی۔ پرچہ ختم ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے جب میں سارے سوال حل کرکے فارغ ہو چکا تھا اور پہلا امیدوار تھا جو فارغ ہو کر سنٹر سے باہر نکلا تھا۔ جونہی میں سنٹر سے نکل کر سبزی منڈی کے سٹاپ پر پہنچا تو نظریں بے اختیاری سے اسی آڑھتی کو ڈھونڈنے لگیں۔ میں اس کے ڈھیر کی طرف گیا تو وہاں ایک عجیب منظر میرا منتظر تھا۔ جابجا کیلوں کے خالی ڈنٹھل بکھرے پڑے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ غازی اپنا کام دکھاگیا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ منڈی میں قدرے ویرانی ہے اور لوگ خوفزدہ نظر آ رہے ہیں۔ میں نے ایک آڑھتی سے صبح والے آڑھتی کا پوچھا تو وہ بے ساختہ بولا ”نور بخش کا پوچھ رہے ہو۔ وہ جس کے کیلے جن کا بچہ کھا گیا ہے“
”مجھے کیا معلوم“ میں گھبرا کر بولا۔ میں اسے کیا کہتا کہ ہاں وہی بچہ۔ یہ تو بلاوجہ شک میں مبتلا کرنے والی بات تھی۔ ”اگر تو آپ اس کا پوچھ رہے ہیں تو وہ ادھر بابا تیلے شاہ کی جھگی میں بے ہوش پڑا ہے صبح سے۔ اس پر جن آ گیا تھا۔ صبح ایک مجذوب بچہ اس کا سارا مال کھا گیا اور پھر نور بخش پر غشی کا دورہ پڑ گیا۔ مارکیٹ کے لوگ اسے بابا تیلے شاہ کے پاس لے گئے ہیں کہ جی اس کا جن اتار دیں میں تو جی ادھر نہیں جا سکا۔ سنا ہے کہ بابا تیلے شاہ نے اس کے جن کو پکڑ لیا ہے۔“
”کک .... کیا“ میں پریشان ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ کیا غازی پکڑا گیا ہے۔ اگر بابا تیلے شاہ نے واقعی اس کو پکڑ لیا ہے تو وہ اسے مار ڈالے گا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ وہ جلالی قسم کا ملنگ ٹائپ پیر تھا وہ جب جلال میں آتا تھا تو کسی کا لحاظ نہیں کرتا تھا۔
”یا اللہ میرے غازی کو بچا لے“ میں دل ہی دل میں دعا کرنے لگا اور پھر سوچنے لگا کہ اپنے غازی کی مدد کیسے کرسکتا ہوں
مجھے بابا جی کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ غازی جب بھی کوئی بھی چلبلی بات کرتا یا شرارت کے موڈ میں نظر آتا تو اسے ڈانٹ دیتے تھے۔ مگر غازی کہاں چپکا بیٹھ سکتا تھا۔ اچھل کود اور چھیڑ چھاڑ اس کی طبیعت کا حصہ تھے۔ میں نے پہلی ملاقات میں اس سے کہا تھا
”تمہارا نام غازی کی بجائے مستان ہونا چاہئے“
”کیوں غازی اچھا نام نہیں ہے“ اس نے بچوں کی معصومیت لئے ہوئے انداز میں پوچھا
”اچھا نام ہے‘ مگر تمہاری حرکتیں ایسی ہیں کہ تمہیں غازی نہیں کہنا چاہئے۔ تم پر تو ہر وقت شیطان کی سی مستی چڑھی رہتی ہے۔ اسی لئے کہہ رہا تھا کہ تمہیں مستان یا پھر شیطان کہنا چاہئے“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دیا
”مجھے تو یہ دونوں نام پسند ہیں۔ مستان اور شیطان“ غازی چہکتے ہوئے بولا ”اگر میں شیطان کہلانے لگا تو بابا جی کا غصہ دیکھنے کے قابل ہو گا۔ ارے بھیا تم نے بابا جی کا جلال نہیں دیکھا۔ ایک بار بزرگ قسم کے عبادت گزار جن نے کسی لڑکی کو تنگ کیا تھا۔ بابا جی کو معلوم ہوا تو اس بیچارے کی کھال میں بھس بھر دی تھی باباجی نے۔ وہ تو پہلے ہی کہتے رہتے ہیں کہ غازی ہے تو مسلمان جنات کا بچہ مگر اس کے اندر شیطان کی روح ہے“
”غازی تمہارا یہ نام کس نے رکھا تھا“ میں نے دریافت کیا
”یہ بڑی دلچسپ بات ہے۔ میرا اصل نام تو عبداللہ ہے لیکن مجھے غازی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ہر شرارت کے بعد بھی محفوظ رہتا ہوں۔ میں انسانوں کی بستیوں میں جا کر شرارتیں کیا کرتا تھا کئی بار ایسا ہوا کہ کسی اللہ والے درویش سے بھی مڈبھیڑ ہو جاتی تھی۔ میری قسمت اچھی ہوتی اور میں بچ کر آ جاتا تھا۔ میرے دوست جنات یہ دیکھتے تو کہتے عبداللہ تم غازی ہو۔ تمہاری ہر شرارت کسی جنگ سے کم نہیں ہوتی۔ میرے زندہ سلامت بچ کر نکل آنے پر وہ مجھے غازی کہتے تھے۔“
”میں تمہاری بات سمجھا نہیں ۔ شرارت کاجنگ سے کیا تعلق؟“ میں نے پوچھا
”ہماری شرارتیں کسی جنگی محاذ سے کم نہیں ہوتیں“ غازی ہنستے ہوئے بولا ”اگر تم آج دس لٹر آئس کریم کھلاﺅ گے تو میں تمہیں اگلی بات بتاﺅں گا“
”دس لٹر“ میں نے حساب لگایا ”یار دس تو نہیں صرف ایک لٹر کے پیسے ہیں میرے پاس“
”ٹھیک ہے .... ایک لٹر ہی سہی۔ منہ کا ذائقہ تو بدلے گا“ غازی نے مجھ سے پیسے لئے اور بولا ”اصل میں ہمیں اپنی بستیوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہمیں بچپن سے ہی اصول جنات پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ انسانی بستیوں میں ظاہر نہیں ہونا‘ کسی کو تنگ نہیں کرنا‘ اگر کوئی انسان تنگ بھی کرے تو صبر کرنا ہے اور اپنے بزرگوں کو اس سے آگاہ کرنا ہے۔ کسی بزرگ کے مزار پر جا کر گندہ کام نہیں کرنا۔ کسی ولی اللہ اور عبادت گزار مسلمان کی عبادت میں خلل نہیں ڈالنا۔ عورتوں بچوں پر قابض نہیں ہونا۔ مسلمان جنات کو بچپن سے ہی یہ سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے مگر شرارتی جنات چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم وہ باز نہیں آتے۔ شرارتوں سے نہیں کتراتے۔ انسانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ پھر جب پکڑے جاتے ہیں تو اکثر اوقات مارے بھی جاتے ہیں۔ میں چونکہ آج تک نہیں پکڑا گیا اس لئے مجھے میرے دوست غازی کہتے ہیں“
اس روز میں غازی سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ میرے اندر کا صحافی ہزاروں سوال کرنے کے لئے مچل رہا تھا مگر باباجی سرکار کی آمد ہو گئی تھی اور انہوں نے آتے ہی باتونی غازی کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی گدی پر اس قدر زور سے تھپڑ مارا کہ بیچارے کی چیخ کوسوں دور تک سنی گئی ہو گی۔ اس کی چیخ سے کم از کم ہمارے دل تو پھٹ ہی گئے تھے۔ سارا کمرہ تھرا گیا تھا۔ زلیخا بے ہوش ہو گئی تھی اور میرا دوست ملک نصیر اس کی چیخ کی دہشت سے کافی دیر تک کانپتا رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ غازی اس کے بعد کبھی شرارت کی جرات نہیں کرے گا۔ باباجی سے ایک تھپڑ کھانے کے بعد وہ سسکیاں بھر بھر کے روتا رہا تھا۔ اس کے رونے سے میری حالت عجیب ہو گئی تھی۔
”حرام خور .... تجھے لاکھ بار کہا ہے اپنی زبان پر تالا لگا کر رکھا کرو اور پھر تم میرے آنے سے پہلے یہاں کیوں ظاہر ہو گئے تھے۔ شاہ صاحب آپ نے اسے یہاں کیوں آنے دیا“ بابا جی پیر صاحب پر ناراض ہونے لگے۔ ”اس کی دم میں نمدہ لگاتے اور اسے کہتے دفع ہو جاﺅ۔ یہ کسی دن ہم سب کو امتحان میں ڈال دے گا۔ میں آج اس کی جان نکال دوں گا۔“
”بابا جی سرکار“ میرے لبوں سے سسکی نکلی۔ ”میری خاطر ایک بار معاف کر دیجئے۔ دراصل میں نے خود اسے باتوں میں لگا لیا تھا“ میں نے جرات کرکے بابا جی کا غصہ ختم کرنے کی کوشش کی۔
”یہ بڑا کمینہ ہے۔ تمہیں ایک روز اس کی شرارتوں کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے“
بابا جی کہنے لگے ”اسے معلوم ہے کہ جنات کے حالات اور ان کی زندگی کے بارے میں راز کی باتیں بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ تم سے پیسے اینٹھنے کے چکر میں سچ جھوٹ بولتا رہتا ہے۔ اس کی باتوں پر اعتبار نہ کیا کرو۔ ابھی بچہ ہے اسے نہیں معلوم کہ یہ کیا کر رہا ہے“ باباجی گھمبیر لہجے میں بولے۔ ”تم انسانوں کی طرح جنات کو بھی اپنی نسل کے برباد ہونے کا دکھ ہے۔ ہماری نسل بھی بدتمیز اور گمراہ ہو رہی ہے۔ انہیں علم سیکھنے کی بجائے آوارگی کا شوق رہتا ہے۔ یہ مچلتے رہتے ہیں اور مواقع تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ کب یہ انسانی بستیوں میں جائیں اور انسانوں کی غذاﺅں سے اپنا پیٹ بھریں۔ شاہد بیٹے .... تمہیں نہیں معلوم کہ ہمارے ان بچوں کی وجہ سے ہمارے مسلمان جنات کو کس قسم کے نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ جزا و سزا کے تو ہم بھی مستحق ہیں اس لئے ہم اپنے گمراہ بچوں کو سمجھاتے رہتے ہیں۔ انہیں روک ٹوک کرتے رہتے ہیں مبادا کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔ تمہیں اس نے بہت سی باتیں بتائی ہیں۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ جب کوئی مسلمان جن کسی اللہ والے باعلم انسان کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے اور اس کے سامنے گناہوں سے تائب نہیں ہوتا اور مرنا قبول کر لیتا ہے تو اس کی موت کے بعد ہم پر کیا گزرتی ہے۔ کئی نسلوں تک اس کی موت کا چرچا رہتا ہے۔ جنات انتقام پر مچلتے رہتے ہیں مگر قانون قدرت کے سامنے سر جھکانے والے اپنے اپنے پردہ کائنات میں رہنے والے جنات یہ جرات نہیں کرتے، ہاں جب وہ بے انصافی کا شکار ہو جائیں اور انسانوں کی طرف سے انہیں مسلسل ایذا پہنچیں تو وہ بالاخر انسانی بستیوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ لیکن ایک بات تمہیں بتا دوں شاہد بیٹے .... جنات منتقم مزاج ہیں۔ ان کی جبلت میں غضب کی زیادتی ہے۔ ان کی عقل پر جلال طاری رہتا ہے۔ مگر مسلمان جنات میں صبر بردباری اور ٹھہراﺅ آ جاتا ہے وہ بھی اس لئے کہ وہ اگر غضب کا شکار ہو جائیں گے تو ان کا ایمان خراب ہو جائے گا لہٰذا ہم جنات کو چاہئے کہ وہ انسانوں کے ساتھ گھلنے ملنے کی کوشش نہ کریں۔ البتہ جہاں ان کی قربت اور عزت ہو تو وہ وہاں اپنے عامل کی مدد سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس دوران اگر کوئی جن کوئی غلط حرکت کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار عامل ہوتا ہے نہ کہ وہ جن .... اسی لئے میں شاہ صاحب سے کہہ رہا ہوں ابھی یہ بھی بچے ہیں اور ہماری دنیا کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے۔ انہوں نے ہماری محبت اور عقیدت میں اس حرام خور غازی کو چھوٹ دے رکھی ہے“ بابا جی کی ۔ مدبرانہ ہزاروں راز لئے ہوئے یہ باتیں میرے ذہن پر نقش ہو گئیں۔ غازی نے تھوڑی دیر بعد بابا جی سے معافی مانگ کر انہیں راضی کر لیا تھا مگر وہ غازی ہی کیا جو دوبارہ شرارتوں کا محاذ گرم نہ کرتا۔ ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ سب کچھ بھول گیا اور دوبارہ شرارتوں میں مگن ہو گیا تھا۔
غازی اپنی شرارتوں کی وجہ سے تیلے شاہ کے ہاتھ چڑھ گیا تھا اور مجھے یقین ہو گیا تھا کہ آج ہمارا غازی شہید ہو کر رہے گا۔ میں پریشان تھا کہ اسے کیسے بچاﺅں۔ میں تیلے شاہ کے پاس کیسے جا سکتا تھا۔ اگر چلا بھی جاتا تو اسے کیا کہتا۔ مگر میری جذباتی کیفیت نے میری عقل کو ماﺅف کر دیا تھا یا مجھے یہ خوف لاحق ہو گیا تھا کہ اگر بابا جی سرکار کو غازی کی شرارتوں اور بابا تیلے شاہ کی قید کی خبر ہو گئی تو تب بھی غازی نہ بچ سکتا تھا۔ بابا تیلے شاہ سے نجات کے بعد بابا جی سرکار خود اپنے ہاتھوں سے غازی کو شہید کر دیتے۔
میں کافی دیر تک منڈی میں ٹہلتا رہا اور پھر جرات کرکے بابا تیلے شاہ کی کٹیا کی طرف چل دیا۔ بہت سارے لوگ وہاں جمع تھے کچھ ایسا سماں وہاں بندھا ہوا تھا جیسے کوئی مداری تماشا دکھا رہا ہو۔ میں لوگوں کی بھیڑ میں سے گزرتا ہوا آگے پہنچا تو ایک عجیب منظر دیکھا۔ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ نما شخص جس کے بال لمبی لمبی اور گندی لٹوں کی صورت میں اس کے چہرے اور شانوں پر لہرا رہے تھے محض ایک میلی کچیلی سی دھوتی باندھے ہاتھ میں پتلی سی شیشم کی شاخ لئے بیٹھا تھا اس کے سامنے نور بخش آڑھتی بے ہوش پڑا تھا۔ بابا تیلے شاہ شاخ اس کے سینے پر رکھتا‘ پھر پھونک مارتا تو نور بخش کا پورا بدن تشنج کا شکار ہو جاتا اور اس کے اندر سے کسی بچے کی چیخ سنائی دیتی۔ میرے لئے یہ چیخ اجنبی نہیں تھی۔ یہ غازی کی چیخ تھی۔ درد و اذیت میں مبتلا چیخ۔ میرے پورے بدن میں سنسناہٹ محسوس ہونے لگی۔ بابا تیلے شاہ خاصے جوشیلے موڈ میں تھا۔ وہ بے ہوش نور بخش کو بظاہر شاخ سے گدگدی کر رہا تھا مگر ردعمل میں غازی کی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔
”کون ہے تو بتاتا کیوں نہیں ہے“ بابا تیلے شاہ نے چیختے چلاتے غازی کو مخاطب کیا۔
”میں نے بتایا نہ سرکار میرا نام سورن سنگھ ہے“ غازی کی سسکیوں بھری آواز سنائی دی۔ میں حیران ہوا کہ وہ جھوٹ کیوں بول رہا ہے۔
”کہاں کا رہنے والا ہے“ بابا تیلے شاہ نے دریافت کیا
”ادھر پورن بھگت کے کنوئیں کے پاس ہماری پکھی ہے“ غازی بولا
”کب سے وہاں رہ رہے ہو“ بابا تیلے شاہ ذرا اونچی آواز میں بولا ”اور ادھر کیوں آیا تھا“
”میں بھوکا تھا سرکار .... آڑھتی نے مجھے مارا بھی تھا اگر کیلے نہ کھاتا تو بھوک سے مر جاتا“ غازی جھوٹ پر جھوٹ بول رہا تھا۔ ”ہم پرکھوں سے اس کنوئیں پر رہ رہے ہیں۔ ہمارا پورا قبیلہ یہاں آباد ہے“
”کیلے تمہاری غذا نہیں ہےں حرام خور“ بابا تیلے شاہ یکدم جوش کے عالم میں بولا اور زور سے شاخ نور بخش کے سینے پر ماری۔ غازی بلبلا اٹھا۔ ”اوپر سے جھوٹ بول رہا ہے .... ہونہہ ٹھہر جا میں تیرا پتہ لگاتا ہوں کہ تو کون ہے۔ پورن بھگت کے کنوئیں پر تمہاری پکھی نہیں ہو سکتی۔ میں نے وہاں چلہ کاٹا ہوا ہے۔ اگر تمہاری پکھی وہاں ہوتی تو میں جان لیتا“ یہ کہہ کر بابا تیلے شاہ نے آنکھیں بند کر لیں اور شاخ کی نوک نور بخش کے دل کے مقام پر ٹھہرا کر زیر لب پڑھنے لگا ”تیرا جھوٹ پکڑا گیا سورن سنگھ .... پورن بھگت کے کنوئیں پر جنات کی بستی آباد نہیں ہے“ بابا تیلے شاہ نور بخش کو شاخ سے پیٹنے لگا تو اس کے جواب میں غازی کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ مجھے ہول آنے لگے اور میرا دل چاہا کہ بابا تیلے شاہ کے ہاتھوں سے شاخ چھین لوں اور بے ہوش نور بخش کو اٹھا کر بھاگ اٹھوں۔ غازی اس میں سرایت کیا ہوا تھا۔ مجھے کوئی تدبیر نظر نہیں آ رہی تھی کہ اسے کیسے بچاﺅں۔ اپنی شرارتوں سے عاجز آیا ہوا غازی آج موت کے منہ میں کھڑا تھا اور پھر بابا تیلے شاہ کے سامنے جھوٹ بول رہا تھا۔ میں لاچارگی سے یہ تماشا دیکھنے پر مجبور تھا۔
”اگر سچ سچ بتا دے گا تو میں تجھے بخش دوں گا۔ ورنہ مار کر تیری راکھ کا سرمہ بنا کر اپنی آنکھوں میں لگا لوں گا۔ میں بھی تو دیکھوں ایک سکھ جن کی راکھ کا سرمہ کیسا ہوتا ہے۔“ بابا تیلے شاہ اشتعال انگیز اور استہزائیہ لہجے میں بات کرتے کہہ رہا تھا ”تم جیسے جناتوں کو مار دینا کار ثواب ہے سورن سنگھ .... جلدی سے بتا یہ لوگ تمہارا تماشہ دیکھ رہے ہیں“
غازی ہچکیاں بھرتا ہوا التجا کرنے لگا ”سرکار .... مجھے معاف کر دیں میں پردیسی ہوں اب دوبارہ ادھر نہیں آﺅں گا۔“
”تو آخر بتاتا کیوں نہیں کہ کون ہے“ بابا تیلے شاہ دھاڑا
”سرکار بتاتا ہوں میرا نام سورن سنگھ ہے اور میں پورن بھگت ....“ غازی کی بات منہ میں رہ گئی۔ بابا تیلے شاہ نے غضبناک انداز میں نور بخش کے سر پر شاخ ماری تو غازی کسی زخمی بھینسے کی طرح ڈکرانے لگا۔
”جھوٹ بولتا ہے .... جھوٹ بولتا ہے .... بابا تیلے شاہ سے جھوٹ بولتا ہے۔ اوئے حرام خور۔ ہم نے اپنا سارا ماس ریاضتوں میں جلا دیا۔ تیرے جیسے خبیثوں کے ساتھ کھیل کھیلنا میرا شغل ہے۔ ساری عمر اور جوانی اسی شغل میں گزار دی ہے ہم نے سورن سنگھ۔ اگر تجھ سے آج سارے سوالوں کے جواب کھرے کھرے وصول نہ کئے تو لعنت ہے میری ریاضتوں پر۔ تھو ہے اس بدن پر جس کی ہڈیوں پر گوشت نہیں چڑھتا“ بابا تیلے شاہ غضبناک انداز میں چیخنے لگا تھا۔ مجھے اب غازی کی موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ میں نے سوچا اگر بابا تیلے شاہ کے جلال کو روکا نہ گیا تو وہ طیش میں آ کر اپنے علم کی طاقت سے غازی کو جلا کر راکھ کر دیتا۔ بابا تیلے شاہ کا یہ روپ دیکھ کر مجھے جرات بھی نہیں ہو رہی کہ میں اسے کچھ کہوں۔ مگر میری خامشی اورلاچارگی غازی کی موت کا منظر دیکھنے کی روادار بھی نہیں تھی۔ مجھ میں اتنی سکت کہاں تھی کہ میں اپنے غازی کو بے موت مرتا دیکھتا۔ میں دل ہی دل میں درود شریف پڑھنے اور اللہ سے دعا کرنے لگا کہ یا الہٰی نادان غازی کو بچا لے۔ مجھ پر اس کا قرض بھی تھا۔ اس نے آج مجھے ریل گاڑی کے نیچے آنے سے بچایا تھا اور اب مجھ پر واجب تھا کہ میں اس کی مدد کرتا۔ مگر وہاں کا ماحول اور منظر ایسا نہیں تھا۔ مجھے یہ فکر بھی تھی کہ یہ لوگ جو بابا تیلے شاہ کی روحانی قوتوں کے اسیر اور عقیدت مند تھے میری کسی حرکت کے جواب میں مجھے مارنا شروع کر دیتے۔ آخر میں کیا کرتا۔ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کوئی امید بر نہیں آئی۔ میرے سامنے غازی پٹتا رہا‘ چلاتا رہا‘ معافیاں مانگتا رہا مگر بابا تیلے شاہ کو اس پر رحم نہ آیا اور بالاخر اس نے اعلان کیا۔
”تو بڑا ڈھیٹ نکلا۔ لو اب مرنے کے لئے تیار ہو جاﺅ“ بابا تیلے شاہ نے کہا ”ایک مسلمان انسان کے دل پر قبضہ جما کر بیٹھنے والے کافر جن۔ تجھے مار دینا اب مجھ پر واجب ہے۔“ بابا تیلے شاہ نے شاخ نور بخش کے سینے پر رکھ دی اور نظریں اٹھا کر ہجوم کی طرف دیکھنے لگا۔ سب لوگ بے خوفی سے مگر اشتیاق بھری نظروں سے یہ تاریخ ساز منظر دیکھنے کے متمنی تھے۔ وہ سب متجسس تھے کہ دیکھیں ایک جن کو کیسے ہلاک کیا جاتا ہے۔
”کوئی اندر جائے اور میرے پیالے میںرکھا پانی لے آئے“ بابا تیلے شاہ نے بلند آواز میں کہا۔
میرے ذہن میں برق سی کوندی اور فوراً خیال آیا۔ بابا تیلے شاہ پانی میں دم کرکے نور بخش کے اندر چھپے ہوئے غازی پر چھڑکاﺅ کرنا چاہتا ہے۔ دم شدہ پانی کی برکت سے انسانی بدن میں چھپا ہوا جن کسی ناسور کی طرح جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ میں نے یہ بات کسی ناول میں پڑھی تھی اور آج میرے ذہن میں تازہ ہو گئی تھی لہٰذا میں جھٹ سے آگے بڑھا۔ اسی دوران دو تین اور لوگ بھی کٹیا کی طرف بڑھے مگر میں انہیں دھکا دیتے ہوئے اندر گیا اور پیالے میں پانی ڈال کر باہر لے آیا۔ میں نے اپنا ذہن ہر طرح کی مصیبت جھیلنے کے لئے تیار کر لیا تھا۔ میں نے عہد کر لیا تھا کہ اگر میرا غازی مارا گیا تو میں زندگی داﺅ پر لگا کر اسے بچاﺅں گا۔ نہ جانے یہ سوچ اور وارفتگی کیسے میرے اندر پیدا ہو گئی۔
میں نے پیالا بابا تیلے شاہ کو تھمانا چاہا تو اس نے غضبناک جلالی اور قہر میں غرق آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ مجھے یوں لگا جیسے اس کی آنکھیں میرے اندر اتر گئی ہیں اور میرے خیالات کو پڑھنے لگی ہیں۔ میرا یہ شبہ غلط نہیں ہوا۔ بابا تیلے شاہ کی آنکھوں میں سفاکی عود آئی مگر لبوں پر عجیب سی مسکراہٹ تیرنے لگی۔ مگر وہ لبوں سے کچھ نہیں بولا۔ صرف کہا تو یہ ”ہونہہ“ اور پھر طائرانہ نظروں سے لوگوں کی طرف دیکھنے لگا اس کے دل میں کیا خیال آ رہے تھے میں نہیں جان سکا البتہ مجھے اس بات پر پورا یقین ہو گیا کہ بابا تیلے شاہ جلالی حالت میں اب کچھ بھی کر گزرے گا۔ لہٰذا میں نے اس سے پہلے ہی حرکت کر دی اور پانی سے بھرا پیالہ بابا تیلے شاہ کے سر پر اس انداز میں الٹا دیا کہ یوں لگے جیسے خوف کی وجہ سے پیالا چھوٹ گیا ہے۔
میری یہ حرکت دیکھ کر لوگ چلا اٹھے ”اوئے بدبخت گستاخی کرتا ہے“ اسی دوران بہت کچھ ہو گیا۔ بابا تیلے شاہ غضبناک ہو کر اٹھا تو اس کی شاخ نور بخش کے سینے سے ہٹ گئی۔ بے ہوش نور بخش نے ایک جھرجھری لی اور مجھے یہ محسوس ہوا جیسے غازی نے فوراً اس کے بدن کو چھوڑ دیا ہے اور نکل کر بھاگ گیا ہے۔ بابا تیلے شاہ کی روحانی قوتوں کی توجہ ہٹانے کا یہی تو فائدہ تھا اور میں اس میں کامیاب ہو گیا تھا۔
”غلطی ہو گئی جناب ، میں اور پانی لے آتا ہوں“ میں پلٹنے لگا تو بابا تیلے شاہ کا استخوانی ہاتھ میری کلائی پر جم گیا
”ٹھہرو“
میں اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ گوشت اس کے چہرے پر برائے نام ہی تھا۔ ہڈیاں بھی سوکھی ہوئی تھیں۔ ایسے لوگوں میں جان ہی کہاں ہوتی ہے مگر بابا تیلے شاہ کی میری کلائی پر گرفت سے محسوس ہو رہا تھا جیسے میری کلائی آہنی شکنجے میں جکڑی گئی ہے۔
”سرکار“ میرے لبوں سے نکلا
”بول کیا چاہتا ہے“ بابا تیلے شاہ کی عقابی نظریں میرے چہرے پر مرکوز تھیں ”تیرے دل میں کیا ہے۔ میں پڑھ سکتا ہوں۔ تمہاری اس جرات پر تمہیں بڑی سخت سزا مل سکتی ہے۔ تو نے اس کو بھگا دیا ہے لیکن میں تجھے نہیں بھاگنے دوں گا“ یہ کہہ کر بابا تیلے شاہ نے ہجوم کی طرف رخ کیا۔ ”تم لوگ جاﺅ کھیل ختم ہوا۔ اس کو بھی لے جاﺅ۔“ اس نے نور بخش کی طرف اشارہ کیا۔ یہ اب ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آ جائے گا تو گرم دودھ جلیبی کھلا دینا اور اسے کہنا اگلی جمعرات کو امام صاحب جا کر گھی کا چراغ جلا دے۔“
بابا تیلے شاہ کی آواز سنتے ہی لوگ تتر بتر ہو گئے۔ نور بخش آڑھتی کے ساتھی اسے اٹھا کر لے گئے۔ بابا تیلے شاہ نے میری کلائی نہ پکڑی ہوتی تو میں بھی فرار ہو جاتا۔ مگر مجھے اس کا موقع ہی نہیں ملا۔
”چل اندر چل“ بابا تیلے شاہ مجھے کٹیا کے اندر لے گیا اور میری کلائی چھوڑ کر مجھے بوسیدہ سی چٹائی پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ اندر آتے ہی بابا تیلے شاہ کا روپ بدل گیا تھا۔ اس کا جلالی انداز جمالی ہو گیا تھا۔
”مجھے تیرا ہی انتظار تھا۔ تجھے یہاں بلانے کے لئے میں نے یہ کھیل کھیلا ہے “ یہ کہہ کر بابا تیلے شاہ قہقہے لگانے لگا اور میں سن سا ہو کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟
بابا تیلے شاہ میرے لئے ایک معمہ ثابت ہوا۔ میں کوئی مشہور شخص تو تھا نہیں کہ لوگ مجھے ملنے کے مشتاق ہوتے یا میرا کوئی خاص حوالہ ملاقات پر مجبور کر دیتا۔ بابا تیلے شاہ کا یہ کہنا کہ اسے میرا ہی انتظار تھا اور اس نے صرف مجھے اپنے پاس بلانے کے لئے ڈرامہ کیا تھا۔میرے لئے حیرانی کا باعث تھا ، میں سوچنے لگا کہ کون سا ڈرامہ؟ کیا غازی کا منڈی میں آ کر کیلے کھانا ایک ڈرامہ تھا یا بابا تیلے شاہ کا اس کو نور بخش کے بدن میں قید کرکے مارنا ڈرامہ تھا۔ بالفرض یہ ڈرامہ ہی تھا تو غاری اس کا کردار کیسے بن گیا۔ میں اپنے سوالوں کا جواب دریافت نہ کر سکا تو بابا تیلے شاہ تبسم ریز انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ”پڑ گئے ناں سوچوں میں بھول بھلیوں میں کھو گئے ہو کیا۔“
”ہاں سرکار .... میں سوچ رہا ہوں آپ کس قسم کے ڈرامے کی بات کر رہے ہیں۔ میں کچھ سمجھا نہیں ہوں۔“ میں نے اپنی الجھن بیان کی۔
”ہم ڈھونگی ہمارا روپ ڈھونگ .... آہا“ بابا تیلے شاہ کے لبوں سے مسکان غائب ہو گئی اور ایک تلخی کی لہر اس کے چہرے پر نمودار ہوئی” ہم لوگ بڑے ہی کمینے ہیں میاں۔ ڈھونگ رچا کر اپنا من مارتے پھرتے ہیں۔ میں بھی اک ڈھونگ ہوں۔ ایک بے وقعت‘ حقیر انسان جو دنیا میں خود کو طاقتور اور اہم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ڈھونگی ہی کہلاتا ہے بچے۔ لوگ سمجھتے ہیں بابا تیلے شاہ بڑی طاقتور شے ہے۔ توپ ہے توپ بابا تیلے شاہ۔ مگر سچ یہ ہے میاں بابا تیلے شاہ تو ایک (تنکا) تیلا ہے تیلا۔ ذرا ہوا چلی تو اڑ گیا ،کبھی یہاں کبھی وہاں۔ تو ہی بتا کہ ایک تیلے کی کیا حیثیت ہے۔“
”بابا جب یہ تیلا آنکھ میں پڑ جائے تو پھر پتہ چلتا ہے تیلے کی وقعت کا ہے“ میں نے ذرا شگفتگی سے جواب دیا۔
”اوئے تم سب تیلے ہو۔ ایک دوسرے کی آنکھ میں خواہ مخواہ جا گرتے ہو۔ تم لوگوں کو ذرا ایک دوسرے کا خیال نہیں ہے۔ آہ مگر تم لوگوں کو پتہ نہیں کہ تمہاری وقعت کیا ہے۔ میرے سوہنے رب نے تمہیں کیا بنا کر دنیا میں بھیجا تھا اور تم لوگ کیا بن بیٹھے ہو“ وہ تاسف بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا بابا تیلے شاہ کا فلسفہ کچھ کچھ میری سمجھ میں آ رہا تھا۔ لیکن میں کبھی بھی فلسفہ سننے کے موڈ میں نہیں ہوتا۔ میں تو سیدھی اور حقیقی بات سمجھنے والا ایک نوجوان تھا لہٰذا میں نے اپنا سوال دہرایا۔
”بابا آپ کس ڈرامے یا ڈھونگ کا ذکر کر رہے تھے اور آپ کو میرا انتظار کیوں تھا؟“
”بڑا بے صبرا ہے تو۔ تجھے جلدی ہے جانے کی۔ میں سمجھ سکتا ہوں تو کہاں جانے کے لئے مچل رہا ہے۔ کچھ دیر اس تیلے کے پاس بیٹھا رہ جائے گا تو تجھے کیا فرق پڑے گا“ اس بار اس کے چہرے پر افسردہ سی خوشی کا تاثر پیدا ہوا تھا۔
”جی بابا میں بیٹھا ہوں آپ فرمائیں“ میں نے محسوس کیا کہ بابا اشاروں کنایوں میں کچھ کہنا چاہتا ہے مگر جب تک میں اس کے پاس آرام سے نہیں بیٹھوں گا وہ کھل کر بات نہیں کرے گا۔
”ترے پاس پیسے بہت ہیں کیا؟“ بابا نے سوال کیا۔ ”لا کتنے ہیں“ اس نے ہتھیلی پھیلا دی ”میں بھی آئس کریم کھانا چاہتا ہوں“
”میں نے کچھ کہے بنا جیب سے آخری پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور بابا کی سوکھی مریل سی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ بابا کچھ لمحوں تک پچاس کے نوٹ کو گھورتا رہا۔ پھر یکدم مسکرا دیا۔
”لے اسے جیب میں رکھ لے۔ اللہ تجھے بہت دے گا۔ تیرا من سکھی کر دے گا“بابا بولا ”میں تو تیرا تردد دیکھ رہا تھا کہ تو دیکھنے میں کتنا روکھا ہے ، پر تیرا من تو صاف نکلا“
”میں لا دوں آئس کریم“ میں نے کہا
”نہ بچے .... تیرا یہ بابا آئس کریم نہیں کھاتا۔ میرا من تو پہلے ہی بہت ٹھنڈا ٹھار ہے۔ آئس کریم تو اسے کھلاﺅ جو آگ میں جلتا ہے اور جس کا سارا اندر آگ ہے۔“
”جی بابا .... میں سمجھا نہیں“
”غازی .... ارے تیرا غازی یار۔ بڑا ندیدہ اور آتشی ہے۔ میں اسی کا کہہ رہا تھا“ بابا ہنسا ”تیرا یہ یار کہتا ہے کہ وہ شرارتیں کرتا ہے لیکن وہ چوریاں کرتا ہے چوریاں۔ تیرے بابا جی تمہیں سمجھاتے ہیں کہ غازی کو پیسے نہ دیا کرو۔ مگر پیسے نہ بھی ہوں تو ندیدہ ادھر آ جاتا ہے اور چوری چوری پھل کھاتا رہتا ہے۔ گلا سڑا نہیں کھاتا تازہ پھل کھا جاتا ہے۔ آڑھتی مجھ سے آ کر کہتے تھے کہ ان کے پھل نہ جانے کیسے غائب ہو جاتے ہیں۔ گوداموں کو باہر سے تالا لگا ہوتا ہے مگر اندر سے مال کا غائب ہو جانا انہیں تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں حقیقت جان گیا۔ آج جب وہ تیرے ساتھ منڈی میں آیا اور اپنی کارروائی ڈال رہا تھا میں نے اس پر اپنا جال پھینک دیا اور اس کی نگرانی کرنے لگا۔ جب تم اس کے کان میں اس کو سرزنش کر رہے تھے تو میں سن رہا تھا۔ مجھے تمہارے اور اس کے تعلقات کا علم ہو گیا اور میں نے خواہش کی کہ تم اس بابے کی کٹیا میں آﺅ اور بتاﺅ کہ غازی اور اس کے والی وارثوں کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے۔ میرے سوہنے اللہ نے میری لاج رکھ لی اور تم اس بابے کے پاس آ گئے۔“
بابا تیلے شاہ ایک مجذوب دکھائی دیتا تھا لیکن اس کا فلسفہ اور باتیں سن کر لگتا تھا کہ وہ صرف مجذوبانہ انداز ہی اختیار کئے ہوئے تھا درحقیقت ایک نظربیں انسان تھا۔ اردگرد کی دنیا پر گہری نظریں رکھتا تھا ۔۔۔لیکن تھا وہ اللہ والا۔۔۔۔ یہ اللہ والے بھی بڑے پراسرار انسان ہوتے ہیں۔ باہر سے روکھے سوکھے اندر سے ہرے بھرے۔ چہروں پر عجیب سی بے زاری دلوں میں طمانیت کا نور.... ان کے اندر ایک جہاں آباد ہوتا ہے اور وہ اس جہان کی گہما گہمی میں مصروف رہتے ہیں۔ بابا تیلے شاہ کے اندر بھی روحانیت کا ایک جہاں آباد تھا۔ اسی لئے تو وہ مجھ سے ایسی معرفت کی باتیں کہہ گیا تھا جو ایک عام انسان کے بس میں نہیں ہوتیں۔
ہم لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں پڑھے‘ لکھے‘ دنیاوی تعلیم کی وجہ سے دانشور‘ فلاسفر اور نہ جانے کیا کیا القابات خطابات حاصل کرنے کے لئے سرگرداں ہوتے ہیں۔ ہماری نظروں میں یہ مجذوب لوگ خالی الذہن ہوتے ہیں۔ ان کا لباس وضع قطع دیکھ کر ان سے کراہت اور دوری اختیار کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہم ان کے اور اپنے بیچ تفاوت کا جو بیج بوتے ہیں درحقیقت وہی تفاوت اور خلیج دو دنیاﺅں کی حقیقتوں کو آشکار کرتی ہے۔ یہ بابے اور مجذوب ابدی دنیا کے باشندے ہوتے ہیں ان پر ہماری دنیا کی حقیقت بے نقاب ہوتی ہے وہ روح سے کلام کرنا جانتے اور انسان کے بطور اشرف المخلوقات کہلوانے کی وجوہات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ہم دنیاوی لوگوں کی اور ان بابوں کی ”پہچان“ میں بہت فرق ہے۔ ہماری دنیاﺅں اور انسان کی روحانی قوتوں کی حقیقت کی ”پہچان“ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ بابے فطرت اور حقائق کی پہچان سے آگاہ ہوتے ہیں‘ انہیں انسان کے زمین پر آنے کے مقاصد معلوم ہوتے ہیں اللہ وحدہ لا شریک سے ان کا عشق اسی آگہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر ہم انسانوں کو فطرت کی پردہ پوشیوں اور اس میں پنہاں قوتوں کا اس قدر ادراک نہیں ہوتا۔ ہماری ”پہچان“ خالص نہیں ہے۔ بابا تیلے شاہ جیسے ملنگ‘ مجذوب‘ اللہ والے کے پاس بھی ایک خالص قوت تھی۔ وہ قوت جو انسان کے بدن میں چھپی روح کا خاصا ہوتی ہے۔ مجھے بابا تیلے شاہ کی ذات میں دلچسپی پیدا ہونے لگی اور ایک صحافی کی حیثیت میں میرے اندر بہت سے سوالات جنم لینے لگے۔ میرا دل مچلنے لگا کہ بابا تیلے شاہ سے دریافت کروں کہ اس نے یہ آگہی کیسے حاصل کی۔ کیا اس نے کچھ علوم سیکھے تھے یا اس میں پیدائشی طور پر یہ قوتیں پنہاں تھیں۔ میں بابا تیلے شاہ کی کٹیا کا جائزہ لے چکا تھا اور مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ نماز کا اہتمام کرتا ہو گا۔ نہ مصلیٰ‘ نہ لوٹا نہ تسبیح‘ نہ متبادل اور پاکیزہ لباس۔ میلی کچیلی دھوتی .... میرے دل میں آیا کہ یہ بندہ صاحب ایمان کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کی درویشانہ اور فلسفیانہ باتیں سن کر میں اسے ایک شرعی بندہ کیسے تسلم کر لوں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اگر بابا تیلے شاہ ایمان والا ہے تو اس کی کٹیا میں صفائی کیوں نہیں۔ اگر یہ پہنچا ہوا بزرگ ہے تو یہ نماز کہاں اور کیسے پڑھتا ہو گا۔ میرے جیسے بندے تو نماز کے بغیر کسی کے ولایت زدہ اور روحانی بزرگ ہونے کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ لہٰذا بابا تیلے شاہ کے پاس روحانی قوتوں کی موجودگی سے میرے اندر سوالات اور تجسس بیدار ہونا ایک فطری بات تھی۔ میں جب خاصی دیر تک بابا تیلے شاہ کی ذات میں کھویا رہا تو بابا تیلے شاہ نے اچانک سوال کر دیا۔
”کس نتیجہ پر پہنچے ہو میاں .... اس گتھی کا کوئی سرا ملا کیا؟“
”کک .... کس گتھی کا سرا!“ میں نے ہڑبڑا کر پوچھا۔
”کہ یہ بابا کون ہے۔ نماز پڑھتا ہے کہ نہیں“ بابا تیلے شاہ کے سوکھے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی ”تم جاننا چاہتے ہو کیا“ بابا تیلے شاہ نے استفسار کیا۔
”ہاں بابا جانتا چاہتا ہوں۔ یہ بھید کیا ہیں؟“ میں نے الجھے ہوئے انداز میں سوال کیا ”کہیں ایسا نہ ہو میرا ایمان تباہ ہو جائے۔ میں جب آپ جیسے لوگوں کے پاس آتا ہوں تو میری کیفیات بدل جاتی ہیں“
”دھیرے دھیرے سے سمجھ جاﺅ گے۔ لیکن پہلے مجھے اپنے غازی اور اس کے پرکھوں کے بارے میں کچھ بتاﺅ۔ پچھلے چند دنوں سے یہاں خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ جنات کی پکھیاں رات بھر سفر کرتی رہتی ہیں۔ پہلے تو ایسی گہما گہمی نہیں تھی لیکن جب سے یہ غازی زمین پر اترا ہے اس کے بعد اس پورے علاقے کے جنات نے ایک جشن کا سا سماں باندھ رکھا ہے“
”مجھے کیا معلوم سرکار“ میں نے حیران ہو کر کہا ”میں کیا جانوں“
”تو جانتا ہے۔ سب جانتا ہے کہ یہ غازی کون ہے“ بابا تیلے شاہ نے ابرو تان کر کہا۔
”ہاں .... یہ تو جانتا ہوں“ میں نے ساری تفصیل بیان کر دی اور غازی کے علاوہ بابا جی سرکار ان کے مرشد حاجی صاحب سرکار اور پیر ریاض شاہ کے بارے جو کچھ معلوم تھا بتا دیا کہ ان سے میری ملاقات کب ہوئی۔
”صرف چار دنوں کے تعارف میں اتنے فاصلے طے کر لئے ہیں تو نے شاہد میاں“ بابا تیلے شاہ گھمبیر لہجے میں بولا ”مگر تو ابھی حقائق سے دور ہے۔ تجھے شوق ہے ان دنیاﺅں کو کھوجنے کا۔ مگر اتنا زیادہ نہ کھوج .... ورنہ بھٹک جائے گا۔ دنیا سے کٹ جائے گا۔ کسی کام کا نہ رہے گا۔ جنات سراپا آتش ہیں۔ ان سے دوستی سے باز رہ۔ ایک عام انسان کسی جن کی دوستی برداشت نہیں کر سکتا وہ اس کا غلام بن جاتا ہے۔ ہاں اگر تیرے پاس علم کی طاقت ہو تو تب انہیں برداشت کر سکتا ہے۔ دیکھ ادھر .... میری کٹیا سے باہر جنات سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں میں ان سے اپنے لئے خدمت لوں لیکن میں انہیں دھتکار دیتا ہوں۔ یہ وہی جنات ہیں جو بہت سی درگاہوں پر جھاڑو لگاتے ہیں۔ یہ بزرگوں سے روحانی فیض حاصل کرنے آتے ہیں۔ جنات علم سیکھنے کے بہت زیادہ مشتاق ہوتے ہیں۔ مگر میں ان سے باز ہی رہتا ہوں۔ مجھے میرے مرشد نے سمجھا دیا تھا کہ جنات کو ایک فاصلے پر ہی رکھنا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے مرشد نے جنات کو تعلیم دینا شروع کی تھی جنات نے ان سے کچھ ایسے علوم بھی سیکھ لئے جن کا وہ غلط استعمال کرنے لگے تھے اور اپنے علم کے تکبر میں مبتلا ہو کر انہوں نے انسانوں کو خراب کرنا شروع کر دیا۔ پس میں اس آگ میں کودنے سے باز ہی آیا۔ اس لئے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ غازی کو اتنا منہ نہ لگایا کر۔ میں تیری اصلاح کرنا چاہتا تھا۔ اسی لئے تجھے تکلیف دی۔“
یہ کہہ کر بابا تیلے شاہ خاموش ہو گیا اور میں سوچنے لگا کہ صرف پچھلے چار دنوں میں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا تھا۔ بابا جی سرکار اور غازی کے معاملے میں کس قدر جذباتی ہو گیا تھا۔ اگرچہ ان سے ملاقات ایک اتفاق ہی تھا مگر یہ اتفاق تو میرے جیون کا سب سے قیمتی حصہ بنتا جا رہا تھا۔ بابا جی سرکار سے میری ملاقات چار دن پہلے ہوئی تھی۔ پہلے بھی میں بیان کر چکا ہوں کہ ان دنوں میں بی اے کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ اپنے گھر میں رہ کر میرے لئے پڑھنا دوبھر ہو رہا تھا۔ دوست احباب کسی نہ کسی بہانے سے ملاقات کرنے آ جاتے تھے جس سے میری توجہ پڑھائی سے ہٹ جاتی تھی۔ گھر والوں کو یہی خدشہ تھا کہ یہی حال رہا تو بی اے میں بری طرح فیل ہو جاﺅں گا لہٰذا اس کا یہی حل سامنے آیا کہ میں ملکوال چلا جاﺅں۔ نہر کے کنارے بیلے کے اس پار یہ علاقہ دھان کی بھرپور فصلوں کے حوالے سے بھی معروف تھا کھلی فضائیں اور نہر سے آنے والی ٹھنڈی ہواﺅں سے اس گاﺅں کی فضا بہت ہی صحت افزا تھی۔ میرے لئے یہ گاﺅں کسی آئیڈیل مقام سے کم نہیں تھا۔ اس پر یہ کہ میرے دوست کی پرانی حویلی۔ اونچے اونچے کمرے ، ہوادان‘ بالکونیاں‘ کھلا باغیچہ‘ بڑا پرسکون اور اساطیری ماحول تھا اس حویلی کا۔ پھر اس حویلی کے مکیں .... ملک نصیر کی والدہ اور والد پرانے زمانے کی اقدار کا پیکر عظیم تھے۔ وہ علاقے کے بڑے زمیندار تھے مگر ان میں زمینداروں جیسی خو بو نہ تھی، نہایت خلیق ملنسار‘ مخلص اور انسانی اقدار کو سمجھنے والے .... ایک اور ہستی بھی اس حویلی میں رہتی تھی جس کی خاموش اور اداس سیاہ آنکھوں میں اس وقت زندگی روشن ہوتی تھی جب کبھی میں اس حویلی میں جاتا تھا۔ زلیخا .... کومل سی لڑکی۔ ملک نصیر کی بہن تھی۔ میرے اور اس کے درمیان ایک خوشگوار تعلق قائم ہو رہا تھا۔ زلیخا کی آنکھیں اور گھنے بال دیکھ کر کوئی گمان نہیں کر سکتا تھا کہ اس قدر مکمل حسن کی مالکہ ایک گاﺅں میں رہتی ہے۔ وہ مصری دوشیزہ دکھائی دیتی تھی۔ ملک نصیر کی والدہ کو زلیخا کی خاموشی اور اداسی بہت شاک گزرتی تھی اور وہ مجھے بھی اکثر کہہ دیا کرتی تھیں کہ بیٹے مجھے شک ہے میری زلیخا پر کسی نے جادو کیا ہوا ہے۔ یہ بہت کم بولتی ہے۔ نہ سہیلیوں کے ساتھ کھیلتی ہے۔ سکول جاتی ہے تو آ کر بھی کتابوں میں غرق رہتی ہے۔ نہ جانے اسے کون سا روگ ہے۔
زلیخا کا روگ کوئی نہیں جان سکا تھا،میں بھی۔۔۔لیکن میں اتنا سمجھ سکتا تھا کہ یہ اداس آنکھیں کبھی کبھی روشن ہوتی ہیں،خاموش زباں کو الفاظ ملتے ہیں۔۔۔۔۔مگر ہم روائتوں میں بندھے اپنی اداسیوں اور خاموشیوں کو برقرار رکھنے سے گھبراتے ہیں۔۔
میں جب اس شام ملکوال گیا تو ایک آئیڈیل ماحول کا خیال میرے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ میرے اندر یہ احساس بھی تھا کہ حویلی کے سحرزدہ اور پرسکون ماحول میں زلیخا کا وجود اور اس کی سانسیں میرے لئے سکون کا باعث بن سکتی ہیں۔لیکن اس بار میں جب ملک نصیر کی حویلی پہنچا تو اس بار حالات مختلف تھے۔ نصیر مجھے دیکھ کر باقاعدہ پریشان ہو گیا تھا۔ اس کے ملنے میں نہ والہانہ پن تھا نہ پذیرائی۔ میں حیران ہوا تو اس نے میری حیرانی دور کر دی اور بتایا کہ ان کے جاننے والوں کے حوالے سے لاہور سے ایک پیر صاحب ان کے گھر آئے ہیں۔ والدہ زلیخا کے روگ کو دور کرانے کے لئے ان سے دم درود کرانا چاہتی ہیں۔ پیر صاحب کے پاس جنات بھی ہیں۔ میں نے نصیر کا مذاق اڑایا مگر وہ سنجیدہ رہا بولا
”میں بھی تمہاری طرح سوچتا تھا کہ جنات کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ابا جی تو ان پیروں کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن یار اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ ہمارے پورے گھر میں اب انسانوں سے زیادہ جنات بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ کوئی آ رہا ہے‘ کوئی جا رہا ہے“
میں نے ملک نصیر کی بات پر یقین نہ کیا اور ذرا ناراض ہو کر کہا ”تم تو پاگل ہو گئے ہو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ یہ پیری فقیری بھی کاروبار بن گیا ہے۔ چلو اندر اور مجھے اپنے پیر صاحب سے ملواﺅ۔ پھر میں اس کی اصلیت بتاﺅں گا۔“
”یار .... میں تمہیں اندر نہیں بلا سکتا۔ پیر صاحب نے کہا ہے کہ ان دنوں کوئی اجنبی اندر نہ آئے اور کسی کو جنات کے بارے میں بتانا بھی نہیں ہے۔ مگر میں تمہیں بتا بیٹھا ہوں۔“ ملک نصیر گھبرا کر اندر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہو گیا۔
”دیکھا .... یہی تو بات ہے۔ اگر تمہارے پیر صاحب سچے ہوتے تو یہ نہ کہتے۔ وہ ضرور کوئی فراڈ ہو گا۔ مجھے اندر جانے دو میں اماں جی سے خود بات کرتا ہوں اور پھر زلیخا۔۔۔۔“ میرے منہ سے کچھ نکلتے نکلتے رہ گیا۔ میرے دل میں کوئی شے اٹک گئی۔ ہزاروں کہانیاں اندیشے میرے ذہن میں گھوم گئے‘ اخبارات کی شہ سرخیاں آنکھوں میں تیرنے لگیں کون سا ایسا دن ہو گا جب کسی جعلی پیر فقیر کے بارے ایسی خبریں شائع نہیں ہوتی ہوں گی کہ وہ معصوم لڑکیوں کو تباہ کرکے فرار ہو گیا۔ اس خیال کے ساتھ ہی میں اندر جانے کے لئے بے تاب ہوا تو ملک نصیر میرے سامنے آ کھڑا ہوا ”شاہد .... خدا کے لئے ٹھہرو۔ اگر میں نے خلاف ورزی کی تو بابا جی سرکار اور پیر صاحب ناراض ہوں گے اور ....“ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اندر سے ایک بارعب آواز سنائی دی۔
”نصیر اسے اندر آنے دو“
”جی شاہ صاحب“ ملک نصیر آواز سنتے ہی مودب سا ہو گیا۔
”یہ پیر صاحب کی آواز ہے۔ شکر ہے انہوں نے خود ہی تمہیں بلا لیا ہے۔ میرے یار ناراض نہ ہونا“ میں ملک نصیر کے ساتھ حویلی کی ڈیوڑھی میں پہنچا تو ایک درمیانے قد کا نوجوان جس نے سفید لٹھے کی شلوار قمیض زیب تن کی تھی‘ سر پر عربی رومال رکھا ہوا تھا ہماری طرف آ رہا تھا۔ ”یہ پیر صاحب ہیں“ ملک نصیر نے جھٹ سے میرا تعارف کرایا۔ ”یہ میرا دوست ہے شاہد .... صحافی ہے اور ....“
”میں جانتا ہوں۔ بابا جی نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی ہے“پیر ریاض شاہ مسکراتے ہوئے بولے۔ وہ شکل و صورت سے کسی طور پر پیر نہیں لگتے تھے۔”آﺅ بابا جی سرکار آئے ہوئے ہیں“ وہ ہمیں اندر زنان خانے میں لے گئے۔
٭٭٭