یہ حضرت جی کی دعاؤں کا ہی اثر تھا کہ جب عصر کی اذان ہو رہی تھی مجھے ہوش آ گیا۔ یہ بڑی عجیب نیند تھی جو میں نے بے ہوشی میں لی تھی۔ اس قدر گہری نیند کہ کسی خواب نے میرے ذہن کے کواڑوں کو چھوا بھی نہیں تھا۔ ہوش میں آتے ہی میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔ یوں لگا جیسے میں گہری نیند سے تروتازہ ہو کر بیدار ہوا تھا۔ ملک صاحب ماتھا چومنے لگے اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر رقت بھرے انداز میں پوچھنے لگے
’’تو نے یہ کیوں کیا‘‘
میں نے ایک نظر انہیں دیکھا اور نظریں جھکا لیں
’’پتر ۔۔۔ پہلے تو میں سمجھا تھا ریاض شاہ نے تجھ پر کوئی وار کر دیا ہے۔ تیری چاچی نے جب مجھے بتایا کہ تو اور زلیخا ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے تو میں سمجھ گیا۔ پتر میں نے زمانہ دیکھا ہے میں جان گیا کہ رات کی سیاہی میں جنات سے لڑنے والا میرا بچہ یہ دکھ نہیں سہہ سکا۔ سچ سچ بتا میں غلط تو نہیں کہہ رہا‘‘
ملک صاحب نے ایک باپ اور عزیز ترین دوست سے بھی بڑھ کر مجھے جس محبت سے مالا مال کیا تھا یہ شاید ہی کوئی کر سکے۔ میرے دل میں غبار سا اٹھا اور پھر آنکھیں موسلا دھار برسنے لگیں۔ ملک صاحب نے مجھے اپنے سینے میں چھپا لیا۔
’’پتر تو جانتا ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا‘‘
میں بہت رویا۔ اتنا رویا کہ میرے دل کی آلودگی آنسوؤں نے دھو ڈالی اور دل پر پڑی غلاظتیں بہہ نکلیں۔ میرا اعتماد واپس آنے لگا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ بہت برا ہو گا اگر میں ملک صاحب کے سامنے یہ اعتراف کر لوں کہ زلیخا کی شادی کے رنج نے مجھے اس حال تک پہنچایا ہے۔ میں نے جھوٹ بولنے کا فیصلہ کیا اور کہا
’’چاچا جی آپ جو سوچ رہے ہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ہے میں نے زلیخا کو خود ڈولی میں بٹھا کر رخصت کیا ہے۔ مجھے اس کا رنج نہیں بلکہ بہت زیادہ خوشی ہو رہی ہے۔ میں بھلا اس کی خوشیوں پر دکھی کیوں ہوں گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے شاید ریاض شاہ نے مجھ پر طاغوتی حملہ کرکے میری سدھ بدھ غائب کر دی تھی‘ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں قبرستان کیسے گیا تھا‘‘ میں ملک صاحب کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ مجھے زلیخا کی وجہ سے کسی قسم کا رنج نہیں ہوا۔
’’یہ بات ہے تو پتر تو نے میرے دل سے منوں بوجھ اتار دیا ہے۔ چل اٹھ، میرے ساتھ چل ۔شام کے وقت تری چاچی اور نصیر زلیخا کو لے کر واپس آ جائیں گے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر لیں‘‘
لیکن اب مجھ میں مزید برداشت نہیں رہی تھی۔ میں زلیخا کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے بہانہ تراشا’’چاچا جی میرا کل پرچہ ہے اور مجھے تیاری کرنی ہے۔ میں آج گھر جانا چاہتا ہوں تاکہ تیاری ہو سکے‘‘
’’دل تو نہیں چاہتا لیکن پتر یہ کام بھی ضروری ہے‘‘ ملک صاحب نے توقف کے بعد مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے جلدی سے سامان سمیٹا اور ملکوال سے چل دیا۔
نہر کی پٹری عبور کرکے جب سڑک پر پہنچا تو سامنے سے ملنگوں کی ایک ٹولی بھی ادھر کو آ رہی تھی۔ فضا ان کے گھنگھرؤں سے گونج رہی تھی۔ ان کے ہاتھوں میں موٹے موٹے ڈنڈے تھے جن پر سیاہ اور سرخ رنگ کے چیتھڑے اور چھوٹے چھوٹے گھنگھرو بھی بندھے تھے۔ وہ سڑک پر پہنچے تو ایک قطار میں سیالکوٹ کی طرف رخ کرکے چلنے لگے۔ اس وقت مجھے ان کی حالت دیکھ کر رشک آنے لگا اور میں سوچنے لگا کہ میں تو ان دیوانوں کو گناہ کی فصل سمجھتا تھا۔ چرس‘ بھنگ کے نشہ میں دھت اللہ ہو‘ اللہ ہو کرتے رہنے والے یہ ملنگ اپنے مرشد کے حکم پر چلتے چلے جاتے ہیں۔ نہ دنیا کا دکھ‘ نہ کوئی خواہش‘ اپنی دنیا میں ہی مست‘ ہم سے تو یہ بھلے۔ ان کے کاندھوں پر کسی زلیخا کا دکھ نہیں ہے۔ صرف اپنے عقیدے کا بوجھ اٹھائے ہوئے رہتے ہیں۔ مجھے یاد آیا بابا تیلے شاہ نے بھی تو یہ کہا تھا کہ اللہ کے سائیں یہ بندے پیدل چلتے رہتے ہیں۔ وہ فاصلہ ناپ کر نہیں چلتے۔ ان کے قلب و نظر صرف ایک منزل پر پہنچنے کی لگن میں سرشار ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا کہ ان کے ننگے پیروں تلے کتنے کانٹے‘ پتھر آتے ہیں۔ بس وہ مست حال چلتے رہتے ہیں نفس کومارنے کے لیے اس سے بڑا کوئی اورطریقہ نہیں ہے۔خود کو تھکا کر بدن کی پور پور کو نڈھال کر کے مرشد کی خانقاہ پرپہنچنے کا سواد ہی اپنا ہے ۔جب مرشد کا اپنے مرید کی تھکاوٹ اتارتا ہے ۔اسکی بھلی نظر سے اسکے بکھرے وجود میں طاقت آجاتی ہے۔۔ پس میں نے بھی فیصلہ کر لیا یا تو اب اس دنیا میں رہوں گا ،یا اس دنیا میں۔ درمیان میں نہیں لٹکا رہوں گا۔ آزاد رہوں گا۔ یہ بھی آزاد ہیں اور اس دنیا کے باشندے بھی آزاد ہیں لیکن اس کا فیصلہ کرنے سے پہلے میں نے اس ذائقہ سے آشنا ہونے کی کوشش کی اور تانگے سے اتر کر سڑک پر کھڑا ہو گیا۔سیالکوٹ جانے والی بس آ چکی تھی لیکن ایک سوچ نے اس پر سوار ہونے سے روک دیا۔ میں ملنگوں کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد احساس ہوا یہ چلنا کیسا چلنا ہے۔ میں نے جوتے اتار کر بیگ میں ڈال دئیے۔ اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں سڑک کے کنارے کنارے چلنے لگا تو میری چیخیں نکلنے لگیں۔ پاؤں تلے چھوٹا سا کنکر بھی آتا تو میں اچھل پڑتا۔ ’’میں کس عذاب میں پڑ گیا ہوں‘‘ دل میں خیال آیا اور جوتا پہننے کی کوشش کی لیکن اب میں جوتا بھی نہیں پہن سکتا تھا۔ میرے پاؤں کے تلوں سے خون رسنے لگا تھا۔ جوتی پہننے سے پاؤں دکھنے لگے۔ میں سڑک کے کنارے ایک بوسیدہ سنگ میل پر بیٹھ گیا۔ ملنگ مجھ سے ایک کوس دور نکل چکے تھے۔ میں ادھر ہی ڈھ گیا۔ سوچنے لگا کہ کیا کروں۔ کشمکش میں مبتلا ہو گیا اور بالاخر میں نے شکست تسلیم کر لی۔ میرے لیے سلوک کی منزلوں کا سفر بہت تھکا دینے والا تھا۔میں ہار گیا جیسے تیسے کرکے میں نے جوتے پہن لئے اور بس آنے کا انتظار کرنے لگا۔
میں گھر پہنچا تو بہت تھک چکا تھا جاتے ہی بستر پر گر کر سو گیا۔ فجر کے قریب مجھے احساس ہوا جیسے کوئی مجھے آہستہ آہستہ دبے ہوئے لہجے میں آوازیں دے رہا ہے۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا
’’کون ہے‘‘ میں نے بھی آہستہ سے پوچھا
’’بھیا میں ۔۔۔ غازی‘‘
میں ہڑبڑا اٹھا ’’کہاں ہے تو‘‘
میں چارپائی سے نیچے اتر کر ارد گرد دیکھنے لگا
’’تمہارے پاس کھڑا ہوں بھیا۔ لیکن اب میں تمہیں دکھائی نہیں دے سکتا‘‘
غازی کی آوازیں میں ارتعاش تھا
’’کیوں ۔۔۔ تم دکھائی کیوں نہیں دے سکتے اب کیا ہوا ہے‘‘ اس کی آواز سن کر میں تو جیسے اپنی ساری تکلیفیں بھول گیا تھا
’’بس بھیا وہ ایک رشتہ جو ہمارے تمہارے درمیان وسیلہ تھا اب ختم ہو گیا ہے۔ اس لئے تمہیں دکھائی نہیں دے سکتا‘‘ وہ باقاعدہ ہچکیاں بھر بھر کر رونے لگا
’’غازی بس کر یار ۔۔۔ مجھے صاف صاف بتاؤ بات کیا ہے‘‘ اگر وہ ظاہری حالت میں میرے پاس ہوتا تو میں اس کو اپنے ساتھ لپٹا کر دلاسا دیتا لیکن وہ تو ہوا میں تھا ۔ہوا کو ہاتھ کیسے لگاتا۔
’’بھیا اپنے شاہ صاحب جو ناراض ہو گئے ہیں اور وہ زلیخا بھی تو ہم سے دور چلی گئی ہے‘‘
’’دیکھ غازی ادھر آ ۔۔۔ میرے پاس بیٹھ جا‘‘
’’تمہارے پاس ہی تو بیٹھا ہوا ہوں بھیا‘‘
اس کی آواز سے اندازہ لگایاکہ وہ میرے دائیں جانب بیٹھا تھا۔ میں نے اندازے سے ہوا میں چھپے اس کے وجود کو چھونے کی کوشش کی تو وہ لجا شرما کر بولا ’’کیا کرتے ہو بھیا گدگدی تو نہ کرو‘‘
’’تمہیں محسوس ہوتا ہے کچھ‘‘ میں نے اشتیاق کے بارے پوچھا’’لیکن حیرت ہے میرے ہاتھ تو کچھ بھی نہیں لگا‘‘
کھی کھی وہ ہنسنے لگا ’’لگے گا کیسے ہاتھ‘ میں تو ہوا میں ہوں ہوا کا کوئی ٹھوس جسم تو ہوتا نہیں ہے‘‘
’’اگر ٹھوس جسم نہیں ہے تو پھر تمہیں کیوں گدگدی ہونے لگی تھی‘‘
وہ دوبارہ کھی کھی کرکے ہنسنے لگا
’’بھیا تم نے ہاتھ ہی ایسے انداز میں مارا تھا جیسے کوئی اندھا ہاتھوں سے فضا میں کچھ ٹٹولنے لگتا ہے۔ تمہیں محسوس نہیں ہوا تو کیا ہوا لیکن تمہارے ہاتھوں نے ہوا کے وجود میں تو ارتعاش پھیلا دیا تھا جیسے پانی میں ہاتھ ڈالو تو بھیگ جاتا ہے لیکن جب پانی میں ہاتھ مارو تو پانی کو محسوس ہوتا ہے اور وہ دور دور تک پھیل جاتا ہے‘‘
’’غازی تم تو فلاسفر بن گئے‘‘
’’دکھ انسان کو فلاسفر بنا دیتا ہے بھیا جیسے کہ تمہیں‘‘
’’میری بات چھوڑو۔ اگر تمہاری بات مان لوں کہ پانی میں ہاتھ ہلانے سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے لہریں ابھرنے لگتی ہیں گویا پانی میں گدگدی ہو جاتی ہے لیکن ہاتھ تو گیلا ہو جاتا ہے ناں۔ پھر میرا ہاتھ ہوا میں چھپے تمہارے وجود سے غیر محسوس طریقے سے چھو گیا ہے تو میرے ہاتھوں کو کیوں نہیں محسوس ہوا۔ دیکھو تو میرے ہاتھ نہ گیلے ہیں نہ کسی قسم کی ٹھنڈک اور گرمی کا احساس ہوا ہے۔ اوپر سے تم کہہ رہے ہو میں نے تمہیں چھوا ہے‘‘
’’شاید میں تمہیں سمجھا نہ پاؤں بھیا لیکن یہ حقیقت ہے۔ اس کا ایک ثبوت تم دیکھ سکتے ہو۔ اپنی انگوٹھی کو دیکھو اس کا رنگ بدل گیا ہے‘‘
’’کک کیا مطلب‘‘ میں نے غازی کی دی ہوئی انگوٹھی دیکھی تو واقعی اس کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا
’’اب تم پوچھو گے کہ یہ کیسے ہوا؟‘‘
’’ہاں پوچھوں گا تو ضرور‘‘
’’بھیا یہ جو مقدس جواہرات ہوتے ہیں ان کی رکھوالی ہم کرتے ہیں۔ ہم جن پہاڑوں کی غاروں میں اور گہرے پتھروں میں رہتے ہیں ان کے نیچے یہ پتھر مقناطیسی اور طاغوتی عمل سے تیار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت ہے ۔ایک خاص درجہ حرارت انہیں چاہئے ہوتا ہے۔ ہماری دنیا میں ان پتھروں کی بڑی قدر کی جاتی ہے کیونکہ ہم ان کے پراسرار اعمال و اثرات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ آپ کی دنیا میں جب ان پتھروں کی تجارت ہوتی ہے تو ان کے رنگ مختلف ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے پاس یہ سب سیاہی مائل ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے خواص سے ہم آگاہ ہوتے ہیں جونہی تم نے مجھے چھوا یہ پتھر میرے وجود سے چھوا اور اپنا رنگ بدل گیا‘‘
’’اللہ‘‘ حیرت سے میرے منہ سے نکل گیا ’’کیا میں اس کو ایک شناخت سمجھ لوں‘‘
’’کیسی شناخت‘‘
’’یہ کہ جب کوئی نگینہ اپنا رنگ بدل ڈالے یعنی سیاہ ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی جن اس کے ساتھ چھوا ہے۔ میرا مطلب ہے ایسا ہو سکتا ہے‘‘
’’ہاں بالکل ہو سکتا ہے اگر نہ یقین آئے تو یہ دیکھ لو‘‘ ذرا ہتھیلی پھیلاؤ۔ غازی نے عقیق یمنی کے بہت سارے نگینے میری ہتھیلی پ رکھ دئیے۔نہایت چمکدار نگینہ تھے۔
اب ذراان می سے ایک میری طرف گھماؤ‘‘
میں نے ایک نگینہ پکڑ کر اندازے سے اس جگہ لے جا کر گھمایا جہاں غازی کے بیٹھنے کی امید تھی۔ ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ پیچھے کر لو میری آنکھ نہ پھوڑ ڈالنا‘‘ غازی ہنستے ہوئے کہنے لگا
غازی کی بات درست تھی۔ عقیق یمنی ایک دم سیاہ ہو گیا ۔ایسے لگا میرے ہاتھ میں قیمتی پتھر نہیں بلکہ کوئلے کا ٹکڑا ہے۔‘‘یہ سب تمہارے ہیں۔پاس رکھ لو ۔میری طرف سے تحفہ سمجھو۔ ان کے تالے میں تم سے ایک قیمتی تحفہ لوں گا۔ اب میری بات سنو۔‘‘
’’کہو‘‘
’’اس بات پر غور کرو گے تو تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہم جنات انسانوں کو چمٹتے کیوں ہیں۔ تمہارے ذہن میں ایسے سوالات تو آتے ہوں گے ناں‘‘
’’ہاں سوچتا تو ہوں میں ہی نہیں ہر انسان یہ سوچتا ہے‘‘
’’جس طرح ایک انسان چلتے پھرتے لاکھوں حشرات الارض کو اپنے پاؤں تلے روند کر ان کا قتل عام کرتا رہتا ہے۔ یہ سب غیر ارادی خلل ہے۔ حشرات الارض کے پاس شعور نہیں ہے لیکن ہمارے پاس تو شعور ہے جس طرح انسانوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کی وجہ سے کتنے دیدہ و نادیدہ حشرات مارے گئے اسی طرح انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے کسی فعل سے جنات کے بچے‘ بوڑھے مارے جاتے ہیں اور کتنوں کو گزند پہنچتی ہے‘‘
’’اس میں انسانوں کا کیا قصور ہے۔ یہ تو ون وے ٹریفک ہے اگر تم کو یہ شکایت ہے تو پہلے سے اعلان کر دیا کرو کہ بھئی بچ کر۔ ادھر ہم کھڑے ہیں‘‘
’’ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔ ہماری تعلیمات میں یہ بات شامل ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ انسان ہمیں نہیں دیکھ سکتے لہٰذا ہم خود اپنے آپ کو بچاتے ہیں حالانکہ ہم انسانی بستیوں‘ بازاروں‘ دفاتر حتیٰ کہ ہر جگہ جہاں انسان پائے جاتے ہیں ہم ان کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ ہماری مخلوق انسانوں سے زیادہ ہے۔ اگر کبھی اللہ کے حکم سے جنات کو ظاہر ہونے کی اجازت مل جائے تو تم یہ منظر دیکھ ہی نہ سکو گے۔ یوں سمجھ لو جس طرح شہد کی مکھیاں چھتے کو چھپا لیتی ہیں بالکل یہی حال تمہاری دنیا کا ہو جائے۔ پہاڑ‘ آبشار‘ گہرائیاں‘ سمندر‘ زمین‘ صحرا میں کوئی ایسی جگہ نہ بچے۔ اس گہما گہمی میں ہمارا قتل عام ہوتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ جنات نوکدار لوہے کی اشیا سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر انہیں ذرا سی بھی نوک چبھ جائے تو ان کی حالت وہی ہوتی ہے جو غبارے میں کانٹا چبھونے سے ہوتی ہے۔ جنات معذور ہو جاتے ہیں عمر بھر اڑ نہیں سکتے۔ تم لوگ جب ہوائی فائرنگ کرتے ہو‘ دنگا فساد میں بندوقیں اور چھریاں استعمال کرتے ہو تو ہماری بستیوں میں اعلان ہونے لگتے ہیں کہ اس علاقے میں نہیں جانا۔ ہمیں نقصان پہنچتا ہے۔ نئے زمانے کی جنگوں کی وجہ سے ہم شہروں سے نکل کر سمندروں میں پناہ لیتے ہیں۔ پہاڑوں کی بنیادوں میں اتر جاتے ہیں فضا میں پھیلے بارود سے ہماری حالت خراب ہو جاتی ہے کیونکہ سانس اور ہوا پر ہماری زندگیوں کا بھی انحصار ہے۔ ہم بھی اپنے طور پر انسانوں جیسے ہیں لیکن کامل انسان نہیں ہیں‘‘ غازی ایک لمحہ کے لئے رکا اور سانس لے کر دوبارہ بولنے لگا ’’اب سنو تمہاری بستیوں میں جب عورتیں بناؤ سنگھار کرکے نکلتی ہیں تو ان کے درشن کرتے ہیں۔ ہمارے آوارہ مزاج جنات ایسی عورتوں پر تسلط جماتے اور انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ بعضوں پر اس قدر غالب آ جاتے ہیں کہ بے چاریاں کوئی زلیخا اور کوئی بلقیس جیسی حالت سے دوچار ہو جاتی ہے۔ بچوں اور بڑوں سے جب جنات کو گزند پہنچتی ہے تو وہ بدلے میں انہیں تنگ کرتے ہیں لیکن متقی‘ پرہیزگار اور اللہ کا ذکر کرتے رہنے والے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جو طاقتور قسم کے عمل کرتے ہیں جنات اور ایسی شیطان مخلوق ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ بحیثیت مسلمان میں اس عقیدے پر یقین رکھتا ہوں کہ اللہ کا ذاکر بندہ کبھی بھی جنات کی طرف سے پہنچائی جانے والی گزند کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے ذاکر بندے کے گرد ایک روحانی دائرہ قائم ہو جاتا ہے۔ جنات اور شیطانی مخلوق اس دائرے کے اردگرد تو منڈلاتی رہتی ہے اسے توڑ کر اندر نہیں داخل ہوتی۔ اولیا کرام کے گرد تو ہزاروں دائرے ہوتے ہیں اورو ہی روحانی دائرے ایک انسان کو اللہ کی قربت کی لذت سے دوچار کرتے ہیں‘‘
غازی کافی دیر تک مجھے اسرار قدرت سمجھاتا رہا۔ میرے ذہن میں بہت سارے سوالات سر ابھانے لگے تھے
’’غازی ۔۔۔ ذکر سے کیا مراد ہے تمہاری‘‘
’’ بھیا قرآن پاک پڑھو۔ یہ افضل ترین ذکر ہے۔ درود ابراہیمی ؐپڑھتے رہا کرو۔ اللہ تبارک تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ کا ذکر کرتے رہنے سے انسان کی روحانی قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں‘‘
’’دیکھو ناں قرآن پاک کی آیات تو انسان چلتے پھرتے پڑھ سکتا ہے اور۔۔۔‘‘
’’میں سمجھ گیا آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں‘‘ غازی میری بات کاٹ کر کہنے لگا ’’آپ یہی کہنا چاہتے ہیں کہ روزمرہ معاملات نبھاتے ہوئے قرآن پاک پاس نہیں رکھا جا سکتا اور پھر اس کے لئے ہر وقت باوضو رہنا چاہئے۔ ایسے میں یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کچھ وظائف مخصوص کر لیں اور چلتے پھرتے فارغ اوقات میں پڑھتے رہیں۔ بھیا اللہ وحدہ لاشریک کی قسم جو بندہ وظائف پڑھتا ہے وہ اس رمز سے آشنا ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بناتے ہوئے اسے عطا کی تھی انسان اگر اس رمز کو پا لے تو وہ افضل ترین ہو جاتا ہے‘‘
’’غازی ۔۔۔ میرے بھائی یہی باتیں تو جاننے کے لئے میں مارا مارا پھرتا رہا ہوں۔ کیا تم مجھے کچھ وظائف بتا سکتے ہو اور تم یہ جو کہہ رہے تھے کہ اللہ کے اسمائے مبارکہ کا ذکر کرنے سے روحانی قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں یہ ذکر کیسے کیا جا سکتا ہے‘‘
’’بھیا تمہیں ٹاہلی والی سرکار اور بابا جی نے کچھ وظائف بتائے تھے غالباً تم وہ بھول گئے ہو‘‘
’’ہاں‘‘ میں اس کی بات سن کر چونک پڑا ’’ہاں شاید بہک گیا ہوں ناں‘‘
’’اللہ کی قسم ۔۔۔ اگر تم یہ وظائف پڑھتے رہے تو آلام و مصائب سے کبھی شکست نہیں کھاؤ گے جسے پڑھنے کی ہدایت دو گے اس کی کشتی بھی پار لگ جائے گی لیکن بھیا تم انسان بڑے ہی ناشکرے اور لاپرواہ ہوتے ہو۔ سمندر میں رہ کر بھی پیاسے رہتے ہو۔ تمہیں نہیں معلوم کہ تمہیں ان بزرگوں نے کیسا خزانہ دے دیا ہے اور آج میں تمہیں اسمائے الہٰی کے ذکر کے آداب اور اسم اعظم نکالنے کا طریقہ سکھاتا ہوں‘‘
’’غازی ۔۔۔ خدا کی قسم اب میرے سامنے آ جاؤ میں تمہارا منہ چوم لوں خدا کی قسم جلدی کرو مجھے یہ کام سکھا دو‘‘میں بے قراری سے بولا۔
’’بھیا اسے کام نہیں سمجھو یہ افضل ترین سلیقہ ہے‘‘ غازی نے مجھے سمجھایا اور پھر مجھے وہ کلمات سکھائے جنہیں پڑھنے سے ایک انسان جنات کی شرانگیزی سے محفوظ رہتا ہے اس نے مشفق معلم بن کر اسم اعظم بنانے کا سلیقہ بھی سکھایا۔
****
میں غازی کی باتوں کے سحر میں اتنا کھو گیا تھا کہ یہ غور ہی نہ کر سکا کہ غازی مجھ سے ملنے کیوں آیا ہے۔ وہ مجھے نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اس کی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ یہ بہت دنوں بعد خیال آیا کہ ریاض شاہ اور بابا جی تو مجھ سے ناراض تھے ان حالات میں غازی میرے پاس کیونکر آ سکتا تھا۔ ہاں اس کا یہ جواز ٹھیک تھا کہ جن بزرگوں کے وسیلہ اور قوت کی بنا پر وہ جناتی روپ سے انسانی روپ میں متشکل ہو کر ہمیں اپنے دیدار سے حیران کرتے تھے وہ وسیلہ کمزور ہو گیا تھا۔ کیا غازی کو مجھ سے حقیقی محبت ہو گئی تھی؟ اور وہ اس بھائی چارے سے مجبور ہو کر مجھ سے ملنے آ گیا تھا۔ یہ تو خلاف فطرت بات تھی۔ اصولاً تو مجھے غازی سے یہ باتیں پوچھ لینی چاہئیں تھیں لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ ایک عام انسان جب کسی حیرت میں گم ہوتا ہے خوشی مرگ سے دوچار ہوتا ہے کوئی ان ہونی ہوتی ہے تو اس کے سارے سوالات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ وہ حیرت اور خوشی کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا۔ ہزاروں رنج اور گھاؤ تھے جو ریاض شاہ کی وجہ سے میرا نصیب ٹھہرے تھے۔ غازی کے آنے پرمجھے بھڑک جانا چاہئے تھا لیکن اس کی آواز سنتے ہی جیسے میں سب کچھ بھول گیا تھا۔ غازی میرے پاس کم و بیش دو گھنٹے رہا تھا۔ اسم اعظم کے بعض ایسے زود اثر کلمات اور اسمائے الحسنیٰ سے کسی بھی انسان کے لئے اسم اعظم بنانے کے طریقے سکھانے کے باوجود وہ مجھے بہت سی گہری باتیں بتاتا رہا تھا۔ میں تو علوم کی دنیا کا حریص شخص تھا۔ جہاں سے علم ملتا اٹھا لیتا۔ شاید اس حرص کی وجہ سے میں غازی کی غیر متوقع حاضری سے گھبرا کر اپنے رنج و الم بھول گیا تھا۔
’’بھیا‘‘ غازی نے علوم قدرت کے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا
’’درود پاکؐ ہماری غذا ہے۔ کوئی بھی مسلمان جن اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ محبوب خدا آقائے دوجہاںؐ پرقدسی ہمہ وقت درود و سلام بھیجتے ہیں تو یہ آتشی مخلوق بھی درود و سلام میں مستغرق رہتی ہے۔ تم مسلمان تو فرقوں کے بٹواروں میں پڑے ہوئے ہو۔ میں اس پر کچھ نہیں کہوں گا اور نہ ہی تمہیں لعنت ملامت کروں گا کیونکہ ہم جنات بھی اسی تقسیم کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے مسلک اور قبائل ہیں۔ ہمارے ہاں بھی وہابی‘ شیعہ‘ سنی جنات ہیں۔ لیکن اللہ رب العزت کا ہم پر احسان ہے کہ جنات اس معاملے میں درود پاکؐ پڑھتے رہتے ہیں اگر وہ درود شریف نہ پڑھیں گے تو ان کی عقلوں پر غضب‘ حیوانیت اور شیطانیت غالب آ جاتی ہے‘‘
’’غازی ۔۔۔ ٹھہرو ایک سیکنڈ کے لئے۔ پلیز مجھے یہ بتاؤ کہ تم جنات ہم مسلمانوں پر افسوس کرتے رہتے ہو اور یہ کہتے ہو کہ تم فرقوں میں بٹ گئے ہو۔ لیکن اگر تم سلامتی کا راز سمجھتے ہو اور فرقوں کی تقسیم کو غلط کہتے ہو تو پھر تم بھی فرقوں میں تقسیم ہو تم اپنے اختلافات ختم کیوں نہیں کر سکے‘‘۔۔۔۔۔۔غازی ٹھنڈی اور گہری آہ بھری۔ فضا میں بہت سے بھنور بن گئے۔
’’اب اگر میں تمہیں ایک سچ بتاؤں گا تو تم یقین نہیں کرو گے‘‘
’’اگر سچ معقول ہوا تو یقین کر لوں گا‘ تم بیان کرو‘‘
’’یہ راز ہستی ہے بھیا‘‘ غازی غالباً کسی تکلیف دہ احساس کے ساتھ میرے پاس سے اٹھا۔ اس کی آواز مجھے قدرے اور اپنے سامنے سے سنائی دے رہی تھی۔ وہ کمرے میں بے قراری سے ٹہل رہا تھا۔ ’’بھیا یہ اصول فطرت ہے۔ فطرت کا لکھا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ یہ حقیقت ہے۔ جیسے ہم آگ سے تخلیق ہوئے اور تم مٹی کا خمیر ہو بالکل ایسے ہی یہ حقیقت بھی تسلیم کر لینی چاہئے کہ تم انسان ہم سے افضل ترین مخلوق ہو۔ ہم جنات قہر و غضب میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس لئے ہمارے ذہنوں میں عقل کی بھٹی گرم رہتی ہے۔ ہمارے اباؤ و اجداد نے شرعی علوم کی تربیت انسانوں سے حاصل کی ہے۔ ہم محتاج ہوتے ہیں۔ اب ہمارے اجنا اباء اجداد نے جس مسلک کے بزرگ سے تعلیم پائی اس کا عقیدہ اور مسلک اپنے معلم کی تربیت کے زیر اثر آ گیا۔ پھر ہم جہاں جہاں عالم اجناء سے تعلیم حاصل کرنے گئے ہمارے ہاں بھی قبائلی اور فرقہ وار جماعتیں تشکیل پاتی چلی گئیں۔ اس لئے تو میں کہتا ہوں تم انسانوں نے ہم جنات کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ ہم تو پہلے ہی بگڑی ہوئی مخلوق خدا ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ہمیں شرانگیزی پر اکساتا ہے تو ہم جلد گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے اندر شعور اور لاشعور کی وہ تقسیم نہیں ہے جو تم انسانوں میں ہے۔ بھیا ہمارے اندر کوئی دوسرا جن بسیرا نہیں کئے ہوتا۔ یہ صرف انسان ہی ہوتے ہیں جن کے اندر کئی کئی انسان زندہ ہوتے ہیں۔ اسے تم عقل و فہم ادراک وہم و خیال نہ جانے کس کس نام سے پکارتے ہو۔ انسانوں کی روح میں جو بالیدگی اور طاقت ہوتی ہے جنات کے اندر نہیں ہے۔ عقل و فہم کی قوت بہت کمزور ہوتی ہے اسی لئے تو ان میں انتقام جیسے منفی روئیے زیادہ ہوتے ہیں۔ بھیا میری ایک بات یاد رکھنا‘ جن جتنا بھی عبادت گزار ہو‘ اگر تم اس سے غلط کام لو گے تو وہ تمہاری اس حرکت کو کبھی نہیں بھولے گا۔ تمہارے ہاں بہت سے عامل کامل لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے تسخیرات جنات کے علوم سیکھے مگر جنات کے ہاتھوں ہی مارے گئے۔ اس لئے کہ شریف اور پارسا جنات ہرگز گوارہ نہیں کرتے کہ ان سے غلط کام لئے جائیں ہاں صرف انہیں مجبور کرکے کام لئے جاتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ ‘‘غازی ایک دم رک گیا۔
’’جیسا کہ ۔۔۔کیا کہنا چاہتے ہو‘‘ میں نے استفسار کرکے پوچھا
’’جیسا کہ ہم ۔۔۔ بابا جی سرکار اور ریاض شاہ ہیں‘‘ غازی آہستگی سے بولا تو اس کے انداز میں نفرت گھلی ہوئی تھی۔ لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہ بول سکا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔ بابا جی جیسے پرہیزگار جنات ایک عامل کی سفاکانہ اور ہوسناک خواہشوں کی غلامی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
’’بھیا میرے جانے کا وقت ہو رہا ہے پھر شاید برسوں ہماری ملاقات نہ ہو سکے۔ تمہیں یاد ہو گا کہ میں نے کہا تھا تمہیں ایک تحفہ دوں گا۔ سو میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ میں نے تمہیں اسم اعظم کا علم سکھا دیا ہے۔ اگر تم چاہو گے کہ تمہیں اس پر قدرت حاصل ہو جائے تو اللہ کے کلام کو باترجمہ پڑھنا اور غور و فکر کرنا۔ میرے اللہ نے چاہا تو تمہیں اسم اعظم کی افادیت کا یقین آ جائے گا اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہزاروں چلے کرنے سے افضل یہ چند الفاظ درحقیقت اپنے اندر کتنی قوتیں رکھتے ہیں‘‘
’’غازی میں کس زبان سے تمہارا شکریہ ادا کروں لیکن میرے عزیز دوست میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔ مجھے کوئی ایسا طریقہ بتا دو کہ تم سے ملاقات ہو جایا کرے‘‘
’’اس کے تو دو ہی طریقے ہیں‘‘ غازی نے صاف صاف بتا دیا ’’ایک تو یہ کہ میں ازخود تم سے ملنے آ جایا کروں۔ دوسرا یہ کہ تم کچھ وظائف پر دسترس حاصل کر لو۔ اس کے لئے تمہیں ریاضت کی ضرورت ہو گی اور یہ ریاضت تمہیں کسی باعمل عالم سے حاصل کرنی ہو گی‘‘
’’عالم سے یا عامل سے‘‘ میں نے وضاحت کے لئے پوچھا
’’عالم سے ۔۔۔ لیکن یہ عالم وہ صاحب بصیرت ہونا چاہئے جو اجناء کے علوم پر دسترس رکھتا ہو۔ عامل کی تو بات ہی نہ کرو۔ ہاں اگر نورانی علوم کا عامل مل جائے تو اس سے یہ علم حاصل کر سکتے ہو‘‘
’’اس کے بعد تمہیں کیسے ملوں گا۔ کیا اجناء کی تسخیر کا علم حاصل کرنے کے بعد ہی تم سے ملاقات ہو سکتی ہے‘‘
’’میں نے دو صورتیں تو بتا دی ہیں وظائف اور چلے وغیرہ حاصل کرکے تم اجنا کو طلب کر سکتے ہو۔ میں تمہیں اپنی نشانیاں اور خاندان کی تفصیل بتا کر جاؤں گا۔ زندگی میں کبھی یہ علوم حاصل کر سکے تو تم مجھے حاضر کرنے کی قدرت حاصل کر لو گے‘‘
’’لیکن غازی ۔۔۔ ابھی تو تم نے مجھے اسم اعظم کے علم کو حاصل کرنے کا ہنر سکھایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ میں نے اس علم پر دسترس حاصل کر لی تو چلے وغیرہ کے بغیر بھی بہت زیادہ طاقت حاصل کر لوں گا۔ کیا میں تمہیں اسم اعظم کے زور پر نہیں بلا سکتا‘‘
’’بالکل بلا سکتے ہو۔ اسی لئے تو میں نے کہا تھا کہ قرآن پاک پڑھنا اور غور کرنا ۔میں تمہیں ہرگز ہرگز شارٹ کٹ نہیں بتاؤں گا کہ کون سی آیات مبارکہ پڑھو گے تو ہماری شہ رگ تمہارے ہاتھوں میں ہو گی۔ خدائے لم یزل کی قسم قرآن پاک سے افضل ترین کتاب دنیا میں ہے ہی نہیں۔ سارے جہانوں کی زندگیاں اور ان کے نظام ہائے کار کا علم قرآن پاک کا محتاج ہے اور اس میں حکمت پوشیدہ ہے۔ یہ غور و فکر سے حاصل ہو گا۔ یاد رکھو یہ بات تمہاری بھلائی کے لئے کہہ رہا ہوں۔ اگر چند آیات بتا دیں تو تم بھی ان ناشکرے لوگوں میں شامل ہو جاؤ گے جنہوں نے نعوذبااللہ قرآن پاک کی آیات کو عملیات کے لئے مخصوص کیا ہوا ہے۔ قرآن پاک کی ہر آیت میں شفا اور حکمت ہے اور یہی تمہاری روح کو جاوداں بنائے گی۔ روح کا رشتہ قرآن پاک کے علوم سے وابستہ ہے۔ بس تم یہ سمجھ لو کہ ایک صحیح العقیدہ مسلمان کو مکمل قرآن پاک پڑھنا چاہئے۔ غور و فکر کرکے اور اسلامی علوم سے استفادہ کرکے‘ بزرگوں سے رہنمائی بھی لے کر اپنے لئے شفا طلب کرے۔ عملیات اور وظائف پراکتفا نہ کرے۔ کبھی بزرگوں نے اجازت دی تو میں تمہیں وہ مناظر دکھاؤں گا کہ ہمارے مسلمان اور حفاظ اجنا کس عقیدت اور سرشاری کے ساتھ قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ تم نے غلام محمد کی قرات اور نعت تو سنی ہو گی‘‘
’’ہاں یاد آیا۔ مجھے تو اس کے بول بھی یاد ہیں‘‘ میں نے کہا اور پوچھا ’’غازی میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جنات جو نعتیں گیت اور کلمات ادا کرتے ہیں اگر انہیں دہرایا جائے تو وہ حاضر ہو جاتے ہیں‘‘
’’ہاں ایسا بھی ہوتا ہے لیکن یہ صرف مخصوص حالات میں ہوتا ہے‘‘
’’تو میں ۔۔۔ اگر تمہاری آواز کی نقل کر لوں یعنی یہ ہنر مجھ میں ہے اور اگر وہی نعت رسول مقبولؐ پڑھوں جو غلام محمد پڑھتے تھے تو کیا تم لوگ حاضر ہو جاؤ گے‘‘
’’یہ ظلم نہ کرنا ۔۔۔ ہرگز تمہیں اجازت نہیں دوں گا‘‘ غازی تیز لہجے میں بولا ’’بابا جی ریاض شاہ سے اس وجہ سے بھی نالاں ہیں کہ اس نے تم لوگوں کے سامنے اجناء کی محافل سجا دی ہیں۔ اگر کوئی انسان ایک ایسی جگہ پر جا کر جہاں ذاکر جنات بسیرا کئے ہوں وہاں جنات کے نعت خوانوں کی نعتیں پڑھے گا تو شدید ترین ’’اثر‘‘ میں آ جائے گا اور نقل‘‘‘ ہرگز یہ کام نہ کرنا‘‘ غازی نے مجھے بار بار تنبہیہ کی کہ یہ کام بالکل نہ کروں اور خاص طور پر شغل کے طور پر اسے نہ اپناؤں میں نے اس کی ہدایت پر عمل کرنے کا وعدہ کر لیا لیکن میں اس وعدے پر کبھی کاربند نہ رہ سکا۔ بعض اوقات رات کی تنہائیوں میں، مزاروں پر جا کر، دوستوں کی محافل میں اجناء کی پڑھی ہوئی نعت رسول مقبولؐ پڑھتا اور نقل اتارتا تو میرا پورا بدن سن ہو جایا کرتا رونگٹے کھڑے ہو جاتے‘ پورے بدن میں آگ سی پھیل جایا کرتی۔ یہ میں محض اس لئے کرتا کہ یار دوستوں کو اجناء کی مخلوق کا یقین دلا دوں۔ لیکن وہ میری اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے سوائے ایک بار۔ میرے ایک کولیگ نے ایک بار خاص طور پر مجھ سے یہ استدعا کی تھی کہ میں انہیں اجناء کی آواز اور لہجہ سنا دوں۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مجھے اپنے گھر لے گئے تھے۔ دراصل وہ پی ٹی وی کے لئے ایک ڈرامہ تیار کر رہے تھے جس میں وہ جنات کے بارے بھی کہانیاں دے رہے تھے۔ میں نے پہلے تو کوشش کی کہ ان سے جان چھوٹ جائے لیکن ان کی مجبوری کے پیش نظر میں نے انہیں ’’بابا جی‘‘ کے لہجے میں بول کر دکھایا تو اللہ ہی جانتا ہے میری حالت کیا ہو گئی تھی۔ وہ کولیگ اپنے ساتھیوں سمیت کمرے سے باہر بھاگ گئے تھے اور میں عقل و خرد سے بیگانہ ہو گیا۔ گویا اپنی جگہ پر پتھر کا ہو گیا تھا۔ میری آواز درودیوار کو چیرتی ہوئی دور دور تک پھیل گئی تھی اس کی باز گشت ایک پہر تک مجھے سنائی دیتی رہی تھی۔ پھر ایک روز داتا دربار پر مجھے ایک بزرگ ملے۔ ان سے سلام و دعا ہوئی اور میں نے اپنے ماضی کا ذکر کرکے انہیں اپنی اس تکلیف سے آگاہ کیا۔تو انہوں نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ آئندہ یہ حرکت نہ کرنا۔ انہوں نے مجھ پر یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر تم وظائف نہ پڑھ رہے ہوتے تو یہ ’’وزن‘‘ کبھی نہ اٹھا پاتے۔ اللہ نے تم پر عنایات کی ہیں کہ اس حساس ترین معاملے میں بداحتیاطی کے باوجود محفوظ رہے ہو۔
غازی سے اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ ان کا بتدریج ذکر کروں گا۔ تاہم اپنی اس غیر سنجیدگی اور بے احتیاطی کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا تھا جس طرح کہ واقعی اگر ایک عام اور غریب انسان کے پاس ہیرے جواہرات آ جائیں تو وہ ان کی قدر و قیمت کا اندازہ کئے بغیر انہیں بیچنے نکل پڑتا ہے اور اپنی بے احتیاطی اور کم علمی کی وجہ سے لٹ جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا! میں زعم اور تکبر میں مبتلا ہو گیا حالانکہ اس وقت میں ریاضت اور انکساری سے کام لیتا تو اسرار قدرت کے خزانے سے اپنی جھولی بھر لیتا۔ لیکن میں ایک مادہ پرست شخص بن گیا۔ ان علوم سے اپنی دنیا کو سنوارنے کا کام لینے لگ پڑا جس کی وجہ سے میں روحانیت کا وہ احساس اپنے اندر پیدا نہ کر سکا جو میری روح کو بالیدگی بخش سکتا تھا۔
غازی کی تعلیمات نے مجھے جس احساس سے دوچار کیا تھا اس کا نتیجہ پہلے پہلے تو یہ نکلا کہ میں راتوں کو اٹھ کر اسم اعظم بناتا اور اس کا ذکر کرتا رہتا۔ ان دنوں میں امتحانات سے فارغ ہو چکا تھا۔یہ میرا فارغ البالی کا سال تھا۔ ذہن پر تفکرات بھی تھے بابا جی کی قربت پانے کی جستجو بھی تھی۔ میں اپنے لئے اسم اعظم بنا کر اس کا ذکر تو کرتا رہتا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے اندر سے اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ میں باباتیلے شاہ اور ٹاہلی والی سرکار سے ملنے کیلئے ان تمام مقامات پر گیا جہاں ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ایک سچے عامل کی تلاش میں بھی بھٹکتا رہا۔ انہی دنوں حضرت جی کا وصال ہو گیا ۔ان سے ملنے کی تمناہی رہی۔ ملکوال جانا چھوٹ گیا۔ زلیخا کے شوہر کی پوسٹنگ کوئٹہ ہو گئی تھی اس سے پھر ملنا نصیب نہ ہوا۔ صحافت کا نشہ بہرحال ابھی تک قائم تھا۔ میں سیالکوٹ شہر روزانہ جایا کرتا تھا ۔ میں نے وہاں ایک ہاسٹل میں رہائش رکھ لی۔ یہ ہاسٹل سیالکوٹ کے سول ہسپتال کے قریب تھا اس کے پیچھے سے ایک گندہ نالہ گزرتا تھا اور اس کے پاس ہی ایک قبرستان تھا۔ جس ہاسٹل میں مقیم تھا اس سے ملحقہ پوسٹ مارٹم کا شعبہ تھا اس سے چند گز کے فاصلہ پر دو سینما تھے اور آگے سیالکوٹ صدر اور کینٹ کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ اب تو برسوں ہو گئے اس طرف نہیں گیا۔ لیکن اس وقت پوسٹ مارٹم کے شعبہ کے پاس سے جو سڑک گزرتی تھی اس پر ریلوے پل تعمیر ہو گیا ہے۔ یہ پل جناح اسٹیڈیم کے پاس نیچے اترتا تھا۔ سنا ہے اب اس علاقے میں خاصی ترقی ہو چکی ہے لیکن سولہ برس پہلے کا ذکر کر رہا ہوں۔ ان دنوں میں ذہنی افتراق میں مبتلا تھا اور آہستہ آہستہ مجھ میں لابالی پن بھی آ گیا تھا۔
صحافت میں مصروف ہونے کی وجہ سے دن رات تقریبات میں شمولیت رہتی ۔گویا ایک طرح سے ٹہکا جمانے کے شوق نے مجھ سے میری روحانی تعلیمات چھیننی شروع کر دی تھیں۔میں بہت سے اسباق بھول گیا۔ نماز میں باقاعدگی ختم ہو گی ،نماز تہجد تو بالکل ہی چھوٹ کر رہ گئی۔ پینے پلانے کا دور شروع ہوگیا تھا،جوانی کے قیمتی ہونے کا احساس ہونے لگا ۔دن بھر کی مصروفیات کے باعث رات جب ہاسٹل آتا تو آتے ہی بستر پر گر کر ایسا سویا پڑا رہتا کہ صبح دس گیارہ بجے ہی آنکھ کھلتی تھی ۔خود فراموشی کا دور تھا یایہ قدرت کیطرف سے مصلحت کہ میری بصیرت اندھی ہو گئی ۔ دنیا داری رنگ و بو کی محفلیں اور روپے پیسے کی لذت نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ میں اس خزانے کو بھول گیا تھا جس کی ایک کنجی قدرت نے مجھے تھما دی تھی۔
یہ ایک سال بعد کا ذکر ہے۔
مجھے اطلاع ملی کہ سیالکوٹ کے ایک عامل کو پولیس نے ہسپتال کے پیچھے واقعہ گندے نالے والے قبرستان سے گرفتار کیا ہے اورایک بری شخصیت کے کہنے پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ عام صحافیوں کیلئے شاید یہ خبر دل کشی نہیں رکھتی تھی لیکن نہ جانے مجھے کیوں اس خبر میں دلچسپی ہو گئی۔ یہ قبرستان میرے قریب تھا۔ میں نے اطلاع ملتے ہی اس قبرستان میں جانے کا فیصلہ کیا۔ ہسپتال کی پچھلی آبادی سے گزر کر میں وہاں پہنچا تو پورا قبرستان اجڑے ہوئے دیار کی عکاسی کررہا تھا۔ کیکر کے درخت سوکھے پڑے تھے حتی کہ کئی قبریں گڑھوں میں تبدیل ہو چکی تھیں اور ان سے مردوں کی ہڈیاں جھانک رہی تھیں ۔کتے بلیاں اور چوہے ان گڑھوں میں گھس کر خوراک حاصل کر تے اور وہیں بسیرا کرتے تھے۔
میں قبرستان کے گورکن کو تلاش کرنے لگا۔ وہ ایک خستہ حال چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتا تھا۔ پچاس ساٹھ کے درمیان اس کی عمر تھی۔ بڑے بڑے گھنے سیاہ اور تیل میں چپڑے بال۔ بدن ٹھوس‘ آنکھیں سیاہ اور گہری۔ اس کی شکل دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ گورکن ہے۔ ناجانے مجھے کیوں لگا کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ وہ گھاک اور سفاک قسم کا انسان لگتا تھا۔ میں نے اسے اپنا تعارف کرایا تو مجھے سرسے پاؤں تک دیکھنے لگا۔ میں نے مدع بیان کیا اور اس سے پوچھا کہ جو عامل پکڑا گیا تھا وہ کیا حرکت کر رہا تھا۔ گورکن نے پہلے تو اس واقعہ سے ہی اپنی لاعلمی ظاہر کر دی اور بہانہ بنایا کہ ان دنوں وہ یہاں نہیں تھا ۔اس نے مجھے کھڑے کھڑے فارغ کر دیا تھا۔ واپس آنے ہی لگا تھا کہ چند قدم چلنے کے بعد مجھے کچھ یاد آیا اور میں نے کہا’’ بابا۔ نہ جانے کیا بات ہے لگتا ہے تمہیں کہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’دیکھا ہوگا یقیناً دیکھا ہوگا، لیکن کہاں۔۔۔ یہ تو مجھے بھی لگتا ہے۔‘‘ اس کے چہرے پر استہزائیہ مسکان تھی۔
’’تمہارا نام کیا ہے بابا۔۔۔‘‘ میں نے نہایت تمیز سے دریافت کیا تو وہ سخت انداز میں بولا’’ جاؤ اپنا کام کرو۔۔۔ میرا نام پوچھ کر کیا کروں گے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پرناگوار اورقہر سے بھرے تاثرات نمایاں ہو گئے تھے۔ ’’بابا۔۔۔‘‘ میں نے اس کے انداز کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا ’’میں ایک صحافی ہوں یہ مت سمجھنا کہ ڈر جاؤں گا۔ میں اوپر والوں سے بات کرکے تمہاری پیشی کرا دوں گا تو۔۔ بھلا نام بتانے میں کیا حرج ہے۔‘‘
’’اوپر والے۔ کون اوپر والے۔ کیا تیرے اوپر والے میرے اوپر والے سے زیادہ بڑے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔ اوپر والا زیادہ تگڑا ہے‘‘ میں نے دوستانہ انداز میں ہنس کر کہا تو گورکن کو شاید میرا یہ انداز اچھا لگا اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے اور بولا۔ ’’پتر مجھے موتی ملنگ کہتے ہیں۔میں ہی یہاں کاگورکن ہوں۔۔۔‘‘
’’موتی ملنگ۔۔۔‘‘ میرے ذہن میں جیسے بلب روشن ہو گئے۔
’’تم کہیں مکھن سائیں کے دربار کے ملنگ تو نہیں ہو۔۔۔‘‘
’’توآخر پہچان لیاناں تم نے۔۔۔‘‘ موتی ملنگ بے رحمانہ انداز میں مسکرایا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا برگد کے ایک بوڑھے درخت کے پاس جا ٹھہرا‘ درخت کے نیچے اس نے تھوڑے سے قطعہ زمین کو صاف کیا ہوا تھا اور درخت میں ایک کھوہ بناکر اس میں دیا رکھا تھا۔ کھوہ دیا جلتے رہنے سے سیاہ ہو چکی تھی اس کے گرد سینکڑوں رنگدار کپڑوں کی ’’ٹاکیاں‘‘بندھی تھیں۔ زمین کے گرد اس نے اینٹوں کے ساتھ دائرہ سا بنایا ہوا تھا۔ یہ مکھن سائیں کے آستانے کا ہی ایک انداز تھا جوموتی ملنگ نے قبرستان میں اپنی ریاضت کیلئے بنایا ہوا تھا۔
***
اس نے مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ میں پاس پہنچا تو اس نے کھوہ میں ہاتھ ڈال کر کسی پرندے کے پر، پیروں کی ہڈیاں اور ایک قلم نکال کر اپنے سامنے رکھ لیا۔ اس نے قلم کی نوک بائیں کلائی پر رکھی اور مجھے عجیب سی تمسخرانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا حرکت کرے گا۔ لیکن جب اس نے قلم کی نوک سے کلائی چھید کر اپنا خون نکالا تو میرے ذہن میں دھماکے ہونے لگے۔ یہ عمل ریاض شاہ نے میرے ساتھ بھی کیا تھا۔ زلیخا کو سحری قوتوں سے آزاد کرانے کے لئے اس نے میرا خون حاصل کر کے عملیاتی کلمات لکھے تھے۔
موتی ملنگ نے قلم کو ایک طرف رکھا اور پرندے کا پر خون میں ڈبو کر اسے ہڈیوں پر یوں پھیرنے لگا جیسے کسی دیوار پر چونا لگانے کے لئے برش پھیرا جاتا ہے۔ میں خاموشی سے اور گہری نظروں کے ساتھ اس کو دیکھنے لگا۔ وہ اپنے زخم سے بیگانہ ہو کر یہ عمل کر رہا تھا۔ ہڈیوں پر خون کی تہہ لگانے کے بعد وہ استہزائیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگا اور پھر نہایت متکبرانہ انداز میں بولا۔
’’یہ پولیس مکھن سائیں کے ملنگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ سائیں سرکار کے جوتوں میں بیٹھنے والے افسر بھلا ہمارے لوگوں کو ہاتھ تو لگا کر دیکھیں‘‘۔
میں نہیں سمجھا کہ وہ مجھے کیا سمجھانا چاہتا تھا لہٰذا میں نے کہا۔ ’’سائیں یہ کیا کر رہے ہو۔‘‘
’’حیرت ہے بھئی۔ ابھی تک تمہیں یہ معلوم نہیں پڑا میں کیا کر رہا ہوں۔ مولا خوش رکھے۔ میں عمل باندھ رہا ہوں۔‘‘
’’تم تو گورکن ہو۔ تمہارا عملیات سے کیا کام‘‘۔ میں نے معصومانہ انداز میں کہا تو وہ فلک شگاف قہقہہ لگانے کے بعد بولا۔
’’لو جی۔ یہ بھی کیا خوب کہی ہے۔ بھلے مانسو مکھن سائیں کے ملنگ گورکن بن کر زندگی نہیں گزارتے۔ ہم تو قبرستانوں کے شہنشاہ ہوتے ہیں۔‘‘ یہ کہنے کے بعد اس نے مجھے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش ہو جانے کا اشارہ کیا اور خود چوکنا ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہ اپنی سماعت میں ان دیکھے وجود کی سرسراہت محسوس کرنے لگا تھا۔ میں نے غور کیا۔ مجھے نالے سے پار گاڑیوں کے شور کے سوا کچھ سنائی نہ دیا لیکن وہ نہایت ارتکاز کے ساتھ یوں کسی انجانے قدموں کی چاپ سن رہا تھا جنہیں میں نہیں محسوس کر پا رہا تھا۔ چند ثانیے بعد ہی مجھے برگد کے اوپر تھوڑی سی ہلچل محسوس ہوئی۔ موتی ملنگ نے اوپر کی جانب دیکھا اور پھر ایک دم اس نے جھولی پھیلا دی۔ اچانک ایک سرخ رنگ کا دوپٹہ اس کی گود میں آ گرا۔ کسی نے اسے نہایت سلیقے سے تہہ کیا ہوا تھا اور اس پر سیاہ رنگ کے دھاگے باندھے ہوئے تھے۔
موتی ملنگ نے خون آلود ہڈیاں دوپٹے کے اندر اسکی تہوں میں چھپا دیں اور دوپٹہ برگد کی کھوہ میں رکھ دیا۔ پھر زیرلب کچھ بڑبڑانے کے بعد اس نے کھوہ کے گرد حصار باندھا اور اٹھ پڑا۔
’’آؤ جی۔۔۔ اندر حجرے میں چلتے ہیں۔‘‘
وہ جسے حجرہ کہہ رہا تھا لکڑیوں اور کچے گارے سے بنی ایک جھگی تھی۔ باہر سے اسکی حالت بہت خراب تھی لیکن اندر داخل ہونے پر اس کی حقیقت سامنے آتی تھی۔ ایک طرف کدال، بیلچہ اور کھرپہ رکھا تھا۔ پاس ہی کچا گھڑا تھا جس میں پانی بھرا ہوا تھا۔ اس کے پاس بھنگ گھوٹنے کے لئے بڑا سا ’’کونڈا ڈنڈا‘‘ اور بھنگ کا سامان تھا۔ ایک طرف جہازی سائز کی چارپائی تھی۔ نیچے بوسیدہ سا قالین بچھا ہوا تھا۔مردوں کی ہڈیاں، کافور اور مختلف قسم کی خوشبویات حجرے میں پھیلی ہوئی تھیں۔
موتی ملنگ کے ماتھے پر اب پسینے کے قطرے نظر آ رہے تھے۔ وہ چارپائی پر یوں بیٹھا جیسے دن بھر کی مشقت سے ہارا ہوا شخص بے سدھ ہو کر گر پڑتا ہے۔
’’امرت کا پیالہ پلا دے کاکا۔‘‘ اس نے بھنگ کے کونڈے کی طرف اشارہ کیا۔ یہ تو میں جانتا ہی تھا کہ یہ ملنگ لوگ بھنگ میں چاروں مغز ملا کر اسے امرت کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہ سادہ پانی کی بجائے یہی امرت پیتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کے جسم بے جان ہو جاتے ہیں۔ میں نے پیالہ بھر کر اسے دیا تو ایک ہی سانس میں سارا پیالہ پی گیا۔
’’تم بھی پیؤ‘‘۔ اس نے پیالہ میری طرف بڑھایا۔
’’نہیں شکریہ۔ میں اس نعمت سے محروم ہوں۔‘‘ میں نے پیالہ کونڈے کے پاس رکھ دیا۔
’’پی لے کاکا۔ ترے سارے غم دور ہو جائیں گے۔‘‘
’’سرکار۔ آپ اور پی لیں‘‘۔ میں نے پیالہ بھر کر ۔ میرے دماغ میں عجیب سی چمک پیدا ہو گئی تھی۔ میں نے سوچا اسے بھنگ پلا کر اس سے بہت سی باتیں معلوم کی جا سکتی ہیں۔ شراب اور بھنگ پینے والے کی ذہنی رو بھٹک جاتی ہے۔ اس نے دوسرا، تیسرا اور پھر چوتھا پیالہ میرے ہاتھوں سے پی لیا۔ جب میں پانچواں پیالہ اسے پلانے لگا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’دیکھ ترے ہاتھوں سے چار پیالے پی لئے ہیں۔ اب ایک تو پئے گا۔‘‘
میں نے کلائی چھڑوانے کی کوشش کرنے لگا تو وہ ایک دم جلالی انداز میں بولا۔ ’’اب اگر تو نے میری بات نہ مانی تو مار کر اس قبرستان میں دفن کر دوں گا۔‘‘
میں جس مقصد کی خاطر اس سے ملا تھا اگر بھنگ نہ پیتا تو وہ ناراض ہو جاتا اور میرا مقصد فوت ہو جاتا۔ میں نے اس کے ہاتھوں سے پیالہ لیا اور قدرے ناگواری کے ساتھ پینے لگا لیکن پہلا ہی گھونٹ پینے کے بعد اسکے ذائقہ نے مجھے اطمینان کے ساتھ امرت پینے پر مجبور کر دیا۔ یہ ذائقہ میرے لئے نیا نہیں تھا۔ میں جب آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا ان دنوں مجھ پر پہلوانی کرنے کا جنون طاری ہو گیا تھا۔ میرے علاقے میں بہت سے نامی گرامی پہلوان رہتے تھے۔ گونگا پہلوان رستم ہند کا پوتا میرا کلاس فیلو تھا۔ میرے کچھ دوست بھی اس ورزش سے مستفیض ہو چکے تھے۔ پہلوانی کے دوران ریاضت کے بعد بادام، خشخاش اور مغزیات کے ساتھ کونڈے میں گھوٹ کر جو سردائی بنائی جاتی تھی موتی ملنگ کے امرت کا ذائقہ بالکل ایسا تھا۔ نہایت ٹھنڈا، شیریں۔
’’سواد آیا‘‘۔ موتی ملنگ نے میرا ہاتھ دباتے ہوئے پوچھا۔
’’جی بہت آیا۔‘‘ میں نے پیالہ ایک طرف رکھ دیا تو اس نے مجھے بھی چارپائی پر بٹھانے کے لئے کہا۔
بھنگ پینے کا اثر یہ ہوا کہ موتی ملنگ میرے ساتھ کھل کر باتیں کرنے لگا۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ نے پرندے کے پیروں کی ہڈیاں اپنے خون میں بھگونے کے بعد دوپٹے میں کیوں چھپا دیں۔ میرا ذہن ابھی تک الجھا ہوا ہے‘‘۔
موتی ملنگ نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی کے انداز میں بولا: ’’یہ بات تمہارے لئے بڑی عجیب ہو گی۔ حیرت سے مر جاؤ گے تم۔ اس لئے نہ ہی پوچھو تو اچھا ہے‘‘۔ لیکن میں بچوں کی طرح مچل کر اس کی خوشامد کرنے لگا تو وہ بولا۔’’ کاکے۔ یہ ایک ادھورا عمل تھا جسے میں نے پورا کرنا ہے۔ اگلی جمعرات کو نوچندی ہو گی اور میں اس رات اس عمل کو پورا کر دوں گا۔ پھر تمہارے ریاض شاہ کی مصیبت ٹل جائے گی‘‘۔
’’کک۔۔۔ کیا۔۔۔ ریاض شاہ کا نام سنتے ہی میں اچھل پڑا۔‘‘ تم کیا کہہ رہے ہو۔
’’کاکے۔۔۔ میں نے کہا تھا کہ تم پریشان ہو جاؤ گے۔ اب ایک اور بات سنو گے تو تمہاری پریشانی اور بڑھ جائے گی لیکن پہلے مجھے ایک پیالہ اور پلاؤ۔‘‘ موتی ملنگ کی آنکھیں خمار کے بوجھ سے کھینچی چلی جا رہی تھیں اور وہ ترنگ میں آ رہا تھا۔ میں چارپائی سے اٹھا تو مجھے احساس ہوا میرا پورا بدن آسمان پر اڑتے بادلوں کی طرح ہلکا پھلکا ہو گیا ہے۔ یہ بھنگ کا اثر تھا۔ موتی ملنگ کو ایک اور پیالہ پلانے کے بعد اس کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’تم میرے پاس آئے تھے کہ تم جان سکو وہ عامل کون تھا جسے پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اور وہ کیا کرنا چاہتا تھا۔۔۔ ہیں۔ یہی پوچھنا چاہتے تھے ناں تم۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ عامل۔ تمہارا ریاض شاہ تھا۔‘‘
’’کک کیا‘‘ میں ہکلا کر رہ گیا۔
’’یہ سچ ہے کاکے‘‘۔ موتی ملنگ زور دیکر بولا۔ ’’مکھن سائیں نے اپنے اثر و رسوخ کے زور پر اسے پولیس سے چھڑوا لیا تھا‘‘۔
’’وہ کیا کرنے آیا تھا یہاں‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’آہا۔ ہوس کی آگ مارا ہوا تھا۔ بڑا زخمی تھا۔ وہ کیا نام تھا اس لڑکی کا‘‘۔
’’زلیخا۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’ہاں زلیخا اور ایک وہ تھی۔ ہاں بلقیس۔‘‘ وہ دونوں لڑکیوں کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ مکھن سائیں نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اب وہ زلیخا کی پرچھائیں کی طرف بھی نہ دیکھے۔ کیونکہ اس کی نگرانی بزرگ کر رہے ہیں۔ پھر وہ بلقیس کے پیچھے پڑ گیا۔ مکھن سائیں نے اس کی یاری میں اسکے حقوق اسکو دے دیئے تھے۔ بڑی باغی ہرنی تھی وہ۔ یہ دوپٹہ جو ادھر میں نے کھوہ میں دبایا ہے یہ بلقیس کا تھا۔
’’وہ کیوں۔‘‘
’’وہ اس لئے کہ بلقیس کسی اور سے پیار کرتی تھی۔ ریاض شاہ نے عملیات کے زور پر اس کے دل کو جیتنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ لڑکی اس کو حاصل نہیں ہو سکی۔ اسی لئے وہ ایک عمل کرنے کے لئے یہاں آیا تھا اور مخبری ہونے پر پکڑا گیا۔ وہ پکڑا نہ جاتا لیکن اس روز میں یہاں نہیں تھا۔‘‘
’’لیکن موتی بادشاہ ریاض شاہ کو اس طرح ایک عمل کرنے کے لئے قبرستان کیوں آنا پڑا۔ اس کی روحانی قوتیں تو بہت زیادہ تھیں۔ بابا جی اور غازی سمیت بہت سے جنات اس کا پانی بھرتے تھے۔‘‘
’’کہتے تو ٹھیک ہو۔ مگرریاض شاہ سے بابا جی روٹھ گئے تھے۔ وہ پہلے بھی کالا علم کرتا تھا لیکن بعد ازاں اس نے نوری علم سیکھ لیا تھا اور اسی کے زور پر بابا جی اس کے پاس آ جاتے تھے لیکن اس کی حرام زدگیاں بابا جی کو گوارہ نہیں تھیں۔ وہ اس کی ماں اور بھائی کی لاج رکھتے تھے۔ پچھلے سال زلیخا کی شادی ہو گئی تو ریاض شاہ مکھن سائیں کے آستانے پر چلہ کرنے گیا تھا۔ اس نے زلیخا اس کے والدین اور تمہیں مارنے کے لئے مکھن سائیں کے ساتھ مل کر چلہ کاٹا تھا لیکن وہ تمہارے حضرت جی کی روحانی قوتوں نے ان سب کو بچا لیا۔ ریاض شاہ اپنی ناکامی پر تلملا اٹھا اور اس نے بلقیس کو حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ بلقیس کے والدین کو ریاض شاہ کی حقیقت معلوم ہو گئی تھی۔ وہ اس طرح کہ ایک روز وہ ملکوال گئے تو ملک صاحب نے انہیں ریاض شاہ کی اصلیت بتا دی تھی۔ ریاض شاہ مکھن سائیں کے آستانے سے بلقیس کے گھر میں منتقل ہو گیا تھا۔ وہ بے چارے اس سے ڈرتے تھے لیکن بلقیس بڑے پکے ارادے والی تھی۔ اس کے باوجود اس کی ہوس کا شکار ہو گئی۔ ریاض شاہ نے اس کے التفات کو اپنی طرف پورے کا پورا موڑنے کے لئے یہ چلہ کیا تھا۔ دراصل اب ریاض شاہ کسی قسم کی حکم عدولی نہیں چاہتا۔ اپنی خواہش کے مطابق سارے کام کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سارا سارا دن قبرستانوں، گندے نالوں اور ایسے مقامات پر بیٹھ کر کالا علم کے لئے چلے کاٹتا ہے۔
’’استغفراللہ۔ لاحول ولا قوۃ‘‘۔ میں زیرلب بڑبڑایا۔ ’’کیا میں اسے مل سکتا ہوں۔‘‘
’’کاکے۔ اگر حوصلہ ہے تو مل لو۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ اسے نہ ہی ملو تو اچھا ہے۔ ورنہ وہ تمہیں اپنے غضب کی آگ میں جلا ڈالے گا۔‘‘ تمہیں دیکھتے ہی اس کے زخم ہرے ہو جائیں گے۔ موتی ملنگ اب مجھ پر مہربان ہو چکا تھا اور مجھے ریاض شاہ سمیت اپنی دنیا کے کرتوتوں سے آگاہ کرتا چلا جا رہا تھا۔
موتی ملنگ کے منہ سے بلقیس کا نام سن کر میرے بدن میں سوئیاں سی چبھنے لگی تھیں۔ وہ لڑکی مجھ سے پیار کرنے لگی تھی۔ لیکن میں عشق کی منزل کا راہی نہیں تھا۔ اسے اس کی دیوانگی اور نادانی اور اپنے لئے اس کے دل میں احترام کو اندھی عقیدت سمجھتا تھا۔ میں نے اس پر احسان کیا تھا لیکن بدلے میں وہ مجھ سے متاثر ہو کر مجھ سے روح کا رشتہ قائم کرنا چاہتی تھی۔ اسی لئے میں اس سے دور ہو گیا تھا لیکن اب ریاض شاہ کے ہاتھوں اس کی پائمالی کی داستان سن کر میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے تھے۔ غم و غصہ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میں خود کو قصوروار سمجھنے لگا کہ بلقیس جیسی شرم و حیا والی لڑکی کو ایک کتے سے بدتر انسان کے ستم کا نشانہ بننے کے لئے تنہا کیوں چھوڑ دیا۔
مجھے یقین تھا کہ موتی ملنگ اپنے مرشد کے دوست کے خلاف میری مدد نہیں کرے گا۔ لہٰذا میں نے ریاض شاہ سے نپٹنے کے لئے کسی دوسرے طریقے پر غور شروع کیا۔ لیکن میں جو بھی سوچتا میرا ذہن اس طریقے کو اختیار کرنے سے گریز کرتا۔
میں موتی ملنگ سے معلومات لے کر واپس آ گیا تھا۔ کالج میں طلبا سیاست اور صحافت کی وجہ سے میرے بہت سے سیاسی ورکروں اور پولیس والوں سے رابطے تھے۔ میں نے چند خاص دوستوں سے مشورہ کیا کہ ریاض شاہ کے خلاف کس طرح سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اگر بلقیس اور اس کے والدین پولیس میں رپورٹ درج کرا دیں تو اس پر سخت ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے۔ ہم اس معاملے کو اخبارات میں اچھال کر اس کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں۔ یہی امید لیکر میں بلقیس سے ملنے چلا گیا تھا۔ لیکن اس کے گھر کے دروازے پر تالہ پڑا ہوا تھا۔ ہمسایوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ چند روز پہلے اپنا سامان لے کر کہاں گئے ہیں یہ کسی کو علم نہیں ہے۔ ہمسایوں کو ریاض شاہ کا حلیہ بتا کر اس کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ وہ شخص بھی انکے ساتھ ہی چلا گیا ہے۔
ریاض شاہ آناً فاناً سیالکوٹ سے غائب ہو گیا تھا۔ نہ جانے وہ بلقیس اور اس کے والدین کو کہاں لے گیا تھا۔ میں مکھن سائیں کے پاس نہیں جا سکتا تھا لہٰذا میں نے موتی ملنگ سے دوستی گانٹھ کر اس سے ریاض شاہ کا پتہ کرانے کی کوشش کی تو اس نے صرف دو باتیں بتائیں کہ ریاض شاہ گوجرانوالہ اور ایمن آباد کے درمیان ایک کالی گھاٹ نامی خفیہ جگہ پر چلہ کرنے گیا تھا۔ یہ جگہ سفلی علوم کرنے والوں کے لئے جنت کا درجہ رکھتی تھی۔ کالے عملیات کرنے والوں نے اس جگہ کا خفیہ کوڈ نیم کالی گھاٹ رکھا ہوا تھا۔ اسے تلاش کرنا بڑا مشکل تھا۔ دوسری بات اس نے یہ بتائی کہ ریاض شاہ لاہور چلا گیا ہے۔ وہ اس کے گھر کا پتہ نہیں دے سکا تھا۔
بلقیس کی بربادی اور ریاض شاہ کی سفاکی نے میرے دل و دماغ میں تلاطم برپا کر دیا تھا۔ لاچارگی اور غصہ کی ملی جلی کیفیات نے مجھے مہینوں اپنے کمرے میں بند رہنے پر مجبور کر دیا۔ کبھی کبھار میں بابا تیلے شاہ بیری والی سرکار حتیٰ کہ پیر کاکے شاہ کے دربار پر بھی گیا لیکن ایک عام زائر کی طرح واپس آ جاتا تھا۔ سارے سلسلے بند ہو گئے تھے۔
میں نے بی اے کا امتحان اچھے نمبر لیکر پاس کر لیا تھا۔ میں مزید پڑھنا چاہتا تھا۔ والد محترم نے اپنے تعلقات استعمال کر کے مجھے نائب تحصیلدار بھرتی کرانے کی کوشش کی لیکن میں نے اب فیصلہ کر لیا تھا کہ سوائے صحافت کے میں کسی دوسرے شعبے میں نہیں جاؤں گا۔ سیالکوٹ سے باہر نکلنے کے لئے میرے پاس اب یہی راستہ تھا کہ میں وکالت میں داخلہ لے کر لاہور آ جاؤں۔ پس میں نے تدبیر کی اور لاہور آ گیا۔ جس روز میں نے داتا کی نگری میں قدم رکھا میری آرزوؤں کے گلشن آباد ہوتے نظر آنے لگے۔ میرے عزیز رشتہ دار لاہور میں رہتے تھے۔ لیکن میں جس مقصد کی خاطر لاہور آیا تھا اس کیلئے میں ان کے ہاں نہیں رہ سکتا تھا۔ یتیم خانہ میں ان دنوں حمایت اسلام لاء کالج کی کافی شہرت تھی۔ میں نے وہاں داخلہ لے لیا۔ انہی دنوں فیملی میگزین کا آغاز ہو چکا تھا۔ چونکہ تحریر و تصنیف سے وابستگی تھی لہٰذا میں فیچر نگار کے طور پر فیملی میگزین کے لئے فیچر لکھنے لگا۔ اس دوران میں نے لاہور کے تمام عاملوں، مزاروں اور ایسے مقامات کی خاک چھان ماری جہاں جہاں عامل حضرات کے ملنے کی توقع ہوتی۔ میں لوگوں کو ریاض شاہ کا حلیہ بتاتا رہا لیکن کوئی بھی اس شخص کو نہیں جانتا تھا۔ اس تلاش بسیار میں میری حالت دگرگوں ہو گئی۔ بھوک اور افلاس سے نڈھال ہو گیا۔ داتا دربار پر جا کر لنگر سے پیٹ بھرتا، چوبرجی چوک کے لان میں رات گزارتا، رہنے کے ٹھکانے بھی چھن گئے تھے۔ بے کسی اور نامرادی کے باوجود میں نے دل نہیں چھوڑا۔ راتوں کو سٹریٹ لائٹس کی روشنی میں پڑھتا۔ اکثر رات گئے داتا دربار چلا جاتا اور صاحب مراد کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک پڑھتا رہتا۔ میرے کان ہر وقت بابا تیلے شاہ کی آواز سننے کے لئے بے چین رہتے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اگر اب مجھے ملے تو یہیں کہیں ملیں گے۔ داتا دربار کے اندر بہت سے سفید باریش اور نورانی چہروں والے بزرگوں کو غور سے دیکھتا رہتا کہ نہ جانے ان میں سے کوئی ایک میرے مطلوبہ بزرگ ہوں۔ اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ پھر ایک روز میرے بہنوئی لاہور آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ریاض شاہ کے بڑے بھائی سید اقبال حسین شاہ لاہور میں فلاں جگہ رہتے تھے۔ تم ان سے کیوں نہیں ملے۔ امید کے ہزاروں چراغ روشن ہو گئے اور میں اگلے ہی روز سید اقبال حسین شاہ کی تلاش میں نکل پڑا لیکن وہ اس جگہ سے کہیں دور جا چکے تھے۔ مجھ پر مایوسی کا شدید دورہ پڑا۔ کئی روز تک میری حالت بھی خراب رہی۔ لیکن پھر مجھے فیملی میگزین کے مستقل رکن بننے کا موقع مل گیا تو میرے دن رات صحافتی ذمہ داریوں میں غرق ہو گئے اور وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا لیکن اب میرا دل بازاری عاملوں سے شدید ترین نفرت کرنے لگا تھا۔ میں ان لوگوں کے گھناؤنے کرتوتوں سے آگاہ تھا لہٰذا میں نے کئی بار ایسے ایسے مضامین اور فیچر لکھے جس سے ان کی اصلیت سامنے آ جاتی تھی اور پولیس ان عاملوں کے پیچھے پڑ جاتی۔ حتیٰ کہ اعلیٰ سطح پر بھی ان کے خلاف کارروائیاں ہوتیں۔ انہی دنوں ایک معروف عامل سے میری ملاقات ہو گئی۔ میں نے سید اقبال حسین اور ریاض شاہ کو تلاش کرنے کے لئے ان سے مدد مانگی۔ 1999ء میں بالآخر ہم سید اقبال حسین کا گھر تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں اپنے ایک دوست ظفر سجاد کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ تو وہ غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ملے۔ تعارف ہوا۔ تو بولے۔
’’خدائے لم یزل کی قسم۔ کوئی مجھے اس بے غیرت کا پتہ دے میں اس کو سونے میں تول دوں۔ اس نے ہمارا ایمان خراب کر دیا ہے۔ میں اس کو ختم کر ڈالوں گا۔ اس نے میرے نام پر میرے عقیدت مندوں کو لوٹا ہے‘‘۔ سید اقبال حسین ایک حلیم الطبع اور شریف النفس انسان تھے۔ کہنے لگے۔ ’’اس کی وجہ سے ہم برباد ہو گئے ہیں‘‘۔
ان دنوں وہ شدید ترین بحران کا شکار تھے۔ گویا وہ سخت ترین سزاؤں سے گزر رہے تھے۔ ان کا ایک بیٹا جو ریاض شاہ کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ ناگہانی آگ لگنے سے جھلس گیا تھا اور دوسرا بیٹا خطرناک حادثے کے بعد شالیمار ہسپتال میں پڑا تھا۔ سید اقبال شاہ نے کہا۔ ’’میرے بھائی۔ جنات کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ نیک و بد جنات سے جب جان چھڑانی ہو تو یہ سزائیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے انہیں گلے سے لگا لیا۔ میں ان کے بیٹے کی تیمارداری کے لئے شالیمار ہسپتال چلا جاتا۔ ان سے پھر میرا مستقل رابطہ رہنے لگا لیکن میں نے ایک بات صاف محسوس کی تھی کہ وہ مجھ سے کھل کر باتیں کرنے اور ملاقات سے گریزاں ہونے لگے تھے۔ انہوں نے جواہرات کا کاروبار بھی شروع کر دیا تھا چند مہینے بعد ان کے دونوں بیٹے صحت یاب ہونے لگے تھے تو وہ پھر کاروبار پر نکلنے لگے۔ موچی گیٹ کے باغ میں وہ جواہرات لیکر جاتے اور نگینے بیچنے لگے۔ ایک روز میں ان کے گھر گیا تو وہ قدرے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ میرے سامنے جواہرات کا صندوق کھول کر کہنے لگی۔ ’’بھائی۔ اس میں سے اپنی پسند کا نگینہ اٹھا لو۔‘‘ ان کے پیار بھرے انداز سے میں متاثر ہوا۔ میں نے کہا۔ ’’نگینہ تو میں لے لوں گا لیکن اس کے پیسے دوں گا۔‘‘
’’ارے آپ سے پیسے لینے ہیں۔ بالکل نہیں۔ فی الحال مجھے حکم ہوا ہے کہ تمہیں تمہاری مرضی کا نگینہ دے دوں‘‘۔ ان کے چہرے پر اس روز بڑا سکون نظر آیا۔
میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھا اور مجھے لگا جیسے ہزاروں آنسو میرے حلق میں آ ٹھہرے ہیں اور ایک میٹھا گداز احساس نمو پانے لگا ہے۔ ’’شاہ صاحب۔ کس نے آپ سے کہا ہے نگینہ دینے کو بابا جی نے ۔اگر انہوں نے کہا ہے تو مجھے بابا جی سے ملا دیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میری آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’برسوں بیت گئے ان کے ہجر میں۔ بہت کچھ لٹ گیا ہے میرا۔ میں ان سے ملنے کی تمنائیں لیکر یہاں آیا تھا‘‘۔
’’شاہد‘‘۔ ان کے چہرے پر ایک دم اکتاہٹ اور سختی پیدا ہو گئی‘‘! بابا جی کو بھول جاؤ۔ اگر تم پر ان کی اصلیت کھل گئی تو تم تڑپ تڑپ کر مر جاؤ گے‘‘۔ میرے آنسو پلکوں میں ٹھہر گئے اور میں شاہ صاحب کی طرف حیرت آمیز مگر ملتجی نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’سنو۔ اگر سن سکتے ہو تو سنو۔ جنہیں تم بابا جی کے برگزیدہ جنات کہتے ہو، سمجھتے ہو۔ وہ جن نہیں تھے‘‘۔
’’کک۔۔۔ کیا۔ شاہ صاحب۔ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ وہ جنات نہیں تھے تو کیا تھے‘‘۔ شاہ صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری اور کمرے کے روشندان کی طرف دیکھنے لگے اور جب وہ بولے تو میری سماعت پر ہزاروں ٹن جلتا ہوا بارود گرنے لگا۔