دروازے کے عین اوپر ایک سبز رنگ کا زیرو کا بلب روشن تھا۔ ادھرآسمان پر گہرا سناٹا اور اندھیارا۔۔۔ اور ادھر سبز روشنی میرے قلب و نظر میں ملجگے اجالے پیدا کر رہی تھی۔ میں نے دیوار سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے اپنے اللہ کا ذکر کرنے لگا۔ درود پاکؐ پڑھتا رہا۔ وظائف جو یاد تھے تکرار سے پڑھتا رہا پھر اپنا اسم اعظم پڑھنے لگا چند لفظوں پر مشتمل یہ کلمات بہت ہی زود اثر ہوتے ہیں۔ یہ اسم اعظم جو اسمائے الہٰی سے بنائے جاتے ہیں اگر فٹ بیٹھ جائیں تو سمجھ لیں آپ کے روحانی کمپیوٹر کو وہ پاس ورڈ مل گیا جو کمپیوٹر کے رابطے عرش پر رکھی لوح محفوظ سے جوڑ دیتا ہے۔ استغراق اور انہماک کے ساتھ پڑھنے سے رب ذوالجلال بندے کو اپنی عطا اور رحمت سے نوازتا ہے۔ اس کی مردہ تقدیر میں جان ڈال دیتا ہے گویا تقدیر بدل دیتا ہے۔ یہ صرف میرے اللہ کے اختیار میں ہے اور اللہ سے رابطہ کے لئے اس کا ذکر ہی کافی ہے۔ میں ذکر الہٰی کے خمار میں اس قدر کھو گیا تھا کہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ جاگ رہا ہوں یا سو رہا ہوں۔ میں ساعتوں کے گزرنے سے بے خبر تھا۔ دھیرے دھیرے بے چاپ گزرتے لمحوں نے مجھے قرب الہٰی کے احساس سے مالامال کر دیا تھا۔ میرے قلب و نظر پر چھائی کدورتوں کی میلی چادر ہٹ گئی تھی۔ میں نے اس وقت آنکھیں کھولیں جب مسجد کے موذن نے ہلا جلا کر مجھے بیدار کیا لیکن وہ خمار پھر بھی آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔ موذن نے اسے کوئی اور ہی معنی دیا۔ درشت لہجے میں بولا
’’ابے نشہ کرکے اللہ کے گھر پر ڈیرہ کیوں ڈالے پڑا ہے کوئی اور جگہ نہ ملی تھی تجھے‘‘
میں موذن کو بس ایک ٹک دیکھتا رہا۔ اسے غصہ آ گیا
’’گھورتا کیا ہے ابے۔ چل اٹھ بھاگ یہاں سے‘‘
’’مولوی صاحب غصہ کیوں کرتے ہو۔ میں تمہارے گھر پر چوکی لگا کر نہیں بیٹھا۔ یہ میرے اللہ کا گھر ہے۔ اس نے برا نہیں منایا تو کیوں غصہ کرتا ہے‘‘
موذن میرا ٹوٹا ہوا اورخمار آلود لہجہ دیکھ کر تپ گیا۔
’’اپنی ناپاک زبان سے اللہ کا نام لیتا ہے۔ شرم نہیں آتی۔ شکل سے تو پڑھا لکھا لگتا ہے لیکن کرتوت نشیوں جیسے‘‘
’’مولوی صاحب میری زبان پاک ہے ۔تم اپنی زبان کو چیک کراؤ میرے ساتھ مغز ماری نہ کرو اور تالا کھولو‘‘ موذن نے میرے لہجے کی کاٹ کومحسوس کیا کہ یہ کوئی بگڑا ہوا نوجوان ہے۔ اس کے دل میں نہ جانے کیا آیا کہ پھر نہیں بولا اور مجھے گھورنے پر اکتفا کرکے دروازہ کھول کر مسجد میں چلا گیا۔
میں بھی اٹھا۔ لڑکھڑاتا ہوا مسجد میں داخل ہو گیا۔
’’تو اندر آ گیا۔۔۔ نجاست پھیلانا چاہتا ہے۔ چل باہر نکل۔۔۔‘‘ موذن نے مجھے دیکھا تو زور سے میرا بازو پکڑ کر دھکیلنے لگا۔ اکڑاؤ کی وجہ سے مجھ سے سیدھے ہو کر چلنا مشکل تھا۔ موذن نے میری لڑکھڑاتی چال دیکھ کر سمجھا کہ میں نشہ کی حالت میں ہوں۔۔۔ وہ میری باطنی کیفیت نہیں سمجھ سکتا تھا۔۔۔
’’مولوی صاحب۔۔۔ میں نشہ میں نہیں ہوں۔۔۔ آپ اندر جائیں اور اذان دیں۔ میں نماز پڑھ کر چلا جاؤں گا۔۔۔‘‘ مسجد کے آداب ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے نرم انداز میں کہا۔
’’نشہ میں نہیں ہے۔۔۔‘‘ موذن نے گھور کر دیکھا۔ ’’ابے تری آنکھیں چڑھی ہوئی ہیں اور یہ بہک بہک کر چلنا۔ استغفراللہ۔ اللہ کے گھر میں آ کر جھوٹ بولتے ہو۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔‘‘ موذن نے میرا بازو نہ چھوڑا اور مجھے باہر دھکیلنے سے باز نہ آیا۔۔۔ اس اثنا میں اندر سے کسی کی گھمبیر آواز آئی۔
’’قادر بخش کس سے جھگڑ رہا ہے۔۔۔‘‘
’’علامہ صاحب ایک نشئی مسجد میں گھس آیا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا کہتا ہے۔۔۔‘‘
’’کہتا ہے نماز پڑھنے آیا ہوں۔ لیکن مجھے تو یہ چور لگتا ہے۔ ٹوٹیاں کھول کر اور جوتیاں اٹھا کر بھاگ جائے گا۔۔۔ اس لئے باہر نکال رہا ہوں مگر یہ نکلتا ہی نہیں۔۔۔‘‘
’’قادر بخش اسے اندر آنے دو۔۔۔ نماز سے نہ روکو۔۔۔ اس کی نیت کیا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ تو آ کر اذان دے، وقت ہو رہا ہے۔‘‘ موذن قادر بخش نے مجھے بے بسی سے گھور کر دیکھا مگر جاتے جاتے دانت چبا کر بولا۔ ’’اگر تو نے کوئی گڑبڑ کی تو ترا چم ادھیڑ دوں گا۔‘‘ وہ کھلے ڈیل ڈول والا شخص تھا۔ ہاتھ سخت اور وزنی تھے۔ وہ واقعی میری چمڑی ادھیڑ سکتا تھا۔۔۔ میں اس سے الجھ نہیں سکتا تھا۔ بے وجہ ایک وہم میری ظاہری حالت سے دغا کھا رہا تھا۔۔۔ ویسے اسکی بات صحیح تھی مگر صرف اتنی۔۔۔ میں تو اپنے آپ کے ذکر کا خمار لئے بیٹھا تھا۔ میں نے اسکی بات کا پھر برا نہیں منایا۔ وہ نشئی سمجھتا تھا مجھے اور میں نے قبول کر لیا کہ ہاں میں واقعی نشہ میں ہوں مگر یہ نشہ اسکی سمجھ سے بالاتر تھا۔ میں وضو کر چکا تو اس دوران فجر کی اذان ہو چکی تھی۔ مسجد بہت بڑی نہیں تھی۔ ایک کنال رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ اسکا ایک بڑا ہال تھا۔۔۔ جس طرف غسل خانے تھے اس سے چند قدم کے فاصلہ پر ایک حجرہ کے آثار دکھائی دیتے تھے۔ گھمبیر آواز ادھر ہی سے سنائی دی تھی۔
میں وضو کر کے مسجد کے ہال میں پہنچا تو وہاں موذن کے علاوہ ایک عمر رسیدہ بزرگ نظر آئے۔ سفید لمبی ریش۔ سر پر سفید عمامہ‘ سفید ململ کا کرتہ اور نیچے تہبند۔ وہ نوافل ادا کر رہے تھے۔ میں نے فجر کی سنتیں ادا کیں اور ایک طرف بیٹھ کر ذکر کرنے لگا۔ نماز کا وقت ہونے پر دس بارہ نمازی حضرات آ گئے۔ اس بزرگ نے امامت کرائی۔ نہایت خشوع و خضوع رقت آمیز انداز میں تلاوت کی۔ نماز کے بعد ان کے دعا کرنے کے انداز نے مجھے مسحور کر دیا۔ نماز کے بعد لوگ چلے گئے۔ مگر میں انہیں دیکھتا رہا۔ میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے ایک آدھ بار مجھے طائرانہ نظروں سے دیکھا تھا۔ موذن بھی دیکھ چکا تھا کہ میں نے نماز پڑھی ہے۔ اسکے چہرے کا تناؤ اور نفرت بھی ختم ہو گئی تھی۔
نماز کے بعد بزرگ وضع شخص قرآن پاک پڑھنے کے لئے بیٹھ گئے۔ میں ان کے قریب ہو گیا۔ مجھے دیکھ کر دھیرے سے بولے۔
’’قادر بخش کا تجربہ اپنا ہے۔ ایک دو بار نشئی مسجد سے ٹوٹیاں اور سٹیل کے لوٹے چوری کر کے لے گئے تھے۔ اس لئے یہ تالا لگا کر جاتا ہے۔۔۔ معاف کرنا بیٹے۔ قادر بخش نے تمہیں بہت کچھ کہہ دیا۔۔۔‘‘ وہ بزرگ بولے۔
’’علامہ صاحب۔ اس میں ان کا کیا قصور۔ میری حالت دیکھ کر انہیں یہی گمان ہونا تھا۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کہاں سے آئے ہو۔۔۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔ میں نے مختصر الفاظ میں بتا دیا کہ سواری نہ ملنے کی وجہ سے یہ رات یونہی گزر گئی ہے۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ وہ گہرے انداز میں سانس لیکر میری طرف دیکھنے لگے۔
’’اللہ تمہیں اس مشقت اور تکلیف پر صبر اور اجر فرمائے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ قرآن پاک کی سورۃ جن پڑھنے لگے۔ میں کامل توجہ سے تلاوت سننے لگا۔ اس وقت موذن اور صرف میں ہی مسجد میں موجود تھے۔ لیکن نہ جانے مجھے کیوں احساس ہونے لگا کہ تلاوت سننے کے لئے فرشتے اور جنات بھی جوق در جوق یہاں کھنچے چلے آئے ہیں اور مسجد کا ہال اور صحن ان کے خفیف اور لطیف وجود سے بھر چکا ہے۔ ایک گھنٹہ تک میں تلاوت کلام پاک سے محظوظ ہوتا رہا۔ اجالا اب پھیل چکا تھا۔ میں ان سے اجازت لیکر اٹھنے لگا کہ عین اس وقت ایک عورت سات آٹھ سال کے بچے کو سینے سے لگائے بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئی۔
’’علامہ صاحب میرے لعل کو بچا لیں۔ اسے پھر دورہ پڑ گیا ہے۔‘‘
بچے کے ہا تھ پیر تشنج کے انداز میں اندر کو مڑے ہوئے تھے۔ چہرہ ایک طرف کو کھچا ہوا تھا اور سانس اٹک اٹک کر آ رہی تھی۔ ہونٹوں کے کناروں سے رالیں بہہ رہی تھیں۔
علامہ صاحب نے بچے کو چٹائی پر لٹانے کے لئے کہا اور آیات قرآن پاک پڑھ کر بچے پر پھونکنے لگے۔
***
علامہ صاحب کی شخصیت سے میں پہلے ہی مرعوب ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھوں میں دیکھنا بہت مشکل کام تھا۔ گہری سیاہ اور جگ رتوں سے تھکی ہوئی آنکھیں تھیں ان کی۔ لیکن چہرے پر ایسا اطمینان تھا جو صرف اللہ کے شاکر بندوں کو نصیب ہوتا ہے۔ پہلے وہ زیرِلب کچھ پڑھتے رہے تھے۔ پھر انہوں نے سورہ جن میں سے مخصوص آیات پڑھ کر بچے پر پھونک ماری تھی۔ ایک بار‘ دو بار‘ تین بار۔ بچے کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔ علامہ صاحب یہی آیات بار بار پڑھتے رہے۔ کچھ ہی دیر بعد بچے کے تشنج شدہ ہاتھ پاؤں پھڑکنے لگے۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے پانی سے نکالی ہوئی مچھلی پھڑک پھڑک کر آخری دم لیتے ہوئے وقفے وقفے سے پھڑکتی ہے۔ یہ دیکھ کر علامہ صاحب کے ماتھے پر شکنیں پیدا ہوئیں۔
میں کئی روز سے اللہ کے بندوں اور عملیات کرنے والوں کو نہایت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ ایک ولی‘ عامل‘ ملنگ‘ مجذوب اور امام مسجد کے درمیان روحانی استقامت کا بنیادی فرق جو محسوس کیا ہے وہ علامہ صاحب کے ہاں دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے کسی تعویذ دھاگے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ لگتا تھا بچہ ماں کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر جان دے ڈالے گا۔ اس پر قابض شے نے اس کی رگوں میں اپنے پنجے بری طرح گاڑھ رکھے تھے۔ علامہ صاحب کی جبیں تفکر سے صرف ایک بار آلودہ ہوئی تھی۔ انہوں نے بچے کی حالت اور وظائف کو بے اثر دیکھا تو بچے کی ٹیڑھی میڑھی انگشت شہادت کو اپنے انگوٹھے اور انگشت شہادت میں دبا کر دوبارہ سے آیات قرآنی پڑھنے لگے تھے۔ بچے کو جھٹکے لگنے بند ہو گئے اور وہ آنکھیں جھپکنے لگا۔ خدا کی پناہ۔ اس کی آنکھیں کسی بھیڑئیے کی مانند نظر آ رہی تھیں۔ اس نے ایک نظر اپنی ماں کی طرف دیکھا پھر دوسری نظر مجھ پر ڈالنے کے بعد علامہ صاحب کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس کے چہرے کے خدوخال بدلنے لگے اور گلے سے غراہٹ پیدا ہونے لگی۔ یوں لگا جیسے بھیڑیا کسی طاقتور جانور کے سامنے بے بس ہو کر متاع عزیز بچانے کے لئے غرا رہا ہو۔
علامہ صاحب کے چہرے پر اب جلالی آثار پیدا ہونے لگے۔ انہوں نے سورہ جن کی آیات اور آیت الکرسی پڑھ کر اس کی آنکھوں پر پھونک ماری تو بچے کے حلق سے بھیڑئیے کی آخری غراہٹ سنائی دی اور آنکھوں میں جیسے شعلہ سا بلند ہو کر بجھ گیا تھا۔ بچہ نڈھال ہو کر ماں کی گود میں گر گیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور چہرہ معمول کی حالت میں آ گیا۔
علامہ صاحب نے قادر بخش کو آواز دی ’’مولانا ٹوٹی سے پانی لے آؤ‘‘ قادر بخش جلدی سے اٹھا اور پلاسٹک کی ایک بوتل میں پانی بھر کر لے آیا۔ علامہ صاحب نے پانی کو دم کیا اور خاتون کو دے کر بولے ’’بچے کو ایک ہفتہ تک بوتل سے پانی پلانا۔ کم ہو جائے تو بسم اللہ پڑھ کر تازہ پانی شامل کر لینا‘‘
خاتون علامہ صاحب کو دعائیں دینے لگی ۔اس نے بچے کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور واپس چلی گئی۔ نہ اس نے کوئی نذرانہ دیا نہ علامہ صاحب نے اسے صدقہ اور ہدیہ دینے کے لئے کہا۔ میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی ورنہ اب تک تو میں یہی دیکھتا اور سنتا آ رہا تھا۔ تعویذ دھاگے کے نام پر کاروبار منبر پر بیٹھ کر بھی ہو رہا ہے۔ ایک صحافی کی حیثیت میں میرے لئے اس کاروبار کے گھناؤنے پہلو اب پوشیدہ نہیں رہے تھے۔ جنات‘ بھوت‘ پریت‘ کالا جادو، نظر وغیرہ جیسے سحری معاملات کے علاج معالجے اور روحانیت کے درپردہ خانقاہوں میں کاروبار کا چراغ جلانے والے بہت سے چہرے میرے سامنے بے نقاب ہو رہے تھے۔ میں ان تلخ حقائق سے کبھی نظریں نہیں چرا سکتا تھا۔ یہ سب کاروبار اور ڈھکوسلا بھی ہو رہا تھا اور پراسرار دنیا کے راز بھی مجھ پر آشکار ہو رہے تھے۔ لیکن ایک عالم دین کو یوں صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر ایک سحری عمل کا توڑ کرتے دیکھ کر مجھے حیرت آمیز خوشی ہو رہی تھی۔ حیرت تو اس بات پر تھی کہ انہوں نے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا تھا اور خوشی اس بات کی تھی کہ انہوں نے سحری توڑ کے لئے قرآن پاک کی آیات مبارکہ کے علاوہ کوئی ایسی غیر اسلامی حرکت نہیں کی تھی جسے دیکھ کر میرے دل میں چبھن ہوتی۔ میں اپنے دلی جذبات کا علامہ صاحب سے اظہار کئے بغیر نہ رہ سکا۔
’’حضرت آپ نے اس دکھیاری عورت کے بچے کو ایک عذاب ناک مرض سے بچا لیا ہے۔ حیرت ہے آپ نے اس سے صدقہ خیرات کے نام پر کچھ بھی طلب نہیں کیا‘‘
’’ہوں‘‘ میری بات سن کر وہ گہری سانس بھر کر بولے۔ قبل اس کے وہ کچھ بولتے۔ تین نوجوان اندر داخل ہوئے اور قطار بنا کر علامہ صاحب سے ہاتھ ملا کر ان کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر نہایت عقیدت سے دو تین قدم پیچھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک نے مٹھائی کا بڑا ڈبہ ان کے قدموں میں رکھ دیا۔
’’بھئی یہ کیوں لے آئے۔ اس کی کیا ضرورت تھی۔ خیرت سے ہو ناں‘‘ علامہ صاحب نے آنے والوں سے پوچھا
’’جی حضرت جی ۔اللہ پاک کا کرم ہے۔ اس کے فیض سے ابا جی کی ضمانت ہو گئی ہے۔ طبیعت خراب تھی اس لئے خود زیارت کے لئے حاضر نہیں ہو سکے حالانکہ ضد کر رہے تھے کہ جب تک حضرت جی کی زیارت نہیں کر لیتے انہیں سکون نہیں ملے گا‘‘
’’اللہ تیرا شکر ہے‘‘ علامہ صاحب جنہیں آنے والے حضرت جی کہہ رہے تھے اب میری طرف متوجہ ہوئے اور نہایت شفقت کے ساتھ بولے ’’میرا اللہ اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ جس نے اس کے دامن کو تھام لیا وہ طوفانوں سے نکل جاتا ہے۔ مصائب کی تلوار ان کا بال بھی بیکا نہیں کرتی۔ اللہ جل شانہ ہر شے پر قادر ہے۔ اس کی رضا کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس نے وعدہ کیا ہے اور اللہ کا وعدہ حق ہے۔ وہ ذات اعلیٰ مقام فرماتی ہے مجھ سے خلوص دل سے مانگو میں تمہیں عطا کر دوں گا۔ کیا نام ہے آپ کا‘‘ حضرت جی نے اچانک رک کر میرا نام پوچھا ’’شاہد‘‘ میں نے نام بتایا تو بولے ’’سبحان اللہ‘ یعنی محبوب اور عزیز‘ گواہی دینے والا۔ میرے بچے اللہ تمہیں اس نام کی صداقت سے مالا مال کرے اور تمہیں حق گوئی اور حق شناسی کی قوت سے سرفراز کرے۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا اس کائنات میں جو کچھ ہے رب ذوالجلال کے ’’کن‘‘ کی محتاج ہے۔ ہر حرف میں اس کی عطا اور حکمت ہے۔ اس لئے تو قرآن پاک مطہر و موثر ہے۔ یہ کلام الہٰی ہے۔ اللہ پاک جس زبان میں کلام فرماتا ہے وہ یہی زبان ہے۔ قرآن پاک اعجاز ربی ہے اور جو اس کلام ربی کو سمجھ لیتا ہے اس نے گویا شفا کے دست قدرت کو حاصل کر لیا۔ کلام الہٰی طالب اور مطلوب کو اپنی شفا بخشتا ہے۔ تم نے جو پوچھا وہ میں نے کہہ دیا۔ اللہ کے کلام سے اس بچے کو شفا مل گئی‘ ان کے بے گناہ باپ کی ضمانت ہو گئی۔ اب بھلا میں اس کلام کے نام پر صدقہ خیرات اور نذرانہ کیوں طلب کروں۔ میں وہ والا تاجر نہیں ہوں جو جنس بیچتا ہے۔ تاجر تو ہوں۔ میرا سودا میرے اللہ سے طے ہوتا ہے۔ میرے کاروبار میں نفع ہی نفع ہے۔ میں اس کے کلام سے بدعقیدہ لوگوں کو بھی شفا کے راستہ پر لاتا ہوں تو وہ میری سختیاں دور کر دیتا ہے۔ سنو میاں‘ اللہ کا کلام سوائے اللہ کے کسی اور کو نہیں بیچا جا سکتا۔ اللہ سے یہ کاروبار کرنا اچھی بات ہے۔ یہ دس بیس روپے کا تیل خرید کر دئیے جلانے کا عمل اللہ کی شریعت نہیں ہے۔ یہ عقائد ہو سکتے ہیں۔ میں اور تم کون ہو سکتے ہیں۔ مجھے بتاؤ اللہ کے انبیاءؑ ‘ صحابہ کرامؓ‘ خلفائے کرام‘ آئمہ کرام‘ اولیا کرام میں سے کسی نے اس روایت کی بنیاد رکھی ہے۔ میاں یہ کام ممنوعہ ہے۔ گمراہ مسلمانوں نے نعوذ باللہ قرآن پاک کی مقدس آیات کو غلط کاموں کے لئے استعمال کیا ہے وہ جہنمی ہیں اور جہنم کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ یہ عمل باندھنے اور توڑنے والے لوگ ہیں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے کو کشف حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کی دعا میں تاثیر ہوتی ہے۔ اللہ اپنے محبوب کلام کی مدد سے مانگی گئی دعا رد نہیں کرتا‘‘
حضرت جی کی باتیں میرے دل میں اتر گئیں۔ ایسا لگا جیسے شریعت اور روحانیت کے راستے جدا جدا ہیں مگر منزل ایک ہے۔ ایک قاعدے کی پابند ہے ایک راہ فنا کی مسافر ہے۔ ان باتوں کو سمجھنے کے لئے دماغ سکندری کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن ذرا سے غور نے مجھے یہ نکتہ سمجھا دیا تھا کہ اصل روحانیت شریعت کے بطن سے جڑی ہوئی ہے۔
میں جنہیں صرف ایک امام مسجد سمجھ رہا تھا ان کے کاسہ دامن کو اللہ نے روحانیت کی دولت سے بھرا ہوا تھا۔ آنکھوں میں جگ رتوں کے دیپ شب بیدار ہونے کی علامت تھے۔ ساری رات اللہ کا ذکر کرتے رہتے۔ فجر کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تعلیم دیتے اور سائلوں کے مسائل سنتے۔ آٹھ نو بجے صبح سے لیکرنماز ظہر تک نیند لیتے اور پھر بیدار ہونے کے بعد مصیبت زدہ لوگوں کی داد رسی کرتے۔ اس کے سوا ان کی کوئی مصروفیت نہیں تھی۔
ان کی تعلیمات دیکھ کر مجھے خود پر ندامت محسوس ہوئی اور دل سے اقبال کے شعر کا یہ مصرعہ نکلا۔ ’’نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں‘‘ ایک طرف قرآن بمثل مینارہ نور تھا اور دوسری طرف عملیات کے ظلمت کدے میں کھڑے اپنے دیئے جلانے والے کھڑے نظر آ رہے تھے۔ ایک فطری اور ازلی روشنی اور اجالا اور دوسری طرف بے ثبات چراغ۔ میری مثال بالکل اس شعر کی مانند تھی۔
نور کا طالب ہوں گھبراتا ہوں اس بستی میں
طفلکِ سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ روحانیت کی منزل میری جستجو تھی لیکن میں اس راہ کی بھول بھلیوں میں پڑ گیا تھا اور سیدھے راستے پر جو قرآن دکھاتا اسے نہیں اپنا رہا تھا۔ نہ جانے کیوں۔ ایمان کی کمزوری کی وجہ سے۔ یا پھر دنیا کی لذت نے مجھے اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا۔ دنیا کے گل و گلزار دیکھ کر میں خلد کی تمنا سے عاجز آ گیا تھا۔ دنیا شفق کی لالیوں جیسی بھلی لگ رہی تھی مجھے۔ اس کی نظارگی نے مجھے نیم بسمل کر دیا تھا حالانکہ میں جانتا تھا اگر میں خیال و عمل کی اس پگڈنڈی پر چلتا رہا تو صبح خزاں مجھے راستے میں ہی پکڑ لے گی اور میں عمر رسیدہ برگد کی طرح ادھر کہیں گم ناک راستوں میں بکھر جاؤں گا۔
حضرت جی نظربیں انسان تھے۔ آفرین ہے انہوں نے میرے اندر کے ایک کوڑھ مادہ پرست انسان کو دیکھ لیا لیکن انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا البتہ دو لفظوں میں سب کچھ سمجھا دیا تھا ’’بہتر عمل اور راہبر قرآن پاک ہے‘‘
میں نے ان کے اس ارشاد کو نصیحت سمجھا اور عہد کیا کہ اس پر قائم رہوں گا۔ لیکن میں ابنِ آدم کی اس صف میں کھڑا تھا جو ناصح کی باتوں پر کان نہیں دھرتے۔
دس بجے کے قریب میں ملکوال چلا گیا۔ بڑے ملک صاحب کھیتوں میں گئے ہوئے تھے۔ نصیر اور شاہ صاحب ابھی تک سوئے پڑے تھے۔ چاچی نے مجھے دیکھتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا وہ سخت ناراض تھیں۔
’’کہاں چلا گیا تھا تو ۔۔۔ تیرے لئے دیسی گھی سے حلوہ بنایا تھا۔ دو پہرتیرا انتظار کرتی رہی ہوں‘‘
’’اچھا اب کھا لیتا ہوں چاچی‘‘ چاچی کے ہاتھوں کا بنا ہوا حلوہ نہایت لذیذ ہوتا تھا۔ ویسے بھی بھوک سے نڈھال تھا۔ حلوے کا سن کر پیٹ میں آنتوں نے ندیدوں کی طرح اچھل کود شروع کر دی۔
’’ایک لقمہ بھی نہیں باقی بچا۔ تمہارے حصے کا حلوہ تو غازی کھا گیا ہے‘‘
’’وہ کیوں کھا گیا ۔۔۔ کہاں ہے وہ‘‘
’’رات کو آیا تھا۔ ادھر باورچی خانے میں گھس گیا اور ضد کرکے کھا گیا ۔۔۔۔۔۔ یہ جن کا بچہ بھی بڑا شوہدا ہے‘‘ چاچی غازی کا ذکر کرتے ہوئے ہنسنے لگی۔
’’چاچی غازی کب آیا تھا‘‘ میرے ذہن میں کھلبلی سی مچی
’’یہی کوئی عشا کے بعد کی بات ہے۔ کہتا تھا چاچی آج تو تمہیں دیگ پکانی چاہئے۔ میں نے کہا دیگ بھی پکا دوں گی لیکن پھر کبھی۔ کہنے لگا ہائے چاچی اگر تو آج حلوے کی دیگ پکا کر مجھے دے دیتی تو تیری ساری مرادیں پوری ہو جاتیں۔ ہاں مجھے یاد آیا شاہد پتر ۔۔۔ اگر میں غازی کو حلوے کی دیگ پکا کر دے دوں تو کیا میری ساری مرادین پوری ہو جائیں گی‘‘
’’چھوڑ چاچی ۔۔۔ تو غازی کی باتوں میں آ گئی ہے۔ وہ شرارتی ہے۔ ابھی رات کو وہ مجھے کہہ رہا تھا ۔۔۔‘‘ کچھ کہتے کہتے میں بوکھلا گیا
’’ہیں ۔۔۔ تو رات بھر آیا نہیں تجھے کہاں مل گیا‘‘ چاچی نے میری بات پکڑ لی۔
’’نہیں ۔۔۔ دراصل وہ دو روز پہلے ملا تھا‘‘ میں نے بات بدل ڈالی ’’کہتا تھا میں چاچی کے ہاتھوں سے حلوہ کھانا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے اس نے آپ کو لالچ دینے کے لئے یہ کہہ دی ہو کیونکہ وہ بابا جی اور شاہ صاحب کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا‘‘
’’ہاں یہ تو ہے‘‘ چاچی کو جیسے سمجھ آ گئی۔
’’چاچا جی کب تک آ جائیں گے‘‘ میں نے پوچھا
’’اب تک انہیں آ جانا چاہئے‘‘ چاچی نے بتایا۔ اس اثنا میں حویلی کے گیٹ پر کسی نے زور زور سے کنڈی کھٹکھٹائی۔
’’لگتا ہے ملک صاحب آ گئے ہیں‘‘ چاچی نے سر پر چادر سیدھی کی لیکن پھر رک گئیں
’’لیکن وہ کیوں کنڈی کھٹکھٹائیں گے‘‘
’’دے خیر سخیا ۔۔۔ بری امام سرکار کے نام کی خیرات ۔۔۔ دے ملکانی‘‘
باہر سے آنے والی آواز کے ساتھ بھاری گھنگھرو کی چھن چھن سنائی دینے لگی۔ ایسے لگا جیسے بہت سارے بیل اپنے گلے میں لٹکائے ٹل کھٹکھٹاتے ہوئے بھاگ رہے ہیں
’’آئی بابا ۔۔۔ آئی‘‘ چاچی نے فقیر کی صدا سنتے ہی کہا اور جلدی سے اندر سے ایک رنگدار بڑی سی بیل بوٹوں والی چادر اور کچھ روپے مجھے تھما کر بولیں ’’جاؤ انہیں دے آؤ‘‘
مگر یہ سب کیا ہے‘‘ میں ہاتھ میں پکڑے روپے اور چادر کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔ چادر سے مجھے زلیخا کی مہک آ رہی تھی
’’پہلے دے آؤ پھر بتاؤں گی‘‘ وہ آہستہ سے بولیں جیسے انہیں ڈر ہو کوئی سن نہ لے۔ چاچی کی اس رازداری سے میرے کان کھڑے ہو گئے۔
میں حویلی کے دروازے پر گیا۔ باہر چار ملنگ کھڑے تھے۔ انہوں نے ایک بڑی سی سبز چادر کو چاروں کونوں سے پکڑا ہوا تھا۔ ان کی رانوں پر اور کمر پر بڑے بڑے سے پیتل کے گھنگھرو اور زنجیریں بندھی تھیں۔ وہ ہلتے تو گھنگھرو زوردار آواز سے بجنے لگتے۔ مجھے دیکھ کر ملنگ نے چادر آگے کی۔ میں نے روپے اس میں ڈال دئیے۔ ایک کہنہ سال ملنگ نے مجھ سے چادر لے لی اور جاتے جاتے بولا ’’ملک صاحب کو ہمارا سلام بول دینا۔ گٹھالی کے ملنگ آئے تھے نذرانہ پہنچ جائے گا‘‘ میں اندر آ گیا۔
’’دے آئے ۔۔۔ کچھ کہا تو نہیں‘‘ چاچی نے راہداری میں سراسیمہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ میں نے ملنگ کا پیغام چاچی کو دے دیا اور پوچھا ’’چاچی یہ کیا معاملہ ہے‘‘
چاچی نے میرے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا ’’چپ کر ۔۔۔ ملک صاحب آنے والے ہیں ان سے پوچھ لینا‘‘
ایک گھنٹہ بعد ملک صاحب آ گئے۔ چاچی نے انہیں ملنگوں کی بابت بتا دیا۔ مجھ سے کہنے لگے ’’یہ بری امام صاحب سرکار کے شاگردوں کے مریدوں کا جتھا تھا۔ اس کو یہ لوگ اپنی زبان میں ڈالی کہتے ہیں‘‘
’’ڈالی ۔۔۔ کیا مطلب؟‘‘ ’’یعنی اردو زبان میں جسے شاخ کہتے ہیں‘‘
’’مجھے نہیں پتہ‘‘ ملک صاحب کہنے لگے ’’میں زیادہ نہیں جانتا۔ مجھے صرف معلوم ہے کہ جب میں راولپنڈی سے نورپور شاہاں حضرت شاہ لطیفؒ کے مزار پر حاضری دینے گیا تو مجھے وہاں ان کے بارے میں معلوم ہوا۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ وہاں ایک میرے عزیز دوست کے پیرومرشد رہتے ہیں۔ میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا وہ پشاور گئے ہیں اور ’’ڈالی‘‘ کے ساتھ آئیں گے۔ میرے دوست نے مجھے بتایا ہے کہ ڈالی دراصل کسے کہتے ہیں۔ پشاور میں سرائے جہاں بیگم صاحبہ جو گور گٹھڑی کے نام سے معروف ہے وہاں حضرت بری سرکار کی گھٹالی ہے۔ یہاں بری امامؒ صاحب نے کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔ ان کے مریدین نے اس مقام کو محفوظ کر لیا اور وہاں بری امامؒ کے ملنگ اور عقیدت مند سارا سال آتے رہتے ہیں۔ جن دنوں بری امامؒ میں عرس ہوتا ہے اس سے آٹھ نو دن پہلے پشاور میں گھٹالی کے ملنگ اور مرید جلوس نکالتے اور خیرات اکٹھی کرتے ہیں۔ اس جلوس کو بری امام کی ڈالی کہا جاتا ہے۔ سرحد کے کونے کھدروں سے مریدین ’’ڈالی‘‘ میں شریک ہوتے اور آٹھ دن کا پیدل سفر کرکے بری امام کے مزار پر اس وقت پہنچتے ہیں جب عرس کا پہلا سورج طلوع ہوتا ہے۔ ان کے راستے میں آٹھ پڑاؤ ہوتے ہیں۔ اردگرد کے مقامی لوگ اس ڈالی کا استقبال کرتے ہیں۔ ابھی ڈالی کے نورپور شاہاں پہنچنے میں آٹھ دن باقی تھے کہ میں واپس آ گیا۔ میرے دوست نے پیرومرشد کی عدم موجودگی میں مجھے ایک مجذوب سے ملوایا تھا۔ وہ دربار سے باہر ایک جھگی میں بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ
’’پرچھائیاں تیرا پیچھا نہیں چھوڑیں گی جا پہلے سلام کرکے آ‘‘
میرے دوست نے مجھے سلام کرنے کے آداب سکھائے۔ بری امام صاحب کے روضہ کے قریب ان کے شاگرد اور مریدین بھی دفن ہیں بری امام کے دربار میں پہنچنے سے پہلے ان کی قبور پر جا کر دعا کرنی ہوتی ہے۔ لہٰذا میں دعا کرکے آیا تو مجذوب بابا نے مجھے کہا کہ تم اپنے علاقے کی ڈالی کے ذریعے نذرانہ بھیج دو۔ پرچھائیاں پیچھا چھوڑ دیں گی۔ مجذوب کے ساتھ ایک مرید تھا جس نے میرا مسئلہ سن کر مجھے نذرانے کی رقم اور زلیخا کی استعمال شدہ چادر ارسال کرنے کے لئے کہا۔ ہمارے علاقے کے یہ چاروں ملنگ ہر سال پیدل بری امام صاحب کے مزار پر جاتے ہیں۔ میں نے آتے ہی ان سے درخواست کی تو آج وہ سوغات لے کر چلے گئے۔
’’لیکن چاچا جی ۔۔۔ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد ۔۔۔ ہم نے وعدہ کیا‘‘
’’چپ کر جا پتر‘‘ ملک صاحب نے مجھے قدرے ناگواری سے روک دیا۔ ’’میں اپنی بیٹی کو آگ میں نہیں جھونکنا چاہتا اس کے لئے اب مجھے جہاں سے آسرا ملے گا میں اس کو تھام لوں گا‘‘
’’آپ کا یہی فیصلہ ہے‘‘ میں نے پوچھا
’’ہاں ۔۔۔ میں اس فیصلہ پر پہنچا ہوں کہ اب میں بے شک تباہ و برباد ہو جاؤں میں اس شیطانی جال کو توڑ دوں گا‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں آپ کے ساتھ ہوں‘‘ میں نے ان کے لہجے میں استقامت دیکھی تو انہیں بابا تیلے شاہ اور حضرت جی سے ملاقات کا ماجرہ سنایا اور کہا ’’چاچا جی وہ دنیاوی طمع میں مبتلا نہیں ہیں۔ حضرت جی اور بابا تیلے شاہ کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ہمیں ان سے مدد حاصل کرنی ہو گی‘‘
میری بات سن کر ملک صاحب کے چہرے پر زندگی ہویدا ہونے لگی۔ میرا کاندھا تھام کر بولے
’’تو پھر انتظار کس بات کا۔ ابھی ان کے پاس چلتے ہیں‘‘
میں نے گھڑی دیکھی حضرت جی کے اٹھنے کا وقت ہونے کو تھا ’’ہم ظہر کی نماز ان کے ساتھ پڑھیں گے۔ انشاء اللہ‘‘
میرے اندر طمانیت کے لڈو پھوٹنے لگے تھے خدشہ بہرحال تھا کہ اگر شاہ صاحب کو معلوم ہو گیا تو کیا ہو گا۔ لیکن جب ملک صاحب اٹل فیصلہ کر چکے تھے تو مجھے اپنی جاں سے گزر کر اپنی جاں تک پہنچنے کا حق حاصل ہو گیا تھا۔ بہت سے جذبات میرے خوف کو اپنے پیروں تلے روند کر آگے ہی آگے بڑھ گئے تھے۔ ہم نے کسی کو نہیں بتایا ہم کہاں جا رہے ہیں۔ زلیخا ہمارے ساتھ تھی‘ ہم کار میں بیٹھے اور کوٹلی بہرام سے ہوتے ہوئے حضرت جی کی مسجد میں پہنچ گئے۔ نماز ظہر ان کی امامت میں ادا کی۔ نماز کے بعد ایک جمِ غفیر ان کی زیارت اور دعاؤں سے فیض یاب ہونے کے لئے امڈ آیا۔ ہم بہت پیچھے بیٹھے تھے۔ زلیخا کو ہم نے کار میں بٹھا دیا تھا۔ حضرت جی نے خواتین کو اپنے حجرے کی طرف بٹھا رکھا تھا۔ میں زلیخا کو اندر لے آیا اور اسے بھی حجرے میں بٹھا دیا۔ مجھے بے قراری تھی کہ جلد از جلد حضرت جی سے ملاقات ہو۔ اس لئے میں بار بار اس امید پر کھڑا ہو جاتا تاکہ ان کی نظر مجھ پر پڑے تو ممکن ہے صبح کی شناسائی کام آ جائے اور وہ مجھے بلا لیں۔ لیکن نماز عصر تک ہماری باری نہ آئی۔ ملک صاحب بار بار پہلو بدلتے رہے۔ عصر کی اذان کے ساتھ ہی لوگ وضو کرنے کے لئے اٹھے تو میں نے موقع غنیمت جانا اور فوراً حضرت جی کے پاس پہنچ کر ان کے دست مبارک کو تھام لیا۔ میں جذبات سے مغلوب ہو رہا تھا۔ حضرت جی نے مجھے دیکھا تو ایسے بولے جیسے مجھے جانتے ہی نہ ہوں ’’نماز پڑھ لو بھئی ۔۔۔ پھر ملاقات کریں گے‘‘
عصر کی نماز پڑھنے کے بعد میں اور ملک صاحب حضرت جی کے پاس پہنچے تو انہیں دیکھتے ہی ملک صاحب کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔
’’صبر کرو میرے بیٹے ۔۔۔ اللہ اپنے بندوں کو امتحان میں مبتلا کرتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بندے کو سزا دے کر خوش ہو رہا ہے۔ بس تمہاری استقامت اور تمہارے ایمان کو آزمانا مقصود ہوتا ہے۔ اگر تو شاکر نکلا تو شکر سے مالامال ہو جائے گا اور اگر بہک گیا تو گر گیا‘‘ حضرت جی ملک صاحب کے ہاتھ پر اپنا دست مبارک رکھ کر بولتے رہے۔ ’’لاؤ کہاں ہے ہماری بیٹی‘‘ ۔حضرت جی نے ہمارے دلوں کی زبان سمجھتے ہوئے پوچھا۔
میں اٹھنے لگا تو حضرت جی خود اٹھ پڑے اور حجرے کی طرف کھلنے والے دروازے کی طرف رخ کرکے بیٹھ گئے۔ ’’زلیخا بیٹی‘‘ ملک صاحب نے اسے آواز دی تو وہ چادر میں لپٹی معصوم سی گڑیا حضرت جی کے پاس آ گئی۔
حضرت جی کی محفل ایک سادہ پوش صاحب شریعت کی مجلس تھی۔ نہ اگربتی جل رہی تھی‘ لوبان‘ عطر اور کافور کی مہک سے محروم اس فضا میں صرف انسانوں کی سانسیں گھلی ہوئی تھیں۔
زلیخا چادر میں لپٹی حضرت جی کے سامنے آئی۔ حضرت جی نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر نظریں حیا سے نیچے کرکے زیرِ لب کچھ پڑھنے لگے۔
’’زلیخا بیٹی دل پر بوجھ سا محسوس کرو تو مجھے خبردار کر دینا‘‘
اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ہلکی سی آواز میں بولی ’’جی‘‘
حضرت جی دوبارہ پڑھائی کرنے لگے۔ پانچ منٹ تک مسلسل پڑھتے رہنے کے بعد انہوں نے نظریں اٹھائیں اور زلیخا کی پیشانی اور دائیں بائیں کاندھے پر پھونک مار کر باآواز بلند پڑھنے لگے ’’یا شافی بحق یا حفیظ علی کلِ شئی قدیر‘‘ وہ مسلسل اس وظیفہ کی گردان کرتے رہے۔ اس لمحہ مجھے احساس ہوا زلیخا کے چہرے پر کھنچاؤ کے تاثرات ابھر رہے اور لب پھڑک رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن کسی طاقت نے اس کے ہونٹ پکڑ رکھے ہیں۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر میرا دل ہانپنے لگا۔ حضرت جی آنکھیں بند کئے پڑھائی کرتے جا رہے تھے ان کی پیشانی بھی شکنوں سے آلودہ ہو رہی تھی۔ میں نے چاہا کہ حضرت جی کو زلیخا کی کیفیت سے آگاہ کر دوں۔ اس کے دل پر پڑنے والا دباؤ مجھے اپنے قلب پر محسوس ہو رہا تھا۔ میں آگے بڑھ کر حضرت جی سے کہنے ہی لگا تھا کہ حضرت جی نے آنکھیں بند کئے ہوئے ہی دست مبارک بلند کرکے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا۔ اس کا مطلب تھا ان کی روشن خیالی اردگرد کے ماحول سے باخبر تھی۔
ادھر زلیخا کی حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ اس کے لب کسی مرئی طاقت نے اس قدر مضبوطی سے سی دئیے تھے کہ اس کے اندر ہونے والی جنگ سینے سے چہرے تک پھیل گئی تھی۔ دونوں جبڑے بار بار پھیل رہے تھے۔ آنکھیں دباؤ سے ابل پڑنے کو تھیں حتیٰ کہ اس کے گوندھے ہوئے سیاہ گیسو بھی بکھرنے لگے تھے۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کے پاس بیٹھی عورتیں ڈر کر پیچھے ہٹ گئیں بلکہ ایک آدھ تو حجرے سے بھاگ بھی گئی تھیں۔ زلیخا نے دونوں ہاتھوں سے اپنے جبڑوں کو تھام لیا تھا۔ لگتا تھا جیسے اس کے اندر طوفان برپا کرنے والی قوت اس کے جبڑوں کا قیدخانہ توڑ کر باہر نکل جانا چاہتی ہے۔ میں ہی نہیں ملک صاحب بھی اس کی یہ حالت دیکھ کر لرز اٹھے تھے۔ اس کی حالت دیکھ کر وہ غبارہ یاد آ رہا تھا جس میں حد سے زیادہ ہوا بھر دی جائے تو وہ پھٹ جاتا ہے۔ زلیخا کے چہرے کو دیکھ کر یہی لگتا تھا کہیں اندرونی دباؤ اس کے پرخچے نہ اڑا دے۔ اس کے چہرے کے خدوخال بگڑتے چلے جا رہے تھے اور ادھر حضرت جی مسلسل پڑھتے جا رہے تھے۔ پھر اس کے بعد وہ ہوا جس کا آج بھی تصور کرتا ہوں تو پاؤں تک مجھ پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ بدن کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا دلخراش اور خوفناک منظر میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
زلیخا کی قوت برداشت جواب دے گئی تھی یا اس کے اندر شورش برپا کرنے والی طاقت کا غضب آخری حد کو چھو چکا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر ایک دم کھڑی ہو گئی اور اس کا بدن ایکا ایکی پھیلنے لگا۔ اس لمحہ حضرت جی پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے زور سے اپنا دایاں ہاتھ زلیخا کے سر پر مارا اور اس کے سلے ہوئے لب اندرونی طوفان کے ریلے نے ایسے توڑ دئیے جیسے کسی ڈیم کے بند پانی کے دباؤ کی وجہ سے ایک دم کھول دئیے جائیں تو پانی پوری رفتار سے بہہ نکلتا ہے۔ زلیخا نے زوردار غرغراہٹ کے ساتھ خون بھری قے کی جو دور دور تک پھیل گئی۔ حضرت جی کے کپڑے خونی قے سے آلودہ ہو گئے۔ اس لمحہ انہوں نے قادر بخش کو آواز دے کر پانی لانے کے لئے کہا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا گیا لمحوں میں ایک کٹورے میں پانی بھر لایا۔
زلیخا قے کرکے پیچھے کو گر گئی تھی‘ بری طرح ہانپ رہی تھی۔ پورا ماحول اس کی قے کے تعفن سے آلودہ ہو گیا تھا۔ سیاہی مائل قے کے کچھ چھینٹے مجھ پر بھی پڑے تھے۔ یہ دیکھ کر بہت سے سائل بھاگ گئے تھے۔
حضرت جی نے پانی لے کر اس پر دم کیا اور زلیخا چہرے کو اس پانی سے دھو دیا۔ ان کے چہرے پر اب اطمینان نظر آ رہا تھا۔ ’’شکر ہے اس ذات کریم کا جو انسان کو خناس کے سحر سے پاک کرنے میں ہماری مدد فرماتی ہے‘‘ حضرت جی نے چلو بھر پانی اپنے چہرے پر ڈالا اور اپنے سائلوں کی طرف دیکھ کر بولے ’’کیا ممکن ہے آپ لوگ آج چلے جائیں ۔
حضرت جی کے معتقد بڑے فرمانبردار تھے سب واپس چلے گئے۔ اب میرے اور ملک صاحب کے سوا کوئی اور سائل نہیں تھا۔
’’شاہد میاں‘‘ حضرت جی مجھ سے مخاطب ہوئے ’’میں غسل کرکے آتا ہوں‘ زلیخا بیٹی کچھ دیر بعد ہوش میں آ جائے گی‘‘ پھر وہ قادر بخش کی طرف رخ کرکے بولے ’’قادر بخش صفائی کر دینا‘‘
ملک صاحب بے ہوش زلیخا کے پاس بیٹھ گئے۔ ان کی آنکھیں تشکر بھرے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں۔ بیٹی کا سر گود میں رکھ کر وہ ممتا بھرے انداز میں اس کے بکھرے بال سنوار رہے تھے ’’میرے مولا میری سختیاں معاف کر دے‘‘ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر بار بار اللہ میاں جی سے دعا کر رہے تھے۔
میں نے قادر بخش کے ساتھ مل کر مسجد کے ہال کو پانی سے صاف کیا۔ طاق میں ایک گلاس رکھا ہوا تھا جس میں آٹا ڈال کر اس میں اگربتیاں لگائی ہوئی تھیں۔ فضا میں ابھی تک قے کی ناگوار بو رچی ہوئی تھی۔ میں نے اگربتیاں جلا دیں۔ تھوڑی دیر بعد ہی خوشگوار مہک پھیلنے سے بدبو ختم ہو گئی۔
حضرت جی غسل کرکے آ گئے تھے مگر ابھی تک زلیخا ہوش میں نہیں آئی تھی۔ حضرت جی نے اس کی نبض چیک کی اور اطمینان بھرے انداز میں سر ہلا کر بولے ’’اللہ کا شکر ہے بیٹی کی حالت سنبھل رہی ہے‘‘ وہ شفقت پدرانہ کے ساتھ زلیخا کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے بیدار کرنے لگے ’’اٹھو میری بہادر بیٹی دیکھو تمہارے والد محترم غمزدہ کھڑے ہیں۔ اٹھو اور انہیں خوشخبری سنا دو کہ اب تاریک راتوں کا سفر ختم ہو چکا ہے۔ کہہ دو کہ اب تمہارے من میں نور کی پاکیزہ کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ اٹھو میری پاک دامن بیٹی اٹھو۔ تم کتنے ہی پہروں میں جلی ہو لیکن میرے رب ذوالجلال کی رحمت نے اب تمہیں اپنی پناہ دی ہے‘‘ حضرت جی کے الفاظ ہیرے موتیوں جیسے تھے تو جذبات جنت کی پرسکون فضاؤں جیسے تھے۔ یہ ان کے الفاظ کی تاثیر کی کرامت تھی کہ زلیخا آنکھیں کھولنے لگی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے چادر سے سر ڈھانپ لیا اور حضرت جی کی طرف عقیدت و احترام سے دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پر اطمینان نور کی طرح برس رہا تھا۔ آنکھوں میں زندگی بیدار ہو گئی تھی۔
’’حضرت جی دل کو بڑا ہی سکون مل رہا ہے‘‘
’’بیٹی اللہ تمہارے قرار کو ہمیشہ برقرار رکھے۔ اب تو سکون ہی محسوس کرتی رہے گی ، لیکن میری بیٹی نماز باقاعدگی سے پڑھتی رہنا۔ میں تمہیں ایک سورۃ مبارکہ کا تحفہ دوں گا۔ اس کو پڑھتے رہنا اللہ اس کے ذاکر کو کبھی غیر مطمئن نہیں ہونے دیتا‘‘
حضرت جی نے زلیخا کے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’سورہ الرحمن فجر کی نماز کے بعد باقاعدگی سے پڑھنا اور اس عاصی کے لئے دعائے خیر کرنا۔ میرے مولا کریم کی صفات اس کی عنایات اور انسانوں کی ناشکریوں کا ذکر تمہیں اس سورہ مبارکہ میں ملے گا۔ اللہ کے نیک بندے فرماتے ہیں کہ سورہ الرحمن کے ذاکر کو اطمینان قلب نصیب ہوتا اور اس کے نصیب کے مقفل دریچے کھل جاتے ہیں۔ جہاں تقدیر کا لکھا بے بسی کا نوحہ پڑھتا ہے وہاں ایک ذاکر کو اللہ تعالیٰ اپنی عطا سے نوازتا ہے اور بے شک اللہ کی عطا مقدر کی پابندیوں سے افضل ہے‘‘
’’سبحان اللہ‘‘ میرے دل سے نکلا۔ حضرت جی نے طائرانہ انداز میں میری طرف دیکھا اور پھر ملک صاحب سے مخاطب ہوئے ’’کوشش کریں کہ ہماری بیٹی کی شادی جلد از جلد ہو جائے‘‘
زلیخا شادی کا ذکر سن کر شرما گئی لیکن ایک انجانا سا خوف دوبارہ اس کے چہرے پر منحوس پرچھائیاں ڈالنے لگا۔ میرے دل میں بھی میٹھا سااحساس تقویت پانے لگا یہ سراب سے نکل کر حقیقتوں کو پانے کا جذبہ تھا۔
’’دعا کریں اچھا سا رشتہ مل جائے تو میں اپنی بیٹی کے ہاتھ فوراً پیلے کر دوں‘‘ ملک صاحب نے کہا اور پھر کرب ناگہانی سے ان کی جبیں آلودہ ہو گئی ۔ وہ ریاض شاہ کا معاملہ حضرت جی کے ساتھ ڈسکس کرنے لگے۔
’’ملک صاحب آپ اپنے ایمان کی پوری قوت کے ساتھ ڈٹ جائیں انشاء اللہ وہ آپ کے راستے میں نہیں آئے گا۔ میں نے اس کی ہوس اور شیطانی کو ختم کر دیا ہے۔ اسے فوراً اپنے گھر سے نکال دیں جو بندہ شریعت کا پابند نہیں وہ اللہ کا دوست یعنی پیر اور ولی نہیں ہو سکتا‘‘
’’لیکن کچھ بزرگ کہتے ہیں کہ ریاض شاہ کے پاس روحانی قوتیں ہیں‘‘ میں نے کہا
’’روحانی قوتیں حاصل کر لینا ایک الگ بحث ہے لیکن جو مسلمان ایک بزرگ کا لبادہ اوڑھ کر اسلامی علوم سے استفادہ کرتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پہنچا ہوا بزرگ ہے مگر نماز اور دیگر شرعی احکامات کو ملحوظ نہیں رکھتا وہ کامل پیر اور ولی نہیں ہو سکتا۔ شاہد میاں ایک بات ذہن میں رکھ لو۔ نماز افضل ترین عبادت ہے۔ اس کی چھوٹ نہیں ہے۔ میرے آقا سرکار دوجہاںؐ سے بڑھ کر متقی پرہیزگار کون ہے۔ آپؐ کے ایک اشارہ پر چاند دو ٹکڑے ہو سکتا ہے‘ اللہ پاک اپنے محبوب کالی کمبلیؐ والے کی کسی بات کو رد نہیں کر سکتا لیکن سرکار دوجہاںؐ اللہ کے حضور سجدے میں رہتے اور اپنے اللہ کے شکرگزار بنے رہے۔ خلفائے اسلام اور صحابہ کرامؓ کی کوئی ایسی مثال بتا دو مجھے کہ انہوں نے کبھی نماز اور دیگر شرعی احکامات سے غفلت برتی۔ اللہ کے بندے، یہ سارے اعلیٰ و افضل انسان روحانیت کے درجہ افضل پر فائز تھے بلکہ میرے جیسے خاکسار تو کسی صحابی رسولؐ کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہیں۔ جب ایسے اعلیٰ و ارفع مسلمانوں نے شریعت کا دامن نہیں چھوڑا تو ہم کون ہوتے ہیں یہ دعوے کرنے والے۔ کسی کامل ولی کی داستان حیات پڑھ لو۔ اللہ کی عبادت اور شریعت کے پابند تھے وہ۔ اس لئے تم اپنے دل کو سمجھا لو کہ ریاض شاہ ایک کامل انسان نہیں ہے۔ وہ ہوس کا غلام ہے۔ جنات کا غلام ہے۔ جو لوگ ریاض شاہ کو نیک و بدکار کے درمیانی درجات سے نوازتے ہیں ان کے اپنے مسائل ہوں گے۔ لیکن میں نے جو دیکھا اور سنا ہے اس کے مطابق تو اس کو ایک پراگندہ خیال اور سفلی قوتوں کا ماہر سمجھتا ہوں ۔ایک مسلمان کی شان یہ نہیں کہ ایسے جھوٹے خداؤں کے سامنے جھک جائے۔‘‘
ملک صاحب پر حضرت جی کی باتوں کا گہرا اثر ہوا۔ وہ بولے ’’میں اسے جوتے مار کر نکال دوں گا حضرت جی ۔۔۔میں تو پہلے دن سے اس سے بدگمان ہوں لیکن میرے بچوں اور بیوی کی آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں‘‘
’’خیر جوتے مار کر نہ نکالئے۔ امن و سکون سے جان چھڑوا لیں۔ میں نے جو تجویز پیش کی ہے اس پر عمل ضرور کریں۔ زلیخا کی شادی فی الفور کر دیں اور ہاں‘‘ حضرت جی کچھ کہتے کہتے رک گئے اور قادر بخش کو بلا کر پوچھنے لگے ’’اس روز جو کپتان صاحب کی والدہ آئی تھیں کیا نام تھا ان کا‘‘
قادر بخش کا حافظہ بلا کا تھا اس نے نام اور اس خاتون کا شجرہ نصب بھی منٹوں میں بتا دیا۔ قادر بخش تم ایڈریس ملک صاحب کو لکھ کر دے دو۔ ملک صاحب یہ خاندانی اور بہت نیک لوگ ہیں۔ مدتوں سے انہیں جانتا ہوں۔ وہ اپنے بیٹے کی شادی کے لئے زلیخا جیسی بیٹی کی تلاش میں ہیں اور انہوں نے یہ ذمہ داری مجھ پر چھوڑ رکھی تھی۔ کہتی تھیں سرمد بیٹے کا رشتہ میرے ہاتھوں سے ہی ہو گا۔ یہ ان کی محبت ہے کہ مجھ پر اعتماد کرتی ہیں آپ خود ان سے ملئے میرا حوالہ دیں ،اللہ نے چاہا تو بہتری ہی ہو گی۔‘‘
حضرت جی کی بات سن کر میرا دل اضمحلال سے بیٹھ گیا۔
’’حضرت جی آپ نے یہ کیا کر دیا‘‘ میرا دل ڈوبنے لگا کیا زلیخا اب بھی مجھے نہیں ملے گی۔ زلیخا نے حضرت جی کی بات سننے کے بعد ایک ثانئے کے لئے میری طرف دیکھا تھا۔ میری تو دنیا ہی لٹ گئی تھی میں کیسا بدنصیب تھا جسے گوہر محبت نصیب نہیں ہو رہا تھا۔
حضرت جی کے التفاقات سمیٹ کر ہم واپس آنے لگے تومیرا حال شکست خوردہ سپاہی جیسا تھا‘ پاؤں من من کے ہو رہے تھے اور من میں ہول اٹھ رہے تھے۔ ایک بار تو بے اختیار ہو کے میں نے حضرت جی کے ہاتھ پکڑ لئے تھے۔ دل نے بہت چاہا کہ ان سے کہوں ’’دلوں کے حال آپ جان لیتے ہیں تو حضرت جی میری حالت پر رحم کیوں نہیں کھاتے‘‘ لیکن دل اپنی زبان نہ کھول سکا۔ مسجد سے نکلنے سے پہلے حضرت جی نے میرے کاندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور ہلکا سا تھپتھپا کر کہا ’’حوصلہ کرو اللہ بہتر کرے گا‘‘
میری آنکھیں غم سے سلگ رہی تھیں۔ لیکن اب میں نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا تھا ۔یہی شرافت کا تقاضا بھی تھا۔میں نے صرف اثبات میں سر ہلا کر حضرت جی کے اشارے کو سمجھنے کی تصدیق کر دی۔
’’شاہد میاں ۔۔۔ زلیخا کو سخت قسم کے جادو سے اسیر بنایا گیا تھا۔ اپنے بابا جی سے کہنا جس زبان سے اللہ رسولؐ کا نام لیتے ہیں اس کو شیطانی اعمال کے لئے استعمال نہ کریں اور اگر اب بھی تمہارا ریاض شاہ باز نہ آیا تو رب ذوالجلال کی قسم میں اسے کہیں کا نہ چھوڑوں گا‘‘
میں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی کہوں گا۔
رات گئے ہم ملکوال پہنچے۔ راستے بھر ہم تینوں نے کوئی بات نہیں کی تھی۔ حویلی پہنچ کر میں سیدھا اپنے کمرے میں جا کر بستر پر گر گیا اور تکیہ اپنے منہ پر رکھ کر حزن و ملال کی برکھا میں نہانے لگا۔ ساری رات میں نے یونہی گزار دی۔ مجھے نہیں معلوم اس رات حویلی میں کیا کچھ ہوا ہو گا۔ شکستگی اور رنج نے مجھے اندر سے اس قدر بے خوف اور لاتعلق کر دیا تھا کہ بے حسی کے سوتے میرے اندر دھڑا دھڑ پھوٹنے لگے۔ نماز فجر کے وقت چاچی نے آ کر مجھے بیدار کیا تھا۔ اس کا رنگ اترا ہوا تھا۔
’’پتر تو ادھر پڑا ہے اور ادھر قیامت مچی ہوئی ہے‘‘
’’کیا ہوا ہے چاچی‘‘ میں بے تاثر جذبات سے انہیں دیکھنے لگا
’’شاہ صاحب آگ کا گولا بنے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ساری حویلی کو جلا کر راکھ کر دوں گا۔ بابا جی بھی ناراض ہیں۔ وہ جا رہے ہیں۔ ملک صاحب نے کہا ہے کہ انہیں نہ روکنا لیکن پتر جی اگر وہ ناراض ہو کر چلے گئے تو اچھا نہیں ہو گا‘‘
’’چاچی میں کیا کر سکتا ہوں۔ اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو انہیں جانے دیں۔ ملک صاحب جو کہتے ہیں اس پر عمل کریں‘‘ میرے دل میں بے حسی کا یہ عالم برپا تھا کہ مجھے حویلی سے اٹھتے ہوئے شعلوں کا منظر اچھا لگ رہا تھا۔ جب میرا نشیمن الفت ہی جل گیا تو مجھے اس کے دروبام سے کیا رغبت تھی۔ خود غرضی نے اکسایا کہ آج حویلی والوں کو جلنے دو۔ انہیں مرنے دو۔ شاہ صاحب کے راستے میں کھڑے نہیں ہونا۔ جو ہوتا ہے آج ہو جانے دو۔ تم اپنے لب سی لو اور دیکھو تماشا۔ زلیخا مجھے نہیں ملے گی تو کسی کو نہیں ملے گی۔ خود غرضی کی یہ جنگ میرے اعصاب پر بری طرح سوار ہو گئی تھی اور اس وقت میں بھول گیا کہ میں بھی تو ہوس کا غلام بن گیا ہوں۔ مجھ میں اور ریاض شاہ میں کیا فرق رہ گیا ہے۔ لیکن یہ سوچ میرے ذہن میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں آئی لیکن جب پشیمانی کا ریلہ اٹھا اس وقت تک پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا۔ نشیمن اجڑ گیا تھا اور صدائے یاراں نہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔
میں چاچی کے ساتھ شاہ صاحب کے حضور پیش ہوا تو وہ دیکھتے ہی نفرت سے بولے ’’یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ تم زلیخا کو چاہتے تھے اس لئے تم نے نفرت کا یہ بیج بویا ہے‘‘
یہ سن کر چاچی حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگی ’’ہیں اس کا کیا قصور ہے شاہ صاحب‘‘
’’اس نے پٹی پڑھائی ہے ملک صاحب کو۔ اس نے بڑا ظلم کیا ہے۔ حضرت جی کے پاس یہی لے کر گیا تھا انہیں‘‘
’’ہاں ہاں میں ہی لے کر گیا تھا‘‘ جذبات کے سیل رواں میں بہتے ہوئے میں نے کہا ’’کیا برا کیا ہے میں نے ۔تم جیسے انسان کو نہیں بلکہ انسان کے روپ میں ایک شیطان کو پکڑنے کے لئے ہمارے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا۔ تم نے روحانیت اور نیکی کی آڑ میں ہم لوگوں کے ایمان کو بیچ ڈالا۔ ہمیں بیچوں بیچ چوراہے میں ننگا کرکے مارا ہے۔ تم ایک بے غیرت انسان ہو ریاض شاہ۔ ہم نے حویلی کی عزت بچانے کے لئے اللہ کے ایک سچے اور کامل بزرگ سے مدد لی ہے اور سچائی سامنے آ گئی ہے۔ تم نے زلیخا پر جادو کیا اور اس کی سوچوں پر اپنے پہرے بٹھا دئیے۔ بتاؤ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں۔ تمہیں جس نے حضرت جی کے بارے میں بتایا ہے ان سے یہ بھی پوچھ لینا تھا کہ زلیخا نے خون کی جو قے کی ہے وہ کس کا دیا ہوا زہر تھا‘‘ میں بولتا ہی چلا گیا ’’کہاں ہیں بابا جی بلاؤ انہیں۔ میں انہیں اللہ کی عدالت میں کھینچ کر رہوں گا۔ ہم تم لوگوں کو نیک اور اسلامی سمجھتے رہے لیکن تم نے ہمیں گمراہ کیا۔ تم کہتے تھے کہ بابا جی اور ان کے بزرگ صحابی رسولؐ تھے۔ اللہ مارے تم جیسے انسان کو ریاض شاہ۔ تم نے ان بزرگوں کو بھی بیچ ڈالا، اللہ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ کان کھول کر سن لو تمہارا یہ معاملہ یہاں کے بزرگوں کے علم میں آ چکا ہے۔ تم جناتی قوتوں کو انسانی معاملات کے لئے استعمال کر رہے ہو۔ تم نے جنات کو بھی اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ تم نے اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں کو توڑا ہے ریاض شاہ اللہ تمہیں نہیں چھوڑے گا‘‘
میری باتیں سن کر ریاض شاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
’’میں جھوٹا مکار اور شیطان ہوں اگر یہی ہے تو پھر اس کا نتیجہ تم جلد بھگت لو گے‘‘
’’ریاض شاہ۔ بہتری اسی میں ہے کہ خاموشی سے چلے جاؤ۔ تمہاری عزت اسی میں ہے۔ ہم نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہارے ہر قہر کا سامنا کر لیں گے لیکن تمہیں بھی اس قابل نہیں چھوڑیں گے کہ آئندہ کسی عزت دار اور معصوم گھرانے کو تباہ کر دو‘‘
میں نے ریاض شاہ کو حضرت جی کا پیغام سنایا تو وہ سیخ پا ہو کر بولا ’’میں اس بڈھے کو دیکھ لوں گا‘‘ وہ نتھنے پھیلا کر اپنے اندر کے سفلی انسان کی بھڑاس نکالتا رہا۔ اپنا سامان جلدی سے سمیٹا اور سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی حویلی سے رخصت ہو گیا۔ لیکن جاتے جاتے اس کے جنات دو عبرتناک نشانیاں حویلی والوں کو دے گئے۔جنات نے حویلی کے سارے پودے جڑوں سے اکھیڑ دئیے اور کئی کمروں کے شہتیر گرا دئیے۔ حویلی کے مکینوں نے بڑی مشکل سے جان بچائی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میری باتیں اسے برانگیختہ کر دیں گی اور یہی ہوا۔ ملک صاحب کے سارے جانور بھی ہلاک ہو گئے تھے چند لمحوں میں حویلی کھنڈر بن کر رہ گئی تھی۔
دوپہر تک ہم سہمے رہے کہ نہ جانے اب کیا ہو۔ اللہ کا شکر تھا کہ کسی کو کوئی جسمانی تکلیف نہیں پہنچی تھی ملک صاحب اور میں اسی دوپہر کو کپتان کے گھر گئے۔ اس کی والدہ حضرت جی کے بھیجے ہوئے رشتے پر اس قدر نہال ہو گئی تھی کہ بیان خوشی سے باہر ہے۔ وہ کہنے لگی ’’میرے بیٹے کو چند روز پر محاذ پر جانا ہے۔ میں تو چاہوں گی اس کا نکاح اور رخصتی ابھی ہو جائے‘‘ میں نے شاید ہی زندگی میں کسی کی شادی اس قدر تیزی سے ہوتے دیکھی ہو گی ملک صاحب نے مصلحت کے تحت حویلی کی خستہ حالی کو نظرانداز کر دیا اور دو روز میں ہی حضرت جی کی موجودگی میں زلیخا پیا گھر سدھار گئی۔
میں نے زلیخا کی ڈولی کو کاندھا دے کر رخصت کیا تھا۔ میں اپنے جذبات کو بیان نہیں کر سکتا۔ منتقم مزاجی اور بے حسی نے مجھے دونوں میں عام سا انسان بنا دیا تھا۔ جس شام زلیخا کی ڈولی اٹھی میں اپنا جنازہ اٹھا کر قبرستان چلا گیا۔ اپنے ارمانوں کو بے گور و کفن دفن کرنے کے لئے۔ اچھا بھلا لباس زیب تن کیا ہوا تھا میں نے۔ میں نے اسے ہی بہترین کفن سمجھا۔ خوشبو لگا رکھی تھی‘ سوچا یہ کافور سے بہتر ہو گی۔ بیری اور کیکر کے درختوں کے بیچوں بیچ خود کو خود کو گھسیٹتا ہوا میں قبرستان میں اس جگہ پر جا کر ڈھیر ہو گیا جہاں ٹاہلی والی سرکار بیٹھا کرتی تھیں۔ میں ان کے والد کی قبر کے سرہانے جا کر گر گیا۔ ’’بابا مجھے معاف کر دینا۔ میں اپنے اندر کے انسان کو نہیں مار سکا‘‘
’’تم نے ایک عشق کرکے دیکھ لیا۔ اب اس ذات سے عشق کرکے بھی دیکھ لے‘‘ مجھے اپنے اندر کسی نے گویا ایک نشتر چبھو کر تڑپا دیا تھا ’’تجھ سے کہا تھا یہ ترے نصیب میں نہیں ہے تو پھر کیوں اس آگ میں جلتا رہا‘‘ مجھے لگا میرے آس پاس کوئی کھڑا ہے اور مجھے طنز کر رہا ہے۔ میری حالت پر ہنس رہا ہے۔
میں دکھ کی چتا میں جل رہا تھا۔ نہ جانے یہ کیسی اگن تھی جو بجھنے کو نہیں آ رہی تھی۔ ہزاروں آوازیں میرے تعاقب میں تھیں۔ بابا جی‘ غازی اور ان کے جنات کے عکس قہقہے لگاتے میرے آگے پیچھے سے گزر رہے تھے اور میں ٹاہلی والی سرکار کے والد گرامی کی قبر پر ٹکریں مار مار کرکسی معجزہ ،کرامت کا منتظر تھا۔
’’او خدایا تو کہاں ہے۔ میری حالت پر رحم فرما۔ مجھے اس آگ سے نجات دلا دے‘‘ میں جانتا تھا اس ذات اعلیٰ و برتر کے سوا میرا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ لیکن اللہ میاں جی نے مجھ پر رحم نہیں کھایا۔ میں نے ساری رات غموں کے بوجھ تلے دب کر گزار دی۔ میرے اندر پیدا ہونے والی بے حسی نے مجھے سجدہ میں نہیں گرنے دیا۔ میں تو بزرگوں کی تعلیمات کو بھی بھول گیا تھا۔
میں آج اس رات کے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنی اس حالت پر مجھے ترس بھی آتا ہے اور حیرانی بھی۔ مجھے یاد ہے اس کے بعد میں کبھی کسی بھی قبرستان میں نہیں ٹھہرا۔ اگر کوئی عزیز وغیرہ فوت بھی ہو گیا اور اسے دفنانے کے لئے قبرستان جانا بھی پڑا تو میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ ہی ٹھہرا ہوں گا۔ کیونکہ قبرستان داخل ہوتے ہی میں یادوں کی برسات میں بھیگنے لگتا ہوں۔ مجھ پر وحشت اور خوف طاری ہو جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے مردے قبروں سے نکل کر مجھ پر جھپٹنے لگتے ہیں۔ اللہ گواہ ہے میں وہم و خیال کا شکار ہونے والا انسان نہیں ہوں۔ ایک انسان جن حالات سے گزرتا ہے اس کے درد کی کیفیات کوئی دوسرا کیونکر لگا سکتا ہے۔ اس رات میں قبرستان میں یوں پڑا رہا تھا جیسے میں بھی مردہ ہوں۔ یہ اتفاق ہی تھا یا اللہ نے میری حفاظت کی خاطر مجھے اس خوفناک ویرانے میں مجھے تنگ کرنے کے لئے کسی شے کو میری طرف نہیں آنے دیا تھا۔ بہرحال صبح ہوئی ،دوپہر ہونے کو آ گئی، میں بے ہوش پڑا رہا۔ مکھیاں اور کیڑے میرے اوپر رینگتے اور اڑتے رہے۔ کوئی بارہ بجے کی بات ہے۔ گاؤں کے کسی شخص نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو بھاگتا ہوا ملک صاحب کے پاس گیا۔ اس وقت وہ زلیخا کے پاس شہر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اور نصیر بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے۔ مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کرتے رہے لیکن میں ہوش میں نہیں آیا تو دونوں مجھے تانگے میں لاد کر حویلی لے آئے۔ وہ زلیخا کا مکلاوا لینے جانا بھول گئے اور مجھے ہوش میں لانے کی تدابیر کرتے رہے۔ وہ کس قدر پریشان تھے اس کا اندازہ تو مجھے ہوش میں آنے کے بعد ہوا۔ انہوں نے جس اپنائیت کا ثبوت دیا تھا اور میری خاطر اپنے خون کے رشتوں کو بھول گئے تھے اس کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ چاچی نے انہیں یہ بتا دیا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور چاچی نے ہماری شادی کا عندیہ بھی ظاہر کر دیا تھا لیکن حالات اس قدر تیزی سے بدل گئے تھے کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ ملک صاحب چاچی پر بہت زیادہ برسے تھے بلکہ انہوں نے رنج و ملال کے ساتھ کہا تھا۔
’’اوئے کم عقلی عورت‘ اگر تو نے یہ بات مجھے پہلے ہی بتا دی ہوتی تو میں حضرت جی کے پاؤں پکڑ کر ان سے پوچھ لیتا کہ اپنے شاہد پتر کے ساتھ زلیخا کی شادی کیوں نہ کر دوں۔ مجھے اس سے زیادہ پیارا کون ہو سکتا تھا‘‘
ملک صاحب نے نصیر اور چاچی کو دوسرے عزیزوں کے ساتھ زلیخا کے ہاں بھجوا دیا تھا۔ اگر انہیں زیادہ دیر ہو جاتی تو ولیمہ برباد ہو جاتا اور وہ لوگ پریشان ہو جاتے۔ ملک صاحب نے ایک رقعہ لکھ کر نصیر کے حوالے کر دیا تھا کہ وہ حضرت جی کو جا کر دے آئے۔