اس کے ماں باپ بھی اس کی حرکت پر مجھ سے معافیاں مانگنے لگے۔
میں نے کہا ’’اس بے چاری کا کیا قصور تھا۔ شکر کریں یہ جلدی قابو میں آ گئی۔ ورنہ نہ جانے یہ میرے ساتھ کیا سلوک کرتی‘‘ میں نے خوشگوار لہجے میں کہا اور پھر انہیں حویلی کے باہر تک چھوڑ آیا۔ وہ تانگہ لے کر آئے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ بلقیس یکدم خاموش ہو گئی تھی اور بار بار چپکے چپکے میری طرف دیکھ لیتی تھی۔ اللہ حافظ کہہ کر میں ریاض شاہ کے پاس گیا۔ وہ تھیلے سے کوئی شے نکال رہا تھا۔
’’آ گئے ۔۔۔ اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر‘‘ وہ مجھے دیکھ کر ہنسنے لگا مجھے غصہ آ گیا
’’شاہ صاحب ۔۔۔ آپ نے اچھا نہیں کیا‘‘
’’میرے چاند ۔۔۔ میں کیا کرتا مجھے موقع ہی نہیں ملا بڑی تیزی سے اس نے وار کیا تھا‘‘ ریاض شاہ نے میرے غصہ کو انجوائے کرتے ہوئے کہا ’’دیکھا بے چاری کو اب تم پر کتنا رحم آ رہا تھا‘‘
’’رحم نہیں افسوس ہو رہا تھا‘‘ میں نے کہا
’’ہوش میں آنے کے بعد جب اسے بتایا کہ تم نے شاہد میاں کا کیا حال کر دیا تھا تو پریشان ہو گئی۔ کہنے لگی میں تو اب ان سے ملوں گی۔ مجھے تو کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے‘‘
’’کیسی گڑبڑ‘‘ میں نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا
’’اس کے دل میں تمہارے لئے ایک جذبہ پیدا ہوتا ہوا محسوس کیا ہے میں نے‘‘ ریاض شاہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
’’خبردار ۔۔۔ خبردار ۔۔۔ دیکھیں شاہ جی۔ بالکل نہیں۔ ایسی بات نہیں کرنی۔ بڑی معصوم لڑکی ہے۔ اس کی شرمندگی کو کسی اور جذبہ سے منسوب نہ کریں‘‘ میں نے ناراضگی کے ساتھ کہا
’’پہلے اس پر جن سوار تھے۔ وہ تو اتر گئے۔ یہ مکھن شاہ کی چھوڑی اس کی موکلہ ہے۔ یہ بھی دفعان ہو جائے گی لیکن مجھے ڈر ہے اگر اس پر عشق کا بھوت سوار ہو گیا تو کیا بنے گا۔ نہ بابا۔ مجھ سے یہ بھوت نہیں اتارا جائے گا‘‘ اس روز ریاض شاہ بہت زیادہ خوشگوار دکھائی دے رہا تھا۔
’’شاہ صاحب ۔۔۔ یہ زیادتی ہے۔ آپ جانتے ہیں۔۔۔میں‘‘ میں کہتے کہتے رک گیا۔
’’بولو ۔۔۔ رک کیوں گئے‘‘ ریاض شاہ کی آنکھیں میرا تمسخر اڑا رہی تھیں۔ ’’کیا میں نہیں جانتا۔ مجھے اب بتاؤ گے کہ تم ان جذبوں سے ناآشنا ہو‘‘
میں کچھ نہ بولا کہنے لگا ’’اپنے وعدے کا پاس رکھنا شاہد میاں۔ آگ میں کودو گے تو جل جاؤ گے‘‘
’’آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں‘‘ میں نے اپنے لہجے کی ناگواری کو محسوس کرائے بغیر بمشکل کہا’’سمجھا رہا ہوں۔ تم نے جن بزرگوں کے سامنے وعدہ کیا تھا اسے نبھانا ہے تمہیں‘‘ ریاض شاہ کی آنکھوں میں اب سرخ ڈورے نظر آنے لگے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے کس آگ میں کودنے سے باز رہنے کی تلقین کر رہا تھا۔ اس نے زلیخا کو جس والہانہ انداز میں مجھے بلقیس سے بچاتے ہوئے دیکھا تھا وہ اس کے لئے ناقابل برداشت منظر تھا۔ زلیخا کے جذبات کھل کر سامنے آ گئے تھے ریاض شاہ جیسے شاطر اور گہرے آدمی سے یہ سب کیسے چھپا رہ سکتا تھا۔
’’شاہ صاحب ۔۔۔ آپ جانتے ہیں میں ایک محتاط انسان ہوں۔ اپنے وعدے نبھاتا ہوں لیکن آپ مجھے دھمکیاں نہ دیا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ مجھے سمجھا رہے ہیں یا ڈرا رہے ہیں۔ میں آج آپ کو ایک بات عرض کر دینا چاہتا ہوں‘‘ میں نے سنبھلتے ہوئے اپنی جبلت کا اظہار کرنا مناسب سمجھا۔ ’’میں ایک حد تک برداشت کرتا ہوں۔ جب میرا پندار صبر لبریز ہو جاتا ہے تو پھر میں نفع نقصان نہیں دیکھتا۔ اس سمے مجھے زندگی اور موت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ میں ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہوں لیکن جب میری توہین کی جائے اور مسلسل یہ رویہ اختیار کیا جائے تو میرا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے بزرگوں سے جو وعدہ کیا ہے اسے کیسے نبھانا ہے لیکن میں آپ سے بھی ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ آگ کو بھڑکائیں نہیں۔ آگ کو جگہ جگہ نہ پھیلائیں۔ اکثر اوقات اپنی جلائی آگ میں اپنا دامن اور ہاتھ بھی جل جاتے ہیں۔ یہ مکافات عمل ہے۔ ہاں اس میں دیر سویر ہو جاتی ہے لیکن یہ ہوتا ضرور ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی انسان نے شیطانیت کا لبادہ اوڑھا ہے، اس نے آسمانوں پر اپنا تخت بچھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا پردہ چاک ہوا ہے اور وہ زمین کی پستیوں میں آ کر دفن ہو گیا ہے‘‘ میں بولتا چلا گیا۔ ریاض شاہ کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور چلے گئے لیکن وہ اپنے جذبات کو چھپانے کی قدرت رکھتا تھا۔
’’بول لیا ۔۔۔ بس ۔۔۔ دیکھو تم میرے بھائی ہو مجھے تم سے بڑی محبت ہے۔ کوشش کروں گا کہ تمہاری بدگمانیاں ختم کر دوں ۔لو ۔۔۔ صلح ۔آج کے بعد میں تمہیں دھمکی نہیں دوں گا۔ اگر کوئی ناگوار بات لگے گی تو پیار سے سمجھا دیا کروں گا‘‘ ریاض شاہ نے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا ’’آؤ میں تمہارے زخموں پر مرہم لگا دوں‘‘
’’شکریہ دوا تو لگا لی ہے‘‘ میں نے کہا
’’جانتا ہوں کہ تم دوا لگا چکے ہو لیکن چندا ۔۔۔ یہ زخم اس دوا سے ٹھیک نہیں ہوں گے۔ یہ تو سحری زخم ہیں۔ شاید تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ جب کسی سحرزدہ انسان کے اندر طاغوتی و شیطانی جنس ہلچل مچاتی اور قہر میں آ کر کسی کو زخمی کرتی ہے تو اس کے دئیے زخموں میں عملیاتی زہر اتر جاتا ہے۔ اسی لئے ہم لوگوں نے ایک عملیاتی دوا بنائی ہوتی ہے۔بعض اوقات کوئی کیس کرتے ہوئے ہمیں ہاتھا پائی ہونا پڑتا ہے اور کوئی زخم آ جائے تو ہم یہ دوا لگاتے ہیں۔ مجھے یہ دوا بابا جی سرکار نے بنا کر دی تھی‘‘ ریاض شاہ نے ایک ڈبیہ سے سفید سفوف نما دوا نکال کر میرے زخموں پر لگا دی۔ دوا کے لگتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے کوئی ٹھنڈی شے زخموں پررکھ دی گئی ہے۔ پورے بدن میں راحت آمیز ٹھنڈک کا احساس ہوا اور میرے ذہن پر چھایا اضمحلال ختم ہو گیا۔ میں شاہ صاحب سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن میں نے اپنے امتحان کی تیاری کی خاطر اس وقت ان سے کچھ سوالات نہ کئے۔
میں کچھ دیر بعد دوبارہ کمرے میں چلا گیا۔ دوا لگنے سے ذہن تازہ ہو گیا تھا۔ کتاب کھول کر اسباق دیکھنے لگا اور پھر کتاب پڑھتے پڑھتے ہی مجھے نیند نے آ لیا۔ میں بہت گہری نیند سویا تھا لیکن ایک خواب نے میری نیند منتشر کر دی۔ خواب انتہائی خوفناک تھا۔ جب اس سے بیدار ہوا تو احساس ہوا کہ خواب کی دہشت تو مجھ پر ابھی تک طاری ہے۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں فضا میں اڑتا چلا جا رہا ہوں۔ ہرے بھرے کھیت‘ گاؤں‘ پہاڑ‘ آبشاریں اور شہروں کے اوپر سے اڑتا بادلوں میں تیرتا انتہائی مسرور دکھائی دیتا تھا۔ پھر میں ایک بلند عمارات والے شہر کے اوپر پہنچتا ہوں کہ یکایک ایک اژدھا میرے پیچھے لگ جاتا ہے۔ سر آسمان کو چھو رہا تھا اور دم نیچے زمین کے پندار کو چھو رہی تھی۔ اژدھے کے منہ سے آگ نکل رہی تھی۔ میں ڈر گیا کہ کہیں یہ مجھے کھا نہ جائے۔ میں تیزی سے اپنا رخ بدل کر لیتا ہوں۔ اژدھا کروٹ لے کر میری طرف پلٹتا ہے۔ وہ مجھ پر آگ پھینکتا ہے میں خوفزدہ ہو کر آگ سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آگ میرے پورے جسم کو چھوتی ہے لیکن مجھے ہلکی سی تپش تو محسوس ہوتی ہے جسم جھلستا نہیں ۔ اژدھا میرے بہت قریب آ جاتا ہے اور مسلسل آگ پھینکتا ہے لیکن آگ سے میرا بدن پھر بھی نہیں جھلستا۔ خوف کے مارے میرا دل بری طرح دھڑکنے لگتا ہے اور میں اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر اژدھے کا سر میرے منہ سے دو فٹ قریب آ جاتا ہے۔ وہ اپنا جبڑا کھولتا ہے تو لگتا ہے اس میں پوری دنیا سما سکتی ہے لیکن کوشش کے باوجود وہ مجھے ہڑپ نہیں کر سکتا۔ میں کچھ نہیں سمجھتا اور اپنے بچاؤ کے لئے چیخنے چلانے لگتا ہوں۔ میری چیخ و پکار سن کر اژدھا قہقہے لگانے لگتا ہے اور پھر اس کے کھلے ہوئے جبڑوں سے نکلتی آگ میں ایک خوفناک انسان کا ہیولہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ میں غور سے دیکھتا ہوں تو اس کی شکل مکھن سائیں سے مشابہ ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر میں جان لیتا ہوں کہ یہ اژدھا مکھن سائیں کا چھوڑا ہوا ہے اور اس نے اسے مجھے ہلاک کرنے کے لئے مامور کیا ہوا ہے۔ میں زور زور سے کہتا ہوں۔
’’مکھن سائیں تمہاری مجھ سے کیا دشمنی ہے‘‘
آگ کے شعلوں میں بھڑکتے ہوئے ہیولے کی آواز آئی ’’جو ہمارے منہ سے نوالا چھینتا ہے ہم اس کا منہ بند کر دیتے ہیں۔ مکھن سائیں سے دشمنی ٹھان کر تم نے اچھا نہیں کیا۔ تم میرے انتقام کی آگ میں جھلس کر راکھ ہو جاؤ گے‘‘ یہ کہہ کر مکھن سائیں آگ کا ایک بڑا سا گولا میری طرف پھینکتا ہے۔ جوں جوں آگ کا گولا میر ے قریب آتا ہے اس کے اندر سے بہت سے گولے پھیل کر میرے گرد جال سا بن دیتے ہیں اور پھر مجھے محسوس ہوتا ہے میری پرواز کی سکت ختم ہو جاگئی ہے اور میں آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی طرف گرتا چلا جاتا ہوں۔ آگ کے گولے شہاب ثاقب بن کر میر ے تعاقب میں ہیں‘ اور اژدھے کے جبڑے میں کھڑا مکھن سائیں میری حالت دیکھ کر قہقہے لگاتا چلا جا رہا ہے۔ میری آواز دہشت سے پھٹ جاتی ہے اور دل دھڑکنا رک جاتا ہے۔ یونہی ہاتھ پاؤں مارتے مارتے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ میں بستر سے نیچے گر جاتا ہوں۔ آنکھ کھلنے کے باوجود میں ہاتھ پاؤں مارتا جا رہا ہوں۔ گلے سے خرخر کی آوازیں نکال رہا ہوں اور پھر بے سدھ ہو کر پڑا رہتا ہوں۔ میرا پورا جسم پسینے میں شرابور ہے۔ دل ڈھول کی طرح بج رہا ہے۔ آنکھیں جب کمرے میں چلے بلب پر مرکوز ہوتی ہیں تو ہوش واپس آنے لگتے ہیں اور پھر مجھے خواب سے حقیقت کی دنیا میں لوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ میں نے اٹھ کر وضو کیا۔
تہجد کا وقت ہو رہا تھا۔ نوافل ادا کرنے کے بعد میں ٹاہلی والی سرکار اور بابا جی سرکار کا دیا وظیفہ پڑھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ یہ وظیفہ سجدے میں گر کر پڑھنا شروع کیا تھا۔ آدھ گھنٹہ یونہی سجدے میں پڑے رہنے میں اپنے رب سے اس کی حفاظت و وکالت اور رحمت مانگتا رہا۔ پھر خشیت الہٰی کو اپنے رگ و پے میں محسوس کرنے لگا۔ میرا رواں رواں خواب کے اذیت ناک احساس سے نجات پانے لگا۔ ٹاہلی والی سرکار نے سچ کہا تھا۔ تہجد کے وقت ایک مسلمان کو اپنے رب سے جو قربت میسر آتی ہے شاید وہ کسی اور وقت کی عبادت و ریاضت میں نصیب نہ ہو۔ قبولیت کی گھڑی کے اوقات کا تعین اس رب کائنات کے اختیار میں ہے‘ اس کا فضل اور رحمت ساعتوں کی پابند نہیں ہے۔ لیکن جو نزاکت و لطافت تہجد کی ان ساعتوں میں محسوس ہوتی ہے یہ اس بندے سے پوچھا جا سکتا ہے جو شب گزاری کا عادی ہو۔ جسے عبادت و ریاضت میں سرخروئی حاصل ہو۔ یہ تو وہ لمحات ہوتے ہیں جب میرا مولائے کل اپنے بندے کی سسکیوں کو تھپتھپاتا ہے۔ اپنے بندے سے خوش ہو کر اپنے فرشتوں سے کہتا ہے دیکھو تو میرے اس بندے کو۔ اس نے رات آنکھوں میں گزار دی صرف میرے لئے۔ یہ مجھ سے جو مانگے گا میں اسے دوں گا۔ اللہ اللہ۔ کیا شان ہے میرے سوہنے اللہ کی۔ وہ بندے سے کبھی دور نہیں ہوا۔ وہ بڑی محبت سے اپنے بندے کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ لیکن افسوس بندہ غفلت سے بیدار ہی نہیں ہوتا۔ میں نے اس رات ۔۔۔ اپنی برسوں کی عبادت کا ایک نیا ہی لطف اٹھایا۔ میں نے عہد کیا کہ اب میں روزانہ رات کے اس لمحے جب ساری دنیا سو رہی ہوتی ہے میں صرف اور صرف اپنی جان کے مالک اللہ کے لئے جاگا کروں گا لیکن افسوس ۔۔۔ اس ذات کامل نے اپنی ایک رات کی عبادت سے اتنا فیض دے دیا کہ میں اس کی لاج نہ رکھ سکا اور ناشکروں کی طرح یہ بھول گیا کہ میں نے اس رات جو عہد کیا تھا اس کا کیا ہوا۔۔۔ میں بھی ان بندوں کی طرح دنیا کے پیچھے لگ گیا جو اللہ سے قربت محض دنیا کی طلب کے لئے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگلی صبح میں جلد بیدار ہو گیا تو ریاض شاہ کو اپنا خواب سنایا۔ اس نے مجھے تسلی دی اور کہا آج رات بابا جی سرکار آئیں گے تو ان سے بات کرنے کے بعد میں مکھن سائیں کا بندوبست کرتا ہوں‘‘ ریاض شاہ نے کچھ پڑھ کر میرے سینے پر پھونک ماری اور کہا ’’بابا جی نے تمہیں جو وظیفہ دیا ہوا ہے اسے پڑھتے ہوئے جانا۔ اللہ خیر کرے گا‘‘
اس روز خلاف توقع میرا پرچہ بہت اچھا ہوا تھا حالانکہ میں پریشان تھا۔ اللہ نے میرے لئے پرچہ آسان بنا دیا تھا۔ میں ملکوال آنے کے لئے لاری اڈے پر پہنچا اور بس پر سوار ہو کر میں سیٹ پر دبک کر بیٹھ گیا۔ میں نے خالی الذہن بیٹھنے کی بجائے اللہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھا اور بزرگوں کا دیا وظیفہ پڑھنے لگا۔ میں اس وقت وظیفہ پڑھنے میں اتنا مگن تھا جب کنڈیکٹر نے مجھ سے ٹکٹ کے پیسے مانگے میں نے پیسے نکال کر دئیے تو اس نے پوچھا ’’کہاں جانا ہے‘‘
میں نے سمبڑیال کی نہر کے سٹاپ کا بتایا تو وہ بولا ’’باؤ جی یہ بس سمبڑیال نہیں جا رہی‘‘
’’ہیں ۔۔۔ تو پھر کہاں جا رہی ہے‘‘ میں نے چونک کر پوچھا اور پھر میری نظریں بس سے باہر کا منظر دیکھنے لگیں۔ بس شیخ مولا بخش کے تالاب کے قریب سے گزر رہی تھی۔
’’جناب بس ظفروال کی طرف جا رہی ہے‘‘
’’تو نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا‘‘ میں نے غصے سے کہا۔ سواریاں میری طرف دیکھنے لگیں۔ ظفروال سیالکوٹ کے بارڈر کی طرف ایک قصبہ تھا۔ دیہاتی لوگ اور طالب علموں سے بس کھچا کھچ بھری تھی۔
’’آپ کو نہیں پتہ بس کہاں جا رہی ہے حیرت ہے۔میں تو دھائی دے دے کر سواریاں اکٹھی کر رہا ہوں سب کو پتہ ہے بس کدھر جا رہی ہے‘‘
کنڈیکٹر الٹا مجھے غصے سے دیکھنے لگا
’’اچھا تو مجھے اتار دو‘‘ میں سیٹ سے نکلنے لگا۔ وہ بس رکوانے لگا تھا کہ معاً ایک قریب بیٹھی سواری نے دوسرے سے سوال کیا
’’سیداں والی یہاں سے کتنی دور ہے‘‘
’’اورے ۔۔۔۔۔۔ سے اگلا سٹاپ ہے‘‘ دوسری سواری نے بتایا
’’سیداں والی‘‘ یہ نام سنتے ہی جیسے میرے ذہن میں ہلچل سی مچ اٹھی۔ بابا تیلے شاہ نے مجھے سیداں والی آنے کے لئے کہا تھا اور میں وعدہ کرنے کے باوجود بھول گیا تھا۔ کئی روز بیت گئے تھے۔ میں دوبارہ سیٹ پر بیٹھ گیا اور کنڈیکٹر سے کہا ’’مجھے سیداں والی اتار دینا‘‘ میں نے اسے کرایہ دیا تو وہ عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس وقت میری اضطراری حالت ہی ایسی تھی۔ میں کئی برسوں سے سیداں والی جانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہمیشہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ ایسی آتی تھی کہ میں اپنے ارادے پر عمل نہ کر سکتا تھا لیکن آج تقدیر نے خود مجھے اس راہ پر ڈال دیا تھا۔
***
بس اورے جا کر ٹھہری تو میں جلدی سے نیچے اتر گیا۔ ’’ پل ایک ‘‘ کے پہلو میں واقعہ یہگاؤں خاصا قدیم تھا۔ اورے سے سیداں والی شریف زیادہ دور نہیں تھی۔ میرے والدین میری پیدائش سے بہت پہلے یہاں رہ چکے تھے۔ والدہ کی زبانی میں پیر کاکے شاہ کے بارے بہت سی حکایات سن چکا تھا میرے ذہن کے ایک گوشے میں اس مجذوب ولی کی کرامات کا بسیرا تھا۔ بس سے اترتے ہی میرے قلب و ذہن پر ان کی نورانی پرچھائیاں رینگنے لگیں۔ اس وقت دھوپ پھیلی ہوئی تھی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے بس سے اتر کر اندازہ ہوا کہ میں نے غلط سٹاپ کا انتخاب کیا ہے۔ سیداں والی جانے کے لئے بس قصبہ کے قریب سے ہو کر گزرتی تھی لیکن میں ایک سٹاپ پہلے ہی اتر گیا تھا۔ میں نے ایک دیہاتی سے سیداں والی کا راستہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ دو کوس دور ہے ۔ مجھے بھوک بھی ستا رہی تھی۔ میں نے ہوٹل پر کھانے کا سوچا۔ ایک ٹوٹے پھوٹے کھوکھے میں ایک دیہاتی بوڑھا جس نے بنیان اور دھوتی پہنی تھی نان پکوڑے بیچ رہا تھا ۔ دس بارہ لوگ وہاں بیٹھ کر نان پکوڑے کھا رہے تھے۔ اس کے سوا دور دور تک کوئی ہوٹل نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں کھوکھے والے کے پاس گیا اور پانچ روپے دے کر نان پکوڑے مانگے تو وہ میری طرف دیکھنے لگا۔’’پتر پردیسی ہو‘‘
’’پردیسی‘‘ مجھے اس لفظ میں بڑی اپنائیت محسوس ہوئی۔ دیہاتی لوگ دوسرے شہروں سے آنے والوں کو پردیسی ہی کہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو پردیسی سے مراد دوسرے دیس سے آئے ہوئے انسان کو کہا جاتا ہے۔ ہماری دیہی زندگی میں دور دراز کے دیہاتوں اور شہروں کو بھی دوسرا دیس ہی سمجھا جاتا ہے۔ کھوکھے کے پاس ایک ٹوٹی پھوٹی چوکی پڑی تھی ۔ میں اس پر بیٹھ گیا۔
’’ہاں بابا ۔۔۔ میں پردیسی ہوں لیکن آپ کو کیسے معلوم ہوا‘‘ میں نے پوچھا۔
’’پتر جی جمعرات کو میں نان پکوڑے پیسے لے کر نہیں بیچتا۔ یہ نذر نیاز کا دن ہوتا ہے۔ دور دور سے لوگ اس روز میرے نان پکوڑے کھانے آتے ہیں اس لئے میں جان گیا کہ تم پردیسی ہو۔ بابا بوٹے کی دکان کا رواج نہیں جانتے‘‘
’’سوری بابا ۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا‘‘ میں نے کہا تو اس نے ایک ٹھنڈے نان کے اوپر چند گرم گرم پکوڑے رکھ کر دے دئیے۔ میں نے ایک لقمہ ہی لیا تھا کہ خشک نان کا ٹکڑا میرے گلے میں پھنس گیا ۔میں نے بابا بوٹے سے پانی مانگا تو ان نے ایک صراحی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے پاس مٹی کا ایک پختہ گلاس پڑا تھا۔ میں نے جلدی سے صراحی سے پانی لیا اور غٹاغٹ پی گیا۔ پانی پیتے ہی نان کا ٹکڑا میرے معدے میں اتر گیا ۔ میری حالت دیکھ کر پاس بیٹھے دیہاتی ہنسنے لگے۔ بابا بوٹے نے یہ دیکھا تو وہ انہیں ڈانٹ کر بولا ’’اوئے پاگلو ۔۔۔ اس بیچارے نے پیر کاکے شاہ کا لنگر پہلی بار کھایا ہے اس لئے گلے میں پھندہ لگ گیا تھا‘‘
پیر کاکے شاہ کا نام سن کر میں چونکا اور میری نظر پانی والی صراحی پر جا لگی۔ اس پر لکھا تھا ’’کاکے شاہ دی سبیل‘‘ مجھے بابا بوٹے کی ذات میں دلچسپی محسوس ہونے لگی۔ میں جب نان پکوڑے کھا چکا تو بابا بوٹے نے میری طرف دیکھا۔ ’’اور دوں‘‘
’’شکریہ بابا پیٹ بھر گیا ہے‘‘
’’کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے‘‘ اس نے پوچھا
میں نے اپنے قصبے کا نام بتایا اور کہا ’’پیر کاکے شاہ کے مزار پر حاضری دینے جا رہا ہوں‘‘
’’ماشاء اللہ ۔۔۔ دیکھو میرے پیر کی کرامت۔ لوگ دور دور سے مزار پر دعا کرنے آتے ہیں‘‘ بابا بوٹا پکوڑوں کی کڑاہی چھوڑ کر میرے پاس آ گیا۔ اس کے جھریوں زدہ چہرے پر عجیب سی چمک آ گئی تھی۔ میرے ہاتھ اپنے استخوانی ہاتھوں میں لے کر لرزتی آواز میں بولا ’’پتر مزار پر جا کر دعا کرنا۔ میری چھوٹ ہو جائے۔ میرے لئے دو نفل پڑھ دینا۔ سورہ یسین کی تلاوت ضرور کرنا۔ اللہ سے دعا کرنا میری چھوٹ ہو جائے‘‘ بابا بوٹے کی آنکھوں سے دو آنسو جھریوں میں راستے بناتے ہوئے نیچے گرنے لگے تو میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکے آنسو زمین پر گرنے سے بچا لئے‘
’’بابا ۔۔۔ میں دعا کروں گا‘‘ میں نے ہاتھ اس کے کاندھے پر رکھ کر اسے تسلی دی۔
’’بابا ایک بات پوچھوں‘‘
’’جی پتر ۔۔۔ سو بار پوچھو‘‘ میری تسلی نے اس کے دل کو سکون بخش دیا تھا۔
’’بابا ۔۔۔ کب سے یہ نذر و نیاز کر رہے ہو۔ کیا آپ نے کبھی پیر کاکے شاہ کو دیکھا ہے‘‘
بابا بوٹے کے ماتھے کی سلوٹیں سمٹنے لگیں آنکھیں سکڑ گئیں اور ہونٹ کھنچ گئے۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولا‘‘ پتر ایک بار دیکھا ہے اس گناہ گار نے ۔۔۔ پتر آج تک کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا تھا۔ میں نے بھی کسی کو نہیں بتایا۔ آج تو نے پوچھا ہے تو میں تجھے بتاؤں گا۔ لیکن کچھ دیر ٹھہر جا میں نیاز بانٹ لوں۔ فارغ ہو کر تمہیں بتاتا ہوں‘‘
بابا بوٹے نے بیس پچیس منٹ میں ساری نیاز بانٹ دی۔ چھابے میں ایک نان اور دو پکڑے بچ گئے تھے ۔اس نے ایک رنگین کپڑے میں نان پکوڑے تہ کرکے کھوکھے کے اندر رکھ دئیے۔
’’بابا آپ بھی کھا لو۔ باتیں بعد میں کر لیں گے نان پکوڑے ٹھنڈے ہو جائیں گے‘‘۔ میں نے کہا۔
’’پتر ۔۔۔ میں رات کو کھاؤں گا‘‘ وہ بولا ’’یہ تو کسی کی امانت ہیں۔ جو میں نے سنبھال کر رکھ دی ہے‘‘
باہر دھوپ بڑھ گئی تھی بابا بوٹا فارغ ہو گیا تو ہم دونوں کھوکھے کے اندر بیٹھ گئے۔ ۔ بابا کہنے لگا ’’پتر جی! کیا تم بتا سکتے ہو میری عمر کتنی ہو گی‘‘ میں نے اس کے چہرے پر غور کیا‘ ماتھے کی سلوٹوں کو شمار کیا۔ دھندلائی آنکھوں کے عقب میں جھانک کر دیکھا۔ اس کے ہاتھوں میں ابھری بے گوشت رگوں کو دیکھا۔’’ یہی کوئی ستر اسی سال ہو گی‘‘ میں نے اس بوڑھے برگد کے درخت کی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا جس کی عمر جاننے کے لئے جب اس کے تنے کو کاٹا جاتا ہے تو اس کا ہر پرت سالوں کی کہانیاں سناتا ہے۔
’’ایک سو سال عمر ہے میری‘‘ بابا بوٹا بولا ’’شاید دو چار سال زیادہ ہی ہو‘‘
میں نے حیرت سے اسے ایک بار پھر غور سے دیکھا۔ ستر اور سو کے پھیر میں اس کی زندگی کا حساب لگانا بڑا مشکل لگا ۔
’’میں اس وقت گبھرو جوان تھا‘‘ وہ پرخیال انداز میں بولا تو اس کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھر آئی۔’’میں بھینس اور گھوڑیاں چوری کیا کرتا‘‘
’’یعنی چور تھے آپ‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا
’’ہاں چور تھا میں ۔۔۔ آج کے چوروں میں اور ہمارے دور کے چوروں میں بڑا فرق ہوتا تھا۔ آج کا چور ہمیشہ کی طرح بزدل اور ہمارے دور کا چور بڑا جی دار ہوتا تھا۔ ہم دو طرح سے چوری کیا کرتے تھے۔ ایک تو ڈھاٹا باندھ کر چوری کرتے تھے اور دوسری قسم کے چور لنگوٹا کس کر پورے بدن میں تیل کی مالش کرکے چوری کرتے تھے۔ لنگوٹے والے چور عموماً گھروں کے اندر گھس کر سامان اٹھا کر بھاگ جاتے تھے۔ تیل کی مالش اس لئے کرتے تھے اگر کوئی پکڑ لے تو اس کے ہاتھوں سے پھسل کر نکل جانے کا موقع مل جاتا۔ ڈھاٹا باندھنے والے چور جنس کی چوری کرتے تھے۔ بھینس‘ بکریاں‘ گھوڑے‘ بیل ۔۔۔ میں بھی ڈھاٹا باندھ کر چوری کرتا تھا۔ بڑے بڑے چودھری اور ملک مجھ سے کام لیتے تھے۔ ایک بار مجھے ایک ملک نے سیداں والی سے ایک گھوڑی کھول کر لانے کی فرمائش کر دی۔ ان دنوں سیلاب آیا ہوا تھا اور ایک (نالہ ایک) چڑھی ہوئی تھی۔ آگے پیچھے کے گاؤں اور فصلیں پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں نے ملک کو بتایا کہ سیلاب کے دنوں میں چوری کرنا مشکل تو نہیں ہے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ان دنوں پانی کے ڈر سے گھوڑی کو کسی اور جگہ لے جایا گیا ہو، کیونکہ جو گھوڑی وہ چوری کرانا چاہتا تھا وہ ایک سیدزادے کی تھی اور اسے پاکپتن کے بزرگوں نے تحفہ میں دی ہوئی تھی۔ میں نہیں جانتا لیکن میں نے یہ سن رکھا تھا کہ وہ گھوڑی اصیل نسل تھی اور گھوڑوں کی اس نسل میں سے تھی جس نے کربلا میں اپنا خون بہایا تھا۔ میں مذہبی طور پر باغی قسم کا نوجوان تھا۔ مجھے کھانے پینے اور پہلوانی کا شوق تھا۔ راتوں کو چوری کرتا‘ دنوں کو کبوتر اڑاتا۔ نماز روزہ کا کوئی خیال نہیں تھا مجھے ۔۔۔ خیر ۔۔۔ ملک کے اصرار پر میں سیداں والی چلا آیا ۔ ادھر جہاں ہم دونوں بیٹھے ہیں‘ اس وقت سڑک نہیں بھی تھی۔ کچا اور نشیبی علاقہ تھا۔ درخت بھی پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں شام سے پہلے ادھر آ گیا تھا۔ کوئی انسان ادھر نظر نہیں آ رہا تھا۔ سیداں والی کو جانے والا سارا راستہ پانی میں گم تھا۔ میں نے اچھا کام یہ کیا کہ نالہ ایک کی پٹری پر چلا گیا ۔کئی جگہ سے پٹری سے اوپر بھی پانی آیا ہوا تھا۔ پانی میں تیزی تھی۔ میں نے جب دیکھا کہ ٹوٹی پٹری کی وجہ سے میں سیداں والی کی طرف نہیں جا سکوں گا تو میں نے نالہ تیر کر عبور کر لیا۔ مجھے بڑی مشکل آئی۔ کئی بار تو ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ بالاخر میں نالے کی دوسری طرف پہنچا تو مجھے ایک مجذوب سا آدمی ملا۔ وہ نالہ کے اندر اترنے کی کوشش کر رہا تھا اس نے صرف تہبند باندھ رکھا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ شخص نالہ میں ڈوب جائے گا لہٰذا میں نے اس کا بازو پکڑ لیا اور کہا ’’ڈوب مرنے کا ارادہ ہے‘‘
وہ کچھ نہ بولا اور جھٹکے سے بازو چھڑوا کر نالہ کے اندر اتر گیا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سا جلال تھا۔ اس دوران چار پانچ مرد بھی ادھر آ گئے۔ میں نے انہیں بھی کہا ’’اس کو روکو یہ ڈوب جائے گا پانی بڑا تیز ہے‘‘
وہ مجھے کہنے لگے ’’لگتا ہے تو نہیں جانتا یہ کون ہیں۔ یہ کاکے شاہ سرکار ہیں جب تک یہ نالہ ایک میں نہیں اتریں گے اس کا زور ختم نہیں ہو گا‘‘
میں ہنس دیا ’’پاگل ہو گئے ہو تم۔ پانی نے بڑے بڑے بند توڑ دئیے ہیں یہ کیسے روکے گا‘‘
’’یقین نہیں آتا تو دیکھ لو‘‘ ایک شخص نے کہا ’’ہر سال جب سیلاب آتا ہے تو سرکار نالہ ایک میں کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘ اس کی بات سن کر میں ہنسنے لگا۔ دیہاتیوں نے میری اس حرکت پر منہ بنا لیا میں بھی ازراہ تفریح وہاں ٹھہر گیا کہ دیکھوں پانی کیسے ٹھہرتا ہے۔
شام ہونے میں ابھی خاصا وقت تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اندھیرا ابھی سے چھانے لگاہے۔ آسمان کی طرف دیکھا تو سیاہ بادل بڑی تیزی سے پھیلتے ہوئے روشنیوں کو نگل رہے تھے۔ کچھ ہی لمحے میں آناً فاناً موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ بجلیاں کڑکنے لگیں سمجھئے دوپہر میں رات کی سیاہی گھل مل گئی تھی۔ اس موسم میں گھوڑی کھول کر لے جانا مشکل تھا۔ کیونکہ طوفانی بارش کے اندھیرے میں لالٹین نہیں جلائی جا سکتی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں واپس چلا جاتا ہوں لیکن جب ارادہ کیا تو مجھے اس طوفان میں واپسی کا راستہ ملنا مشکل نظر آیا۔ سو میں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور پیر کاکے شاہ کی طرف دیکھنے لگا جو نالہ ایک کے بپھرے پانیوں میں اتر گئے تھے۔ ان کے ہاتھ اور چہرہ آسمان کی طرف بلند تھا وہ پانی میں یوں چل رہے تھے جیسے وہ پانی میں نہیں پختہ راستے پر چل رہے ہوں۔ میرے لئے یہ بات حیرانی سے کم نہیں تھی۔ گہرے پانیوں میں چلا نہیں جاتا بلکہ تیرنا پڑتا ہے۔ پانی ان کے کندھوں تک نظر آ رہا تھا حالانکہ میرے اندازے کے مطابق نالہ بیس پچیس گز گہرا تھا۔ میں نے دیہاتیوں کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ گویا مجھے سمجھا رہے تھے کہ دیکھا تم ہم پر ہنس رہے تھے لو اب اپنی عقل پر ہنس لو میرے بچے۔ روحانی لائن میں عقل محو تماشا ہوتی ہے۔ اس کو ضعف آ جاتا ہے یہ تو دل کی دنیا ہے اس میں عقل کا کیا کام۔ پیر کاکے شاہ آدھ گھنٹہ پانی میں کھڑے رہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ پانی ان کے کاندھوں سے نیچے ہو رہا ہے اور پھر ان کی کمر سے ہوتا ہوا ان کے گھٹنوں تک آ گیا۔ میرے سامنے کناروں کو اپنی وحشت میں غرق کرنے والا پانی پیر کاکے شاہ کے پیروں تک بیٹھ گیا تھا۔ میں بار بار اپنا سر جھٹکتا ہوہا کہ کہیں میں نیند کی حالت میں تو نہیں ہوں۔ لیکن میرے سامنے ایک سربستہ راز حقیقت بے نقاب ہو رہی تھی۔ میں دم بخود حیرت کے سمندروں میں غوطے کھا رہا تھا۔ جب ایک دیہاتی نے میرا کاندھا تھپتھپایا اور کہا ’’تم کہاں سے آئے ہو‘‘
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’میں بہت دور سے آیا تھا راستہ بھول گیا ہوں‘‘ میں اسے کیا بتایا کہ میں ان کے گاؤں میں چوری کرنے آیا ہوں۔
کچھ دیر بعد پیر کاکے شاہ نالہ ایک سے باہر آئے اور شان بے نیازی سے ایک اچٹتی نگاہ مجھ پر ڈالی اور سیداں والی کی طرف چل دئیے۔ دیہاتی ان کے پیچھے پیچھے تھے۔ میں اپنی جگہ بت بنا کبھی نالہ ایک کو دیکھتا اور کبھی پیر کاکے شاہ کی طرف۔ تھوڑا سا آگے جا کر وہ پلٹے اور میری طرف دیکھ کر زور سے ہاتھ ہلا کر بولے ’’جا ۔۔۔ جا ۔۔۔
ان کی بات سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
پیر کاکے شاہ میرے اندر کے چور کو پہچان گئے تھے۔ میں سر سے پاؤں تک لرز گیا۔ بارش میں بھی پسینہ آ گیا۔ میں اس جگہ جیسے زمین میں دفن ہو گیا تھا۔ وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے۔ بارش کا زور تھم گیا لیکن میں بھیگتا رہا ۔خاصی دیر گزر گئی تو میں نے واپسی کا ارادہ ملتوی کر دیا اورسیداں والی کی طرف چل دیا۔ راستے میں بانسوں کا ایک گنجان جھنڈ تھا۔ اسے عبور کیا تو دور دور تک فصلیں پانی میں ڈوبی نظر آئیں۔ وہاں مجھے ایک بوڑھی عورت ملی ۔ اس نے ہاتھ میں دودھ سے بھرا ڈول اٹھایا تھا۔ میں نے اس سے سیدزادے کے گھر کا پتہ پوچھا تو وہ بولی۔
’’پتر میں بھی ادھر ہی جا رہی ہوں میرے ساتھ چل‘‘
میں اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتا تھا لیکن اس کی ایک بات سن کر میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ کہنے لگی ’’پتر راستے میں گار اور پانی ہے۔ میں بوڑھی عورت ہوں۔ ڈرتی ہوں میرے گر جانے سے دودھ کا ڈول نہ گر جائے۔ پتر دودھ گر گیا تو آج کاکے شاہ کو دودھ نہ پلا سکوں گی‘‘
’’ماں جی ۔۔۔ یہ کاکے شاہ کون ہیں‘‘ میں نے اس کی بات سن کر اپنے تجسس کو بے نقاب کیا۔
’’لے پتر تو نہیں جانتا، اللہ کے سائیں ہیں۔ انہیں دنیا داری سے کوئی غرض نہیں ہے۔ بس اللہ اللہ کرتے رہتے ہیں۔ بولتے بہت کم ہیں۔ جو بات کہتے ہیں وہ پوری ہو جاتی ہے۔ تم نے جس سیدزادے کا پوچھا ہے اس کا گھر ان کے گھر کے قریب ہے‘‘ میں نے بوڑھی عورت کو ان کے نالہ ایک میں اترنے کا قصہ سنایا تو وہ بولی۔
’’پتر ہر سال کاکے شاہ نالے میں اتر کر سیلاب کو روکتے ہیں۔ اگر وہ یہ نہ کریں تو ہمارا گاؤں اور سارا شہر ڈوب جائے۔ پچھلے دو دن سے وہ گاؤں میں نہیں تھے۔ آج آئے ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے تو وہ اسی وقت نالہ ایک پر چلے گئے ۔ اب میں انہیں دودھ پلانے جا رہی ہوں۔ وہ کسی سے لے کر نہیں کھاتے لیکن انہیں میرے ساتھ بڑا پیار ہے۔ مجھے ’’سائیں شاہ دی رکھی‘‘ کہتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ سائیں شاہ دی رکھی مجھے دودھ پلاؤ۔ میں نے کہا شاہ جی ہمارے پاس بھینس نہیں ہے۔ پتر ہم بڑے غریب لوگ ہیں۔ کہنے لگے اللہ دے گا۔ شاہ صاحب بہت کم باتیں کرتے ہیں۔ میں نے گھر جا کر اپنے خاوند کو یہ بات بتائی تو وہ بڑا خوش ہوا۔ کہنے لگا کہ اس کا مطلب ہے ہمیں بھینس مل جائے گی۔ وہ اسی وقت باہر نکل گیا اور رات گئے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک بھینس کی رسی تھی۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ یہ بھینس کہاں سے لایا تو وہ بتانے لگا کہ یونہی ایک خیال کے تحت کھیتوں میں چلتا جا رہا تھا کہ اسے ایک آدمی مل گیا یہ بھینس اس کے ساتھ تھی۔ کہنے لگا کہ اسے تھوڑے پیسوں کی ضرورت ہے۔ اگر وہ یہ بھینس خرید لے تو اس کا کام بن سکتا ہے۔ میرے خاوند کے پاس صرف دو روپے تھے۔ اس اجنبی نے دو روپے میں بھینس بیچ دی۔ میں نے صبح سویرے بھینس کا تازہ دودھ گرم کیا اور کاکے شاہ کی خدمت میں پیش ہو گئی۔ اب میں ایک وقت کے دودھ میں سے ایک پیالہ روزانہ انہیں پلانے جاتی ہوں ۔یہ سب ان کی دعاؤں کا اثر ہے۔ پچھلے سال میری بیٹی کو دورے پڑنے لگے تو میں اسے کاکے شاہ کے پاس لے کر گئی۔ میری بیٹی کو دیکھتے ہی ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس کے سر پر پیار کرکے دو تین چپتیں ماریں اور دوبارہ مسکرانے لگے اور کہا ’’سائیں شاہ دی رکھی۔ دودھ کہاں ہے‘‘ پتر جی کاکے شاہ بڑا پیار کرنے والے انسان ہیں۔ کسی کو دکھ نہیں دیتے۔ اس روز کے بعد میری بچی کو کبھی دورہ نہیں پڑا۔‘‘
ہم باتیں کرتے ہوئے سیداں والی کے اندر داخل ہو گئے۔ اس نے ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ کاکے شاہ کا گھر ہے۔ دو گھر چھوڑ کر گلی میں داخل ہو جانا۔ اس سے پہلا گھر سیدزادے کا ہے‘‘پیر کاکے شاہ کے گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ بوڑھی عورت اندر چلی گئی۔ میں نے سیدزادے کا گھر دیکھا اور پھر میں لوگوں سے پوچھتا ہوا اس کی حویلی تک چلا گیا۔ اس کی گھوڑی وہاں بندھی ہوئی تھی۔ میں رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ بارش رک چکی تھی اور آسمان صاف ہو گیا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد میں نے گھوڑی کھولی اور اسے پچکار کر حویلی سے باہر لے جانے میں کامیاب ہو گیا اور پھر میں اس پر سوار ہو کر نالہ ایک کی طرف چل دیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ گھوڑی ان راستوں سے آشنا ہے۔ میں جب بانسوں کے جھنڈ کے پاس سے گزرنے لگا تو یکایک ایک آواز نے گھوڑی کے اٹھتے قدموں کو جیسے زنجیریں ڈال دی تھیں۔
’’چورا ۔۔۔ تو باز نہیں آیا‘‘ پیر کاکے شاہ کی آواز میں قہر تھا۔ میں نے ان کی بات کا جواب نہ دیا اور گھوڑی کو ایڑھ لگاکر بھگانے لگا ۔ نالہ ایک پر پہنچا تو اس وقت چاند آسمان پر اپنی روشنیاں بکھیر رہا تھا۔ میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور گھوڑی سمیت نالہ ایک عبور کرنے لگا۔ پانی اب اتر چکا تھا لیکن جونہی گھوڑی ’’ایک‘‘ میں اتری پانی کا ایک زوردار ریلا اٹھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانی میرے سر تک آ پہنچا۔ ایک طوفانی لہر نے مجھے گھوڑی سمیت اٹھا کردور پھینک دیا۔ اس وقت میرا سر ایک بھاری پتھر سے ٹکرایا اور میں بے ہوش ہو گیا۔ اگلی صبح میری آنکھ کھلی دیکھا تو میرا سارا بدن آگ میں تپ رہا تھا۔ سر پر خون جما ہوا تھا اور بدن ٹوٹ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اپنے گاؤں پہنچا۔ گھر پہنچتے ہی میں بے ہوش ہو گیا۔ وید‘ حکیم‘ پیر فقیر سبھی آئے میرا علاج کرنے ۔۔۔ مگر مجھے ہوش نہ آیا۔ مجھ پر دیوانگی طاری ہو گئی۔ کئی مہینے تک میں بے ہوش پڑا رہا۔ کبھی کبھی میرے منہ سے پیر کاکے شاہ کا نام بھی نکل جاتا۔ لیکن ان دنوں ان کی زیادہ شہرت نہیں تھی۔ کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ میں ان کا نام کیوں لیتا ہوں۔ ایک روز ایک فقیر ہمارے گھر آیا۔ اس نے خیرات مانگی تو میری ماں نے اسے کہا کہ میرے بیٹے کے لئے دعا کرو۔ میں تمہارا منہ گھی شکر سے بھر دوں گی۔ فقیر نے جب مجھے دیکھا تو وہ زیرلب کچھ بدبدانے لگا۔ پھر ایک دم بولا ’’جن بھوت کا سایہ نہیں ہے۔ اسے کسی کی بددعا لگی ہے‘‘ اس وقت میرے منہ سے پیر کاکے شاہ کا نام نکل گیا تو فقیر چونک پڑا اور بولا ۔۔۔ ’’اسے پیر کاکے شاہ کے مزار پر لے جاؤ اور اس کی صحت کی منت مانگو‘‘۔ میری ماں اور بھائی مجھے سیداں والی لے آئے۔ معلوم ہوا کہ ان کا وصال ہو چکا ہے۔ میری ماں نے وہاں منت مانگی اور چند ہفتوں بعد میں صحت یاب ہونا شروع ہو گیا۔ میری دیوانگی اتر گئی۔ جونہی ذہن میں شعور کی بتیاں روشن ہونے لگیں میں کاکے شاہ کے مزار کی طرف بھاگ اٹھا۔ میں جانتا تھا کہ میں ایک بزرگ کی گستاخی کرکے عذاب میں مبتلا ہوا ہوں، اس کا علاج بھی ان کے پاس ہی ہے۔ لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ میں ان کی قبر پر جا کر بہت رویا لیکن مجھے سکون نہ ملا۔ پھر میں ان کے مزار پر ہی رہنے لگا۔ ہر جمعرات کو لنگر تقسیم کرتا۔ ایک روز پیر کاکے شاہ مجھے خواب میں ملے اور کہا ’’چورا ۔۔۔ میرے مزار سے چلا جا‘‘
پتر جی میری تو دنیا ہی لٹ گئی۔ میں اپنی قسمت کو روتا پیٹتا اس جگہ آ بیٹھا اور ساری عمر یہاں گزار دی۔ مجھے ان کے مزار پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ برسوں سے ہر جمعرات کو یہاں نان پکوڑے نذر نیاز کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میری سختی دور ہو جائے‘‘
بابا بوٹا داستان حزن و ملال سنا کر ہچکیاں بھرنے لگا ’’پتر اس چوٹ کا درد وہی جانتا ہے جو اس درد سے گزرا ہو پتر جی میں تم سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ میری سفارش کرنا۔ ہو سکتا ہے سرکار کسی پردیسی کی لاج رکھ لیں‘‘
’’بابا‘‘ میرا دل اندر سے کٹنے لگا۔ میں بزرگوں سے انتہا درجے کی عقیدت تو رکھتا تھا مگر ان سے کچھ طلب کرنے کی جسارت نہیں کرتا تھا۔ صرف اپنے اللہ سے مانگتا تھا۔ میں نے انہیں تسلی دینا چاہی مگر الفاظ میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ اس اثنا میں ایک گڈری پوش جس نے سر تک چادر اوڑھی ہوئی تھی ہمارے پاس آ گیا۔ بابا بوٹا اسے دیکھتے ہی عقیدت سے اٹھا اور ان کے ہاتھ چوم کر کپڑے میں رکھے نان پکوڑے انہیں دے کر بولا ’’بابا ۔۔۔ دعا کی ہے ناں‘‘
گدڑی پوش نے اثبات میں سر ہلایا اور واپس چلنے لگا تھا کہ چند قدم چلنے کے بعد وہ رک گیا اور پلٹ کر ہماری طرف دیکھنے لگا۔ پھر سر سے چادر سرکا کر میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی میں تڑپ کر رہ گیا۔
’’بابا آپ‘‘ میں بھاگ کر اس چادرپوش کے پاس پہنچا اور بے اختیار ہو کر ان کے چہرے سے نقاب ہٹائی۔ ان کی آنکھیں اور چہرہ مسکراہٹ کی تابانی سے منور تھا۔ بابا تیلے شاہ کا یوں بابا بوٹے کے پاس آ جانا میرے لئے اچنبھے کی بات تھی۔
’’یاد آ گئی ہماری‘‘ بابا تیلے شاہ نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ شکوہ بھرے لہجے میں کہا۔
’’دیر ہو گئی بابا‘‘ میں عاجزی اور شرمندگی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولا ’’سچ تو یہ ہے کہ آج بھی میں ارادتاً نہیں آیا بلکہ لایا گیا ہوں‘‘
’’میں سمجھتا ہوں ۔ اگر تم آج بھی نہ ہوتے تو پھر تمہارا آنا نہ آنا ایک برابر ہوتا‘‘ وہ بولے
’’میں سمجھا نہیں‘‘ میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔
تم جن سرابوں میں بھٹک رہے ہو ایک روز ان میں گم ہو کر رہ جاؤ گے اور تمہیں واپسی کا راستہ نہیں ملے گا‘‘ بابا تیلے شاہ نے کہا ’’آؤ ۔۔۔ مزار پر چلتے ہیں پھر باتیں کریں گے‘‘
میں ان کے ساتھ چلنے لگا تو بابا بوٹا دوڑتا ہوا میرے پاس آ گیا اور ہانپتی کانپتی آواز میں مجھے یاد دلانے لگا ’’پتر جی اپنا وعدہ نہیں بھولنا میرے لئے دعا کرنا‘‘ پھر وہ بابا تیلے شاہ کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھنے لگا ’’سرکار یہ بچہ آپ کا پہچانو ہے تو میرا کام اب کی بار کر دیں۔ میری خلاصی کرا دیں۔ گناہ پہاڑوں سے اوپر ہو گئے ہیں۔ دل کو سکون نہیں ملتا سرکار ۔جب تک پیر کاکے شاہ معاف نہیں کریں گے میرا دم سکون سے نہیں نکلے۔‘‘
’’بابا‘‘ میں نے بابا بوٹے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’تم بھی ہمارے ساتھ آ جاؤ۔ مل کر نوافل ادا کریں گے اور اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہارے دل کو سکون مل جائے‘‘
’’ناں ۔۔۔ ناں ۔۔۔ ناں پتر‘‘ وہ ایک دم پیچھے ہٹ گیا‘‘۔ میں ایسی گستاخی نہیں کر سکتا جب مرشد نے اپنے مزار سے نکال دیا ہے تو میں وہاں کیسے جا سکتا ہوں۔ جب تک بلاوا نہیں آتا میں نہیں جا سکتا۔ پتر جی ۔۔۔ پہلے ہی ایک بار گستاخی کرکے سزا بھگت رہا ہوں۔ اب دوبارہ گناہگار نہیں ہونا چاہتا‘‘
’’حوصلہ رکھ بوٹے ۔۔۔ اللہ نے چاہا تو بوٹا دوبارہ ہرا بھرا ہو جائے گا‘‘ بابا تیلے شاہ نے اسے تسلی دی تو وہ آنسوؤں سے رونے لگا۔ میرا دل بڑا مکدر ہوا لیکن اسے تسلی دینے کے لئے میرے پاس مزید الفاظ نہیں تھے۔
میں بابا تیلے شاہ کے ساتھ ہو لیا۔ ان سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن وہ راستہ بھر خاموش رہے۔ میں نے ایک بات خاص طور پر محسوس کی تھی۔ ان کی چال میں وقار تھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے تھے۔ سرنگوں چل رہے تھے۔ میں حیران تھا کہ وہ راستہ کو بغور دیکھے بغیر کیسے آرام سے چل رہے تھے۔ شاید اس لئے کہ اللہ والوں کو ظاہری آنکھوں کے بغیر بھی راستے نظر آتے ہیں۔ ان کے اندر ہزاروں آنکھیں روشن ہوتی ہیں جو پاتال سے آسمان کی بلندیوں تک قدرت کے حجابات کے اندرتک دیکھ لیتے ہیں۔ قلب و نظر کے کثیف معاملات ان سے چھپے نہیں رہتے۔ وہ زیر لب کچھ پڑھ بھی رہے تھے لیکن مجھے ہلکی ہلکی بھنبھناہٹ کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میں ان کے قدموں کا ساتھ دینے سے عاجز آ گیا تھا۔ مجھے باقاعدہ دوڑ کر ان کے ساتھ ساتھ چلنا پڑ رہا تھا اورے سے سیداں والی کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا لیکن جس شخص کو کبھی لگاتار پیدل چلنے کی عادت نہ ہو اور پھر وہ بھی جوگنگ کے انداز میں چلنا پڑے تو وہ جلد ہانپ جاتا ہے۔ ہم جب اونچائی سے اتر کر پکی سڑک سے سیداں والی کی طرف جانے والی سڑک پر پہنچے تو سامنے مجھے بانس کے درختوں کا ایک جھنڈ نظر آیا۔ مجھے بابا بوٹے کی بات یاد آ گئی۔ سالہا سال سے یہ جھنڈ اسی طرح نظر آ رہا تھا۔ اس وقت میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور مجھ سے چلنا مشکل ہو گیا۔ میرے دل میں آیا کہ میں کچھ دیر کے لئے سستا لوں لیکن یہ بات زبان پر لاتے ہوئے مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی۔
’’تھک گئے‘‘ بابا تیلے شاہ نے میری طرف دیکھے بغیر رفتار کم کی اور میرے دل کا بھید جانتے ہوئے سوال کیا
’’ہاں بابا ۔۔۔ اب چلا نہیں جاتا‘‘ پیاس سے میرا برا حال ہو گیا۔ ہونٹ خشک ہو گئے۔ بابا تیلے شاہ کی بات سنتے ہی میں راستے کے ساتھ گزرتی ایک کھالی کے کنارے بیٹھ گیا۔ میرے عقب میں دھان کی سرسبز فصل لہلہا رہی تھی۔ کھیتوں کی اپنی ہی خوشبو ہوتی ہے ۔ دور تک لہلہاتے سرسبز کھیت انسان کی روح کو تروتازہ کر دیتے ہیں لیکن اس وقت میرے دل پر لہلہاتی فصلوں کے سحر انگیز ماحول نے بھی کوئی اثر نہ ڈالا۔ کھلی فضا میں بھی مجھے گھٹن محسوس ہو رہی تھی
بابا تیلے شاہ بھی میرے پاس آ بیٹھے اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے
’’میرے بچے یہ راستہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ادھر دیکھو میرے پیروں کی طرف دیکھو۔ میں پچھلے بیس برسوں سے ننگ پا ہزاروں لاکھوں میل پیدل چل چکا ہوں لیکن اپنی منزل پانے کے لئے میں نے اپنے پیروں کی کبھی نہیں مانی۔ تو جوان ہے‘ ابھی سے بیٹھ گیا ہے۔ اٹھ اور ہمت کر۔ ادھر دیکھ۔ مجذوب بابا کے مزار کا گنبد تجھے اپنی طرف بلا رہا ہے۔ وہ دیکھو گنبد کے اوپر۔ بابا سرکار کھڑے مسکرا رہے ہیں‘‘ میں نے اس طرف دیکھا اور مزار کا گنبد نظر آ رہا تھا۔ سورج عین اوپر چمک رہا تھا مگر مجھے وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔
’’بابا مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا‘‘ میں نے کہا
’’ْتمہیں نظر آئے گا بھی نہیں۔ میں جو دیکھ رہا ہوں۔ اٹھو۔ میری ریاضت کا وقت ہو رہا ہے۔ مجھے وہاں پہنچنا ہے‘‘
بابا تیلے شاہ نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں غیر ارادی طور پر کسی معمول کی طرح اٹھ پڑا۔ ان کی رفتار اب بھی پہلے جیسی تھی ۔ اب کی بار میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چل رہا تھا۔ میں اپنے اوپر حیران تھا کہ میرا تو پورا بدن تھکاوٹ سے چور چور تھا لیکن اب میں یوں چل رہا ہوں جیسے پہلی بار قدم اٹھا رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی رفتار پر کوئی اختیار نہیں رہا تھا۔
کچھ دیر بعد ہم پیر کاکے شاہ کے مزار کے اندر داخل ہو گئے۔ یہ پرانی عمارت نما مزار تھا۔ ایک طرف ان کا تکیہ اور دوسری طرف چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ایک بھی ذی حس وہاں موجود نہیں تھی۔ مزار کی ویرانی دیکھ کر میں حیران ہوا کہ یہ روحانی درگاہ عقیدت مندوں سے خالی کیوں ہے۔ میں نے مزار پر دھڑکتے دل کے ساتھ دعا کی۔ بابا تیلے شاہ قبر کے سرہانے بیٹھ گئے اور اپنی عبادت و ریاضت میں مصروف ہو گئے۔ میں نے مزار کے اندر ہی ایک جائے نماز پر نوافل ادا کئے اور بابا بوٹے کے لئے خاص طور پر دعا کی۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے مزارات پر عبادت اور دعا کا سلیقہ نہیں آتا تھا۔ دو نوافل پڑھنے کے بعد میں فارغ ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں۔ پہلے تو دل چاہا کہ مزار کے سجادہ نشین سے مل لوں لیکن پھر اس خیال سے جائے نماز پر ہی بیٹھا رہا کہ اگر بابا تیلے شاہ نے مناسب خیال کیا تو وہ مجھے خود ملوا دیں گے۔ میں کچھ دیر فارغ رہنے کے بعد سوچنے لگا کہ مجھے یوں خالی الذہن نہیں بیٹھنا چاہئے ۔ لہٰذا نے درود شریفؐ کا ورد شروع کر دیا۔ ٹاہلی والی سرکار کے دئیے وظائف بھی پڑھنے لگا۔ اول اول تو میں ارتکاز توجہ سے غافل ہو کر پڑھتا رہا لیکن جوں جوں وظائف کی گردان بڑھتی گئی میرا انہماک بہتر ہوتا گیا اور ظہر کی نماز ہونے تک میرا یہ عالم تھا کہ مجھے گردوپیش کی خبر نہیں رہی تھی۔
اذان سنتے ہی بابا تیلے شاہ مزار سے باہر آئے اور مجھے نماز پڑھنے کے لئے کہا۔ ہم دونوں نے نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں ایک بار پھر مزار کے درودیوار کی طرف دیکھنے لگا۔ برسوں پہلے میرے والدین یہاں میرے نام کی نذر چڑھانے آئے تھے۔ سالہا سال سے مزار کے نقوش اس طرح برقرار تھے ۔ بابا تیلے شاہ میرے انہماک کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔
’’ان دیواروں پر ہمارے بابا کی یادیں نقش ہیں۔ میں اس وقت سے یہاں آ رہا ہوں جب بابا سرکار کے بہنوئی پیر مظفر شاہ نے گدی سنبھالی تھی۔ اس مزار کے درودیوار کے سوا مجھے یہاں کوئی نہیں جانتا۔ میں آتا ہوں تواپنے بابا کے پاس بیٹھ کر عبادت کرتا ہوں‘‘
’’بابا‘‘ میں نے جرات کرکے ایک سوال کیا ’’بابا مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ ایک مجذوب کے مزار پر آ کر عبادت کیوں کرتے ہیں۔ آپ کسی مسجد میں بیٹھ سکتے ہیں۔ عبادت کے لئے کیا مزارات پر آنا ضروری ہے‘‘
بابا تیلے شاہ بولے۔ ’’میرے بچے ۔اپنے دل کو اتنا سخت کرکے سوال نہ کرو۔ ویسے میں تمہیں یہ بتادوں کہ عبادت کے لئے مقامات کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ بڑے نازک معاملات ہیں۔ جو ہر کسی کو سمجھ نہیں آسکتے ۔ہم یہاں آتے ہیں تو قلب ونظر کو گہرا سکون ملتا ہے۔ ہم غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔‘‘
لیکن آخر کیوں۔۔۔‘‘ میں ان کے جواب کو نظر انداز کرکے اپنے سوال پر بضد ہوگیا ۔
’’صبر کرو۔۔۔تحمل سے سنو۔۔۔‘‘ بابا تیلے شاہ شفقت اور ملائمت سے بولے اور پھر زیر لب کچھ پڑھنے لگے۔ اس بار ان کے الفاظ صاف سنائی دے رہے تھے۔ وہ سورۃ اخلاص اور دوسرا کلمہ پڑھنے کے بعد میرے سینے پر پھونک مار کر بولے۔ ’’شاہد میاں ایک بات ذہن میں رکھ لو۔ اللہ تعالی اپنے عبادت گزار بندوں کو، اپنے محبوب انسانوں کو اپنی رحمت سے دورنہیں رکھتا۔ وصال کے بعد ان کی قبور پر اللہ کی رحمت برستی رہتی ہے تم نے دیکھا ہے۔ اللہ کے حقیقی بندوں کے مزارات پر ایک گونا سکون ملتا ہے۔ ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے بچہ آغوش مادر میں آ بیٹھا ہے ۔ یہ سب کیوں ہوتا ہے۔ ایسے احساسات کیو ں پیدا ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں اللہ کی رحمت برستی ہے اور اللہ تبارک تعالی کی رحمت کا احساس بہت بڑی نعمت ہے۔ ہم لوگ جب ایسی جگہوں پر آتے ہیں تو بنیادی طور پر یہی احساس اور یقین ہمیں یہاں لے کر آتا ہے۔ اس بزرگ کی قبر پر رحمت خداوندی سایہ فگن ہوتی ہے اور ہم اس کی قبر کے پاس بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں تاکہ اللہ کی رحمت کا سایہ ہم کو اپنی پناہ دے۔ جہاں اللہ کی رحمت برستی ہے وہاں دعائیں‘التجائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں۔‘‘
’’بابا مگر مجھے‘تو۔۔۔‘
’’میں جانتا ہوں ۔۔۔ تجھے یہ سکون نہیں ملا ہو گا‘‘ بابا تیلے شاہ میری زبان پکڑ کر بولے ’’اگر تم اپنے دل کوآزاد کر دو۔ اس پے پڑا سختی اور غفلت کا پردہ پھاڑ دو تو تمہیں بھی یہ احساس ہو گا‘‘
’’لیکن بابا ۔۔۔ آپ جانتے ہیں میں بزرگوں سے عقیدت رکھتا ہوں۔ مجھے ان کی محبت بھی حاصل رہی ہے اور پھر ۔۔۔ مجھے اس مزار پر آنے کی تمنا بھی تھی۔ کوئی ایسی کشش تھی جو مجھے یہاں بلاتی تھی مگر میں یہاں آیا ہوں تو میرے دل سے ہر قسم کا احساس جاتا رہا ہے۔ دل خالی ہو گیا ہے ۔۔۔ میں اپنے دل کی بات زبان پر لے آیا۔
’’ہو سکتا ہے ایسا ہو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تم جن چکروں میں پڑ گئے ہو اس کی وجہ سے سرکار ناراض ہیں۔ اللہ کے ولی کی ناراضگی بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی‘‘ بابا تیلے شاہ کی بات سن کر سنسنی کی ایک لہر میرے پورے بدن میں پھیل گئی۔ ’’میاں تمہیں برسوں پہلے یہاں حاضری دینی چاہئے تھی۔ جس بزرگ کی دعا کو اللہ نے قبول کرکے تمہارے ماں باپ کو اولاد نرینہ عطا کی تھی اس کا شکریہ تو ادا کرنا چاہئے تھا‘‘ یہ سن کر میں شرمندہ ہو گیا۔
’’ہاں بابا دیر ہو گئی ہے لیکن اب میں ان کی ناراضگی ختم کر دوں گا۔لیکن بابا ان کی ناراضگی کیسے ختم ہو سکتی ہے ۔ مثلاً مجھے کیا کرنا چاہئے۔‘‘
’’بچے ۔۔۔ انہیں دھن دولت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس تم یہاں نوافل ادا کرو۔ عبادات کرو اور اللہ سے ان بزرگوں کی شفا کے لئے دعا کرو ۔۔۔ اور کیا مانگتے ہیں یہ۔ بس اتنی سی بات ہے‘‘ بابا تیلے شاہ کی بات سن کر میرے دل کو قدرے تقویت پہنچی۔ ان کی ہدایات اور رہنمائی کے مطابق میں پیر کاکے شاہ کے مزار پر مغرب کی نماز تک نوافل ادا کرتا رہا اور اللہ سے گڑگڑا کر اپنی نالائقیوں اور کوتاہیوں کی بخشش کے لئے دعا کرتا رہا۔ مغرب اور پھر عشا کی نماز بھی میں نے بابا تیلے شاہ کے ساتھ ادا کی۔ مجھے وقت گزرنے اور بھوک پیاس کا احساس ہی نہ رہا تھا۔
یہ عشا کے بعد کی بات ہے۔ میں نے بابا تیلے شاہ سے اپنے معاملات کی باتیں کیں۔ انہیں جنات‘ ٹاہلی والی سرکار اور مکھن سائیں کے بارے بھی سب کچھ کہہ سنایا۔ وہ بولے۔
’’میں جانتا ہوں کہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ شاہد میاں ایک بات ذہن میں بٹھا لو۔ ابلیس مردود نیکی کی آڑ میں بدی پھیلاتا ہے۔ وہ سلطان الملائکہ تھا لیکن تکبر نے اسے ابلیس مردود بنا دیا۔ لہٰذا وہ کمزور عقیدہ کے ہمارے انسانوں کو نیکی کے بہکاوے میں گناہوں کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ یہ مکھن سائیں بھی ایسا ہے۔ ٹاہلی والی سرکار اللہ کے ولی ہیں۔ لیکن ابھی وہ اپنی منزل سے بہت دور ہیں۔ ریاض شاہ ایک خراب اور دنیا کی طلب کا مارا ہوا شخص ہے۔ اس کے پاس آنے والے جنات ہیں تو مسلمان لیکن وہ اس کے احکامات ماننے پر مجبور ہیں۔ ریاض شاہ نے علوم کی طاقت سے انہیں پابند کیا ہوا ہے۔ تمہیں یاد ہے میں نے غازی کو سبزی منڈی میں پکڑ لیا تھا لیکن تم نے چھڑوا دیا۔ میں اس وقت بھی یہی چاہتا تھا کہ تم میرے پاس آؤ کیونکہ تم ایک کام کر سکتے ہو۔ ہر انسان کے بس میں ہر کام نہیں ہوتا لیکن اگر تم ہمت کرو تو ریاض شاہ کو شیطانی حرکات سے روک سکتے ہو۔ اس کے لئے ہمت اور حسن تدبر چاہئے۔ اب اگر تم یہ سوچنے لگ جاؤ کہ ایک غلط کار انسان کو روکنے کے لئے ہم کیوں نہیں کچھ کرتے تو میرے بچے ۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کام ہم نہیں کر سکتے۔ یہ کام تم جیسے نوجوانوں کے ذمہ ہے۔ برائی روکنا ایک جہاد ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ہمارا کام نیکی کی تبلیغ کرنا ہے۔ سو ہم کرتے رہتے ہیں۔ تمہیں اس کام پر آمادہ کرنے کے بعد میں تمہیں کچھ وظائف دوں گا جو تمہاری حفاظت کریں گے ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے تم ہر برائی کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے اندر ہمت مرداں پاؤ گے‘‘ اس رات بابا تیلے شاہ نے مجھے روحانی دنیا کے اسرار رموز سے آگاہ کیا اور کچھ قرآنی وظائف بھی یاد کرائے۔ میں رات بھر وظائف پڑھتا رہا۔ فجر کی نماز بھی مزار پر ہی ادا کی اس کے بعد مجھے نیند نے آ لیا۔ میں بہت پرسکون نیند سویا تھا۔ کسی قسم کا خواب نہیں آیا۔ حالانکہ میرے دل کے اندر یہ خواہش بھی تھی اور امید بھی تھی کہ خواب میں پیر کاکے شاہ آئیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
صبح جب میری آنکھ کھلی تو سورج سر پر آیا ہوا تھا۔ آنکھ کھلتے ہی میں بابا تیلے شاہ کو دیکھنے لگا۔ وہ مزار کے اندر موجود تھے اور جھاڑو دے رہے تھے۔ میں نے ان کے ہاتھ سے جھاڑو لینے کی کوشش کی تو وہ کہنے لگے کہ پہلے منہ ہاتھ تو دھو لو۔ میں ہاتھ منہ دھو کر واپس آیا اور ان سے جھاڑو لے کر مزار میں صفائی کرنے لگا۔ آدھ گھنٹہ بعد میں فارغ ہو گیا۔ بابا تیلے شاہ کہنے لگا۔
’’اب ہمیں شائیں بابا کے مزار پر جانا ہے‘‘
اس وقت مجھے بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے کھانے کی خواہش کا اظہار کیا تو مزار کے اندر سے پوٹلی اٹھا لائے اور کل دوپہر کے نان پکوڑے نکال کر مجھے تھما دئیے۔
’’لو ۔۔۔ کھا لو‘‘
میں نے ایک بار تو نان پکوڑوں کی طرف نظر ڈالی اور پھر بابا تیلے شاہ کی طرف دیکھا۔ وہ بولے
’’کبھی کبھی روکھی سوکھی بھی کھا لیا کرو۔ پھر ساری عمر گھی کی چپڑی روٹیاں کھانی ہیں تم نے ۔۔۔ اس وقت تمہیں فقیروں کا یہ کھانا نہ ملے گا‘‘
ان کے کہنے پر میں نان پکوڑے کھانے لگا ۔سچ تو یہ ہے کہ انہیں کھانا میرے لئے مشکل ہو گیا تھا صرف ایک لقمہ ہی کھا سکا تھا۔
’’بابا ۔۔۔ نہیں کھایا جاتا‘‘
’’میں جانتا ہوں تو ابھی یہ نہیں کھا سکے گا‘‘ بابا تیلے شاہ نے نان پکوڑے واپس لئے اور بڑے سکون سے ایک ایک نوالہ کرکے کھا گئے۔
ہم دونوں الوداعی سلام کے بعد سیالکوٹ کی طرف چل دئیے
’’بابا ۔۔۔ اب بھی پیدل چلنا ہو گا‘‘
’’نہیں آج تمہیں سواری ملے گی‘‘ بابا تیلے شاہ نے کہا۔ ہم دونوں قصبے سے باہر نکلے تو ہمیں ایک خالی تانگہ مل گیا۔ ہم اس پر سوار ہو گئے تو کوچوان کچھ پوچھے بغیر تانگہ لے کر چل دیا۔ جب ہم اورے پہنچے تو میری نظریں بے اختیار بابا بوٹے کے کھوکھے کی طرف اٹھ گئیں۔ اس کی دکان پر لوگوں کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ یہ نان پکوڑے کھانے والے لوگ ہوں گے لیکن پھر احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا‘ بابا تیلے شاہ نے انا للہ پڑھی اور میرے منہ سے بے اختیاہ آہ نکل گئی۔ بابا تیلے شاہ نے کوچوان کو رکنے کا اشارہ کیا اور بابا بوٹے کے کھوکھے کی طرف چل دئیے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ ہجوم کو چیر کر ہم آگے بڑھے تو بابا بوٹا بان کی ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر ہمیشہ کی نیند سو رہے تھے۔ ان کے چہرے پر گہرا سکون تھا مگر آنکھیں کھلی تھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔ بابا تیلے شاہ نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور بڑے پیار سے انہیں بند کر دیا۔
’’اللہ مغفرت کرے، بوٹے تیری سنی گئی‘‘ وہ اپنا منہ اس کے کان کے قریب کرکے بولے
ہم دونوں نے بابا بوٹے کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد شائیں بابا کے مزار پہنچے تو اس وقت شام ڈھل رہی تھی۔ دربار کے پاس ایک سفید باریش بزرگ دیگ تقسیم کر رہے تھے۔ دیگ کے اوپر سیاہ بھاری کپڑا ڈالا ہوا تھا۔ ایک لمبی قطار بڑے سکون سے ان سے نیاز لے رہی تھی۔ بابا تیلے شاہ نے مجھے کہا
’’تو بھی قطار میں لگ جا‘‘ میں نے ایک نظر قطار پر ڈالی۔ کم از کم سو لوگ کھڑے تھے۔ اونچے ٹیلے پر مزار تھا اور اترائی تک قطار جاتی تھی۔ میں نے سوچا کہ میرے وہاں پہنچتے پہنچتے دیگ ختم ہو جائے گی۔ یوں کھڑا رہنے کا کیا فائدہ۔ میرا خیال پر لگا کربابا تیلے شاہ تک جا پہنچا بولے ’’حجتی ۔۔۔ ہر وقت دلیل کی گانٹھ دے کر اپنے دل کی وسعتوں کو قید کرنے کی کوشش نہ کیا کرو ۔۔۔ صبر و تحمل سے کام لو‘‘
ان کے کہنے پر میں قطار میں لگ گیا۔ باریش بزرگ نے ہاتھ میں ایک تھالی پکڑی ہوئی تھی۔ وہ کپڑا ذرا سا سرکاتے اور تھالی بھر کر چاولوں کی نیازمندوں کو دیتے۔ میرے اندازے سے دیگ کو اب تک ختم ہو جانا چاہئے تھا لیکن میں ان کے قریب جا پہنچا تھا اور اب میرے پیچھے اب لمبی قطار لگ چکی تھی لیکن دیگ تھی کہ ختم ہونے کو نہ آ رہی تھی۔ میں پاس پہنچا تو میں نے اپنی جھولی پھیلا دی۔ باریش بزرگ نے تھالی چاولوں سے بھر کر میری جھولی میں ڈال دی۔ میں چلنے لگا تو وہ بولے ’’شوہدے ۔۔۔ ایک تھالی اور لے جا اپنے بابا کو بھی کھلا دینا‘‘
میں حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔ ان کی آواز مجھے جانی پہچانی لگی لیکن میں انہیں پہچان نہ سکا۔