ایک محقق صحافی شاہد نذیر چودھری کی سچی داستان جس نے جنات کے ساتھ گزرے ہوئے دنوں کو قلم بند کرکے اس ماورائی مخلوق اور روحانی وشیطانی علوم کے بھیدوں سے آگاہ کیا۔’’میں نے ان جنات کو انسانی شکلوں میں دیکھا، اپنے قریب پایا، انہیں چھوا، اٹھکیلیاں کیں، انکے انسانی و جناتی خدوخال کا تجزیہ کیا،انہیں کھانے کھلائے،انکے احکامات پر ویرانوں میں جناتی مخلوق کے تجربات و مشاہدات اور معمولات دیکھتا رہا , ان سے تاریخ کے المناک واقعات سنتا رہا۔وہ اپنی محافل سجاتے تو قرآن پاک کی تلاوت اور ہدیہ نعتﷺ سے وجد کا سماں بند جاتا۔۔۔ جنات سے میری ان ملاقاتوں کی روداداور انکے اعمالِ وظائف نے مجھے اور بہت سوں کو بدل دیا، جنات کی حقیقت سے پردہ اٹھادیا‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف دو رتی افیون حاصل کرنے کے لئے اس قدر خوار ہونا پڑے گا، یہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا اور اب مجھے اس عذاب سے جان چھڑانے اور فرار کا کوئی رستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔اس تپتی دوپہر میں نہر کنارے موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا، یہ لالو قصائی میرے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کی آوارگی سے میں سخت عاجز آ چکا تھا۔ تین بار مشکوک انسان سمجھ کر پولیس نے ہمیں روکا تھا مگر میرے تعارف کرانے پر وہ چھوڑ دیتے تھے اور ہم افیون کی خاطر ایک نئے گاؤں کی طرف جا نکلتے تھے۔ نہر کے سیفل سے ایک کوس پہلے جب لالو قصائی نے مجھے ملیاں گاؤں کی طرف موٹر سائیکل کا رخ موڑنے کی ہدایت کی تو میں گھبرا گیا اور موٹر سائیکل روک دی۔ ملیاں منشیات فروشوں کا گڑھ تھا ، اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کی خاطر میں نے اپنے خوف کو دبا لیا اور سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔’’لالو اب ملیاں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے دو رتی افیون لینی ہے اور اس کے لئے تم نے مجھے بارہ گاؤں گھوما دئیے ہیں۔ ہر بار تو یہی کہتا ہے کہ ہمارا کام فلاں گاؤں میں ہو جائے گا۔۔۔۔چودھری صاحب غصہ نہ کریں، میں بھی خوار ہو رہا ہوں ، میں نے آج میلے سے جانور لینے جانا تھا ، کل گوشت کے لئے ایک بھی جانور نہیں ہے میرے پاس ، لیکن میں صرف آپ کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پی رہا ہوں۔
’’لالو کام تو مجھے بھی بہت ہیں، صبح میرا انگریزی کا پرچہ ہے لیکن ایک دکھی عورت کی خاطر میں یہ نیکی کرنے نکلا ہوں۔ تو جانتا ہے پوری پٹی پر پولیس نے ناکے لگا رکھے ہیں اگر میں صحافی نہ ہوتا تو یقیناً وہ ہمیں پکڑ لیتے۔۔۔۔۔۔لالو قصائی کی چندھیائی ہوئی آنکھوں میں ایک لحظہ کے لئے عجیب سی چمک آئی بولا ، پولیس نے آپ سے متھا لگا کر مرنا ہے جی ؟ ویسے بھی یہ راجو ڈوگر کا علاقہ ہے۔ اس نے تھانے خریدے ہوئے ہیں، آپ تو ویسے ہی ڈر رہے ہیں، چلیں مجھے یقین ہے ملیاں میں ہمارا کام ہو جائے گا‘‘ ٹھگنے قد کا مالک یہ لالی قصائی میرے دوست کے گاؤں ملک وال کا رہنے والا تھا۔ عام سی شخصیت کا روکھا سوکھا نوجوان تھا۔ گاؤں میں بڑے گوشت کی ایک ہی دکان تھی جو لالو قصائی کے باپ دادا کے وقتوں سے چلی آ رہی تھی اور اب لالو اپنے آباء کی گدی سنبھالے ہوئے تھا۔ میں اس وقت تک اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا لیکن جب اس کا گھناؤنا کردار مجھ پر عیاں ہوا تو اس مسکین صورت کے پیچھے ایک چالباز ، مکار اور انتہائی بدگو شخص چھپا ہوا نکلا۔ اگلی صبح میرا بی اے کا انگریزی پرچہ تھا مگر اپنے باباجی کی خاطر میں اس شرمناک مہم پر نکلا تھا۔ مجھ پر سالانہ امتحان کا خوف بھی طاری تھا اور اس پر مستزاد کہ مجھ جیسا شخص جس نے صحافت کو ایک مشن سمجھ کر اختیار کیا تھا اور جو ہمیشہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف اپنا قلم استعمال کرتا تھا خود ایک گھناؤنے فعل کے ارتکاب پر مجبور تھا۔ مجھے ڈر تھا لالو قصائی نے مجھے افیون دے دی اور پولیس نے ناکے پر تلاشی کے بعد برآمد کر لی تو میرا کیا بنے گا ؟ عزت نفس اور خاندانی عزت و وقار کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دینے والے ایک نوجوان کے لئے اس سے بڑی تہمت اور بدنامی کیا ہو سکتی تھی کہ وہ افیون رکھنے کے جرم میں پکڑا گیا تھا۔ ایک ایسا نوجوان جس نے غلطی سے بھی سگریٹ نہ تھاما ہو ، اس پر افیون نوشی کا الزام عام سی بات نہیں ہوتی۔ مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ اگر میں اس الزام میں پکڑا گیا تو والد صاحب سے خوب جوتے پڑیں گے۔ وہ تو مجھے پولیس سے ہرگز نہیں بچائیں گے اور اپنا غصہ گھر کے دوسرے افراد پر بھی نکالیں گے کہ یہ تم لوگوں کی وجہ سے ملکوال پڑھنے گیا تھا اب اس کے کرتوت دیکھ لو ؟ میں نے بارہا دل میں یہ دعا کی کہ یا الہٰی مجھے افیون نہ ہی ملے تو اچھا ہے لیکن جس بزرگ ہستی سے میں وعدہ کرکے آیا تھا اس کے سامنے مجھے انکار کرنے کا حوصلہ بھی نہیں تھا۔ اپنے تئیں مجھے یقین تھا کہ افیون نہ بھی ملی تو میری یہ کوشش بھی مجھے بابا جی کی نظروں میں سرخرو کر دے گی کہ میں نے ان کے کہنے پر یہ تگ و دو تو کی۔۔۔۔۔ملیاں سے ایک کوس پہلے لالو قصائی نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا ، بادشاہو ۔۔۔ رکو رکو۔۔۔اب کیا ہوا ہے؟؟ میں نے فٹافٹ بریک لگائی۔۔۔۔’’اس کچے پر موٹر سائیکل اتاریں‘‘ اس نے سرکنڈوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔یہ راستہ تو مکھن سائیں کے آستانے کی طرف جاتا ہے۔ ملیاں کے لئے یہاں سے کوئی راستہ نہیں جاتا‘‘ میں نے کہا
’’بادشاہو ، میں نے سوچا ہے مکھن سائیں کی زیارت کرتے چلیں۔ سرکار کے علاقے میں آیا ہوں تو ان کے درشن کئے بغیر آگے کیسے جا سکتا ہوں؟؟؟ لالو قصائی سرفروشانہ انداز میں بولا ’’سرکار کو پتہ چل جائے گا کہ لالو ادھر سے گزرا ہے، وہ ناراض ہوں گے‘‘
’’یار تو مصیبت بن گیا ہے۔ میں نے تجھے کہا تھا کہ میرا کام جلدی کر دے مگر تین گھنٹے سے تو مجھے کبھی ایک گاؤں اور کبھی نہر کے کنارے لئے بھاگ رہا ہے۔ اب تجھے مکھن سائیں کی زیارت تنگ کرنے لگی ہے‘‘ میں نے جھلاتے ہوئے کہا اور موٹر سائیکل کھڑی کرکے نیچے اتر گیا اور کہا ’’تو اکیلا زیارت کے لئے چلا جا میں بھنگیوں اور چرسیوں کے علاقے میں نہیں جا سکتا۔ لعنت بھیجتا ہوں میں اس خدمت پر میں جا رہا ہوں‘‘ میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ بابا جی سے معافی مانگ لوں گا کہ میں افیون نہیں لا سکا مگر اس طرح منشیات فروشوں کے علاقے میں خوار ہوتے پھرنا اب مجھے گوارا نہ تھا۔ میں نے جونہی موٹر سائیکل سٹارٹ کی لالو قصائی اچک کر پیچھے بیٹھ گیا۔ ’’جیسی آپ کی مرضی جناب ۔۔۔ آپ کو ناراض تھوڑا کرنا ہے۔۔۔۔ ابھی میں نے گیئر لگایا ہی تھا کہ جھنڈ کے پار سے کسی نے نعرہ مستانہ بلند کیا ’’حق ۔۔۔ سرکار ۔۔۔ یا مدد مکھن سائیں سرکار‘‘ میں نے چونک کر ادھر دیکھا تو دو ہٹے کٹے ملنگ قسم کے نوجوان مکھن سائیں کے ساتھ ہماری طرف آتے دکھائی دئیے۔
’’سرکار آ گئی‘‘ لالو افراتفری سے موٹرسائیکل سے اترا تو اس کی شلوار کا پائنچہ موٹر سائیکل کے پائیدان میں پھنس گیا اور وہ چکرا کر نیچے گرا مگر اپنے پیر کی عقیدت کا مارا برق رفتاری سے اٹھا اور’’میری سرکار میرے سائیں بابا۔۔۔ میں آپ کی طرف ہی آ رہا تھا‘‘ کہتا ہوا لالو قصائی اس کے قدموں میں جا گرا۔ اس دوران مکھن سائیں خاصا قریب آ چکا تھا۔
’’پیر و مرشد‘‘ کے ملنے ملانے کا منظر دیکھتے ہوئے میں مکھن سائیں کی زیارت سے بھی مستفید ہو رہا تھا۔ چھ فٹ قد اکہرا بدن، تیل میں گوندھی لمبی لمبی لٹیں‘ سیاہ چوغہ میں ملبوس‘ پیروں سے ننگا‘ دونوں ہاتھوں میں عقیق یمنی‘ نیلم اور زمرد کی انگوٹھیاں‘ کلائیوں میں فولادی کڑے‘ گلے میں موٹے دانوں کی لمبی سی مالا۔ گہری آنکھیں قہر و قتال کی سرخیاں لئے ہوئے۔ خشخشی داڑھی‘ دہانہ کھلا‘ دانت سیاہی مائل‘ چوڑے نتھنے‘ مکھن سائیں کا یہ سراپا ، اپنے سامنے دیکھ کر میں ایک بار تو نظریں جھپکنا بھول گیا۔ اس کی شخصیت میں بھرپور وجدانی تاثر تھا۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے اور سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے سامنے خواہ مخواہ مودب ہو جانا ایک عام سی بات تھی۔ اس کے پاس سے کافور کی خوشبو آتی تھی۔ میں نے سن رکھا تھا کہ اس کے آستانے یا ڈیرے پر بھنگی اور چرسی پڑے رہتے ہیں اور اس کی کرامات کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔ پولیس اس کے مریدوں پر ہاتھ نہیں ڈالتی تھی اور نشئی قسم کے گداگر اس کا نام لے کر جس در پر پہنچتے بدعقیدہ لوگ انہیں خالی واپس نہ بھیجتے ہیں۔ سنا تھا کہ کسی نے اس کے فقیر کے ساتھ بدتمیزی کی اور اس پر عذاب آ گیا۔ یہ سچائی تھی یا نہیں مگر اس کا سہارا لے کر مکھن سائیں کے فقیر سارے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کمزور غریب اور وہم پرستی کے شکارفارغ البال نوجوان اس سے امیدیں وابستہ کرنے لگے اور اپنے گھروں سے فرار ہو کر اس کے ڈیرے پر بیٹھ کر نشہ کرتے رہتے۔ ان کے گھر والے اپنے بچوں کی بربادیوں کا رونا روتے۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوتیں کہ نہر اور بیلے کا سارا علاقہ ایک طرف راجو ڈوگر اور دوسری طرف مکھن سائیں کی وجہ سے منشیات کا گڑھ بن چکا ہے۔ جس سے نوجوان نسل کی صحت مندانہ سرگرمیاں مفقود ہو چکی ہیں اور وہ منشیات میں غرق رہنے لگے ہیں۔ مکھن سائیں پر الزامات تو آتے تھے مگر آج تک اس کے علاقے میں چوری ڈاکے یا کسی قتل وغیرہ کی واردات نہیں ہوئی تھی۔ اسکے مرید اسکو اپنے مرشد کی کرامت اور دبدبہ قرار دیتے تھے۔ اس کے علاقے سے کچھ ہی دور نہر کی پٹڑی پر دن دہاڑے لوگ لوٹ لئے جاتے اور کئی کو مار کر نہر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ راہزنی لوٹ مار اور منشیات کی وجہ سے ہی پولیس نے یہاں پر ناکے لگا رکھے تھے۔ پچھلے سال انتظامیہ نے مکھن سائیں کے خلاف ایکشن بھی لیا تھا مگر ایک واقعہ ایسا رونما ہوا کہ اس کے بعد پولیس نے مکھن سائیں کے آستانے کا راستہ دیکھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ہوا یوں تھا پولیس جب اس کے آستانے پر پہنچی تو مکھن سائیں دس فٹ گہری قبر میں چلہ کاٹ رہا تھا۔ اس کے مرید قبر کے گرد بیٹھے بھنگ گھوٹ رہے تھے کچھ تو چرس کے سگریٹ پی رہی تھے ۔وہ پولیس کو دیکھتے ہی مجذوبانہ انداز میں نعرے لگانے لگے۔
’’اوئے آج سرکار سے سرکار ملنے آئی ہے‘‘ پولیس انسپکٹر نے ان کے نعروں پر انہیں ڈانٹا اور نہایت سختی سے پیش آیا۔ تمام ملنگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ انسپکٹر پیروں فقیروں اور روحانی معاملات کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ اس نے پوچھا ۔
’’اوئے مکھن سائیں کہاں ہے‘‘
’’مائی باپ ۔۔۔ سرکار تو سو رہے ہیں‘‘ ایک ملنگ جو غالباً دوسر ملنگوں کا قائد تھا اس نے بتایا
’’کدھر سو رہا ہے اندر ہے۔ کیا؟‘‘ انسپکٹر نے پوچھا تو ملنگ بولا ’’سرکار ۔۔۔مکھن سائیں بستر پر نہیں سوتے وہ تو زمین کے اندر سوتے ہیں‘‘
’’اوئے بک بک نہ کر ۔۔۔ سیدھی طرح بتا کدھر ہے تمہارا مکھن۔ آج میں اس میں سے بال نکال دوں گا۔ چرسی کہیں کا‘‘
’’سرکار ۔۔۔ ہمارے مرشد کی شان میں گستاخی نہ کریں ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔‘‘ ایک بانکا قسم کا مجذوب انسپکٹر کو آنکھیں دکھانے لگا۔
’’اوئے تو۔۔۔‘‘ انسپکٹر نے اسے گالی دی اور چھڑی سے اس کی پٹائی شروع کر دی۔ ملنگ اس کی مار سہتا رہا اور اس نے ایک بار بھی اف نہ کی، بولا ’’میری بوٹی بوٹی کر دو بے شک۔ یہ مار تمہیں بہت مہنگی پڑے گی‘‘ ملنگ کا جواب سن کر انسپکٹر کے علاوہ دوسرے سپاہیوں نے بھی اس کی دھلائی کر دی مگر وہ بانکا مجذوب دلیری سے مار سہتا رہا۔ بالاخر ہار انسپکٹر کا ہی مقدر ٹھری۔ تھک ہار کر ہانپتے ہوئے اس نے سپاہیوں سے کہا کہ مکھن پیر کو تلاش کرو۔ اس پر مار کھانے والا ملنگ بولا
’’میری سرکار تو ادھر اس محل میں سو رہی ہے۔ تم انہیں کہاں ڈھونڈتے پھرو گے تھانیدار جی‘‘ اسنے قبر کی طرف اشارہ کیا تو اسکا استہزائیہ لہجہ انسپکٹر کو طیش دلانے لگا اور وہ بولا ’’مر گیا ہے مکھن سائیں۔۔۔ بتاتے کیوں نہیں مر گیا ہے کیا۔۔۔ کب مرا ہے یہ‘‘
’’تھانیدار جی مریں ہمارے دشمن۔ سرکار تو اندر چلہ کاٹ رہے ہیں اور وہ آپ کی ساری حرکتیں دیکھ رہے ہیں‘‘
’’چلہ کاٹ رہا ہے۔ کیا مطلب اس قبر میں۔ کب سے ہے قبر میں‘‘ انسپکٹر غصہ اور حیرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ پوچھنے لگا
’’سرکار کو آج تیس واں روز ہے۔ چالیس روز تک انہیں اس قبر میں رہنا ہے اور پڑھائی کرنی ہے‘‘ ایک معتبر ملنگ بولا ’’اگر سرکار چالیس روز سے پہلے باہر آ گئے تو قیامت آ جائے گی‘‘ ’’کیسی قیامت اوئے‘‘ انسپکٹر نے دانت کچکچاتے ہوئے چھڑی ملنگ کے دانتوں پر رکھتے ہوئے دبائی ’’بکواس بند کرو اور اسے باہر نکالو‘‘’’نہ سرکار ۔۔۔ نہ ۔۔۔ ہماری کھال اتار دو بے شک پر ہم یہ گناہ نہیں کریں گے‘‘
’’اوئے کیسا گناہ چرسیو۔ نہ نماز‘ نہ روزہ ۔۔۔ نشے میں ہر وقت غرق رہتے ہو۔ خدا رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے اور اپنے بے عمل مرشد کے عذاب سے ڈرتے ہو۔ چلو اور قبر سے باہر نکالو اپنے مرشد کو‘‘ ایک باریش حوالدار نے انہیں لتاڑا۔۔۔۔۔۔۔ جناب ۔۔۔ خدا کا خوف کرو۔۔۔ ہمارے مرشد بڑی پہنچی ہوئی ہستی ہیں، ان کی شان میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بکواس بند کر اوئے گستاخی کے پتر‘‘ انسپکٹر دھاڑا اور سپاہیوں سے کہا ’’چلو تم قبر کھودو‘‘ سپاہی آستانے کے اندر سے کسی اور پھاوڑے لائے تو ملنگ دہائیاں دینے لگے۔ انسپکٹر نے ان کے ساتھ مٹی ہٹائی تو نیچے دو بڑے بڑے تختے رکھے ہوئے تھے وہ بھی ہٹائے گئے تو کافور کی بے تحاشا خوشبو کا جھونکا باہر کو نکلا۔ ۔۔
۔۔اندر مکھن سائیں چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب سی مسکان تھی۔ موٹے دانوں کی تسبیح اس کے ہاتھوں میں تھی ۔وہ آنکھیں بند کیئے لیٹا تھا۔ پیروں میں موتئے کے تازہ پھولوں کا ہار تھا۔ پاس ہی پانی سے بھرا ایک گھڑا پیالہ اور چند سوکھی روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔
گڑھا دس فٹ گہرا تھا
اس وقت زوال کا وقت ہو رہا تھا۔ روشنی اتنی تھی کہ قبر میں رکھی ہر شے واضح نظر آ رہی تھی۔ انسپکٹر اور سپاہیوں نے جب قبر میں مکھن سائیں کو انتہائی سکون کے ساتھ لیتے ہوئے پایا تو قدرے پریشان ہو گئے۔ انہیں یقین نہ آیا کہ تیس روز سے قبر میں بند ایک شخص اتنا تروتازہ بھی ہو سکتا ہے۔ قبر کی گرمی تو مردے کو ایک ہی دن میں پگھلا کر رکھ دیتی ہے اور پھر ایک زندہ انسان کا تیس روز تک قبر میں لیٹ کر پڑھائی کرنا ناقابل فہم بات تھی۔ انسپکٹر اور سپاہیوں کا اعتماد بری طرح ڈگمگانے لگا۔ کچھ لمحے تک وہ مکھن سائیں کی طرف دیکھتا رہا پھر اپنے اندر کے سخت انسان کو بیدار کرکے بولا ”مکھن سائیں باہر نکلو“
اس کی آواز کا مکھن سائیں پر کوئی اثر نہ ہوا تو انسپکٹر نے دو تین بار اسے آواز دی۔ اس پر بھی اس نے کوئی حرکت نہ کی۔
”مولوی تم نیچے اترو اور اسے اٹھاﺅ“ انسپکٹر نے باریش حوالدار سے کہا پہلے تو اس نے عجیب خوفزدہ نظروں سے انسپکٹر کی طرف دیکھا پھر حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق قبر کے کناروں پر ہاتھ رکھتے ہوئے نیچے کود گیا تو اسی لمحہ مکھن سائیں کے آستانے کے برگد کے درخت پر ہلچل مچ گئی۔ سب نے خوفزدہ ہو کر اوپر دیکھا تو ان گنت پرندے برگد کے درخت کے اوپر سے اڑے اور بے قراری سے چہکتے ہوئے برگد کا طواف کرنے لگے۔ مکھن شاہ کی قبر اسی برگد کے نیچے تھی۔ حوالدار پر پرندوں کے شور سے سکتہ طاری ہو گیا۔ لہذا جب اس نے مکھن پیر کو پاﺅں سے ہلا کر جگانا چاہا تو اس کے انداز میں قدرے نرمی اور مرعوبیت آ چکی تھی۔ اس کی نظریں مکھن سائیں کے چہرے پر تھیں جس پر مسکان گہری ہوتی جا رہی تھی۔
اسی لحظہ ایک عجیب کام ہوا۔
برگدسے ایک سانپ سیدھا قبر میں لیٹے ہوئے مکھن سائیں کے سینے پر آ گرا اور حوالدار کی طرف رخ کرکے کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔
حوالدار کی بہادری اتنے سارے اتفاقات دیکھ کر ”خطا“ ہو گئی۔ اسے اپنی جان کی پڑ گئی اور وہ باہر نکلنے کے لئے اچھلنے لگا
”صاحب جی باہر نکالیں .... یہ سانپ“ انسپکٹر بھی پریشان ہو گیا لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے ایک سپاہی کی مدد سے حوالدار کو باہر نکالا۔ ملنگوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ عقیدی مندی کے مارے نعرے مارنے لگے۔ مار کھانے والا ملنگ بولا ”تھانیدار جی میں نے کہا تھا ہمارے مرشد کو تنگ نہ کرنا“ انسپکٹر نے قہر بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور پھر ایک سپاہی سے ڈنڈا لے کر خود قبر میں کود گیا۔ اس نے جاتے ہی مکھن سائیں کا پاﺅں پکڑا اور زور سے اٹھایا۔ اس دوران وہ سانپ سے غافل نہیں ہوا۔ اس نے جھٹ سے ڈنڈا سانپ پر دے مارا مگر اس لمحہ مکھن سائیں نے غضب ناک انداز میں پہلے آنکھیں کھولیں‘ پھر زور سے دھاڑا اور نہایت تیزی سے سینے پر بیٹھے سانپ کو مٹھی میں پکڑ کر انسپکٹر کی ضرب سے بچا لیا۔
مکھن سائیں کا یہ اضطرار‘ بیداری اور جلالت دیکھ کر انسپکٹر کا اعتماد کرچی کرچی ہو گیا۔
”تجھ پر خدا کی مار ہو تو نے ہمارے ملنگوں کو تنگ کیا ہے ہمیں سوتے سے جگا دیا۔ ہمارے محافظ کو مارنا چاہتے تھے“ مکھن سائیں کی گونجدار آواز سن کر انسپکٹر کی زبان گنگ ہو گئی اور وہ بت کی مانند مکھن سائیں کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ ”تو سمجھتا ہے ہم دھندہ کرتے ہیں یہاں‘ اور ہمیں پکڑنے آیا ہے تو .... لے پکڑ لے اور لگا ہتھکڑیاں“ مکھن سائیں نے سانپ کو ہوا میں اچھالا اور وہ برگد کی گھنی شاخوں میں جا کر چھپ گیا۔ اس نے کلائیاں انسپکٹر کے سامنے کر دیں۔ ” لگا لو ہتھکڑیاں تھانیدار جی .... یہ ہتھکڑیاں تو دھاگے ہیں دھاگے، تمہارے اندھے لولے لنگڑے قانون کے۔ تم کیا جانو۔ ہم نے خالق قدرت اور ساری کائناتوں کے قانون بنانے والے کی ہتھکڑیاں اور طوق پہن رکھے ہیں۔ یہ لے اور اپنی حسرت پوری کر لے“
مکھن سائیں کے لہجے اور شخصیت نے انسپکٹر پر لرزہ طاری کر دیا اور اس نے سر گرا دیا اور کہا” سرکار معاف کر دیں۔ مجھے آپ کے درجات کا علم نہیں تھا“
”درجات .... کاہے کے‘ کہاں کے درجات تھانیدار جی۔ ہم تو ابھی پہلے درجہ سے بھی بہت بہت بہت نیچے ہیں“ مکھن سائیں تاسف بھرے لہجے میں بولا تو اس کے اندر کہیں قلب و گماں کے چٹخنے کی آوازیں آنے لگیں۔
مکھن سائیں کو گرفتار کرنے کے لئے آنے والا قانون اس کے آستانے کی دہلیز پر دوزانو بیٹھ گیا۔ انسپکٹر نے ملنگوں سے معافیاں مانگیں اور پھر وہ خود بھی مکھن سائیں کا گرویدہ ہو گیا۔ مکھن سائیں نے اپنی انگلی سے ایک بھاری عقیق کی انگوٹھی اتار کر اسے دی اور کہا ”تھانیدار جی ملنگ کا تحفہ پہن لو۔ میرا مولا سائیں تیرے درجات بلند کرے گا“ وہ انسپکٹر جب مکھن سائیں کے آستانے سے نکلا تو اس کا مرید بن چکا تھا اور پھر ایسا پکا مرید ثابت ہوا کہ اگلے ہی مہینے جب اسے ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی ملی تو وہ اسے مکھن سائیں کی دعاﺅں کا ثمر قرار دینے لگا اور پھر جب تک وہ اس علاقے میں رہا مکھن سائیں کے آستانے پر شب و روز چراغاں ہونے لگے‘ نوجوان ملنگوں کی فوج بڑھ گئی اور پولیس اس کچے راستے پر تنی گردنوں کی بجائے سرنگوں ہو کر سفر کرتی رہی۔
آج وہی مکھن سائیں میرے سامنے تھا۔
لالو قصائی اس کے پیروں میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا ”اوئے لالو .... مجھ سے ملے بغیر واپس جا رہا تھا“
”ناں سرکار .... ناں .... میں یہ جرات کر سکتا ہوں۔ وہ تو اسے جلدی تھی اس لئے“ لالو قصائی نے میری طرف اشارہ کیا تو مکھن سائیں نے بے وجہ قہقہہ لگایا اور بولا۔
”واقعی اسے بہت جلدی ہے۔ یہ ہے بھی جلد باز۔ تو اس کا کام کیوں نہیں کرتا۔ اسے خوار بھی تو بہت کیا ہے تو نے شیطان“ مکھن سائیں کی یہ بات سن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ وہ میری واردات قلب کے بارے اشارے دے رہا تھا اور میں عجیب طرح کے احساسات سے دوچار ہو گیا۔
”لالو .... ہمارے دوست اس کے مہمان بنے ہوئے ہیں۔ اس کی امانت اس کے حوالے کر ہمارے مہمان بھی اس کی بے قراری اور لاچارگی کا نظارہ کر رہے ہیں“ میں مکھن سائیں کی بات نہ سمجھ سکا‘ البتہ اس وقت میں حیرت اور غصے کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہو گیا جب لالو قصائی نے شلوار کے نیفے میں ہاتھ ڈالا اور افیون کی ایک ڈلی نکال کر میرے پاس لے آیا۔
٭٭٭
”لو بادشاہو دو رتی کیا آپ پوری ڈلی رکھ لو۔“ اس نے افیون میری طرف بڑھائی۔” سرکار کا کہا میں ٹال سکتا ہوں بھلا۔“
میں اس بے شرم کا منہ تک رہا تھا اور وہ ڈھٹائی اور اور رذالت کے ساتھ مسکرا رہا تھا۔
”یہ تمہارے پاس تھی تو مجھے کیوں نہیں دے رہے تھے۔“ میں نے لالو قصائی سے افیون لیتے ہوئے ناراضگی کے ساتھ کہا۔ وہ منہ سے کچھ نہ بولا مگر اس کی اضطراری حالت بتا رہی تھی کہ اس نے باامر مجبوری مجھ پر یہ عنایت کی ہے۔
”اوئے کسی شریف آدمی کو زیادہ تنگ نہ کیا کر۔“ مکھن سائیں نے لالو کو اپنے پاس بلایا اور استہزائیہ انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا‘ مجھے مکھن سائیں کی باتوں کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا یا مجھے طنز کر رہا تھا۔ طنز کر رہا تھا تو کیوں‘ ایک طرف وہ ایسے اشارے بھی دے رہا تھا جیسے وہ میرے حالات سے باخبر ہو۔ اس کے بارے ایسی ہی باتیں مشہور تھیں کہ وہ دلوں کی باتیں پکڑ لیتا تھا۔
”جا اب اسے واپس لے جا“ مکھن سائیں نے اس کی کمر پر تھاپڑا دیا۔ لالو قصائی نے عقیدت سے جھک کر مکھن سائیں کے گھٹنے چھوئے تو وہ مجھے گہری نظروں کے ساتھ مسکرا کر دیکھنے لگا۔ بولا ”میاں! کبھی دل مچلے اور کچھ باتوں کی سمجھ نہ آئے تو چلے آنا‘ مکھن سائیں کا دروازہ کھلا ملے گا۔“ میں نے غیر ارادی طور پر اثبات میں سر ہلایا۔ ”اور ہاں۔ اپنے بابا جی کو میرا سلام کہنا....“
میں چونکا اور کسی اصیل گھوڑے کی طرح میرے اندر کوئی شے بدکی‘ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ ”تو کیا مکھن سائیں اس حد تک باطنی ہے‘ اسے کیا معلوم مجھے کس نے‘ کس کام سے بھیجا ہے۔“
خدا گواہ ہے‘ میں اس لمحے مجبور ہو گیا اور اس کے لئے میرے دل میں رعب پیدا ہوا....میں دل و جان سے مکھن سائیں کو ایک فریب کار‘ شیطان کا چیلا اور ڈھونگی سمجھتا تھا۔ اس سے منسوب واقعات اس کے چیلوں کے کاروباری ہتھکنڈے سمجھتا تھا۔ مگر آنکھوں دیکھی کانوں سنی کون جھٹلا سکتا ہے۔ سو یہ میرے ساتھ بھی ہوا۔
”آپ باباجی سرکار کو جانتے ہیں۔“ میں بے اختیار ہو کر مکھن سائیں کے پاس پہنچ گیا۔
”ترے باباجی سرکار مجھے بھی جانتے ہیں‘ پُتر جی“۔ مکھن سائیں دھیرے سے بدلا....مگر اس کا انداز معنی خیز تھا۔ ایسے جیسے مجھے کچھ سمجھانا چاہ رہا تھا۔
وقت خاصا ہو چکا تھا مجھے واپسی کی بھی فکر تھی لہٰذا میں نے اس مرعوبیت کے حصار سے باہر نکلتے ہوئے لالو قصائی سے واپس چلنے کے لئے کہا‘ مکھن سائیں اپنے ڈیرے کی طرف چل دیا لیکن اس کا ایک ملنگ پیچھے رہ گیا۔ اس نے لالو قصائی کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا
”نذرانہ....“
لالو قصائی نے ذردیدہ نظروں سے میری جانب دیکھا اور ایک بار پھر شلوار کے نیفے سے افیون کی دو تین ڈلیاں نکال کر ملنگ کو پکڑا دیں۔ وہ ایک ایک ڈلی کو سونگھ کر بے خودی سے جھومنے لگا اور حق سائیں سرکار مکھن سائیں کے نعرے لگاتا ہوا اپنے مرشد کے پیچھے ہو لیا۔
لالو قصائی کا یہ روپ مجھے الجھن میں ڈال رہا تھا۔ میں خاصی دیر سے اس کے ساتھ خوار ہو رہا تھا وہ مجھے یہ کہہ کر دوسرے گاﺅں لے جاتا تھا کہ اسے افیون اس گاﺅں سے نہیں ملی لہٰذا دوسرے گاﺅں سے مل جائے گی مگر اب وہ بڑے سکون سے مجھے اور ملنگ کو افیون دے چکا تھا۔ میں اس سے یہ پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ اسی اثنا میں دو سپاہی گشت کرتے ہوئے ادھر آ نکلے۔ لالو کو دیکھتے ہی بولے‘ ” اوئے کالیے تو ادھر“ اس نے گالی دیکر کر مخاطب کیا۔ ”منشی جی۔ یہ لالو قصائی ہے۔ پھڑیا ہے۔ آج قابو آ ہی گیا۔“
میں اس دوران موٹر سائیکل پر بیٹھ چکا تھا اور کک مارنے ہی لگا تھا کہ دوسرے سپاہی نے جھٹ سے چابی نکال لی ”اوئے تو کدھر بھاگ رہا ہے....“ اس لمحے میں ڈر گیا۔ خوف کی جھرجھری سے میں کانپ گیا۔ میرے پاس تو افیون تھی اور میرا دھر لیا جانا یقینی تھا۔
”جناب مسئلہ کیا ہے....“ میں نے جرات سے کام لیتے ہوئے اپنا تعارف کرایا تو چابی چھیننے والا ایک لحظہ کے لئے رکا اور بولا۔
”کارڈ ہے آپ کے پاس ہے۔“ میں نے اخبار کا کارڈ نکال کر دکھایا تو وہ بولا‘ ”آپ اس پھڑیے کے ساتھ یہاں کیا کر رہے ہیں....“
اس لمحہ دوسرے سپاہی نے لالو قصائی کی مکمل تلاشی لی اور بولا۔ ”حیرت ہے بھئی.... لالو آج تیرے پاس ایک رتی افیون بھی نہیں ہے۔“
میں نے لالو کی طرف دیکھا تو وہ کمینہ اکھیوں میں مسکرا رہا تھا۔
”صحافی بادشاہ ہیں بھئی۔ ادھر راجو ڈوگر ‘ ادھر مکھن سرکار اور ادھر آپ....جاﺅ جی۔ قانون بھی تمہارا۔ حکمرانی بھی تمہاری ہم تو آوارہ گردی اور چوکیداری کے لئے بھرتی کئے ہوئے لوگ ہیں۔ ڈھب ڈھب تلاشی لو۔ ملا‘ کچھ نہ ملا۔ مل بھی گیا تو اوپر سے سفارش آ گئی اور چھوڑ دیا‘ چور کمینے ہم سے تگڑے ہیں جناب....“
”جناب آپ تو ناراض ہو گئے ہیں۔ کل اپنا بندہ بھیج دیجئے گا۔ آپ کے لیے بچھڑے کی ران کا گوشت رکھ چھوڑوں گا....“ لالو قصائی بولا۔
”ہاں یار....“ سپاہی نے یہ سنتے ہی لہجہ بدل لیا۔“ ”کئی دن ہو گئے ہیں گوشت نہیں چکھا....اب تو اس پٹری پر چائے پانی بھی بند ہو گیا ہے....کل میں اور منشی جی خود آئیں گے....“
یہ کہہ کر وہ دونوں مکھن سائیں کے ڈیرے کی طرف چل دئیے اور میری ناک جڑوں سے کٹتے کٹتے رہ گئی۔
ملک وال پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی تھی۔ میں نے لالو کو اس کی دکان پر اتارا اور جلدی سے اپنے دوست ملک نصیر احمد کی حویلی پہنچ گیا۔ نصیر اپنے پیر صاحب کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھا ہوا تھا۔ گھر کے دوسرے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ پیر صاحب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور نصیر ان کے بالوں میں جناتی تیل سے مالش کر رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی پیر صاحب اٹھ پڑے اور قہقہہ لگا کر بولے۔ ”آﺅ شہزادے کیسا رہا....“
”سرکار۔ مرتے مرتے بچا ہوں....“ میں نے مصنوعی خفگی کا اظہار کیا۔“ آپ تو جانتے ہیں یہ کام میرے کرنے کا نہ تھا....پولیس سے بار بار ٹکراﺅ ہوتا رہا ہے۔ بس اللہ نے عزت رکھ لی ہے....“
پیر صاحب نے یہ سنتے ہی ایک لحظہ کے لئے میرے سر کے اوپر دیکھا پھر چونکے اور جلدی سے نصیر سے کہا‘ ”دروازے کھڑکیاں بند کر دو اور ان کے پردے گرا دو.... باباجی آ گئے ہیں‘ اور ہاں باہر ملازموں سے کہہ دو....اندر نہ آئیں....“ پیر صاحب نے نصیر کی والدہ کی طرف دیکھا اور کہا ”ماں جی۔ آپ نے اگربتیاں نہیں جلائیں....“
”ہائے میں بھول گئی“ وہ اٹھنے لگیں تو ان کی بیٹی زلیخا اپنے سر پر چادر درست کرتے ہوئے بولی ”ماں ٹھہرو.... میں اگربتیاں لاتی ہوں....“
” تم بیٹھو.... ماں کو اگربتیاں جلانے دو....“ پیر صاحب نے گدلی اور جلالی آنکھوں سے زلیخا کی طرف دیکھا تو وہ اپنی جگہ پر کسمسا کر رہ گئی۔ نصیر کی والدہ نے طاق میں رکھی اگربتیاں جلا دیں تو بیٹھک میں خوشگوار خوشبو پھیل گئی۔ کھڑکیوں پر پردے گرانے سے بیٹھک میں قدرے اندھیرا ہو گیا تھا۔ سب لوگ حسب معمول درود شریف پڑھنے لگے میرا دل بے تابی سے دھڑکنے لگا۔ آج سے پہلے بابا جی سرکار شام کے وقت بالخصوص جب ابھی دن کی روشنی موجود ہوتی وہ حاضری نہیں دیتے تھے مگر آج ان کا غیر معمولی پھیرا تھا۔ اس بار ایک اور عجیب بات ہوئی تھی۔ پیر صاحب کو کچھ پڑھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل جب بھی بابا جی سرکار کی حاضری لگوانا ہوتی‘ پیر صاحب کسی غیر مانوس زبان میں کچھ پڑھنے لگتے اور کبھی کبھار بجلی کے سوئچ بورڈ کے پاس کھڑے ہو کر کوئی ایک بلب جلانے اور بجھانے لگتے تھے جب باباجی سرکار آ جاتے تو وہ لائٹ آف کر دیتے تھے مگر آج انہیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
ہم سب اگربتیوں کے فسوں زدہ ماحول میں آنکھیں بند کئے ہوتے تھے جب باباجی کی بھاری بھاری سانس مجھے اپنے آس پاس محسوس ہونے لگیں۔ ان کے وجود کا احساس ہر کسی کو ہو رہا تھا اور صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بیٹھک میں گھوم رہے ہیں۔ ایک لحظہ کے لئے تو میری سانسیں اٹ کر رہ گئیں جب باباجی سرکار میرے پاس آئے انہوں نے اپنے ریشمی ہاتھوں سے میری کمر پر تھاپڑا مارا اور پھر بے اختیار ہو کر ہنسنے لگے۔
شاہد پتر‘ لالو بڑا ہی کمینہ نکلا“ یہ کہہ کر وہ دوبارہ ہنسنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی شرارتی غازی کے قہقہے بھی گونجنے لگے۔
”غازی ذرا صحافی صاحب کو پورا قصہ تو سنا ، اگر آج ہمارا مکھن سائیں ادھر نہ آ نکلتا تو یہ تو گئے تھے جیل میں....“
”بابا جی۔ میرا آدھا خون تو خوف سے سڑ گیا ہے“ میں نے کہا
”آپ نے مجھے اتنے کڑے امتحان میں ڈال دیا تھا۔“
”ہماری محبت تو خود ایک کڑا امتحان ہے میاں....“ باباجی بولے۔ ”ہاں غازی....پھر کیا ہوا....؟“
غازی نے بے ساختہ قہقہوں کے درمیان بتایا ”لالو قصائی بڑا کایاں انسان ہے بھیا۔ آج کل اس پر خاصی سختی ہو رہی تھی۔ آپ نے جب اس سے افیون مانگی تو اس نے آپ کو استعمال کرنے کا پروگرام بنا لیا اس نے یہاں....اپنے گاﺅں سے افیون کی خاصی مقدار اٹھا لی تھی آپ کو تو یہ کہہ کر ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں لے کر جاتا رہا کہ وہ افیون ڈھونڈ رہا ہے مگر حقیقت میں وہ گاﺅں گاﺅں افیون بیچتا رہا۔ آپ کی وجہ سے پولیس اس کو جانے دیتی تھی۔ آپ نے دیکھا جب مکھن سائیں نے اسے کہا تو اس نے فوراً افیون نکال کر آپ کی ہتھیلی پر رکھ دی....“
”بڑا بے غیرت نکلا لالو....“ مجھے اس پر غصہ آنے لگا” مجھے ساتھ لیکر دھندہ کرتا رہا وہ....باباجی سرکار۔ اگر میں پکڑا جاتا تو آپ جانتے ہیں میرے ساتھ کیا ہوتا....“
”تو کیوں پکڑا جاتا....“ باباجی نے میرے کاندھے پر روئی جیسے ہاتھ میرے کاندھے پر رکھے۔ ان کی تیز بوجھل اور گرم سانسیں میرے چہرے پر محسوس ہونے لگیں۔ لگا وہ میرے مقابل کھڑے ہیں مگر میں آنکھیں بند کئے ہوئے تھا۔” یہ غازی ترے ساتھ ساتھ تھا....“ باباجی بولے ”پتر جی‘ ہم اپنے پیار کرنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑتے۔ غازی پولیس والوں کی عقل مار دیتا تھا۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ و ہ لالو جیسے شکار کو آسانی سے جانے دیتے....“
”باباجی....صبح میرا انگریزی کا پرچہ ہے۔ میں آج گھر جانا چاہتا ہوں۔ اباجی ناراض ہوں گے....“ میں نے افیون باباجی کو دے دی۔ اب مجھے اپنے امتحان کی فکر تھی۔
”تو فکر کیوں کرتاہے۔ اللہ خیر کرے گا۔“ باباجی نے مجھے امید دلائی.... ”تو بس ا یک کام کرنا‘ صبح امتحانی سنٹر میں داخل ہوتے وقت سورہ یاسین کا ورد کرتے رہنا۔ اللہ خیر کرے گا۔“ یہ کہہ کر باباجی چارپائی پر جا بیٹھے۔
”آج رات ادھر ہی رہ جا....صبح سویرے یہاں سے شہر چلے جانا“ فقیر کہنے لگا....
”نہیں اسے جانے دے“ باباجی بولے
”بابا جی رات ہو رہی ہے‘ نہر کی پٹری پر کیسے سفر کرے گا۔“
”چلا جائے گا یہ.... غازی پتر تو اس کے ساتھ چلا جا اور اسے اس کے گھر تک پہنچا کر واپس آ جانا....“ بابا جی نے کہا اور پھر بولے ”بھئی وہ فاطمہ بی بی کی دوائی بھی بنانی ہے افیون تو آ گئی ہے اب دس سیر گائے کا دددھ اور آدھ پاﺅ سپاری چاہئے۔ نصیر پتر تو اس کا خود بندوبست کر....“
”جی اچھا بابا جی۔ کب چاہئے سامان....“
”صبح منگوا لینا اور اپنے ریاض شاہ کے حوالے کر دینا....“ بابا جی نے پیر صاحب کی طرف اشارہ کیا“ ریاض بیٹے‘ میں تمہیں دوا بنانے کا طریقہ سکھا دوں گا‘ تو کل ہی فاطمہ بی بی کو دوائی بنا کر دے دینا‘ ہو سکتا ہے میں کل نہ آ سکوں‘ میں نے بڑی سرکار کے ساتھ پاکپتن جانا ہے اور کل سارا دن اور رات ہمیں وجد کی محفل میں حاضری دینی ہے۔ اس لئے تو یہ کام خود نپٹا لینا۔ اگر کوئی مسئلہ ہو تو تب یاد کر لینا....“
”باباجی! کیا فاطمہ کے ہاں اولاد ہو جائے گی۔“ میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔
۔۔اندر مکھن سائیں چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب سی مسکان تھی۔ موٹے دانوں کی تسبیح اس کے ہاتھوں میں تھی ۔وہ آنکھیں بند کیئے لیٹا تھا۔ پیروں میں موتئے کے تازہ پھولوں کا ہار تھا۔ پاس ہی پانی سے بھرا ایک گھڑا پیالہ اور چند سوکھی روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔
گڑھا دس فٹ گہرا تھا
اس وقت زوال کا وقت ہو رہا تھا۔ روشنی اتنی تھی کہ قبر میں رکھی ہر شے واضح نظر آ رہی تھی۔ انسپکٹر اور سپاہیوں نے جب قبر میں مکھن سائیں کو انتہائی سکون کے ساتھ لیتے ہوئے پایا تو قدرے پریشان ہو گئے۔ انہیں یقین نہ آیا کہ تیس روز سے قبر میں بند ایک شخص اتنا تروتازہ بھی ہو سکتا ہے۔ قبر کی گرمی تو مردے کو ایک ہی دن میں پگھلا کر رکھ دیتی ہے اور پھر ایک زندہ انسان کا تیس روز تک قبر میں لیٹ کر پڑھائی کرنا ناقابل فہم بات تھی۔ انسپکٹر اور سپاہیوں کا اعتماد بری طرح ڈگمگانے لگا۔ کچھ لمحے تک وہ مکھن سائیں کی طرف دیکھتا رہا پھر اپنے اندر کے سخت انسان کو بیدار کرکے بولا ”مکھن سائیں باہر نکلو“
اس کی آواز کا مکھن سائیں پر کوئی اثر نہ ہوا تو انسپکٹر نے دو تین بار اسے آواز دی۔ اس پر بھی اس نے کوئی حرکت نہ کی۔
”مولوی تم نیچے اترو اور اسے اٹھاﺅ“ انسپکٹر نے باریش حوالدار سے کہا پہلے تو اس نے عجیب خوفزدہ نظروں سے انسپکٹر کی طرف دیکھا پھر حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق قبر کے کناروں پر ہاتھ رکھتے ہوئے نیچے کود گیا تو اسی لمحہ مکھن سائیں کے آستانے کے برگد کے درخت پر ہلچل مچ گئی۔ سب نے خوفزدہ ہو کر اوپر دیکھا تو ان گنت پرندے برگد کے درخت کے اوپر سے اڑے اور بے قراری سے چہکتے ہوئے برگد کا طواف کرنے لگے۔ مکھن شاہ کی قبر اسی برگد کے نیچے تھی۔ حوالدار پر پرندوں کے شور سے سکتہ طاری ہو گیا۔ لہذا جب اس نے مکھن پیر کو پاﺅں سے ہلا کر جگانا چاہا تو اس کے انداز میں قدرے نرمی اور مرعوبیت آ چکی تھی۔ اس کی نظریں مکھن سائیں کے چہرے پر تھیں جس پر مسکان گہری ہوتی جا رہی تھی۔
اسی لحظہ ایک عجیب کام ہوا۔
برگدسے ایک سانپ سیدھا قبر میں لیٹے ہوئے مکھن سائیں کے سینے پر آ گرا اور حوالدار کی طرف رخ کرکے کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔
حوالدار کی بہادری اتنے سارے اتفاقات دیکھ کر ”خطا“ ہو گئی۔ اسے اپنی جان کی پڑ گئی اور وہ باہر نکلنے کے لئے اچھلنے لگا
”صاحب جی باہر نکالیں .... یہ سانپ“ انسپکٹر بھی پریشان ہو گیا لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے ایک سپاہی کی مدد سے حوالدار کو باہر نکالا۔ ملنگوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ عقیدی مندی کے مارے نعرے مارنے لگے۔ مار کھانے والا ملنگ بولا ”تھانیدار جی میں نے کہا تھا ہمارے مرشد کو تنگ نہ کرنا“ انسپکٹر نے قہر بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور پھر ایک سپاہی سے ڈنڈا لے کر خود قبر میں کود گیا۔ اس نے جاتے ہی مکھن سائیں کا پاﺅں پکڑا اور زور سے اٹھایا۔ اس دوران وہ سانپ سے غافل نہیں ہوا۔ اس نے جھٹ سے ڈنڈا سانپ پر دے مارا مگر اس لمحہ مکھن سائیں نے غضب ناک انداز میں پہلے آنکھیں کھولیں‘ پھر زور سے دھاڑا اور نہایت تیزی سے سینے پر بیٹھے سانپ کو مٹھی میں پکڑ کر انسپکٹر کی ضرب سے بچا لیا۔
مکھن سائیں کا یہ اضطرار‘ بیداری اور جلالت دیکھ کر انسپکٹر کا اعتماد کرچی کرچی ہو گیا۔
”تجھ پر خدا کی مار ہو تو نے ہمارے ملنگوں کو تنگ کیا ہے ہمیں سوتے سے جگا دیا۔ ہمارے محافظ کو مارنا چاہتے تھے“ مکھن سائیں کی گونجدار آواز سن کر انسپکٹر کی زبان گنگ ہو گئی اور وہ بت کی مانند مکھن سائیں کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ ”تو سمجھتا ہے ہم دھندہ کرتے ہیں یہاں‘ اور ہمیں پکڑنے آیا ہے تو .... لے پکڑ لے اور لگا ہتھکڑیاں“ مکھن سائیں نے سانپ کو ہوا میں اچھالا اور وہ برگد کی گھنی شاخوں میں جا کر چھپ گیا۔ اس نے کلائیاں انسپکٹر کے سامنے کر دیں۔ ” لگا لو ہتھکڑیاں تھانیدار جی .... یہ ہتھکڑیاں تو دھاگے ہیں دھاگے، تمہارے اندھے لولے لنگڑے قانون کے۔ تم کیا جانو۔ ہم نے خالق قدرت اور ساری کائناتوں کے قانون بنانے والے کی ہتھکڑیاں اور طوق پہن رکھے ہیں۔ یہ لے اور اپنی حسرت پوری کر لے“
مکھن سائیں کے لہجے اور شخصیت نے انسپکٹر پر لرزہ طاری کر دیا اور اس نے سر گرا دیا اور کہا” سرکار معاف کر دیں۔ مجھے آپ کے درجات کا علم نہیں تھا“
”درجات .... کاہے کے‘ کہاں کے درجات تھانیدار جی۔ ہم تو ابھی پہلے درجہ سے بھی بہت بہت بہت نیچے ہیں“ مکھن سائیں تاسف بھرے لہجے میں بولا تو اس کے اندر کہیں قلب و گماں کے چٹخنے کی آوازیں آنے لگیں۔
مکھن سائیں کو گرفتار کرنے کے لئے آنے والا قانون اس کے آستانے کی دہلیز پر دوزانو بیٹھ گیا۔ انسپکٹر نے ملنگوں سے معافیاں مانگیں اور پھر وہ خود بھی مکھن سائیں کا گرویدہ ہو گیا۔ مکھن سائیں نے اپنی انگلی سے ایک بھاری عقیق کی انگوٹھی اتار کر اسے دی اور کہا ”تھانیدار جی ملنگ کا تحفہ پہن لو۔ میرا مولا سائیں تیرے درجات بلند کرے گا“ وہ انسپکٹر جب مکھن سائیں کے آستانے سے نکلا تو اس کا مرید بن چکا تھا اور پھر ایسا پکا مرید ثابت ہوا کہ اگلے ہی مہینے جب اسے ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی ملی تو وہ اسے مکھن سائیں کی دعاﺅں کا ثمر قرار دینے لگا اور پھر جب تک وہ اس علاقے میں رہا مکھن سائیں کے آستانے پر شب و روز چراغاں ہونے لگے‘ نوجوان ملنگوں کی فوج بڑھ گئی اور پولیس اس کچے راستے پر تنی گردنوں کی بجائے سرنگوں ہو کر سفر کرتی رہی۔
آج وہی مکھن سائیں میرے سامنے تھا۔
لالو قصائی اس کے پیروں میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا ”اوئے لالو .... مجھ سے ملے بغیر واپس جا رہا تھا“
”ناں سرکار .... ناں .... میں یہ جرات کر سکتا ہوں۔ وہ تو اسے جلدی تھی اس لئے“ لالو قصائی نے میری طرف اشارہ کیا تو مکھن سائیں نے بے وجہ قہقہہ لگایا اور بولا۔
”واقعی اسے بہت جلدی ہے۔ یہ ہے بھی جلد باز۔ تو اس کا کام کیوں نہیں کرتا۔ اسے خوار بھی تو بہت کیا ہے تو نے شیطان“ مکھن سائیں کی یہ بات سن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ وہ میری واردات قلب کے بارے اشارے دے رہا تھا اور میں عجیب طرح کے احساسات سے دوچار ہو گیا۔
”لالو .... ہمارے دوست اس کے مہمان بنے ہوئے ہیں۔ اس کی امانت اس کے حوالے کر ہمارے مہمان بھی اس کی بے قراری اور لاچارگی کا نظارہ کر رہے ہیں“ میں مکھن سائیں کی بات نہ سمجھ سکا‘ البتہ اس وقت میں حیرت اور غصے کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہو گیا جب لالو قصائی نے شلوار کے نیفے میں ہاتھ ڈالا اور افیون کی ایک ڈلی نکال کر میرے پاس لے آیا۔
٭٭٭