حضور حُسن کسے طاقت اے سوال و جواب تیرے کرم نے میرے حوصلے بڑھا دیئے
کِتنا دل کش تھا وہ آغاز محبت کا سماں شدت شرم سے تیری نظر شرمائی
تو نے اُنگلی پہ سیاہ زُلف لپیٹی جِس دَم خود بخود جب تیرے ہونٹوں پہ ہسی لہرائی
اور چشمِ پُرنم خرید سکتا ہوں زُلف برہم خرید سکتا ہوں
اور میری خوشیاں جو کہیں بِک جائیں تیرے سب غم خرید سکتا ہوں
اُن کی مخمور نگاہوں کے کرشمے تُوبہ پاکبازوں کو بھی مہہ خار بنا دیتے ہیں
اور پہ بہ پہ ظلم و ستم رِاہ اے محبت میں قمرؔ ایک اِنسان کو فنکار بنا دیتے ہیں
نہ حرم میں نہ کلیساں میں نہ بُت خانے میں
چین ملتا ہے تو ساقی تیرے مہہ خانے میں
شکستہ مقبروں پہ ٹوٹتی راتوں کو اِک لڑکی لیے ہاتھوں میں بربت جوگ میں کُچھ گنگاناتی ہے
کہا کرتے ہیں چڑھاوے جب رُکتے ہیں گیت اُس کے تو ایک تازہ لحد سے چیخ کی آواز آتی ہے
وے دُکھ لا کے ساڈی جندڑی کوں خوش وسدا ایں نال شریکاں دے
او ہر دم اِک نوں اِک جانن جہیڑے مالک سچیاں نیتاں دے
تیڈا غیراں نال ہے پیار ماہی تے ساڈے گل وچ غم دے ہار ماہی
کھا کے سچیاں قسماں بُھل ونجناں چن نہیں اے قول شریفاں دے
نہ حرم میں نہ کلیساں میں نہ بُت خانے میں
چین ملتا ہے تو ساقی تیرے مہہ خانے میں
تیرے بغیر کبھی چین سے بسر نہ ہوئی یہ اور بات اِس کی تُجھے خبر نہ ہوئی
میں کہکشاں میں بھی تُجھ کو تلاش کر لیتا یہ کہکشاں بھی تیری راہ گذر نہ ہوئی
بڑا عجیب تھا تیرے دیار کا رستہ کہ چاندنی بھی میری وہاں ہم سفر نہ ہوئی
اللہ ہا رے جبین شوق کے سجدوں کی رفتیں سر کو جہاں جُھکا دیا کعبہ بنا دیا
اور تُم ہمارے بنو نہ بنو ہے تُم کو اختیار تقدیر نے تو ہم کو تمھارا بنا دیا
نہ حرم میں نہ کلیساں میں نہ بُت خانے میں
چین ملتا ہے تو ساقی تیرے مہہ خانے میں
او دلبر یار پیار تیڈے وچ میڈا رات دا نیند آرام گیا
او جِس دن دی تُساں جوک لُٹی او ساڈا لُٹیا سب سامان گیا
اَے اَکھیاں شودیاں رو رو مکھیاں تے میڈا ہوش تے دین ایماں گیا
او بریم باج دیدار شفا نہ کائی توڑے حکمت لکھ لقمان گیا
میں کوئی رِند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
اگرچہ اِک زمانہ ہو گیا ترکِ تعلق کو تمھاری یاد اب بھی بار ہا تکلیف دیتی ہے
اگر تکلیف جائز ہو تو سہہ لوں خاموشی سے گلہ تو یہ ہے کہ دُنیا ناروا تکلیف دیتی ہے
میں کوئی رِند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
تیرے تصویر نظر آتی ہے پیمانے میں
بس کے دِل وچ سونا ماہی نہیں سجدیاں بے پروایاں
جہیڑے دِیں تُو لگیاں اَکھیاں تے اَساں اَکھیاں مول نہ لائیاں
او گل گئی گُل گُل سجری جوانی تے پہ گیہاں منہ تے چھائیاں
عتیلؔ بے کس لاچار دِئیاں ہُن تے مَن گِن یار جدائیاں
میں کوئی رند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
رات لمبی بھی ہے اور تاریک بھی شب گذاری کا ساماں کروں دوستو
جانے پھر کب مِلنا مقدر میں ہو اَپنی اَپنی کہانی کرو دوستو
مُجھ کو معلوم ہے تُم بھی میرے طرح جان و دِل کوہ اے اُلفت میں ہار آئے ہو
اَب یہ بازی نئے سرے سے ممکن نہیں اپنا انجام خود سوچ لو دوستو
میں کوئی رِند نہیں
ملے گا کیا کِسی مجبور کو ستانے سے خدا کے واسطے باز آ جا دِل دُکھانے سے
تمام عمر کے رونے سے تو بہتر تھا کہ باز رہتا میں اِک بار دِل لگانے سے
میں کوئی رند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
جب سے اُنہیں مائل بہ کرم دیکھ رہا ہوں ہر گام پہ ایک تازہ ستم دیکھ رہا ہوں
تصویر تیری وے ماہی جب سے میرے دل میں بسی ہے واللہ میں کعبے میں صنم دِیکھ رہا ہو
میں کوئی رند نہیں اِس لیے پیتا ہوں شراب
تیری تصویر نظر آتی ہے پیمانے میں
وے تسلیم کیتا میں آسی ہاں ناواقف یار اَدب نہیں
سوراں ہر ویلے تہہ مالک کوں میڈے کیں ویلے چھپ لب نہیں
میں شرف وصال توں قاصر آں کوئی بندا سانگ سبب نہیں
تیڈے عرش تے رحمت مُکھ گئی اے یا تُو یسینؔ دا رب نہیں
دَفن کرنا میری میت کو بھی مہہ خانے میں
رازِ دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے یہ تو وہ لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے
وہ بھی کیا دور تھا ساقی تیرے مستانوں کا راستے راہ تقکا کرتے تھے مہہ خانوں کے
اوروہ بھی کیا دِن تھے اِدھر شام اُدھر ہاتھ میں جام اَب تو رَستے بھی رہے یاد نہ مہہ خانوں کے
دَفن کرنا میری میت کو بھی مہہ خانے میں
تا کہ مہہ خانے کی مٹی رہے مہہ خانے میں
ہوئی ختم جب سے وہ صحبیتں میرے مشغلے بھی بدل گے
کبھی روئے شام کو بیٹھ کر کبھی میکدے کو ٹہل گے
تیرا ہاتھ ہاتھ سے چُٹ گیا تو لکیریں ہاتھ کی مِٹ گئی
جو لکِھا تھا وہ مِٹ گیا جو نصیب تھے بدل گے
آؤ رِندو میری توبہ کی زِیارت کر لو
قسم خدا دی باہوں پیارا لگدا ایں تے تیرے نال میری جند رَل گئی
مُدت ہوئی تیڈے عشق دے وچ میڈی سوہنی جِندڑی گُھل گئی
عشق تیڈے میکوں مار مکایا تے دل ہجر فراق توں جل گئی
ظفرؔ غریب کوں شک پوندا اے کہ تیری دِل وی اَساں تُوں چل گئی
آؤ رِندو میری توبہ کی زِیارت کر لو
ابھی کُچھ دِیر ہے مرحوم کے دفنانے میں
میں توڑ گیا اُس سجنڑ کولوں وَنج پیر نپے ہم تے نہ کیتی ڈھول رَسائی
میڈی قسمت تے کر اثر گئی بے درد دی بے پرواہی
وطن تے چڈیم خیس قبیلہ تے ماں پیوں دے نال ونجائی
یسینؔ کوں سجناں اِنج لٹیا اِے وَددی موت وی رنگ بدلائی
آؤ رِندو میری توبہ کی زِیارت کر لو
ابھی کُچھ دِیر ہے مرحوم کے دفنانے میں
تُم نے تو ہاتھ میرے ہاتھ پہ آ رکھا ہے میں نے کوھسار ہیتھلی پہ اُٹھا رَکھا ہے
اور دُور کے چاند سے مٹی کا دیا ہی بہتر جو غریبوں نے سرِ شام جلا رکھا ہے
اَب تو اِتنی بھی میسر نہیں مہہ خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
او ہجر انوکھا دے گہیوں ماہی میں تاں کردی حال پکاراں
کٹیھاں وانگ قصائیاں میکوں اَتے دِے دِے گجیاں ماراں
او رات دِیاں نِم نیندر آندھی میں رو رو وقت گذاراں
اے ڈاڈی امانت سجناں دی کتھے راہی موڑ مو ہاراں
کون کہتا ہے جِگر ایسی عبادت ہے حرام آو سجدہ کریں اللہ کو مہہ خانے میں
اِس مہہ کے ترنم میں جوانی کو ڈبو دے نیکی کا اگر داغ بھی دل میں ہے تو دھو دے
یوں جام اُٹھا جھوم کے رِہ جائے زمانہ مہہ خانے کا در چوم کر رہ جائے زمانہ
اور ساقی اَگر پوچھے کُچھ ہوش میں آ کر تو کہہ دے چھلکتا ہوا جام چھڑہا کر
”کیا“
کون کہتا ہے جِگر ایسی عبادت ہے حرام
وے میں ہجر فراق تُو واقف ہاں تے ہِن جِگر وچ زخم ہزاراں
سوھنڑیں سجنڑ دِی بے اِنصافیاں دے میڈے کول ثبوت ہزاراں
طوفان ظُلم دا بیڑ گیا ہِم وَدا رُوندا زارو زار آں
پاویں لوکو تُساں کُج پہ آکھوں میں اُس ٹھگ باز دا تابے دار آں
کون کہتا ہے جِگر ایسی عبادت ہے حرام
آؤ سجدہ کریں اللہ کو مہہ خانے میں