سمندری ہوا بہت زور زور سے چل رہی تھی۔ سب ایک ایک کرکے کھانے کے کمرے میں جمع ہورہے تھے۔ راجر میز پر کھانا لگا چکا تھا۔
’’طوفان آنے والا ہے شاید۔‘‘ ڈاکٹر نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔
’’جرنل میکر تھور ساحل کے کنارے بیٹھے ہیں۔ انھیں کھانے کا پتہ نہیں چلا ہوگا۔‘‘ ویرا نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں بلا کر آتا ہوں انھیں۔‘‘ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا۔ باقی پانچوں میز کے گرد بیٹھے کھانا نکالنے لگے۔ راجر ایک طرف مودب انداز میں کھڑا ہوگیا۔
اچانک وہ چونک کر دروازے کی طرف مڑا۔ باقی پانچوں بھی ساکت ہوگئے۔ کوئی بھاگ کر بنگلے کی طرف آرہا تھا۔ کھڑکی سے بھاگتے قدموں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ دو لمحوں کے بعد ہی ڈاکٹر ہانپتا ہوا دروازے پر نمودار ہوا۔ اسے دیکھتے ہی وہ لوگ باجماعت کھڑے ہوگئے۔
’’جرنل میکر تھور۔۔۔ جرنل میکر تھور۔۔۔‘‘ اس نے بولنے کی کوشش کی۔
’’مرگیا؟‘‘ ویرا کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
’’ہاں۔۔۔ اُف میرے خدا! ہاں میکر تھور سمندر کے کنارے مردہ پڑا ہے۔‘‘ اس نے اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے بات مکمل کی۔ سناٹا چھاگیا۔ سات لوگ کوشش کے باوجود کچھ کہنے سے قاصر تھے۔
جیسے ہی جرنل میکر تھور کی لاش کو اٹھائے بلور اور ڈاکٹر آرم اسٹورنگ نے مرکزی دروازے کی دہلیز پار کی، طوفان نے زور پکڑلیا۔ بارش زوروشور کے ساتھ برسنے لگی۔ وہ سب خاموشی سے ان دونوں کو اوپر جرنل کے کمرے کی طرف جانے کے لیے سیڑھیاں دیکھ رہے تھے۔ ویرا بھی ایک طرف خاموش کھڑی تھی۔ اچانک وہ مڑی اور کھانے کے کمرے میں داخل ہوگئی۔ سب کچھ ویسے ہی رکھا تھا جیسا وہ لوگ چھوڑ کر گئے تھے۔ ویرا کسی چیز پر بھی توجہ دیئے بغیر کھانے کی میز کی طرف بڑھی۔ اسی لمحے راجر اندر داخل ہوا لیکن ویرا کو دیکھ کر چونک گیا۔
’’سوری مس۔۔۔ میں صرف یہ دیکھنے آیا تھا کہ۔۔۔‘‘
ویرا اس کی بات کو کاٹ کر عجیب سی آواز میں بولی: ’’ہاں راجر! تم خود دیکھ لو۔۔۔ یہاں اب صرف سات گڑیاں موجود ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نے آخری بار جرنل میکر تھور کا چیک اپ کیا۔ اس کے بعد اس کے منہ پر چادر ڈال کر کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے باہر آگیا۔ نیچے سب ڈرائنگ روم میں جمع تھے۔
’’تو ڈاکٹر؟‘‘ اس کے اندر داخل ہوتے ہی جج وار گریو نے اس کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا۔
’’ہارٹ اٹیک کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ جرنل کے سر کے پیچھے کی طرف کوئی بھاری چیز ماری گئی تھی۔ جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر کا چہرہ سفید ہورہا تھا۔
’’تمہیں یقین ہے؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘
جج وار گریو نے کچھ سوچتے ہوئے گردن ہلائی۔ کمرے میں خاموشی چھاگئی جسے کچھ ہی لمحوں بعد جج نے خود ہی توڑی۔
’’تو پھر خواتین وحضرات۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پوری صورتحال کو اچھی طرح سمجھا جائے۔‘‘ وہ اونچی اور صاف آواز میں سب سے مخاطب ہوا۔
’’میں آج صبح سے ٹیرس میں بیٹھا ہوا تھا اور کافی دیر تک تم تینوں کی نقل وحرکت پر غور کرتا رہا۔‘‘ اس نے لمبورڈ، بلور اور ڈاکٹر کی سمت دیکھا۔ ’’تھوڑے غور وفکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ تم لوگ جزیرے پر اس انجانے قاتل کو تلاش کر رہے ہو؟‘‘
’’آپ نے صحیح اندازہ لگایا سر۔‘‘ لمبورڈ نے جواب دیا۔
’’تو کیا تم لوگوں نے اس کا حل نکالا کہ مسٹر اوین ہمارے انجانے قاتل نے ہمیں کیوں اس جگہ جمع کیا ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ لمبورڈ آہستہ سے بولا۔ ’’میں نے اور ڈاکٹر آرم اسٹورنگ نے اس بات پر غور تو کیا تھا۔ ہمارے خیال میں اس جزیرے پر ان دس لوگوں کو جمع کیا گیا ہے جنھوں نے اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی جرم کیا ہے جسے کوئی عدالت ثابت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’یہ بالکل غلط بات ہے!‘‘ ویرا اچھل پڑی لیکن جج نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روکا۔
’’کیپٹن لمبورڈ! کچھ ایسا ہی خیال میرا بھی ہے اور اب جرنل میکر تھور کی موت کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ انوتھی مارسٹن اور مسز راجر کی موت نہ حادثاتی تھی نہ خودکشی۔ اب تک مرنے والے تین افراد کو قتل کیا گیا ہے۔‘‘
’’لیکن آخر کس نے؟ جزیرے پر ہم سب کے علاوہ کوئی انسان موجود نہیں۔‘‘ ڈاکٹر کی آواز ہلکی سی لرز رہی تھی۔
’’تو کیا اس کا ایک ہی مطلب نہیں نکلتا ڈاکٹر۔۔۔ ہمارا قاتل عرف مسٹر اوین /مسزاوین ہم میں سے کوئی ایک ہے!‘‘ جج نے ڈرامائی انداز میں گردن گھما کر سب کی طرف دیکھا۔
’’اوہ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ خدا کے لیے۔۔۔ کہہ دیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔‘‘ ویرا تقریباََرونے والی تھی۔
’’محترمہ۔ حقیقت سے منہ موڑنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ ہم میں سے مسٹر اوین ہے کون؟‘‘
’’دس میں سے تین تو اب مشکوک ہونے کے قابل نہیں رہے۔‘‘ بلور دھیمے لہجے میں بولا۔
’’بالکل! لیکن کیا باقی سات میں سے کوئی ایساہے جسے کسی خاص بات کے لیے مشکوک ٹہرایا جائے؟‘‘
’’ہاں! ہاں! لمبورڈ کے پاس ایک پسٹل موجود ہے۔ اس نے کل رات ہم سب سے جھوٹ بولا تھا۔‘‘ بلور فوراً بولا۔
لمبورڈ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور حقارت سے بلور کو دیکھ کر مسکرایا: ’’میرا خیال ہے کہ میں اصل قصہ دوبارہ سنا دیتا ہوں۔‘‘
’’لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کیپٹن لمبورڈ کہ تم اس بار سچ بول رہے ہو۔‘‘ لمبورڈ کی بات ختم ہوتے ہی بلور دوبارہ بول اٹھا۔
’’بد قسمتی سے مسٹر بلور۔ ہم سب میں سے کسی کے پاس اس کا ثبوت نہیں ہے کہ ہم سچ رہے ہیں۔‘‘ جج وار گریو نے خشک لہجے میں کہا۔ ’’تو ہم سب میں کوئی ایسا موجود نہیں۔ ہے نا؟‘‘ جواباً خاموشی چھاگئی۔
’’جب ہم کسی پر بھی کسی خاص وجہ سے شک نہیں کر سکتے تو کیا کوئی ایسا ہے جسے ہم بالکل ہی معصوم قرار دے دیں؟
’’میں ایک مشہور پیشہ ور ڈاکٹر ہوں اور یہ احمقانہ بات ہے کہ مجھ پر قتل کا الزام لگایا جائے۔‘‘ ڈاکٹر جلدی سے بولا۔
’’میں بھی ایک مشہور جج ہوں ڈاکٹر لیکن اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ آج سے پہلے بہت سے جج اور ڈاکٹرز ذہنی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ اگر ہم دونوں میں سے کسی کا ذہنی علاج ہونا ضروری ہے تو یہ کوئی خاص بات نہیں۔‘‘ جج نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔
’’میرے خیال میں خواتین کو اس معاملے سے دور رکھا جائے کیونکہ کوئی خاتون ایسے کام نہیں کرسکتی۔‘‘ لمبورڈ نے جج کو مخاطب کیا۔
’’کیوں؟‘‘ جج نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔ ’’تم نے اخبار میں کبھی نہ کبھی تو کسی قاتلہ کے بارے میں کوئی خبر پڑھی ہی ہوگی۔‘‘ اب وہ آرم اسٹورنگ کی طرف مڑا۔ ’’ڈاکٹر کیا جرنل میکر تھور کے سر پروہ بھاری ہتھیار کوئی خاتون مار سکتی ہے؟‘‘
’’یس سر! آرام سے۔‘‘
’’اور کیپٹن باقی دو اموات زہر کی وجہ سے ہوئی ہیں۔‘‘
وہ واپس لمبورڈ کی طرف مڑ گیا: ’’اور کسی کو زہر دینے میں زیادہ طاقت کا استعمال نہیں کر نا پڑتا ہے نا؟‘‘
’’میرے خیال میں آپ پاگل ہوگئے ہیں۔‘‘ ویرا غصے سے بولی۔
’’محترمہ! میں کسی پر الزام نہیں لگارہا۔ صرف ممکنات کی بات کر رہا ہوں۔‘‘جج نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔
’’اچھا چلیں ٹھیک ہے۔ لیکن راجر۔۔۔؟‘‘ لمبورڈ نے جج کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’راجر کیا؟‘‘ جج نے بغیر آنکھ جھپکے اسے دیکھا۔
’’میرا مطلب ہے راجر کسی بھی طرح مسٹر اوین کے کردار میں فٹ نہیں آتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کے پاس اتنی عقل نہیں کہ وہ اتنی منصوبہ بندی کرے اور دوسری یہ کہ اس کی اپنی بیوی مقتولین میں شامل ہے۔‘‘
’’میں نے بہت سے ایسے کیسوں کو نمٹا یا ہے کیپٹن! جس میں کسی شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کیا ہو۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ مان لیا۔۔۔ ہم سب ہی بہترین مسٹر اوین بن سکتے ہیں۔ کوئی بھی معصوم نہیں۔‘‘ لمبورڈ نے ہتھیار ڈالے۔
’’تو یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ کوئی شخص شک سے مبرا نہیں ہے۔ ہمیں اب اپنے قاتل کا سرا ڈھونڈنا ہے، اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم ان تین اموات کا مشاہدہ کریں جو اب پیش آچکی ہیں۔‘‘
’’یہ ہوئی نا بات سر! اب آپ نے صحیح لائحہ عمل اختیا ر کیا ہے۔‘‘ بلور کی رگ تفتیش پھڑک اٹھی۔
’’سب سے پہلے انوتھی مارسٹن مرا۔ اسے زہر دیا گیا تھا۔‘‘
اس وقت اس کے آس پاس سب ہی لوگ موجود تھے سوائے راجر کے۔ کوئی بھی آسانی سے یہ کام کرسکتا ہے۔‘‘
وہ سانس لینے کے لیے رکا۔ ’’اس کے بعد آگئیں مسز راجر۔۔۔ یہاں دو لوگ سب سے زیادہ مسنر راجر کے قریب گئے ہیں۔۔۔ ایک اس کا شوہر اور ایک ڈاکٹر۔۔۔‘‘
ڈاکٹر غصے کے مارے کھڑا ہوگیا۔ ’’بہت ہوگیا۔ اب یہ بات نا قابل برداشت ہے۔ مسٹر بلور تم اب تک دو دفعہ کہہ چکے ہو یہ۔ اپنی زبان سنبھال کر بات کرو۔‘‘
’’ڈاکٹر! ڈاکٹر!‘‘ جج نے ڈاکٹر کی بات کاٹی۔ ’’تمہارا غصہ میں آنا قدرتی ہے لیکن حقیقت کو تسلیم کرو۔ تم یا راجر آرام سے مسز راجر کو دوا کی زیادہ مقدار کھلا سکتے تھے لیکن خیراسے چھوڑو ہم دوسرے امکانات پر غور کرتے ہیں۔‘‘
’’میں مسز راجر کے قریب کہیں بھی موجود نہیں تھی۔‘‘ ویرا زور سے بولی۔
’’جہاں تک مجھے یاد ہے مسز راجر دروازے کے باہر بے ہوش ہوگئیں تھیں تو انوتھی مارسٹن اور لمبورڈ نے انھیں صوفے پر بٹھایا۔ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ نے اسے چیک کیا اور ساتھ ساتھ راجر کو کافی لانے کو کہا۔ اس کے بعد ہم سب برابر والے کمرے میں چلے گئے تھے۔ سوائے مس برنٹ کے، جو بے ہوش مسز راجر کے ساتھ اکیلی اس کمرے میں موجود رہیں۔ جب ہم واپس اس کمرے میں آئے تو وہ اس کے اوپر جھکی اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں۔‘‘
’’کیا ایسا کرنا قانون کے خلاف ہے جج صاحب۔‘‘ مس برنٹ نے غصہ سے کہا۔
’’میں تو صرف اس واقعے کی تفصیل بیان کررہا ہوں۔‘‘جج نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’اس کے بعد راجر کافی لے کر آگیا۔ جو ڈاکٹر نے اسے پلائی۔ پھر ڈاکٹر اور راجر کی مدد سے وہ اوپر اپنے کمرے میں آرام کرنے چلی گئی۔‘‘
’’ہاں بالکل یہی ہوا تھا تو ثابت ہوگیا کہ میں، مس ویرا اور کیپٹن لمبورڈ کا اس واقعے میں کہیں عمل دخل نہیں۔‘‘ بلور نے پٹ سے کہا۔
’’کیا واقعی؟‘‘ جج نے سرد نظروں سے اسے گھورا: ’’مسٹر بلور! اوپر اپنے کمرے میں مسز راجر کافی دیر تک اکیلی رہیں کیونکہ اس کا شوہر نیچے کام نمٹا رہا تھا اور اتنی دیر میں کوئی آسانی سے اس کمرے میں داخل ہو کر مسز راجر کا کام تما م کر سکتا ہے۔‘‘ بلور اب چپ رہا کچھ لمحوں بعد جج نے اپنا سلسلہ کلام جوڑا۔ ’’تو یہ ہوگئی مسز راجر۔ اب آئیے جرنل میکر تھور کی طرف۔ جو آج دوپہر میں ہی قتل ہوئے ہیں۔ وہ سمندر کے کنارے کھلی جگہ میں بیٹھے تھے۔ وہاں کوئی بھی جاسکتا ہے تو آپ لوگوں کو بتا نا ہوگا کہ آپ اس وقت کہاں تھے؟‘‘
‘‘میں بلور اور لمبورڈ ایک ساتھ تھے آج صبح سے۔‘‘ ڈاکٹر بولا۔
’’پہلے میں اور مس ویرا ساحل پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ اس کے بعد میں بنگلے کے پیچھے والے حصے میں بیٹھی دھوپ تاپ رہی تھی۔‘‘ مس برنٹ نے بتایا۔
’’میں آج پورے جزیرے کو گھوم پھر کر دیکھتی رہی۔‘‘ ویرا نے وضاحت کی۔
’’اور میں صبح سے سامنے والے ٹیرس میں موجود تھا۔ اس سارے وقت میں راجر گھر کے اندر کے کام نمٹارہا تھا۔‘‘
تھوڑے وقفے کے بعد جج بولا: ’’تو ہم اب ان تینوں اموات کی جتنی تفتیش کر سکتے تھے کرلی۔ نتیجہ اب بھی وہی ہے کہ اس کمرے میں موجود سات میں سے قاتل کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اب اگر ان سب باتوں کو ایک طرف کریں تو اس وقت سب سے اہم کام قصبے سے کسی طرح رابطہ کرنا ہے۔ ساتھ اپنی جان کو محفوظ رکھنا ہے۔ اب تک قاتل کا کام اس لیے آسان تھا کہ ہم سب اس کے منصوبے سے بے خبر تھے لیکن اب ہم سب کو پہلے سے ہی معلوم ہے کہ وہ کسی اورکو اپنا شکار بنانے والا ہے۔ ان حالات میں احتیاط سب سے ضروری ہے۔ بلاوجہ میں کسی بھی قسم کا کوئی رسک لینے کا نتیجہ صرف موت ہوگا۔ آج کے لیے اتنا کافی ہے۔ اس سے پہلے رات گہری ہوجائے ہمیں کھا نا کھالینا چاہیے۔‘‘