فریڈ کشتی کو چلاتے ہوئے مسلسل مسٹر اور مسز اوین اور ان کے گھر دی جانے والی پارٹی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ مسڑ اور مسز اوین کو نیگر آئی لینڈ خرید ے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ قصبے کے سبھی لوگ ا ن کو دیکھنے کے لیے بے چین تھے لیکن وہ آج تک کبھی قصبے میں نہیں آئے تھے۔ ساری لین دین انہوں نے اپنے ایجنٹ مسڑ مورس سے کر وائی تھی۔ اب جب قصبے والوں کو پتہ چلا کہ ان کے جزیرے پر ایک دعوت منعقد ہورہی ہے تو ان سب کا متجسس ہونا فطری سی بات تھی۔ ان سب کے خیال میں یہ تھا کہ یقیناًدعوت میں مدعو مہمان بھی امیر کبیر اور بڑی شخصیات ہوں گی۔
فریڈ کو یہ سوچ کر ایک دم ہنسی آئی کہ جب وہ قصبے میں رہنے والوں کو ان سات کے بارے میں معلومات دے گا تو انہیں کتنی مایوسی ہوگی۔ مسٹر اور مسز اوین کا دوستوں کے بارے میں ذوق یقیناًمضحکہ خیز تھا۔ فریڈ زیر لب مسکرایا۔ یہ سب تو کہیں سے بھی کسی دعوت میں شریک ہونے کے لائق نہیں لگتے جو کسی امیر آدمی نے منعقد کی ہو۔ خیر ہوسکتا ہے مسڑ اور مسز اوین خود بھی عجیب وغریب ہو ں۔ کسی نے بھی ان کو کب دیکھا ہے۔
جزیرے کے قریب پہنچ کر ویرا کے سارے خدشات غائب ہوگے۔ دور سے بھیانک نظر آنے والا جزیرہ قریب سے انتہائی خوب صورت نیگر آئی لینڈ تھا اور اس پر بنا جدید طرزکا بنگلہ اس سے بھی زیادہ خوب صورت۔۔۔
کشتی کنارے کی طرف بڑھ رہی تھی۔کیپٹن لمبورڈ چاروں طرف کا جائزہ انتہائی تیزی سے لے رہا تھا۔ یہ جزیرہ تو انتہائی گہرے سمندر میں ہے۔ طوفان آنے کی صورت میں کشتی یہاں تک لانا مشکل ہوتا ہوگا۔‘‘ اس نے فریڈ سے پوچھا۔
’’جی ہاں! طوفان آتا ہے تو کوئی بھی ملاح یہاں آنے کی جرات بھی نہیں کرتا۔ اگر اتفاق سے آپ کے قیام کے دوران طوفان آگیا تو آپ لوگوں کو قصبہ سے رابطہ قائم کرنے میں بہت مشکل پیش آئے گی۔‘‘ فریڈ نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔
کشتی کنارے پر لگ چکی تھی۔ وہ سب ایک ایک کر کے اترے اور تیزی سے بنگلے کی سمت بڑھے۔ ان سب کا موڈ بنگلے تک پہنچتے پہنچتے خوشگوار ہوگیا تھا،بے یقینی کی کیفیت ختم ہوگئی تھی۔ بنگلے کے دروازے پر ایک نوکر ان کا منتظر تھا۔
’’معزز خواتین وحضرات آپ کو خوش آمدید۔‘‘ ان کے نزدیک پہنچتے ہی اس نے مود ب لہجے میں کہا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔
’’مشروبات مرکزی ہال میں موجود ہیں۔‘‘ اس نے ان کی رہنمائی کی۔ مرکزی ہال میں پہنچ کر سب نے اپنی اپنی پسند کے ٹھنڈے مشروبات اٹھالیے۔ ان کی سب بیزاری اُڑن چھو ہوگئی۔ سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ اب بس وہ سب اپنے میزبانوں سے ملنے کے لیے بے چین تھے۔
’’لیکن۔۔۔ معزز خواتین وحضرات۔۔۔ بد قسمتی سے آپ کے میزبان مسٹر اور مسز اوین آج یہاں نہیں پہنچ سکے۔ انہوں نے خط لکھ کر اپنی صورت حال واضح کی ہے کہ کچھ ذاتی وجوہ کی بنا پر ان کا یہاں آنا کل تک کے لیے ملتوی ہوگیا ہے۔ انہوں نے آپ سب سے معذرت کی ہے اور امید کے ہے کہ آپ برا نہیں مانیں گے۔‘‘ نوکر نے ان کو اطلاع دی۔
بنگلے میں ایک شادی شدہ جوڑا مسڑ اور مسز راجر نوکر کے طور پر موجود تھے۔ ویرا مسز راجر کی رہنمائی میں سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئی۔ مسز راجر نے لمبی راہداری کے سب سے آخری کمرے کے دروازے کھول دیے۔
’’واہ! ویرا نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے خوشی سے کہا جو کہ انتہائی خوب صورت بیڈ روم تھا۔
’’امید ہے آپ اپنے کمرے سے مطمئن ہوں گی مس؟‘‘ مسز راجر نے پوچھا۔ ’’اگر آپ کو کچھ چاہیے ہو تو بیل بجا دیجئے گا۔‘‘ اس کی آواز ہو یا چہرہ دونوں بالکل سپاٹ تھے۔
ویرا نے اسے غور سے دیکھا۔ اسے پتا نہیں کیوں مسز راجر انسان کے بجائے کسی پرانی حویلی میں رہتی روح لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر کوئی رنگ نہیں تھا۔ ایسا لگ رہاتھا اس کا سارا خون نچوڑ لیاگیا ہے۔ ویرا کو لگا کہ وہ کسی انجانے خوف میں مبتلا ہے۔
’’یہ تو اپنے سائے سے بھی خوفزدہ لگ رہی ہے۔‘‘ ویرا کو اپنی گردن کے بال کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ وہ سر جھٹک کر اپنی آواز کو حتی الامکان خوش گوار بنا تے ہوئے بولی۔
’’ہاں سب ٹھیک ہے۔ مسز راجر میں مسز اوین کی نئی سیکر یٹری ہوں۔ انہوں نے ذکر تو کیا ہوگا۔‘‘
’’نہیں مس! میں مسز اوین سے ابھی نہیں ملی۔۔۔ مجھے اور مسڑ راجر کو یہاں آئے زیادہ دن نہیں ہوئے۔‘‘ مسز راجر کے ہونٹ ہلکے سے ہلے۔
’’اچھا۔‘‘ ویرا کو بے انتہا حیرانی ہوئی۔ ’’یہاں اور نوکر ہیں۔‘‘ ویرا نے پوچھا۔
’’نہیں! صرف میں اور مسڑ راجر ہیں۔‘‘
’’اوہو۔ اچھا ٹھیک ہے تم اب جاؤ۔‘‘ مسز راجر کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے اِدھر سے اُدھر کمرے میں چکر لگانے شروع کر دیے۔ اسے عجیب سا محسوس ہورہاتھا۔ جیسے کچھ غلط ہو۔ وہ ذہنی طور پر تھوڑی پریشان ہوگئی۔ اس جزیرے پر فی الوقت موجود لوگوں میں سے کوئی بھی مسڑ اوین سے نہیں ملا۔ یہ حیرت انگیز بات تھی۔ اچانک اس کی توجہ آتش دان پر لگے ایک چمکتے دمکتے فریم پر آکر ٹھہرگئی۔
دس نیگرو بچے گھر سے نکلے، کھانے چلے کھانا
ایک کے گلے میں کچھ پھنس گیا، باقی رہ گئے نو
نو چھوٹے نیگرو بچے رات کو دیر تک جاگے
ایک بچہ سوتا رہ گیا باقی رہ گئے آٹھ
آٹھ نیگرو بچے کشتی پر گئے شکار کو
ایک نے کہا میں وہیں رہوں گا باقی رہ گئے سات
سات چھوٹے نیگرو بچے کاٹ رہے تھے لکڑیا ں
ایک نے اپنے آپ کو زخمی کر لیا باقی رہ گئے چھ
چھ چھوٹے نیگرو بچے کھیل رہے تھے ساتھ
ایک کو شہد کی مکھی نے کاٹا باقی رہ گئے پانچ
پانچ چھوٹے نیگرو بچے کر رہے تھے ڈراما
ایک بچہ بن گیا جج، باقی رہ گئے چار
چار چھوٹے نیگرو بچے سمندر پر گئے کھیلنے
ایک بچے کو اژدھاکھا گیا باقی رہ گئے تین
تین چھوٹے نیگروبچے دیکھنے گئے جانور
ایک کو بھالو نے گلے لگایا باقی رہ گئے دو
دو چھوٹے نیگرو بچے تاپ رہے تھے دھوپ
ایک بچہ اکڑ کر گر گیا باقی رہ گیا ایک
ایک آخری نیگروبچہ رہ گیا پورا اکیلا
اس نے اپنے گلے میں پھندا ڈالا باقی رہ گیا کون۔
یہ ایک بچوں کی نظم تھی۔ ویرا نظم پڑھ کر مسکرائی۔ یہ نظم شاید اس جزیرے کے نام کی مناسبت سے یہاں لگائی گئی تھی۔ نیگر آئی لینڈ اور دس چھوٹے نیگرو بچے۔۔۔ ویرانے دھیرے سے زیر لب کہا اور پھر کمرے میں چکر لگانے لگی۔
ڈوبتے سورج کی روشنی میں نیگر آئی لینڈ بالکل جادوئی جزیرہ لگ رہا تھا۔ باقی دنیا سے دور۔۔۔ الگ تھلگ۔۔۔
ڈاکٹر آرم اسٹور نگ کار چلا کر کافی تھک گیا تھا۔ اب وہ کشتی میں آنکھیں بند کیے اپنے سوٹ کیس سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ کشتی جزیرے کے کنارے لگ گئی تو وہ تھکی ہوئی مسکراہٹ لیے اپنا سامان اتارنے لگا۔ کشتی چلانے والے آدمی فریڈ کو رخصت کر کے وہ بنگلہ کی سمت بڑھا۔
برآمد ے میں کرسی پر کوئی بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر کو وہ جانا پہچانا لگا۔ قریب پہنچ کر اس نے اس کو غور سے دیکھا۔۔۔ ارے یہ تو بوڑھا جج وار گریو ہے۔۔۔ جج سے ڈاکٹر کی ملاقات ایک مقدمے کی پیش قدمی کے دوران ہوئی تھی۔
’’ہیلو!‘‘ ڈاکٹر نے آواز لگائی۔
’’ہیلو!‘‘ جج نے روکھے اندازمیں کیا۔ ’’مشروبات ہال میں موجود ہیں۔‘‘
’’شکریہ! لیکن میں پہلے جاکر اپنے میزبان مسٹر اوین سے ملاقات کرلوں۔‘‘
’’یہ ناممکن ہے۔‘‘ جج نے بیزاری سے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’یہاں کوئی میزبان نہیں، اندر باہر صرف اور صرف مہمان بھرے ہوئے ہیں۔‘‘ جج بڑبڑایا۔ ڈاکٹر نے اسے ایسے گھورا جیسے اس کا دماغ خراب ہو اور اندر کی طرف بڑھ گیا۔
*۔۔۔*
رات کا کھانا انتہائی بہترین تھا۔ مسز راجر بلا شبہ زبردست کھانا بنا تی تھی۔ ہر ایک نے پیٹ بھر کر کھایا۔ اب وہ سب میٹھا کھاتے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے۔ صرف کیپٹن لمبورڈ چپ چاپ بغور ان سب کی گفتگو سن رہا تھا۔
’’ارے یہ کتنی پیاری ہیں۔‘‘ انوتھی نے اچانک کھانے کی میز کے بیچ میں رکھی کانچ کی ننّی منی گڑیاؤں کی طرف اشارہ کیا جو ایک گول دائرے میں سجی ہوئی تھیں۔
’ایک ۔۔۔دو۔۔۔تین۔۔۔چار ۔۔۔دس!‘‘ ویرا نے انھیں گنا۔
’’یہ تو پوری دس ہیں۔ نیگروبچوں کی شکل کی پوری دس گلاس ڈولز۔ کتنے مزے کی بات ہے۔ اس گھر کو سجاتے ہوئے اس جزیرے کے نام کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ میرے کمرے میں آتش دان کے اوپر نیگرو بچوں پر ایک نظم سجی ہوئی ہے۔‘‘ ویرا خوشی سے اچھل پڑی۔
’’ہاں! میرے کمرے میں بھی موجود ہے وہ نظم۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’میر ے بھی۔‘‘
’’میرے بھی۔‘‘ سبھی کے کمروں میں وہ نظم موجود تھی۔
’’اچھا آئیڈیا ہے۔‘‘ مسٹر بلور نے کرسی سے ٹیک لگائی۔
’’راجر! میری کافی مجھے ڈرائینگ روم میں دے دینا۔‘‘ مس برنٹ کر سی کو پیچھے دھکیل کر کھڑی ہوگئیں۔
ایک ایک کر کے وہ سبھی ڈرائینگ روم میں آگئے۔ مسٹر راجر نے ان سب کو گرما گرم کافی پیش کی۔ ڈرائینگ روم میں پر سکون خاموشی طاری تھی۔ وہ سبھی اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ کھڑکی سے آتے، لہروں کے شور کے علاوہ کوئی آواز نہیں تھی۔
اچانک۔۔۔ کمرے میں کسی کی زوردار آواز گونجی جس نے ان سب کو ہلا کر رکھ دیا۔
’’اس کمرے میں موجود مجرموں کو مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا ہے۔‘‘ پاٹ دار آواز پوری قوت سے کمرے میں گونجی۔
’’ایڈورڈ آرم اسٹورنگ تم نے ۱۴ مارچ ۱۹۲۵ کے دن لوسیا میری کلیس کو مارا تھا۔
ایملی برنٹ ۵ نومبر ۱۹۳۱ کے دن مرنے والی بیکٹرائس ٹیلر کی موت کی ذمہ دارتم تھیں۔
ولیم بلور تم نے ۱۰ اکتوبر ۱۹۲۳ کو جیمز لنڈر کا قتل کیا تھا۔
فیلپ لمبورڈ فروری ۱۹۳۲ کے کسی دن مشرقی افریقہ کے ایک قبیلے کے ۲۱ آدمیوں کی موت کی ذمہ داری تمہاری ہے۔
ویرا کلیتھرون ۱۱ اگست ۱۹۳۵ کے دن تم نے ایک بچے سا ئیرل ہیملٹن کو موت کے منہ میں دھکیلا۔
جون میکر تھور ۱۴ جنوری ۱۹۱۷ کو تم نے اپنے دوست آرتھر رچمنڈ کو قتل کیا۔
انوتھی مارسٹن ۱۴ نومبر کے دن پچھلے سال تم نے جون اور لوسی کو مب کو بے دردی سے مار ڈالا۔
تھامس اور ایتھل راجر ۶مئی ۱۹۲۹ کو حینیفر بریڈی کو تم دونوں نے مل کر ختم کیا۔
لورنس وار گریو تم ایڈورڈ سیٹن کے قاتل ہو جس کو تم نے ۱۰ جون ۱۹۳۰ کے دن موت کے حوالے کردیا۔
ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے قیدیو! کیا تم میں سے کوئی بھی اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہے گا؟‘‘