ان کی پوری صبح پہاڑی پر گزری۔ باری باری وہ لوگ شیشے کی مدد سے آسمان پر سگنل دے رہے تھے۔ بہت دفعہ سگنل بھیجنے کے باوجود کوئی سگنل نہیں آیا۔ آخر تھک ہار کر انہوں نے تھوڑی دیر کے لیے وقفہ کیا۔
’’بنگلے کے باہر کھلی فضا کتنی محفوظ لگ رہی ہے نا۔ میں اب واپس نہیں جاؤں گی۔‘‘ ویرا نے سمندری ہوا کو اپنے اندر اتارتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔ اس کھلے میدان میں اگر کسی نے ہم تک آنے کی کوشش کی تو ہمیں پتا چل جائے گا۔‘‘ لمبورڈ نے حامی بھری۔
’’لیکن اب تو دو بج چکے ہیں، کیوں نہ پہلے دوپہر کا کھانا اندر جا کر کھالیا جائے۔‘‘ بلور نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔
’’نہیں بھئی۔ مجھے معاف رکھو۔ میں اندر نہیں جاؤں گی۔‘‘ ویرا نے صاف جواب دیدیا۔
’’اور تم لمبورڈ؟‘‘
’’نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔ میں یہیں رہوں گا‘‘۔ لمبورڈ نے نفی میں سرہلایا۔
’’مجھے تو اپنے معمول کے مطابق وقت پر کھانا کھانے کی عادت ہے لیکن ہم لوگوں نے طے کیا تھا کہ اب کسی صورت الگ نہیں ہونا۔‘‘ بلور نے یاد دلایا۔
’’تو تم خود ہی شیر کی کچھار میں جانا چاہ رہے ہو۔ میں یا مس ویرا نہیں۔‘‘ لمبورڈ نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔ بلور اس کی بات سن کر بنگلے کی جانب اکیلا بڑھتا چلا گیا۔
’’کیا یہ رسکی کام نہیں۔‘‘ ویرا نے اسے جاتا دیکھ کر فکر مندی سے لمبورڈ سے پوچھا۔
’’نہیں‘‘۔ لمبورڈ نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ بلور ہی ہمارا مطلوبہ مسڑ یو۔ این۔اوین ہے۔‘‘ ویرا کے چہرے پر بے یقینی پھیلتے دیکھ کر اس نے مزید وضاحت کی۔ دیکھئے مس ویرا۔ کل رات بلور نے ایک دم ہم لوگوں سے آکر کہا کہ اس نے ڈاکٹر آرم اسٹورنگ کو گھر سے باہر نکلتے دیکھا ہے لیکن کیا اس کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت تھا؟ نہیں سوائے اس بات کہ آرم اسٹورنگ واقعی اپنے کمرے میں موجود نہیں تھا۔ کیا پتا اس نے ہم لوگوں کو جگانے سے پہلے جا کر آرم اسٹورنگ کو ٹھکانے لگا دیا ہو۔ جو کہانی اس نے ہمیں سنائی اس میں خود اس نے قبول کیا ہے کہ میں اور آپ اپنے اپنے کمرے سے نہیں نکلے تھے یہاں تک کہ اس نے ہمیں آکر اٹھایا۔‘‘
ویرا نے لمبورڈ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ خاموش بیٹھی سمندر کو تکتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے لمبورڈ سے ایک عجیب بات کہی۔
’’کیپٹن! کیا آپ کو یہ محسوس ہوا ہے کہ کوئی آپ کو مستقل دیکھ رہا ہے؟ یہاں کوئی اور بھی موجود ہے۔‘‘
’’یہ ہمارا وہم ہے۔‘‘ لمبورڈ نے پرسوچ انداز میں جواب دیا۔
’’ہمارا! اس کا مطلب ہے کہ آپ کو بھی یہ محسوس ہوا ہے۔ کیا۔۔۔‘‘ ویرا ایک دم بات ادھوری چھوڑ کر اچھل کر کھڑی ہوگئی۔
’’کیا۔۔۔ کیا آپ نے وہ آواز سنی۔‘‘ اس نے بدحواسی سے لمبورڈ سے پوچھا جو کہ اس کے ساتھ ہی چونک کر کھڑا ہوگیا تھا۔
’’ہاں، جیسے کوئی بھاری چیز زمین سے ٹکرائی ہو اور ایک ہلکی سی چیخ بھی۔‘‘ دونوں کا رخ بنگلے کی طرف تھا۔ وہ اسے واضح دیکھ سکتے تھے۔
’’یہ آواز وہیں سے آئی ہے۔ چلو آؤ چل کر دیکھیں۔‘‘ لمبورڈ نے جلدی جلدی کہا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘ ویرا وہاں جانے کے خیال سے ہی لرز گئی۔
’’اوکے پھر تم یہیں کھڑی رہو۔ میں جا رہا ہوں‘‘۔ لمبورڈ کو روکنا مشکل تھا۔ ویرا کو بھی مجبوراً اس کے پیچھے آنا پڑا۔
’’بنگلے کا سامنے والا ٹیرس پرسکون تھا وہاں کوئی گڑ بڑ کے آثار نہیں تھے۔ وہ لوگ پورے بنگلے کا چکر لگاتے ہوئے جب پچھلی جانب آئے تو دھک سے رک گئے۔
پچھلے ٹیرس کی پتھر کی زمین پر بلور اوندھا پڑا تھا۔ اس کا سر کچلا ہوا تھا جب کہ سفید ماربل کی بھاری سی کوئی چیز اس کے سر سے تھوڑی دور پڑی چمک رہی تھی۔ لمبورڈ نے سر اٹھا کر اوپری منزل کو دیکھا۔
’’یہ والی کھڑکی کس کے کمرے کی ہے۔ یقیناً اس سے یہ پتھر پھینکا گیا ہے۔‘‘
’’میری!‘‘ ویرا کی آواز بھی اب واضح طور پر لرز رہی تھی۔
’’میری کھڑکی ہے یہ والی اور یہ پتھر نہیں بلکہ سفید ماربل کی گھڑی ہے جو میرے آتش دان پر رکھی تھی اور۔۔۔ اور اس کی شکل بھالو جیسی ہے‘‘۔ لمبورڈ بری طرح چونک گیا۔ اس کے ماتھے کی رگ پھڑک رہی تھی۔
’’آرم اسٹورنگ اندر کہیں موجود ہے۔ اب کوئی شک نہیں رہا۔ میں اسے ڈھونڈ نکالوں گا۔‘‘
’’نہیں خدا کے لیے نہیں!‘‘ ویرا چلائی۔ ’’وہ یہی چاہتا ہے کہ ہم گھر میں داخل ہو کر اسے ڈھونڈیں اور اسے ہم پر حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔ وہ پاگل ہے۔ آرم اسٹورنگ پاگل ہے اور ایک پاگل شخص کسی صحیح الدماغ شخص سے زیادہ چالاک ہوسکتا ہے۔
وہ ساحل کے کنارے کنارے ٹہل رہے تھے اور اپنی اپنی مختلف باتیں سوچ رہے تھے۔ اچانک لمبورڈ رک گیا جس پر ویرا نے اسے سوالیہ انداز میں دیکھا۔
’’وہ کیا ہے؟ کیا آپ کو نظر آرہا ہے مس ویرا؟‘‘ اس کی آواز قدرے بلند تھی۔
ویرا نے محتاط انداز میں اس جانب گردن موڑی جس طرف لمبورڈ اشارہ کررہا تھا۔
’’کپڑے۔‘‘ ویرا بھی چونک گئی۔ ’’کسی کے کپڑے پڑے ہوئے ہیں ان دو پتھروں کے درمیان میں‘‘۔ وہ دونوں اس پتھر کی جانب تیزی سے بڑھے۔ ’’ساتھ میں جوتے بھی ہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ ویرا بولتے بولتے رک گئی۔
’’یہ کپڑے نہیں کوئی آدمی ہے‘‘۔ لمبورڈ نے اس کی بات مکمل کی۔ جتنی تیزی سے وہ لوگ اس تک پہنچے تھے اتنی ہی تیزی سے کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹے۔
نیلا چہرہ۔۔۔ پھولا ہوا جسم۔۔۔ بے جان آنکھیں۔
’’اف خدایا۔‘‘ لمبورڈ کے گلے سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔
’’یہ۔۔۔ یہ تو آرم اسٹورنگ ہے۔‘‘
وقت ساکت ہوگیا تھا۔ کبھی کبھار اپنی آنکھوں پر یقین کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، یہ اس دن ویرا اور لمبورڈ کو شاید پہلی دفعہ معلوم ہوا تھا۔ سامنے پڑی وہ لاش دیکھ کر انہیں نہ حیرانی ہوئی نہ پریشانی کیوں کہ ان دونوں کی ساری حسیات منجمد ہوگئی تھیں۔ ان کو احساس تھا تو بس ایک بات کا۔
آرم اسٹورنگ کل رات کو چھپا نہیں تھا بلکہ کسی نے اسے سمندر میں پھینک دیا تھا اور اس نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں سمندر میں ہی لی تھیں اور اب پوری ایک رات اور آدھے دن کے بعد کسی لہر نے اسے پھر واپس پہنچا دیا تھا۔ تو پھر وہ آخر کون تھا جس نے کل رات کھانے کی میز پر موجود گڑیوں میں سے ایک کم کی۔ وہ کون تھا جس نے بلور کے سر کو ایک بھاری گھڑی سے کچل دیا۔ کون تھا وہ؟؟
’’ مس ویرا مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ لیکن میں اب یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم دونوں کے خاتمے کا وقت بھی زیادہ دور نہیں ہے۔‘‘ لمبورڈ کی مدھم سی آواز ابھری جیسے لہروں کے شور کی وجہ سے ویرانے بمشکل سنا۔
خاتمہ!! ویرا نے سوچا۔ خاتمہ!! اس لفظ نے بجائے اسے مایوس کرنے کے اس کے اندر ایک قوت پیدا کردی۔ اس نے اپنے پیروں کے پاس پڑے آرم اسٹورنگ کا چہرہ دیکھا جو اگر وہ عام حالات میں دیکھتی تو اس کو ہفتوں نیند نہ آتی۔
’’بے چارہ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ! ہمیں کم از کم اسے لہروں کی زد سے تو دور کردینا چاہیے۔ ایسا کرتے ہیں اس کی لاش اٹھا کر بنگلے کے قریب پہنچا دیتے ہیں‘‘۔ اس نے اپنے لہجے میں دنیا جہاں کی ہمدردی سموتے ہوئے ایسے ظاہر کیا جیسے اس نے لمبورڈ کی بات سنی ہی نہ ہو۔
’’ٹھیک ہے جیسے تم کہو۔‘‘ لمبورڈ نے اگر کچھ محسوس بھی کیا تو ظاہر ہونے نہیں دیا۔ آرم اسٹورنگ کا جسم خاصا بھاری ہوگیا تھا۔ ویرا لمبورڈ کی جتنی مدد کرسکتی تھی اس نے کی۔ اس کو اٹھانے میں مدد دی پھر اس کا لاشہ پکڑ کر کافی دور تک بمشکل لائی۔ بنگلے کے قریب پہنچ کر اسے نیچے رکھ دیا۔ لمبورڈ نے نیچے بیٹھ کر اس کے ہاتھ اس کے سینے پر باندھ دیئے اور ٹانگیں سیدھی کردیں۔
’’اطمینان ہوگیا؟‘‘ اس نے اٹھتے ہوئے اپنی پشت پر کھڑی ویرا سے پوچھا۔
’’ہاں! کافی زیادہ۔‘‘ ویرا کے لہجے میں کوئی انہونی محسوس کرتے ہوئے وہ تیزی سے اس کی جانب مڑا۔
ویرا کلیتھرون کیپٹن لمبورڈ کا پسٹل ہاتھ میں پکڑے اس کے دل کا نشانہ لیے کھڑی تھی۔
لمبورڈ ششدر رہ گیا۔ ’’تو تمہیں اس لیے ہمدردی ہورہی تھی ڈاکٹر سے تاکہ تم میری پسٹل چرا سکو۔‘‘
ویرا نے جواب دینے کے بجائے سر ہلادیا اور پسٹل پر اپنی گرفت مضبوط کردی۔ موت پہلی دفعہ کیپٹن لمبورڈ کے اتنے قریب کھڑی تھی۔ اس نے اپنے حواس بحال رکھے اور تیزی سے اپنے ذہن کو دوڑایا۔
’’مس ویرا!‘‘ اس نے اپنے تاثرات کو نارمل کیا اور انتہائی نرم لہجے میں کہا۔ ’’یہ حماقت نہ کریں۔ لائیں یہ پسٹل واپس کریں۔‘‘
جواباً ویرا اسی ہسٹریائی انداز میں ہنسی جیسے راجر کی موت کے بعد ہنسی تھی۔
’’آپ کیا کرنے والی ہیں مس ویرا۔ میری آپ سے کیا دشمنی ہے‘‘۔ لمبورڈ کو پتا تھا اسے جو بھی کرنا ہے جلدی کرنا ہے۔
ویرا نے خاموشی سے پسٹل لوڈ کی اور ٹریگر پر انگلی رکھ دی۔ لمبورڈ کو اس کی خاموشی سے خوف آرہا تھا۔ اس کو پتا تھا کہ اس وقت ویرا کو کچھ سمجھانا مشکل ہے۔ اسی لیے اس نے اسے باتوں میں لگا کر پسٹل چھیننے کا فیصلہ کیا۔
’’کیا باقی لوگوں کو تم نے مارا ہے؟‘‘
’’میں نے! حد ہوتی ہے اداکاری کی کیپٹن لمبورڈ۔ جاتے جاتے اپنے کیے کا الزام مجھ پر تھوپنا چاہتے ہو‘‘۔ ویرا کو اس کی بات سن کر سخت تاؤ آیا۔
’’میرا کیا! میرا س سب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آخر کس طرح سمجھاؤں۔‘‘ لمبورڈ جھنجھلا گیا۔
’’نہیں سمجھاؤ کچھ۔ میں نے ویسے بھی تمہاری کسی بات پر یقین نہیں کرنا۔ جو شخص صرف اپنی جان بچانے کے لے اتنے سارے لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل سکتا ہے اس کا کیا اعتبار۔‘‘
’’ہونہہ! اور تم تو مجھ سے بھی زیادہ سفاک ہو ایک بچے کو موت کے منہ دکھیل دیا۔‘‘ لمبورڈ نے ساری شرافت بھلا کر منہ توڑ جواب دیا۔
ویرا سے سچ برداشت نہیں ہوا س نے ٹریگر پر دباؤ بڑھادیا۔ اس لمحے دو چیزیں ایک ساتھ ہوئیں۔
ویرا کی ٹانگ پر اچانک کوئی تیز دھار چیز آکر لگی اور دوسری طرف لمبورڈ اپنی جگہ سے اچھلا اور ویرا کے پسٹل والے ہاتھ پر حملہ کیا۔
ویرا کے دماغ نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں آرڈر دیا اور انگلی نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ٹریگر دبادیا۔ پسٹل سے نکلتی گولی لمبورڈ نے بالکل آخری لمحے میں دیکھی لیکن سامنے سے ہٹنے کا وقت اس کے پاس بچا نہ تھا۔ گولی ٹھیک نشانے پر لگی اور لمبورڈ مردہ حالت میں زمین پر آگرا۔