حال ہی میں ریٹائرہونے والا جج ’’وارگریو‘‘ ٹرین میں فرسٹ کلاس ڈبے کے کونے میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس نے اخبار پر آخری نظر ڈالی اور اسے تہہ کر کے اپنے برابر رکھ دیا۔ کھڑکی کے باہر مختلف مناظر تیزی سے دوڑ رہے تھے۔ ’ابھی اور کتنی دیر ہے؟‘ اس نے اُکتا کر سوچا اور گھڑی سے وقت معلوم کیا۔ ’صرف دو گھنٹے‘۔۔۔ اس نے زیر لب کہا۔
’نیگر آئی لینڈ کے بارے میں اس نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ اس جزیرے کے بارے میں اخبار میں کئی دن متواتر خبریں آتی رہیں تھیں۔ بہت سی افواہیں گردش کررہیں تھیں۔ یہ جزیرہ کسی کروڑ پتی شخص کی ملکیت تھا۔ اس نے وہاں پر ایک جدید طرز کا بنگلہ تعمیر کیا جس میں ہر قسم کی آسائشیں موجود تھیں۔ دو سال وہاں رہنے کے بعد وہ شاید اس جگہ سے بور ہوگیا۔ اس نے اس جزیرے کو بیچ دیا۔ اب تو افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔ کسی اخبار میں یہ خبر تھی کہ اسے ایک فلمی اداکار نے خرید لیا ہے تو کوئی کہہ رہا تھا کہ شاہی خاندان کے کسی فرد کو نیگر آئی لینڈ پسند آگیا۔ لیکن وہ سب غلط ثابت ہوئے‘۔۔۔ جج وارگریو نے سوچا اور اپنی جیب سے خط نکال کر ایک بار پھر پڑھا۔ لکھائی بہت خراب تھی۔ لیکن پھر بھی خط کا مفہوم واضح تھا۔
’’آداب وارگریو!۔۔۔ کافی عرصے سے ملاقا ت نہیں ہوئی۔۔۔ تم نیگر آئی لینڈ ضرور آؤ۔۔۔ بہت پر فضا اور دلکش مقام ہے۔۔۔ یقیناًتمہاری روح اس پرمسرت مقام پر آ کر خوش ہوگی۔۔۔ اپنے شہر کے اسٹیشن سے ۴۰:۱۲ کی ٹرین پر آنا پھر تم سے ملاقات ہوگی۔‘‘
فقط
لیڈی الزبتھ
جج وارگریو نے اپنی یاد داشت پر زور ڈالا کہ اس کو لیڈی الزبتھ آخری دفعہ کب ملی تھی۔ شاید سات سال پہلے۔۔۔ نہیں نہیںآٹھ سال پہلے۔ اچھی خاتون تھیں۔۔۔ لیکن جج کو اس کا چہرہ صحیح طرح یاد نہیں آرہا تھا۔ آخر تھوڑی سی کوشش کے بعد اس نے تھک کر آنکھیں موند لیں۔
ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں موجود ’’ویرا کلیتھرون‘‘ کو بے تحاشہ گرمی محسوس ہورہی تھی۔ ’یا خدا‘۔۔۔ اس نے گھبرا کر سوچا۔ آج تو سورج آگ بر سا رہا ہے۔ سمندر پر جانے کا خیال اس وقت فرحت افزا تھا۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ ان شدید گرمیوں میں اس کو ایک جزیرے پر نوکری مل گئی۔ ایک دو ہفتہ پہلے ہی اسے ایک خط موصول ہوا تھا۔
’’میں نے تمہارا نام اور پتہ ایجنسی سے حاصل کیا میرے علم میں یہ بات بھی آئی ہے وہ تمہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں۔۔۔ میری سیکرٹری بیمار ہوگئی ہے اگر تم اس کی جگہ دو ماہ کام کرنے پر راضی ہو تو برائے مہربانی ۸ اگست سے اپنی ڈیوٹی سنبھال لو۔۔۔ تمہیں ۴۰:۱۲ کی ٹرین کا ٹکٹ بھیج رہی ہوں، لفافے میں تمہارے سفر خرچ کے لیے رقم بھی موجود ہے۔۔۔ میں تم سے اسٹیشن پر ملوں گی۔‘‘ شکریہ۔
فقط
یونا نینسی اوین۔
خط کے لفافے پر نیگر آئی لینڈ کا پتہ درج تھا۔ ویرانے فوراً جانے کی تیاری شروع کردی۔
’اُف اب اور کتنی دیر ہے؟‘ ویرا پھر گرمی سے بے چین ہو گئی۔ وہ جلد سے جلد سمندر کی کھلی فضا میں پہنچنا چاہتی تھی۔ گہرا نیلا سمندر۔۔۔ دور تک پھیلا ہوا۔۔۔ ایک دم سے ویرا گرمی کے باوجود کانپ اٹھی۔ ایک منظر اس کے ذہن کے پردے پر تیزی سے اُبھر رہا تھا۔ ایک بچے کا سر۔۔۔ پانی میں ڈبکیاں کھاتا وہ چھو ٹا سا سر۔۔۔ وہ اس کے پیچھے تیر رہی تھی لیکن اسے پتہ تھا دیر ہوگئی ہے۔ ویرا نے اپنا سر جھٹکا۔۔ نہیں اسے اس طرح سوچنا نہیں چاہیے
’’فلیپ لمبورڈ‘‘ ٹرین کی سخت سیٹ پر بیٹھے بیٹھے تھک گیا تھا۔ اگر وہ چھوٹے قد کا آدمی اسے نہ ملتا تو شاید وہ آج اسی ٹرین میں نہ بیٹھا ہوتا۔ اس آدمی کا نام ’’ایڈی مورس‘‘ تھا۔
’’کیپٹن جلدی فیصلہ کرو۔ کام کرنا ہے کہ نہیں؟‘‘
’’رقم تو کافی معقول ہے۔‘‘ کیپٹن نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن تم مجھے اپنے کلائنٹ کے بارے میں تھوڑی اور معلومات نہیں دے سکتے۔ اور آخر کام کس نوعیت کا ہے؟‘‘
مسٹر مورس نے اپنا گنجا سر نفی میں ہلایا: ’’نہیں کیپٹن! میرے کلائنٹ نے مجھے صرف یہ ذمہ داری دی ہے کہ تم سے رابطہ کر وں اور تمہارے اقرار کی صورت میں تمہارے سفر کا خرچہ تمہارے حوالے کردوں۔ اسٹیشن پر میرے کلائنٹ کے نمائندے تم سے ملیں گے اور نیگر آئی لینڈ پہنچادیں گے۔ وہیں پہنچ کر تمہیں مزید ہدایات ملیں گی۔‘‘
’’اچھا! کتنے دن کے لیے جانا ہے۔ کیپٹن نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
’’صرف ایک ہفتہ کے لیے۔‘‘ اورکیپٹن مطمئن ہوگیا۔
*۔۔۔*
’’مس برنٹ‘‘ اس ڈبے میں موجود تھیں جہاں سگریٹ نوشی کی ممانعت تھی۔ اس کی عمر تقریبا ۶۵ سال ہوگی۔ اس کی شکل سے صاف ظاہر تھا کہ وہ انتہائی سختی سے اپنے اصولوں پر کار بند رہنے والی خاتون ہے۔ اس کے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔ مس برنٹ کافی دیر سے اپنے ذہن پر زور دے رہی تھی۔ پچھلے ہی ہفتہ اسے جو خط ملا اس کا متن کچھ یوں تھا۔
’’عزیز! مس برنٹ! امید ہے کہ آپ مجھے بھولی نہیں ہوں گی۔ ہم کچھ سال پہلے ایک گیسٹ ہاوس میں ایک ساتھ ٹہرے تھے۔ آپ کو یاد ہی ہوگا ہماری کافی دلچسپیاں ایک جیسی تھیں۔ اب آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی میں بھی اب اپنا گیسٹ ہاؤس کھول رہی ہوں۔ جو کہ ایک جزیرے نیگر آئی لینڈ پر واقع ہے، مجھے بہت خوشی ہوگی اگر آپ یہاں آکر گرمیوں کی چھٹیاں گزاریں۔ میرے مہمان کے طور پر۔۔۔ کیا ۸ اگست کو آپ ۴۰:۱۲ کی ٹرین سے آسکتی ہیں۔‘‘ فقط۔
ی۔ن ۔الف
خط کے آخر میں موجود دستخط مس برنٹ کی بہت مشکل سے سمجھ میں آئے۔ ’چلوخیر میری چھٹیاں اچھی گزریں گی۔‘ مس برنٹ نے سوچا۔
’’جنرل میکر تھول‘‘ نے ٹرین کی کھڑکی سے جھانکا۔ اسٹیشن اب زیادہ دور نہیں تھا۔ اسے ابھی بھی صحیح طرح یاد نہیں آرہا تھا کہ مسٹر اوین نام کا اس کا کون سا دوست ہے جس نے اسے نیگر آئی لینڈ پر ایک ہفتہ گزارنے کی دعوت دی تھی۔ مسڑ اوین نے اس بات کا ذکر اپنے خط میں کیا تھا کہ اس کے علاوہ اور بھی کچھ پرانے دوست وہاں آرہے ہیں۔ جنرل کو ویسے بھی نیگر آئی لینڈ دیکھنے کا شوق تھا۔ اس نے اس جزیرے کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا تھا۔ جنرل کو اب جلدی سے وہاں پہنچنا تھا۔ اس سے اب صبر نہیں ہورہا تھا۔
’’ڈاکٹر آرم اسٹورنگ‘‘ کافی دیر سے گاڑی چلارہا تھا۔ ہائی وے پر اِکا دُکا گاڑیا ں موجود تھیں۔ ڈاکٹر کافی تھک گیا تھا۔ لیکن تھوڑے عرصے کے لیے لندن کو چھوڑ کر کسی پر فضا جزیرے پر جانے کے خیال سے خوش تھا۔ چاہے وہ پیشہ وارانہ دورہ ہی کیوں نہ ہو۔ نیگر آئی لینڈ کے نئے مالک مسٹر اوین کی بیگم کی طبیعت خراب تھی۔ ان کا اپنا فیملی ڈاکٹر آج کل کسی دوسرے ملک گیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ کی شہرت سن کر مسٹر اوین نے اس سے رجوع کیا (یہ ڈاکٹر کا اپنا خیال تھا) اور اسے ایک ہفتہ کے لیے وہاں بلایا تھا۔ ڈاکٹر وہاں جانے کے خیال سے بہت خوش تھا۔
’’مسٹر بلور‘‘ ٹرین میں فرسٹ کلاس ڈبے کے کونے میں بیٹھا تھا اور اپنی چھوٹی سی ڈائری میں کچھ لکھ رہا تھا۔
’’یہ تو بہت سارے لوگ ہیں۔‘‘ وہ اچانک بڑبڑایا۔
’’مس برنٹ۔۔۔ ویرا کلیتھرون۔۔۔ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ۔۔۔ انوتھی مارسٹن۔۔۔ جج وارگریو۔۔۔ فلیپ لمبورڈ۔۔۔ جنرل میکر تھول۔۔۔ ایک نوکر اور اس کی بیوی۔ مسٹر اور مسز راجر۔۔۔ اس نے اپنی نوٹ بک بند کی اور اپنا سامان سمیٹنے لگا۔ اسٹیشن قریب تھا۔ اس ڈبے میں مسٹر بلور کے علاوہ ایک اور کافی بڑی عمر کا آدمی بھی موجود تھا۔ ٹرین آہستہ آہستہ اسٹیشن پر آکر رک گئی۔ مسٹر بلور نے آگے بڑھ کر بوڑھے آدمی کا سامان اٹھانے میں مدد کی۔
’’سمندر کے بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ شخص منہ ہی منہ میں بولا۔
’’ہاں! ہاں!‘‘ مسٹر بلور نے غائب دماغ انداز میں جواب دیا۔
’’شاید طوفان آنے والا ہے۔‘‘ بوڑھا پھر بولا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ موسم کا فی صاف ہے۔‘‘ مسٹر بلورنے نفی کی۔
’’میں کہہ رہا ہوں طوفان آنے والا ہے۔‘‘ بوڑھا غصے میں آگیا۔ ’’فیصلے کا دن آرہا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی ۔ ’’جلد ہم سب کا فیصلہ ہو جائے گا۔‘‘
مسٹر بلور نے بغیر کچھ سوچے سر ہلادیا۔۔۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ بوڑھا آدمی صحیح کہہ رہا ہے۔
یہ ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ باہر نکل کر جانے والے راستے کے قریب ۵ لوگ غیر یقینی کے عالم میں کھڑے تھے۔ ان کو کھڑے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ دو ٹیکسیاں ان کے سامنے آکر رک گئیں۔ آگے والی میں سے ایک درمیانی عمر کا ڈرائیور نکل کر ان کی طرف بڑھا۔
’’دوپہر بخیر! آپ لوگوں کو نیگر آئی لینڈ جانا ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ پانچوں نے بیک وقت جواب دیا۔ ڈرائیور نے پانچوں پر نظر ڈالی پھر جج وار گریو کو مخاطب کیا :
’’سر! یہاں دو ٹیکسیاں موجود ہیں۔ جو آپ لوگوں کو نیگر آئی لینڈ لے جانے پر مقرر ہیں لیکن ابھی ایک اور صاحب کو آنا ہے۔ ان کی ٹرین بس دس منٹ میں پہنچ جائے گی۔ اگر آپ میں سے کوئی ایک یہاں رک جائے تو زیادہ آسانی ہوگی۔ ویرا کو فوراً اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا۔
’’مسز اوین کی سیکریٹر ی کے طور پر میرا خیال ہے میں یہاں رک کر انتظار کرتی ہوں۔ آپ لوگ ٹیکسی میں روانہ ہوجائیں۔‘‘
’’شکریہ!‘‘ مس ایملی برنٹ نے سرد مہری سے جواب دیا اور آگے والی ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ جج وار گریواور مسٹر بلور نے بھی اس کی پیش قدمی کی۔ سامان ٹیکسی میں رکھا جاچکا تھا۔ ان کے بیٹھتے ہی ٹیکسی روانہ ہوگئی اور کیپٹن لمبورڈ، ویرا کے ساتھ اسٹیشن پر رہ گیا۔
’’آپ اس جگہ پر پہلے آ چکی ہیں۔‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کیپٹن لمبورڈ نے ویرا سے دریافت کیا۔
’’نہیں نہیں! میں یہاں پہلی دفعہ آئی ہوں۔‘‘ ویرا نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’ابھی تو میں اپنی باس مسز اوین سے ملی بھی نہیں ہوں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ کیپٹن لمبورڈ نے کھینچ کر کہا۔ ’’ویسے اخلاقی طورپر مسز اوین کو خود اسٹیشن پر آنا چاہیے تھا۔‘‘
’’ارے نہیں وہ یقیناًمصروف خاتون ہوں گی۔ میرے خیال میں رات کے کھانے تک ان سے ملاقات ہوہی جائے گی۔‘‘
اتنے میں ٹرین شور مچاتی اسٹیشن میں داخل ہوگئی اور پلیٹ فارم کے پاس آکر رک گئی۔ صرف تھوڑے ہی لوگ اسٹیشن پر اترے۔۔۔ انہیں میں ایک لمبا اور مضبوط فوجی اسٹائل کا آدمی بھی تھا۔ اس کے پیچھے ایک بھاری بھر کم سوٹ کیس بمشکل اٹھائے ایک قلی کھڑا تھا۔ ویرا اور کیپٹن لمبورڈ کے ساتھ کھڑا ٹیکسی ڈرائیور آگے بڑھا۔
’’آپ جنرل میکر تھور ہیں۔‘‘
’’ہاں!‘‘ مختصر سا جواب ملا جسے سن کر ویرا آگے بڑھی۔
’’جنرل میکر تھور! میں مسز اوین کی سیکر یٹری ہوں۔ یہ کیپٹن لمبورڈ ہیں نیگر آئی لینڈ پہنچانے کے لیے ٹیکسی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔‘‘ تھوڑی ہی دیر میں وہ تینوں قصبے کی بھول بھلیوں میں سے گزر کر تیزی سے ساحل کی طرف رواں دواں تھے۔
جیسے جیسے ساحل قریب آرہا تھا۔ دور جنوب میں کالے پتھروں سے گھرا جزیرہ آہستہ آہستہ واضح ہورہا تھا۔ ویرا کو نیگر آئی لینڈ کی پہلی جھلک دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی۔ اس کے ذہن میں تو نیگر آئی لینڈ ساحل سے قریب ایک خوب صورت جزیرہ تھا۔ جس پر ایک خوب صورت ساگھر بنا ہو لیکن اسے تو نیگر آئی لینڈ دور سے صرف کالے بد صورت پتھروں کا جزیرہ دیکھائی دے رہا تھا۔ پر اسرا ر اور ناخوش گوار۔۔۔ ٹیکسی بالکل اسی جگہ جاکر رکی جہاں مس برنٹ جج وار گریو اور مسٹر بلور کھڑے تھے۔
’’میر ے خیال میں ہمیں جزیرے تک جانے کے لیے کوئی کشتی استعمال کرنی ہوگی۔‘‘ ان کے اترتے ہی مسٹر بلور ان سے مخاطب ہوا۔ اس بات کے جواب میں ایک طویل القامت اور مضبوط ملاح انہیں اپنی طرف آتا دیکھائی دیا۔
’’دوپہر بخیر! خواتین وحضرات میرا نام ’فریڈ‘ ہے۔ آپ لوگوں کو نیگرآئی لینڈ میری کشتی میں بیٹھ کر جانا ہوگا۔ جو اس طرف موجود ہے۔‘‘ فریڈ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے انہیں بتایا لیکن ان سب کی مشکوک نگاہیں دیکھ کر اس نے ان کی تسلی کرانی ضروری سمجھی۔ ’’آپ سب پر یشان نہ ہوں۔ میرے ذمہ یہ کام مسٹر اور مسز اوین کے ایجنٹ مسٹر مورس نے لگایا ہے۔ آپ ۶ لوگوں کے علاوہ دو اور لوگوں کو بھی یہاں آنا ہے لیکن کیوں کہ وہ لوگ کار کے ذریعے آرہے ہیں اور ان کے آنے کا وقت مقر ر نہیں تو ہم ان کا انتظار نہیں کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر فریڈ اپنی کشتی کی سمت چل پڑا۔
تھوڑی ہی دور ایک چھوٹی سی کشتی ساحل کے پاس ان کی منتظر تھی۔ ’’یہ تو بہت چھوٹی ہے مسٹر فریڈ! شاید آپ نے غور نہیں کیا کہ آپ کو ملا کر ہم ۷ افراد ہیں۔ آخر ہم اس میں کیسے سمائیں گے؟‘‘ مس برنٹ نے اپنے مخصوص غصیلے لہجے میں کہا۔
’’فکر مت کریں مادام! یہ دیکھنے میں چھوٹی ہے لیکن ہے بہت کام کی۔‘‘ فریڈ نے محبت سے اپنی کشتی پر ہاتھ پھیرا۔ ان سب کے بیٹھنے کے بعد کشتی چلنے کو بالکل تیار تھی۔ اچانک ایک زور دار ہارن کے ساتھ گاڑی ان کی پشت پر ساحل پر چلتی ہوئی ان سے تھوڑی دورآکر رک گئی۔ گاڑی انتہائی بیش قیمت اور نئے ماڈل کی تھی لیکن اس سے بھی زیادہ متاثر کن شخصیت گاڑی میں بیٹھے شخص کی تھی۔ انتہائی خوب صورت نقوش کے چہرے پر سنہری دھوپ پڑنے کی وجہ سے وہ ایک غیر مرئی دیوتا لگ رہاتھا۔
’’لافانی۔۔۔‘‘ کشتی میں بیٹھے مسٹر بلور کے ذہن میں ایک لفظ ابھرا۔ وہاں موجود کسی شخص کو اندازہ نہ تھا کہ خوبصورت چہروں کو بھیانک نقوش میں بدلنے میں ایک لمحہ سے زیادہ نہیں لگتا۔
انوتھی مارٹن نے گاڑی سے اتر کر دروازہ لاک کیا اور کشتی کی طرف بڑھ گیا۔