میں ہر شخص کی حقیقتوں سے آگاہ ہوں"
میں نے مقامِ خاص دے کر آزمایا ہے لوگوں کو
ڈیڈ آج آفس میں۔ ایک میٹنگ ہے اور میں۔ چاہتا ہوں آپ اُس میٹنگ میں ھوں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بریک فاسٹ کرتے ہوئے احمد شاہ کو میٹنگ کے بارے میں بتا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اوکے بیٹا میں آ جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔
اوکے موم اوکے ڈیڈ میں۔ چلتا ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے وہ اپنے ماں باپ کا سر چوم کے۔ باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔
ماہی جو اُپر کھڑی دیکھ رہی تھی تیز۔ تیز۔ قدم اٹھاتی بالكانی میں بھاگی۔۔۔۔۔۔۔
سائیڈ میں کھڑی ہوکر وہ اسکو۔ جب تک۔ دیکھتی رہی جب تک۔ وہ نظروں سے۔ اوجھل نہیں ہو گیا اور پھر وہیں پیلر سے ٹیک لگا کے۔ بیٹھ گی اللہ جی پلیز مجھے ہمت دیں۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش حسان تم سے دوری میری طاقت بن جاۓ
مجھے تم سے۔ بھلے ہی کتنی محبت ہو حسان مگر میں اپنے آپ کو اور ذلیل نہیں کروا۔ سکتی تم سے تم ایک دن میرے لیے رو گے دیکھنا تم وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی
مر جاوں گی _____ چند دنوں تــــــک______!!
اک بے رحم جلا رہا ہے دل کو روز تھوڑا تھوڑا...!!
*****************************
*تو دربدر یوں پھیرا کرے *
*میرے لوٹ انے کی تو د عا کرے ،*
وہ جیسے ہی اپنے آفس میں انٹر ہوا تو سب جلدی سے کھڑے ہو ہو کے سلام کر رہے تھے
وہ بغیر کسی کی طرف دیکھے سیدھا اپنے کیبن میں انٹر ہوا اورانٹر قوم سے ابراہیم کو اپنے کیبن میں بلوایا اور لیپ ٹاپ آن کرکے اپنی ای میل چیک کرنے لگا
یس سر ابراہیم جو اسکا پرسنل سیکریٹری تھا وہ روم میں انٹر ہوتے ہوئے بولے
ابراہیم میٹنگ کس ٹائم ارینج کی ہےوہ بنا اس کی طرف دیکھے پوچھ رہا تھا
سر گیارہ بجے کی ٹائمنگ ہیں وہ نظریں جھکاے ادب سے بولا
گڈ چیر سے ٹیک لگائے جھولتے ہوئے بولا
اوکے تم جاؤ وہ موبائل پر چھمکتے نام کو دیکھتا ہوا بولا
ہیلو حسان کول پیک کرتا ہوا بولا
سر میں جاوید بات کر رہا ہوں وہ دھمیی دھیمی آواز میں بولا
ہاں مجھے پتا ہے بولو کیا بات ہے ۔۔.
سر وہ کچھ بات کرنی تھی
جو کہنا ہے جلدی بولو ٹائم نہیں ہے میرے پاس ۔۔
سر وہ بی بی احمد شاہ سر کے ساتھ کہیں جا رہی ہیں وہ فاٹا فٹ کام کی بات پر آیا
ہاں تو اس میں کیا خاص بات ہے
سر خاص بات یہ ہے کہ بیبی سامان کے ساتھ جا رہی ہیں اور
ابھی وہ اور کچھ کہتا حسان اپنے کیبن سے نکل کر لفٹ کی طرف بڑھا
سر۔۔۔۔۔۔ ابراھیم بھی اسے پکارتا ہوا پیچھے آیا تھا
مگر وہ بینا اگے پیچھے کی سنے تیر کی تیزی سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کے نکل گیا تھا
اففففف میرے اللہ ایک تو انکا کچھ پتا نہیں ہوتا پتا نہیں کہاں نکل گے ہیں اور اب اس میٹنگ کا۔ کیا کروں میں
ابراھیم بڑبڑاتا ہوا واپس اندر چلا گیا
ہم چھوڑ چلے ہیں محفل کو۔۔۔
یاد آئیں کبھی تو رونا مت۔۔۔
ڈیڈ چلیں میں ریڈی ہوں ماہی نیچے آتی ہوئی بولی
ہاں جی چلیں احمد شاہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولے
موم میں آپ کو۔ بہت بہت بہت مس کرونگی لوو یو سو سو مچ پلیز آپ بھی چل لیں نہ میں میں وہاں کیسے رہونگی آپ دونوں کے بغیر پلیز موم پلیز ڈیڈ ماہی ایک دم سے ہانیہ بیگم کے گلے لگ کے رونا شروع ہو گئی تھی
مس یو ٹو میری جان مگر موم مجبور ہیں اگر تمہارے ساتھ گئی تو جس کی وجہ سے ہم تمہیں بھیج رہے ہیں اتنی دور وہ ڈھونڈھ لے گا جان اور میری بیٹی تو بہت سٹرونگ ہے ہنا ہانیہ بیگم اسے بھلاتی ہوئی بولیں
اور میں جانتی ہوں جب تم دور ہوگی نا اسے تمہاری قدر ہوگی میری جان بی بریو چلو اب فلائٹ کا ٹائم ہو رہا ہے احمد سوٹ کیس رکھوا دیے اپنے پہلے ماہی کو سمجھاتی باہر لے کے این پھر احمد شاہ سا بولیں
جی بیگم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شرارتی انداز میں دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے
چلو گڑیا بیٹھو ۔۔۔۔۔۔ احمد شاہ ماہی کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے بولے
اللہ حافظ موم ۔۔۔۔۔۔
اللہ حافظ میری چندہ ہانیہ بیگم نے ماہی کا ماتھا چوم کے اسے گاڑی میں بیٹھایا
چلو ڈرائیور احمد شاہ ماہی کے برابر میں۔ بیٹھتے ہوئے بولے
احمد شاہ کے کہتے ہی ڈرائیور نے گاڑی زن سے اگے بڑھا دی تھی
* گم ہو جائے تو یاد آ جاتی ہے عام سی چیز بھی
تم کو میرا خیال میرے بعد آئے گا*
******************************
گاڑی باہر ہی کھڑی کرکے وہ بھاگتے ہوئے اپنے گھر میں انٹر ہوا
سیڑھیاں چڑھتے ہوے ماہی کے کمرے کی طرف بڑھا
ماہین خان ماہین خان ۔۔ دروازہ کھولتے ہیں وہ ماہی کا نام چلاتے ہوئے روم میں آیا
موم موم ۔روم خالی دیکھ کر وہ نیچے اپنی ماں کے پاس بھاگا
تم اتنی جلدی آ گے آج تو تمہاری میٹنگ تھی نہ ہانیہ بیگم حسان کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولی
ماہین کہاں ہے اس کے لہجے میں جیسے وارننگ سی تھی
ماہی اپنے روم میں ہوگی ہانیہ بیگم گھبراتے ہوئے بولی
آپ لوگوں نے کہا بھیجا ہے اسے مجھے فورا بتا دیں
ہاں بھیج دیا ہے تم سے دور کیوں کی تم اسے deserve نہیں کرتے سمجھے تم وہ بھی غصے سے بولیں
ڈونٹ وری مام آپ کی چہتی کو تو میں ڈھونڈ ہی لوں گا مگر میرے ہاتھ لگتے ہی وہ آپ لوگوں کو نہیں ملے گی
وہ کہتے ساتھ ہی باہر کی طرف نکلا گیا
حسان میری بات سنو ہانیہ بیگم اسے پکارتی ہوئی پیچھے آئی مگر وہ بینا۔ سنے گاڑی میں بیٹھ کر نکل گیا تھا
ماہین خان یہ تم نے اپنی لیے اچھا نہیں کیا میرے منع کرنے کے باوجود بھی تم نے یہی حرکت کی اب تم بس مجھے مل جاؤ پھر میں تمہیں بتاؤں گا حسان شاہ کیا چیز ہے
وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے خود سے بولا
تمہیں بھوگتنا پڑے گا تمہیں مجھ سے اس دنیا میں کوئی نہیں بچا سکتا
وہ موبائل میں کسی کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے بولا
مجھے پتا ہے ڈیڈ تمہیں کبھی بھی دوسرے شہر نہیں بھیجیں گے کیوں کہ انہیں پتا ہے میں تمہیں چٹکیوں میں ڈھونڈ لوں گا
ہیلو ہاشم تم سے ایک کام تھا یار دوسری طرف سے جواب آنے پر وہ بولا
ماہین آیان خان کے نام سے کوئی سیٹ بک ہے کیا
اوکے بٹ تھوڑا جلدی یار شاید اسے انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا
ہاں حسان سیٹ بک ہے 11:30 کی ٹائمنگ ہے فلائٹ کی
وچ پلیس
امریکا کی ہے
تھنک یو فور ہیلپینگ یار
اٹس اوکے یار دوست ہوں تیرا اتنا تو کر ہی سکتا ہوں
چل ٹھیک ہے میں بعد میں بات کرتا ہوں تجھ سے
اوکے ٹھیک ہے
ہاہاہاہا جسٹ ویٹ ایڈ واچ جان موبائل رکھتے ہوئے حسان قہقہ مار کے ہنسا تھا
جاری ہے
†****************************†
** **My #SilENCe iS juSt AnOthEr wOrd For My #Pain..
گڑیا خاموش کیوں ہو احمد شاہ ماہی کو مسلسل خاموش دیکھ کے بولے
نو ڈیڈ میں خاموش نہیں ہوں ماہی احمد شاہ کے کندھے
سے سر اٹھاتی ہوئی بولی
پھر کیا سوچ رہی ہے میری گڑیا ۔۔۔۔۔
یہی ڈیڈ کی آپ مجھے ائیرپورٹ کے بجاۓ فارم ہاؤس کیوں لیکے جا رہے ہیں ۔۔۔
وہ اس لیے کیوں کی میں جانتا ہوں حسان کو اب تک پتا لگ گیا ہوگا کی تم ملک سے باہر جا رہی ہو میں تمھیں آج نہیں کل بھیجوں گا آج تمہارے نام سے امریکا کی فلائٹ بک ہے تاکی اوسے نا پتا چلئے کی تم کہاں گئی ہو
ہاہاہا ڈیڈ آپ بہت چلاک ہیں ماہی ہستی ہوئی بولی
ہاں بھئ وہ تو میں ہوں اس بارے میں آپ کی موم بھی نہیں جانتی ہاہاہا احمد صاحب بھی ہستے ہوئے بولے
ایک بات یاد رکھنا گڑیا جتنا آپ حسان سے ڈروگی وہ اتنا ہے آپ کو ڈرائے گا اوسے ڈرنا چھوڑ دو جب تک ڈروگی وہ اتنی ہے آپ کو تکلیف دے گا سمجھی احمد شاہ ماہی کو سمجھاتے ہوئے بولے
جی ڈیڈ میں اب نہ ڈروگی ماہی نے احمد شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
وعدہ ۔۔۔۔
پکا وعدہ ۔۔۔
:تعجب ہے تیری گہری محبت پر
تم ہماری روح میں۔۔۔۔۔
اور ہم
تیرے وہم و گماں میں بھی نہیں نہیں۔۔۔۔
†******************************†
حسان پورا ائیرپورٹ دیکھ چکا تھا مگر ماہی اور احمد شاہ اوسے کہیں نہیں ملے تھے ائیرپورٹ کی انتظامیہ ایسے پھلے ہی بتا چکی تھی کے ماہی نے فلائٹ لی ہے نہیں
تم مجھے مل جاؤ ایک دفع ماہین خدا کی قسّم تمہیں چھوڑونگا نہیں وہ ائیرپورٹ سے باہر آتے گاڑی کی جانب جاتے ہوئے بولا
پیک اپ دا کال ڈیمیٹ حسان مسلسل ڈرائیور کا نبر ملتے ہوئے بولا اسے یہاں ڈہائی گھنٹے ہو گے تھے
کار میں بیٹھ کے گاڑی گھر کی طرف موڑ لی
†*****************************†
اچھا گڑیا خیال رکھنا ٹھیک ہے رات بارہ بجے کی آپ کی فلائٹ ہے میں گیارہ بجے تک آ جاؤں گا احمد شاہ ماہی کے ساتھ کافی دیر بیٹھنے کے بعد واپس جاتے ہوئے ہدایت کرتے ہوئے بولے
بٹ ڈیڈ میری فلائٹ تو کل کی تھی ماہی نے اُلجھتے ہوئے پوچھا
ہاں بیٹا کل کی تھی مگر کل کوئی فلائیٹ نہیں ہے آج رات بارہ بجے کی فلائٹ ہے تو میں نے سوچا آپ کو رات کو ہی بھیج دوں احمد شاہ ماہی کو بتاتے ہوئے بولے
ٹھیک ہے ماہی سر ہلاتے ہوئے بولی
اوکے اپنا خیال رکھنا میں گیارہ بجے تک آجاؤں گا
اوکے ڈیڈ اللہ حافظ
اللہ حافظ گڑیا احمد شاہ ماہی کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ کے چلے گئے
ماہر کچھ دیر وہیں کھڑی رہنے کے بعد اندر کی طرف بڑھ گی
اف اللہ میں یہاں کیا کرو موبائل بھی نہیں کھول سکتی
چلو سو ہی جاتی ہوں تھوڑی دیر ماہی کو اس سے اچھا حل جب کوئی نہ ملا تو وہ سونے چل دی تھی
†****************************†
سر حسان بابا کی کال آرہی ہے ڈرائیور اپنا موبائل احمد شاہ کی طرف کرتے ہوئے بولا
رحمت آپ موبائل کو بجنے دیں آپ گاڑی چلائیں
جی سر ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ موبائل رکھتے ہوئے ادب سے بولا
شاہ کہاں تھے آپ میری کال کیوں نہیں رسیو کر رہے تھے احمد شاہ نے جب اپنے موبائل پر ہانیہ بیگم کی اتنی کال دیکھیں تو نے کال بیک کی تھی
کیا ہوا ہے بھئ سب خیریت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیریت خیریت کبھی آپ کا بیٹا رہنے بھی دیتا ہے ہانیہ بیگم نے جھجلاتے ہوئے کہاں
کیا ہوا ہے بتائیں تو احمد شاہ سمجھ گئے تھے اس لئے انہوں نے رلیکس ہو کے پوچھا ۔
احمد شاہ کے پوچھتے ہی ہانیہ بیگم نے الف سے ی تک ساری بات بتا دی
چھوڑیں بیگم میں گھر ہی آ رہا ہوں پھر دیکھتے ہیں
ماہی چلی گی ۔۔۔۔۔۔
جی چلی گئی ۔احمد شاہ نے ہانیہ بیگم سے ماہی کی بات چھپائی تھی
شکر ہے خدا کا۔۔۔۔۔۔۔
چلیں بس میں دو منٹ میں گھر ہی آ رہا ہوں پھر بات ہوتی ہے
جی ٹھیک ہے اللہ حافظ
اللہ حافظ
†*******************************†
حسان جب پانچ بجے گھر میں انٹر ہوا تو سامنے ہی احمد شاہ اور ہانیہ بیگم بیٹھے نظر آئے
اسے اس بات پر پھر غصہ چڑھ گیا کی وہ اُس لڑکی کے پیچھے در در کی خاک چھان کے آیا تھا اور یہاں اس کے ماں باپ اتنے ریلیکس بیٹے تھے
ماہی کہاں ہے ڈیڈ حسان نے اپنے لہجے پر کنٹرول رکھتے ہوئے پوچھا
جہاں بھی ہو تمہیں اس سے کوئی بھی سروکار نہیں ہونا چاہیے وہ بھی اس کے ہی باپ تھے
کیسے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے بیوی ہیں وہ میری
حسان غصے سے چیخہ
حد میں رہو حسان بیٹی ہے وہ میری جہاں مرضی چاہے اسے کہیں بھی بھیجو تم ہوتے کون ہو مجھ سے پوچھنے والے یاد رکھو میں تمہارا باپ ہوں تم میرے باپ نہیں ہو
حد میں رہو کیسے حد میں رہو بیوی ہے وہ میری ۔۔۔۔
بیوی کبھی سمجھا بھی تھا تم نے اسے بیوی ہمارے سامنے تم شریف بنتے ہو ہمیں نہیں پتا تم نے اسے کتنی تکلیف دی ہے
ہاں دی ہی میں نے تکلیف وںسے اور اب مجھے ایک دفع مل جائے اس سے کئی زیادہ تکلیف دونگا میں یہ وعدہ ہے میرا اور ایک بات اور ڈیڈ اگر وہ مجھے مل گئی تو یاد رکھے گا آپ کو اسکا سایہ بھی کبھی نہیں ملے گا وہ سرد لہجے میں کے کر جانے لگا کہ ایک دم رک کر ایک اور بات باور کروا کے سیڑھیاں چڑھنے لگا
آخر اس نے تمہارا بگاڑا کیا ہے حسان کیوں پیچھے پڑے ہو اس کے احمد شاہ حسان کے پیچھے چیخیے
ہاہاہاہا آپ پوچھتے ہیں بگاڑا کیا ہے اس نے مجھ سے میرا بچپن چھینا ہے میرے ماں باپ چھینے ہیں ان کا پیار چھنا ہے وہ لال آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا
تم پاگل ہو چکے حسان اس بچی نے کچھ نہیں کیا ہے آج بھی تمہارے ماں باپ تمہارے ہی ہیں احمد شاہ اسے سمجھاتے ہوئے بولے
ماں باپ تو میرے ہیں مگر پیار کسی اور کی اولاد کو مجھ سے زیادہ کرتے ہیں
نہیں میرے بیٹے ایسی کوئی بات نہیں ہےاحمد شاہ احسان کے دل میں ماہی کیلئے اتنی نفرت دیکھ کے بے بسی سے بولے
آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں حسان سیڑھیاں اتر کے احمد شاہ کے روبرو آتے ہوئے بولا
ہاں بیٹا ہر ہر باپ اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے میں بھی بہت محبت کرتا ہوں تم سے وہ جیسے ایسے یقین دلاتے ہوئے بولے
ٹھیک ہے آپ مجھے بتا دیں ماہی کہاں ہیں میں یقین کر لوں گا وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا
حسان وہ جا چکی ہیں
وہ اسی ملک میں ہے ڈیڈ مجھے پتا ہے
نہیں وہ جا چکی ہے کینیڈا یقین کرو
اس کی امریکا کی فلائٹ تھی تو وہ کینیڈا کیسے چلے گی حسان نے الجھتے ہوئے پوچھا
میں نے دو جگہ سیٹ بک کروائی تھی تاکہ تمہیں پتا نہ چلے اب میں تمہیں بتا چکا ہوں اب خدا کے لیے اس کا پیچھا چھوڑ دو
یقین تو مجھے نہیں ہو رہا لیکن چلیں دیکھتے ہیں اور
پیچھا تو میں اس کا کسی بھی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا یہ کہتے ساتھ ہی حسان سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے میں غائب ہوگیا
احمد یہ آپ نے کیا کیا اور ماہی کینیڈا اسے کی تو ہانیہ بیگم جو اب تک چپ کھڑی تھی حسان کے جانے کے بعد بولی
بیگم مجھے 9 بجے ایک گیٹ ٹو گیدر میں جانا ہے اس سے پہلے میں تھوڑا آرام کرنا چاہتا ہوں پلیز ایک کپ چائے لے آئے میں کمرے میں جا رہا ہوں ہانیہ بیگم کی بات کاٹتے ہوئے احمد شاہ اپنے کمرے میں چلے گئے
†********************************†
حسان مسلسل دو گھنٹے سے اپنے کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا
کیوں کیوں ماہیں کیوں کاش تم اس طرح میری زندگی میں نہ آتی تو شاید مجھے تم سے اتنی نفرت نہ ہوتی
مگر مجھے تم سے نفرت ہے تمہارے نام سے نفرت ہے اس رشتے سے حسان کہتے کہتے روک گیا تھا
بولو اب کیا تمہیں اس رشتے سے بھی نفرت ہے ہاہاہاہا حسان نے چونک کے اوپر دیکھا تو سامنے اسکا عکس تھا
میں میں جب اس رشتے کو ہی نہیں مانتا تو نفرت کیسی حسان نفرت پر زور دے کے بولا
اچھا تو پھر کس رشتے سے تم ابھی نیچے اُسے بیوی کے رہے تھے طنزیا لہجے میں اسکا عکس بولا
تم ہوتے کون ہو مجھے سے سوال جواب کرنے والے ہاں۔۔۔۔۔
میں ۔میں تمہارا ضمیر ہوں حسان شاہ ہاہاہا
شٹ اپ نکل جاؤ یہاں سے میں تمہیں جواب دا نہیں ہوں
ہاہاہا پچھتانے کے لئے تیار ہو جاؤ حسان شاہ اس کا عکس اس پے ہنستا ہوا بولا
یو حسان جیسے ہی صوفے سے اٹھ کر ڈریسنگ کی طرف بڑھنے لگا ہی تھا اتنے میں اس کا فون بجا تھا اور سامنے اس کا عکس غائب ہوگیا تھا
فون اٹھا کر دیکھا تو علی کا نام جگمگا رہا تھا
ہاں بول علی اس نے جیسے بیزاریت سے جواب دیا تھا
یہ تم کیا کرتے پھر رہے ہو ہاں علی غصے سے بولا
اب کیا کر دیا ہے میں نے حسان تیز آواز میں بولا تھا
یہ تم تھوڑی دیر پہلے ماہ کی انفارمیشن کیوں لے رہے تھے علی بھی تیز آواز میں بولا
تجھے کس نے بتایا حسان نے چونکتے ہوئے پوچھا
جب تم شاہنواز سے انفرمیشن لے رہے تھے وہ میرے ہی ساتھ تھا جب میں ائیرپورٹ سے باہر نکل رہا تھا تو وہ سامنے ہی کھڑا تھا ۔۔۔
حسان کو ایک منٹ کے لئے چپ لگ گئی تھی
دو دن کے لیے میں ملک سے باہر کیا گیا تم نے مجھے مرا ہوا سمجھ لیا تم نے خود کو سمجھ کیا رکھا ہے ہاں تمہیں ذرا شرم ہے تم اپنے دوست سے اپنی بیوی کی انفارمیشن لیتے پھر رہے ہو ڈوب کے مرجاؤ تم علی حسان کو پتا نہیں کیا کیا کے رہا تھا اور شاید سہی کے رہا تھا
بس ۔۔۔۔۔۔۔ تم نے پوچھا بھی مجھ سے کی کیوں لیتا پھر رہا ہوں میں انفارمیشن نہیں نہ چلو میں بتا دیتا ہوں بھاگ گی ہے تمہاری نام نہاد بہن یہ ملک چھوڑ کے جب اس کی برداشت سے باہر ہوا تو وہ بھی چیختا ہوا بولا
شٹ اپ حسان ماہ کے بارے میں ایک اور لفظ الٹا کہا نہ میں تیرا حشر کردونگا علی سرد لہجے میں بولا
اچھا ہوا وہ چلی گئی تم اسے deserve ہی نہیں کرتے
علی طنزیہ بولا
تمہاری نام نہاد بہن کو تو میں چٹکیوں میں ڈھونڈ لونگا
حسان بھی طنزیہ بولا
حسان میری بات سنو تم کیوں اس کے پیچھے پڑے ہو تمہیں نظر کیوں نہیں آتی اسکی محبت علی جب تھک گیا تو اسے سمجھاتے ہوئے بولا
محبت وہ بھی مجھ سے جس نے مجھ سے میری ماں باپ کی محبت چھینی ہے وہ کیسے مجھ سے محبت کر سکتی ہے ؟؟؟؟؟؟
کبھی بھی نہیں کبھی معاف نہیں کروں گا میں اسے یاد رکھنا ۔۔۔۔۔۔۔
اچھا تم مجھے سے ریسٹورانٹ میں ملو 8 بجے ٹھیک ہے
حسان دوست تھا اسکا بچپن کا وہ نہیں چاہتا تھا کی اسکا دوست اپنی زندگی خراب کرے ۔۔۔۔۔
میں نہیں آؤں گا سمجھے تمہیں ہمیشہ غلط لگتا ہوں جب کے تم میری ہر تکلیف سے واقف ہو میں کیسے ترستا تھا موم ڈیڈ کے پیار کے لیے اور انہوں نے ہمیشہ مجھے اس لڑکی کی وجہ سے اگنور کیا پھلے ہوسٹل بھج دیا پھر لنڈن ہمیشہ ترسا ہوں میں انکے پیار کے لیے تو جانتا ہے مگر مجھے نہیں سمجھتا تو کوئی نہیں سمجھتا مجھے پھلے تیز بولتے بولتے آخر میں تھک کر بیڈ پر بیٹھ گیا
علی سمجھتا تھا اسکی حالت کو جانتا تھا اسکی تکلیف کو مگر ماہی کی بھی کوئی غلطی نہ تھی یہ بات بھی جانتا تھا
حسان تم 1 گھنٹے میں مجھے اسٹارز ریسٹورانٹ میں مل رہے ہو اٹس ڈیٹ کلئیر اور ہاں خیال رکھنا اوکے
اوکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موبائل بند کرکے بیڈ پر پھیک کے اٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
علی بند موبائل کو مسلسل گھور رہا تھا اور سوچین حسان کے۔ گیرد ہی گھوم رہی تھی
نہ جانے کیسی نفرت کرتا تھا حسان ماہ سے کے اسے دنیا کی ہر لڑکی سے چڑ تھی لڑکی لفظ بہت تھا اسکو غصہ دلانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔
اففففف اللہ پلیز اسکا دل بدل دے علی اپنے میں ہی بڑبڑارہا تھا
ماہ کہاں گئی ہے انکل سے معلوم کرونگا علی احمد شاہ سے بات کرنے کا سوچتا ہوا نیچے چل دیا تھا
۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
علی زین انصاری ایک خوبصورت ہینڈسم ڈیسنٹ اور اسمارٹ لڑکا
۔ ( زین انصاری اور صباء زین انصاری کی دو اولاد تھی بڑا بیٹا علی اور ایک بیٹی ماہ نور۔
ماہ نور جب جب 6 سال کی تھی تب کیسی نے اسے کڈنیپ کر لیا تھا بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی انکی پیاری بیٹی کا کچھ نہیں پتا چلا تھا زین انصاری ایک بزنس مین تھے پیسا پاور بھی بہت تھا مگر اس وقت کچھ کام نہ آیا تھا
علی نے جب ماہین کو دیکھا تھا تو اسے اوسمے اپنی ماہ نور ماہین میں نظر آئی تھی تب سے ہے علی ماہین کو ماہ کہتا تھا اور خود سے بڑھ کر اسے چاہتا تھا اسکی حفاظت کرتا تھا اسکی ایک آواز پر دوڑا چلا آتا تھا حسان سے لڑتا تھا
مگر اسے یہ کبھی ماہ نے پتا نہ چلنے دیا کے کس طرح حسان اسے تکلیف دیتا تھا
†******************************†
حسان ۔۔۔۔۔۔۔۔حسان باہر نکل ہی رہا تھا کی اپنی ماں کی آواز پر روک گیا تھا
جی موم ۔۔۔۔۔۔۔ حسان ہانیہ بیگم کی طرف آتے ہوئے بولا
کہاں جا رہے ہو ۔۔۔۔۔۔
علی سے ملنے جا رہا ہوں آپ کو کوئی کام ہے تو بتائیں۔۔۔۔۔۔
کام تو نہیں ہے میں نے تو بس یوں ہی بلا لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا کچھ کہنا چاہ رہی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہممممم ہاں نہیں کچھ نہیں کہنا تم جاؤ وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں ۔۔۔
اوکے میں چلتا ہوں جلدی آ جاؤں گا حسان انکے ہاتھ چومتے ہوئے جانے لگا کی ایک دفع پھر ہانیہ بیگم پکار بیٹھیں
حسان ۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ۔۔۔۔۔۔۔
میرا ایک کام کروگے؟؟؟؟
موم یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بتائیں کیا کام ہے
کیا تم اپنی ماں کو معاف کر سکتے ہو ہانیہ بیگم آنکھوں میں آنسو بھرے پوچھ رہیں تھیں
موم کیا ہوا ہے بتائیں مجھے اور کس بات کی معافی حسان ہانیہ بیگم کو گلے لگاتے ہوئے بولا
ہم سے زیادتی ہوگئی ہے بیٹا ہم تمہارے حصےکا پیار تمہیں نہ دے سکے ہمیشہ خود سے تمھیں دور رکھا اپنی ماں کو معاف کردو میری جان ہانیہ بیگم حسان کے گلے لگے روتی ہوئی بولی
موم کیا ہوگیا ہے یار ماں کبھی اپنی اولاد سے معافی مانگتی ہیں پلیز چپ ہو جایں آپ کے آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں حسان اپنی ماں کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا
بیٹا ماہی کی غلطی نہیں ہے اس میں کوئی بھی یقین کرو میرے بچہ وہ بن ماں باپ کی بچی ہے تمہاری طرف سے کوتاہی ہم سے ہوئی ہے ماہی کا اس میں کیا قصور
موم وہ کہاں ہے بن ماں باپ کی بچی آپ دونوں ہیں تو اس کے ماں باپ
ہنی میری بات سمجھو میری جان ہانیہ بیگم ابھی بول ہی رہی تھیں پر کے حسان ان کی بات کاٹتے ہوئے بولا
موم مجھے دیر ہو رہی ہے مجھے علی سے ملنے جانا ہے میں جلدی آ جاؤں گا اللہ حافظ حسان دھیمے لہجے میں کہتا ہوا باہر نکل گیا
†************************†