ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا۔
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ
جو کردے بخت سکندر سا۔
کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر
کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔
کوئی ایسا دے تعویز مجھے
وہ مجھ پر عاشق ہو جائے ۔
کوئی فال نکال کرشمہ گر
میری راہ میں پھول گلاب آئیں۔
کوئی پانی پھوک کے دے ایسا
وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔
کوئی ایسا کال جادو کر
جو جگمگ کر دے میرے دن۔
وہ کہے مبارک جلدی آ۔
اب جیا نہ جائے تیرے بن۔
کوئی قابو کر بے قابو جن
کوئی سانپ نکال پٹاری سے۔
کوئی دھاگہ گیھنچ پراندے کا
کوئی منکا اکشا دھاری سے۔
کوئی ایسا بول سکھا دے نا
وہ سمجھےخوش کفتار ہوں میں۔
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے
وہ جانے جان نثار ہوں میں۔
کوئی ڈھونڈ کے وہ کستوری لا
اسے لگے میں چاند کے جیسی ہوں۔
جو مرضی میرے یار کی ہے
اسے لگے میں بالکل ویسی ہوں۔
کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ
جو اشک بہادے سجدوں میں۔
اور جیسے تیرا دعوی ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں۔
پر عامل رک اک بات کہوں
یہ قدموں والی بات ہے کہ؟
محبوب تو ہے سر آنکھوں پر
مجھے پتھر کی اوقات ہے کیا۔
*********************************************
بیبی آپ کو شاہ صاحب بلا رہے ہیں اسٹڈی روم میں نوری بند دروازے کو ہلکا سا کھٹکھٹاتے ہوئے بولی
ٹھیک ہے نوری آپ انسے کہیں میں آ رہی ہوں وہ اپنی ڈائری بند کرتی ہوئی بولی اور نیچے اسٹڈی میں چلی گی
یہ اسلام آباد کے ایک پوش علاقے شاہ محل کا منزل تھا
ڈیڈ آپ کیوں بھیج رہے ہیں مجھے لنڈن وہ اپنے باپ کی طرف دیکھ کے بے بسی سے رو پڑی تھی
نہیں میری جان روتے نہیں ہیں اس طرح اپ تو میری اچھی بیٹی وہ نہ احمد شاہ اپنی جان سے پیاری بیٹی کو اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولے
ڈیڈ باہر نہیں جانا اپکو اور موم کو چھوڑ کے پلیز ڈیڈ
ماہی.. اپکے ساتھ وہ کتنا بُرا پیش آتا ہے کیا یہ بات مجھے نہیں پتا وہ ہمیشہ اپکو تکليف دے کے جاتا ہے یہ یہ اپکا ہاتھ میرا بس نہیں چل رہا میں اُس کے ساتھ کیا کر گزروں انہوں نے اسکے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا
ڈیڈ. می ..میں اُسے بولا نہیں جا رہا تھا اور کہتی بھی تو کیا شاید وہ صحیح تھے
مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگی جو میں نے اپکا نکاح کر دیا مجھے معاف کردیں بیٹا مجھ سے غلطی ہو گی وہ اپنے سامنے بیٹھی اس 17 سال کی لڑکی جو انکی بیٹی تھی انکی جان تھی اس سے وہ شرمندہ تھے
نہیں ڈیڈ ایسا مت کہیں پلیز میں میں چلی جاوں گی وعدہ مگر اپ ایسا نہیں کہیں ایک بیٹی کب اپنے باپ کو شرمندہ ہوتے دیکھ سکتی ہے
وہ انکے پاس سے اٹھ کر جانے لگی کے احمد شاہ کی آواز نے اسکے قدم روک لیے
میری جان یہ مت سمجھنا کی وہ میرا بیٹا ہے تو میں اُسے کچھ نہیں کے سکتا آپ اُس سے بڑھ کر عزیز ہو میرے لیے وہ اُسے اٹھتا دیکھ کے بولے
نہیں ڈیڈ میں ایسا کبھی نہیں سوچ سکتی اپنے مجھے پالا ہےڈیڈ میں اپکی بیٹی ہوں ماہی احمد شاہ کے سینے سے لگتی ہوٸی بولی
تم ہماری ہی بیٹی ہو میری جان ہانیہ بیگم اندر آتی ہوٸی بولیں
موم میں کیسے رہوں گی وہاں ماہی ہانیہ بیگم کے ہاتھ پکڑتی ہوٸی بولی
جان آپ سوچو آپ وہاں اپنی پڑھاٸی کے لیے جا رہی ہو ہانیہ بیم کچھ کہتی اس سے پہلے ہی احمد شاہ کہے اُٹھے
ادھر بیٹھو میری جان ہانیہ بیگم ماہی کو صوفے پر بیٹھاتی ہوٸی بولیں
تمہیں پتا ہے دو سال کی تھی تم جب میں نے تمہیں اپنی آغوش میں لیا تھا تمہیں کبھی ڈانٹا تک نہیں ہم نے تو ہم یہ کیسے دیکھ لیں جان کی وہ تمہیں درد دے بار بار وہ ایسے اپنے ساتھ لگاتی ہوٸی بولیں
میں برداشت کر لونگی موم وہ بہت آہستہ آواز میں بولی
مگر ہم نہیں کر سکتے تم اپنا پڑھاٸی کروں گی وہاں جا کے اور جب تک اوسے تمہاری قدر نہیں ہو جاتی تم نہیں آو گی اور اب جاکے پیکنگ کرو اوکے
اوکے موم۔۔۔ شاید وہ صحیح تھی ماہی سوچتے ہوے کمرے سے باہر نکل گی
وہ سیڑیاں چڑھتے اوپر جا ہی رہی تھی کے ایسے پورچ میں گاڑی رُکنے کی آواز آٸی اُسے پتا تھا کون ہے وہ بھاگتی ہوٸی اپنے کمرے میں گھس گی اس میں ہمت نہیں تھی کے اور کوٸی تکليف برداشت کرے وہ دروازے کے ساتھ لگ کے نیچے بیٹھ گی اور آنکھیں بند کر کے ماضی میں کھو گی
**پانیوں سے بھری آنکھوں والے لوگوں کے دل مت دکھانا کبھی*** ۔۔۔
***رنج بڑھ جاۓ تو پیمانے چھلک بھی پڑتے ہیں***
******* ماضی *******
آیان خان اور احمد شاہ بچپن کے دوست اور بزنس پاٹنر تھے آیان خان کی شادی ایک یتیم لڑکی آنیسا بیگم سی ہوٸی تھی اور اتیفاک سے آیان خان اور انکے والد بھی اکلوتے تھے آیان خان کو خدا نے اپنی رحمت سے نوازہ تھا جس کا نام انہوں نے ماہین رکھا تھا لیکن ایک دن انکی ہستی بستی زندگی کو شاید کسی کی نظر لگ گی
جس دن آیان خان اپنے والدین اور بیوی کو کہیں لے جا رہے تھے تب انکا ایک ٹرک سے بہت خطرناک اکسیڈینٹ ہوگیا تھا اور چاروں ہی اُسی وقت دم توڑ گے تھے
دو سال کی ماہیں اُس وقت ہانیہ بیگم کے پاس تھی تو
ہانیہ بیگم نے ہمیشہ کی لیے ایسے اپنی آغوش میں لے لیا تھا
ماہی جب سے شاو والا آٸی تھی تب سے ہی حسان کو لگتا تھا کی ماہی نے اس سے اسکے ماں باپ چھین لیں ہیں وہ ہمیشہ اس سے نفرت کرتا آیا تھا ایک دن تنگ آکر احمد شاہ نے اُسے ہوسٹل بھیج دیا تھا
ماہی جب پانچ سال کی ہوٸی تو احمد شاہ نے یہ سوچ کے کے ماہی کو کبھی خود سے دور نہیں جانے دیں گے تب تیرا سالا حسان سے ماہی کا نکاح کر دیا تھا
******************
حسان جتنا بھی ماہی سے نفرت کرتا اتنا ہی ماہی کے دل میں حسان بسنے لگا تھا
چودہ سال کی عمر سے چھپ چھپ کے اپنی نمازوں میں مانگنے لگی تھی پاگل اوسے یہ جانتے ہوۓ بھی کے شدید نفرت کرتا ہے ایسے
کچی عمر کی محبت نے جب سر اٹھیا تو اسنے بھی خود سے یہ کے دیا تھا کی ماہیں خان کو حسان شاہ سے شدید محبت ہے
16سال کی عمر میں جب ہانیہ بیگم نے نکاح کے بارے میں جب ایسے بتایا تو ایک مسکراہٹ تھی جو ہر وقت ایسے چہرے پر رہتی تھی اور ہوتی بھی کیوں نہ آخر خدا نے ایسا شخص اسکے نصیب میں لکھا تھا جس پر مرتی تھی سب لڑکیاں تو وہ کیا اب مغرور بھی نہ ہوتی کے ایک شخص جسے اس نے چاہا ہے وہ اسکا ہے صرف اسکا
چھ فٹ سے نکلتا قد سنجيدگی جو اسکی شخصيت پر ججتی تھی مغرور کھڑی ناک گورا رنگ چہرے پے چھاٸی مسکراہٹ جو کسی کو بھی فریز کرنے کے لیے کافی تھی اور ایک گال پر پڑتا ڈیمپل روڈلی نیچر بلاشبہ وہ ایک خو برو حسین مرد تھا
مگر اُس دن سے اسکی زندگی حسان نے عذاب کردی تھی کیوں کے حسان نے ہانیہ بیگم کی بات سن لی تھی جب وہ ماہی کو انکے نکاح کا بتا رہی تھی آتے جاتے اپنی نفرت کا اظہار کرتا تھا
***********************
بےزبان نا سمجھ میری خاموشی کو ..
..شور کرتا نہیں کبھی گہرا پانی .....
روتے ہوۓ ماہی نے اپنا ہاتھ دیکھا جہاں فیکچر کی وجہ سی پلاسٹر لگا ہوا تھا تکليف سے آنکھیں بند کر کے دو دن پہلے کا منظر اسکے سامنے گھومہ حسان امریکہ میڑنگ میں جانے کے لیے جب اپنے روم سے نکلا تو سامنے سے ماہی جا رہی تھی
کتنی دفع کہا ہے میں نے تمہیں ہاں کے میرے سامنے مت آیا کرو تم ماہی جو جلدی سے حسان کے برابر سے گزر رہی تھی کے حسان نے اسکی کلاٸی پکڑتے ہوے پیچھلے کی طرف بے دردی سے کھینچا تھا اور ساتھ ہی دیوار سے زور سے لگایا تھا
آہہہہہہہہہہ پلیز مجھے ....آہہہہہہ .وہ جو پہلے ہی کلاٸی کی تکليف سے ہی نہیں نکلی تھی کے دیوار سے کمر لگتے ہی ایسا لگا کے اگلا سانس نہیں آۓ گا
نہیں نہیں بیوی جی میرے سامنے تمہاری زبان نہ کھولے ماہی کے جو سارے بال اسکے چہرے پر آگے تھے انہیں سایڈ پر کر کے بے دردی سے اسکے بال جکڑے تھے
آہہہہہہہہہہ پلیز مجھے ....آہہہہہہ .وہ جو پہلے ہی کلاٸی کی تکليف سے ہی نہیں نکلی تھی کے دیوار سے کمر لگتے ہی ایسا لگا کے اگلا سانس نہیں آۓ گا
نہیں نہیں بیوی جی میرے سامنے تمہاری زبان نہ کھولے ماہی کے جو سارے بال اسکے چہرے پر آگے تھے انہیں سایڈ پر کر کے بے دردی سے اسکے بال جکڑے تھے
پل..ی..ز پلیز میرا ہاتھ چھوووڑ دیں آہہہہہہہ موم...
ماہی کے کہتے ساتھ ہی بری طرح اُسکی کلاٸی مروڑ دی تھی
موم موم تو ہیں ہی نہیں ماۓ واٸف تم جانتی نہیں ہو میں کتنی شدید نفرت کرتا ہوں تم سے تمہیں میں نے تڑپا تڑپا کے نہیں مارا تو کہنا ہممم دفع ہو جاو یہاں سے اب
آہہہہ ہہہہہہہہ کلاٸی کو ایک جھٹکے سے چھوڑتے ہی ماہی زمین پر جا گرٸی۔۔
کیوں کرتے ہیں آپ مجھ سے اتنی نففرت ہچکیاں لیتے ہوۓ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی
ہاہاہا تم نفرت کے ہی قابل ہو میری جان اپنے اپکو مضبوط کر لو اوووو یہ کیا اتنی سی بات پر آنسو نکل گے تمہارے زمین پر پنجو کے بل بڑھتے ہی اسکا چہرہ جکڑتا ہوا بولا ایک جھٹکے سے چھوڑتا ہوا چلا گیا تھا
*جنہیں احساس ہی نہ ہو*
*اُن سے گِلے کیسے شکوے کیسے *
آہہہہہ موم ڈیڈ ہمت کرتے اسنے اپنا ہاتھ اٹھانا چاہا جو پورا نیلا ہو رہا تھا ایک دم اسکے منہ سے چیخ نکلی
تکلیف کے مارے آنسو بھر بھر آنکهوں سے گر رہے تھے مشکل سے اٹھتے دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھ گی تھی
*************************
اسکے_ہر_زخم_پے_دل_نثار_ہوتا_ہے ، ♧
#ظالم_کتنا_بھی_ہو_یار_تو_یار_ہوتا_ہے ۔
باہر کے شور سے وہ ایک دم حال میں آٸی
دروازے سے اٹھتے ہی وہ شیشے کے سامنے آٸی لال رنگ کی گھیر والی مکسی پہنے جو گورے رنگ پر کافی جچ رہی تھی گھٹنوں تک آتے لمبے براٶن بال گورا رنگ نیلی آنکهيں کھڑی ناک گالوں پر پڑتا ڈیمپل ہونٹوں کے نیچے تل دراز پلکیں
بلا شبہ وہ حسین دوشیزا تھی مگر نصیب .........
پلیززززززز موم بس کر دیں آپ حسان کی نیچے سے آتی ہوٸی آواز سے وہ چونکتی ہوٸی باہر کی طرف بھاگی تھی
اپکی بیٹی میری بیوی ہے آفٹر آل لو دیکھیں آگی آپکی بیٹی ہاۓ سوٸٹ ہاٹ حسان نے ماہی کو سیڑیوں پر کھڑا دیکھ کر تیز آواز میں بولا
تم انسان نہیں ہو حسان ماہی کا ہاتھ دیکھا ہے تم نے ہانیہ بیگم نے غصے سے کہا
ہاتھ کیا ہوا ماہی کمال کی اداکاری کرتے ہو وہ سیڑیاں چڑھنے لگا
رُکو حسان ایک قدم بھی ماہی کی طرف نہ بڑھنا احمد شاہ کی آواز پر اسنے اپنے قدم روک لیے تھے
ڈیڈ ماہی بیوی ہے میری کسی کو بھی حق نہیں ہے مجھے روکنے کا کہتے ساتھ ہی ماہی کے قریب جا رکا اس طرح کے نیچے کھڑے احمد شاہ اور ہانیہ بیگم کو ماہی نہیں دیکھ رہی تھی۔
ماہی میری جان کیسے ہوا یہ بتاوں کس نے کیا ہے ہاں یہ
فیکچر والا ہاتھ غور سے دیکھتا ہوا بولا
ماہی خوف سے آنکهيں بند کرے ہی کھڑی تھی کے حسان نے ہاتھ کو دبیا تو چیخ روکنے کے لیے ماہی نے دوسرا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا
کہو نہ حسان کی آنکهوں میں جیسے ایسے وارنگ نظر آٸی تھی
گیر گی تھی می میں دبی دبی آواز میں جلدی سے بولی
اووو جان دیکھ کےچلا کرو نہ دیکھا ڈیڈ میں نےکچھ نہیں کیا ماہی گیر گی تھی حسان ماہی کا دوسرا ہاتھ پکڑے نیچے لے آیا تھا
خیر ڈیڈ مبارک باد نہیں دینگے مجھے ہماری کمپنی اور اونچاٸی پر پہنچ چکی ہے دونوں ہاتھ اپنے باپ کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہنے لگا تھا
مبارک ہو ایک ہاتھ حسان کی طرف بڑھتے ہوۓ بولے تھے
حسان ایک دم اکیے احمد شاہ کے گلے لگ گیا تھا
کیسے جدا کرتے اپنی اولاد کو خود سے خون تھا انکا چاہتے تو ایسے بھی بہت تھے اور پیچھلے ایک سال سے جب سے حسان نے بزنس سمبھالا تھا کمپنی بلندیوں کو چھو رہی تھی
اوکے ڈیڈ میں فریش ہوکے ابھی وہ بول ہی رہا تھا کے احمد شاہ کے اٹھے
حسان مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے وہ بہت تحمل سے بولے
جی ڈیڈ میں سن رہا ہوں ......
دیکھو تم ماہی کو اس رشتے سے آزاد کردو نہ تم خوش ہو اور نہ میں مطمئن ماہی جو اوپر جا چکی تھی اوسنے جلدی سی دیوار کا سہارا لیا
یہ کیا کے رہے ہیں ڈیڈ مجھے حسان کا ہر ظلم منظور ہے مگر مگر دوری نہیں نہیں یا میرے خدا ایسا نہیں کریے گا
ڈیڈ ماہی میری بیوی ہے اور اس رشتے سے اوسے آزادی میرے مرنے کے بعد ہی ملے گی میں فریش ہونے جا رہا ہوں
ماہی نے جیسے ہی حسان کو اوپر چڑھتے دیکھا فورا اپنے کمرے میں غائب ہوگی
** بہت غصہ کرتے ہو**
*محبت ہوگئی ہے کیا*______
***********************
تلاش مجھ کو نہ کر..........دشت ویران میں
نگاہ دل سے ذرا دیکھ..........پل پل تیرے پاس ہوں
اٹھو اٹھو بھی کیا کھا کے سوٸی ہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہی کو سوۓ ہوۓ کچھ ہی دیر ہوٸی تھی کے ایسا لگ رہا تھا کے کمرے میں کوٸی ہے جو ایسے آوازیں دے رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے مندی مندی آنکهيں کھولی تو حسان آنکھوں میں غصہ لیے ایسے گھور رہا تھا ایسے لگا اسکا وہم ہےتو دوبارہ آنکھیں بند کر کے دوسری طرف کروٹ لے کے سوتی بنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین خان نننننننننن حسان کی دھاڑ پر ایک دم سے ڈر کے اٹھی تھی ۔۔۔۔۔
ج ی جی ..ڈر کے مارے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے ۔۔
کب سے چیخ رہا ہوں سنائی نہیں دیتا تمہیں حسان نے آگے بڑھ کے اسکا بازو پکڑ کے کھینچا تو وہ پوری طرح حوش میں آٸی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ یہاں اس وقت اس نے کھڑی کی طرف دیکھا جو ایک بجا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو کیا تمہاری پرمیشن لینی پڑے گی اب مجھے وہ اور سرد لہجے میں بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ں ں نہیں نیہیں افف رات کے وقت پتا نہیں کہاں سے نازل ہو گے ہیں وہ اپنے اپ میں ہی بڑ بڑاۓ جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینف ایک دم وہ دھاڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
یااللہ کہیں انہیں کل میرے جانے کا تو نہیں پتا چل گیا اگر ایسا ہو تو کھڑے کھڑے شوٹ کر دیں گے مجھے وہ اپنے ہی اپ میں پتا نہیں کیا کیا کے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھو بھی اب حسان اسکا ہاتھ کھیچتے ہوۓ بولا۔۔۔۔۔
کیوں....
کیا کہا تم نے دوبارہ بولو اسکا تو دماغ ہی خراب ہو گیا تھا کیوں سن کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا مطلب ہے جی جی اٹھ گی وہ ہڑبڑا کےجلدی سے اُتری اور ساٸیڈ میں پڑا ڈوپٹہ جلدی سے اٹھایا ۔۔۔۔۔۔۔
چلو اب نیچے وہ ایسے حکم دیتا آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیا بڑا حکم دینے والا دل کر رہا ہے ایک دوں گھوما کے چماٹ تم پر دل آنے سے اچھا تھا کی آہہہہہہہہ اف اللہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو حسان کو برا بھلا کہتی نیچے دیکھتی پیچھے پیچھے آ رہی تھی سامنے لگے پیلر سے جا ٹکراٸی اور نیچے بہٹھ گی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
حسان اسکی آواز سنتا جیسے ہی مڑا تو سامنے ہی وہ سر پکڑے بیٹھی تھی ایک دم تو حسان کو ہسی ہی آگی تھی مگر وہ آسانی سے چھپا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو آنکهيں دی ہیں خدا نے دیکھ کے نہیں چل سکتی دو منٹ میں کچن میں میلو مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مونسٹر کہتی اٹھ کے آرام سے سیڑیاں اترتی کچن میں آٸی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے دس سیکنڈ لیٹ ہو تم وہ سامنے لگی گھڑی میں دیکھتا ہوا بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی وہ سر جھکاۓ بس اتنا ہی بولی ۔۔۔۔۔۔۔
ویل جلدی سے کوفی بنا کر دو مجھے وہ کاونٹر سے ٹیک لگا کے کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔
جی وہ جلدی سے چیزیں نکال کر بنانے لگی ۔۔۔۔۔۔
حسان سامنے کھڑا اسکا جاٸزہ لینے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیلے رنگ کی سادہ سے شلوار کمیز پہنے جو اسکے گورے رنگ پر کافی جچ رہی تھی الجھے الجھے لمبے بال آنکهوں میں نیند بھرے بنا چپل پہنے اسکے گلابی پاٶں سامنے کھڑی لڑکی کسی کا ایمان ڈگمگانے کے لیے کافی تھی ۔۔۔۔۔۔
کوفی....... ماہی کی آواز پر وہ چونکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریج میں سے گریپس دو واش کر کے وہ مگ پکڑتے ہوۓ بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سر ہلا کے فریج میں سے گریپس نکالنے لگی پھر واش کر کے دیے ایسے اور جانے کے لیے مڑی ہی تھی کے پیچھے سے اسکے بال جکڑے جا چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بال چھوڑ دیں پلیز وہ مڑتی ہوٸی بولی تھی مگر وہ صاحب نیچے سے بال پکڑے اپنے ہاتھ میں لپیٹ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے وہ بال لپيٹ رہا تھا ویسے ویسے وہ ایک ایک قدم واپس پیچھےلے رہی تھی اور آخری میں جھٹکا دے کے اپنے ساتھ لگا گیا تھا ۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے جانے کے لیے کہا تھا کیا وہ اسکے بال پیچھے کھنچتا ہوا بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آوچچچچ نہیں وہ جلدی سے اسکے ہاتھ کے قریب ہو گی تھی سر میں درد کی لہر اٹھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکلیف کے مارے اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔
آیندہ تمہارے بال مجھے کھلے نہ دیکھیں اور ایک اور بات
مجھ سے دور جانے کا کبھی اگر سوچا بھی تو جان لے لو گا یاد رکھنا اور اگر تم مجھ سے دور چلی بھی گی تو یاد رکھنا دنیا کے آخری کونےسے بھی تمہیں ڈھونڈ نکالو گا یہ وعدہ ہے حسان شاہ کا تم سے وہ ایسے جھٹکے سے چھوڑتا ہو چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہی زمین پر بیٹھی بُری طرح رو رہی تھی دو تین منٹ بعد جب اسکا سر تھوڑا سہی ہوا تو بھاگتی
ہوٸی کچن سے نکلی اور اپنے کمرے میں بند ہو گی۔۔۔۔۔۔
تمہیں تکلیف میں دیکھ کے مجھے سکون آتا ہے آٸی ہیٹ یو ماہین خان حسان جو پیلر کے پیچھے کھڑا تھا ہستا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***********************************
نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہُوا اپنوں میں کوئی غیر تو نکلا
اگر ہوتے سب ہی اپنے تو بیگانے کہاں جاتے...!!
کمرے میں اتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگ گی تھی۔
میں اب تم سے نہیں ڈرونگی حسان شاہ میں اب تمھیں یہاں سے جاکے دیکھآ ونگی کاش مجھے تم سے محبت نہ ہوتی میں ہمیشہ تم سے۔ ڈر جاتی ہوں مگر اب اور نہیں تمہاری محبت مجھے کمزور۔ نہیں کر سکتی پہلی دفع مجھے تم سے محبت پر آفسوس ہو رہا ہے تم مجھے deserve ہی نہیں کرتے وہ اپنے آپ میں مسلسل بڑبڑاے ہی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیا کہاں ہیں آپ دیکھیں آپ کی ماہ کو کیسے تکلیف دے رہا ہے اپکا دوست
خود سے باتیں کرتے کرتے کب سو گئی وہ اوسے پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔۔۔۔
تھک گیا ہوں جینے کی اداکاری کر کر کے
ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ..
***************""********************