بہت دیر گزر گئی تھی ۔۔۔
باہر سے آتی امان کے رونے کی آواز تو بہت پہلے ہی بند ہو گئی تھی ۔۔۔۔
مگر اب زمان خان کی آوازیں آنا بھی بند ہو چکی تھیں ۔۔۔
اور یہ بات جاناں کو اور رلا رہی تھی ۔۔
"گندا انسان ! اندر مر رہی ہوں تو مرتی رہوں ۔۔۔۔
اس کی بلا سے ۔۔۔
بڑے آئے تھے محبت کرنے والے ۔۔۔!"
کروٹ بدل کر اس نے دوپٹے سے آنسو اور ناک دونوں رگڑ ڈالے تھے جب کھٹر پٹر کی آواز پر وہ چونک کر اٹھی تھی اور پھر واش روم کا دروازہ کھلتا دیکھ کر اس کی آنکھیں بھی پھٹتی چلی جا رہی تھیں ۔۔۔
اور جونہی باتھروم سے زمان خان برامد ہوا جاناں دہشت سے چیختے چیختے رہ گئی ۔۔۔۔
بروقت زمان خان نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔۔
ورنہ جاناں نے اپنی چیخ سے کمرے میں موجود تمام شیشے توڑ ڈالنے تھے ۔۔۔۔
ایک تو ویسے ہی وہ بڑی مشکل سے باتھروم کے روشن دان سے یہاں آیا تھا ۔۔
اس پر فوراً ہی جاناں کا بھونپو !
"پگلا گئی ہو کیا پوری طرح ؟"
انداز ڈپٹنے والا تھا ۔۔۔۔
"پگلائیں میرے دشمن !
آپ دور ہوں مجھ سے ورنہ میں آپ کا سر توڑ دوں گی ۔۔۔!!"
اپنے منہ سے زمان خان کا ہاتھ ہٹا کر وہ چیخی تھی ۔۔۔۔
"توڑ دو !!
دن میں دس بار دل توڑتی ہو ۔۔۔۔
سر بھی توڑ ڈالو ۔۔۔
جب دل کا ٹوٹنا برداشت کر سکتا ہوں ۔۔
تو سر کا بھی کر سکتا ہوں ۔۔!!"
زمان خان کے لہجے سے جھلکتا اطمینان اسے سر تاپا جلا گیا ۔۔۔
"آپ کو پتہ ہے آپ سب سے برے کب لگتے ہیں مجھے ؟؟؟"
جاناں کا عجیب ہی حال تھا ۔۔۔
آنکھوں سے آگ بھی نکل رہی تھی اور آنسو بھی ۔۔۔۔
"میرا تو خیال ہے میں تمہیں ہر وقت ہی برا لگتا ہوں ۔۔۔۔
میں تمہیں اچھا کب لگتا ہوں ۔۔
تم مجھے یہ بتا کر حیران کر دو ۔۔۔!!"
مزے سے کہتا وہ ٹی وی آن کر چکا تھا جبکہ جاناں نے ریموٹ جھپٹ کر اس سے چھین کر ٹی وی پھر سے بند کر دیا ۔۔۔۔۔
"آپ ۔۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ !!!"
غم و غصے کی زیادتی سے جاناں سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا ۔۔۔
"میں ؟ میں ؟ میں ؟"
"آپ سب سے برے تب لگتے ہیں جب آپ برائی کا ساتھ دیتے ہیں ۔۔۔
غلط کرتے ہیں !
اور یہ سب کرتے وقت آپ یہ وردی پہنے ہوتے ہیں ۔۔۔۔
بدنام کر کے رکھ دی ہے آپ جیسوں نے یہ وردی !!!!"
"پہلی بار پتہ چلا ہے تمہیں میرے بارے میں ؟
انجان تھیں تم اس سے پہلے ؟؟"
اب کے زمان خان کا بھی دماغ خراب ہوا تھا ۔۔۔۔۔
"مجھے پتہ تھا !!! مجھے پتہ تھا آپ برے ہیں ۔۔۔ لیکن اتنے برے ؟؟؟
اتنے !"
منہ پر ہاتھ رکھ کر وہ اپنی آہوں کا گلا گھونٹنے لگی ۔۔۔
اور زمان خان کے چہرے کے تاثرات بلکل ہی تن گئے ۔۔۔۔
"آپ ۔۔۔ آپ معصوم بچوں کے ساتھ ذیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں ؟
آپ کو ایک پل کو بھی ان بچوں پر رحم نہیں آتا ؟
آپ کے لیئے پیسہ اتنا ضروری ہے ؟؟؟
آپ ۔۔۔۔ آپ مر کیوں نہیں جاتے ؟
آپ جیسے سب لوگ مر کیوں نہیں جاتے ؟
کبھی جو دھماکہ ہوجائے ۔۔۔ آپ جیسے کیوں نہیں مرتے اس میں؟؟؟
آسمانی آفتیں آپ جیسوں پر کیوں نہیں نازل ہوتیں اب ؟؟؟؟؟
کونسا گناہ ہے جو آپ نے نہیں کیا ؟
آپ جیسوں کی رسی اتنی دراز کیوں ہو جاتی ہے ؟
آپ جیسوں کو بھی تکلیف ملنی چاہیے ۔۔۔۔
جسمانی بھی ۔۔۔
ذہنی بھی ۔۔۔
دلی بھی ۔۔۔
آپ مجھے پولیس کے حوالے کریں یا کچھ بھی کریں ۔۔۔
میں چلی جائوں گی یہاں سے ۔۔۔۔۔۔
آپ کے ساتھ نہیں رہنا اب مجھے ۔۔
آپ بہت ہی برے ہیں ۔۔۔ بہت ہی۔۔۔۔۔ زیا ۔۔۔۔۔"
آنکھوں کے سامنے اچانک اندھیرا چھایا تھا ۔۔۔۔
وہ جو چیختے چیختے کمرے کی چیزیں اٹھا اٹھا کر ادھر ادھر پھینک رہی تھی ہاتھ میں پکڑے شو پیس سمیت دھڑام سے زمین پر گرنے لگی تھی جب ساکت نظروں سے اسے تکتا زمان خان تیزی سے اس تک آیا تھا ۔۔۔۔
اگر وہ صحیح وقت پر نا پہنچتا تو جاناں زمین پر گر کر اچھی خاصی چوٹ کھا لیتی .۔۔۔۔
فرش پر بیٹھا وہ جاناں کا سر سینے سے لگائے بے آواز رو رہا تھا ۔۔۔
اور اسے پتہ بھی نہیں چل رہا تھا ۔۔۔
ٹھٹھکا تب جب گال پر نمی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ۔۔۔
حیرت سے گال کو چھو کر اپنی انگلیوں کے بھیگے پوروں کا تکتا وہ کچھ لمحوں بعد ہچکیاں لے کر رونا شروع کر چکا تھا ۔۔۔۔
جن سے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہوں ان کی تھوڑی سی ناگواری بھی دل دکھا دیتی ہے ۔۔۔
جبکہ زمان خان نے تو اس وقت جاناں کی آنکھوں میں اپنے لیئے نفرت کی انتہا دیکھی تھی ۔۔۔۔۔
وہ صرف کہ نہیں رہی تھی ۔۔۔
اس کے لہجے سے ۔۔
اس کی باتوں سے ۔۔
اس کی آنکھوں سے واضح تھا کہ وہ چاہ رہی تھی زمان خان مر جائے ۔۔۔۔!!
کچھ ہی دن پہلے تو اس نے دوسروں کا درد محسوس کرنا شروع کیا تھا ۔۔۔
اب ایک نیا درد !
اپنی محبت کی نفرت !!
*****************************
"آپ مجھے کیوں لائے واپس ۔۔۔۔
ارے کچھ تو غیرت کیجیئے ۔۔۔
آپ کے بچے کا مجرم ہے وہ شخص !
ہمارے بچے کے مجرموں کا ساتھ ملا ہوا تھا وہ ۔۔
کیسی اذیت جھیلی ہوگی میرے بچے نے ۔۔۔۔۔
کتنی تکلیف میں ہوگا وہ ؟
کیسے جان نکلی ہوگی اس کی ؟؟؟
کچھ غیرت کیجیئے ۔۔۔۔
مجھے بدلہ چاہیے میرے بچے کا بدلہ چاہیے ۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔۔ "
"چپ کر جا میری ماں ! چپ کر جا!"
ہاتھ جوڑ کر دہاڑتا نواب اپنی بیوی کو چپ کروا چکا تھا ۔۔۔۔
"اب بھی مجھے ہی چپ کروا رہے ہو ؟
میں ہی غلط ہوں ؟"
اس کی بیوی کی آواز بہت کمزور ہو گئی تھی ۔۔۔۔!
"تو غلط نہیں ہے !!!"
اگر مجھے پتہ چلتا کہ صاحب کا اس میں ہاتھ ہے یا وہ مجرموں کا جانتا ہے اور چھپا رہا ہے ۔۔۔۔ تو میں اسے پل بھر میں شوٹ کر دیتا ۔۔۔!
اتنی گولیاں مارتا اتنی گولیا مارتا ۔۔۔۔
اس کے جسم کے چیتھڑے اڑ جاتے ۔۔۔۔
مگر میں اصل مجرم سے ملا ہوں نہ !!
بتایا تھا نہ میں نے تجھے ؟
اعتراف کیا ہے خود اس نے ہر بات کا !"
"ارے تم پولیس والے تو حیوان ہوتے ہو ۔۔۔
کروا لیا ہوگا تمہارے اس سر نے اعتراف مار پیٹ کر ۔۔۔۔۔"
اس کی بیوی پھر چلا اٹھی تھی ۔۔۔
"ہاں ! اور اس کے لیئے سر کو کس نے مجبور کیا ؟
کس کے خوف میں آ کر سر نے کسی کو مجرم میرے سامنے پیش کیا ۔۔۔۔؟
دبا دیتے سر چپ چاپ یہ کیس لفافے لے کر ۔۔ کون کیا بگاڑ لیتا ان کا ؟"
مجھے میرے ہی بچے کی موت کے لفافے سے کچھ پیسے مل جاتے ۔۔
میں لے آتا ۔۔
اور تو بغیر یہ پوچھے کہ یہ حرام ہے یا حلال ۔۔ خرچ کر ڈالتی ۔۔۔۔
مجھے میرے کیئے کی سزا ملی ہے شبانہ !
مکافات عمل کا شکار ہوا ہوں میں ۔۔
میری اپنی مجرمانہ خاموشیوں کی سزا ہیں یہ آہیں اور چیخیں ۔۔۔۔!"
طویل دورانیہ خاموشی کی نظر ہوا ۔۔۔
کسی کسی وقت کوئی سسکی اٹھ جاتی ۔۔۔۔
"آخر غریب ہی کیوں مکافات عمل کا شکار ہوتے ہیں نواب ؟"
"تونے گھر گھر جا کر دیکھے ہیں امیروں کے حالات ؟
کون جانے کون کتنے روگ لگائے بیٹھا ہے ؟"
"آپ نے اس شیطان کو کیوں نہ مارا نواب ؟"
"میں اسے ایک بار مارتا تو مجھے وہ سکون نہ ملتا جو مجھے اسے روز موت کی بھیک مانگتے دیکھ کر ملتا ہے ۔۔۔۔"
عجیب چمک سی آئی تھی نواب کے چہرے پر ۔۔
جس نے شبانہ کو ساکت کر دیا تھا ۔۔۔
"کیا اسے بہت اذیت میں رکھا گیا ہے ؟"
شبانہ کے لہجے میں اطمینان جھلکنے لگا ۔۔۔۔
"اذیت بہت چھوٹا لفظ ہے ۔۔۔۔
تو اس کا جرم جانتے ہوئے بھی اسے دیکھے گی ۔۔۔ تب بھی تیرا دل کانپ جائے گا ۔۔۔۔۔!
اچھا مجھے یہ بتا تجھے کس نے بتایا تھا ؟
کیا بتایا تھا جو تو لڑنے پہنچ گئی سر کے گھر ؟"
"مجھے ۔۔۔۔۔!"
شوہر کے سوال پر وہ چپ سی ہو کر نظریں چرانے لگی ۔۔۔۔
"مجھے بتائو شہاب کی ماں ۔۔۔ کیا چھپا رہی ہو مجھ سے ؟"
نواب اس کے انداز پر ٹھٹھکا تھا ۔۔
"ظفر بھائی آئے تھے ۔۔۔۔ انہوں نے بتایا تھا !!"
"ک۔۔ کیا بتایا تھا ؟"
ٹھٹھک کر پوچھتے نواب کو اپنے آس پاس خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دینے لگیں ۔۔۔۔۔
"یہی کہ خان صاحب ہمارے مجرموں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔۔۔
بھاری قیمت وصول کر وہ ہمارے مجرموں کی حفاظت بھی کریں گے ۔۔ ان کی۔۔۔۔۔ "
چپ ہو کر شبانہ نے حیرت سے نواب کو باہر جاتے دیکھا تھا ۔۔۔۔
اس کا انداز ایسا تھا کہ وہ گھبرا گئی تھی ۔۔۔
"ائے جا کہاں رہے ہیں آپ ؟ کچھ بتا تو جائیں ۔۔۔"
*****************************
جھریوں بھرا چہرہ جہاں ہر وقت شیطانیت رقص کرتی تھی ۔۔۔
اس وقت حیرت غم و غصے کی زیادتی سے کانپ رہا تھا ۔۔۔۔
اپنے ہاتھ میں موجود سگار اس نے دور اچھالی تھی ۔۔۔
پیشانی آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔۔
"ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والا ۔۔۔۔
ہمارے بل پر بڑے بڑے محل تعمیر کرنے والا اب ہم سے غداری کرے گا ۔۔۔۔
مرے گا وہ الو کا پٹھا لازمی مرے گا ۔۔!!!!"
حلق کے بل چیخ کر اس شخص نے سامنے پڑی ٹیبل پر زور دار لات رسید کی تھی ۔۔۔۔۔
ٹیبل کے دوسری طرف صوفے پر بیٹھا ظفر اچھلتے اچھلتے رہ گیا تھا ۔۔۔۔
"اس کی اتنی مجال !
ہمارے بندے کو جیل میں بند کر کے تشدد کا نشانہ بناتا ہے ۔۔۔۔۔"
"تشدد نہیں صاحب !
نہ زندوں میں چھوڑا نہ مردوں میں اس نے سر واقف کو !!"
ظفر نے بیچ میں جتانا ضروری سمجھا ۔۔۔
"تو چپ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
بہت بڑی گالی سن کر بھی اپنے مطلب کے لیئے ظفر سر جھکانے کے سوا کچھ نہ کر سکا ۔۔۔
"بڑا فرشتہ صفت بنتا ہے ۔۔۔ ابھی سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دوں گا اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا دنیا کے سامنے "
"مجھے تو یقین ہی نہیں آتا ۔۔۔
اچھا بھلا چلتے چلتے کیا ہو گیا اس زمان خان کو ؟"
قریب ہی سگرٹ پھونکتا ایک نوجوان بھی بول اٹھا تھا جبکہ وہ بوڑھا شخص دہاڑا تھا ۔۔۔
"نام مت لو میرے سامنے اس غدار کا ۔۔۔!!"
"اور صاحب ! ایک اور بات !!"
ظفر ڈرتے ڈرتے بولا تھا ۔۔۔
"اب مزید بھی کچھ رہتا ہے ؟ بھونک !"
"وہ ۔۔۔۔ منصور اور فیروز صاحب کو قتل کرنے والا کوئی مرد نہیں عورت تھی ۔۔۔!
اور وہ عورت زمان خان کی بیوی ہے ۔۔!!!"
اس انکشاف پر تو وہ نوجوان اور ادھیڑ عمر شخص حق دق رہ گئے تھے ۔۔۔
"کیا بول رہا ہے تُو ؟"
"صاحب جس کی چاہے قسم لے لو ۔۔۔
میں نے بتایا تھا آپ کو کہ میں اس قاتل لڑکے سے پہلے بھی ایک دو بار ملا تھا ۔۔۔
مجھے اس افسر نے کچھ دن پہلے کسی کام سے اپنے گھر بھیجا تھا ۔۔۔۔
وہاں میں نے اپنی آنکھوں سے اس کی بیوی کو دیکھا تھا ۔۔۔
وہ وہی تھی صاحب ۔۔۔
ہوبہو وہی تھی ۔۔
میں نے اپنی آنکھوں سے اسے منصور اور فیروز صاحب کو مارتے دیکھا تھا ۔۔
دل تو کیا وہیں مار دوں ۔۔
پھر سوچا آپ لوگ پاکستان واپس آئو گے تو سب آپ کو تب ہی بتائوں گا پھر جو آپ لوگ بولو ۔۔۔"
"تجھے غلط فہمی بھی تو ہو سکتی ہے ۔۔۔ ایک عورت بھلا کیسے مرد بن۔ کر مار سکتی ہے ۔۔۔۔؟"
نوجوان کچھ غیر یقینی کا شکار لگتا تھا ۔۔۔
"نہیں صاحب ! کوئی غلط فہمی نہیں ۔۔۔ پورا یقین ہے مجھے تبھی بول رہا ہوں ۔۔۔
وہ مجھے دیکھ کر گھبرائی بھی تھی ۔۔۔!!"
"تو اب اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ساتھ اس کی بیوی سے بھی ملنا پڑے گا ۔۔۔!!"
وہ لڑکا اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی پر جوش لگنے لگا تھا ۔۔۔۔
*****************************
بستر پر دراز وہ اندھیرے میں ہاتھ میں جلتی سگرٹ کی نارنجی چنگھاری کو تک رہا تھا جب چنگھاڑتے فون کی آواز پر شدید نا گواری کا شکار ہوتا تیزی سے فون کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔
جانے سے پہلے اس نے نیم اندھیرے میں جاناں اور اس کے پہلو میں سوتے امان کو دیکھا تھا ۔۔۔
شکر تھا دونوں میں سے کسی کی آنکھ نہیں کھلی تھی ۔۔۔
"ہیلو ۔۔۔!"
آواز اگر چہ دھیمی تھی لیکن دانت پیس کر جس طرح اس نے کہا تھا ۔۔
اس کی کوفت اس سے واضح تھی ۔۔
"سلام سر ! مجھے لگتا ہے کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے ۔۔"
"کیا بکواس کر رہے ہو ؟
مصیبت آئے میرے دشمنوں پر !"
غیر ارادی طور پر وہ جاناں کے انداز میں بولا تھا ۔۔۔۔
"صاحب ! آپ کے دوستوں میں کچھ آپ کے دشمن بھی ہیں ۔۔"
"میرا کوئی دوست ہی نہیں ہے ۔۔۔
وقت وقت ، مطلب مطلب کی بات ہوتی ہے ساری ۔۔
اب جو بولنا ہے کلیئرلی بولو ۔۔۔"
اتنا اندازہ تو زمان خان کو ہو گیا تھا کہ کسی معمولی بات کے لیئے تو نواب نے اسے رات کے دو بجے کال نہیں کی ہوگی ۔۔۔۔
"سر ۔۔۔ شبانہ کو ظفر نے ہی آپ کے خلاف بھڑکایا تھا ۔۔۔۔ آپ کے انداز کی تبدیلی سب ہی نوٹ کر رہے ہیں ۔۔۔!
اور مجھے لگتا ہے آپ کی یہ تبدیلی آپ کے لیئے بڑی مصیبتیں کھڑی کرنے والی ہے ۔۔۔۔!!!"
الجھن کا شکار ہوتا زمان خان نواب کے لہجے میں اپنے لیئے فکرمندی محسوس کرتا مسکرا دیا ۔۔۔
اس سے پہلے آخری بار کب اس نے کوئی کام اچھی نیت سے کیا تھا اسے یاد نہیں آیا تھا ۔۔۔
ناجانے کتنے لوگوں کی بد دعائیں تھیں اس کے پیچھے ۔۔۔!
قدرت اسے کتنی بھیانک سزا دے گی ۔۔۔؟
"نواب !!"
زمان خان کی بھیگتی آواز پر دنگ ہوتا نواب فوراً بولا تھا ۔۔۔
"جی سر ؟"
"میرے لیئے دعا کرنا ۔۔۔
میں مر جائوں تو خیر ہے ۔۔۔
لیکن اب میں پھر ویسا نہ ہوجائوں ۔۔
میرے لیئے دعا کرنا ۔۔۔!
بہت سی بد دعائیں ہیں میرے پیچھے ۔۔۔۔!
جن سے مجھے خوف آنے لگا ہے ۔۔۔
بہت تکلیف دہ انجام دیکھ رہا ہوں میں اپنا ۔۔۔۔!!"
زمان خان کے منہ سے یہ باتیں نواب کو بہت اجنبی لگ رہی تھیں ۔۔۔
کئی لمحے گزر گئے وہ کچھ بول ہی نہ پایا ۔۔۔
پھر گلا کھنکھار کر بولا تھا ۔۔۔
"اللہ نے آپ پر ایمان کے در کھول دیے ہیں سر ۔۔۔
میری دعا ہے آپ کا ایمان ہمیشہ کامل رہے ۔۔۔۔!
اور اللہ لمبی عمر عطا کرے ۔۔۔
اب تو سب کو آپ کی اصل ضرورت ہے سر۔۔۔!"
"کچھ دیر تک زمان خان دعائوں کے یہ دل سے نکلے الفاظ ۔۔ دل سے محسوس کرتا رہا ۔۔ پھر ہاتھ سے چہرا صاف کرتے ہوئے پرسکون سا گویا ہوا ۔۔۔
"بہت شکریہ !!"
****************************
فون رکھ کر وہ غائب دماغ سا وہیں کھڑا کسی غیر مرئی نقطے کو تکتا رہا تھا جب جاناں کی پکار پر چونک کر پلٹا تھا ۔۔۔
دروازے سے پشت ٹکائے کھڑی جاناں تیزی سے آگے بڑھی تھی اورزمان خان کے ایک ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر مدھم آواز میں گویا ہوئی تھی ۔۔
"سوری ۔۔۔
آپ کو کچھ تو اپنی صفائی ۔۔۔۔۔ صفائی میں ۔۔۔ میں کہنا چاہیے تھا ۔۔۔!"
حلق میں اٹکا آنسئوں کا گولا اسے کچھ بولنے نہیں دے رہا تھا ۔۔۔
"کیونکہ میں جانتا تھا ۔۔۔
نواب کا نا سہی ۔۔۔ بہت سوں کا گنہگار ہوں میں ۔۔!"
خاموش نظروں سے اسے دیکھتے رہنے کے بعد جاناں اس کے سینے سے لگ گئی تھی ۔۔۔
"آپ اللہ سے سچے دل سے توبہ کریں ۔۔۔
اللہ ستر مائوں سے زیادہ چاہنے والا ہے ۔۔۔
وہ معاف کرنے والا ہے ۔۔۔!!"
"اور اللہ کے جن بندوں کا میں گنہگار ہوں ؟"
"یہ شیطان ہوتا ہے جو دل میں وسوسے ڈالتا ہے ۔۔۔!!
تمام اگر ، مگر ، یہ ، وہ ذہن سے جھٹک کر آپ صرف اللہ سے بات کیجیئے ۔۔۔
اللہ سے امید رکھیئے ۔۔۔۔!"
سر آہستگی سے اثبات میں ہلا کر زمان خان نے اپنی تھوڑی جاناں کے سر پر رکھی تھی ۔۔۔
کچھ دیر پہلے کی اس کی کیفیت بہتر ہونے لگی تھی ۔۔
ورنہ تو اسے لگ رہا تھا وہ یہیں کھڑے کھڑے مر جائے گا ۔۔۔۔
اور بہت اذیت اٹھائے گا مرتے وقت ۔۔۔
اب دل امید باندھنے لگا تھا ۔۔۔۔
ابھی تو بہت جینا ہے ۔۔۔۔
جاناں کے ساتھ اللہ کا گھر دیکھنا ہے ۔۔
ابھی تو اسے امان کی شادی بھی کرنی تھی ۔۔۔
اپنے پوتے پوتیوں سے بھی کھیلنا تھا ۔۔۔۔
اور سب سے پہلے اسے اللہ سے معافی مانگنی تھی ۔۔۔
اللہ کو راضی کرنا تھا ۔۔۔!!
****************************
دو گھنٹے گزر چکے تھے اسے جانماز پر سر جھکائے آنسو بہاتے ہوئے ۔۔۔
دل میں جتنے بھی لفظ تھے سب آنسئوں کے سہارے نکل رہے تھے ۔۔۔۔
زبان پر تو قفل پڑ چکے تھے ۔۔
وہ جب بھی کچھ کہنے کو منہ کھولتا ایک سسکی ۔۔ ایک آہ نکل جاتی ۔۔ اور بس ۔۔۔!
ایک لفظ نہ کہنے کے باوجود اسے لگ رہا تھا اللہ اسے سن رہا ہے ۔۔۔۔!
اس سے بات کر رہا ہے ۔۔۔!
دل میں اطمینان سا بھرتا جا رہا تھا ۔۔۔
"اللہ مجھے سن رہا ہے ۔۔۔ میرا رب مجھے معاف کر دے گا ۔ ۔ ۔"
اس کے لبوں سے یقین سے گندھے یہ لفظ نکلے تھے ۔۔۔
بند آنکھوں کے ساتھ پرسکون سا مسکراتے ہوئے وہ سجدے میں گرا تھا ۔۔۔۔
****************************
آج کی صبح کتنی پیاری تھی ۔۔۔
نیند سے بیدار ہو کر اس نے زمان خان کو سجدے کی حالت میں پایا تھا ۔۔
سچ تو یہ تھا کہ کہنے کی حد تک بات الگ تھی ۔۔۔
کہنا بہت آسان تھا ۔۔
جو اس نے کہ دیا ۔۔۔
مگر کر دکھانا بہت ہمت کا کام تھا ۔۔۔
جو ہمت زمان خان نے کی تھی ۔۔۔۔
زمان خان اس سے اور امان سے بے حد محبت کرتا تھا ۔۔ وہ جانتی تھی ۔۔
وہ ان دونوں کے لیئے ایک بلکل الگ زمان خان ہوتا تھا ۔۔۔
محبتیں لٹانے والا ۔۔۔
جس کے ہر انداز میں شوخی جھلکتی تھی ۔۔۔
کبھی کبھی بہت شفقت کا مظاہرہ کرنے والا زمان خان آج ایسے روپ میں ملا تھا جو سب سے پیارا تھا ۔۔۔۔
نرم خو ۔۔ بردبار ۔۔۔
مہربان ۔۔۔۔
اور یہ روپ صرف ان دونوں کے لیئے نہیں تھا ۔۔۔
یہ زمان خان کا اصل تھا ۔۔۔
اب یہی زمان خان تھا ۔۔۔۔
بے پناہ خوشی کے احساس میں گھر کر بھی جاناں نا جانے کیوں بے اطمینان تھی ۔۔۔
شائد کہ نواب کے فون کے تناظر میں زمان خان جو ڈھیروں ہدایتیں دے گیا تھا ۔۔۔۔
اس وجہ سے ۔۔۔
گہری سانس بھر کر اس نے فریج سے ٹھنڈا یخ پانی نکالا تھا ۔۔۔۔
غٹاغٹ ایک کے اوپر دوسرا گلاس چڑھاتے ہوئے وہ یکدم چونکی تھی ۔۔۔
اپنی ہی سوچوں میں گم وہ امان کو بلکل ہی فراموش کر گئی تھی ۔۔۔۔
کتنی دیر ہوگئی تھی اس نے امان کو نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔
نہ اس کی کوئی آواز ۔۔۔۔!
"اماں حمیراں ۔۔۔!!"
امان کو اس کے بعد اماں حمیراں ہی سنبھالتی تھیں ۔۔۔
اس لیئے جاناں نے انہیں ہی پکارا تھا ۔۔۔
لیکن کچھ دیر بعد اس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا تھا ۔۔۔
وہ باولوں کی طرح سارا گھر دیکھ آئی تھی ۔۔۔
پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا ۔۔
کوئی ملازم موجود نہیں تھا ۔۔۔۔
"میں زمان کو فون کرتی ہوں ۔۔!"
بآواز بلند بڑبڑا کر وہ کمرے میں بھاگی تھی ۔۔۔۔
"فون کہاں چلا گیا ۔۔۔"
اپنا موبائل نہ ملنے پر وہ جھنجلائی تھی جب دھاڑ سے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا ۔۔۔۔
دل پر ہاتھ رکھ کر وہ چیخ مار کر پلٹی تھی ۔۔۔۔
***