"زمان خان کی "مام" کہیں سے مام نہیں لگیں ۔۔۔
میں بھی مام کی مام لگ رہی تھی ۔۔"
منہ بسور کر سوچتے ہوئے جاناں قیمتی سامان سے سجے زمان خان کے کمرے کا جائزہ بھی لے رہی تھی ۔۔۔
جب زمان خان اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔۔!
مگر اندر داخل ہو کر وہ دروازے پر ہی فریز ہو گیا تھا ۔۔۔
اگر چہ نوک پلک نہیں سنواری گئی تھی لیکن ہلکا پھلکا مگر سلیقے سے کیا گیا میک اپ ۔۔۔
نازک مگر خوبصورت جیولری ۔۔۔
تراش خراش سے مزین سفید گھیر دار فراک جس کے ساتھ سرخ اناری دوپٹہ تھا جو بڑے انداز سے سر پر اوڑھ رکھا تھا ۔۔
جاناں کے روپ کو بہت خوبصورت بدلائو دے رہا تھا ۔۔۔
وہ آسمان سے اتری کوئی حور تو نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔
لیکن زمان خان کو سب سے پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔
کیونکہ وہ اسے پیاری ہی لگتی تھی ۔۔۔!!
"آج تو سچ مچ قاتلہ لگ رہی ہو !"
"خیال رہے آپ ہی کو قتل نہ کر دوں !"
"میں قتل ہونا چاہتا ہوں !!"
"ؓمیں بھی قتل کرنا چاہتی ہوں !"
"سلی گرل !!
ویسے ۔۔۔۔۔۔۔
"سونیا کہ رہی تھی ۔۔۔
وہ تو جیسے تیار بیٹھی تھی شادی کے لیئے !
واقعی ؟؟"
"تیار بیٹھی تھی لیکن شادی کے لیئے نہیں ایک مستقل پناہ گاہ کے لیئے ۔۔۔۔!"
پل میں جاناں نے زمان خان کا دل توڑا تھا ۔۔۔
اور اس ٹوٹے دل کے ساتھ مسکراتے ہوئے زمان خان نے آہستگی سے سر ہلایا تھا ۔۔۔۔
"تو تمہیں پناہ چاہیے تھی بس ؟؟؟؟"
"اور آپ دے بھی کیا سکتے ہیں ؟"
"محبت وحبت کچھ نہیں !!"
"نہیں ۔۔۔۔ مجھے کسی کی محبت کی ضرورت نہیں !
میں خود کافی ہوں خود سے محبت کے لیئے ۔۔۔"
"کتنی بری ہو تم ۔۔۔
پھر بھی جاناں تو ہو ۔۔!!!"
دھیرے سے ہنستے ہوئے زمان خان نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی تھی پھر ہاتھ جاناں کے آگے پھیلا دیا ۔۔۔
قدرے جھجک کر جاناں نے مہندی کے نام پر گول ٹکی سے سجا ہاتھ زمان خان کے ہاتھ میں دیا تھا تھا ۔۔۔۔
"میں وعدہ کرتا ہوں جاناں !
ساری زندگی تمہاری حفاظت کروں گا !
تم نہیں بھی چاہو گی میں تب بھی تم سے محبت کروں گا ۔۔۔
میں تمہارے لیئے بدل تو نہیں جائوں گا ۔۔۔
لیکن تمہارے ساتھ ہمیشہ سب سے مختلف ۔۔ سب سے اچھا رہوں گا میں ۔۔
اب ایک وعدہ تمہیں بھی مجھ سے کرنا پڑے گا !"
زمان خان نے ہاتھ گھمایا تھا ۔۔۔
اب جاناں کا ہاتھ نیچے اور زمان خان کا اوپر تھا۔ ۔۔
"کیا ؟؟"
جاناں جو متحیر سی زمان خان کے بدلے بدلے انداز پر اسے دیکھے چلی جا رہی تھی بیساختہ پوچھ بیٹھی ۔۔۔
"ایک دن تم بھی مجھ سے محبت کرنے لگو گی ؟"
بہت آس تھی زمان خان کے لہجے میں ۔۔۔
"یہ میرے بس میں نہیں ہے ۔۔۔
ہونی ہوگی ۔۔ ہو جائے گی ۔۔۔!!
ہاں مگر میں آپ کے ساتھ ہمیشہ مخلص رہوں گی ۔۔۔"
"تم دھوکا کر کے تو دیکھو !!!"
جاناں نے تو جواب میں کسی ڈرامے میں سنا ہیروئن کا ڈائلاگ بولا تھا ۔۔۔
اور جواباً اس کا ہیرو اس پر سو جان سے واری چلا جاتا ہے لیکن یہ زمان خان !!!
دھمکاتے لہجے میں کہ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
ہونق سی جاناں ٹکر ٹکر اس کا منہ دیکھ رہی تھی جب وہ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے پوچھ بیٹھا ۔۔۔
"کچھ کھائو گی ؟؟"
"جی !!"
"خدا کا کچھ خوف ہے یا نہیں ؟؟
فریج میں جو کچھ تھا تم سب چٹ کر چکی ہو ۔۔۔۔!"
زمان خان چیخ ہی تو پڑا تھا ۔۔۔
"میرے کھانے پر سب کو اتنے مسئلے کیوں ہیں ؟"
تپ کر کہتی جاناں اٹھنے لگی تھی ب زمان خان نے بازو سے پکڑ کر اسے واہس بٹھا دیا ۔۔
"اور کس کو مسئلے ہو گئے ؟"
وہ سونیا کا حوالہ دینا چاہتی تھی ۔۔۔
لیکن نہیں !!
"اس نے بڑی منت کی تھی کے ہمارے درمیان ہونے والی بات زمان خان کو نہ بتائوں ۔۔۔"
"اب پھر یہ ایکسپریشنز !!"
سوچوں میں گھری جاناں زمان خان کے جھلا کر کہنے پر سٹپٹا گئی ۔۔۔
پھر تلملائی ۔۔
"آپ سے میرا کھانا اور "اسپشنز" پہلے دن ہی برداشت نہیں ہو رہے ۔۔
بڑے آئے میری حفاظتیں کرنے والے ۔۔۔"
"ہاہاہاہاہا !!! اسے اسپشنز نہیں ایکسپریشنز کہتے ہیں ۔۔۔!"
"میری بلا سے جو بھی کہتے ہیں ۔۔۔
آپ مجھے دوسری بار کھانا نہیں دے سکتے ۔۔۔
محبت کیا خاک دیں گے !"
"تم میری محبت کا مقابلہ کھانے سے کر رہی ہو ؟"
"جی ہاں ! کیونکہ خرانٹ دادی سے میں نے ایک بار سنا تھ ۔۔۔
پیار محبت کی باتیں تب ہی اچھی لگتی ہیں جب پیٹ بھرا ہو !!"
"خرانٹ دادی ؟؟ مائی گاڈ !! ویسے اگر ایسی بات ہے تو میں ابھی دیگ کی دیگ لے کر آتا ہوں ۔۔۔
تاکہ زیادہ اچھی لگیں تمہیں میری باتیں !!"
مسکرا کر کہتا زمان خان جونہی کمرے سے باہر نکلا ۔۔
جاناں نے اپنی دلی خواہش جھٹ پوری کر ڈالی اور نرم گرم بستر پر دھم سے گر پڑی ۔۔۔۔۔۔
*****************************
جاناں کی ہلکی گلابی گھیردار فراک ہوا سے اڑے چلی جا رہی تھی جس سے بے پروہ وہ یک ٹک خوش رنگ پھولوں سے بھرے لان کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔۔ دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔۔
یہاں تک کے گھڑی پہنتا زمان خان اس کے پہلو میں آ کھڑا ہوا ۔۔۔
"کیا پھول بہت پسند ہیں تمہیں ؟"
اس کی دلچسپی نوٹ کرتا زمان خان سوچ چکا تھا ۔۔
یہاں بہت سی اور اقسام کے پھول لگوانے ہیں ۔۔۔
"کسے پسند نہیں ہوتے !
مگر میں انہیں دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی ۔۔۔۔
کتنے گلشن اجاڑے ہوں گے آپ نے جو آج آپ کے گھر کا باغ پھولوں سے بھرا ہوا ہے ۔۔۔۔۔"
اور زمان خان کے چہرے کا سارا رنگ نچڑ گیا ۔۔۔۔
یہ پہلی بار نہیں تھا ۔۔
شادی کے اس ایک ماہ میں جاناں نے کوئی ایک سو بار اسے ایسے کوڑے لگائے تھے ۔۔۔۔
"سچ برداشت نہیں ہو رہا ؟"
اس کے چہرے کو بغور دیکھتی جاناں طنزیہ بولی تھی ۔۔
"برداشت ہو جاتا !
میں بوٹ پر لگی دھول سے زیادہ اہمیت نا دیتا اس سچ کو !!
اگر یہ سچ کوئی اور کہتا ۔۔۔
مگر تمہارے منہ سے ایسے سچ زہر کی طرح میرے اندر اترتے ہیں ۔۔۔"
آہستگی سے کہ کر زمان خان پلٹا تھا جب جاناں بگڑ کر بولی تھی ۔۔۔۔۔
"آپ پر پھر بھی اثر کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔۔!"
"کیا کریں ؟ کمینگی رگ رگ میں بس چکی ہے ۔۔۔۔!"
"میں نے بھی یہ زہر رگ رگ میں نہ اتارا آپ کی ۔۔ تو جاناں نہیں میں !"
دل میں ارادہ کرتے ہوئے اس نے زمان خان کی طرف دیکھا اور اسے آنکھیں سکیڑ کر اپنے تاثرات نوٹ کرتا دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔۔
*****************************
"میرے بال کافی لمبے ہوگئے ہیں نہ ؟"
گردن سے زرا نیچے آتے گھنے گھنگریالے بالوں میں انگلیاں چلاتی جاناں خوشی سے چیخی تھی ۔۔۔
اخبار سے نظریں ہٹا کر زمان خان نے اسے دیکھا تھا پھر تھوڑی تلے مٹی رکھ کر سنجیدگی سے بولا ۔۔۔
"ہاں یار ! واقعی !!
سارے گھر میں بکھرے رہتے ہیں ۔۔۔۔ پیروں میں اٹکتے رہتے ہیں ۔۔۔
جوڑا بنا کر رکھا کرو ان کا !!!!
بلکہ چھوڑو ۔۔۔
اتنے لمبے تم سے اکیلے نہیں سنبھلیں گے ۔۔۔
کبھی فرصت ہوگی مجھے تو مل کر سمٹوائوں گا ۔۔"
"ہوگیا آپ کا ؟"
چڑ کر کہتی جاناں لبوں سے پھوٹتی بیساختہ مسکراہٹ روک نہیں سکی تھی ۔۔۔
"ڈاکئوں نے کی پولیس کی پٹائی !!"
کورنگی ٹائون میں ڈاکئوں کی واردات ۔۔
شہری سے تین لاکھ چھین لیئے ۔۔
پولیس تو وقت پر پہنچ گئی ۔۔۔
لیکن ڈاکئوں سے پٹ کر سب سے پہلے بھاگ نکلے ۔۔۔"
ٹی وی پر ہیڈلائنز چل رہی تھیں ۔۔
اور اس خبر پر جاناں ہنستی ہی چلی گئی تھی ۔۔۔۔
"ہماری پولیس کتنی فضول ہے ۔۔ نہیں ؟"
اپنے پولیس افسر شوہر کے سامنے بیٹھ کر یہ بات جاناں ہی کر سکتی تھی ۔۔۔
زمان خان جواب میں ناک کے پھنگ پھیلا کر مسنوعی سا مسکرا دیا ۔۔۔
"دو ڈان قسم کے لوگوں کو قتل کیئے چار ماہ گزر چکے ہیں ۔۔۔۔
ابھی تک کوئی مجھ تک پہنچ نہیں سکا !!"
جاناں کے اترا کر کہنے پر زمان خان نے اخبار تہ کر کے سائڈ رکھا پھر طنزیہ مسکرایا ۔۔۔
"وہ اس لیئے کیونکہ تمہارے پیچھے زمان خان ہے ۔۔۔۔!!"
"زمان خان نے کیا کر دیا !"
بالوں میں محبت سے برش پھیرتے ہوئے جاناں نے پوچھا تھا ۔۔۔
"سب زمان خان نے ہی کیا ہے ۔۔۔۔۔
میں نے کبھی اپنے کمرے کی بیڈ شیٹ نہیں بدلی اور تمہارے گھر پر باتھروم کمروں میں لگے خون کے دھبے میں نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیئے ہیں ۔۔
دیوار پھلانگتے وقت دیوار پر جو نشان لگے وہ بھی میں نے صاف کیئے ۔۔۔
وہ پیٹی جس میں تمہارے وہ کپڑے تھے اس پیٹی کو بھی میں نے غائب کیا ۔۔۔۔
گواہوں نے تمہارا جو حلیہ بیان کیا تھا ۔۔۔
کچھ مشکل نہیں تھا پولیس کا تم تک پہنچنا ۔۔
گھر زیادہ دور نہیں ہے تمہارا اس جگہ سے ۔۔۔۔
جتنے وہ دونوں بااثر ہیں ۔۔۔
دو دن میں تمہیں سلاخوں کے پیچھے پھینک دیتے پکڑ کر !
مگر چار مہینوں بعد بھی تم ہر فکر سے آزاد اپنے "لمبے دراز" بالوں سے محبتیں جتا رہی ہو ۔۔۔ یہ صرف زمان خان کی وجہ سے !"
جاناں کا برش پھیرتا ہاتھ رک چکا تھا ۔۔۔
کتنی ہی دیر تک وہ کچھ کہ نہیں سکی تھی ۔۔۔۔۔
کافی دیر بعد ہمت کر کے گلا کھنکھار کر شرمندہ نظروں سے زمان خان کی اکڑی گردن کو دیکھا پھر بے نیازی سے بولی ۔۔۔۔۔
"سب اللہ کی وجہ سے !!
ہاں اللہ نے آپ کو وسیلہ بنا دیا ۔۔۔"
سر ہلاتا زمان خان اس بے نیازی پر تپ اٹھا تھا ۔۔۔۔
"اچھا اب جلدی سے اپنے یہ راستے میں پڑے ہوئے بال سمیٹو ۔۔
اور چائے بنا کر لائو ۔۔۔۔!!"
"اگر آپ نے مزید میرے بالوں پر کوئی چوٹ کی تو میں آپ کو گنجا کر دوں گی ۔۔۔!"
"اس کی تمہیں ضرورت نہیں ہے ۔۔
ایک دو سال تمہارے ساتھ رہوں گا تو خود ہی گنجا ہو جائوں گا۔۔۔"
جھنجلاتی ہوئی جاناں کمرے سے نکلتے ہوئے چلائی تھی ۔۔۔
"اپنی سونیا سے بنوائیں چائے شائے !!"
*****************************
"سر جی میری مدد کیجیئے ۔۔۔ اللہ کے واسطے مدد کیجیئے ۔۔۔"
روتا ہوا نواب اچانک ہی اس کے آفس میں چلا آیا تھا ۔۔۔
ناگواری ضبط کرتے ہوئے زمان خان نے وجہ پوچھی تھی ۔۔
"سر ! میرا شہاب صبح اسکول کے لیئے نکلا تھا ۔۔۔
اب شام ہو گئی ہے ۔۔۔ کچھ اتا پتا نہیں ۔۔۔۔۔۔!!"
"ابے تو کھیل رہا ہوگا کہیں ۔۔ اور کام ہی کیا ہوتا ہے ان بچوں کو ۔۔۔؟"
زمان خان نے ناک پر سے مکھی اڑائی تھی ۔۔
نہیں سر ! واپس آ کر وہ مدرسہ جاتا ہے ۔۔۔ اور اسے بڑا شوق بھی ہے پڑھنے کا۔۔۔ کوئی مسئلہ ضرور ہوا ہے سر !!
رو رو کے اس کی ماں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے ۔۔۔۔
ساری گلی چھان ماری ہے ۔۔۔ مسجد میں اعلان کروایا ہے ۔۔۔۔۔!!!"
نواب روتا گڑگڑاتا زمین پر گرتا چلا گیا تھا اور زمان خان کی نظریں اس کے پیچھے کھڑے ظفر پر تھیں ۔۔۔ جس کے ہاتھ میں لفافہ تھا ۔۔۔۔ اور وہ نواب کی طرف اشارہ کرتا زمان خان کو دنگ کر گیا تھا ۔۔۔
"آہم !!
تم فکر مت کرو نواب ہم کچھ کرتے ہیں ۔۔۔۔
ابھی کرتے ہیں !!"
نواب کے سامنے ہی گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے زمان خان نے اس کی پشت تھپکتے ہوئے حوصلہ دیا تھا ۔۔
جبکہ نظریں اب بھی ظفر پر تھیں ۔۔۔
*****************************
"بس خان صاحب !!
ہمیں یقین تھا آپ دس منٹ میں ہم تک پہنچ جائو گے ۔۔۔۔۔
اس لیئے پہلے ہی آپ تک آپ کا تحفہ بھجوا دیا ۔۔۔!!
اور بھی کچھ چاہیے ہو تو بتانا آپ !"
اسکول ہیڈ ماسٹر دانت نکوستا اس کے سامنے بیٹھا کہ رہا تھا اور زمان خان مسنوعی بھی نہیں مسکرا پایا تھا ۔۔۔۔
"کیا بتائوں میں بہت پیارا بچہ تھا ۔۔۔۔۔"
کوئی اور وقت ہوتا تو زمان خان لفافہ لیتا اور اسے جھڑک کر چپ کرا دیتا ۔۔۔
"مجھے کوئی دلچسپی نہیں کون کتنا پیارا تھا ۔۔۔"
لیکن اس وقت زمان خان کی نظروں کے سامنے سے اپنے "امان" کا چہرہ ہی نہیں ہٹ رہا تھا ۔۔۔۔
زمان خان کا امان ۔۔۔ زمان خان کی جان ۔۔ قدرت کی طرف سے ملنے والا سب سے خوبصورت تحفہ ۔۔۔
اس کا بیٹا ۔۔۔ اس کا امان ۔۔۔!!!
"کیا مطلب ہے "تھا" ؟؟"
ہیڈ ماسٹر کے چہرے کا رنگ زمان خان کے انداز پر اڑا تھا ۔۔۔
"میں نے ہوچھا کتے کے بچے ۔۔۔ کیا مطلب ہے تھا ؟؟؟؟؟"
حلق کے بل چلاتا زمان خان گھوم کر اس کی طرف آیا تھا اور اسے گریبان سے پکڑ کر دیوار سے لگا دیا ۔۔۔۔
"خ۔۔۔۔خ۔۔۔خخا۔۔۔۔"
"چپ !! بلکل چپ !! کوئی اور بات نہیں ۔۔۔ ایک لفظ الٹا سیدھا نہیں !!!
مجھے بس اتنا بتا کیا مطلب ہے تھا ؟؟؟"
شور سن کر ظفر اندر بھاگ آیا تھا اور اندر کا منظر اسے ٹھٹھکا کیا گیا ۔۔۔
اس کا تو خیال تھا ابھی زمان خان اور ہیڈ ماسٹر ہنستے مسکراتے نکلیں گے ۔۔
زمان خان اسے اس کی گاڑی تک چھوڑے گا پھر اسے اس کا حصہ دے گا مگر۔۔۔۔!
"ظفر ! ابھی اور اسی وقت نواب کو بلا کر لا ۔۔۔"
"مگر وہ تو جا بھی۔۔۔۔ جی اچھا!"
زمان خان کے تاثرات پر گڑبڑا کر وہ فوراً بھاگا تھا ۔۔۔۔۔
*****************************
"میں نے تم سے کہا تم اسے مار دو ۔۔
اور کسی بات کی فکر مت کرو ۔۔۔۔
میں سب سنبھال لوں گا ۔۔۔!!
پھر کیوں نہیں سزا دی تم نے اپنے مجرم کو ؟"
زمان خان اپنے سامنے سر جھکائے بیٹھے نواب پر چلا رہا تھا جس کا چہرہ بلکل بے تاثر تھا اور آنکھیں بھی بلکل خشک ۔۔۔
جیسے اب ان میں آنسو بچے ہی نہ ہوں !!
"سر !
میرے سامنے آپ نے ایسے بہت سے کیس دبا کر لفافے لیئے ہیں ۔۔۔
ان لفافوں میں سے میری اوقات کے مطابق مجھے بھی کچھ نہ کچھ ملتا رہا ہے ۔۔۔
جو میں نے چپ چاپ لے لیا ہے ۔۔۔
اور ۔۔۔ اور میں نے کبھی ان مظلوموں کے سامنے زبان نہیں کھولی جن کے بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے دفنایا ہے ۔۔۔۔
ان کی بے حال لاشوں کو خود ۔۔۔ میں نے خود ۔۔۔ خود اپنے ہاتھوں سے دفنایا ہے سر ۔۔۔۔!!!
وہ آس لیئے دن میں دس دس بار یہاں آتے ہیں ۔۔۔
بہت سوں کو میں نے خود دھکے مار کر نکالا ہے ۔۔۔۔
بہت سے غم کے ماروں سے میں نے اپنا حصہ وصول کر انہیں آپ کے آفس میں ذلیل ہونے کو بھیج دیا ہے ۔۔۔۔۔
میں خود کتنوں کا مجرم ہوں سر !
میرا تو ایک ہی مجرم ہے ۔۔۔۔ میں قانون کو توڑ کے اسے خود مار دیتا ۔۔۔
اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچا لیتا ۔۔۔۔
جن کا مجرم میں ہوں ان کے دل کو ٹھنڈک کیسے ملے گی ؟
میں ایک کو ماروں گا میرا بدلہ پورا ۔۔۔
لیکن مجھ اکیلے کو کتنی بار مارا جائے گا ۔۔۔۔۔۔!!!"
دہاڑیں مار مار کر روتا نواب اپنا سر بھی پیٹ رہا تھا اور زمان خان کا دم گھٹنے لگا تھا ۔۔۔
سارے الفاظ گم ہو گئے تھے ۔۔۔۔
گہری چپ تھی اس کے اندر باہر ۔۔۔
صرف ایک پل کو سوچا تھا اس نے ۔۔
کل کو اسے کچھ ہوجائے ۔۔۔
خدا نا خواستہ اس کے بیٹے کے ساتھ کچھ ایسا ویسا ہو جائے ۔۔۔
تو کیا ہوگا ؟؟؟
کیا جاناں بھی یونہی در بدر انصاف کے لیئے بھٹکے گی ؟
"نہیں !!!!"
صرف ایک پل کے تصور نے ہی زمان خان کے رونگٹے کھڑے کر ڈالے تھے ۔۔۔
پانی کا گلاس اٹھایا تو پانی پینے کے لیئے تھا لیکن اس سے اپنے منہ پر پانی اچھال دیا ۔۔۔۔۔
*****************************
"اللہ تجھے غارت کرے ۔۔
تیرے شوہر کو غارت کرے ۔۔!!
تجھے بھی تیرے بچے کی مسخ لاش ملے ۔۔۔۔!
ایک پل کا سکون نصیب نہ ہو تجھے ۔۔۔۔!!!!
تیری بھی گود اجڑ جائے ۔۔۔۔"
پریشان سی ملازمہ کبھی چیختی چلاتی اس درمیانی عمر کی عورت کو دیکھتی ۔۔
کبھی خاموشی سے کوسنے سنتی جاناں کو ۔۔۔۔
ایک بار جاناں کہ دیتی تو دھکے مار کے اسے یہاں سے نکال دیتی لیکن وہ تو پتھریلے چہرے کے ساتھ سکون سے بیٹھی اس عورت کے کوسنے سن رہی تھی ۔۔۔۔۔
"بی بی کیا کروں میں اس کا ؟؟"
بالآخر ملازمہ خود سے پوچھ ہی بیٹھی ۔۔۔
"بولتے رہنے دو اسے !!!
جب کچھ غلط ہو تو اس پر بولنا چاہیے آواز اٹھانی چاہیے ۔۔۔۔!!!
چپ رہو گی تو پچھتائو گی ۔۔۔۔
تم بھی بولنا !
جب کچھ غلط ہوتا دیکھو ۔۔۔
تم بھی بولنا ۔۔ جیسے یہ بول رہی ہے ۔۔۔۔
میں بھی بولوں گی !!
سب بولنا ۔۔۔۔ اب چپ نہیں رہنا !!!"
آرام سے بات شروع کرنے والی جاناں کا انداز ہذیانی ہو گیا تھا ۔۔۔
سوتا ہوا امان بھی اٹھ چکا تھا اور اب حلق پھاڑ پھاڑ کے چلا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
پورا گھر چیخ و پکار سے گونج رہا تھا ۔۔۔
حواس باختہ سی ملازمہ کو جب لگنے لگا کہ وہ پاگل ہوجائے گی ۔۔۔
تو اس نے زمان خان کو فون کرنے کا فیصلہ کیا اور بھاگ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔۔
****************************
جاناں کمرے میں بند تھی اور دروازہ کھولنے کو راضی نہیں تھی ۔۔۔
بلکہ وہ کوئی جواب ہی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔۔
"دیکھ لوں گا میں تمہیں ۔۔۔
ظالم عورت اپنے بچے کا ہی کچھ خیال کر لو ؟!!!"
درازے پر ایک زور دار لات رسید کر کے کے زمان خان نے ملازمہ کی گود میں سکون سے سوتے امان کو دیکھا پھر بالوں میں انگلیاں چلاتا باہر کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔
اس کے جاتے کے ساتھ ہی ملازمہ نے بھی اپنی اٹکی ہوئی سانس خارج کی ۔۔۔۔
باہر نواب اپنی بیوی کو گاڑی میں ڈال رہا تھا جو اس کے یہاں آنے تک رو رو کے بیہوش ہو چکی تھی ۔۔۔۔
"کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے ؟"
زمان خان کی آواز پر وہ چونک کر مڑا تھا اور پھر زمان خان کو دیکھتا ہی رہ گیا تھا ۔۔
"کیا بات ہے ؟"
زمان خان الجھا تھا ۔۔۔۔
پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ نواب نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔۔۔۔
وہ کیا کہتا ؟
اسے تو یہ امید تھی کہ زمان خان آ کر اس پر الٹ پڑے گا مگر وہ تو الٹا خیریت دریافت کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور زمان خان کو خود پتہ بھی نہیں چلا تھا اپنے مزاج کے اس بدلائو کا ۔۔۔۔۔۔
"سوری سر ! پتہ نہیں کس نے کیا پٹی چڑھا دی ہے ۔۔۔۔
حالانکہ آپ نے تو ہم پر ہمارے مجرم آشکار کر کے بڑی مہربانی کی ہے ۔۔۔۔
پتہ نہیں میڈم سے بھی کیا کیا کہ دیا پاگل عورت نے ۔۔۔۔!"
"اس کی خیر ہے ۔۔۔۔۔ میں سنبھال لوں گا ۔۔۔۔ تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو یا کوئی مسئلہ ہو تو بتانا ۔۔۔!!"
نواب کو ایک اور جھٹکا دے کر زمان خان اس کا شانہ تھپتھپا کر واپس گھر کے اندر چلا گیا ۔۔۔۔
"اللہ آپ کو ہدایت دے سر
آپ کو اور مجھے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔ آمین !!"
ہاتھ اٹھا کر نواب نے دل کی گہرائیوں سے دعا کی تھی ۔۔۔۔۔
**