صدمہ تو ہوا تھا زمان خان کو ۔۔۔
آخری سانسوں پر کھڑے گھر کے در و دیوار خود پر گرتے ہوئے بھی محسوس ہوئے تھے ۔۔۔
دل بلکل ویران ہوگیاتھا اس کا ۔۔
جب اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ رات کو جاناں کے گھر اس کی غلط فہمیاں دور کرنے گیا تھا ۔۔۔۔
اور دستک پر دروازہ کسی نے نہیں کھولا تھا ۔۔۔
دیوار پھلانگ کر وہ اندر پہنچا تھا ۔۔۔
اور خالی گھر اسے اچھا خاصہ پریشان کر گیا تھا ۔۔
پہرے داری پر معمور اہلکار کا منہ توڑنے کے ارادے سے وہ پلٹا تھا جب کونے میں گرے مڑے تڑے کارڈ نے متوجہ کر لیا ۔۔۔
یہ اس کا اپنا کارڈ تھا ۔۔۔
لیکن فیاض کا کارڈ کہاں تھا ۔۔
بہت ڈھونڈنے پر بھی جب اسے کارڈ نہ ملا تو اسے ساری کہانی سمجھ آ گئی ۔۔۔
جاناں جتنی بھی آگے کی سوچ لیتی ۔۔
زمان خان سے نہیں جیت سکتی تھی ۔۔
اگلے دن اس نے فیاض کو فون کر کے اس سے کسی کی آمد کے متعلق پوچھا تھا ۔۔۔
شکر تھا فیاض اس وقت نارمل تھا۔۔۔
سو زمان خان نے جاناں کا حال حلیہ نین نقش بتانے کے بعد جان لیا وہ غم کی ماری جاناں ہی تھی ۔۔۔۔
فیاض کو اس کا خیال رکھنے کی تاکید کر کے اس نے شکر ادا کیا تھا ۔۔۔
جاناں کا اپنے گھر سے دور رہنا ہی بہتر تھا ۔۔۔
فیاض ہی تھا جس نے دادی کو بھی جاناں کو رکھنے پر راضی کیا تھا ۔۔۔
ورنہ دادی کیونکر کسی انجان روتی دھوتی لڑکی پر بھروسہ کر کے اسے گھر میں رکھنے پر بھی راضی ہوتیں ۔۔۔۔!!!
یہ تھا زمان خان کی طرف کا قصہ ۔۔
اور اب زمان خان جاناں کو واپس لے جانے کی تیاری میں تھا ۔۔۔
خطرہ ٹل چکا تھا ۔۔۔
منصور اور فیروز بھی "جمیل کی لڑکی" کی لاحاصل کھوج سے اکتا چکے تھے اور پھر ۔۔۔۔
زمان خان اسے خالص مشرقی دوشیزہ کے انداز میں دیکھنے کو بھی بیقرار تھا ۔۔۔ !
گاڑی کی چابی انگلی پر گھماتا وہ گاڑی میں سوار ہوا ہی تھا جب فون گنگنانے لگا ۔۔۔
"ہیلو ؟"
فون کان اور شانے کے درمیان پھنسا کر اس نے سگرٹ سلگائی تھی جب دوسری طرف سے منصور اور فیروز کے قتل کی خبر نے اسے اچھا خاصہ اچھلنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔
سینہ مسل کر کھانستے ہوئے اس نے پانی کی بوتل منہ سے لگائی تھی ۔۔۔
"سر آپ ٹھیک تو ہیں ؟"
دوسری طرف سے پریشانی سے پوچھا گیا ۔۔۔
"یس ! یس ۔۔۔ آئی ایم فائن !
میں پہنچتا ہوں وہاں ۔۔"
فون کان سے ہٹا کر زمان خان کچھ دیر کے لیئے بلکل ہی گم صم سا ہو گیا تھا ۔۔۔
آخری ملاقات میں جاناں کے کہے گئے جملے کانوں میں گونجنے لگے تھے ۔۔۔
"میں خود لوں گی اپنا بدلہ ۔۔۔
معمولی لڑکی نہیں ہوں میں یاد رکھنا ۔۔۔۔"
"نہیں جانا ایسا نہہں کر سکتی ۔۔۔۔ جزباتی پن اپنی جگہ ۔۔ قتل نہیں کر سکتی وہ ۔۔۔۔
یا اللہ یہ جاناں کی کارستانی نہ ہو !"
زمان خان نے بڑے دل سے دعا کی تھی ۔۔
****************************
"جویریہ !"
" جی بھابی جی ؟"
برتن دھوتی جاناں ان کی پکار پر ہاتھ پونچھتی چلی آئی ۔۔۔
"یہ سینڈوچز لے جائو اور میرے فرحان کو دے آئو
لیکن چپکے سے ۔۔۔۔
الماس بھابی کے بچے بچے بڑے ندیدے ہیں ۔۔
چھین کے نہ بھاگ جائیں میرے بچے سے۔۔۔
کھانے میں تو بہت ٹائم ہے ابھی ۔۔"
"آپ کے بچے کا نام تو دلاور نہیں ہے ؟"
"دلاور میرے میاں کا نام ہے !"
فرحین بھابی تلملا اٹھیں ۔۔۔
"اب ماشااللہ اتنے سارے بچوں میں آپ کے فرحان کو کہاں سے ڈھونڈوں میں ؟"
"بدتمیز !! تین مہنے ہو گئے یہاں رہتے ہوئے ۔۔۔ ابھی تک تمہیں نام یاد نہیں ہوئے ۔۔۔
تمہارا حال تو فیاض سے بھی برا ہے ۔۔۔"
"اب ایسی بھی بات نہیں ۔۔!!"
جاناں تڑپ اٹھی ۔۔۔
"فیاض صاحب ہوتے تو الٹا پوچھتے یہ بچے کیا ہیں بھابی ! ایک منٹ یہ بھابی کیا ہے بھابی !!!"
اس کے انداز پر کچن میں موجود سب ہی خواتین ہنس پڑی تھیں ۔۔
خود فرحین بھابی بھی مسکرا دی تھیں جب ساس کی پکار "اچھا امی" کہتی کچن سے نکل گئیں ۔۔۔
ہاتھ میں پکڑی سینڈوچز سے بھری ٹرے پر ایک نظر ڈال کر اس نے عینی بھابی کو دیکھا تھا ۔۔۔
"جس بچے کی ناک سے ہر پل بلبلے پھوٹتے رہتے ہیں نہ ! وہی ہے فرحین بھابی کا فرحان ! ۔۔"
ایسی شاندار نشاندہی کی تھی عینی بھابی نے ۔۔۔
اب وہ کبھی نہیں بھولنے والی تھی فرحان کون ہے !!!
اس کے بہت سے دوپٹوں پر فرحان صاحب کی نشانیاں موجود تھیں ۔۔۔
"آخخ۔۔۔!!!!"
جھرجھری سی لے کر وہ کچن سے نکلی تھی ۔۔
****************************
خالی ٹرے لہراتی ہوئی جاناں کچن میں جاتے جاتے ٹھٹھک کر رکی تھی ۔۔۔
گھر کی سبھی لڑکیاں لائونج کی کھڑکی پر جمح اسے چونکا گئی تھیں ۔۔
"چاند تو بس ایک ہے ۔۔
اور تارے کتنے سارے ہیں !
ہائے یہ کتنے پیارے ہیں ۔۔
ہائے یہ کتنے پیارے ہیں !"
نازنین اپنے شعر پر خود ہی واہ واہ کر رہی تھی جب جاناں نے ایکسائٹڈ ہو کر پوچھا ۔۔
"چھوٹی بی بی ! کیا گلفام بھائی آئے ہیں ؟"
گلفام نازنین کا کزن بھی تھا اور دونوں کا بچپن میں نکاح بھی ہو چکا تھا ۔۔
"نہیں ۔۔۔ تمہیں ایسا کیوں لگا ؟"
"آپ ایسی شاعری جو کر رہی ہیں ۔۔۔"
"جب گلفام آئیں گے تب میں شاعری نہیں کروں گی ۔۔۔
خود شاعری بن جائوں گی ۔۔۔۔"
اس کے خوابناک انداز پر سب لڑکیوں نے ناک کے پھنگ پھیلائے تھے ۔۔۔
"اپنی شاعری جیسی مت بن جائیے گا ۔۔ گلفام بھائی ڈر کے بھاگ بھی سکتے ہیں ۔۔۔"
دانت نکوس کر کہتی جاناں نازنین کی بھرتی آنکھوں پر ۔۔
اور باقی لڑکیوں کے کھلکھلا کر ہنسنے پر سٹپٹا کر کچن کی طرف دوڑ پڑی ۔۔۔
*****************************
باہر سے آتی آوازوں پر جاناں کو اندازہ ہو رہا تھا مہمان بہت خاص ہیں ۔۔۔
"دادی بہت کم لوگوں سے راضی ہوتی ہیں ۔۔۔"
بیلا کولڈ ڈرنک گلاسوں میں ڈالتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔
"سہی !! اُنہیں اپنے جیسے ہی خرانٹ لوگ پسند ہیں ۔۔۔"
رخسانہ بیگم نے منہ بنا کر کہا پھر سٹپٹا کر جاناں کو دیکھا ۔۔۔
لیکن جاناں نے تاثرات نارمل ہی رکھے تھے ۔۔
"خبردار ! جو امی کے سامنے منہ کھولا ۔۔۔"
"ارے بی بی ۔۔۔ میں تو بڑی بی بی کے سامنے جا کر بھول ہی جاتی ہوں کہ میرا منہ بھی ہے ۔۔۔"
جاناں کے بیچارگی سے کہنے پر وہ ترچھی نظروں سے اسے گھور کر رہ گئیں ۔۔۔
"بسمہ کہاں ہے ؟
بلائو اسے ۔۔۔"
انہوں نے بیلا کو اپنی بڑی بیٹی کو بلا لانے کا کہا تھا ۔۔۔
سر ہلاتی وہ اپنے کام سے فارغ ہوئی ہی تھی جب بسمہ خود ہی چلی آئی ۔۔۔
"اچھا ہوا تم آ گئیں ۔۔۔
یہ ٹرے اٹھائو اور باہر جائو ۔۔۔"
"امی پلیز ۔۔۔"
بسمہ جھلائی تھی ۔۔۔
"کیا پلیز ! ایسا تھپڑ پڑے گا ۔۔۔
تم دونوں کی وجہ سے میری کی نیندیں اڑی رہتی ہیں ۔۔
اٹھائو یہ ٹرے اور دفح ہو !"
"بی بی ! میں لے جاتی ہوں ۔۔۔۔"
بسمہ کو بھیجے جانے کا اصل مقصد سمجھے بغیر جاناں نے کھلے دل سے آفر کی تھی لیکن اس پر رخسانہ بیگم کی گھوری !!!
"جویریہ !"
کچن میں بس بیلا اور وہ ہی تھے جب نازنین اسے پکارتی چلی آئی ۔۔
"جی ؟"
"مبارک ہو ۔۔۔ ان گائوں والوں کو پولیس نے پکڑ لیا ہے جو تمہیں ونی کرنا چاہتے تھے ۔۔۔
تمہاری سوتیلی اماں کی بھی خوب پھینٹی لگی ہے ۔۔
سردیوں میں مزے دیتی ہے مونگ پھلی ۔۔۔
تمہاری زندگی میں ہر طرف ہوگی اب خوشی ۔۔"
"ک۔۔۔ کیا ؟"
حیرت زدہ سی جاناں نازنین کے ساتھ کھنچتی ہوئی لائونج میں چلی آئی تھی اور سامنے ہی صوفے پر براجمان زمان خان کو دیکھ کر اس کا رنگ اڑ گیا تھا ۔۔۔۔
"اب آپ کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔
آپ واپس جا سکتی ہیں اپنے گھر ۔۔"
زمان خان نے زور دار انداز میں ابرو اچکانے پر اکتفا کیا تھا جبکہ فیاض نے ہونٹوں پر مچلتی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔۔۔
"م ۔۔۔۔ م ۔۔۔ میں یہاں نہیں رہ سکتی ؟"
اس نے دادی کی طرف آس سے دیکھا تھا ۔۔
اور دادی نے سکون سے نفی میں سر ہلا کر اس کی آس توڑ دی تھی ۔۔۔!!
"ہنہ !! میں نے بھی کس سے آس لگا لی تھی ۔۔!"
حلق تر کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر زمان خان کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
"مر جائو تم زمان خان ۔۔۔
میں دو قتل کر سکتی ہوں تو تمہارا کام بھی تمام کر سکتی ہوں ۔۔۔۔!!!"
دانت پر دانت جما کر شعلہ بار نظروں سے زمان خان کو گھورتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں کہا تھا ۔۔۔۔
اور زمان خان نے جیسے سب سمجھ کر سر اثبات میں ہلایا تھا ۔۔۔
******************************
انہیں بصد اسرار ایک رات کے لیئے وہاں رکنے کو کہا گیا تھا ۔۔۔
بلکہ یہ کہنا بہتر تھا کہ زمان خان کو وہاں رکنے کے لیئے کہا گیا تھا ۔۔۔
ورنہ ہٹلر دادی کا بس نہ چلتا اسے لمحہ سے پیشتر گھر سے نکال باہر کرتیں ۔۔۔
خدا جانے کیا پرخاش تھی انہیں اس بیچاری سے ۔۔۔
خیر ۔۔۔۔۔ اس وقت اسے سب سے زیادہ صدمہ اس بات کا تھا کہ زمان خان اس تک پہنچ گیا تھا ۔۔۔
"اس کے انداز سے واضح تھا وہ بہت پہلے سے میری یہاں موجودگی سے واقف تھا ۔۔
اور ۔۔۔۔۔ اور بھی نا جانے کیا کیا معلوم ہوگا اسے ۔۔۔۔!!"
"ٹھک ٹھک !!"
دروازے پر ہونے والی دستک اس کا دل دہلا گئی تھی ۔۔۔
دوپٹہ اٹھا کر لپیٹتے ہوئے جاناں جانتی تھی رات کے دو بجے یہ دستک کون دے سکتا تھا ۔۔۔
بستر پر گر کر سکڑ کر لیٹتے ہوئے اس نے آنکھیں سختی سے میچ لی تھیں لیکن دستک اب زور پکڑتی اسے اٹھنے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔
دروازہ کھول کر وہ زمان خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہنا چاہتی تھی ۔۔
"دماغ ٹھکانے پر ہے صاحب جی ؟ یا دو گھونسے لگا کر ٹھکانے پر پہنچائوں ۔۔"
لیکن ہوا کیا ۔۔
کہ جاناں کی نظریں اس کے بوٹوں پر سے بھی نہیں اٹھ پائی تھیں ۔۔۔
پہلے اس کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا ۔۔
وہ جو چاہتی کہ دیتی ۔۔۔ مگر اس وقت یہ احساس اسے نظریں اٹھانے نہیں دے رہا تھا کہ وہ ملزمہ تھی ۔۔۔
ایک قاتلہ ۔۔۔ !!!
"کیسی ہو قاتل حسینہ ؟"
زمان خان کی شوخ آواز پر وہ ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئی ۔۔۔
تو وہ واقعی سب جانتا تھا ۔۔۔۔
*****************************
لائٹ جلتی تو کوئی نہ کوئی متوجہ ہو ہی جاتا ۔۔۔۔
سو کھڑکی سے آتی چاندنی ہی تھی جو کمرے کو اندھیرے میں ڈوبنے سے بچا رہی تھی ۔۔۔
آمنے سامنے سر جھکائے بیٹھے وہ گہری سوچوں میں گم لگتے تھے ۔۔۔۔
جاناں سوچ رہی تھی ۔۔
"شائد اب یہ مجھے جیل لے جائے گا ۔۔
جیل میں ' میں چکی پیسوں گی ۔۔۔
اور روز روز پھڈے کروں گی ۔۔
اور مجھ سے بھلا کون عورت مارپیٹ میں جیت سکتی ہے ۔۔
پھر ۔۔۔۔ پھر میں "دادا" بن جائو گی ۔۔۔
دادا بن جانے کے بعد میں جیل سے بھاگ جائوں گی ۔۔۔۔۔
اپنے جیسے اور بھی دنیا کے ستائے ملزموں سے ملوں گی ۔۔۔۔
پھر ہم لوگ اپنی ایک ٹیم بنا کر دنیا سے نا انصافی ختم کرنے کی کوشش کریں گے ۔۔۔ اور ایک دن کسی کرپٹ پولیس والے کے ہاتھوں مر جائیں گے ۔۔۔ مگر مظلوم ہمیں اچھے لفظوں سے یاد کریں گے ۔۔۔۔ ہمارے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھیں گے ۔۔
فلموں میں ایسے ہی تو ہوتا ہے ۔۔۔!!"
اور زمان خان سوچ رہا تھا
"یہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔!
محرومیوں بھری زندگی میں بھی جس کی ہر ادا زندگی سے بھرپور ہوتی تھی ۔۔۔۔
کب سوچا تھا کہ ایک دن خون رنگِ ہاتھ لیئے اس کے سامنے بیٹھی ہوگی ۔۔۔۔
کب چاہا تھا کہ اس کی نظریں بھی میرے سامنے نہ اٹھیں ۔۔۔۔
یہ تو گردن اکڑا کر باتیں سناتی ہوئی ہی اچھی لگتی ہے ۔۔۔
اس وقت تو بلکل انجان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
سوچیں زرا تھمی تھیں ۔۔۔
بیساختہ امڈتی مسکراہٹ لیئے زمان خان نے اس کے چہرے پر ویسے تاثرات دیکھے تھے جنہیں وہ بہت مس کرتا رہا تھا ۔۔۔۔
دوسری طرف جاناں جو اپنے تاثرات کو کنٹرول کرنا سیکھ گئی تھی ۔۔۔
اس وقت جانے کیوں کنٹرول نہیں پائی تھی ۔۔۔
شائد کہ ۔۔۔۔۔
شائد کہ ۔۔۔۔ شائد کہ ۔۔۔۔۔۔!!!!
اسےاچھا لگتا تھا زمان خان کا اپنے اندازنوٹ کرنا ۔۔۔۔
"جاناں !!"
مدھم پکار پر جاناں فوراً ہی سوچوں سے باہر نکلی تھی ۔۔۔۔
" کیا؟ "
"کسی کا قتل کر کے اتنے آرام سے کیسے بیٹھ سکتی ہو ؟"
"جیسے آپ کسی کے قتل پر سودا کر کے اتنے آرام سے بیٹھ سکتے ہیں ۔۔!!"
جھٹ جواب آیا تھا ۔۔۔
"اگر میں کہوں صرف قتل پر سودا نہیں میں نے قتل بھی کیئے ہیں تو ؟"
"تو میں فوراً یقین کر لوں گی ۔۔۔
آپ اگر کہتے آپ نے کبھی کوئی قتل نہیں کیا ۔۔۔ تو میں حیران ہوتی ۔۔
اور بلکل یقین نہ کرتی ۔۔۔!!!"
مسکراتے لبوں کے ساتھ آنکھوں میں نفرت بھر کر زمان خان کو دیکھتے ہوئے وہ سکون سے بولی تھی ۔۔
"یوں نفرت سے مت دیکھو جاناں ۔۔۔!
اب تم میں مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔۔۔"
ناجانے کیوں اس نفرت کو گہرائی سے محسوس کرتا زمان خان اداس ہو گیا تھا ۔۔۔۔
"ہے ! بہت ہے ۔۔۔
زمین آسمان کا فرق ہے ۔۔
میں نے انصاف نہ ملنے پر یہ قدم اٹھایا ۔۔۔۔
جنہیں مارا وہ آپکی طرح شیطان کے چیلوں میں سے تھے ۔۔۔۔
مگر آپ نے ہمیشہ مظلوموں کو کچلا ۔۔۔
ناجانے کتنے معصوم و بے گناہ لوگ آپ کی قید میں طاقتوروں کے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔۔۔
کتنے آپ لوگوں کی درندگی کا شکار ہو کر وہیں سلاخوں میں مر کھپ گئے ہوں گے ۔۔۔
ایک عام انسان کی نظر سے دیکھا جائے تو واقعی ۔۔۔ آپ اور میں ایک جیسے ہیں ۔۔۔۔
لیکن صرف آپ اور میں جانتے ہیں ۔۔۔
یا آپ اور میرے جیسے لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔۔
ہم میں بہت فرق ہے !!!"
جاناں کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں ۔۔۔
آواز کانپنے لگی تھی ۔۔۔۔
وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن کہ نہیں پا رہی تھی ۔۔۔ لب سختی سے بھینچ کر گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے رخ زرا موڑ کے بیٹھ گئی ۔۔۔۔
وہ خود کو پھر سے ایک مہنے پہلے کی اس ہیبت ناک رات میں محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔
شور ۔۔
چیخیں ۔۔
دہشت ۔۔
جنونیت ۔۔
"اب آپ مجھے جیل لیجانا چاہتے ہیں تو لے جائیں ۔۔
میں بدلہ لینے کے لیئے گھر سے بھاگی تھی ۔۔۔
آپ سے بھاگی تھی ۔۔
آپ سے شدید نفرت محسوس کرتے ہوئے وہاںسے بھاگ نکلی تھی ۔۔
قانون سے نہیں بھاگ رہی تھی میں ۔۔۔!!!
میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے ۔۔۔ میرے پیچھے ویسے بھی کون ہے رونے کے لیئے !!
کوئی مجھ سے ایسی محبت کرنے والا نہیں رہا اب اس دنیا میں !
کوئی نہیں ۔۔۔
جسے مجھے تکلیف میں دیکھ کر تکلیف ہو یا میرے دور جانے سے تڑپ اٹھے ۔۔۔ میرے ۔۔۔"
روتے ، سسکتے ، اٹکتے ہوئے بولتے بولتے وہ یکدم ساکت ہوگئی تھی جب زمان خان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کی گردن ایک جھٹکے سے اپنی طرف گھمائی تھی ۔۔۔۔
جاناں کو اپنی دھڑکنیں کانوں میں سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔
سانسیں بلکل رک سی گئی تھیں ۔۔۔
اور آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت گرے چلے جا رہے تھے ۔۔۔
"کوئی نہیں ؟"
ایک سرگوشی سی زمان خان نے کی تھی ۔۔۔
"زمان خان کی آنکھیں نم !!!!
اس شخص کو کیا غم ہو سکتا ہے ؟
کیا میرے غم پر رو رہا ہے یہ ؟
نہیں ۔۔۔ یہ نہیں ممکن ۔۔۔۔"
وہ سب جان کر بھی انجان بن جانا چاہتی تھی ۔۔۔
مچل کر اس نے زمان خان کا ہاتھ اپنے سر سے ہٹانے کی کوشش کی تھی لیکن یوں لگتا تھا اس کا بھاری ہاتھ گوند سے جاناں کے سر سے چپکا ہو ۔۔۔
"صرف مجھے اتنا بتائو جاناں !
کوئی نہیں ؟
نا کی صورت جواب ملنے پر میں تمہارے ہمیشہ یہاں رہنے کا بندوبست کر جائوں گا ۔۔۔۔
چلا جائوں گا چپ چاپ ۔۔۔ اور ایسا جائوں گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں ۔۔۔
صرف ایک بار میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہو ۔۔۔۔
کوئی نہیں ؟"
***