جمیل کے ایسے کون سے تعلقات تھے جو لوگ امڈے چلے آتے افسوس کرنے ۔۔۔
پہلے دن محلے کے کافی لوگ موجود رہے ۔۔۔
دوسرے دن کچھ گائوں گوٹھ میں آباد رشتے دار گھنٹے بھر کے لیئے چلے آئے تھے ۔۔۔
آج تیسرا دن تھا اور وہ اکیلے گھر میں گھٹنوں پر چہرہ ٹکائے بیٹھی تھی ۔۔۔
چوری کی بجلی تھی ۔۔۔
جو صبح ہی کاٹ دی گئی تھی ۔۔
کمرے میں نیم اندھیرا ہو رہا تھا ۔۔۔
اچھے خاصہ دن کا وقت تھا مگر سرمئی گہرے بادل آسمان پر ڈیرہ جمائے بیٹھے دوپہر کو شام میں بدل چکے تھے ۔۔
اطراف کے ماحول سے بلکل بے پروہ وہ بار بار بھیگ جانے والی آنکھوں کو بیدردی سے صاف کر ڈالتی ۔۔۔
"جاناں !"
یہ پہلی بار تھا جب زمان خان نے اس کا نام لے کر اسے مخاطب کیا تھا ۔۔۔
ٹھٹھک کر کمرے کے دروازے کی طرف گردن موڑتی وہ کچھ پل کو اسے دیکھتی ہی رہ گئی تھی جو آج پہلی بار اسے اپنی وردی کے سوا کسی لباس میں نظر آیا تھا ۔۔
سفید کڑکڑاتے شلوار قمیض میں ملبوس وہ خوشبئیں بکھیرتا اس کے سامنے تھا ۔۔۔ آستینیں کہنیوں تک چڑھا رکھی تھیں ۔۔۔ زمان خان کا یہ روپ بہت منفرد اور پیارا تھا ۔۔۔
گہری سانس بھر کر اس نے عادتاً شانے اچکا کر اس کے آنے کی وجہ پوچھی تھی ۔۔۔
"آپ یہاں ؟"
"میں دو دنوں سے یہیں ہو ۔۔۔ کچھ دیر کو کسی کام سے چلا جاتا ہوں ۔۔ تمہیں کیالگتا ہے ؟
یہ کفن دفن سب کیسے ہوگیا !"
زمان خان نے جتانے والے انداز میں بتایا ۔۔۔
"کیوں ؟"
جاناں نے متاثر ہوئے بغیر پوچھا ۔۔۔
پھر طنزیہ لہجے میں مزید بولی ۔۔
"کیا شہر میں ہر طرف امن چھا گیا ہے ؟
جو افسر صاحب یہاں ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں ؟"
"میں سوچتا تھا میں ہی سب سے بے مروت ہوں ۔۔۔
کانگریٹس !! تم مجھ سے جیت گئیں ۔۔۔"
توصیفی نظروں سے اسے دیکھتا زمان خان اس کے سامنے ہی چٹائی پر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
اس کے الجھن بھرے انداز سے واضح تھا وہ شائد ہی کبھی زمین پر اس طرح بیٹھا ہو ۔۔
"اچھا لگا یہ دیکھ کر کہ تم نے خود کو جلدی سمبھال لیا ۔۔ تم سے امید بھی یہی تھی ۔۔۔"
"مجھے پتھر دل کہیں یا کچھ بھی ۔۔ لیکن میں اکثر سوچتی تھی شائد ابا کبھی اسی طرح چار کاندھوں پر گھر آئے گا ۔۔۔
اس کا حال دیکھ کر ذہن پکا ہو چکا تھا میرا ۔۔۔"
اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر ساون برسنے لگا تھا ۔۔۔
زمان خان کو جاناں جیسی لڑکی کا یوں رونا بہت عجیب سا اور شائد کہ تکلیف دہ بھی لگ رہا تھا ۔۔۔
اس کا ہاتھ بے اختیاری میں اٹھا تھا ۔۔
وہ اس کا سر تھپک کر کچھ حوصلہ دینا چاہتا تھا لیکن جاناں نے پہلے ہی خود پر کنٹرول کر لیا اور شرٹ کی آستین سے ناک رگڑ کر سر اٹھا لیا ۔۔۔
زمان خان نے اپنا اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے پیچھے کیا تھا ۔۔۔
"اب مجھے مہربانی کر کے سب کچھ بتائیں یہ کیسے ہوا تھا ؟"
رندھی ہوئی آواز میں پوچھ کر اس نے گلا کھنکھارا تھا ۔۔۔
"اسے سب کچھ بتا دوں یا ؟؟"
زمان خان نے ایک پل کو سوچا ۔۔
اور پھر سارا ماجرا کہ سنایا ۔۔۔
خالی خالی نظروں سے جاناں کچھ لمحوں تک اس کو تکتی رہی تھی ۔۔
پھر بے ساختہ ہی ہنس پڑی ۔۔۔
لیکن اس ہنسی کے دوران اس کی آنکھوں سے کئی موتی ٹوٹ کر گرے تھے ۔۔۔
"میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔!
ابا میری عزت کے لیئے جان دے دے گا !
اور لے بھی لے گا !!!"
زمان خان کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا تھا ۔۔
لیکن اس نے اپنے تاثرات پر کنٹرول رکھا ۔۔۔
"ویل ! اب تم کیا کرو گی ؟
کہاں رہو گی ؟"
"کیا مطلب کیا کروں گی ؟
کہاں رہوں گی ؟
یہاں رہوں گی ۔۔ برگر بیچوں گی !"
جاناں کے اطمینان سے کہنے پر زمان خان بے ساختہ دھیرے سے ہنس دیا ۔۔
"برگر بنانے کا بھوت نہیں اترا تمہارے سر سے ؟
سنوں جاناں !"
وہ یکدم بہت سنجیدہ سا ہو گیا تھا ۔۔
"چاہے جیسا بھی تھا وہ تمہارا باپ تھا ۔۔۔
سب جانتے تھے یہاں ایک مرد رہتا ہے ۔۔
تم نے سب سے کہا تم جمیل کا بھتیجا ہو ۔۔۔
جمیل کی موجودگی میں تو سب نے یقین کر لیا ۔۔
لیکن اس کے جانے کے بعد یہ سب پہلے جتنا آسان نہیں رہے گا ۔۔۔
اس کے اندازہ تمہیں ابھی نہیں ہوگا لیکن کچھ وقت گزرے گا تو تم خود ہی سمجھ جائو گی ۔۔۔
شرابی تھا ۔۔۔ ہفتوں گھر سے غائب رہتا تھا ۔۔ ہر فرض سے غافل تھا لیکن وہ تمہاری چھائوں تھا ۔۔۔۔
دنیا اس گھر پر میلی آنکھ نہیں اٹھا سکتی تھی لیکن اب !!!
اب تمہارا اس ناٹک کو جاری رکھنا ۔۔
اپنی اصلیت چھپانا اتنا آسان نہیں رہے گا ۔۔۔"
بات ختم کر کے اس نے ابرو اٹھا کر اشارے سے پوچھا تھا ۔۔
"کچھ سمجھ رہی ہو ؟"
جواباً جانا سر جھکائے انگلیاں مروڑتی رہی ۔۔۔
کافی دیر ان کے درمیان خاموشی رہی ۔۔
بس بادلوں کے گڑگڑانے کی آواز تھی جو ماحول میں کچھ ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔۔
" صاحب جی !"
"ہم؟"
زمان خان جیسے اس کے مخاطب کرنے کا منتظر تھا ۔۔۔
"آپ مجھ پر اتنی کرم نوازیاں کیوں کر رہے ہیں ؟؟؟"
جاناں سے اس سوال کی اسے کم از کم اس وقت توقح نہیں تھی سو کچھ دیر کو وہ چپ سا رہ گیا تھا ۔۔
"میں !!!"
اس سوال کا جواب تو زمان خان کو خود بھی نہیں معلوم تھا ۔۔۔
ایک لفظ کہ کر پھر خاموش ہو گیا ۔۔
اگلے ہی پل گہری سانس خارج کر کے بولا ۔۔
"جو خود جھکے رہیں انہیں اور جھکانے میں مزہ آتا ہے مجھے لیکن نڈر لوگوں کی بہت رسپیکٹ کرتا ہوں میں ۔۔۔
کوئی ذاتی دشمنی نہ ہو تو ایسے لوگوں کی سیلف رسپکٹ کا میں احترام کرتا ہوں ۔۔۔"
اپنے جواب پر وہ خود بھی ہلکا پھلکا ہو گیا تھا ۔۔۔
تب ہی جاناں کے انداز میں شانے اچکا کر "لو دے دیا جواب! " والے تاثرات کے ساتھ دیکھا تھا ۔۔۔۔
"ہممم ۔۔۔۔۔ ! میں کچھ وقت اکیلے رہ کر دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔
اگر کام چلتا رہا تو ٹھیک ہے نہیں تو کسی رشتے دار سے بات کروں گی ۔۔۔"
"تمہارے رشتے دار تو فاقے زدہ لگ رہے تھے ۔۔ وہ تمہیں کیا سنبھالیں گے ؟"
"اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔ اور میں اپنا کمائونگی تو کسی کو زحمت نہیں ہوگی ۔۔۔ جن کے گھر رہوں گی کچھ ان کو بھی دے دوں گی ۔۔۔
ایسے ہی کچھ لو اور دو کے تحت زندگی گزر جائے گی ۔۔"
زمان خان کی بات کا برا مان کر وہ منہ بنا کر بولی ۔۔۔
"وہ سیدھے سادے لوگ تمہیں یوں مرد بن کر گھومنے نہیں دیں گے ۔۔۔"
شروع ہو جانے والی بارش کو گردن موڑ کر دیکھتے ہوئے زمان خان نے اسے پھر باز رکھنا چاہا تھا ۔۔
"تو میں لڑکی بن جائوں گی ۔۔۔۔!!!
یہ روپ میری مجبوری ہے ۔۔
جب مجبوری نہیں رہے گی تو روپ بھی نہیں رہے گا ۔۔۔"
غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں بولی تھی ۔۔۔
تیزی سے گردن گھما کر زمان خان نے اسے گھورا تھا ۔۔۔
"مگر تم ایسے منفرد لگتی ہو !"
"مجھے منفرد لگنے کا شوق نہیں ۔۔"
جاناں کا انداز اب بھی وہی تھا ۔۔۔
"تم مجھے ایسے ہی پسند ہو !"
بری طرح جھنجھلا کر کہی گئی اپنی اس بات پر وہ خود ہی ساکت ہو گیا تھا ۔۔۔
لیکن جاناں نے کسی چیز پر دھیان نہیں دیا تھا ۔۔۔
وہ صرف سن رہی تھی ۔۔ سمجھ نہیں رہی تھی ۔۔۔
"آپ کی پسند سے مجھے کیا !"
"تو پھر جائو اپنے ان رشتے داروں کے پاس جنہوں نے کبھی تمہارا حال جاننے کی کوشش نہیں کی ۔۔
تم تنی راتیں بھوکی سوئی ہو ۔۔
تم کتنے دن روتی رہی ہو جن کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔
چلی جائو ان کے پاس !!"
چلا کر کہتا وہ جاناں کو ہوش کی دنیا میں واپس لا چکا تھا
اور اب جاناں پھیلی آنکھوں کے ساتھ زمان خان کی پیشانی کی پھڑکتی رگ اور چہرے پر چھائی غصے کی سرخی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
"دس دس بچے پال رہے ہیں اپنے ! ایک تمہیں اور پال لیتے تو کیا بگڑ جاتا ؟
ممکن ہے اللہ خوش ہو کر ان کے غریب خانوں میں رزق کے دروازے ہی کھول دیتا ۔۔۔!"
"آپ کے منہ سے اللہ کا ذکر عجیب لگ رہا ہے ۔۔۔۔"
حیرت بھرے انداز میں جاناں کے کہنے پر زمان خان نے بات روک کر نا گواری سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔
"کیا مطلب ہے عجیب لگ رہا ہے؟
گنہگار ہوں کافر نہیں !!"
"بتائیے گا زرا ایسا کون سا کام ہے جو کافر کرتے ہیں اور آپ نہیں ؟
رشوت خوری ۔۔ شراب نوشی ۔۔ جھوٹ ۔۔ حرام کمائی ۔۔ اور بھی جانے کیا کیا ؟"
"سنو ! اللہ کے سامنے کون کیسا ہے یہ اللہ ہی کو معلوم ہے ۔۔۔
انسان کسی کے دین ایمان کا فیصلہ کرنے والے نہیں ہوتے ۔۔۔
کہنے کو تو میں بھی تمہیں چوری کا حوالہ دے کر دین سے فارغ کر سکتا ہوں ۔۔"
پیشانی پر چمکتی ننھی منی بوندوں کے ساتھ وہ مری ہوئی سی آواز میں بولا تھا ۔۔۔
جاناں کے "اور بھی جانے کیا کیا" کہنے پر اس کی آنکھوں کے سامنے چھم سے سونیا کاچہرہ آیا تھا ۔۔۔۔
جاناں ہونٹ چباتی بغلیں جھانکے لگی ۔۔۔
دوسروں پر الزام لگانا کتنا آسان ہوتا ہے ۔۔
خود پر آئے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ویل ! میرا ایک دوست ہے ۔۔۔
بلکہ زبردستی کا دوست ہے ۔۔۔
شریف لوگ ہیں ۔۔۔ "میری طرح نہیں! "
جوائنٹ فیملی ہے ۔۔۔ اگر تم ان کے گھر کام کرنا چاہو تو بتا دینا ۔۔
اپنی شناخت ظاہر کرو نہ کرو تمہاری مرضی !
ویسا میرا نہیں خیال چھپانے کی کوئی ضرورت ہے ۔۔۔
ان کے اپنے گھر بہت سی خواتین ہیں ۔۔۔۔
اگر "برگر بھوت" سر سے اتر جائے یا اور کوئی پرابلم ہو جائے تو یہ میرا نمبر ہے اور گھر کا ایڈریس ۔۔۔
مجھ سے رابطہ کر لینا ۔۔۔!
اور یہ ہے اس زبردستی کے دوست کا پتہ ۔۔۔
میرا شہر سے باہر آجانا رہتا ہے ۔۔ اور بھی ہزاروں کام ۔۔۔۔
کوئی چارہ نہ ہو تو اس پتے پر چلی جانا ۔۔۔!!"
جیب سے دو کارڈز نکال کر اس کی طرف بڑھاتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
خاموش نظروں سے جاناں اسے بارش میں بھیگتے ہوئے صحن عبور کرتا دیکھتی رہی ۔۔۔
دروازے پر پہنچ کر زمان خان ایک پل کو واپس مڑا تھا ۔۔۔
جاناں کو اپنی طرف ہی دیکھتا پا کر الوداعی انداز میں ہاتھ ہلایا اور پھر باہر ۔۔۔۔۔۔
*****************************
"کتے کی نسل !
میرے سامنے بھونکنے کی ہمت کیسے ہوئی تیری ؟
سر بھی کیسے اٹھایا تونے ؟؟؟"
سلاخوں کے پیچھے ایک طرف کو تین چار معمولی ملزم ایک دوسرے سے چپکے بیٹھے خوف سے پھٹی آنکھوں سے زمان خان کو ایک نئے آنے والے ملزم کی کھال ادھیڑتے دیکھ رہے تھے ۔۔۔
اچھی بھلی شکل کا وہ کم عمر سا جیب کترا کچھ دیر بعد اتنا ہیبت ناک لگنے لگے گا۔۔
کسی نے سوچا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔
"کتا کون ہے یہ تو وقت بتائےگا !
مجھے کتا کہنے والے !!
تو خود کتے کی موت مرے گا !!!"
وہ لڑکا جو ٹھیک سے سانس بھی نہیں لے پا رہا تھا شیطان بنے زمان خان کو جواب دینے سے خود کو باز نہیں رکھ پا رہا تھا ۔۔۔۔
وہ خود نوجوان تھا ۔۔۔
گرم دماغ کا جزباتی سا لڑکا ۔۔!
"باس !!!!!!!!"
زمان خان حلق کے بل چلایا تھا ۔۔
یہ انتہا کر دی تھی اس لڑکے نے ۔۔۔
وہ جو ابھی تک صرف اپنے ہاتھوں کا ہی استعمال کر رہا تھا ۔۔۔
شعلہ بار نظروں سے اس گری ہوئی کرسی سے بندھے خونم خون ہوئے لڑکے کو گھورتا وہ الٹے قدموں پیچھے ہوا تھا ۔۔۔۔
"نواب !"
زمان خان کی حکمیہ پکار باہر کھڑا یہ منظر دیکھتا نواب فوراً اندر آیا تھا ۔۔۔
اور اپنے ہاتھ میں موجود لوہے کی راڈ اس کی طرف بڑھا دی تھی ۔۔
اگلے ہی پل سلاخوں کے پیچھے سے ایک آسمان چیرتی چیخ سنائی دی تھی ۔۔۔۔
اس لڑکے کے سر سے بہتا گاڑھا سیال ان ملزموں کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا ۔۔۔
جیسے ان سے پوچھنا چاہتا ہو
"تم لوگوں کے جرم سے بڑا جرم تو یہ شخص کر رہا تھا ۔۔۔
تم لوگ چپ کیوں رہے ۔۔؟
یہ چپ تمہیں مہنگی پڑے گی ۔۔!
آج میں ہوں کل تم لوگ ہوں گے ۔۔۔
یاد رکھنا یہی حال تم لوگوں کا بھی ہوگا ۔۔۔
کل تم لوگ ہوں گے اس حال میں !!!"
اور خون کی اس صدا کا ہی شور تھا جو باقی سب تو آنکھیں بند کیئے گھٹنوں میں منہ چھپا چکے تھے لیکن ان میں سے ایک جو سب سے چھوٹی عمر کا تھا ہذیانی اندا میں چیخنے لگا تھا ۔۔۔۔۔
زمان خان نے بلا توقف اس کے ایک زور دار تھپڑ لگایا تھا کہ وہ دوسرے ملزمان پر گر گیا تھا لیکن اس کی چیخیں اور زور پکڑ چکی تھیں ۔۔۔
اور پھر یوں ہوا کہ وہ لڑکا چیختا رہا چیختا رہا ۔۔
زمان خان اس کے منہ ہی منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کرتا رہا ۔۔۔
اور بالآخر اس کی چیخیں بھی بند ہو گئیں ۔۔
ایک طرف کو گرا اب وہ اونچے اونچے قہقے لگا رہا تھا ۔۔۔۔
ہونٹ سکیڑ کر زمان خان کچھ دیر تک اسے گھورا رہا پھر باہر نکل کر جیل کے دروازے پر تالا لگاتے نواب کی طرف گھوما ۔۔۔۔
"ہاں تو اب کیا بریکنگ نیوز چلے گی ؟"
"معمولی تلخ کلامی پر دو قیدیوں میں ہاتھا پائی ۔۔۔
ایک موقح پر ہی جاں بحق جبکہ مارنے والا صدمے سے ذہنی توازن کھو بیٹھا ۔۔۔۔۔!"
پتھریلے چہرے کے ساتھ نواب نے جیسے رٹہ لگیا تھا ۔۔۔
"گُڈ !"
مطمئین سا زمان خان آگے بڑھ گیا تھا جبکہ پیچھے ہمدردی سے سلاخوں کے اندر کا منظر دیکھتا نواب سسک اٹھا تھا ۔۔۔
****************************
چائے کا بھرا ہوا کپ سر درد کی گوکی کے ساتھ اندر اتار کر اسے کچھ اچھا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔
سر کرسی کی پشت سے ٹکاتے ہوئے اس نے اچانک گنگنانے والے موبائل۔ کو ناگواری سے دیکھا تھا ۔۔۔۔
نام پڑھ کر وہ کال ریسیو کرنے سے رہ نہیں سکا تھا ۔۔
"ہاں ؟"
"سر جی ! وہ منصور یہاں گلی میں آیا ہے اور لوگوں سے جمیل کے گھر کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہا ہے ۔۔۔۔"
دوسری طرف سے جاناں کے گھر کے باہر عام سے حلیے میں ملبوس پہرے داری کرتا اہلکار پریشانی سے بولا تھا ۔۔۔
"اگر وہ گھر کے قریب بھی گیا تو میں تیری چمڑی ادھیڑ دوں گا ۔۔۔
اسے باتوں میں لگائو ۔۔
میرا حوالہ دو یا کچھ بھی کرو !
گھر تک نہیں پہنچنا چاہیے وہ! "
"جی سر !"
بیچاری سی آواز پر ہنکار بھر کر زمان خان نے فون ٹیبل پر پٹخ کر سر ہاتھوں میں گرا لیا تھا ۔۔۔۔۔۔
*****************************
"اسلام علیکم زمان صاحب !!!"
آنکھوں سے بازو ہٹا کر زمان خان نے چونک کر منصور ، فیروز اور ان کے ساتھیوں کو دیکھا تھا ۔۔۔
انہیں جواب دیے بغیر اس نے کندھے دباتے ظفر کو جانے کا اشارہ دیا تھا ۔۔۔
"کیا بات ہے صاحب جی ؟ روٹھے روٹھے سے نظر آ رہے ہیں ۔۔؟"
باقی سب دیوار کے ساتھ گردنیں جھکا کر کھڑے ہو گئے تھے جبکہ وہ دونوں ٹیبل کے دوسرے طرف رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔
"ناراض تو ہوں گے ہی ۔۔ ہم نے پھر جو انہیں زحمت دی ہے ۔۔۔۔
بس صاحب جی معافی بھی مانگنی تھی ایک بار اور کھلے عام قتل کرنے پر اور مکھن سے بال کی طرح ہمیں اس کیس سے نکالنے پر یہ "چھوٹا ساتحفہ" بھی لیئے حاضر ہیں ۔۔
قبول کیجیئے"
ٹیبل پر رکھا پھولا ہوا لفافہ زمان خان کو پہلی بار خوشی نہیں دے سکا تھا ۔۔۔
سر کو ہلکی سی جنبش دے کر زمان خان نے شرٹ کا اوپری بٹن کھولا تھا ۔۔
اس وقت اُس کا دل لفافے کی طرف دیکھنے کا بھی نہیں کر رہا تھا ۔۔۔
"اور صاحب ایک اور گزارش تھی ۔۔۔!"
منہ سے کچھ کہے بغیر زمان خان نے اس بار بھی اشارے سے ہی بولنے کو کہا تھا ۔۔۔
"صاحب ! جمیل کی ایک بیٹی تھی ۔۔۔
سارا چکر ہی اس کی وجہ سے چلا ہے ۔۔۔
عورت واقعی بڑی فساد کی چیز ہے ۔۔
خیر اس کا کچھ پتہ کرائو جی !
شادی کردی ہے اس کی یا کہیں اور ہی بیچ باچ دیا بڈھے نے ۔۔!"
غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے بیٹھا زمان خان بہت مشکل سے اپنے غصے پر کنٹرول کر رہا تھا ۔۔۔
منصور اپنی ہانکے جا رہا تھا ۔۔۔
مزید تحفہ دینے کا وعدہ کر رہا جبکہ فیروز کچھ الجھتے ہوئے زمان خان کی گردن کی ابھرتی رگیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔
"صاحب !"
نواب اسی کے کہنے پر چائے کا ایک اور کپ لایا تھا ۔۔
کپ رکھ کر اس کے کان کے قریب منہ کر کے آہستگی سے بولا تھا ۔۔
"آپ کا وہ دوست آیا ہے ۔۔
جس کا آپ نے کہا تھا اسے کسی صورت میرے آفس آنے سے نہ روکنا ۔۔"
کپ اٹھاتا زمان خان ساکت ہو گیا تھا ۔۔۔
اور اس کے تاثرات دیکھ کر نواب کا چہرہ سفید ہونے لگا ۔۔۔
"آپ ہی نے کہا تھا صاحب ۔۔۔ ہم نے تو حکم کی تعمیل کی تھی ۔۔۔
وہ بہت دیر سے دروازے کے باہر کھڑا تھا ۔۔ میرے آنے پر چپ چاپ چلا گیا ۔۔ میں نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔"
چپ ہو کر نواب نے آندھی طوفان کی طرح زمان خان کو باہر نکلتے دیکھا تھا ۔۔۔
"کیا بات ہے ؟"
فیروز کے پوچھنے پر نواب نفی میں سر ہلا کر رہ گیا تھا ۔۔
****************************
"جواد !
جواد !!!
ارے سنو تو !
جواد !!"
وہ پیچھے سے آتی زمان خان کی پکار ان سنی کیئے بھاگتی جا رہی تھی ۔۔
بھاگتی جا رہی تھی ۔۔۔
یہاں تک کے زمان خان نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب گھما ڈالا ۔۔۔
جبکہ جاناں نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑا کر زمان خان کے چہرے پر پوری قوت سے تھپڑ رسید کیا تھا ۔۔۔
غصے کی ذیادتی سے زمان خان کانپ کر رہ گیا ۔۔۔
یہ اسے زندگی میں پڑا جانے والا بلا شبہ پہلا تھپڑ تھا ۔۔۔۔
خون آشام نظروں سے ایک دوسرے کو گھورتے وہ دونوں ہی جیسے ایک دوسرے کا قتل کر دینا چاہتے تھے ۔۔۔
"جواد نہیں جاناں !
جاناں ہوں میں ۔۔
سب سن لو جاناں ہوں میں ۔۔۔"
وہ فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ منہ کے دائیں بائیں لگائے اعلانیہ انداز میں چیخی تھی ۔۔
اور نا جانے کب تک چیختی رہتی ۔۔
جب زمان خان کا زور دار ہاتھ اس کا منہ گھما گیا تھا ۔۔۔
قریب ہی کھڑی موٹر سائکل سے ٹکرا کر وہ گرتے گرتے بچی تھی ۔۔۔
پل بھر کو ساکت رہنے کے بعد وہ پھر چلائی تھی ۔۔
"جائو بتا دو جس کو بھی بتانا ہے ۔۔ میں ہی جاناں ہوں ۔۔۔
اور لو ان سے بھاری بھاری لفافے ۔۔۔
تم رشوت خور ذلیل انسان ۔۔
حرام خور ۔۔ کتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
جو جو گالیاں اس نے جمیل سے سنی تھیں وہ ساری ہی سانس کا وقفہ لیئے بغیر اس نے زمان خان کو دے ڈالیں !
اہانت کا احساس شدید ترین تھا ۔۔۔
منہ پر الٹے جواب دینے والوں کے ساتھ زمان خان کیا کرتا تھا یہ تو اب بتانے کی ضرورت نہیں تھی ۔۔۔
مگر سامنے جاناں تھی ۔۔۔!!!
ہاتھ کی مٹھی بنا کر اس نے پوری قوت سے دیوار پر رسید کی تھی ۔۔۔
جس کا اثر لیئے بغیر وہ بولتی رہی تھی ۔۔۔
" کتے کی موت مرے گا تو ۔۔۔!!
میرے باپ کے خون کا سودا کیا ہے تونے !
پیسے کا پجاری !!!
تیرا کچھ نہیں تھا لیکن میرا سب کچھ تھا وہ !
تو لفافے لیتا رہے ۔۔
جس کو میرا بتانا ہو بتا دے ۔۔۔
میں خود اپنے باپ کا بدلہ لوں گی ۔۔
کسی کی ضرورت نہیں ہے مجھے ۔۔۔
معمولی لڑکی نہیں ہوں میں یاد رکھنا ! "
چپ ہو کر وہ کچھ دیر تک اپنی سانسیں بحال کرتی رہی پھر وہاں سے بھاگتی چلی گئی ۔۔
لوگ ان کی طرف متوجہ ہو رہے تھے ۔۔
زمان خان کی موجودگی کی وجہ سے کوئی قریب آنے کی غلطی نہیں کر رہا تھا لیکن جس طرح وہ چیخ رہی تھی
وہ بھی اپنی اصل آواز میں ۔۔ ممکن تھا کسی پر ساری کہانی کھل جاتی ۔۔۔
پولیس اسٹیشن قریب ہی تھا ۔۔۔
شائد کہ منصور اور فیروز کے بندے کہیں آس پاس موجود ہوں ۔۔۔
اس وقت جاناں کا چلے جانا ہی ٹھیک تھا ۔۔۔
گہری سانس بھر کرزمان خان نے بھاگتے بھاگتے موڑ مڑ کر نظروں سے اوجھل ہوتی جاناں کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
*****************************