گرمی بلا کی تھی ۔۔۔ اور کراچی کی گرمی تو ۔۔ !
ہر کوئی ہانپتا کانپتا جلد از جلد کام ختم کرنے کی کوشش میں تھا ۔۔۔۔
کتے بھی کوئی سایہ ڈھونڈتے یہاں وہاں زبان نکالے پھر رہے تھے ۔۔۔
دکان کے باہر کھڑا وہ گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کو حسد بھری نظروں سے دیکھتا ندیدے پن سے آئسکریم کھا رہا تھا ۔۔ منٹوں میں آئسکریم چٹ کر لینے کے بعد اس نے کپ بے پروائی سے پیچھے کو پھینکا تھا لیکن برے نصیب !
وہ کپ جا کر سیدھا پان چباتے بڑی سی توند والے حوالدار کے سر پر جا لگا تھا ۔۔۔
جھٹکے سے مڑ کر حوالدار نے مزے سے آگے بڑھتے اس شخص کو دیکھا تھا اور اگلے ہی پل تن فن کرتا اس کے سر پر پہنچا تھا ۔۔۔
"اوئے کتے !"
کیپ کو ترچھا کر کے وہ بھی اس طرح مخاطب کیئے جانے پر بگڑ کر مڑا تھا ۔۔۔
"تیری ہمت بھی کیسے ہوئی اپنے باپ پر کچرا اچھالنے کی ؟"
"میری ہمت کیسے ہوئی اس پر بعد میں بات کریں گے ۔۔۔۔ پہلے مجھے یہ بتا کتے کا باپ کون ہوتا ہے ؟"
بھینسے جیسی آواز پر گینڈے سی جسامت والے حوالدار نے کان میں انگلی گھمائی تھی پھر گردن اِدھر اُدھر گھمانے کی ناکام کوشش کی تھی کیونکہ گردن تو چربی میں غائب ہو چکی تھی ۔۔۔۔
چپٹی ناک کے پھنگ پھیلا کر حوالدار نے اپنا بھاری بھرکم ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کہ سامنے کھڑے اپنی آواز کے بلکل الٹ ۔۔ دبلے پتلے مگر لمبے سے لڑکے نے وہیں سے اس کا ہاتھ پکڑ کر گھما ڈالا ۔۔۔
"اب بتا ! باپ کون سالے ؟"
"تیری بوٹیاں بوٹیاں کر کے کتوں کو ڈالوں گا ماں کے ۔۔۔۔۔۔۔ "
حوالدار کے منہ سے موٹی سی گالی نکلی تھی جس پر آپے سے باہر ہوتا وہ اس پر ٹوٹ پڑا تھا ۔۔۔۔
اتنا وقت کسی کے پاس نہیں تھا کہ جھگڑا رکواتا ۔۔۔
لیکن ویڈیو بنانے کا وقت بہت سے لوگوں کے پاس تھا ۔۔۔
سو بہت سے لوگ ویڈیو بھی بنانے لگے تھے ۔۔ اچھا شغل لگا تھا جبس بھری دوپہر میں ۔۔۔۔
جیسے جیسے جھگڑا ۔۔ یا یوں کہ لیں کہ حوالدار کی پٹائی زور پکڑتی جا رہی تھی رش بھی بڑھتا جا رہا تھا ۔۔
مگر اسے کسی چیز کی پروہ نہیں تھی ۔۔۔
مکے پر مکے مار کر حوالدار کا حلیہ بری طرح بگاڑتا وہ اس وقت رک گیا تھا جب کسی نے اس کے کالر سے پکڑ کر اسے کھینچا تھا ساتھ ہی دوسرے ہاتھ کے مضبوط پنجے میں اس کا چہرہ بھی دبوچ لیا تھا ۔۔۔۔
وہ پھڑا پھڑا کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔
لاکھ اونچا لمبا مار دھاڑ میں ماہر سہی ، لیکن سامنے کھڑے اس دیو جیسے لمبے چوڑے شخص کے آگے وہ کچھ نہیں تھا ۔۔۔۔
جس کا کسرتی بدن اس کی سیاہ وردی میں بھی واضح تھا ۔۔۔۔
آنکھیں پھاڑے وہ اسے دیکھ رہا تھا جس کے وجیہ چہرے پر الجھن نمایاں ہو گئی تھی ۔۔۔
جس ہاتھ میں چہرہ دبوچ رکھا تھا اس ہاتھ کی گرفت کچھ ڈھیلی کر کے اس دیو نما شخص نے اپنا ہاتھ اس کے چہرے پر رگڑا تھا ۔۔۔
لڑاکا سے لڑکے کے سراپے پر ایک گہرہ نظر ڈالتے ہوئے اس نے جھٹکے سے اسے چھوڑ دیا تھا ۔۔۔
بھاری سی جیکٹ کو درست کرتے ہوئے اس نے نیچے گر جانے والی کیپ اٹھائی تھی پھر وہ وہاں سے پوری رفتار سے بھاگ نکلا تھا ۔۔
گردن موڑے اسے تکتے سیاہ وردی والے شخص کے چہرے پر اب بھی بے یقینی کے تاثرات موجود تھے ۔۔۔
اس چہرے کی نرمی وہ اب بھی اپنے ہاتھ میں محسوس کر رہا تھا ۔۔۔
اس پر اتنی گرمی میں جیکٹ !!!
پھر اس کا یوں نظریں چرا کر بھاگ جانا ۔۔۔۔
"لڑکی !"
بے آواز اس کے ہونٹ ہلے تھے ۔۔۔
اگلے ہی پل گردن موڑ کر اس نے پہلے ایک گھوری مجمح پر ڈالی تھی بہت سے اسے پہچان کر پہلے ہی کھسک گئے تھے ۔۔۔ کچھ لوگ اس کے گھورنے سے خائف ہوتے چلتے بنے تھے ۔۔۔
اب کے بار اس نے سخت ناگوار نظروں سے کراہتے ہوئے حوالدار کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
حوالدار کے سامنے ہی اکڑوں بیٹھ کر اس نے اس کی سیاہ ٹنڈ پر موجود چار بال پکڑ کر اس کا سر اٹھایا تھا ۔۔
"بہت تکلیف میں ہے ؟ چل تیری مرہم پٹی کرتا ہوں "
حوالدار کی آنکھوں میں دہشت پھیل گئی تھی ۔۔ اس کی "مرہم پٹی" کا مطلب سمجھتا وہ اپنی ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز سن سکتا تھا ۔۔۔۔
"صاحب غلطی اس لڑکے کی ہے ۔۔۔ "
"ہاں میں سمجھ گیا ۔۔۔ جب ہی کہ رہا ہوں ۔۔۔ آئو مرہم پٹی کر دوں ۔۔۔"
نہیں صاحب جی میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ بلکل بھلا چنگا ۔۔۔"
حوالدار نے اٹھنے کی کوشش کی تھی مگر اس کے بال اب بھی اس کے صاحب کی مٹھی میں تھے ۔۔۔
"لیکن مجھے تمہاری حالت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔۔۔
ویسے بھی اگر تم جان لو کہ تم کس سے پٹے ہو اور تم میں زرا بھی غیرت ہوئی تو فوراً خود کشی کر لو گے ۔۔۔
اس لیئے بہتر ہے صاحب سے تھوڑی مرہم پٹی کروا لو ۔۔ آئو ۔۔۔۔
نواب !! اسے اٹھائو ۔۔۔۔ گاڑی میں ڈالو ۔۔۔۔۔۔
اور خدمت شروع کرو !"
دوسرے حوالدار کو حکم دیتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
زخمی حوالدار کو یقین تھا کچھ دیر پہلے ہی اس نے جس طرح بریانی والے کا بریانی کے پیسے مانگنے پر منہ سجا دیا تھا ۔۔ یہ سب اسی کی "آہ" کی وجہ سے تھا ۔۔۔۔
*****************************
خشک بے رنگ ہونٹ ۔۔۔
پورے دن میں صرف ایک دفعہ کا دھلا مہاسوں بھرا سانولا چہرہ ۔۔
کبھی نہ تراشی گھنی بھنویں ۔۔
نیند کی کمی کے باعث سرخ ہوتی آنکھیں ۔۔۔
اور چھوٹے چھوٹے بال ۔۔۔ اتنے چھوٹے کے اس کے ماتھے پر بھی نہیں آتے تھے ۔۔۔
وہ عرصہ ہوا اپنے اصل سے بچھڑ چکی تھی ۔۔۔
ماں بس جیسے اسے دنیا میں لانے کے لیئے ہی موت سے بھاگتی رہی تھی ۔۔۔
ختم پہلے ہی ہو رہی تھی ۔۔۔ اسے پیدا کر کے مر بھی گئی ۔۔
سارا بچپن بھوکا رہ رہ کر اور نشئی باپ کی مار کھا کھا کر گزرا تھا ۔۔۔۔
رشتے دار سارے خود غربت کے مارے تھے سو آنکھیں کان بند کیئے اپنی اپنی دنیا میں مگن رہتے تھے ۔۔۔
کبھی کوئی محلے دار ترس کھا کے کچھ دے دیتا ۔۔
کبھی وہ خود ہی کہیں سے چرا کر کچھ کھا لیتی ۔۔۔
وقت یونہی گزرتا رہا ۔۔
باپ سے پٹ پٹ کر وہ ڈھیٹ ہو گئی تھی ۔۔۔
گلی کے لڑکوں سے لڑ لڑ کر مار پیٹ میں طاق !!
چھوٹی موٹی چوریاں کرتے کرتے چوری میں ایکسپرٹ ۔۔
مسئلہ تب ہوا جب اس کے بظاہر میں تبدیلیاں شروع ہو گئیں ۔۔۔
نظریں بدل گئیں ۔۔۔
شفقت سے سر تھپکتے ہاتھ کھسک کر کندھوں پر آنے لگے ۔۔۔
ترس کھا کر کچھ دینے والے اب بدلے میں بھی کچھ مانگنے لگے ۔۔۔۔
جہاں اتنی مشکلات دی تھیں وہاں ان سے نمٹنے کے لیئے بھی اللہ نے کچھ سہولیات عطا کر دی تھیں ۔۔۔
کہنے والے کہتے تھے اس نے اپنی ماں کی طرح بہت لمبا قد نکالا تھا ۔۔۔
سو مردانہ کپڑوں میں وہ لڑکا ہی لگنے لگی تھی ۔۔۔ پھر آواز بدلنے میں بھی وہ ماہر تھی ۔۔۔
چھوٹے سے توتلاتے بچے کی ہو یا کسی بھرپور جوان کی !
اپنی اس خوبی سے بھی اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا ۔۔۔۔۔
گھر کے سامنے ہی گورمنٹ گرلز اسکول تھا جہاں سے "ا'ب'پ" سمیت بہت کچھ کان لگا لگا کر کھڑکیوں سے تانک جھانک کر اس نے سیکھ ہی لیا تھا ۔۔۔
مطلب یہ کہ زندگی گزارنے کے لیئے اس جیسے ماحول میں پلنے بڑھنے والی لڑکی کو جس جس چیز کی ضرورت تھی وہ قدرت نے اسے کہیں نہ کہیں سے مہیا کر ہی دی تھی ۔۔
****************************
"یار اس عمر میں ہو جاتی ہیں ایسی غلطیاں ۔۔۔۔ اس پر ایسے واویلے کی کیا تک بنتی ہے ۔۔
میں نے انہیں کہا بھی کچھ لے کر معاملہ ختم کرو !
لیکن نہیں ۔۔۔۔
عزت عزت کا راگ الاپے جا رہے تھے جیسے ختم ہو عزت ان کے گھر پر ۔۔"
"ایم پی اے صاحب ! جب تک بات عزت تک رہے گی ۔۔۔ وہ بھی عزت عزت ہی چیخیں گے ۔۔۔۔
معاملہ جب جان پر آئے گا تب خود ہی دماغ ٹھکانے آ جائیں گے ۔۔۔
جان سے پیارا بھی کسی کو کچھ ہوتا ہے ۔۔۔"
ٹیبل پر پڑی نوٹوں کی موٹی سے گڈی اٹھا کر ٹیبل کی دراز میں ڈالتے ہوئے وہ ایک آنکھ دبا کر بولا تھا ۔۔
جواباً ادھیڑ عمر ایم پی اے کھل کر ہنسا تھا ۔۔۔
"تو میں معاملہ ختم ہوا سمجھوں ؟"
"بلکل ! آپ اطمینان سے جائیے ۔۔۔ شام تک آپ کا بھتیجا بھی گھر پہنچ جائے گا ۔۔
خود پوری شان سے لائیں گے ہم !"
"آپ سے یہی امید تھی ! تب ہی جب میرے بھائی نے بتایا کہ لڑکے سے "زرا غلطی" ہو گئی ہے ۔۔۔ میں مطمئین ہی رہا تھا ۔۔۔۔"
ہاتھ ملا کر وہ اس کے آفس سے نکل گئے تھے اور وہ ایک بار پھر نوٹوں کی گڈی نکال کر کرسی پر گر گیا تھا ۔۔۔
"شائد کسی اور کے لیئے جان سے پیارا کچھ نہ ہو ۔۔۔
لیکن مجھے ! پیسہ جان سے بھی پیارا ہے ۔۔۔ "
****************************
وہ زمان خان تھا ۔۔۔
اس کا دین ایمان دولت تھی ۔۔۔
وہ پولیس میں بھرتی ہوا تھا اپنے شہید باپ کی خواہش پر ۔۔۔
اور "آگے سے آگے" بڑھتا چلا گیا تھا بااثر شخصیات کی خواہش پر ۔۔
اس کے تعلقات صوبے بھر کے تقریباً ہر با اثر شخص کے ساتھ تھے ۔۔
اور اب تو حالات یوں تھے کہ وہ خود بہت با اثر اور بدنام شخصیت بن چکا تھا ۔۔۔۔
اس کے بات کرنے کا سلجھا ہوا انداز دیکھ کر پہلی بار ملنے والا سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اندر سے کیسا شیطان صفت ہے ۔۔
وہ پڑھا لکھا تھا ۔۔۔ اچھے موحول میں رہا تھا سو خوب ہی اپنے بظاہر کو پالش کیئے رکھتا تھا ۔۔۔۔
دولت کی اسے ہوس تھی ۔۔۔۔
جس کے لیئے وہ کسی بھی حد سے گزر سکتا تھا ۔۔۔
معصوم لوگوں کو بلیک میل کر کے مجرم کے روپ میں سامنے دنیا کے سامنے لاکھڑا کرتا اور وہ لوگ بھی اپنی عزتوں کے لیئے ۔۔ اپنے پیاروں کی جان کی خاطر چپ چاپ سولی پر چڑھ جاتے ۔۔۔
جبکہ بااثر مجرموں سے بہت کچھ وصول کر انہیں معصوم شہری ثابت کر دیتا ۔۔۔
ماں اس کے بچپن میں ہی اس "دھمکاتے" ماحول سے خائف ہو کر اس کے باپ سے طلاق لے کر چلی گئی تھی ۔۔۔
اور اپنے دوسرے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی ۔۔۔
جاننے والے اس کی فطرت سے نالاں اس سے ملنے سے کتراتے تھے ۔۔۔
وہ خود بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ نا نہاد اپنے دور ہی رہیں تو اچھا ہے ۔۔۔
اسے بھی رشتے داریاں نبھانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔۔۔
وہ اپنی زندگی پوری آزادی سے ۔۔۔ اپنی مرضی سے جینا چاہتا تھا کسی روک ٹوک کے بغیر ۔۔۔
*****************************
"پاک سر زمین شاد باد ۔۔
کشور حسین شاد باد ۔۔ "
نیند سے بوجھل آنکھیں مسلتی ہوئی وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔
بیٹھے بیٹھے ادھر اُدھر جھولتی نیند بھگانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
اس کی ہر صبح ایسی ہی ہوتی تھی ۔۔۔
اسکول کی بچیوں کی چیں چیں تقریباً سارا دن ہی سر دکھاتی تھی لیکن اس وقت ان کی آوازیں کچھ زیادہ ہی اونچی ہو جاتی تھیں ۔۔۔۔
"سایہ خدائے ذوالجلال "
اس نے بھی پہلے سے آگے کو گرتا سر اور جھکایا ۔۔۔
اگلے ہی پل پھرتی سے اٹھ کر کمرے سے باہر بھاگی ۔۔۔
پسینے سے بری طرح بھیگ رہی تھی ۔۔۔
لائٹ بھی رات سے بند تھی ۔۔
نہانے کی خواہش شدید تھی ۔۔۔
*****************************
کچن میں ایسا کچھ موجود نہیں تھا جس سے پیٹ پوجا کی جاتی ۔۔۔
"یعنی کسی کے لٹنے کا وقت آن پہنچا ہے"
آستینیں چڑھاتی وہ اپنی جیکٹ کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔
****************************
شربت والے بابے کا بس نہیں چل رہا تھا اس کے بوٹ پر لگی دھول اپنی قمیض سے صاف کر دیتا ۔۔۔
اگر یہ دولت مند فرعون بن بیٹھے ہیں تو آخر غریب کیوں خود کو ان کا غلام تصور کرنے لگے ہیں ؟
جو حالات تھے اس میں کچھ غلطی غریبوں کی بھی تھی ۔۔۔
گنے کے جوس سے بھرا ہوا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے بلا ارادہ ہی سر اٹھایا تھا اور نظریں اس پر جم کر رہ گئی تھیں جو اس کی موجودگ سے قطعی لا علم پاس سے گزرنے والوں کو سر سے پیر تک گھورتی پھر منہ بنا کر نفی میں سر ہلا دیتی ۔۔۔
چہرے پر چھائی مایوسی اچانک ہی چھٹی تھی ۔۔
دلچسپی سے اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے ہوئے زمان خان نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تھا ۔۔۔
دبلا پتلا سا درمیانی عمر کا عادمی فون پر مصروف چلا آ رہا تھا ۔۔۔
جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ سر جھکا کر اس کے قریب سے گزری تھی ۔۔
نہ اس بیچارے شخص نے کچھ محسوس کیا تھا ۔۔۔ اور نہ ہی کوئی اور دیکھ سکا تھا لیکن زمان خان کی عقابی نظروں سے اس کی حرکت پوشیدہ نہیں رہی تھی ۔۔۔
بے ساختہ مسکراتے ہوئے اس نے اپنا گلاس بینچ پر رکھا تھا پھر ہتھکڑی اٹھائے اسے جا لیا تھا ۔۔۔۔
پولیس دیکھ کر پہلے ہی اس کا رنگ اڑ گیا تھا ۔۔۔ اور چہرہ پہچان کر تو بلکل ہی رونے کو ہو گئی تھی ۔۔۔۔
مگر آنسو حلق میں اتارت ہوئے قدرے سنبھل کر شانے اچکا کر راستہ روکنے کی وجہ پوچھی تھی ۔۔۔۔۔
"یور آر انڈر اریسٹ !"
یہ لائن تو وہ فلموں میں کئی دفعہ سن چکی تھی ۔۔۔
سو تیزی سے کہے گئے اس انگلش جملے کو سمجھنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔
"کیوں سر ؟ کیا کر دیا ہے میں نے ؟"
اس کے منہ سے نکلتی بلکل مردانہ آواز پر ٹھٹھکتا وہ اگلے ہی پل مسکرا کر وہ اس کے کافی قریب آیا گیا تھا ۔۔۔
"جیب دکھائو اپنی !"
"کیوں ؟"
"ہم سے سوال نہیں پوچھتے ۔۔۔"
"ایک معصوم شہری ہونے کے ناتے میں پوچھ سکتا ہوں ۔۔۔ اب بتائو ! کیوں ؟"
اس کی جرت پر حیران ہونے کا بھرپور تاثر دیتا وہ اپنا ہاتھ اس کی بد رنگی جیکٹ کی جیب میں ڈال کر پل بھر میں اس آدمی کا چرایا گیا سیاہ بٹوہ نکال چکا تھا ۔۔۔۔۔
"یہ میرا ہے ! ادھر دیں !!"
لوگوں کو متوجہ ہوتا دیکھ کر اس کی آواز پست ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔
سب سے زیادہ وارداتیں اس نے یہیں کی تھیں ۔۔۔ اگر کسی کے کانوں میں معاملے کی بھنک بھی پڑ گئی تو ۔۔۔۔
"جھوٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔۔۔ اس لیئے شرافت سے چلو !!!"
زمان خان کی آنکھوں میں ایسا کچھ تھا جو اس کا حلق خشک کر گیا تھا ۔۔۔۔
****************************
مسلسل ہلتی ٹانگ اس کی بیچینی کا اظہار کر رہی تھی ۔۔۔۔
اے سی کھلا ہونے کے باوجود اس کی پیشانی پر ننھی منی بوندیں نمایاں تھیں ۔۔۔
خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتی وہ منمنائی تھی ۔۔۔
"سر اب تو سب بتا دیا ہے نہ ۔۔ تو میں جائوں ۔۔۔؟"
مختصر ترین لفظوں میں وہ اسے اپنی کہانی سنا چکی تھی ۔۔۔۔
تھوڑی تلے ہاتھ رکھے زمان خان نے نظریں اس کے چہرے سے ہٹائے بغیر نفی میں سر ہلایا تھا ۔۔۔
اچھے بھلے "دادا ٹائپ" ملزمان بھی یہاں آ کے بھیگی بلی بن جاتے تھے ۔۔۔
اور ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کیا کرتے تھے لیکن اس لڑکی نے اپنی کہانی بہت سرسری انداز میں سنائی تھی ۔۔۔
اور جب اس کی ماں کے مرنے کا سن کر زمان خان نے "چچ افسوس" کہا تھا سو بڑی بے نیازی سے شانے اچکا کر
"ارے اچھا ہوا اماں مر گئی ۔۔۔ سیدھی جنت میں گئی ہوگی ۔۔ اس جہنم جیسی زندگی میں رکھا ہی کیا تھا"
کہا ۔۔ اور زمان خان کو حیران کر دیا ۔۔۔
انگلیاں چٹخاتے ہوئے اس کا دل کر رہا تھا اس پولیس افسر کا سر توڑ دے ۔۔
آنکھیں نکال کر ابال دے ۔۔۔
لیکن مجبوری سی مجبوری تھی ۔۔
دوسری طرف اس کے میلے سے چہرے پر ابھرتے جنگجو سے تاثرات دیکھتا زمان خان اس کے دل کی حالت سے کافی حد تک واقف ہو گیا تھا ۔۔۔۔
آفس کا دروازہ کھلا تھا ۔۔
حوالدار نواب نے خوشبوئیں اڑاتا بہت سا کھانا لا کر ٹیبل پر لگا دیا تھا ۔۔۔
کھانے سے اٹھتا بھاپ اس کے منہ میں پانی بھر رہا تھا ۔۔۔۔
مہک اندر اترتی آنتیں مروڑ رہی تھی ۔۔۔
ادھر ادھر دیکھتی وہ کھانے سے نظریں چرا رہی تھی ۔۔۔
"کھائو اسے ۔۔۔"
"جی ؟"
ظاہر تھا ۔۔ بات ہی ایسی تھی ۔۔۔ایسے شخص نے کی تھی وہ آرام سے یقین کیسے کر لیتی !
سو ہونق ترین شکل بنائے زمان خان کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔
"میں نے کہا کھائو اسے ۔۔۔ اس سب کو !"
"کہیں اس نے کھانے میں زہر تو نہیں ملایا ؟
نشہ آوار دوا ۔۔۔
یہ کیا کرنا چاہتا ہے ؟
مقصد کیا ہے اس کا ؟
اتنا تو میں جانتی ہوں یہ کوئی اچھا انسان نہیں ہے ۔۔۔"
اس کے ذہن میں ابھرتے سوال ایک بار پھر اس کے چہرے پر لکھے آئے تھے ۔۔۔
جنہیں پڑھتا زمان خان ایک بار پھر مسکرایا تھا ۔۔
"تمہارے پاس دو آپشن ہیں ۔۔۔
یا تو ڈنڈے کھائو یا یہ سب ۔۔۔"
زمان خان کے چہرے اور لہجے سے جھلکتی سنجیدگی پر حلق تر کرتے ہوئے اس نے جھجھکتے ہوئے ایک نوالہ توڑ کر منہ میں ڈالا تھا ۔۔۔۔
"آہ ۔۔۔ ایسا ذائقے دار کھانا ۔۔۔۔۔ "
وہ تو بس دال ،آلو ، حلیم چاول پر یا کبھی جب بڑا ہاتھ مارتی تو ایک پلیٹ بریانی ۔۔۔ گھر کی اور بھی بہت سی ضروریات تھیں جو اسے اس عیاشی سے روکتی تھیں۔ ۔۔ پھر نشے کا عادی باپ ۔۔۔
جسے یہ جاننے میں کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی کہ وہ پیسے لاتی کہاں سے ہے ۔۔۔۔
بس مار پیٹ کر چھینتا اور نکل پڑتا ۔۔۔
کچھ وہ چوری کرتی بھی صرف تب ہی تھی جب کبھی اشد ضرورت ہوتی ۔۔۔
خیر اس وقت وہ کچھ نہیں سوچنا چاہتی ایک نوالہ پیٹ میں کیا گیا پیٹ میں آگ ہی بھڑک اٹھی تھی ۔۔
تین روٹیاں اور ایک پلیٹ بریانی ۔۔
پلیٹوں سے سالن کا بھی مکمل صفائہ ہو چکا تھا ۔۔۔۔
سلاد سے آخری کھیرے کا ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال کر اس نے جیسے نیند سے جاگ کر زمان خان کو دیکھا تھا ۔۔۔ کچھ کہنے کی کوشش کی تھی جب ایک لمبی سی ڈکار نے شرمندہ کرا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔
ہاتھ چہرے کے آگے ہلاتے ہوئے زمان خان نے جھک کر کاغز پر کچھ لکھا تھا ۔۔۔
"یہ بل ہے ۔۔۔۔"
بے یقینی سے اپنی طرف بڑھائے گئے کو کاغز کو دیکھتے ہوئے اسے زمان خان کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا تھا ۔۔۔
اور کچھ دیر بعد جب اس کی چال سمجھ آئی تب تپ کر بولی ۔۔۔
"کھانے میں زہر ملا دیتے سر جی ۔۔۔ غریب سے یہ مزاق نہیں کرتے ۔۔
جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں ہے ۔۔
جو ہاتھ لگا تھا وہ اب آپ کی جیب میں ہے ۔۔"
اس بات کا بھی اسے بڑا قلق تھا ۔۔۔
بٹوہ واپس مالک کو لوٹانے کی جگہ وہ بڑے مزے سے اپنی جیب میں ٹھونس چکا تھا ۔۔۔۔
"دو دن کا وقت دے رہا ہو میں تمہیں ۔۔ دو دن بعد پیسے یہاں لا کر رکھ دینا ورنہ تمہاری گلی سے پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے پھنکوائوں گا ۔۔۔
نہیں تو تم سمجھ کیا رہی تھیں ؟
میں ترس کھا کر تمہاری دعوت کر رہا ہوں ؟"
"نہیں خیر ۔۔۔۔ ایسی تو کوئی امید مجھے بلکل نہیں تھی آپ کی نیکیوں کے ڈنکے دور دور تک سنائی دیتے ہیں ۔۔۔ مجھے بھی سنائی دیئے ہیں "
اس کے جل کر کہنے پر زمان خان کا قہقہ بیساختہ تھا ۔۔۔
"ویری گڈ ! اب جا سکتی ہو ۔۔۔
بہت سستے میں چھوڑ رہا ہوں ۔۔۔ ساری زندگی یہ احسان یاد رکھنا ۔۔۔
ورنہ ڈنکے تو تم نے سنے ہی ہیں ۔۔"
کوفت زدہ سی ایک نظر اس پر ڈال کے وہ دروازے کی طرف بڑھی ہی تھی جب وہ پھر سے پکار بیٹھا ۔۔۔
ڈھیلے سے انداز میں پلٹ کر اس نے سوالیا انداز میں شانے اچکائے ۔۔۔
"پھر سے کوئی ورادت کرتی پکڑی گئیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔"
"ہنہ ! جیسے بڑے فرض شناس افسر ہیں "
دل ہی دل میں بڑبڑاتی وہ ایک بار پھر جانے کے لیئے پلٹی تھی جب ایک بار پھر پکارے جانے پر مٹھیاں بھینچتی دانت پر دانت جمائے واپس اس کی طرف گھومی تھی جو کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے کرسی آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر گھماتا اس کے تاثرات کے مزے لے رہا تھا ۔۔۔
"جواد !!! یہ سوال سب سے پوچھنا چاہیے تھا لیکن خیر ۔۔۔ اصل نام کیا ہے تمہارا ؟ جویریہ ؟ جمیلہ ؟ دانیہ ؟ ہمم؟
"جاناں !!"
پھاڑ کھانے والے انداز میں نام بتا کر وہ پیر پٹختی آفس سے باہر نکل گئی تھی اور پیچھے زمان خان زیر لب نام دہرا کر گنگنانے لگا تھا ۔۔۔
"جاناں جاناں
جاناں چہ پاکے اوسے "
*********