میکس بیر بوہم
مترجم: ممتاز احمد خان
جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے صحیح طورسے کسی کو الوداع کہنا نہیں آتا کیونکہ یہ مجھے دنیا میں سب سے مشکل کام نظر آتا ہے۔ شاید آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو۔
کوئی شخص اگر کسی قریب کی جگہ جا رہا ہو تو اسے خدا حافظ کہنا آسان ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اس وقت بنے گا جب کوئی دوست بہت دور اور بہت لمبے عرصے کے لیے جا رہا ہو اور اگر یہ دوست ہمارا لنگوٹیا یار ہو تو الوداع کہنے میں ہم زیادہ ناکام ہوتے ہیں اس لیے کہ ہم اپنے اصل جذبات کو پوری شدت کے ساتھ آشکار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
جب ہم کسی دوست کو گھر کی دہلیز یا اپنے کمرے ہی سے الوداع کہتے ہیں تو یہ کام آسان ہوتا ہے۔ نہ ہم جذباتی ہوتے ہیں اور نہ وہ جذباتی ہوتا ہے۔ ہمارے الفاظ ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور کسی بدمزگی کا بھی امکان نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک یہ آئیڈیل الوداع ہے۔ لیکن اگر وہ ہم سے یہ درخواست کرے کہ ہم اسٹیشن پر آنے کی زحمت نہ کریں اور ہم اس کے الفاظ کو نظر انداز کر دیں اور اسٹیشن پہنچ کر ہی دم لیں تو سمجھ لیجئے کہ یہیں سے گڑبڑ شروع ہو گئی۔ اس لیے کہ ہم اپنے دوست سے جی بھر کر باتیں کر ہی چکے ہیں لیکن اپنی محبت میں اسٹیشن پر بھی وارد ہو چکے ہیں اور کبھی تو ہم دونوں کچھ باتیں کر لیتے ہیں اور کبھی بڑی دیر تک محض ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں جیسے کہ گونگے ہوں! اور اس دوران ہم بے چینی سے ادھر ادھر بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ خدایا سگنل کیوں نہیں ڈاؤن ہوتا اور گارڈ وہسل کیوں نہیں بجاتا؟
ابھی پچھلے ہفتے ہی، ایک دوست کو الوداع کہنے کی غرض سے ہمیں بوسٹن پہنچنا پڑا۔ موصوف کو ایک دن قبل ہم ڈنر پر مدعو کر چکے تھے۔ اس ڈنر میں جہاں رنگینی تھی وہیں ان سے جدا ہونے کا غم بھی شامل تھا۔ یہ صاحب امریکہ جا رہے تھے۔ ہمیں علم تھا کہ وہ لمبے عرصے بعد واپس آئیں گے اور ہم انھیں یہ باور کرا چکے تھے کہ ان کی جدائی سے جو خلا پیدا ہو گا وہ آسانی سے پر ہونا مشکل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم انہیں ایک شاندار الوداع دے چکے تھے مگر صاحبو! اس کا کیا کیا جائے کہ ہمیں ان کو چھوڑنے اسٹیشن پربھی جانا پڑا جہاں ہمارے ذہن سے الوداع کے موقع پر ادا کرنے والے الفاظ ختم ہو چکے تھے۔ ہمارے ساتھ اب یہ مصیبت تھی کہ ان سے مزید کیا باتیں کی جائیں؟ بہرصورت ہم نے ان سے پوچھا: ’’آپ نے سب سامان رکھ لیا ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ انھوں نے ایسا جواب دیا جیسے خالی الذہن ہوں۔
’’دوپہر کا کھانا تو آپ ٹرین میں کھائیں گے۔‘‘ ہم نے رٹا رٹایا سوال کیا۔
’’جی بالکل۔‘‘
چند لمحوں تک ہم ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ پھر میں نے پوچھا: ’’یہ ٹرین کریوے پر تو رکے گی؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ ہمارے دوست نے زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
پھر ایک وقفہ ہوا۔ ہم دونوں میں سے کوئی کھانسنے لگا۔ یہ بھی کچھ نہ بولنے کا بہانہ تھا اور ہم دل میں جزبز ہو رہے تھے کہ یہ کم بخت ٹرین آخر کھسکتی کیوں نہیں؟ تاکہ ہم دونوں کو اس خواہ مخواہ کی الوداعی کاروائی سے نجات ملے۔
مزید نہ بولنے کے لیے ہم نے برابر والے کمپارٹمنٹ کی طرف نگاہ اٹھائی۔ وہاں ایک ادھیڑ عمر شخص ایک نوجوان امریکی لیڈی سے باتیں کر رہا تھا۔ ہم نے اندازہ لگا لیا کہ یہ اس عورت کو الوداع کہنے آیا ہے اور شاید اس کا باپ ہے۔ ہم اس شخص کو کچھ کچھ پہچاننے بھی لگے تھے مگر ہمارے کانوں تک اس کے الفاظ نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ اور پھر اچانک ہم اسے پہچان گئے۔ یہ ہیوبرٹ لے راس تھا، وہ سات آٹھ سال میں اس قدر بدل گیا تھا کہ اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ مجھے یاد آیا کہ ماضی میں جب وہ بے روزگار تھا مجھ سے اس نے آدھے کراؤن کا قرضہ لیا تھا۔ اسے قرضہ دے کر ہمیشہ خوشی ہوتی تھی۔ وہ بہت ہی با اصول اور مستعد تھا لیکن وہ لندن کے اسٹیج پر کیوں کامیاب نہ ہو سکا یہ ایک معمہ ہے۔
اب وہ خوش حال نظر آ رہا تھا اور پہلے کی بہ نسبت وہ کچھ صحت مند ہو گیا تھا اس لیے میں اسے فوراً پہچان نہیں پایا۔ مجھے محسوس ہوا گویا وہ کوئی بنکار ہے اور جسے وہ شخص خدا حافظ کہنے آیا ہے اسے ضرور فخر کا احساس ہو گا۔
’’مہربانی فرما کر ذرا پیچھے ہٹ جائیے۔‘‘ امریکی لیڈی نے آہستہ سے کہا اس لیے کہ ٹرین کھسکنے لگی تھی۔ میرا دوست ہیوبرٹ لے راس پیچھے ہٹ گیا۔ مگر وہ پھر ذرا سا آگے کو بڑھا اور چند ایسے الفاظ کہے جو میں نہ سن سکا۔ البتہ ہم نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ جب تک ٹرین نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی وہ ہاتھ ہلاتا رہا۔ بعد میں وہ ہماری جانب متوجہ ہوا گرم جوشی کا وہی عالم تھا۔ وہ میری خیریت دریافت کرتا رہا۔ اس نے مجھے یاد دلایا کہ وہ اخبار میں میرے تبصرے پڑھتا رہتا تھا جو میں اس کی اداکاری سے متعلق لکھا کرتا تھا۔ میں نے اسے احساس دلایا کہ اب جبکہ وہ اسٹیج پر نہیں ہے تو میں گزشتہ سالوں سے اس کو کتنا یاد کرتا ہوں۔ اس پر وہ کہنے لگا: ’’میں اب اسٹیج کے بجائے پلیٹ فارم پر کام کرتا ہوں۔‘‘
’’پلیٹ فارم پر!‘‘ میں نے چونکتے ہوئے کہا ’’شاید آپ کنسرٹ وغیرہ میں حصہ لیتے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔ میں اسی پلیٹ فارم پر کام کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی چھڑی پلیٹ فارم پر زور سے ماری۔ اور میں سوالیہ نشان بنا اسے دیکھنے لگا۔
پھر وہ گویا ہوا: ’’بات یہ ہے کہ وہ ہزاروں امریکی حضرات و خواتین جو انگلینڈ آتے تھے تو اپنے ساتھ تعارفی خطوط لاتے تھے تاکہ یہاں مقامی لوگوں کے ساتھ رہیں اور چلتے وقت وہ انہیں خدا حافظ بھی کہیں۔ لیکن چونکہ انگریز اس قدر مہذب میز بان اور عجز و انکساری کے پیکر نہیں رہے تو یہاں سے گزرنے والے یا یہاں کا دورہ کرنے والے امریکیوں کے لیے مسئلہ پیدا ہو گیا۔ لہٰذا ہمارے یہاں اینگلو امریکن سوشل بیورو AASB وجود میں آ گیا جو امریکیوں کو انگلستانی میزبان فراہم کرتا ہے تاکہ انہیں دیار غیر میں اجنبیت کا احساس نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے پچاس فیصد رقم انگلستانی میزبان کو ادا کر دی جاتی ہے۔ لیکن میں اینگلو امریکن سوشل بیورو کا ڈائرکٹر نہیں ورنہ بڑا امیر شخص ہوتا۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’تو آپ کیا ہیں؟‘‘
وہ بولا: ’’میں الوداع کہنے پر مامور ہوں یعنی بیورو کی طرف سے امریکیوں کو خدا حافظ کہنے کا فریضہ انجام دیتا ہوں تاکہ وہ رنجیدہ نہ ہوں کہ ان کو کوئی بھی الوداع کہنے والا نہیں … برادر آپ سمجھ گئے ناکہ میں سیئر آف seer-off ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’لیکن ہماری آنکھوں میں جو آنسو تھے وہ حقیقی تھے مگر تم تو مصنوعی جذبات رکھتے ہو۔ تمہاری آنکھوں میں جو آنسو تھے وہ؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’میں بھی ایکٹنگ نہیں کرتا۔ الوداع کہتے وقت جذبات موجزن ہوتے ہیں اور میں آبدیدہ ہو جاتا ہوں۔ مگر تم ایک غیر شخص کے لیے رونے کی اداکاری نہیں کر سکتے … بالکل نہیں کر سکتے۔‘‘
میں نے چیختے ہوئے گزارش کی: ’’خدا کے لیے یہ ایکٹنگ مجھے بھی سکھا دو۔‘‘
’’اس نے فوراً ایک ڈائری نکالی اور بولا: ’’اس وقت میرے پاس سیئر آف کی ٹریننگ کے لیے کئی شاگرد ہیں۔ میں تمہیں منگل اور جمعہ کو الوداع کہنے کی تربیت کے لیے ایک گھنٹہ دے سکتا ہوں۔‘‘
میں نے اس کی تربیت کی شرائط غور سے سنیں اور دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ الوداع کہنے کی تربیت لینا میرے لیے بہت سود مند ہو گا اور دیکھئے نا میں نے شروع ہی میں کہا تھا کہ مجھے صحیح طور سے کسی کو الوداع کہنا نہیں آتا مگر ہیوبرٹ لے راس سے تربیت لے کر مجھے یہ مشکل کام انجام دینے میں آسانی ہو جائے گی۔
٭٭٭