چارلس لیمب
مترجم: سلیم آغا قزلباش
چند ہفتے قبل کی بات ہے کہ علالت کے ایک نہایت شدید دورے نے اعصابی بخار کی صورت مجھے میری ذات میں محبوس کیے رکھا، لیکن اب یہ دبے پاؤں الوداع ہو رہا ہے اور مجھے اس حد تک نحیف و نزار کر گیا ہے کہ میں اب اس کے سوا کسی دوسرے نئے موضوع کے بارے میں کچھ کہنے سننے کے قابل نہیں ہوں۔ لہٰذا محترم قاری! اس ماہ تم مجھ سے کسی قسم کی صحت مند باتوں کی امید نہ رکھو۔ میں تو فقط تمھیں صاحب فراش لوگوں کے خوابوں کی پیش کش ہی کر سکتا ہوں۔
سچ پوچھئے تو یہ بیماری والی روح پرور کیفیت کچھ اس نوعیت کی ہے … (بلکہ اس کے علاوہ اور کچھ ہو بھی کیا سکتی ہے!) کہ یہ آدمی کے لیے ایک سندر سپنا ہے … سپنا کہ وہ بستر پر دراز ہو جائے اور اپنے اوپر دن کی روشنی کو روکنے والے پردے تان لے اور پھر سورج کی تمازت سے خود کو پوری طرح محفوظ و مامون کر لے تاکہ وہ ان امور سے مکمل تغافل برت سکے جو اس کی روشنی میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ ایسے ہی ہے جیسے آدمی ایک لاغر سی دھڑکن والی نبض کے سوا دیگر تمام معاملات دنیا سے یکسر بے نیاز ہو جائے اگر کہیں کوئی شاہانہ طرز کا گوشہ تنہائی ہے تو وہ فقط بستر علالت ہے۔ مریض اس پر حکومت کرتا ہے اور ہرقسم کی متلون مزاجیوں کا بغیر کسی روک ٹوک کے مظاہرہ کرتا ہے اور شاہانہ مزاج طور طریقوں سے اپنے تکیے کو آگے پیچھے جنبش دیتا ہے مثلاً وہ اپنی پھڑکتی کنپٹیوں کے مسلسل بدلتے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تکیے کو گراتا ہے، اچھالتا ہے، بار بار اس کی جگہ تبدیل کرتا ہے، اسے دوہرا کرتا ہے اور اس پر زور سے ہاتھ مارتا ہے یعنی کسی سیاست دان سے بھی کہیں زیادہ جلدی جلدی وفا داریاں بدلتا ہے … ابھی بالکل چت لیٹا ہے، پھر آدھا سمٹ گیا ہے، اب آڑا ہو گیا ہے، عرضاً لیٹ گیا ہے، اب حسب ضرورت پہلو بدل رہا ہے۔ اب سر اور پاؤں بالکل بستر کے آر پار کیے ہوئے ہے، لیکن دوسرا کوئی بھی اسے ان قلابازیوں پر مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ چار پردوں کے بیچ وہ بالکل شانت ہے۔
علالت تو آدمی پر اس کی اپنی ذات کی اتنی پرتیں منکشف کر دیتی ہے کہ وہ خود کو بھی محض ایک مخصوص شے سمجھنے لگتا ہے اور پھر اس کے ہاں انتہائی خود غرضی بصورت اکلوتی ذمہ داری جنم لیتی ہے جو اس کے لیے قانون کی دو شقوں کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے سوائے اس کے کچھ سوچنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی کہ تندرست کیونکر ہوا جائے۔ در دیوار کے باہر یا ان کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ وہ ان سب سمع خراشیوں پر دھیان نہیں دیتا تاکہ وہ اسے کوفت نہ پہنچائیں۔
تھوڑی دیر پہلے وہ اپنے کسی عزیز ترین دوست کے اس مقدمے کی تیاری کے سلسلے میں انتہائی متردد دکھائی دیتا تھا، جو اس کے (یعنی دوست کے لیے) زندگی اور موت کا درجہ رکھتا تھا اور اس ضمن میں اسے بہ ہزار دقت سہی اپنے دوست کی خاطر قصبے سے پچاس کلو میٹر تک کی قلیل مسافت کو جلد از جلد طے کر کے پہنچنا تھا تاکہ وہ اس کے گواہ کو روانہ کرے اور اس کے وکیل کو یاد دہانی کرائے کیونکہ کل ہی تو اس مقدمے پر کار روائی ہونا تھی مگر اب وہ خود اس مقدمے کے سلسلے میں کلی طور پر غیر جانب دار نظر آتا ہے، جیسے یہ دور پیکنگ میں ہونے والے کسی مقدمے کی سماعت ہو اور چارہ جوئی سے پہلے ہی کسی نہ کسی طور عدالتی کار روائی کے سلسلے میں یہ سرگوشیاں گردش میں آ گئی ہوں کہ عدالت اس مقدمے کی سماعت کے لیے تیار نہیں ہے اور یہیں سے اس کے لیے یہ باور کر لینا کافی ہے کہ کل عدالت میں معاملات خلاف توقع پیش آ گئے تھے اور اس کا دوست تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ لیکن اب لفظ ’دوست‘ اور لفظ ’برباد‘ اس کے نزدیک ایک پھوہڑ بولی سے قطعاً زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ اسے چنداں ضرورت نہیں کہ وہ کسی چیز کے متعلق سر کھپائے سوائے اس بات کے بارے میں کہ کس طرح رو بہ صحت ہوا جائے … کیسی اچھوتے خیالات کی حامل دنیا اس سوچ بچار والی مسحور کن کیفیت سے آشکار ہوتی ہے!
اس نے اپنی علالت کی مضبوط زرہ بکتر پہن لی ہے، وہ نامساعدحالات کی کھال میں لپیٹا جا چکا ہے۔ وہ اپنی ہمدردی کو کسی انمول دخت رز کے مانند قابل اعتبار تالے چابی میں سنبھال کر رکھتا ہے لیکن فقط اپنے استعمال کی خاطر ہی! وہ لیٹے لیٹے خود ترحمی میں مبتلا ہو جاتا ہے، اپنی حالت زار پر گریہ کرتا اور آہیں بھرتا ہے اور اپنے اوپر ہی فدا ہوتا رہتا ہے اور یہ سوچ کر کہ وہ کیا کچھ بھوگ رہا ہے اس کے فضلات بھی خود اس کے اندر ہی اندر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ وہ خود پر آنسو بہانے میں قطعاً عار محسوس نہیں کرتا اور وہ ہمہ وقت اس منصوبہ بندی میں جتا رہتا ہے کہ خود کو جیسے تیسے خوشی بہم پہنچائے … معمولی مطالعہ والی تراکیب سے، مصنوعی ترفعات کی امداد سے … وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتا ہے کرتا ہے … اپنے آپ کو قابل حصول فکشن کے مطالعہ کے ضمن میں اتنے ہی زیادہ سے زیادہ تعداد کے ممتاز افراد میں تقسیم کر لیتا ہے جتنے کہ اس کے اپنے دکھی اور مغموم افراد خانہ ہوں۔ بعض اوقات وہ کچھ یوں مستغرق ہو جاتا ہے جیسے وہ اپنے سے باہر کوئی اور وجود رکھتا ہو… کہ جس کے دکھتے ہوئے غریب سرکے اوپر ایک مستقل نوعیت کا بوجھل درد موجود ہے جو گزشتہ تمام شب اس کے اندر لیٹے لیٹے سوتا اور جاگتا رہا ہے اور کسی لکڑی کی گیلی یا درد کے وجود کی صورت میں اسے لگاتار محسوس ہوتا رہا ہے اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے، یہ شاید اس سمے تک ختم نہ ہو سکے گا جب تک اس کی پوری کھوپڑی کو آگے تک کھول کر نہ رکھ دیا جائے۔ پھر وہ اپنی لکڑی جیسی لمبی خشک اور پتلی یخ بستہ انگلیوں پر رحم کھانا شروع کر دیتا ہے۔ وہ خود ہی پوری طرح اپنے آپ پر ترس کھانے والا بن جاتا ہے۔ گویا اس کا انسانیت سے مملو بستر نہایت درد مندی سے ترتیب دیا ہوا ہے۔ وہ خود ہی اپنا پرسان حال ہے، اپنے آپ سے ہمدردی جتلانے والا ہے اور جبلی طور پر وہ محسوس کرتا ہے کہ دوسرا کوئی بھی شخص اس کے مقابلے میں بہتر طریق سے یہ فریضہ انجام دینے پر قادر نہیں۔ وہ اپنے اس المیے کے لیے کسی قسم کے ناظر کی پروا نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں صرف اس ضعیف العمر نرس کا پابند وقت چہرہ اسے بھاتا ہے جو اس کے لیے تیار شدہ یخنیوں اور مفرح چیزوں کی آمد کا اعلان کرتی ہے۔ وہ اس چہرے کو پسند کرتا ہے کیونکہ یہ اس وقت تک اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اس کے روبرو کپکپی والے جھٹکوں کے ساتھ، اپنے بستر کی چوکی پر پیچھے کو ٹیک لگا کر لیٹے لیٹے ہی ان چیزوں کو اپنے اندر انڈیل نہ لے۔
معاملات دنیا کے اعتبار سے وہ مر چکا ہے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتا کہ فانی لوگوں کی مصروفیات اور مشاغل کس نوعیت کے ہیں۔ اسے صرف اس سمے کچھ کچھ اس قسم کا تھوڑا بہت جھلملاتا ہوا سا وہم گزرتا ہے جب ڈاکٹر اپنی معمول کی پرسش احوال پر آتا ہے۔ ڈاکٹر کے مصروف کار چہرے پر ابھری ہوئی شکنوں سے مریضوں کی کثرت کا اسے قطعاً کوئی اندازہ نہیں ہو پاتا کیونکہ وہ اپنے تئیں نہایت غیر محسوس طور پر یہ خیال کرتا ہے کہ جیسے وہی تو واحد مرد بیمار ہے۔ کسی تکلیف دہ بگھی پرسوار ہونے کے لیے یہ بھلا آدمی اپنے چھوٹے سے ہینڈ بیگ کو دھمک وغیرہ سے محفوظ رکھنے کی خاطر اسے نہایت احتیاط سے لپیٹتے ہوئے جب بڑی عجلت میں اپنے چیمبر سے برآمد ہوتا ہے تو کیا اسے اس بات کا کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس سمے کس کو محظوظ کرنے جا رہا ہے؟ … وہ تو روزانہ محض عین اسی وقت کے معمول والے پھیرے کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے۔
امور خانہ داری سے متعلق افواہیں اسے قطعاً نہیں بھاتیں، کچھ معمولی نوعیت کی سرگوشیاں جو گھر کے اندر رواں دواں زندگی کی مظہر ہیں … اسے تسکین مہیا کرتی ہیں جب کہ وہ بخوبی اس بات سے آگاہ نہیں کہ ان کی نوعیت کیا ہے! اسے کسی چیز کے متعلق کچھ جاننے یا کسی چیز کے بارے میں کچھ غور و خوض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خدمت گزاروں کا فاصلے پر موجود سیڑھیوں کے اوپر چڑھنا یا اترنا یوں جیسے کہ وہ مخمل کے اوپر محتاط قدموں سے چل پھر رہے ہیں، اس کی سماعت کو اس لمحے تک غیر محسوس طور پر بیدار کیے رکھتا ہے جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو مزید ان کے قلیل مسافت طے کرنے کے عمل سے متعلق قیاس دوڑانے والی پر مشقت اذیت سے باز نہ رکھ لے۔ زیادہ علم و فضل اس کے لیے ایک بار گراں ہے۔ وہ تو بمشکل ایک مفروضے کا ہی بوجھ برداشت کر سکتا ہے۔ وہ صفائی ستھرائی کرنے والے کی جھاڑ پونچھ کی آواز سن کر آنکھیں آہستگی سے وا کرتا ہے اور یہ پوچھے بنا کہ وہ کون تھا، دوبارہ اپنی آنکھیں موندھ لیتا ہے۔ وہ اس عمومی بازپرس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتا کہ اس کے متعلق استفسارات ہو رہے ہیں۔ لیکن وہ پوچھنے والے کا نام نامی جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ گھرکی عمومی خاموشی اور کرب انگیز ٹھہراؤ میں وہ بالکل چت لیٹ کر اپنی اس مطلق العنانی کو محسوس کرتا ہے۔
علیل ہونے کا مطلب ہے شاہانہ طرز کے امتیازی استحقاق سے لطف اندوز ہونا۔ محتاط قدموں والی چال اور چپ چاپ قسم کی خدمت گزاری کا موازنہ فقط آنکھ کے وسیلے ہی سے ممکن ہے کہ جس میں سے یہ ساری خدمت گزاری (جب کہ وہ خود کو نسبتاً بہتر محسوس کر رہا ہو) تو عدم توجہی پر مبنی رویے اور پہلے والے خدمت گزاروں کی اندر اور باہر آنے جانے والی غیر رسمی کار روائی۔ (یعنی دروازوں کو دھڑام سے بند کرنا یا انھیں کھلا ہی چھوڑ جانا) بخوبی مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ اور آپ تو اس بات کو تسلیم کریں گے کہ بستر علالت (مجھے کم از کم اسے تخت شاہی کہنے کی اجازت دیجئے) سے اتر کر آرام دہ بازوؤں والی کرسی تک آنا، مرتبے سے گرنا اور بے وقعتی کا شکار ہونا ہے۔ دیکھئے کہ رو بصحت ہونے کا عمل کس طرح آدمی کو سکیڑ کر دوبارہ اسے اس کی اولین ہیئت میں بدل ڈالتا ہے! جس جگہ اب خلا ہے اور جہاں پر وہ خود اپنی اور اپنے اہل خانہ کے اندازے سے بڑی تاخیر سے قبضہ جما پایا ہے … اس کی شاہانہ عظمتوں کا نظارہ، اس کا کمرۂ عدالت جو کہ اس کی جلوہ نمائی والی خلوت گاہ تھا… اور جہاں دراز ہو کر وہ اپنی متشدد اور متلون سوچوں کو عملی جامہ پہنایا کرتا تھا… کس طرح سمٹ کر ایک عام سی خواب گاہ بن گیا ہے! اس ایک بستر والی نک سک سے درست حالت کچھ یوں ہی سی اور بے معنی سی ہو کر رہ گئی ہے، جسے اب روزانہ سنوارا جاتا ہے اور یہ ان لہریلی اور سینکڑوں سلوٹوں والی سطح بحرسے کس قدر مختلف ہے جو اگلے وقت کے حساب سے اب کچھ انتہائی قلیل مدت کے دورانیہ کے بعد نمودار ہونے لگی ہے۔ جب کہ پہلے پہل اس کو سنوارنے والا فریضہ ادا کرنے کے لیے تین یا چار روز سے پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ان دنوں بیچارے مریض کو درد اور اذیت کے باوجود کچھ دیر کے لیے صفائی ستھرائی والی ناخوشگوار دخل اندازیوں کے نام پر (جن پراس کا جھنجھوڑا ہوا وجود ناپسندیدگی کا اظہار کرتا) بستر پر سے اٹھا لیا جاتا تھا اور پھر آیندہ تین یا چار دنوں تک کے آرام دہ وقفے کے بعد اسے اٹھا کر دوبارہ اسی بستر پر لٹا دیا جاتا تھا تاکہ وہ دوبارہ اس پہلی سی صورت حال میں تبدیل ہو جائے جس میں بستر پر پڑنے والی ہر تازہ شکن کسی بدلے ہوئے زاویے، کسی تکلیف دہ کروٹ یا قدرے سکون آور جنبش پر مبنی ایک تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتی تھی اور جلد کا سکڑا ہوا دماغ، بستر کو ڈھاپنے والی چرمر چادر کے مقابلے میں زیادہ سچی کہانی سناتا تھا اور وہ پراسرار آہیں اور خرخراہٹیں جو ضرورت سے کچھ زیادہ تکلیف دہ ہوں، آنا بند ہو جاتی تھیں۔ اس وقت ہمیں اس بات کا علم تک نہیں ہو پاتا تھا کہ یہ سب کس نوع کے پر اذیت طویل و عریض مخفی غار سے برآمد ہوئی تھیں … درد کی ٹیسیں مدھم ہو چکی ہیں۔ علالت کی پہیلی بوجھی جا چکی ہے اور فیلوس ایک ادنیٰ شخص بن کر رہ گیا ہے۔ شاید بیمار آدمی کے عالی شان خواب دیکھنے کی کچھ باقیات طبی خدمت گار کی ہنوز جاری رہنے والی مختصر سی پرسش احوال کی شکل میں موجود ہیں، لیکن وہ خود دوسری تمام چیزوں کی طرح کس قدر تبدیل ہو گیا ہے! کیا یہ وہی شخص ہے … وہی باخبر آدمی، خوش گپیاں لگانے والا اور چٹکلے سنانے والا جو سبھی کچھ تھا بجز ایک طبیب کے؟… کیا یہ وہی ہے جو مریض اور اس کے ظالم دشمن کے بیچ آ کھڑا ہوا تھا، جیسے کہ وہ فطرت کا کوئی ایسا مقدس پیغام بر ہو جس نے اپنے آپ کو عالی مرتبت مجلس مراقبہ میں ایستادہ کر لیا ہو؟… خدایا! یہ شخص تو اب کوئی بڑھیا نظر آتا ہے!
اس کے ساتھ ہی وہ سبھی کچھ رخصت ہو جاتا ہے جو بیماری کو عالی شان بناتا ہے …وہ دورانیہ کہ جس نے گھر کے کام کاج کو ٹھپ کر کے رکھ دیا تھا… صحرا جیسا سکوت جو ہمہ وقت ایک تواتر کے ساتھ محسوس ہوتا تھا… صم بکم نوعیت کی مریض کے پاس رہنے والی حاضری… آنکھوں ہی آنکھوں میں کی جانے والی پرسش احوال … اب تلک محسوس کی جانے والی نازک تر لطافتیں … روح اور علالت کی یکہ و تنہا نگاہ جو خود پر مرتکز رہتی تھی … جس میں سے باقی ماندہ تصوراتِ دنیا منہا ہو جاتے تھے … دنیا جو آدمی کے اندر رچی بسی ہوتی ہے … جس کا اپنا ایک رہس ہے:
دیکھو وہ ایک داغ میں تبدیل ہو گیا
مدیر محترم! مجھے تمہاری چٹھی ملی جس میں ایک عدد مضمون کی فرمائش کی گئی ہے، مگر ایسے حالات میں کہ میں رو بصحت ہونے کی اس غیر متغیر دلدل میں جکڑا پڑا ہوں، جسے بیماری کا جوار بھاٹا اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے اور جو مکمل صحت یابی کی توانا حالت سے بہت دور ہے … تمہاری اس فرمائش کو پورا کرنا میرے لیے کتنا دشوار ہے … کیونکہ فقرہ بازی (ہر چند کہ وہ لغو ہوتی ہے) کا ملکہ مجھ میں ماند سا پڑ گیا ہے … بے وقت کے اس اطلاع نامے نے اس بیہودہ کاروبار حیات اور متحرک زندگی سے از سر نو میرا ناطہ جوڑ دیا ہے جو میری نگاہوں سے اوجھل ہو چکی تھی اور انہماک ذات کی اس خواب آگیں حالت سے مجھے منقطع کر دیا ہے جس میں میں عرصہ دراز تک بحالت بیماری پڑا رہا… وہ حالت جس میں مجھے دنیا کی مملکتوں اور ان کے ادب اور قانون سے کوئی واسطہ ہی نہیں رہ گیا تھا۔ تاہم مراقبہ کی یہ حالت اب ختم ہونے کو ہے۔ میرے متخیلہ کا وہ پھیلاؤ جو بیمار آدمی کے ہاں اپنے انفرادی دکھ کا عرفان حاصل کرنے کے عمل میں مزید پھیل جاتا ہے، اب سمٹنے لگا ہے اور خود پسندی کا وہ دیو (جو میں بن چکا تھا) اب دوبارہ اپنے فطری قد میں لوٹ آیا ہے، یعنی وہ ایک معمولی سے انشائیہ نگار کے کمزور اور ناتواں پیکر میں ایک بار پھر ڈھل گیا ہے۔
٭٭٭