سر فرانسس بیکن
مترجم: انور سدید
کتابیں پڑھنا مسرت کا وسیلہ ہے۔ اس سے لیاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسے زیبائشِ ذات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گوشہ خلوت میں کتابوں کا مطالعہ داخلی سرخوشی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ شامِ دوستاں یا مجلسِ مباحثہ میں کتابوں کا ذکر نمائشِ ذات کے لیے ہوتا ہے۔ فرائضِ منصبی اور عقلِ سلیم کو بروئے عمل لانے کا مطالعہ فرد کی علمی قابلیت کا آئینہ بن جاتا ہے۔ ماہرین بعض امورِ خاص کو اپنی عقلِ سلیم سے سلجھا کر بتدریج وجود میں لا سکتے ہیں لیکنِ امورِ عامہ، معاملات، حیات اور تفکر و تدبر کے لیے اہلِ علم ہی موزوں ثابت ہوتے ہیں۔
مطالعہ میں غیر معمولی طور پر زیادہ وقت صرف کرنا تساہل کے مترادف ہے۔ اسے نمائشِ ذات کے لیے استعمال کرنا تصنّع ہے۔ عقلِ سلیم کو کلیّۃً کتابی ضوابط کا تابع بنا دینا ایک عالم کا وطیرہ ہے۔ مطالعہ انسانی فطرت کی تکمیل کرتا ہے لیکن مطالعہ کی تکمیل تجربہ کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ انسان کی صلاحیت اس نخلِ خود رو کی طرح ہے جس کی شاخ تراشی دقتِ نظر سے کی جاتی ہے اور مطالعہ چونکہ فکر و خیال کی سب حدود کو پاٹتا چلا جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اسے تجربہ کے ساتھ وابستہ رکھا جائے۔
چالاک آدمی مطالعہ کی تحقیر کرتا ہے۔ سادہ انسان کتاب بینی کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اہلِ خرد مطالعہ سے استفادہ کرتے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ مطالعہ فی نفسہ استعمال کی چیز نہیں بلکہ اس سے بالاتر وہ دانش ہے جو تجربہ اور مشاہدہ سے حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کو اس خیال سے نہ پڑھئے کہ اس کے مطالعہ سے آپ کسی مسئلہ کی تردید یا بطلان کر سکیں گے۔
کسی چیز پر مہرِ تسلیم و رضا ثبت کرنے یا اپنے ایقان کو اثبات فراہم کرنے کے لیے بھی مطالعہ نہیں کرنا چاہئے۔ مطالعہ کا مقصد معاملہ بندی یا چرب زبانی نہیں ہے۔ بلکہ مطالعہ تو صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ آپ کی فکر بیدار ہو اور آپ تقابل و موازنہ کر سکیں۔
کتابوں کی کئی قسمیں ہیں کچھ کتابیں صرف چکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ بعض کو یوں ہی نگل جانا مناسب ہوتا ہے۔ معدودے چند کتابیں ایسی ہوتی ہیں آہستہ آہستہ چبانا اور پھر ہضم کرنا ضروری ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض کتابیں صرف جزوی طور پر پڑھی جاتی ہیں۔ کچھ کتابیں پڑھی تو جاتی ہیں لیکن ان کے مطالعے میں عمیق یا گہری نظر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف چند کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا مطالعہ پوری توجہ سے کیا جاتا ہے۔ بعض کتابیں آپ کے ماتحت پڑھتے ہیں اور آپ کے مطالعہ کے لیے ضروری حصّوں کی تلخیص تیار کر دیتے ہیں۔ اس قسم کا حربہ ادنیٰ کتابوں اور غیر اہم مباحثوں میں آزمایا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی کتاب تو اس عطر کی طرح ہے جو تقطیر و کشید کے صبر آزما عمل کا حاصل ہوتا ہے اور جس کی خوشبو دیوارِ چمن تک محدود نہیں رہتی۔ اس قسم کی کتاب خیال افروز بھی ہوتی ہے اور اس کی روشنی دور دور تک جاتی ہے۔
مطالعہ انسان کی تکمیل کرتا ہے۔ گفتگو چالاک بناتی ہے اور تحریر سے انسان کو قطعیّت حاصل ہوتی ہے۔ تھوڑا سا لکھنے کے لیے بھی ذہنی قوت کو تیزی سے بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ گفتگو میں ذہن مستعد رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص مطالعہ کی عادت سے محروم ہے اور وہ آج تک کسی کتاب کے پاس نہیں پھٹکا تو وہ زندگی کے معاملات میں مکاری اور عیاری سے کام لینے پر مجبور ہو گا۔ اس قسم کے انسان کے سامنے ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ دوسروں پر یہ ظاہر کر سکے کہ اسے ہر علم پر عبور حاصل ہے اور وہ سب کچھ معلوم ہے جو در حقیقت وہ خود بھی نہیں جانتا۔
تاریخ کا مطالعہ انسان کو با شعور بناتا ہے جبکہ شاعری اسے نکتہ سنج بناتی ہے۔ ریاضی باریک بینی پیدا کرتی ہے اور فلسفہ اسے تعمّق اور گہرائی عطا کرتا ہے۔ علومِ عمرانیات حلیم و برد بار بناتے ہیں۔ منطق نکتہ شناسی کا اور انشاء قناعت کاراستہ دکھاتی ہے۔
عقل کی قوت بظاہر خود رواں ہے اور اس کے سامنے کوئی مزاحمت نہیں ہے تاہم جس طرح مختلف ورزشوں سے جسمانی آزار درست کیے جاتے ہیں اسی طرح مناسب اور موزوں مطالعہ سے عقل کی تربیت ممکن ہے۔ مثال کے طور پر گیند اندازی پتھری کے لیے، نشانہ بازی چھاتی اور پھیپھڑے کے لیے، چہل قدمی پیٹ کے لیے اور گھوڑا سواری عقل کے لیے مفید ہے، اسی طرح اگر کوئی آدمی ذہنی انتشار میں مبتلا ہے تو اسے ریاضی کے مسئلے حل کرنے پر مائل کیجئے اور اس کی عقل پھر بھی مرکز گریز ہو تو ریاضی کی یہ مشق جاری رکھئے۔ اگر کوئی شخص مختلف اشیا میں امتیاز کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اسے اساتذہ کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیجئے۔ اگر وہ مسائل کو پوری طرح کھنگالنے کے قابل نہیں اور ایک مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے دوسرے مسئلہ میں الجھ جاتا ہے تو اسے وکلاء کے مقدمات کا مطالعہ کرنے دیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ دماغ کے ہر نقص کے لیے ایک نہ ایک تیر بہدف نسخہ موجود ہے۔
٭٭٭