مونتین
مترجم: انور سدید
آپ نے دیکھا ہو گا کہ زرخیز اور بار آور دھرتی کو بھی طویل عرصے کے لیے غیر مزروعہ اور بے کار چھوڑ دیا جائے تو اس پر ہمہ اقسام کے پودے، جنگلی بوٹیاں اور جھاڑیاں اگ آتی ہیں اور اس زمین کو دوبارہ کار آمد بنانے کے لیے نہ صرف کڑی محنت اور نگہداشت کرنی پڑتی ہے بلکہ اس پر قسم بدل کر نئی فصلیں بھی کاشت کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کی مناسب نگہداشت نہ ہو تو یہ زیرک اور با شعور بچہ تخلیق کرنے کے بجائے بے جان اور بے شباہت لوتھڑے پیدا کرنے لگتی ہے۔ تخلیق کے صحت مند اور فطری عمل کے لیے بعض معاشروں اور خاندان سے باہر شادیاں کرنے کا رواج پایا جاتا ہے۔ انسانی ذہن بھی دھرتی اور عورت کی طرح ہے۔ اسے یوں ہی بے مصرف اور بے کار چھوڑ دیا جائے تو یہ کاہل، غیر تخلیقی اور کند ہو جاتا ہے اور راہوارِ فکر کسی خاص سمت میں سفر پیما ہونے کے بجائے میدانِ تخیل میں وحشیانہ انداز میں غیر معین سمتوں کی جانب دوڑنے لگتا ہے۔ لیکن ذہن اگر کسی مخصوص موضوع پر غور فکر کرنے لگے تو اس کی بے ہنگم ترکتازی رک جاتی ہے۔
جس طرح پیتل کے پیالہ میں آبِ لرزاں سورج کی شعاعوں یا چاند کے چہرے کو منعکس کرتا ہے اسی طرح دماغ کی روشن کرنیں ہر جانب روشنی بکھیرتی ہیں اور بعض اوقات تو یہ روشنی سقف، منقّش کو بھی عبور کر جاتی ہے۔ بے کار آدمی جس کے سامنے کوئی نصب العین نہیں در حقیقت زیاں کار ہے۔ وہ اپنے آپ کو ہر جگہ موجود سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ کہیں بھی موجود نہیں ہوتا۔ اور اگر موجود بھی ہو تو با شعور لوگوں کی محفل میں اس کا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور وہ غیر حاضر ہی شمار ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل طویل اور ہنگامہ خیز مصروف عملی زندگی گزارنے کے بعد میں ریٹائر ہو کر گھر کی پناہ میں گھس آ یا تو میں نے سوچا کہ ’بہت ہو چکا‘ اور فیصلہ کیا کہ اب میں شورِ حیات سے کنارہ کشی اختیار کر لوں۔ امورِ جہاں سے حتی الامکان بے تعلق رہوں گا۔ اور کسی نئے منصوبے کو زیرِ عمل لانے کے بجائے اپنی خلوت میں گوشہ نشین ہو کر زندگی کے باقی ایام امن، چین، سکون اور آشتی کے ساتھ بسر کروں گا۔ میں زندگی کے جان لیوا ہنگاموں سے نجات حاصل کرنے کا آرزو مند تھا، میرے قوائے جسمانی تھک چکے تھے اور اب ماسوا اس کے اور کچھ نہیں کر سکتا تھا کہ صحنِ چمن میں کرسی پر دراز ہو کر خود اپنے ساتھ باتیں کروں، آتش دان کے سامنے بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھوں اور اس کتاب کے مصنف کے ساتھ آزادہ خیالی سے تبادلہ افکار کروں۔ شام اترے تو حدِ نظر تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں نکل جاؤں اور گھر جاتے ہوئے پرندوں کی مسرت میں شریک ہو جاؤں یا شام کے پہلے تارے کو ٹمٹماتا ہوا دیکھتا رہوں، یہ سب ایک بے کار اور بے عمل آدمی کے مشغلے تھے لیکن میں تو خلوت میں اپنے ساتھ تحصیل مسرت اور اکتسابِ سکون کرنے کا آرزو مند تھا۔ اور اس سے زیادہ پر لطف کام کیا ہو سکتا ہے؟
میرا خیال تھا کہ میری طویل زندگی نے مجھے بالغ نظر بنا دیا ہے۔ رزم گہِ حیات سے میں نے جو تجربات سمیٹے تھے ان کے گہرے نقوش میرے ذہن پر مرتسم تھے اور اقتضائے وقت نے اب مجھے بے حد پختہ کر دیا تھا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ بے کاری تو ذہن کو منتشر کر دیتی ہے۔ اسے اضمحلال اور مایوسی کی آماجگاہ بنا دیتی ہے حالانکہ ذہن تو مفرور گھوڑے کی مثال ہے جو اپنے مالک کے اصطبل سے آزاد ہونے کے بعد زیادہ مستعد اور پھرتیلا ہو جاتا ہے۔ اور جتنا کام پہلے وہ دوسروں کے لیے حالتِ جبر میں کرتا اب اس سے سو گنا زیادہ اپنے لیے کر سکتا ہے۔
اس تصور کے پیدا ہوتے ہی میرے ذہن نے بھی مفرور گھوڑے کی طرح دوڑنا شروع کر دیا اب سینکڑوں عجیب الخلقت باتیں، دیو ہیکل افکار اور الجھے ہوئے تصورات کسی نظم و ضبط کے بغیر یکے بعد دیگرے مجھ پر یلغار کر رہے تھے۔ میں ان کی مہملیت پر غور کر رہا تھا۔ ان کے انوکھے زاویوں پر اطمینان اور سکون سے سوچ رہا تھا۔
میں اپنے ہجومِ افکار میں گھرا ہوا ہوں لیکن میرے پاس لمحات، فراغت کی بڑی فراوانی ہے۔ یہ میری فرصت کا بہترین مصرف ہے اور اب تو میں نے اپنی بے کاری کا حل بھی تلاش کر لیا ہے اور وہ یہ کہ قلم اٹھا کر میں ان افکارِ پریشاں کو ضابطہ تحریر میں لا رہا ہوں۔ میرا مقصد کسی کو مرعوب یا متاثر کرنا نہیں۔ لاریب! میں اپنے تجربہ اور دانش کو فروغِ عام دینے اور بنی نوعِ انسان کی فلاح کی راہ ہموار کرنے کا خواہش مند بھی نہیں ہوں، میں تو انہیں محض اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اپنی بے کاری کے ان لمحوں کو یاد رکھ سکوں اور بعد میں جب کبھی موقع ملے تو ان نوشتوں کو مطالعہ مکرّر سے میرا ذہن ’آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو، بھی شرمسار کر‘ سکے۔
٭٭٭