انشائیے کے اردو کی قلمرو میں داخلے اور اس کے آزاد بالذات صنف ادب کی حیثیت سے مستحکم ہونے تک بحث اور رد و قبول کا ایک طویل سلسلہ ہے اس کے باوجود انشائیہ آج بھی حرام و حلال کے فتووں کے درمیان اپنے وجود کے جواز کا متلاشی نظر آتا ہے۔ جاوید وششٹ اور بعض دیگر اہل قلم کے نزدیک ملّا وجہی کی تصنیف سب رس اردو انشائیہ کا اولین نقش ہے۔ بعض ناقدین سرسید اور ان کے رفقا کی تحریروں کو انشائیہ کا نقطہ آغاز مانتے ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں ابھر نے والے چند انشائیہ نگاروں کے متعلق بھی اس صنف کے موجد ہونے کا دعویٰ دہرایا گیا۔ ان متضاد بیانات کے باوجود یہ بات قابلِ تسلیم قرار دی جا سکتی ہے کہ اردو انشائیہ کا فنّی ارتقا مغربی ایسّے کا مرہونِ منت ہے۔ اس لحاظ سے مغرب میں انشائیہ کی روایت کا مطالعہ اردو کی اس نو خیز صنف کی تفہیم میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
انشائیہ مغرب کی عطا کر دہ ایک ایسی صنفِ ادب ہے جسے بجا طور پر نشاۃ ثانیہ کا تحفہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ شگوفہ تخلیقی اعتبار سے ایک زرخیز دور کی پیداوار ہے جس میں مخصوص فکری سانچوں اور عقائد کی قطعیت سے آزاد ہو کر اپنی تہذیبی روایات کی بازیافت کا رجحان پنپنے لگا تھا۔
ادبی تاریخ میں نشاۃ ثانیہ کی آہٹیں سولہویں صدی کے دوسرے دہے سے سنائی دینے لگیں ۱۵۷۸ء تا ۱۶۲۵ء تک اس کا زمانہ عروج قرار دیا گیا ہے۔ اس دور کی خصوصیات ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان الفاظ میں بیان کی ہیں:
’’نشاۃ ثانیہ کوئی منظّم تحریک نہیں تھی۔ یہ ایک فضا تھی، نئی روشنی تھی جس نے آزاد خیالی اور جدید فکر و ادب کے شعور کو بیدار کیا اور سارا مغرب جو اب تک عیسائیت کے قلعے میں محصور تھا، شعور کے ساتھ نئے اصولوں کی تلاش میں لگ گیا۔‘‘ (۱)
نشاۃ ثانیہ کی روح کو انشائیہ میں بہ آسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ فرانس انشائیہ کا مولد ہے لیکن وہاں اس کو خاطر خواہ فروغ حاصل نہیں ہوا۔ انشائیہ کی ایجاد سے متعلق ہاؤسٹن پیٹرسن لکھتے ہیں:
’’انشائیہ کے باب میں اس فن کے نقوش ایک متعین تاریخ اور ایک مخصوص شخص تک تلاش کیے جا سکتے ہیں یہ تاریخ۱۵۸۰ء ہے جب مونتین نے اپنے تاثرات اور آراء پر مبنی پہلی دو کتابیں شائع کیں اور اس اصطلاح کو پہلی مرتبہ مخصوص معانی میں استعمال کیا۔‘‘ (۲)
بعض ناقدین کے نزدیک سینیکا (C.A.D. 3-65) Seneca کے خطوط غیر رسمی ایسّے کا اولین نقش ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ خطوط یا دیگر اصناف میں ایسّے کی بعض خوبیاں دستیاب ہوں لیکن ایک جدا گانہ صنف کی حیثیت سے یورپ میں مانتین کو انشائیہ کا نقطۂ آغاز تسلیم کیا جاتا ہے۔
مانتین: Michel De Montagne (1533-1592)
مانتین انشائیہ کا جد امجد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی منفرد تحریروں نے اس صنف کو بنیاد کا پہلا پتھر فراہم کیا۔ اس نے نہ صرف ایک نیا پیرایۂ اظہار وضع کیا بلکہ اس کے لیے ESSAI کا لفظ بھی تجویز کیا جو بعد میں انگریزی میں ESSAY کی شکل اختیار کر گیا۔ اس لفظ کے تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے ظہیر الدین مدنی رقمطراز ہیں:
’’اسائی ESSAI عربی لفظ السعی کی فرانسیسی شکل معلوم ہوتی ہے، دونوں الفاظ کوشش کے معنی و مفہوم ظاہر کرتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ لفظ اسّائی یونانی زبان سے فرانسیسی زبان میں آیا ہے مگر گمان غالب ہے کہ عربی لفظ السعی ہی اس کی اصل ہے۔ صدیوں تک اندلس اور جنوبی فرانس پر عربوں کا سکّہ چلتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے فرانسیسی زبان میں لاطینی سے بھی زیادہ عربی الفاظ رائج ہیں ممکن ہے اسّائی بھی ان میں سے ایک ہو۔‘‘ (۳)
مانتین کا اختیار کیا ہوا یہ لفظ اسّائی کوشش کے معنوں میں اس صنف کے لیے مناسب ہے کیونکہ جن ذہنی و قلبی کیفیات اور اظہار کے تقاضوں نے اسے انشائیہ کو ضبطِ تحریر میں لانے پر آمادہ کیا اور جس انداز میں اس نے اس صنف کو برتا اور انوکھا پیرایۂ اظہار وضع کیا۔ اسی میں اس صنف کے خد و خال اور فنی خصوصیات کی صورت گری کا وافر سامان موجود تھا۔ نشاۃ ثانیہ کا عطیہ آ زادیِ افکار ان تحریروں کی نمایاں خصوصیت ہے۔
میشل دی مانتینMichel De Montaigne نے ۲۸؍ فروری ۱۵۳۳ء کو فرانس کے ایک آسودہ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مانتین اپنی ابتدائی تعلیم کے زمانے ہی میں ایک ذہین اور حساس طالبِ علم کی حیثیت سے ابھرا۔ اسی دور میں فلسفہ بھی اس کے مطالعے میں رہا۔ اس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز قانون کے پیشے سے کیا۔ ۱۵۵۷ء میں اسے مئیر کے عہدے کے لیے بھی منتخب کی گیا۔ اس کے مضامین کا مجموعہ۱۵۸۰ء میں منظرِ عام پر آیا۔
مانتین نے زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات کو اس طرح پیش کیا کہ اس کے انشائیے ان واقعات یا تاثرات کا اظہار نہ ہو کر خود انکشافی کا وسیلہ بن گئے۔ یوں بھی مانتین عام قسم کا آدمی نہیں تھا۔ اس کی درویشانہ صفت نے اسے ہنری آف ناروے کے دربار میں ایک اعلیٰ عہدے کی پیش کش کو قبول کرنے سے باز رکھا۔ مانتین کے انشائیے ایسے وقت تخلیق ہوئے جب اس کی زندگی ایک ٹھہراؤ سے دوچار ہو چکی تھی، اس کی تخلیقات اس کے تجربات اور مشاہدات کی باز آفرینی کا ایک ایسا ہنگام ثابت ہوئیں جہاں وہ دنیا سے کٹ کر اپنے من میں ڈوب کرسراغِ زندگی کا متلاشی تھا اور یہی رجحان نشاۃ ثانیہ کی جان تھا۔ اسی لیے غواصی کے اس عمل کے دوران مانتین جو اسلوب اور پیرایہ اظہار لے کر ابھرا وہ اسی دور میں مقبولیت سے ہم کنار ہو گیا۔ جب مانتین کے انشائیے ۱۶۰۳ء میں جان فلوریو نے انگریزی میں ترجمہ کیے تو وہ نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ جس طرزِ ادا کی اس نے بنیاد ڈالی تھی اس کی جڑیں انگریزی ادب میں گہری ہوتی چلی گئیں۔ مانتین کے انشائیے فکر و خیال کے نت نئے پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔
ان میں اپنی ذات، کائنات اور نئے رابطے دریافت کرنے کا عمل ایک تخلیقی مسرت سے ہم کنار کرتا ہے۔ چونکہ مانتین کے پیشِ نظر کوئی مخصوص مقصد نہیں تھا، اسی لیے اس کی سوچ و فکر آزادانہ طور پر اشیاء کا محاسبہ کرتی ہے اور یہ تخلیقی تجربہ مسرور کن ثابت ہوتا ہے۔ اپنی تحریر کی غرض و غایت اس نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:
’’قارئینِ کرام! میری یہ کتاب دیانت کی امین ہے۔ اسے لکھنے کا واحد مقصد ذاتی اور داخلی ہے، اسے لکھتے ہوئے آپ کی خدمت یا اپنی شہرت کو ملحوظ نہیں رکھا کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میرے پیشِ نظر تو دوستوں اور عزیزوں کی مسرت ہے تاکہ جب میں مر جاؤں اور ایسا عنقریب ہونے والا ہے تو میرے کر دار اور مزاج کی باز یافت سے مجھے اپنی یادوں میں زندہ رکھ سکیں۔ میرا مقصد دنیاوی ستائش ہوتا تو میں لباسِ فاخرہ زیبِ تن کرتا اور اپنے آپ کو ایک عالم کے روپ میں پیش کرتا۔ میں تو آپ کے سامنے تصنّع اور بناوٹ کے بغیر سادہ فطری اور روزمرہ صورت میں آ نا چاہتا ہوں وجہ یہ ہے کہ میں جس چیز کی تصویر کشی آپ کے سامنے کر رہا ہوں وہ میں خود ہوں۔ میری کمزوریوں کا مطالعہ زندگی کے ساتھ کیجئے کیونکہ میری فطرت زمانے کے تہذیبی معیار کو قبول کرتی ہے۔ اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنھیں قدرت کے آزاد قوانین نے بقائے دوام عطا کر دی تو یقین جانئے میں آپ کے سامنے اپنے آپ کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیتا اور بے حد خوش ہوتا۔
قارئینِ کرام! میں خود اپنی کتاب کا موضوع ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ اپنی فرصت کے اوقات اتنے معمولی اور بے مصرف موضوع کی نذر کر دیں لہٰذا مانتین آج یکم مارچ۱۵۸۰ء کو آپ کو الوداع کہتا ہے۔‘‘ (۴)
مانتین نے انشائیہ کو تصنع اور بناوٹ سے پاک فطری سادہ اور دلکش اسلوب کی بنیادوں پر استوار کیا، اس کے انشائیوں میں انکشافِ ذات اور ندرتِ خیال کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان میں خود کلامی کا انداز پایا جاتا ہے:
’’میرا خیال تھا کہ میری طویل زندگی نے مجھے بالغ نظر بنا دیا ہے۔ رزم گہِ حیات سے میں نے جو تجربات سمیٹے تھے ان کے گہرے نقوش میرے ذہن پر مرتسم تھے اور اقتضائے وقت نے اب مجھے بے حد پختہ کر دیا تھا، لیکن میں نے دیکھا کہ بے کاری تو ذہن کو منتشر کر دیتی ہے۔ اسے اضمحلال اور مایوسی کی آماجگاہ بنا دیتی ہے۔ حالانکہ ذہن تو مفرور گھوڑے کی مثال ہے جو اپنے مالک کے اصطبل سے آزاد ہونے کے بعد زیادہ مستعد اور پھرتیلا ہو جاتا ہے۔ اور جتنا کام پہلے وہ دوسروں کے لیے حالتِ جبر میں کرتا تھا، اب اس سے سوگنا زیادہ اپنے لیے کر سکتا ہے۔
اس تصور کے پیدا ہوتے ہی میرے ذہن نے بھی مفرور گھوڑے کی طرح دوڑنا شروع کر دیا۔ اب سینکڑوں عجیب الخلقت باتیں، دیو ہیکل افکار اور الجھے ہوئے تصورات، کسی نظم و ضبط کے بغیر یکے بعد دیگرے مجھ پر یلغار کر رہے تھے۔ میں ان کی مہملیت پر غور کر رہا تھا۔ ان کے انوکھے زاویوں پر اطمینان اور سکون سے سوچ رہا تھا۔‘‘ (۵)
مانتین کے ایسیز انشائیہ نگاری کا اولین نقش ہیں۔ اس کے بعد اس صنف میں مزید رنگوں کا اضافہ ہوا۔ اپنے تقریباً چار سو سالہ ارتقائی سفر میں یہ صنف اسلوب، موضوع، مزاج اور آہنگ کے اعتبار سے نت نئی تبدیلیوں سے آشنا ہوئی۔ ایسّے نگاری کی اسی روایت نے ایسے صاحبِ طرز انشائیہ نگار پیدا کیے جن کا اسلوب ان کی انفرادی شناخت کا مظہر تھا۔ اسالیب کا یہ تنوع اس صنف کی آفاقی مقبولیت اور وسعتِ اظہار کا سبب بنا۔
بیکن: (Francis Bacon (1561-1626
سر فرانسس بیکن انگریزی انشائیہ نگاروں کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے۔ مانتین نے Essai کے عنوان سے فن پاروں کی تخلیق کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اسے فرانس میں کسی سحر طراز قلم نے نہ تھاما البتہ اس کی مقبولیت فرانس کی سرحدیں پار کر گئیں۔ جان فلوریو نے ۱۶۰۶ء میں اس کی تحریروں کو ترجمہ کی شکل میں پیش کیا۔ ان سے متاثر ہو کر بیکنؔ نے ایسّے نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔ بیکنؔ کی عبقری شخصیت، علمیت، ذہانت اور غیر معمولی تخلیقی صلاحیت نے اس صنف کو مضبوط بنیادیں فراہم کر دیں۔ فرانسیسی Essai انگریزی میں Essay بن گیا۔ انشائیے کی فرانس سے ہجرت اس نو خیز صنف کے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔ بیکن کے انشائیوں کے متعلق ڈیل ڈوراں نے لکھا ہے:
’’بیکن کو مرصع کاری پسند نہ تھی وہ الفاظ کے زیاں سے متنفر تھا۔ اس لیے ایک چھوٹے سے فقرے میں وہ متاعِ دانش بھر دیتا ہے۔ یہ تمام ایسیز ایک یا دو جملوں کے اندر اندر زندگی کے اہم مسائل کے بارے میں عظیم خیالات کا نچوڑ پیش کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس کا مواد زیادہ بہتر ہے کہ اس کی پیش کش کا طریقہ، کیونکہ نثر میں بیکن کی زبان اتنی ہی گراں مایہ ہے جتنی شاعری میں شیکسپیئر کی۔‘‘ (۶)
بیکن کی فطری ذہانت مشاقی اور ریاضت نے اسے وہ رنگ و آہنگ عطا کیا کہ ہم بیکن اور مانتین کے انشائیوں کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے گویا یہ دونوں قطعی مختلف اسالیب کے علم بردار ہیں۔ بیکنؔ کا انشائیہ فرانسیسی مزاج سے قدرے منحرف ہو کر انگریزوں کی طبعی خصوصیات کی غمّازی کرتا ہے۔ انگریز فطرتاً کم آمیز اور ذاتی معاملات میں بہت کم کھل پاتا ہے۔ مانتینؔ کی تحریریں اس کے بر عکس، بے تکلفی کے ساتھ قلم کار کے احوال بیان کرتی ہیں۔ بیکنؔ نے اپنے مضامین میں، جنھیں اس نے اپنی ذہنی مشقوں کا ثمر قرار دیا ہے، روشنی کا دائرہ اپنی ذات پر مرکوز کرنے کے بجائے دنیا کی رنگینیوں کی طرف موڑ دیا۔ فارم کا پیمانہ تو اس نے مانتین ہی کے میخانے سے اٹھایا مگر جو مے اس میں انڈیلی اس کا مزاج قدرے مختلف تھا۔ اس نے انشائیے کو جامِ جہاں نما بنا دیا۔ اس طرح انگریزی میں انشائیہ کو ایک نیا آغاز عطا ہوا۔ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی انگریزی انشائیے کے متعلق لکھتے ہیں:
’’بیکنؔ کی فطرت اور انگریز قوم کی خصوصیت نے اسے بالکل نئی چیز بنا دیا۔ انگریز قوم کی اپنی اندرونی زندگی سے زیادہ دنیا کی گو نا گوں دلچسپی نے بیکن کے انشائیے کو زندگی کے ہر پہلو کا آئینہ دار بنا دیا۔‘‘ (۷)
بیکن بنیادی طور پر فلسفیانہ مزاج اور استدلالی ذہن کا مالک تھا۔ ۱۵۸۶ء میں اس نے Greatest Birth of Time کے عنوان سے ایک فلسفیانہ مقالہ قلم بند کیا اس کا مقالہ The Advancement of Learning بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مانتین نے علمی و تحقیقی مقالات کی زبان کو جس قطعیت، سنگلاخی اور خشکی سے آزاد کر کے لطیف تر، لچکدار اور غیر رسمی و تخیلی انداز کا خو گر بنایا اس نثر کا واسطہ بیکن سے پڑا تو اس پر بیکن کے فلسفیانہ اندازِ فکر کا دباؤ پڑنا لازمی تھا۔ اس نے ایسی مناسب و موافق حدت کے ساتھ اس میں فلسفیانہ فکر کی آمیزش کی کہ یہ اہتمام انشائیے کا حسن بن کر ابھر آیا۔ بیشتر مقامات پر اس کا یہ فن خود اس کی ذات کا پردہ ثابت ہوا اسی لیے اس کی تحریروں میں انشائیہ نگار کی ذات کا انکشاف کھل کر نہیں ہو پایا۔
بیکن نے ان مضامین میں حسن اختصار اور جامعیت کے ساتھ نئے موضوعات پر حکمت و دانش کا خزانہ سمو دیا۔ اس نے غیر معمولی پہلوؤں کو فلسفیانہ سوچ کے لمس سے غیر معمولی بنا کر معاصر زندگی کے امور کو اپنے زاویہ نگاہ سے پیش کیا۔ اسی علم، حکمت اور فلسفیانہ رنگ کے سبب اس کی تحریروں کے بیشتر ٹکڑے انگریزی زبان کے محاورے بن گئے۔ یہ اس کی پر اثر اور قد آور شخصیت کا کمال تھا کہ اسے نشاۃِ ثانیہ کی روح اور تخلیقی توانائی کی علامت قرار دیا گیا۔ اس کے مضامین کا بڑا حصہ آج بھی حوالوں کے طور پر استعمال ہوتا ہے مثلاً یہ قول:
’’کچھ کتابیں محض چکھنے کے لیے ہوتی ہیں، بعض نگلنے کے لیے مگر بہت کم ایسی ہیں جنھیں چبا کر ہضم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
بیکن کے مضامین کا مجموعہ ۱۵۹۷ء میں منظرِ عام پر آیا جس میں دس مضامین تھے۔ یہ مجموعہ Essay کے نام سے شائع ہوا۔ جنھیں اس نے Dispersed Meditation یعنی افکارِ پریشاں قرار دیا۔ بیکن نے اپنے نئے اور پرانے مضامین کو یکجا کر کے ۱۶۲۵ء میں جو کتاب شائع کی اس میں کل ۸۵ ایسیز تھے جن میں سے بعض کو نظرِ ثانی کے بعد دوبارہ پیش کیا گیا تھا۔ ان مضامین میں ابھر نے والا بیکن کا اندازِ فکر Baconian Wisdom کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے عنوانات اپنی ندرت اور انوکھے پن کے سبب دلکش ہیں۔
"Of Life, Of Study, Of Gardens, Of Praise, Of Flowers and Friends, Of Love, Of Marriage and Single Life"
بیکن کے مضامین میں نفسِ مضمون کو دیگر موضوعات سے موازنہ کر کے نئی روشنی میں پیش کرنے کا انداز نمایاں ہے۔ اس کے خیالات میں پریشاں فکری کے ساتھ موضوع سے مربوط رہنے کا عمل موضوع پر اس کی گرفت کو مضبوط تر کر دیتا ہے۔ ان دونوں متضاد عناصر کا امتزاج انشائیہ میں دلکشی پیدا کرتا ہے۔ بیکن کے مشہور انشائیے Of Gardens کے اس اقتباس سے اس کے اسلوب کی اس خوبی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے باغ اگایا۔ وجہ یہ ہے کہ باغ انسانی زندگی کو نہ صرف خالص مسرت عطا کرتے ہیں بلکہ انسانی روح کو بھی تازہ کر دیتے ہیں۔ باغوں کے بغیر محلات اور عمارتیں دستکاری کے محض ادنیٰ نمونے ہیں اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ انسان جب تہذیب و لطافت کی طرف پیش قدمی کرتا ہے تو عمارتوں کو بعد میں پر شکوہ بناتا ہے لیکن باغات کو نفاستِ طبع سے پہلے آراستہ کرتا ہے، وجہ یہ ہے کہ باغ کمالِ فن کے زیادہ متقاضی ہیں، کاش سرکاری طور پر یہ حکم بھی جاری کر دیا جائے کہ سال کے سب مہینوں میں باغ اگانے کا کام جاری رکھا جائے تاکہ حسین اور خوش نما پھول سب موسموں میں ہماری آنکھوں کے سامنے لہلہاتے رہیں۔‘‘ (۸)
بیکن کا انشائیہ نگاری کا فن اس کے اسلوب کے ساتھ ہی اس کی نظر اور زندگی کو دیکھنے کے اس انداز میں پوشیدہ ہے جس کے شواہد ہمیں اس کے انشائیوں میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ اردو انشائیوں پر بیکن کی انشائیہ نگاری کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’ہمارے ہاں انشائیہ میں اختصار اور اس کی ناتمامی پر زور دینے والے ناقدین نے یقیناً بیکن کے ایسیز کی مثال سامنے رکھی ہو گی۔ لیکن ان حضرات کے پاس نہ تو بیکن جیسا جز رس ذہن تھا نہ مختصر فقرات میں معانی کی بجلیاں بھر دینے والا اسلوب تھا اور نہ ہی ویسا علم و دانش، اس لیے ان کے ناتمام انشائیے پڑھ کر Loose Sally of Mind کا احساس ہوتا ہے … ہمارے ہاں جو حضرات انشائیہ کو زندگی، اس کے تنوع، گہری سوچ اور فلسفیانہ استدلال سے الگ رکھنا چاہتے ہیں وہ اگر بیکن کا مطالعہ کریں تو انھیں علم ہو جائے گا کہ انگریزی میں ایسے کو متعارف اور مقبول کرانے والا بیکن، فلسفیانہ نگاہ اور فلسفیانہ سوچ کے علاوہ اور کچھ تھا ہی نہیں۔‘‘ (۹)
بیکن کا مشہور انشائیہ، کتابیں پڑھنا، اس موضوع پر حکمت سے پر اور تجربات پر مبنی حقائق کو دلچسپ انداز میں پیش کرتا ہے اس مضمون کے کئی فقرے انگریزی ادب کا محاورہ بن چکے ہیں۔ بیکن اپنے مضمون کتابیں پڑھنا میں جہاں کتابوں کی قسمیں انوکھے انداز میں گنواتا ہے اور ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے وہیں مطالعہ کے متعلق بھی عام روش سے ہٹ کر اپنی رائے ظاہر کرتا ہے:
’’چالاک آدمی مطالعے کی تحقیر کرتا ہے۔ سادہ انسان کتاب بینی کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اہلِ خرد مطالعے سے استفادہ کرتے ہیں لیکن واضح رہے کہ مطالعہ فی نفسہ استعمال کی چیز نہیں بلکہ اس سے بالا تر وہ دانش ہے جو تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کو اس خیال سے نہ پڑھئے کہ اس کے مطالعے سے آپ کسی مسئلہ کی تردید یا بطلان کر سکیں گے۔ کسی چیز پر مہرِ تسلیم و رضا ثبت کرنے یا اپنے ایقان کو اثبات فراہم کرنے کے لیے بھی مطالعہ نہیں کرنا چاہئے۔ مطالعے کا مقصد معاملہ بندی یا چرب زبانی بھی نہیں ہے بلکہ مطالعہ تو صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ آپ کا فکر بیدار ہو اور آپ تقابل و موازنہ کر سکیں۔‘‘ (۱۰)
بیکن کے بعد دنیا بھر میں ابھرنے والے انشائیہ نگاروں میں تھامس اوبری (۱۶۱۳ء-۱۵۸۱ء)، جانسن (۱۶۳۷ء-۱۵۷۳ء) اور جان اورویل (۱۶۶۵ء-۱۶۰۱ء) قابلِ ذکر ہیں۔ یہ Aphoristic انشائیہ نگار تھے جن کے ہاں عصری زندگی کی تصویر کشی کا رجحان نظر آتا ہے۔ نیز ان کے ہاں حقائق کی قطعیت کو تخیل کی لطافتوں سے صیقل کیا گیا ہے۔ انھوں نے اظہارِ ذات کے لیے کرداروں کو اولیت دی جو بیک وقت عصری زندگی کی نمائندگی کے علاوہ مصنف کی پسند یا نا پسند کی آئینہ دار بھی ہے۔
ابراہم کاولے: Abraham Cowley (1618-1667)
انگریزی ایسے ابتدا ہی سے مانتین کے اظہارِ ذات کے عمل سے انحراف کا عادی رہا ہے۔ اگر اسی سمت اس کی پیش قدمی جاری رہتی تو عین ممکن تھا کہ انگریزی انشائیہ اس کے اصل مزاج سے دور ہو جاتا لیکن بیکن کے بعد اسے ابراہم کاولے جیسا انشائیہ نگار مل گیا جس نے خود انکشافی کے عمل کو اس صنف میں ترجیح دے کر مانتین کے انشائیہ کی اصل روح کو انگریزی میں زندہ کیا ابراہم کاولے بنیادی طور پر شاعر تھا۔ مابعد الطبعیاتی شعراء Metaphysical Poets میں ابراہم کاولے کا شمار کیا جاتا ہے۔ شاعری کی بہ نسبت اس کے انشائیے زیادہ مقبول ہوئے۔ معدودے چند انشائیے تحریر کرنے کے باوجود اس کی تحریروں نے انگریزی انشائیوں کو جو سمت عطا کی اس کے پیش نظر ابراہم کاولے انگریزی ایسے کا ایک اہم نام شمار کیا جاتا ہے۔ جس طرح مانتین کے انشائیے اپنے تخلیقی ابال اور اظہارِ ذات کے نتیجے میں وجود میں آئے تھے، اسی خود انکشافی کے عمل سے ابراہم کاولے کے انشائیے بھی روشن ہوئے۔ اس کی نثر پر اس کی شاعرانہ شخصیت کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ اس کی حدیں غنائیت سے جا ملتی ہیں۔
ابراہم کاولے کی تحریروں میں خود کلامی، انکشافِ ذات اور غنائیت کے باہمی امتزاج نے جو اسلوب انگریزی انشائیے کو عطا کیا اس کے پیشِ نظر ابراہم کاولے کوانگریزی انشائیہ نگاروں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ غلام جیلانی اصغر اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’کوئی انشائیہ جس میں انشائیہ نگار کی ذات موجود نہ ہو ایک تاریخی یا تنقیدی انشائیہ توکہلا سکتا ہے لیکن وہ انشائیہ کے اصل مزاج کے قریب نہیں اور اگر اس کلیہ کو تسلیم کر لیا جائے تو انگریزی ادب میں بیکن پہلا انشائیہ نگار نہیں بلکہ ابراہم کاولے ہے، جس نے انشائیہ کے منفرد مزاج کو سمجھا اور اس کا انشائیہ ’کچھ اپنے بارے میں ‘ Of Myself اس مزاج کی پوری عکاسی کرتا ہے۔‘‘ (۱۱)
اپنے متعلق Of Myself میں ابراہم کاولے رقم طراز ہیں:
’’یہ قدرے مشکل بھی ہے اور اچھا موضوع ہے، کسی شخص کے لیے کہ وہ اپنے متعلق اظہارِخیال کرے۔ سامعین اگر کسی کی کمزوریاں سن کر بھی تعریف کرنے کے لیے تیار ہوں تو اس سے زیادہ حوصلہ افزا اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ اس میں کسی دوسرے کو موردِ الزام قرار دینے کا خطرہ بھی نہیں ہے۔ نہ میرا جسم نہ روح نہ میری تقدیر مجھے اجازت دیتی ہے کہ خود نمائی کے لیے میں ایسی کوئی بات پیش کروں۔ میرے تسکینِ قلب کے لیے یہ کافی ہے کہ انھوں نے مجھے کسی شرمناک فعل میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھا۔‘‘
رچرڈسٹیل: ( Richard Steele 1672-1729)
بیکن کے بعد انگریزی ایسے کو ایڈیسن اورسٹیل کے روپ میں دو مضبوط بازوؤں کا سہارا نصیب ہوا جنھوں نے نہ صرف اس کے میدانِ عمل، طریقہ کار اور اس کی مقبولیت کا احاطہ وسیع سے وسیع تر کیا بلکہ عصری زندگی کی مختلف سچائیوں کو اپنا موضوعِ اظہار بنایا۔ انگریزی ایسے کو ایڈیسن اور سٹیل کے توسط اور صحافت کے فیضِ قربت سے ایک نئی آب و ہوا، موضوعات کا تنوع، نیا زاویۂ نظر اور زندگی کے نئے اقتباسات میسر آئے۔
حسنِ اتفاق سے ایڈیسن اور سٹیل کا سنِ پیدائش ایک ہی ہے، دونوں کو تعلیمی زندگی میں بھی ایک دوسرے کی رفاقت حاصل تھی۔ سٹیل نے ۱۷۰۹ء میں ٹیٹلر اور اس کے بعد ۱۷۱۱ء اسپکٹیٹر جاری کیا تو مضمون نگاری کا سلسلہ چل پڑا۔ اس میں سٹیل اور ایڈیسن دونوں لکھتے تھے۔ اسپکٹیٹر ہفتہ میں تین مرتبہ شائع ہوا کرتا تھا۔ سٹیل اور ایڈیسن نے اسی کے ذریعے اپنے لا جواب انشائیے پیش کیے۔ اس میں چھپنے والے مضامین انگلینڈ کی معاشرتی زندگی کی چھان پھٹک کرنے لگے اور اس طرح نئے نئے گوشے سامنے آنے لگے۔
سٹیل بے پناہ تخلیقی قوت کا مالک تھا۔ اس کی فطری صلاحیتیں اسپکٹیٹرکے کالموں میں نمایاں ہونے لگیں اور اس طرح اخبار کی صورت میں ایک ایسا ترجمان منظرِ عام پر آ یا جو انوکھی سچّائیوں کا راز دار تھا اور رفیق بھی۔ اسٹیل کی تحریروں میں طنز کا عنصر غالب تھا۔ آئرلینڈ کا باشندہ ہونے کے سبب اس کے طنز کی کاٹ اپنے ملک کے مخصوص مزاج کی غماز ہے۔ وہ مزاجاً مذہبی اور اخلاقی قدروں کا ہم نوا تھا۔ اس کی اولین تصنیف The Criston Hero (۱۷۰۱ء) میں قدیم فلسفہ پر عیسائیت کو بر تر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایڈیسن کی انشائیہ نگاری پرشکوہ ہے جبکہ سٹیل نے یہی عمل زیادہ فطری انداز میں انجام دیا۔ سٹیل زندگی کی ہماہمی کو بہت گہرائی تک محسوس کر کے اس کی بو العجبیوں پر ناقدانہ نگاہ ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا طنز ایڈیسن کہ بہ نسبت شدید تر ہے۔ اس کی تحریروں میں زندگی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی کرنے والے کر دار نظر آتے ہیں۔ بقول ہیزلٹ:
’’ان کرداروں میں بے نام شکوہ اور انگریزی کرداروں کے فطری گوشے موجود ہیں اور انھیں کون بھول سکتا ہے۔‘‘
کافی ہاؤس اس کے مشاہدے کا خاص مرکز تھا۔ اسی لیے اسی طبقے کے افراد میں وہ زیادہ مقبول ہوا۔ اسی ضمن میں Mile Legouis رقم طراز ہے:
’’ابتدا میں سٹیل کے پیشِ نظر کوئی مقصد متعین نہیں ہوتا ہے، نہ ہی وہ منصوبہ بند طریقے پر آگے بڑھتا ہے بلکہ شروع ہی سے وہ خبروں کے ساتھ دلچسپی اور تفریح کو ملحوظ رکھتا ہے۔ سٹیل بوالعجبیوں پر قہقہے لگا کر اصلاحِ احوال کا طریقہ اپناتا ہے۔ اس کا اظہار جاندار مزاح کا حامل ہے سٹیل اپنی طبعی خصوصیات کی بنا پر ایڈیسن سے مختلف قسم کا آدمی تھا۔ ان دونوں کے انشائیے دو مختلف شخصیات کے آئینہ دار ہیں۔‘‘ (۱۲)
سٹیل کے مضامین کے چند اقتباسات:
٭ ’’گپ بازی میں مصروف زبان کے مقابلے میں آگ اور تلوار تخریب کاری کے نسبتاً کمزور ذرائع ہیں۔‘‘
٭ ’’فطرت کو غیر جانب دارانہ نظر سے دیکھنا میرے لیے بے پایاں تسکین کا ذریعہ ہے۔‘‘
٭ ’’ایک صحت مند عمر رسیدہ شخص جو بیوقوف نہ ہو سب سے زیادہ خوش حال مخلوق ہے۔‘‘
جوزف ایڈیسن: Joseph Addison (1672-1719)
ایڈیسن کو تخلیقی میدان کے علاوہ تعلیمی زندگی میں بھی سٹیل کی رفاقت حاصل تھی۔ ایڈیسن سٹیل کی بہ نسبت ذہین اور محنتی طالب، علم کی حیثیت سے ابھرا۔ اس کی شخصیت کا یہی جوہر اس کی تخلیقات پر بھی اثر انداز ہوا۔ اس کی زندگی کا بیشتر حصہ علمی مصروفیات پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر جانسن نے اس کی نثر کو ان الفاظ میں سراہا ہے:
’’سلیس اور نفیس طرز سیکھنے کے لیے ایڈیسن کے مضامین دن رات پڑھنے چاہئے۔‘‘
ایڈیسن کی تحریروں میں خارجی زندگی کی تصویر کشی اور لطیف اظہارِ خیال ملتا ہے جس میں طنز کی جراحت مفقود ہے۔ اخلاقی قدروں کا پاس اور زندگی کی نا ہمواریوں پر لطیف اشارات پند و نصائح کا روپ نہیں اختیار کر پائے۔ ایڈیسن کے انشائیے بے تکلف گفتگو کا انداز لیے ہوئے ہیں۔ اسی وصف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہڈسن نے لکھا ہے:
"Addison's prose is the artistic development of real speech." (13)
ایڈیسن کے انشائیوں کی ان امتیازی خوبیوں کے سبب اسے سٹیل کی بہ نسبت انشائیہ کا بہترین نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسپکٹیٹر کا اجراء سٹیل اور ایڈیسن نے کیا تھا لیکن وہ ایڈیسن کی فطری اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا۔ اس طرح ایڈیسن نے انشائیہ کی نوکِ پلک سنوارنے میں اہم رول ادا کیا۔ ایڈیسن کے انشائیوں میں آزادانہ فکر اور غیر رسمی طریقہ کار کے شواہد ملتے ہیں۔ وہ جب اپنے تخلیقی عمل کے متعلق یہ وضاحت کرتا ہے کہ:
’’میں جب کسی ایسے موضوع کا انتخاب کرتا ہوں جس پر اس سے پہلے کسی نے قلم نہ اٹھایا ہو تو میں اپنے خیالات کو ترتیب اور لکھنے کے مخصوص طریقہ سے آزاد چھوڑ دیتا ہوں تاکہ وہ کسی باضابطہ مقالہ کے برعکس ایسے میں ملنے والی لچک اور آزادی سے اظہار پا سکیں۔ گویا وہ انشائیہ نگاری کی اہم خصوصیات آزادانہ سوچ کے عمل دخل اور غیر رسمی طریقہ کار کو انشائیہ کا جوہر قرار دیتا ہے۔‘‘
ایڈیسن ایک ادیب کی حیثیت سے اپنے موقف کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
"I live in the world rather as a spectator of mankind, than as one of the specie."
وہ اپنے انشائیہ Twenty-Four Hours in London میں ایک ایسے انشائیہ نگار کی صورت میں سامنے آتا ہے جو دن بھرلندن کی بھیڑ بھری زندگی کا ہر رنگ میں مشاہدہ کرتا ہے، ہر شے کو دلچسپی سے دیکھتا ہے، اس کا مشاہدہ اسے تخیل کی بلندی اور بے پایاں مسرت سے ہم کنار کرتا ہے۔
جوزف ایڈیسن اور سٹیل کے متعلق ناقدین کی عام رائے یہی ہے کہ انھوں نے انگریزی ایسّے کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ ایڈیسن کی انشائیہ نگاری کے متعلق ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’اس نے اپنے ایسیز کو محض تفننِ طبع کی چیز بنانے کے برعکس ان کے لطیف طنز کے ذریعہ انگریزی معاشرے کے سماجی مُغائیر، اخلاقی اقدار اور سیاسی منافقت کو بھی نشانہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے اس نے تیز مشاہدہ اور معاشرے کے داخلی تضادات اجاگر کرنے والی نظر سے خصوصی کام لیا۔ چنانچہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا بلکہ بیشتر ایسیز کی حد تک اسے ایڈیسن کا امتیازی وصف قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں The Adventures of a Shilling کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس میں ایک شلنگ آپ بیتی کے روپ میں اپنی مہمات سناتا ہے اور یوں انگلستان کے مختلف طبقات کی سیر کرتا ہے۔‘‘ (۱۴)
اردو میں سر سید کے سامنے اسپکٹیٹر اور ٹیٹلر کا اسلوب تھا جو ان کی طرزِ فکر، نئی سوچ اور غیر روایتی خیالات کے اظہار کے لیے نہایت مناسب تھا۔
’’سر سید نے انگلستان میں سپکٹیر اور ٹیٹلرکے ایسیز کا مطالعہ کیا تو سٹیل اور ایڈیسن کے موثر انداز سے وہ بہت متاثر ہوئے اور ہندوستان آ کر انھوں نے تہذیب الاخلاق کا اجرا کیا۔ سماج اور قوم کی اصلاح سر سید کے پیشِ نظر تھی، سٹیل اور ایڈیسن کا بھی یہی مطمح نظر تھا اسی لیے ان کے ایسیز کا اسلوب سر سید کو اپنے مشن کے لیے مناسب معلوم ہوا۔ سر سید ہی کی طرح محمد حسین آزاد کی ’ نیرنگِ خیال‘ میں جتنے بھی انشائیے ملتے ہیں وہ بھی ان دونوں کے ایسیز کا اردو روپ ہیں۔‘‘
ایڈیسن کے مضامین سے چند اقتباسات:
٭ ’’ہم پر نازل ہونے والی رحمتیں اکثر، محرومی، مایوسی اور دکھ کی شکل میں نازل ہوتی ہیں، ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے تاکہ ہم جلد ہی انھیں ان کی مناسب شکل میں دیکھ سکیں۔‘‘
٭ ’’ہر نئی اور انوکھی چیز ہمارے تصورات کو مسرت سے ہم کنار کرتی ہے کیونکہ یہ ہماری روح کو قابلِ قبول حیرت عطا کرتی ہے، تجسس کو بیدار کرتی ہے اور ہمیں نا آشنا خیالات سے واقف کرواتی ہے۔‘‘
٭ ’’مطالعہ ذہن کے لیے اسی طرح ہے جیسے ورزش بدن کے لیے۔‘‘
جوناتھن سوِفٹ: Jonathan Swift (1667-1745)
سوِفٹ کا شمار انگریزی کے صفِ اول کے طنز نگاروں میں ہوتا ہے۔ The Battle of the Books اور The Tale of a Tub میں سوِفٹ کی طنز نگاری بے مثال ہے۔ یہی انداز اس کے انشائیوں پر اثر انداز ہوا۔ اس کے انشائیے ’گرجا گھر میں سونا‘اور’سیاسی جھوٹ کا فن ‘میں بھی طنز کی نشتریت محسوس کی جا سکتی ہے۔ سوِفٹ کی نثر رواں دواں ہے اور اس کی زندہ دل شخصیت کے نقوش اس میں بھی نمایاں ہیں۔ اس کی کتاب Gullivers Travels کی تخیل پروازی اس کے انشائیوں کا بھی ایک اہم وصف ہے۔ سوِفٹ کا اسلوب سادگی اور پر کاری سے عبارت ہے۔
جانسن: Samuel Johnson (1709-1784)
انگریزی ادب میں جانسن Samuel Johnson کی عبقری شخصیت A Dictionary of The English Language کے حوالے سے معروف ہے۔ ادب اور ادبی شخصیات کے مطالعے پر مبنی تحریریں اس کی غیر معمولی لیاقت کا ثبوت ہیں۔ جانسن کی علمی شخصیت سے انگریزی انشائیے کو بھی وافر حصہ دستیاب ہوا۔ ریمبلر Rambler میں شائع ہونے والے جانسن کے مضامین نے ایڈیسن اورسٹیل کے طرزِ ادا کو آگے بڑھایا۔
جانسن کی تحریروں میں قدرے لطافت کا فقدان اس کی دانشورانہ شخصیت کے علمی پہلوؤں کی قطعیت کے سبب ہے۔ علمیت کے ساتھ ہی واعظانہ انداز اس کی تحریروں کو بوجھل بنا دیتا ہے۔ اس کے باوجود اپنی فطری دلکشی کے سبب اس کے انشائیے مقبولیت سے ہم کنار ہوئے۔
"Great works are performed not by strength but by perservance. Patriotism is the last refuge of the scoundre."
گولڈاسمتھ: Oliver Goldsmith (1728-1774)
گولڈاسمتھ کے مشہور ناولThe Vicar of Wakefield کے کرداروں ہی کی طرح گولڈ اسمتھ کے انشائیوں میں بھی اس کی شخصیت کی جھلک نمایاں ہے۔ گولڈ اسمتھ نے The Bee میں لکھنا شروع کیا۔ اس کے انشائیوں میں سادگی، سلاست، طنز و مزاح اور دانشوری کا باہمی امتزاج نمایاں ہے۔ گولڈ اسمتھ نہایت سلجھے ہوئے انداز، سادہ اور فطری اسلوب میں زندگی کی گتھیوں کو سلجھا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ The Citizen of the World ۱۷۶۲ء میں منظرِ عام پر آیا۔ اسے گولڈ اسمتھ کے نمائندہ انشائیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے متعلق Concise Cambridge History of English Literature میں لکھا ہے:
"The easy, natural style, the simple wisdom, the good humour and the shrewd sense of preparation in life, give "the citizen of the world" a high place in our prose literature."
چارلس لیمب: Charles Lamb (1775-1834)
چارلس لیمب کے ساتھ انگریزی انشائیہ کا ایک مخصوص اسلوب وابستہ ہے۔ لیمب کے انشائیے اس صنف کے جد امجد مانتین کے ذریعے اپنائے گئے اظہارِ ذات کے مخصوص انداز کے نمائندہ ہیں بلکہ اس کا نقطۂ عروج قرار دئے جا سکتے ہیں۔ لیمب نے Familiar ایسّے کے کامیاب نمونے پیش کیے ہیں۔ اس نے انگریزی انشائیوں کو شخصی مزاج اور طرزِ ادا کا وہ سلیقہ عطا کیا جس کی ابتدا مانتین نے کی تھی۔ اس کے بعد بیکن کے انشائیوں میں اس انداز سے انحراف برتا گیا جسے ہم باطن کی سیاحت سے تعبیر کرتے ہیں۔ بیکن نے انشائیوں کو دل سے زیادہ ذہن کی جولان گاہ بنانے پر زور دیا۔
چارلس لیمب کے انشائیے جہاں اس کی متنوع ذہنی دلچسپیوں کی عکاسی کرتے ہیں وہیں اس کے نجی تجربات اور دلکش اندازِ نگارش نے اس کی شخصیت کے کئی گوشے بے نقاب کیے ہیں۔ اسی خوبی نے ان کے انشائیوں کو سوانحی اہمیت کا حامل بھی بنا دیا ہے۔ لیمب کا یہ انداز مرزا غالبؔ کے خطوط سے مشابہ ہے جن سے ہمیں اس عظیم شاعر کی فکر و تخیل آرائی کے ساتھ زندگی کے سرد و گرم کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
چارلس لیمب کے انشائیے شدید قسم کی داخلیت، لطیف احساسات اور آرزوؤں کی بازیافت کے ذریعے زندگی کا ایک الگ رخ پیش کرتے ہیں جس میں انشائیہ نگار کی بھرپور شرکت زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے اورنرالے انداز سے پیش کرنے کی سعی کرتی ہے۔ چارلس لیمب کے انشائیوں میں کیف و نشاط کے ساتھ حزن و ملال کی آمیزش خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ لیمب کی زندگی جن دکھوں اور محرومیوں میں بسر ہوئی اس کا سایہ اس کے انشائیوں پر بھی پڑا۔ اپنے ایک ایسّے میں ملازمت کے دوران پیش آئے تجربات کو لیمب اس طرح بیان کرتا ہے:
’’مستقل حاضری کے عذاب کے پہلو بہ پہلو مجھے یہ خوف بھی بھوت بن کر ڈراتا رہا ہے۔ (ویسے یہ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے)کہ میں کاروبار کے لیے ناموزوں ہوں۔ چنانچہ ملازمت کے آخری ایام میں یہ خوف اس حد تک شدت اختیار کر گیا تھا کہ خود میرے چہرے کے خطوط اس کے غماز تھے، میری صحت اور خوش طبعی کو گھن لگ گیا۔ میں ہمیشہ کسی ایسے بحران سے ہراساں رہتا, میں جس کے مقابلے میں نا اہل ثابت ہوں گا۔ دن بھر کی اس غلامی کے بعد رات بھر نیند میں چاکری کرتا رہتا۔ رات کو ہڑبڑا کر بیدار ہوتا تو دل مفروضہ غلط اندراج، حساب کے اغلاط اور اسی طرح دوسری باتوں سے خوف زدہ رہتا۔ میں پچاس برس کا ہو چکا تھا اور اس سے نجات کی کوئی صورت نہ تھی۔ یوں محسوس ہوتا گویا میں اپنی ڈیسک ہی کا ایک حصہ بن گیا تھا اور میری روح میں کاٹھ نے گھر بنا لیا تھا۔‘‘
لیمب کا مشہور انشائیہ Old China ہے، جس میں وہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ:
’’میں تقریباً عورتوں ہی کی مانند چین کے پرانے برتنوں کا شائق ہوں۔‘‘
لیمب کے انشائیوں میں انکشافِ ذات جس قدر سچا، بے تکلف، پر اثر اور جاندار ہے اس کی مثال انگریزی انشائیہ نگاروں کے ہاں بھی ملنا محال ہے۔ لیمب نے انگریزی انشائیے کو ایک ایسی منزل پر پہنچایا جہاں انشائیہ کا ایک مخصوص اسٹائل اس کی شناخت قرار پایا۔ چارلس لیمب کے تذکرہ کے بغیر انگریزی انشائیہ کا مطالعہ نامکمل ہے۔ لیمب نے لندن میگزین، میں اپنے بیشتر انشائیے شائع کیے۔ Essays of Elia اس کے انشائیوں کا مجموعہ۱۸۳۱ء میں شائع ہوا۔
ولیم ہیزلٹ: William Hazlitt (1778-1830)
ولیم ہیزلٹ کے لیکچرس اور مختلف النوع تصانیف بحیثیت ناقد ادب میں اس کا جو مرتبہ متعین کرتی ہیں، انگریزی کے ایک انشائیہ نگار کی حیثیت سے بھی وہ اسی مقام کا مستحق ہے۔ ولیم ہیزلٹ کے مضامین کے مجموعے: The Table Talk (۱۸۲۱ء)، The Plain Speaker (۱۸۲۶ء)، The Round Table (۱۸۱۷ء) کے ذریعے منظرِ عام پر آنے والی اس کی منفرد تحریروں کا دلکش اسلوب آج بھی اس کے نام سے معروف ہے۔ ولیم ہیزلٹ انگریزی ایسے کا ایک اہم نام ہے۔ اس کے انشائیے شخصی تاثرات کے اظہار کے علاوہ روحانی وجدان کے ساتھ مسرتوں کی دریافت کا ایک ایسا سلسلہ پیش کرتے ہیں جن میں خود کلامی، جامعیت اور معنویت کا انداز حاوی ہے۔ گفتگو کی خوش گوار فضا اس کے انشائیوں میں اول تا آخر بر قرار رہتی ہے۔ ہزلٹ اپنے عہد کے دیگر انشائیہ نگاروں میں اس لیے ممتاز ہے کہ اس کی نگارشات میں انکشاف کا عنصر حاوی ہے۔ وہ اپنے تجربات اور خیالات میں قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہے۔ صحافت سے وابستگی اور زود نویسی کے باوجود اس کے انشائیوں میں تخلیقی تازگی اور اسلوب کی انفرادیت واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
اس کی ایک کتاب کے نام The Table Talk سے ان مضامین کی کھلی کھلی فضا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہزلٹ کی نگاہ ایک نرالی وابستگی اور جذباتی وارفتگی کے سبب جو تصاویر ابھارتی ہے اس کا نوکھا اس کے زاویہ نگاہ کا مرہونِ منت ہے۔ جب نظر عمومیت کا شکار ہو کر دیکھے بھالے اور سوچے سمجھے مناظر دیکھنے کی عادی ہو جائے تو بانجھ ہو کر نئے مفاہیم کی تخلیق کی قوت کھو بیٹھتی ہے۔ ہزلٹ اپنی فطری کم آمیزی اور حساس طبیعت کے سبب اپنے اندر موجود بچوں کے سے تجسس اور کومل احساس کو بروئے کار لاتا ہے۔ استدلالی فکر کی وجہ سے وہ مختلف زاویوں کی کھوج اور پرکھ کے مرحلے سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ وہ موضوع کی گہرائی میں اتر کر معنویت اور مسرت کے گوہر ہائے آبدار بر آمد کرتا ہے۔ اس کے متعلق جارج سمپسن نے لکھا ہے:
"Hazlitt's best aphorism are to be found scattered in profusion up and down his longer essays, his deliberate attempt epigram are more like excised paragraphs than the stamped and coined utterance of genuine." (15)
صحافت سے وابستگی کے باوجود ہزلٹ نے خبروں کی بار برداری اور وقتی دلکشی سے اپنے اسلوب کا دامن آلودہ نہ ہونے دیا بلکہ نثر کے اعلیٰ معیار کے علاوہ آزادانہ فضا اور نئی آب و ہوا سے روشناس کروایا۔ اس کے فکر و نظر کا ارتقا اس کے مضامین کو درجہ اعتبار عطا کرتا ہے۔ ہزلٹ کے انشائیے اخلاقی موعظت سے گراں بار ہونے کے بجائے شخصی تاثرات کو فنکارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
تھامس ڈی کوئنسی: Thomas DeQuincy (1785-1859)
تھامس ڈی کوئنسی کے انشائیے حقیقت اور تخیل کے نقطہ اتصال کو پیش کرتے ہیں۔ یہ انداز اس کی زبان اور اسلوب سے نمایاں ہے اس کی نثر شاعری سے قریب ہے۔ Confessions of an English Opium Eater (۱۸۲۱ء) میں افیم نوشی کے تجربات کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف خود اپنی شخصیت کا احتساب کرنے لگتا ہے۔
English Mail Coach اور On Murder Considered as One of the Time Art اس کے مشہور انشائیے ہیں۔ تھامس ڈی کوئنسی کی غیر معمولی علمی شخصیت اور جرمن فلسفے پر اس دستگاہ کے باوجود اس کے انشائیے قطعیت اور خشک فلسفے سے متاثر ہونے کے بجائے اس کی شخصیت کے شاعرانہ پہلو سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں اور ایسی آزادانہ فضا مہیا کرتے ہیں جو مصنف کے لیے اپنی شخصیت کے بندِ قبا وا کرنے کی تقریب ثابت ہوتی ہے۔
ہنری تھوریو: Henry Thoreau (1817-1862)
ہنری تھوریو امریکی انشائیہ نگار تھا۔ اس کے انشائیوں پر اس کی زندگی کے گہرے نقوش نمایاں ہوئے۔ اس کے افکار نے عالمی پیمانے پر لوگوں کو متوجہ کیا۔ مہاتما گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ بھی اس کے خیالات سے متاثر تھے۔ ان کی سول نا فرمانی کی تحریکات پر اس کا اثر نظر آتا ہے۔ ایک مخصوص قسم و منفرد فکر اور طرزِ زندگی کے سبب اسے ایک مثالی ہیرو کی سی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے انشائیوں میں قدرتی مظاہر سے لطف اندوز ہونے اور انھیں نئی معنویت کے ساتھ پیش کرنے کا انداز نمایاں ہے۔ وہ اپنے انشائیے رات اور چاندنی میں لکھتا ہے:
’’فرض کیجئے کہ آپ ان اشارات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو چاند ایک ماہ کے اندر کرتا ہے (ہرچند کہ اس کایہ عمل بے نتیجہ ہی رہتا ہے) اور پھر بتائیے کہ کیا یہ ادب یا مذہب میں موجود مواد سے کوئی مختلف نوعیت کی شے ہے؟ لیکن کیوں نہ اس ’سنسکرت‘ کا مطالعہ کیا جائے؟ کیا فرق پڑتا ہے اگر چاند اپنی شاعری سے لبریز دنیا، اپنی پر اسرار تعلیمات اپنے الہامی اشارات اور قیاسات کے ساتھ آیا ہے اور آ کر چلا گیا ہے … چاند ایک ملکوتی ہستی ہے جو میرے لیے اشارات سے لدا ہوا آتا ہے اور ایک میں ہوں کہ جس نے اس سے کوئی فائدہ تک حاصل نہیں کیا؟ گویا چاند بغیر توجہ حاصل کیے رخصت ہو گیا ہے!‘‘ (۱۶)
آر ایل اسٹیونسن: Robert Louis Stevenson (1850-1894)
آر ایل اسٹیونسن کے انشائیے سادگی و پرکاری کا ایسا نمونہ ہیں جن میں زبردست قسم کی ہنر مندی کا مظاہرہ ہوا ہے۔ یہ تحریریں بظاہر رسمی گفتگو کا انداز لیے ہوئے ہیں۔ اس کے انشائیے An Apology for Idlers, Lantern Bearer, Walking Torch خیالات کا ایک بے ربط نظام انشائیے کی ایک ڈھیلی ڈھالی بندش اور لطف اندوزی کی خوبیوں سے آراستہ ہیں۔
فطرت کے مظاہر میں ڈوب جانے کا رویہ سٹیونسن کی نثر کو شعریت سے قریب تر کر دیتا ہے۔ اسٹیونسن کے انشائیوں میں الہامی کیفیت سے سر شار فقرے ملتے ہیں جن میں بندشِ الفاظ تہہ در تہہ معنویت کی حامل ہے۔ آر ایل اسٹیونسن کے انشائیوں پر ہز لٹ کی گہری چھاپ ہے۔ وہ اسے اپنا استاد تسلیم کرتا ہے۔ سٹیونسن کے ہاں فطرت سے ہم آہنگ ہونے کا رحجان اور خود کلامی کا انداز نمایاں ہے۔ اس کے متعلق انور سدید لکھتے ہیں:
’’سٹیونسن کے مزاج میں ایک مخصوص قسم کی آوارگی موجود ہے اور وہ زندگی پر ایسے انسان کی نظر ڈالتا ہے جس کی مسرتیں اس کی دسترس میں ہیں۔ چنانچہ اس کے انشائیے Lantern Bearers, An Apology for Idlers, Walking Tours وغیرہ سٹیونسن کے ایسے خواب ہیں جنھیں حقیقت سے ماورا نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کے انشائیوں میں جذبے کی روانی اسلوب کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور وہ زندگی کے ایک ایسے ناظر کی طرح دکھائی دیتا ہے جو مواج سمندر سے رنگا رنگ گھونگھے جمع کرتا ہے اور ہمارے سامنے ڈھیر کر دیتا ہے۔‘ (۱۷)
ایلفا آف دی پلو: Alfred George Gardiner (Alpha of the Plough) (1865-1946)
ایلفا آف دی پلو کے نام سے اے جی گارڈنر نے پہلی جنگ، عظیم کے دوران جو انشائیے تحریر کیے انگریزی انشائیے کا ایک جداگانہ رنگ پیش کرتے ہیں۔ یہ تحریریں مہذب سوچ اور انشائیہ نگار کی شخصیت کا آزادانہ انعکاس ہونے کے علاوہ عصری زندگی کی دلچسپ تصویریں بھی پیش کرتی ہیں۔ Leaves in the Wind, Pebbles on the Shore اس کے انشائیوں کے مجموعے ہیں۔
اے جی گار ڈنر اپنے انشائیوں میں اسی طریقہ کار کو اپناتے ہیں جو رابرٹ لنڈ نے اختیار کیا۔ یعنی روزمرہ کی زندگی کے کسی معمولی سے واقعے کو لے کر اس کے گرد خیال آرائی کا ہیولا تیار کر کے موضوع کے متعلق اپنا ذاتی نقطۂ نظر پیش کرنا۔ لوگوں کے رویوں اور سماج کی ریت رواج سے قدرے منحرف ہو کر صورتِ حال کا از سرِ نو جائزہ لیتے ہوئے۔ نئے افکار کی دریافت کا انداز اے جی گارڈنر کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اے جی گارڈنر ایک مہذب، امن پسند اور انسانیت کی بہتری کے خواہاں شہری کی طرح اخلاقی قدروں اور اصلاحی صورتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان اقدار کی پذیرائی یا مذموم حرکات کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس طرح کہ انشائیے کی لطافت اور فنی لوازمات کا پاس ان کی تحریر کو پند و نصائح کا روپ اختیار کرنے سے بچائے رکھتا ہے۔ نرم گفتاری اور شگفتگی ان کے انشائیوں کا حسن ہے انشائیہ اظہارِ تشکر کرنا میں لکھتے ہیں:
’’در اصل خراب رویے زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں اور وہ سال بھر میں ہونے والے جرائم سے زیادہ مہلک ہوتے ہیں مگر کوئی قانون ہمارے رویوں، ہماری گفتگو، ہمارے غصے اور ہمارے مخصوص آداب پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ اب اگر ایک طرف ہم لفٹ مین کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں تو دوسری طرف ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہمیں کسی بھی خدمت کے عوض اظہارِ تشکر ضرور کرنا چاہئے۔ آپ کا شکریہ، نوازش، مہربانی جناب، معاف کیجئے، معذرت خواہ ہوں چند ایسے الفاظ ہیں جن سے ہر شخص کے دل میں اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جو خدمت یا زحمت اس نے انجام دی ہے اس کا مداوا ہو جاتا ہے۔ یہ وہ چکنا تیل ہے جس سے زندگی کی مشین اٹکے بغیر رواں رہتی ہے۔‘(۱۸)
اسی طرح دوبارہ زندہ ہونے کی عجیب و غریب خواہش پر اپنے خیالات کو اے جی گار ڈنر نے کچھ اس طرح لفظی جامہ پہنایا ہے:
’’بارے دیگر دنیا میں آنے کا خیال نیا نہیں ہے۔ یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود حضرتِ انسان۔ اور اس سوال کا جواب ہر دور میں ہمیشہ وہی دیا گیا ہے جو ہماری شامِ دوستاں میں دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جوانی کی دوپہر ڈھلنے لگتی ہے اور زندگی کا سونا صرف ہو جاتا ہے تو اس قسم کا سوال اچانک ذہن میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ جوانی کے تصورات تو سلسلہ در سلسلہ اور لا متناہی ہوتے ہیں، جوانی ہمارے سامنے نئے نئے خیالی مناظر، انوکھے اور ان دیکھے خواب اور ان کی خوش رنگ اور دلنواز تعبیریں پیش کرتی رہتی ہے۔
ہر لمحہ بدلتے عالم میں پرانی چیزوں کی طرف مڑ کر دیکھنے کی نہ تو فرصت ہوتی ہے اور نہ خواہش، لیکن فرازِکوہ پر پہنچ کر جب ہم دیکھتے ہیں کہ مناظر سے بھر پور وادی کو تو ہم نشیب میں چھوڑ آئے ہیں اور اب نظر کی دھند میں یہ منظر صاف دکھائی نہیں دیتا اور گرجا گھر کے اونچے کلس پر بھی شام کے سائے پھیلتے نظر آتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آفتابِ حیات بھی اب ڈھلنے والا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب دوبارہ زندہ ہونے کی خواہش سر ابھارتی ہے اور حیاتِ مکرر کا سوال دل سے ابھر کر ہونٹوں سے چپک جاتا ہے۔ اس سوال کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی کا سفر برا کٹا بلکہ یہ سفر طویل تھا اور راستہ ناہموار اور اب جیسے ہم آبلہ پا ہو کر سفرِ حیات سے تھک چکے ہیں۔ اس عالم میں آرام کا خیال کتنا شہد آگیں لگتا ہے اور پھر کس طرح فطرت لپک کر ہماری مدد کو آتی ہے، ہمیں پچکارتی ہے، سہلاتی ہے اور آرام بہم پہنچاتی ہے۔‘‘ (۱۹)
ای۔ وی۔ لوکس: (1868-1938)
ای وی لوکس کے بیشتر انشائیے Punch میں شائع ہوئے۔ یہ سلسلہ اس نے تآدم آخر بر قرار رکھا۔ ای وی لوکس کے انشائیوں میں چارلس لیمب کی طرح ایک حزنیہ لے لیمب کے شعوری اتباع کے نتیجے میں نمودار ہوئی۔ ای وی لوکس سادہ سلجھے ہوئے اور رواں دواں انداز میں متنوع موضوعات پر اپنے تاثرات رقم کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے انشائیوں میں محبت اور انسانی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں مشاہدہ کی گہرائی، شخصی تجربات کا بیان اور گپ شپ کی سی فضا لوکس کے انشائیوں کی خصوصیات ہیں۔ لوکس کا انشائیہ اس کے لیے اپنی عمر رفتہ کو آواز دینے کا ایک وسیلہ ہے۔ وہ اپنے خوابوں اور زندگی کی قدروں کو حزن و ملال کے ساتھ دیکھتا ہے اور اپنی زندگی کو ماضی کی گمشدہ کڑیوں کے مطابق استوار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے قارئین بھی اس کے ساتھ اس سفر میں ہم قدم ہوتے ہیں اور زندگی کی ایک نئی تعبیر سے آشنا ہوتے ہیں:
"I am a believer in Punctuality though it makes me lonely. The trouble with marriage is that, while every woman is at heart a mother, every man is at heart a bachelor."
ہلیئر بیلّاک: Hilaire Beloc (1870-1953)
ہلیئر بیلّاک کے انشائیوں میں ہم کلامی کی کیفیت قارئین کو اپنی گرفت میں لیے رہتی ہے۔ شگفتگی اور قولِ محال کے ذریعے حقیقت کا دوسرا رخ نمایاں کرنے کا منفرد انداز اس کی تحریروں کو قابلِ مطالعہ بناتا ہے۔ اپنے اِسیز میں وہ مزاح اور سنجیدگی کے درمیان توازن بر قرار رکھتا ہے۔ بقول انور سدید اس کی سنجیدگی کی دبیز سطح کے ساتھ شگفتگی ستاروں کی طرح ٹانکی ہوئی نظر آتی ہے۔ چنانچہ جب بیلّاک نکتہ آ فرینی کرتا ہے تو مزاح نگار ہر گز نظر نہیں آتا۔ Hosts and Guests, Going out for a Walk اس کے مشہور انشائیے ہیں۔
"I have wandered all my life, and I have also traveled; the difference between the two being this, that we wander for distraction, but we travel for fulfillment."
جی کے چسٹرٹن: G. K. Chesterton (1874-1936)
پرسنل ایسّے لکھنے والوں میں جی کے چسٹرٹن کا انداز نرالا ہے۔ وہ سلجھے ہوئے انداز میں گہرے اور بصیرت افروز نکات پیش کرتے ہیں جو ان کے تجربات اور تخیلات کے امرت منتھن کا حاصل ہے۔ ان کی پسند و ناپسند سے ان کی شخصیت کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ چسٹرٹن کی تحریر میں زندگی کی حقیقتیں اس ترتیب سے بیان کی جاتی ہیں کہ بین السطور میں، نئی نئی سچائیوں کا احساس پڑھنے والے کو حزن و ملال سے دوچار کر دیتا ہے۔ چسٹر ٹن کے مشہور انشائیے نو جوان رہنے کی خواہش میں مصنف نے کچھ پا لینے میں کچھ کھو دینے کے احساس کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس انشائیے کا ایک اقتباس(ترجمہ) درج ذیل ہے:
’’جب ہم جوان تھے تو ضرب المثل مردہ تھی، اب کہ ہم موت کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں تو ایک جیتا جاگتا حکیمانہ قول بن گئی ہے۔ گویا جب ہم مر رہے ہوتے ہیں تو ساری دنیا از سرِ نو زندہ ہو رہی ہوتی ہے، تعلیم یافتہ لوگ جانتے تھے کہ مرے ہوئے دوبارہ اس جہانِ رنگ و بو میں نہیں آتے لیکن وہ جو پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہیں اور جنھوں نے سر اولیورلاج ایسے سائنس کے مردِ میدان کو ایک مقبولِ عام مذہب کا سنگ، بنیاد رکھتے ہوئے دیکھا ہے وہ جب کسی نو جوان کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ دنیا مافوق الفطرت عناصر سے نجات حاصل کر رہی ہے تو محظوظ ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس دنیا نے حقیقتاً کس سمت میں پیش قدمی کی ہے۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ بوڑھے حضرات بالآخر دانا ہو جاتے ہیں کیونکہ آدمی کو عقل مشکل ہی سے آتی ہے، اس لیے بھی کہ بیشتر بوڑھے حضرات ایک نہایت پرکشش طفولیت اور ایک پر مسرت معصومیت کو قائم و دائم رکھتے ہیں۔ بوڑھے لوگ اکثر و بیشتر نسبتاًکم عمر حضرات سے کہیں زیادہ رومینٹک ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو نسبتاً زیادہ مہم جو بھی اور پھر انھیں اس بات کو تسلیم کرنے میں بھی قطعاً کوئی باک محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کتنی ڈھیر ساری چیزوں کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔
لہٰذا اس ضرب المثل میں رتی بھر کھوٹ شامل نہیں کہ ایک بوڑھے احمق سے بڑھ کر کوئی احمق نہیں ہے۔ شاید کہیں بھی کسی ایسے بیوقوف کا وجود نہیں ہے جو اپنی نجی احمقوں کی جنت میں آدھی خوشی سے بھی رہ رہا ہو۔ با ایں ہمہ یہ بالکل بجا ہے کہ پختہ سالی کی تعریف میں جن دلائل کی عام طور پر تشہیر کی جاتی ہے فی الحقیقت وہ ایسے نہیں ہیں جیسے کہ بظاہر سچائی پر مبنی نظر آتے ہیں اور بالفرض اگر انھیں واقعی آشکار کر بھی دیا جائے تو یہ ہمیں بالکل ایک مضحک تضاد کی مانند معلوم ہوں گے۔‘‘ (۲۰)
میکس بیر بہوم: Max Beerbohm (1872-1995)
میکس بیر بہوم کے انشائیے اس لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں کہ اس سے پہلے کے انشائیہ نگاروں کے ہاں انکشافِ ذات سے پہلوتہی کی جانے لگی تھی اور انشائیے میں اس رنگ کی تحریروں کے بجائے اس طرزِ تحریر کو فروغ حاصل ہونے لگا تھا جو Personal Essay کا خاص انداز نہیں ہے۔ میکس بیر بہوم نے انشائیے کو اپنی ذات کی بے نقابی کا وسیلہ بنایا۔ اس نے اپنی نگارشات میں مثبت قدروں کو اپنی شخصیت کے حوالے سے پیش کیا۔ اس طرح وہ لیمب اور ہزلٹ کے فنِ انشائیہ نگاری سے قریب تر نظر آتا ہے۔
اپنے انشائیے ’الوداع کہنا‘ میں وہ کسی کو رخصت کرتے وقت پیش آنے والی دقت کو بیان کرتے ہوئے ہمیں اس وقت حیران کر دیتا ہے جب یہ بتاتا ہے کہ اس کام کو انجام دینے کے لیے باقاعدہ باہر کے لوگوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں:
وہ بولا: ’’میں الوداع کہنے پر مامور ہوں یعنی بیورو کی طرف سے امریکیوں کو خدا حافظ کہنے کا فریضہ انجام دیتا ہوں تاکہ وہ رنجیدہ نہ ہوں کہ ان کو کوئی بھی الوداع کہنے والا نہیں … برادر آپ سمجھ گئے ناکہ میں سیئر آف seer-off ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’لیکن ہماری آنکھوں میں جوآنسو تھے وہ حقیقی تھے مگر تم تو مصنوعی جذبات رکھتے ہو۔ تمہاری آنکھوں میں جوآنسو تھے وہ؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’میں بھی ایکٹنگ نہیں کرتا۔ الوداع کہتے وقت جذبات موجزن ہوتے ہیں اور میں آبدیدہ ہو جاتا ہوں۔ مگرتم ایک غیر شخص کے لیے رونے کی اداکاری نہیں کر سکتے … بالکل نہیں کر سکتے۔‘‘
میں نے چیختے ہوئے گزارش کی: ’’خداکے لیے یہ ایکٹنگ مجھے بھی سکھا دو۔‘‘ (۲۱)
رابرٹ لنڈ: Robert Wilson Lynd (1879-1949)
انشائیے کے موضوعات کو ذات کے حوالے سے پیش کرنے والے مغربی انشائیہ نگاروں میں رابرٹ لنڈکا نام خصوصی توجہ کا حامل ہے۔ اس نے انکشافِ ذات اور ندرتِ خیال کو درجۂ کمال تک پہنچا کر پرسنل ایسّے کے مخصوص رنگ کی نمائندہ تحریریں پیش کیں۔ اپنے انشائیے میں کسی چھوٹے سے واقعے یا رویے سے پھوٹتی ہوئی خیال کی چنگاری کو ہوا دے کر رابرٹ لنڈ موضوع کا پورا دائرہ روشن کر دیتا ہے۔ اس کے انشائیے بنیادی معتقدات یا موضوع کے ساتھ وابستہ عمومی تصورات سے انحراف کے ذریعے شروع ہوتے ہیں اور خیالات کے مثبت یا منفی پہلوؤں کی چھان بین سے نئے مفاہیم بر آمد کرتے ہیں۔ رابرٹ لنڈ کے انشائیے کچھ عادت کے بارے میں کا اقتباس درج ذیل ہے:
’’میں اپنے بارے میں ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ میں چند عادات پر مشتمل ایک مخلوق ہوں جن میں سے بیشتر خراب ہیں لیکن آج مجھ پر عیاں ہوا کہ میں نئے پیکٹ کا پہلا سگریٹ نکالنے کے اس معمولی سے کام میں بھی عادات کا غلام بن کر رہ گیا ہوں۔ ویسے میں اصولی طور پر عادات کا دشمن نہیں ہوں۔ میری رائے میں آج تک کسی نے اتنی فضول بات نہیں کہی جتنا کہ پیٹر کا مشاہدہ ہے، پیٹر کا کہنا ہے، عام طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری ناکامی اس وجہ سے ہے کہ ہم عادات کو اپنا نہیں سکے۔ اس بات میں آدھی سچائی کے جراثیم تو موجود ہو سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی آدمی جو بد قسمتی سے عادات کو اپنانے کے قابل نہ ہو، وہ اس کہاوت کو ظاہری طور پر تسلیم کر لے گا۔‘‘ (۲۲)
رابرٹ لنڈ نے بسوں کے متعلق اپنے منفرد خیالات اس طرح پیش کیے ہیں:
’’اگر نسلِ انسانی جسمانی تحرک کی لذت ترک کرنے میں بطور ازالہ ذہن یا روح کے تحرک کی نئی لذتوں کی تحصیل کر رہی ہوتی تو موٹروں بسوں کے حق میں مزید مو شگافی ممکن تھی۔ لیکن ذرا دنیا کے نقشے پر ایک نظر ڈالیے۔ آپ اس میں کسی ایک گاؤں کی بھی نشاندہی نہیں کر سکیں گے کہ جس میں ذہنی یا روحانی نوع کی کسی دیسی ہلچل کا شائبہ بھی موجود ہو مثلاً وہ ہلچل جس نے لندن سے گزرنے اور انسان کا کچومر بنانے والی پہلی بس سے چار سو برس قبل سارے اٹلی کو سندرتا سے لبریز کر دیا تھا۔
ایسی صورتِ حال میں میری تمنا ہے کہ نئی چاکلیٹ بس ہر اعتبار سے کامیاب ہو۔ میں اسے ضرور استعمال میں لاؤں گا۔ لیکن میں ان تمام پاپیادہ آوارہ خرامیوں کو حسرت سے یاد کرتے ہوئے ایسا کروں گا کہ جب میں تر و تازہ ہرے بھرے گول مٹول پھلوں والے سادہ درختوں، کتب فروشوں، صرافوں، پھل فروشوں، تمباکو فروشوں کی دکانوں اور ان کے پر از افتخار اور قدیم سائن بورڈوں کے پاس سے با اطمینان گزر جاتا تھا، مگر جس سے میں اب محروم کر دیا گیا ہوں۔‘‘ (۲۳)
ورجینیا وولف: Virginia Woolf (1882-1941)
ورجینیا وولف زندگی کے حقائق کو ڈرامائی انداز میں بے نقاب کرتی ہے۔ اس کے انشائیوں میں عالمانہ بصیرت اور خود کلامی کی کیفیت سے ایک مخصوص قسم کا ماحول پیدا ہوا جاتا ہے جہاں اس کی فکر اور محسوسات کا حاصل کوئی پیغام اشاروں میں موجود ہوتا ہے۔ اس کا مشہور انشائیہ Death of the Moth The کہانی کے فارم میں ہونے کے باوجود کہانی نہیں بن پاتا، اس کی فکری جہت اسے ایک انشائیہ کی حیثیت سے نمایاں کرتی ہے۔ اس انشائیہ میں ایک خاص موسم میں پیدا ہونے والے پتنگے کی حرکات و سکنات کو بیان کیا گیا ہے جو جینے کے لیے مسلسل جد و جہدکرتا ہے مگر قدرت کے قانون کے آگے سر نگوں ہو جاتا ہے۔ شیشے کی شفاف سطح کو پار کرنے کے لیے وہ پتنگا اپنی پوری توانائی جھونک دیتا ہے۔ اس انشائیہ کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:
’’میں نے جب مرے ہوئے پتنگے کو دیکھا تو ایک عجیب سی حیرت نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ موت کی عظیم قوت نے کتنی حقیر سی مخلوق کو اپنا حریف سمجھ لیا تھا؟ اسے اپنے پنجہ آز میں دبوچ کر کیا موت فتح یاب ہو گئی تھی؟ کیا اس کی یہ یلغار بہت بڑی کامیابی سے ہم کنار ہو چکی تھی؟ چند لمحے پہلے زندگی میرے لیے ایک پر اسرار قوت تھی لیکن اب موت مجھے اب ایک اجنبی طاقت نظر آنے لگی۔
پتنگا میرے سامنے سکون اور شائستگی کے ساتھ زمین پر پڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک بھی حرفِ شکایت نہیں تھا، اس کی آنکھیں مندی ہوئی تھیں لیکن اس کا جسم شانت تھا۔ شاید وہ کہہ رہا تھا کہ: ’ میں قوی ہوں لیکن موت مجھ سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔‘‘ (۲۴)
صنف انشائیہ میں وقت کے ساتھ اپنے آپ ڈھالنے کی صلاحیت اور اس میں بروئے کار لائی جانے والی تخلیقی توانائی پر ورجینیا وولف کا پورا بھروسہ تھا۔
ورجینیا وولف کے عہد میں جب انشائیہ ایک آزمائشی دور سے گزر رہا تھا اور انشائیے کی موت کا اعلان کر دیا گیا تھا، مگر وہ بڑا سخت جان ثابت ہوا اور دوبارہ ادب میں اپنے مقام کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی دوران ورجینیا وولف کا یہ بیان سامنے آیا تھا:
’’انشائیہ زندہ ہے اور مایوس ہونے کا کوئی محل نہیں۔ حالات کے تغیر کے ساتھ انشائیہ میں بھی رائے عامہ کے مزاج کے مطابق تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں اور اچھا انشائیہ تغیر کے عمل کو بہتر بناتا ہے۔ اوراگر انشائیہ اچھا نہیں ہے تو یہ عمل بد ترین ثابت ہو گا۔‘‘ (۲۵)
حاصلِ مطالعہ:
انگریزی ایسے نے صدیوں کے سفر میں مختلف ارتقائی مراحل طے کیے ہیں۔ اس کی کائنات میں کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں، جداگانہ صلاحیتوں اور رجحانات کے حامل ادیبوں نے اسے نت نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کیا متنوع اسالیب، طرز ہائے فکر، رجحانات، زبان، اندازِ پیش کش کے اعتبار سے انشائیہ کو بو قلمونی عطا کی۔
مانتین نے اس صنف کو جن مقاصد کے تحت باقاعدہ ایجاد کیا ان میں بنیادی چیز اظہارِ ذات تھی جو آج بھی اس کی انفرادی شناخت قرار دی جاتی ہے۔ انگریزی میں بیکن نے اس کے بنیادی مزاج سے قدرے انحراف کر کے انشائیہ کو دل کے بجائے دماغ کی نمائندگی کا آلہ کار بنایا اور اسے ایک حکیمِ نکتہ رس اور فلسفی کا منصب عطا کر کے زندگی اور کائنات کی گہرائی میں غواصی کا خوگر بنایا۔
ابراہم کاولے تک درمیانی وقفے میں انشائیہ معاشرہ کی تصویریں دکھاتا رہا ابراہم کاولے نے انشائیہ کو پھر وہ مقام عطا کیا جہاں نثر اور شاعری، حقیقت اور واہمہ، فکر اور جذبہ نیز انشائیہ اور زندگی باہم مربوط ہو کر تخلیقی ادب کا نیا انداز پیش کرتے ہیں۔
ولیم ہزلٹ نے انگریزوں کی طبعی خصوصیات کے تحت بھیڑ میں تنہائی سے آشنا فرد کے وجدان کو انشائیہ کا مزاج بنایا۔ چارلس لیمب اپنے لیے انگریزی انشائیہ نگاروں میں سب سے مختلف اور بلند مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہوا۔ نشاط انگیزی اور المناکی کے اتصال پر فکر کا انعکاس کر کے اپنی ذات کے نہاں خانوں کی سیر کرواتا رہا۔
لیمب کی آواز اس کا سوز و گداز اور فکری آہنگ اپنی انفرادیت منوانے میں کامیاب ہوا۔ لیمب کے انشائیے میں انشائیہ نگار کی ذات کی شمولیت در اصل بیکن کے بعد انگریزی انشائیے کے اس نئے موڑ سے آگے بڑھنے والے راستے کی توسیع ہے جسے ابراہم کاولے نے مانتین کی وراثت کے طور پر انگریزی انشائیے میں راسخ کیا۔
ایڈیسن اور سٹیل اپنی شگفتہ اور فکر انگیز تحریروں میں تہذیبی قدروں اور قومی روایات کی بازیافت کے علاوہ یورپ اور انگلینڈ کی تصویر کشی اور کرداروں کے ذریعے اپنے عہد کی دکھتی رگیں ٹٹولتے رہے۔ اسی لیے ان کے انشائیے ان کی دل کی دھڑکنوں کے امین نہ بن پائے اس جگ بیتی میں آپ بیتی کا حصہ کم ہی رہا اس کے باوجود انشائیہ کا مزاج ان کی تحریروں میں پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایڈیسن کی تحریریں انشائیہ کا بہتر نمونہ ہیں۔
ایلفا آف دی پلو، آر ایل اسٹیونسن، گولڈ اسمتھ کے انشائیے حقائق کی بازیافت اور زندگی کو ایک حساس باخبر اور غور و فکر کے عادی شخص کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
میکس بیر بہوم، آلڈس ہکس لے، ڈی کوئینسی، پرسٹلے زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں سے زندگی کی ایک ایسی تصویر مرتب کرتے ہیں جس میں ان کے تخیلات، توقعات، خواہشات اور ذاتی رجحانات کا بھر پور عکس موجود ہوتا ہے۔
ورجنیا وولف جس نے شعور کی رو کی تکنک کو اپنے ناولوں میں بحسن و خوبی برتا اپنے انشائیوں میں وقت کو ایک نقطہ پر سمیٹ کر زندگی کے عظیم حقائق کا عرفان پید کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔ اس کا انشائیہ ڈیتھ آف دی موتھ، جو افسانوی انداز میں انشائیہ لکھنے کی کامیاب کوشش ہونے کے علاوہ انگریزی انشائیوں میں خیال انگیزی اور زندگی کی سفاکیوں اور بے رحم حقیقتوں کو پیش کرتا ہے۔
رابرٹ لنڈ اور چسٹرٹن پامال حقیقتوں سے انحراف کر کے نئی سچائیوں کی دریافت میں اپنی ذات کو اس درجہ شامل کرتے ہیں اس کے نتیجے میں انشائیہ میں ندرت خیال اور اظہارِ ذات کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے۔
انشائیہ کا یہی فن بیشتر ایسّے نگاروں کے ہاں نمو پذیر ہوا، خصوصاً جنھوں نے Familiar ایسّے لکھے Personal Essay کو بعض ناقدین نے Essay کا ایک مخصوص رجحان قرار دیا اور اسے Essay کی روایت سے الگ کر کے دیکھنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں انگریزی میں اس رجحان پر عروج و زوال کے مرحلے آتے رہے۔ اس قبیل کی تحریروں کے خاتمے کا بھی اعلان کیا گیا لیکن ماندگی کے وقفے کے بعد اس رنگ کے دیکھنے والے دوبارہ تخلیقی توانائی کے ذریعے اس صنف کا اثبات کرواتے رہے۔ ایسّے کا یہی رنگ در اصل اس صنف کی ادبی حیثیت اور تخلیقی صنف ہونے کی ضمانت ہے کہ ان تحریروں میں Essay کو دفترِ معلومات کی تکنیکی حیثیت سے نجات دلوا کر ادب کی چیز بنا دیا۔ یہی وصفِ خاص انگریزی کے بڑے انشائیہ نگاروں کے ہاں نظر آتا ہے۔ ان کی تحریریں انشائیہ کی ان ہی نزاکتوں اور فنی رموز کا احاطہ کرتی ہیں۔
جب بھی Essay کا نام آتا ہے ان ادیبوں کی تخلیقات ہمارے ذہن میں اس صنف کے بنیادی محاسن اور خد و خال اجاگر کر دیتی ہیں۔ اردو انشائیہ نے بھی انگریزی انشائیہ کے متنوع اسالیب و رجحانات سے اکتسابِ نور کیا اور اس کے نت نئے انداز کو تخلیقی سطح پر بحسن و خوبی برتا۔ ابتدائی دور، خاص طور پر انیسویں صدی میں سماجی تحریکات اور اصلاحی نقطۂ نظر کو جن ہنگامہ خیزیوں نے راہ دی تھی اس کے زیرِ اثر اس رنگ کی نمائندگی کرنے والے مغربی انشائیہ نگاروں کو ہمارے ادیبوں نے نظر کے سامنے رکھا۔
بیسویں صدی میں جب ٹھہراؤ اور سکون کی فضا قائم ہوئی تو اردو ایسے نگاروں کے ہاں بھی غور و فکر کا رواج عام ہوا۔ Familiar ایسّے میں پائے جانے والے تفکّر اور آزادانہ سوچ سے ہمارے انشائیے مزّین ہوئے۔ اس طرح اردو انشائیہ نگاری میں ایک نیا رنگ و آہنگ تخلیقی سطح پر نمودار ہوا۔
حواشی:
۱۔ ڈاکٹر جمیل جالبی، مقدمہ ارسطو سے الیٹ تک، دہلی، ۱۹۷۷ء، ص: ۳۳
۲۔ Houston Peterson, Great Essays, Page 15, London, 1960
۳۔ ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی، دیباچہ: اردو ایسیز، ص: ۹
۴۔ مانتین، بحوالہ ’انشائیہ اردو ادب میں ‘، انور سدید، لاہور، ۱۹۸۵ء، ص: ۱۱۶
۵۔ مونتین، ترجمہ: انور سدید، مطبوعہ اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر، اپریل- مئی ۱۹۸۵ء، ص: ۳۰۰
۶۔ بحوالہ، انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، ۱۹۸۶ء، ص: ۳۱
۷۔ محمد احسن فاروقی۔ انشائیہ مشمولہ: نیا دور، کراچی، شمارہ۳۵-۳۶، ص: ۹۰
۸۔ بیکن: On Garden، بحوالہ: اردو انشائیہ، انور سدید، ص: ۱۲۴
۹۔ بحوالہ، انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، ص: ۳۳
۱۰۔ کتابیں پڑھنا، سر فرانسس بیکن، ترجمہ: انور سدید، مطبوعہ اوراق لاہور، انشائیہ نمبر اپریل مئی ۱۹۸۵ء، ص: ۲۸۹
۱۱۔ غلام جیلانی اصغر، انشائیہ کیا ہے؟، ادبی ادنیا شمارہ: ۹، ص: ۲۵۴
۱۲۔ Mile Legouis, A Short History of English Literature, Page 191, London, 1956.
۱۳۔ Hudson, An Introduction to the Study of Literature, Page: 53,1958, London.
۱۴۔ ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد لاہور، ۱۹۸۶ء، ص: ۴۶
۱۵۔ George Sampson, Concise Cambridg History of English Literature, Page 531, 1959.
۱۶۔ رات اور چاندنی، ترجمہ سلیم آغا قزلباش: مغرب کے انشائیے، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص: ۱۱۰
۱۷۔ انشائیہ اردو ادب میں، انور سدید، لاہور، ۱۹۸۵ء، ص: ۱۳۶
۱۸۔ اے جی گارڈنر، اظہارِ تشکر کرنا، مترجم: ممتاز احمد خان، اوراق، انشائیہ نمبر، مئی ۱۹۸۵ء
۱۹۔ ایلفا آف دی پلو، دوبارہ زندہ ہونے کی خواہش، ترجمہ: انور سدید، مطبوعہ اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر اپریل -مئی ۱۹۸۵ء، ص: ۲۴۹
۲۰۔ نوجوان نہ رہنے کے مزے، جی کے چسٹرٹن، ترجمہ: سلیم آغا قزلباش، مطبوعہ اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر اپریل- مئی۱۹۸۵ء، ص: ۳۰۹
۲۱۔ الوداع کہنا، میکس بیر بوہم، ترجمہ: ممتاز احمد خاں، ماہنامہ اوراق لاہور، انشائیہ نمبر مئی ۱۹۸۵، ص: ۳۱۲
۲۲۔ کچھ عادت کے متعلق، رابرٹ لنڈ، ترجمہ: خالد صدیقی، ماہنامہ اوراق، انشائیہ نمبر مئی ۱۹۸۵ء
۲۳۔ چاکلیٹ بس، رابرٹ لنڈ، ترجمہ: انور سدید، مطبوعہ اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر اپریل- مئی۱۹۸۵ء، ص: ۳۰۵
۲۴۔ موت ایک پتنگے کی، ورجینیا وولف، ترجمہ: انور سدید، مطبوعہ ماہنامہ اوراق لاہور، انشائیہ نمبر اپریل -مئی ۱۹۸۵ء، ص: ۳۰۴
۲۵۔ American Essay, Page 12 بحوالہ: انشائیہ اردو ادب میں، انور سدید، لاہور، ۱۹۸۵ء، ص: ۱۴۴
٭٭٭