اردو کے مشہور شاعر احمد فراز کا ایک مصرع ہے:
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
تھوڑی سی تصریف کے بعد اس کتاب کا نام مقرر کیا گیا ہے ’’جلوے اُدھر کے‘‘ ۔
مشرق کے مکینوں کے لیے مغربی انشائیے کے جلوے ترجمے ہی کے توسط سے کیوں نہ ہوں، مہیا کرنے کا یہ اہتمام ہے۔ سرحد پار اس قسم کے تراجم رسائل اور کتابوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ وہاں انگریزی ’’ایسیز‘‘ کے نقشِ قدم پر انشائیہ کی پیش قدمی شروع ہے۔ اس نو خیز صنف کے تخلیقی نمونے نہ سہی ان کے تراجم بھی ہمارے قارئین اور فنکاروں کے سامنے رہیں گے تو اخذ و استفادے کے مواقع پیدا ہوں گے، اسی غرض سے مغربی انشائیوں کے تراجم کا یہ مجموعہ پیشِ خدمت ہے۔
انشائیہ اردو ادب کو مغربی ادبیات کا تحفہ ہے۔ افسانہ، ناول اور ڈرامے وغیرہ کی طرح اسے ایک مستعار صنف تصور کیا جاتا ہے۔ اردو کی طرح دیگر زبانوں میں بھی یہ طرز اظہار ثمر بار ہوا۔ کئی ادیبوں نے اس میدان میں طبع آزمائی کر کے ادب میں اپنی شناخت قائم کی۔ اب بھی مختلف رسائل میں انشائیے خصوصی طور پر شائع کیے جاتے ہیں اور انشائیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آتے ہیں۔
کسی موضوع کی تحریک پر نثر نگار کا تاثراتی یا تخلیقی بیانیہ انشائیہ کہلاتا ہے۔ یہ مضمون کی شکل میں لکھا جاتا ہے۔ شگفتہ اسلوب، تخیل کی کار فرمائی اور انشائیہ نگار کے ذاتی تاثرات اس کی خاص پہچان ہیں۔ اس میں موضوع کی کوئی قید نہیں انشائیہ نگار کے تجربات، مشاہدات اور تصورات میں آنے والی ہر شے انشائیہ نگار کو اظہار کی دعوت دیتی ہے۔ زندگی اور کائنات کا کوئی بھی پہلو جو انشائیہ نگار کی سوچ اور احساس کو چھو جائے، انشائیہ کا موضوع ہو سکتا ہے۔
انشائیہ اردو ادب میں ایک نئی اور غیر معمولی اہمیت کی حامل غیر افسانوی صنف ہے۔ موجودہ دور میں زندگی جن دشواریوں اور مشکلات سے دوچار ہے اور ان کے اظہار کے لیے ادب میں بھی مواد اور تکنک کی سطح پر بھی نئے امکانات تلاش کیے جا رہے ہیں، اظہار کی نئی نئی صورتیں سامنے آ رہی ہیں۔ ان حالات میں انشائیہ احساسات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ انشائیہ نثری ادب کی ایک خاص صورت ہے۔ یہ کسی موضوع پر ذاتی حوالے سے ہلکے پھلکے اظہارِ خیال کا ایک طریقہ ہے جس میں زندگی اور اس کے مظاہر اور مسائل پر قلم کار اپنے خیالات کو سلیقے کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اس کی ہیئت مضمون کی ہوا کرتی ہے۔ انشائیہ کی امتیازی خوبی حسنِ انشا ہے۔ انشائیہ کی تخلیقی جہت احساسات پر مبنی ہے بلکہ یہ فکری بھی ہے۔ انشائیہ ہمیں جہاں محسوسات کی دنیا کی سیر کرواتا ہے وہیں نئے افکار سے روشناس کروا کر غور و خوض پر بھی آ مادہ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی تخلیق ہے جس میں مصنف بے تکلفی اور شگفتگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔
ایسّے Essay کے لغوی معنی ’’کوشش‘‘ کے ہیں۔ اس کی عام طور پر دو قسمیں مشہور ہیں۔ Formal یعنی تکلفی اور رسمی اور دوسری قسم کو Familiar یعنی ذاتی اور شخصی کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے لیے ایک اور ترکیب Personal Essay بھی مستعمل ہے جو تحریر کی ایک خوبی کی طرف اشارہ ہے کہ اس میں انشائیہ نگار اپنے ذاتی تاثرات اور محسوسات میں اپنے قارئین کو شریک کرتا ہے۔ لفظ انشائیہ انگریزی کے Light Essay کا متبادل ہے۔ آج انشائیہ اپنی صنفی خصوصیات کے ساتھ ایک ادبی صنف کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر چکا ہے۔
فرانسیسی ادیب مانتین کو انشائیہ کا بانی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی کتاب ESSAI دنیا کی مقبول ترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ مانتین کی نگارشات نے ایک نئی صنف کی بنیاد رکھی اور اسے مختلف زبانوں نے اپنایا۔ مانتین نے ۲۸؍ فروری ۱۵۳۳ء کو فرانس میں ایک آسودہ حال جاگیر دار کے گھر میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ بچپن ہی سے غیر معمولی طور پر ذہین اور محنتی تھا۔ حصولِ تعلیم کے بعد بیس سال کی عمر میں اس نے قانون کے پیشے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ شاہی دربار سے وابستہ رہا اور میئر کے عہدے کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔ ۵۹ برس کی عمر میں ۱۳؍ ستمبر ۱۵۹۲ء کو ۵۹ برس کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔
مانتین نے اپنی عمر کے آخری حصے میں اپنے خیالات سپردِ قلم کیے اور عام روش سے ہٹ کر انداز اختیار کیا۔ اسے سعی کا نام دیا۔ جان فلوریو نے اس کی دو مطبوعہ جلدوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس طرح یہ صنف انگلینڈ پہنچی جہاں اسے اپنانے اور اس طرزِ اظہار کو فروغ دینے والے کئی ادیب سامنے آئے جن میں بیکن، ابراہم کاولے، چارلس لیمب، ہیزلٹ، ایڈیسن، سٹیل، اے جی گارڈنر (ایلفا آف دی پلو) جانسن، چسٹرٹن وغیرہ
سر سید کے عہد میں اردو میں اس صنف کو کئی قلم کاروں نے اپنی جولانیِ طبع سے نکھارا اور ان کے بعد اس کے خد و خال مزید روشن ہوئے۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ بعض ناقدین نے اس کا سلسلہ ’’سب رس‘‘ سے جوڑ کر کے یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارا انشائیہ ہمارا اپنا ہے۔ قدیم تصنیف ’’سب رس‘‘ جو فتاحی کی فارسی تصنیف ’’دستورِ عشاق‘‘ کا ترجمہ ہے اور دکنی زبان میں داستانی، تمثیلی اور مسجع و مقفیٰ طرزِ اظہار کا نمونہ ہے، اس کی بوجھل نثر اور پند و نصائح کا انداز انشائیہ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ’’ایسّے‘‘ کے بے تکلف اظہار خیال اور انکشافِ ذات کو اس سے کوئی علاقہ نہیں۔ اسی کے ساتھ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر یہ کوئی علاحدہ صنف ہے تو ’’سب رس‘‘ کی تصنیف کے بعد صدیوں تک اردو ادب میں اس کے ارتقاء کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔
انور سدید، ڈاکٹر جاوید وششٹ کے اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ سب رس اردو انشائیہ کا اولین نقش ہے اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:
’’وجہی کی تحریریں نہ صرف بے جا طولِ کلام پر مبنی ہیں بلکہ تخلیق و تحصیلِ مسرت کا باعث نہیں بنتیں۔ ’سب رس‘ ایک صوفیانہ علامتی تمثیل ہے، جس میں تصوف کے نکات و رموز کو بڑی پرکاری سے بیان کیا گیا ہے۔ وجہیؔ نے اس کتاب میں انکشافِ ذات کا عمل آزمانے کی کوشش نہیں کی، ان کی آنکھ صرف خارج میں کھلتی ہے اور حقیقت کی اخلاقی پرت کو دیکھتی ہے۔ اس کے باطن سے انشائیہ کا جوہر اجاگر نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ مجرد تصورات پر خیالات کا آئینہ سجانے کے باوجود روشنی کا لشکارا سامنے نہیں آتا۔ آخری بات یہ کہ ’سب رس‘ کی تخلیقی حیثیت تا حال مشکوک ہے۔‘‘ (۱)
انشائیہ سے متعلق، انشائیہ شناسی (مرتبہ: محمد اسد اللّٰہ) میں شامل ایک مذاکرے میں ڈاکٹر یحییٰ نشیط نے ’سب رس‘ کے متعلق ان خیالات کا اظہار کیا ہے:
’’سب رس‘ وجہی کی کوئی مستقل تصنیف نہیں، یہ فتّاحی کی فارسی تصنیف ’دستورِ عشّاق‘ کا ترجمہ ہے۔ وجہی نے سن ۱۶۳۵ء میں یہ ترجمہ کیا تھا۔ اس زمانے میں دکنی زبان مغربی ادب سے نا آشنا تھی۔ سب رس خالص مشرقی ادب کا نمونہ ہے۔ سب رس کی نثر مقفیٰ اور مسجع ہے۔ سب رس کے اصل قصے میں ربط و تسلسل کی کمی ہے۔ یہ قصہ تمثیلی ہے اور اعضائے جسمانی کو کردار بنایا گیا ہے۔ وجہی کے بیان کردہ قصے کے اکثر واقعات انسانی نفسیات سے لگّا نہیں کھاتے۔ اس میں توہماتی اور اسطوری فکر کی فراوانی ہے جو زندگی سے جڑے روز مرہ کے حقائق کی نقیض ہے۔ وجہی نے اپنی اس تصنیف میں نثری اسلوب میں شاعرانہ لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ داستانی طرزِ بیان اپنایا گیا ہے۔ وجہی نے اس میں واعظانہ لب و لہجے کو ترجیح دی ہے۔ وجہی کے نصائح و مواعظ تحریر کو بوجھل بنا دیتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا تمام خصوصیات سے انشائیے کا کوئی تعلق نہیں۔ صرف ایک آدھ پیراگراف اگر انشائیہ کی لفظیات اور اس کے تحریر سے اتفاقاً مربوط ہو جائے تو اس بنیاد پر ہم سب رس کو انشائیہ کا اولین نقش نہیں کہہ سکتے۔ بے ساختگی اور روانی انشائیہ کی جان ہے وہ سب رس میں مفقود ہے۔ ذہنی تناؤ سے نکال کر قاری کو فرحت و انبساط سے ہم کنار کروانا جو انشائیہ کا خاص وصف ہے، سب رس میں وہ بات نہیں۔ سب رس میں موہوم دنیا کے تخیلاتی احوال پیش کیے گئے ہیں۔ انشائیے میں موہوم دنیا کا کوئی گزر نہیں۔ مذکورہ بالا تمام شواہد سب رس کو انشائیہ کا اولین نقش ہونے کی نفی کرتے ہیں۔ اگر سب رس کو انشائیے کا اولین نقش قرار دیا جاتا ہے تو ناقدین کی اس رائے کو مسترد کرنا پڑے گاجس میں وہ انشائیہ کو مغربی صنف سے تعبیر کرتے ہیں۔ در اصل سر سید اور بھارتیندو ہرش چندر کے زمانے میں ہندی اور اردو میں انشائیے کی ابتدا ہوئی۔ دونوں نے ’خوشی‘ کے عنوان پر مضامین لکھے تھے۔ سر سید کی تحریر ’’امید کی خوشی‘‘ اردو میں انشائیے کا اولین نمونہ تھی تو بھارتیندو کا نبندھ ’خوشی‘ اس کا ابتدائی نمونہ قرار پایا۔ (۲)
مغربی ادب اور دیگر زبانوں میں موجود ادب کے اثر سے اردو ادب میں بہت سی خوشگوار تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ اس کا نقطۂ آغاز فورٹ ولیم کالج کے تراجم تھے۔ فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کی ایما پر ۱۸۰۰ ء میں کلکتہ میں قائم کیا گیا۔ اس میں مختلف زبانوں مثلاً عربی، فارسی، ترکی، روسی اور انگریزی ادبیات کو اردو میں منتقل کیا گیا۔
ان تراجم کے بعد نئی اصناف کو بھی اردو میں فروغ حاصل ہوا۔ سر سید کے عہد میں جب سماجی تبدیلی کے لیے صحافت اور مضمون نگاری کا سہارا لیا گیا تو انگریزی ایسے کو اپنا کر اسے عوامی رابطے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اس سلسلے میں ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں:
’’عہدِ سر سید میں سر سید اور ان کے رفقاء نے انگریزی ایسے کو اردو میں متعارف کروایا۔ بقول ظہیر الدین مدنی، اردو میں مقالہ نگاری کا آغاز ۱۸۴۵ء کے آس پاس ہو چکا تھا مگر اس کی مقبولیت کا عہد ۱۸۵۷ء کے بعد شروع ہوا۔ دلی کالج کے نصاب میں مختلف مضامین شامل ہوا کرتے تھے … جہاں تک ایسّے نگاری کا تعلق ہے اس دور میں ہر بزرگ نے ایک آ دھ ایسے ضرور لکھا۔ ان میں سر سید، مولانا آزاد، ذکا اللّٰہ خصوصیت رکھتے ہیں۔‘‘ (۳)
سر سید سے پہلے ماسٹر رام چندر کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ انھوں نے ایسیز لکھے ہیں۔ سر سید نے مسلمانوں میں ایک بڑی تبدیلی اور بیداری کا پیغام دیا۔ انھیں یقین تھا کہ انگریزوں کی طرح تعلیم حاصل کر کے ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے کے سوا اس قوم کے پاس چارۂ کار نہیں۔ اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے انھوں نے مضمون نگاری کو ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔ مضمون نگاری میں انھوں نے انگریزی انشائیہ نگار ایڈیسن اور سٹیل کے اسلوب کو اپنایا کیونکہ سر سید کے پرچے کے مقاصد بھی ان دونوں کے خیالات سے ہم آہنگ تھے۔
ایڈیسن نے یکم مارچ ۱۷۱۱ء کو سپکٹیٹر کا اجرا کیا تو اس کے فنی مقاصد کو اس طرح واضح کیا تھا:
’’اس پرچہ کے اجرا کا مقصد اپنے معاصرین کے لیے ہر صبح کو خیالات سے پر ایک Full Sheet شائع کرنا اور ملک کی بہبودی اور تفریح میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔‘‘
سر سید انگریزی ایسے کی روح سے واقف تھے انھوں نے نئی فکر اور نئے خیالات قوم کے سامنے پیش کیے اس کے لیے ایسے سے بہتر کوئی اور ذریعہ شاید ہی کوئی اور ہو سکتا تھا۔ انشائیہ کے سلسلے میں وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’اردو ادب میں انشائیہ کا طلوع ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے وہ یوں کہ انشائیہ انفرادی سوچ کا محرک ہے اور اس لیے اس کی آمد سے ہمارے ادب میں فرد کی سطح پر سوچ کا وہ عمل جاری ہو گیا ہے جس کی کمی ہم ایک مدت سے محسوس کر رہے تھے۔ بات در اصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں یا تو دانش و حکمت کے جواہر ضرب الامثال اور کہاوتوں کی صورت میں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے چلے آئے ہیں یا پھر ہم نے دوسرے ممالک سے دانش و حکمت کو بڑے پیمانے پر در آمد کیا ہے۔ اصلاً یہ خوشہ چینی کا عمل ہے جس کا ہماری شخصی واردات اور تجربات نیز ہماری منفرد فکری اپج سے کچھ زیادہ علاقہ نہیں ہے۔ ادب اس وقت اجتہادی روش اختیار کرتا ہے جب ادب تخلیق کرنے والے ارد گرد کی اشیا اور مظاہر کو الٹنے پلٹنے لگتے ہیں۔ ان پر صدیوں کے جمے ہوئے زنگ کو اتارتے ہیں اور ان کے اندر چھپے ہوئے مفاہیم کو سطح پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انشائیہ اسی الٹ پلٹ کا بہترین ذریعہ ہے کہ ہر شے کے دوسرے ’’رخ‘‘ کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور مسلّمات کے سحر سے لحظہ بھر کے لیے باہر آنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔‘‘ (۴)
عہدِ سر سید اور اس کے بعد جن ادیبوں نے اس صنف کی آبیاری کی اور اس میں اپنی زبان و ادب کی خوبیوں کو شامل کر کے انشائیہ کو ایک منفرد صنفِ ادب کے طور پر استوار کیا ان میں محمد حسین آزاد، حالیؔ ، مولوی ذکا اللّٰہ، عبدالحلیم شرر، سجاد انصاری، خواجہ حسن نظامی، مرزا فرحت اللّٰہ بیگ، ملا رموزی، نیاز فتح پوری، ابو الکلام آزاد، رشید احمد صدیقی کے نام اہم ہیں۔ پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، مرزا فرحت اللّٰہ بیگ اور ملا رموزی نے ظریفانہ انداز اختیار کر کے اپنی الگ پہچان بنائی۔
انگریزی ایسیز کو اردو میں منتقل کرنے کا سلسلہ عہدِ سر سید ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ ماسٹر رام چندر جو دہلی کالج میں معلم تھے، بقول ڈاکٹر سیدہ جعفر:
’’وہ پہلے ادیب ہیں جنھوں نے انگریزی ادب سے اردو کو روشناس کروایا اور اس سے متاثر ہو کر انگریزی کے طرز پر مضامین لکھنے کی کوشش کی۔‘‘
سر سید کے مضمون ’’امید کی خوشی‘‘ کے متعلق شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
’’امید کی خوشی‘‘ کا مضمون جس کے ہم نے بعض فقرات اوپر نقل کیے در اصل ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے۔‘‘ (۵)
سر سید ایڈیسن اور سٹیل کی نگارشات کے مداح تھے۔ سپیکٹیٹر اور ٹیٹلر میں ان دونوں مایہ ناز ادیبوں کے رشحاتِ قلم کو خصوصی مناسبت تھی، سر سید نے ان مضامین کو سراہتے ہوئے سماج اور ادب پر ان کے خوشگوار اثرات کا اعتراف کیا ہے۔ سر سید کے دیگر مضامین پر ان تراجم کے متعلق ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’سرسید کے بیشتر اور محمد حسین آزاد کے تمام انشائیے انگریزی مصنفین ایڈیسن، سٹیل اور جانسن کے تراجم ہیں جب ہمارے ہاں اس صنف کا آغاز ہی انگریزی ایسّے کے تراجم سے ہوا تو یہ پودا اس سر زمین سے کیسے پھوٹا؟‘‘ (۶)
انگریزی ایسے کے طرز پر ہمارے ہاں جو مضامین لکھے گئے، ان میں گہری ادبیت اور لطافت موجود ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب اردو انشائیہ آگے بڑھ رہا تھا۔ شبلی نعمانی اور ڈاکٹر سلیم اختر کے بیانات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان ہی تراجم نے اس صنف کے فروغ کے راستے ہموار کیے۔ ان تراجم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سلیم آغا قزلباش رقم طراز ہیں:
’’ہمارا اردو افسانہ آج جس بلند مقام پر کھڑا ہے اس کے عقب میں مغربی افسانوں کے تراجم کا ایک باقاعدہ سلسلہ نظر آتا ہے جو کم و بیش نصف صدی قبل سے شروع ہو گیا تھا۔ دوسری طرف اردو ادب میں انشائیہ نگاری کا آغاز اس صدی کے پانچویں عشرے میں ہوا۔ مگر دیگر اصنافِ نظم و نثر کی طرح اسے تراجم کے ذریعے عوام میں مقبول بنانے کی باقاعدہ کوشش نہ کی گئی جس کے نتیجے میں آگے چل کر الجھنیں پیدا ہو گئیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں انشائیہ کو ایک نزاعی صنف قرار دینے کے معاملے میں جو گرد اڑائی گئی تھی وہ بڑی حد تک بیٹھ چکی ہے اور اب انشائیہ کا مستقبل تابناک ہوتا چلا جا رہا ہے، مگر اس بات کی ضرورت بہر حال محسوس کی جا رہی ہے کہ اردو انشائیہ کے خد و خال کو مزید اجاگر کرنے کے لیے بطور نمونہ یا مثال دیگر زبانوں کے انشائیوں کو اردو میں منتقل کیا جائے تاکہ اردو ادب کے قارئین اور طالبِ علموں کو اردو زبان میں لکھے گئے انشائیوں کے مزاج، معیار اور دائرۂ کار کا بہتر طور پر شعور حاصل ہو سکے۔‘‘ (۷)
آزادی کے بعد ابھر نے والے ادیبوں کے ہاں طنز کی جراحت اس وقت کے حالات کا تقاضا تھا۔ انشائیہ اس دور میں پوری طرح ابھر نہیں پایا۔ انگریزی کے پر سنل ایسے کی بنیاد پر اردو میں انشائیہ کو استوار کرنے والوں میں وزیر آغا کا نام اہم ہے۔ وزیر آغا اور ان کے رفقا نے ماہنامہ اوراق، لاہور اور دیگر رسائل کے ذریعے انشائیہ نگاری کو ایک تحریک کی سی شکل دی جس کے نتیجے میں کئی نئے چہرے سامنے آئے۔ ایک اندازے کے مطابق انگریزی پرسنل ایسے کے خطوط پر جن ادیبوں نے انشائیے تحریر کیے ان کی تعداد تقریباً سوا سو کے قریب ہے۔
بھارت میں انشائیہ کے ساتھ طنز و مزاح کا تصور جڑا رہا اسی لیے ہر طنزیہ و مزاحیہ تحریر کو انشائیہ کہنے کا رجحان اب بھی موجود ہے۔ اس ماحول میں بہت کم ادیب اسے انگریزی انشائیہ کے طرز پر لکھنے کی جرات کر پائے۔
بھارت میں عہدِ سر سید اور اس کے بعد کے معتبر انشا پردازوں کی نگارشات مثال کے طور پر موجود تھیں جن میں مغربی انشائیوں کے طرز پر طنز و مزاح سے زیادہ بے تکلف اظہار اور انکشافی کیفیت کے ساتھ حکمت و دانائی کے عناصر بھی وافر مقدار میں موجود تھے اس سلسلے میں ہمارے جامعات میں انشائیہ کے موضوع پر تحقیقی کام ہوتا رہا لیکن صنفی خصوصیات کی پر کھ میں کامیابی کے باوجود عوامی سطح پر طنز و مزاح کو انشائیہ کہنے کا ایک عام رجحان فروغ پاتا رہا جو اب بھی پوری شدت کے ساتھ برقرار ہے۔
اس موقع پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کسی صنف کے متعلق تنقیدی مباحث اس کے خد و خال کو واضح کرنے میں اس قدر کامیاب نہیں ہو سکتے جس قدر اس کے ادب پارے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی خیال کے پیشِ نظرسلیم آغا قزلباش نے ’’مغرب کے انشائیے‘‘ (۱۹۸۹ء) کے عنوان سے انگریزی کے اہم انشائیہ نگاروں کی تخلیقات کو اردو میں منتقل کیا۔ اس میں انھوں نے انگریزی کے مشہور ادیبوں، جی کے چسٹرٹن، جے بی پرسٹلی، آلڈس ہکسلے، پیکو آئیر، ہنری تھیوریو، رابرٹ لِنڈ اور جان رسکن کے ایسیز کو اردو کا جامہ پہنایا۔ سلیم آغا قزلباش کے علاوہ جن ادیبوں نے انگریزی انشائیوں کو اردو میں منتقل کیا ان میں انور سدید، وقار النسا آغا، خالد صدیقی، ممتاز احمد خان اور عبد الرؤف پاریکھ وغیرہ کے نام اہم ہیں۔
انگریزی میں انشائیہ نگاری کی ایک طویل روایت موجود ہے۔ انشائیہ کے بارے میں ہم جب بھی غور کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہماری نظر انگلینڈ کے ادیبوں پر پڑتی ہے۔ اگر چہ فرانس انشائیہ کا مولد ہے مگر انگلینڈ ہی وہ سر زمین ہے جو اس صنف کا اولین گہوارہ ثابت ہوئی اس سلسلے میں ڈاکٹر آدم شیخ لکھتے ہیں:
’’یوں تو دنیا کی مختلف زبانوں میں انشائیے کسی نہ کسی شکل میں موجود تھے۔ لیکن انگریزی نثر نگاروں نے اسے صحیح معنوں میں ایک علیحدہ صنف نثر کی حیثیت بخشی۔ بیکن، ایڈیسن، اسٹیل، چارلس لیمب اور ہزلٹ وغیرہ نے کئی لازوال انشائیے لکھے اور یہی انشایئے اردو ادیبوں کے لیے خصوصیت کے ساتھ مشعل راہ بنے۔‘‘
انشائیہ کی شناخت کے لیے بھی ڈاکٹر آدم شیخ انگریزی انشائیہ نگاروں کی تخلیقات کو ہی بنیاد قرار دیتے ہیں:
’’انشائیہ کی صنف اردو میں مغرب سے آئی ہے اس لیے اس کی پہچان کے لیے ہمیں مغرب سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔‘‘(۸)
برسوں پر محیط اس سفر کے دوران انگریزی انشائیے نے ارتقائی منزلیں طے کی ہیں، اسی لیے وہاں بے شمار مضامین کے ساتھ ہمیں مختلف اسالیب بھی ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ ذکر ضروری ہے کہ اسی بو قلمونی کے سبب پرسنل ایسّے کے ساتھ عام مضامین کو خلط ملط کرنے کا رواج بھی رہا اور پرسنل ایسے کی روایت کمزور بھی پڑی۔ یوں کہا جاتا رہا ہے کہ مغرب میں انشائیہ کی موت کا اعلان کر دیا گیا مگر انشائیہ ایک ایسی سخت جان صنف ہے کہ اس نے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کیں اور وسعتوں کو سمانے کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عکاسی اور ترجمانی کا فریضہ بھی حسن و خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ تا حال یہ کیفیت ہے کہ نہ صرف انگریزی بلکہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں اس صنف میں طبع آزمائی کرنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اب بھی دیگر اصناف کی کتابوں کی طرح انشائیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں۔
انگریزی انشائیہ نگاری کی روایت پر نظر ڈالیں تو ہمیں ادب کے مشہور ادیبوں کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے۔ ایسیز کے اولین نقوش سینیکا کے خطوط میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں فرانس کا ادیب مونتین ہے جسے اس میخانے کی خشتِ اول رکھنے کا شرف حاصل ہے۔ اس نے انشائیہ کو خود انکشافی کے ایک وسیلے کے طور پر یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ اپنی کتاب کا موضوع میں خود ہوں۔ انشائیہ نقلِ مکانی کے نتیجے میں انگلینڈ پہنچا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ بیکن نے اسے اختصار، فلسفیانہ خیالات اور جامعیت کا خوگر بنایا۔ ابراہم کاؤلی نے اسے دوبارہ مونتین کی داخلیت سے روشناس کروایا۔ یوں کہا جاتا ہے کہ انشائیہ کو اس کے اصل مزاج پر اسی نے لوٹایا اسی لیے اسے انگریزی انشائیہ کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔ اسٹیل اور ایڈیسن بنیادی طور پر صحافت کے لوگ تھے انھوں نے انشائیہ کو سماجی زندگی کا آئینہ بنایا اور زندگی کو عام روش سے ہٹ کر دیکھنے کی کوشش کی۔ ولیم ہزلٹ نے انگریزی انشائیہ کو دلکش اسلوب سے بہرہ ور کیا۔ جانسن کے انشائیوں پر اس کی علمی شخصیت کی چھاپ گہری ہے۔ اس کا مطالعہ اس کے انشائیوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ چارلس لیمب انگریزی انشائیہ کا ایک منفرد اسلوب ہے جس میں لطیف احساسات کی بازیافت محزونی کی سرحدوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ گولڈ اسمتھ کے انشائیوں میں انکشافِ ذات کے عمل کو اہمیت حاصل ہے۔
اے جی گارڈنر نے الفا آف دی پلو کے نام سے انشائیے لکھے۔ اس کے ہاں موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے۔ ای وی لوکس نے زود نویسی اور بسیار نویسی میں ریکارڈ قائم کیا تھا۔ ہیلری بلیک کی تحریریں شگفتگی اور ظرافت سے تر و تازہ ہیں۔ چسٹرٹن قدامت پسندی کا علمبردار ہے اس کے انشائیوں میں چونکانے والا انداز پایا جاتا ہے۔ رابرٹ لِنڈ کی نگارشات میں حسنِ ادا کے ساتھ ناقدانہ بصیرت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ میکس بیربہوم کے انشائیے اسلوب کی پختگی اور تخلیقی توانائی کے لیے یاد رکھے جائیں گے۔ ورجنیا وولف اپنے ناولوں میں شعور کی رو کے لیے مشہور ہے، اس کے انشائیوں میں زندگی کا عرفان ملتا ہے۔ تھامس ڈی کوئینسی کے مضامین شاعرانہ رنگ و آہنگ لیے ہوئے ہیں۔ غرض انگریزی انشائیوں میں زندگی کے مختلف رنگ اور انداز مختلف اسالیب میں نمایاں ہیں۔
’جلوے اُدھر کے‘ انگریزی کے صفِ اول کے انشائیہ نگاروں کے اردو تراجم پر مشتمل ہے۔ ترجمہ بہر حال ایک ثانوی چیز ہے اکثر لوگ ترجمے اور خاص طور پر شاعری کے ترجمے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ شاعری میں جس قسم کی تخلیقی زبان کا استعمال ہوتا ہے وہ روزمرہ استعمال کی نثر سے بہت حد تک مختلف ہوا کرتی ہے۔ عام استعمال کی زبان کے تراجم پر ممکن ہے اعتراض کے بہت کم مواقع موجود ہوں، تاہم ایک زبان سے دوسری زبان میں ادب کی منتقلی کماحقہٗ ممکن نہیں ہے۔ انشائیہ میں زبان کا استعمال ایک مخصوص تخلیقی سطح پر کیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں شامل تراجم سے چند اقتباسات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان تراجم کے مطالعے سے ہمیں ان کے موضوعات اور اسالیب کا اندازہ ہو گا اور ان مغربی انشائیوں کو سامنے رکھ کر ہم اردو میں انشائیوں کے نام پر پیش کی جا رہی نگارشات کے بارے میں کوئی رائے قائم کر سکیں گے۔
مونتین کا انشائیہ ’کچھ بیکاری کے بارے میں‘ اس کی زندگی کے تجربات پر مشتمل ہے۔ اس کی خود احتسابی قارئین کے لیے سبق آموز ہے اور چشم کشا بھی:
’’میرا خیال تھا کہ میری طویل زندگی نے مجھے بالغ نظر بنا دیا ہے۔ رزم گہِ حیات سے میں نے جو تجربات سمیٹے تھے ان کے گہرے نقوش میرے ذہن پر مرتسم تھے اور اقتضائے وقت نے اب مجھے بے حد پختہ کر دیا تھا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ بے کاری تو ذہن کو منتشر کر دیتی ہے۔ اسے اضمحلال اور مایوسی کی آماجگاہ بنا دیتی ہے حالانکہ ذہن تو مفرور گھوڑے کی مثال ہے جو اپنے مالک کے اصطبل سے آزاد ہونے کے بعد زیادہ مستعد اور پھرتیلا ہو جاتا ہے۔ اور جتنا کام پہلے وہ دوسروں کے لیے حالتِ جبر میں کرتا اب اس سے سو گنا زیادہ اپنے لیے کر سکتا ہے۔‘‘
بیکن نے کتابوں کی علمی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے انسانی زندگی پر مختلف موضوعات کی کتابوں کے اثرات کو بھی بیان کیا ہے:
’’تاریخ کا مطالعہ انسان کو با شعور بناتا ہے جبکہ شاعری اسے نکتہ سنج بناتی ہے۔ ریاضی باریک بینی پیدا کرتی ہے اور فلسفہ اسے تعمّق اور گہرائی عطا کرتا ہے۔ علومِ عمرانیات حلیم و برد بار بناتے ہیں۔ منطق نکتہ شناسی کا اور انشاء قناعت کا راستہ دکھاتی ہے۔‘‘
چارلس لیمب نے ’رو بہ صحت ہونا‘ میں بیماری اور صحت مندی کی حالتوں کا موازنہ کر کے یہ بتایا ہے کہ ان دونوں حالتوں میں انسانی شخصیت کس طرح تبدیلیوں سے دوچار ہوتی ہے:
’’رو بصحت ہونے کا عمل کس طرح آدمی کو سکیڑ کر دوبارہ اسے اس کی اولین ہیئت میں بدل ڈالتا ہے! جس جگہ اب خلا ہے اور جہاں پر وہ خود اپنی اور اپنے اہل خانہ کے اندازے سے بڑی تاخیر سے قبضہ جما پایا ہے … اس کی شاہانہ عظمتوں کا نظارہ، اس کا کمرۂ عدالت جو کہ اس کی جلوہ نمائی والی خلوت گاہ تھا… اور جہاں دراز ہو کر وہ اپنی متشدد اور متلون سوچوں کو عملی جامہ پہنایا کرتا تھا… کس طرح سمٹ کر ایک عام سی خواب گاہ بن گیا ہے!‘‘
میکس بیر بوہم نے ان لمحات کو اپنے انشائیے میں پیش کیا ہے جب ہم کسی کو الوداع کہنے کے لیے اسٹیشن تک جاتے ہیں اور عجیب و غریب صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں:
’’ہم اپنے دوست سے جی بھر کر باتیں کر ہی چکے ہیں لیکن اپنی محبت میں اسٹیشن پر بھی وارد ہو چکے ہیں اور کبھی تو ہم دونوں کچھ باتیں کر لیتے ہیں اور کبھی بڑی دیر تک محض ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں جیسے کہ گونگے ہوں! اور اس دوران ہم بے چینی سے ادھر ادھر بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ خدایا سگنل کیوں نہیں ڈاؤن ہوتا اور گارڈ وہسل کیوں نہیں بجاتا؟‘‘
اے جی گارڈنر اپنی زندگی کو مسرت، تحیر اور رعنائی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے اور دوبارہ زندہ ہونے کی خواہش بھی وہ اسی شرط کے ساتھ کرتا ہے کہ اسے اس کی چاہت کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع ملے:
’’ہم ابد کے سیاح ہیں اور اس مختصر سے دورِ حیات میں یہ سیاحت ایک مشکل پسند مہم جو کی طرح طے کرنی چاہئے تاکہ اگر دوبارہ زندگی حاصل ہو تو اس میں تحیر اور رعنائی کا نادر عنصر بھی شامل ہو۔ واضح رہے کہ اس جادوئی عنصر کی شمولیت کے با وجود میں زندگی کو دوبارہ حاصل کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔‘‘
جی کے چسٹر ٹن ’چاک کا ٹکڑا ‘ کے حوالے سے قدرت کی نیرنگیوں کو بیان کرتا ہے:
’’مختصر یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ بہت سے رنگوں میں مصوری کرتا ہے لیکن جس خوبصورتی اور شان سے وہ سفید رنگ میں تصویریں بناتا ہے اس کی بات ہی الگ ہے۔ ایک طرح سے ہمارے زمانے نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہے اور یہ ادراک ہمارے بد مزاج لباس میں ظاہر ہونے لگا ہے۔ کیونکہ اگر یہ بات سچ ہوتی کہ سفید ایک بے رنگ اور منفی شے ہے تو پھر اس قنوطی دور کے ماتمی لباس میں بھی سیاہ کی جگہ سفید ہی استعمال ہوتا۔‘‘
جے بی پریسٹلے نے بے کار رہنے سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ عوامی سوچ سے قطعی مختلف ہیں:
’’اس دنیا کا سارا شر ان لوگوں کا پیدا کردہ ہے جو سدا جاگتے اور کام میں مصروف رہتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ انھیں کب جاگنا چاہیے اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک ابلیس ہنوز کائنات کی مصروف ترین ہستی ہے اور میں اسے کاہلی کو مورد الزام ٹھہراتے اور وقت کے ادنیٰ ترین ضیاع پر سیح پا ہوتے ہوئے بہ آسانی دیکھ سکتا ہوں۔‘‘
آلڈس ہکسلے کے نزدیک تمام بنی نوع انسان کسی نہ کسی چیز کے بارے میں تفاخر پسندی میں مبتلا ہیں۔ اس نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے عمدہ نمونے دریافت کیے ہیں:
’’ہر تفاخر پسندی اپنے جاں نثاروں سے غیر مختتم کوششوں اور مسلسل قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ سماجی تفاخر پسند پر لازم ہے کہ وہ ہمہ وقت شیر کا شکار کرے …اگر ہم سرگرمی کو بذاتہٖ ایک اچھائی قرار دیتے ہیں تو پھر ہمیں لازماً تفاخر پسندیوں کو اچھا شمار کرنا ہو گا۔ کیونکہ یہ سب سرگرمی کو مہمیز لگاتی ہیں۔‘‘
ورجینیا وولف کا انشائیہ ’موت ایک پتنگے کی‘ ہمیں زندگی اور موت کے متعلق از سرِ نو غور و خوض پر آمادہ کرتا ہے:
’’پتنگا میرے سامنے سکون اور شائستگی کے ساتھ زمین پر پڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک بھی حرفِ شکایت نہیں تھا، اس کی آنکھیں مندی ہوئی تھیں لیکن اس کا جسم شانت تھا۔ شاید وہ کہہ رہا تھا کہ: ’میں قوی ہوں لیکن موت مجھ سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔‘‘
رابرٹ لِنڈ نے انسانی عادات کا تجزیہ کر کے ہمیں بتایا ہے کہ ہمیں اپنی کتنی ہی عادتوں کا علم نہیں ہوتا اور عادتیں زندگی کو ایک نظم و ضبط عطا کرتی ہیں:
’’میں انتہائی خوش قسمت ہوں کہ کم از کم میری ایک عادت تو ہے کہ میں سگریٹ کا پیکٹ ایک خاص طریقے سے کھولتا ہوں۔ یہ معمولی سی چیز ہے، لیکن کیا یہ چیز وقت کی پابندی، باقاعدگی اور نظم و ضبط کا بیج نہیں ہو سکتی؟ جو میرے سارے وجود میں پروان چڑھائے۔‘‘
پیکو آئر اپنے انشائیے ’کوما‘ میں اوقافِ رموز کے متعلق حیران کن انکشافات کرتا ہے:
’’ہمیں بتایا گیا ہے کہ اوقاف نگاری میں یہ نکتہ مضمر ہے وہ امن و آشتی قائم رکھتی ہے۔ اوقاف نگاری کے نشانات سڑکوں کے ان اشاروں کے مانند ہیں جو ہماری گفتگو کی شاہراہ کے کناروں پر نصب ہیں تاکہ رفتار کو قابو میں رکھا جا سکے، سمتوں کی نشان دہی میں سہولت مہیا ہو اور سامنے کی ٹکروں سے محفوظ رہا جا سکے۔ مرکب جملہ میں سرخ بتی کی سی پلک نہ جھپکنے والی قطعیت ہوتی ہے جب کہ کوما زرد رنگ کی ایک عارضی چمک ہے جو ہمیں محض آہستہ ہو جانے کا اشارہ کرتی ہے۔‘‘
رات اور چاندنی میں ہنری تھوریو نے فطرت کے متعلق دلچسپ انکشافات کیے ہیں:
’’چاند زمین کی طرف کھینچتا ہے اور جواب آں غزل کے طور پر زمین چاند کی جانب۔‘‘ وہ شاعر جو چاند کی چاندنی میں چہل قدمی کرتا ہے اپنی سوچ کی اس موج سے باخبر ہوتا ہے جو قمری اثرات کا نتیجہ ہے۔ میں اب اپنے خیالات کی موج کو دن کے موجود انتشار سے متمیز کرنے کی سعی کروں گا۔ یعنی میں اپنے سامعین کو متنبہ کروں گا کہ وہ میرے خیالات کودن کی روشنی کے معیار پر جانچنے کی جسارت نہ کریں۔ بلکہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ میں رات کے اندر سے بول رہا ہوں۔‘‘
جان رسکن کا انشائیہ ’گھاس کا ایک پات‘ پڑھ کر ہم فطرت کے بے پناہ حسن سے بہ اندازِ دیگر لطف اندوز ہوتے ہیں:
’’تو تم بلند پہاڑیوں کی جانب نگاہ اٹھا دیکھنا جہاں ہمہ وقت ہرے بھرے سبزے کی لہریں صنوبر کے سایوں کے درمیان اپنے طویل ناکوں سے گزرتی ہوئی خاموشی سے جھوم رہی ہوتی ہیں۔ تب ہم شاید بالآخر انجیل کے ۱۴۷ نمبر کے گیت کے ان پر سکون الفاظ کے مطلب کو جان لیں کہ ’’اس نے گھاس کو تخلیق کیا کہ وہ پہاڑیوں کے اوپر اگے۔‘‘
انشائیہ کی زبان اکثر شعر اور نثر کے امتزاج سے تشکیل پاتی ہے۔ اسی طرح مغربی انشائیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں ان فن پاروں کی زبان میں قدم قدم پر علم ادب اور شاعری کے حوالے ملتے ہیں جن کے پر لطف اور تخلیقی استعمال سے انشائیہ نگار نئے مفاہیم کا جادو جگاتا ہے اور یہی نکتہ آفرینی بعض اوقات انشائیہ کی اصل خوبی قرار پاتی ہے۔ یہ خوبی ہمارے انشائیوں میں بھی بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ جملے اور فقرے جب کسی دوسری زبان میں منتقل ہوں گے تو وہاں انھیں اس زبان کے وہ سیاق و سباق ہر بار دستیاب ہونے سے رہے لہٰذا انشائیوں کے اکثر حصے دوسری زبان میں کامیابی کے ساتھ منتقل کرنا جوئے شیر لانا ہے۔ زبان کی یہی ایک خوبی انشائیہ کا فن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آزادانہ تفکر، سوچ کا الہڑ پن، خیالی ترنگ اور خیال آفرینی کے علاوہ موضوع کے ایسے پہلو نمایاں کرنا جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، انشائیہ نگاری کی اہم خوبیوں میں شامل ہیں۔ انشائیہ کے ان ہی اہم لوازمات کو متعارف کروانے کی غرض سے یہ تراجم مفید ثابت ہوں گے۔
محترم ڈاکٹر صفدر صاحب نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا۔ اس کے لیے میں ان کا بصمیمِ قلب شکر گذار ہوں۔ میرے رفیقِ دیرینہ ڈاکٹر محمد اسد اللّٰہ جو ڈاکٹر وزیر آغا کی انشائیہ نگاری کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے، اس صنف کے فروغ کی خاطر ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ انھوں نے اسی موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ ’’انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں‘‘ شائع کیا اور انشائیہ سے متعلق ’یہ ہے انشائیہ‘ ’انشائیہ شناسی‘ اور ’ڈبل رول‘ جیسی گراں قدر کتابیں بھی مرتب کیں۔ انھوں نے مجھے مغربی انشائیوں کا انتخاب مرتب کرنے کی ترغیب دی اور اس سلسلے میں ہر طرح سے تعاون فرمایا، نیز اس کتاب کے لیے اپنا مضمون ’’مغرب میں انشائیہ کی روایت‘‘ عنایت فرمایا، میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اس کتاب کی ترتیب و اشاعت کے سلسلے میں جن احباب کا تعاون مجھے حاصل رہا میں ان تمام کا ممنون ہوں۔ خاص طور پر شاہد رشید صاحب، محمد رفیع الدین (ساحل کمپیوٹرس، ناگپور) اور توصیف احمد۔
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نئی دہلی کا بھی مشکور ہوں جس کے مالی تعاون سے یہ کتاب منظرِ عام پر آئی۔
٭٭٭
حواشی:
۱۔ انور سدید، ’ انشائیہ اردو ادب میں‘، لاہور، ۱۹۸۵ء، ص: ۱۵۰
۲۔ اردو انشائیہ: ایک مذاکرہ، مطبوعہ ’انشائیہ شناسی‘، محمد اسد اللّٰہ، ۲۰۱۹ء، ص: ۱۸
۳۔ ظہیر الدین مدنی۔ اردو ایسیز۔ نئی دہلی، ۱۹۶۵ء، ص: ۳۰
۴۔ وزیر آغا، اداریہ ماہنامہ اوراق لاہور، انشائیہ نمبر، ۱۹۸۵ء، ص: ۵
۵۔ شبلی نعمانی، مقالاتِ شبلی، ص: ۵۸
۶۔ سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص: ۷۲
۷۔ سلیم آغا قزلباش، مغرب کے انشائیے، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص: ۹
۸۔ اردو انشائیہ: سفر منزلیں اور رہنما، ڈاکٹر آدم شیخ، ممبئی، ۱۹۸۸ء، ص: ۲۱
٭٭٭