پیکوآئر
مترجم: سلیم آغا قزلباش
کہتے ہیں کہ دیوتا سانس عطا کرتے ہیں اور پھر اسے چھین بھی لیتے ہیں۔ یہی بات ناچیز ’کوما‘ (comma) کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے … (کیا نہیں کہی جا سکتی؟) اس میں صیغہ کلمہ جاریہ کا اضافہ کر دیں تو یکایک ذہن جیسے لغوی طور پر سوچتے ہوئے رک سا جائے گا۔ اگر آپ کا جی چاہے اور آپ کوما کو نکال باہر کریں یا اسے نکالنا بھول جائیں تو ایسی صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ ذہن ٹھہراؤ کی حالت سے محروم ہو جائے۔ اس کے باوجود کوما کو کوئی توقیر حاصل نہیں ہے۔ یہ محض ایک لغزش سی لگتا ہے۔ خود نمائی کی ایک ادا یا شعور کے آخری کنارے کی پھڑپھڑاہٹ یا طابع کے ہاتھ پر پڑنے والا ایک دھبہ! ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اختصار میں حسن ہے (بالخصوص مائیکرو چپ کے اس عہد میں) تاہم اس کے باوجود سانس کے علاوہ وہ کون سی دوسری شے ہے جو کوما کی طرح اتنی زیادہ استعمال میں آتی ہو!
ہمیں بتایا گیا ہے کہ اوقاف نگاری یہ نکتہ مضمر ہے وہ امن و آشتی قائم رکھتی ہے۔ اوقاف نگاری کے نشانات سڑکوں کے ان اشاروں کے مانند ہیں جو ہماری گفتگو کی شاہراہ کے کناروں پر نصب ہیں تاکہ رفتار کو قابو میں رکھا جا سکے، سمتوں کی نشان دہی میں سہولت مہیا ہو اور سامنے کی ٹکروں سے محفوظ رہاجا سکے۔ مرکب جملہ میں سرخ بتی کی سی پلک نہ جھپکنے والی قطعیت ہوتی ہے جب کہ کوما زرد رنگ کی ایک عارضی چمک ہے جو ہمیں محض آہستہ ہو جانے کا اشارہ کرتی ہے۔ دوسری طرف وقف ناقص (سیمی کولن) ایک ایسا اشارہ ہے جو ہمیں دوبارہ بتدریج رواں ہونے سے قبل آہستگی سے رک جانے کو کہتا ہے۔ لفظوں میں باہمی رشتہ استوار کر کے، اوقاف نگاری ان لوگوں کے درمیان ربط باہم استوار کرتی ہے جو لفظوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اسے بلند مرتبہ قرار دیتے ہیں جب کہ محبت کرنے والے اس کی حکم عدولی کرتے ہیں۔ (گیری گل مور نے اپنی محبوبہ کو یہ بات لکھ بھیجی کہ ’’ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی ملکیت ہیں۔ نیکولی! آؤ عہد کریں کہ ہم ایک دوسرے کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے … کبھی بھی نہیں۔‘‘) اسے یہ بات تو یقیناً معلوم ہو گی (بقول فاؤلر جو انگریزی زبان کے روزمرہ کے بادشاہ ہیں) کہ کوما کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ کبھی نہ جدا ہو سکنے والوں کو بھی جدا کر سکتا ہے۔
بہرحال اوقات نگاری ایک طرح کی سماجی ٹیک کا کام دیتی ہے، یہ ایک ایسا ستون ہے جو معاشرہ کو ایستادہ رکھتا ہے (ایک رواں دواں جملہ جس میں محاورے الگ الگ دکھائی دینے کے بجائے محض ایک جگہ ڈھیر ہو جائیں ایسا ہی بھدا نظر آئے گا جیسی کہ برتن دھونے والی وہ نشیبی جگہ جہاں گندے برتنوں کا ڈھیر لگا ہوا ہو۔) لہٰذا یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ اوقاف نگاری وکٹورین عہد کے اولین اوصاف میں سے ایک تھی… وکٹورین عہد جو انگیا پہننے سے عبارت تھا اور جسے جدیدیوں نے مستردکر دیا۔ جنسی انقلاب کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ یہ اس وقت شروع ہوا ہو گا جب جیمزجائس کے کردار مولی بلوم نے اپنے نجی خیالات کا سارا کچا چٹھا چھتیس صفحات پر مشتمل بے لگام، وقفوں سے تہی سرکاری طور پر سنسر شدہ نثر میں بکھیر دیا تھا۔ ایک اور بغاوت کے حتمی شواہد بھی دکھائی دیے تھے، جب ای ای کیومنگز نے پہلی بار خود کو اس قابل جانا تھا کہ وہ ’خداوند‘ کو نچلے طبقے کے سپرد کر دے۔
یوں اوقاف نگاری ثقافت کے ’دستخط‘ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے … جوشیلی خو رکھنے والا ہسپانوی اپنے دوہری وضع کے کلمات ندائیہ نیز اپنے استفہامیہ نشانات میں خود کو منکشف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ بے حس چینی تصویری رسم الخط سے اشاروں کو منہا کرنے کی اپنی روایتی نام نہاد فہم و ادراک سے ماوراء حالت میں مزید اضافہ کر لیتا ہے۔ چھٹی دہائی کی لاقانونیت اور افراتفری دھماکہ خیز استفہامیہ کلمات، بدمست جلی حروف اور ٹائم ووئف کی رنگین نثر کے چمکتے انداز میں ظاہر ہوئی تھی، جب کہ اشتراکی معاشروں میں، جہاں ریاست مطلق العنان ہوتی ہے، جلی حروف کا وقار اور الوہیت فقط وزیروں، ذیلی کمیٹیوں اور سیکرٹریوں کے لیے مختص کر دی جاتی ہے۔
بایں ہمہ اوقاف نگاری تمدن کے پیدائشی نشان سے کچھ زیادہ ہی بڑی شے ہے۔ یہ ہمارے اذہان میں موجود موسیقی کو نشان زد کرتی ہے اور ہماری سوچوں کو ہمارے دل کی تال پر متحرک ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ اوقاف نگاری ہمارے لفظوں کی رواں موسیقی کا نغماتی زیر و بم ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ کب دم لیا جائے یا کب سروں کو بلند کیا جائے۔ یہ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کسی بھی نوع کے نغمے کی طرح ہماری بات چیت کا معنی اکائیوں میں نہیں بلکہ اوقاف اور فاصلوں میں پنہاں ہوتا ہے۔ اوقاف نگاری اس طریق کا نام ہے جس سے انسان اپنی آنکھیں چراتا، آواز کو مدھم کرتا یا شرماتا ہے۔ اوقاف نگاری، صوت، رنگ اور زیر و بم کو باہم آمیز کرتی ہے، حتیٰ کہ احساس تک ایک مکمل اکائی میں ڈھل کر سامنے آ جاتا ہے۔
مختصراً یہ اوقاف نگاری ہمیں انسانی آواز کے علاوہ وہ تمام مفاہیم بھی عطا کرتی ہے جو الفاظ میں پوشیدہ ہوتے ہیں مثلاً یہ فقرہ کہ ’تم جوان نہیں ہو، ہے نا؟‘ اپنی معصومیت گنوا دیتا ہے جب اسے استفہامیہ نشان سے منقطع کر دیا جائے۔ ہر بچے کو معلوم ہے کہ علامت حذف سے دستکش ہونے سے کیسا کربناک نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے (یعنی جب والدین کا ’یوں نہ کرو‘، آہستگی سے ادا ہونے والے ’ایسامت کرو‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے) اور شخص اپنے عقیدے کو ’عقیدہ‘ میں بدل کر ذلیل ورسوا ہوتا ہے۔ ’اگر ہونے اور نہ ہونے‘ کے الفاظ میں کلمۂ ندائیہ کا اضافہ کر دیا جائے تو اداس ڈنمارکی (یعنی ہملٹ) کے الفاظ میں عزم صمیم جھلکنے لگے۔ اسی طرح اگر کوما کا اضافہ کر دیا جائے … تو ’خدا ملکہ کو سلامت رکھے‘ ایسے الفاظ کی شاہانہ بردباری مایوسی سے لبریز چیخ میں ڈھل جائے جو دوہری بے ادبی کی سرحدوں کو چھو رہی ہوتی ہے۔
بلا شبہ بعض اوقات ہماری علامات محض جمالیات کا مسئلہ ہوتی ہیں۔ کوما کو عبارت میں گھسیڑ دینا، گلو بند پہننے کے مترادف ہو سکتا ہے جو لباس کو ایک خاموش سا وقار عطا کرتا ہے یا پھر یہ آب رواں کی اس آواز کو پکڑنے کے مانند ہے جو جاپان کے کسی قدرتی منظر کی خاموشی کو مکمل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب وی ایس نیپال اپنے تازہ ترین ناول میں لکھتا ہے کہ ’’وہ ادھیڑ عمر کا آدمی تھا، جس نے عینک لگا رکھی تھی۔‘‘ تو اس میں پہلا کوما کچھ نہ کچھ قیمتی دکھائی دے سکتا ہے۔ تاہم یہ بیانیہ کو ایک کروٹ دینے کے علاوہ لطافت بھی بخشتا ہے جس سے بصورت دیگر وہ محروم ہوتا اور یہ (کوما) بتاتا ہے کہ عینک ادھیڑ عمری کا محض ایک حصہ نہیں ہے بلکہ اس سے سوا ’’کچھ اور‘‘ بھی ہے۔
یوں یہ تمام چھوٹی چھوٹی خراشیں، ہمیں وسعت اور وزن اور گہرائی بخشتی ہیں۔ وہ دنیا جس کے پاس محض مقررہ وقفے ہوں، ایک ایسی دنیا ہے جس میں آواز کا اتار چڑھاؤ نہیں ہے۔ یہ دنیا بغیر سایے کی ہے اس کی موسیقی کاٹ دار اور ہموار سطحوں سے تہی ہے۔ یہ جنگی نوع کی موسیقی ہے۔ اس کا آہنگ گرج دار ہے۔ الفاظ نہ تو جھک سکتے ہیں نہ مڑ سکتے ہیں۔ اس کے مقابل ایک کوما، سوچ میں مستغرق ذہن کے اس بہاؤ کو گرفت میں لیتا ہے جو اپنی جانب مڑنے، پیچھے سرکنے دوہرا ہونے اور واپس اپنے شیریں نغمے کے دریائی راستے کے ساتھ ساتھ چلنے سے عبارت ہے۔ جب کہ سیمی کولن (فقرے کے) نحوی حصوں اور خیالات کو اسی طرح یکجا کرتی ہے جس طرح ایک میزبان خاتون اپنی خاموش صوابدید کو بروئے کار لاتے ہوئے مہمانوں کو کھانے کی میز کے گرد ایک خاص ترتیب سے بٹھاتی ہے۔
بہرحال اوقاف نگاری احتیاط کا معاملہ ہے۔ ا لفاظ کے سلسلے میں احتیاط کا لیکن اس کے علاوہ اور نسبتاً زیادہ اہم بات یہ ہے کہ الفاظ کس قسم کا مفہوم ادا کرتے ہیں۔ صرف ایک عاشق ہی معمولی چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے مثلاً یہ کہ کس طرح بعد از دوپہر کی روشنی کی شعاع محبوبہ کی گردن کے پچھلے حصے کو نمایاں کرتی ہے یا کس طرح بالوں کی ایک لٹ کان کے عقب سے پھسل کر سامنے آ جاتی ہے یاکس طرح انگلی پیالی کے گرد بل ڈالتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بھی شخص خط کے ایک ایک حرف کی اتنی توجہ سے جانچ پرکھ نہیں کرتا جتنی توجہ سے ایک عاشق اس کے معمولی سے معمولی نشان کی تلاش کرتا ہے۔ اس کی (نازک سے نازک) تفاوت، اس کی ہچکیوں، آہوں اور ہکلاہٹوں کو کوشش کر کے سنتا ہے اور ان مخفی پیغامات پر غور کرتا ہے جو (خط کے) نغماتی زیر و بم میں پنہاں ہوتے ہیں۔ ’’جین (جسے میں چاہتا ہوں)‘‘ اور ’’جین، جسے میں چاہتا ہوں۔‘‘ میں جو فرق ہے اور جو فرق ان دونوں میں اور ’’جین… جسے میں چاہتا ہوں۔‘‘ میں موجود ہے۔ اس تفاوت کو نشان زد کرتا ہے جو آنند اور دل کے درد میں ہے۔ اساکا بیل کے خوبصورت الفاظ میں ’’لوہا اتنی قوت سے دل میں پیوست نہیں ہوتا، جتنی قوت سے وہ وقفہ جو صحیح مقام پر نمودار ہوتا ہے۔‘‘ یہ کوما ہی تو ہے جو ہمیں آواز یا دل کی شکست و ریخت کوسن سکنے کا موقعہ عطا کرتا ہے۔ فی الحقیقت اوقاف نگاری محبت کی مشقت کا اعلامیہ ہے جو ہمیں ایک طرح سے دوبارہ دیوتاؤں کے حضور لے جاتی ہے۔
٭٭٭