رابرٹ لنڈ
مترجم: سلیم آغا قزلباش
ایک اوسط ذہن کے عام سے قصبائی شخص کی معیت میں مضافات کے سیر سپاٹے پر نکلنا ناقابل عمل سی بات ہے۔ خاص طور پر اپریل یا مئی کے مہینوں میں اور وہ بھی اس کی لاعلمی کے وسیع براعظم پر حیران نہ ہوئے بغیر۔ یہ بات بھی نا ممکن ہے کہ کوئی خود اپنی ہی لاعلمی کے لمبے چوڑے براعظم پر حیرت زدہ نہ ہوتے ہوئے مضافات کی سیر پر نکل کھڑا ہو۔ ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن بیج (ایک درخت کا نام) اور دیودار نیز تھرش (ایک قسم کی چڑیا) اور بلیک برڈ کے زمزموں کے مابین جو فرق ہے اس کو جانے بنا زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ جدید شہر میں رہنے والا کوئی شخص جوتھرش اور بلیک برڈ کی نغمہ سنجی کے فرق کو جان سکے ایک استثنائی بات ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پرندے ہم نے کبھی دیکھے ہی نہ ہوں۔ بات فقط اتنی ہے کہ ہم نے ان پرمناسب توجہ مبذول کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ ہم عمر بھر پرندوں میں گھرے رہتے ہیں، تاہم ہمارا مشاہدہ اتنا کمزور ہے کہ ہم میں سے بیشتر یہ نہیں بتا سکتے کہ آیا chaffinch (گانے والا پرندہ) گانا ہے یا نہیں یا پھر کوئل کا رنگ کیسا ہوتا ہے۔ ہم چھوٹے بچوں کی طرح اس بات پر الجھتے ہیں کہ آیا نر کوئل اس وقت گاتا ہے جب وہ اڑان بھر رہا ہوتا ہے یا اس سمے جب وہ شاخوں میں دبکا ہوتا ہے … کہیں چیپ میں نے فطرت کے بارے میں اپنے مشاہدے یا اپنے تصور کا نقشہ ان مصرعوں میں تو نہیں کھینچ دیا تھا:
جب برگد کی سبزباہوں میں
کوئل کو کو کرتی ہے
اور بہار کی سوہنی رتوں میں
سب سے پہلے
لوگوں کا من موہ لیتی ہے
تاہم یہ جہالت کلی طور پر پریشان کن نہیں ہے۔ اس میں سے ہم دریافت والا لطف پیہم کشید کرتے ہیں۔ اگر ہم لاعلمی سے مناسب حد تک بہرہ ور ہوں تو ہم دیکھیں گے کہ ہر فصل بہار میں فطرت اس طور ہمارے قریب آ جاتی ہے جیسے وہ ابھی شبنم میں بھیگی ہوئی ہو۔ اگر ہم نے اپنی آدھی زندگی کوئل کا درشن کیے بنا ہی گزار دی ہے اور ہم اسے محض ایک آوارہ صدا کے طور پر جانتے ہیں تو ایسی صورت میں جب ہم اسے احساس جرم کے تحت ایک جنگل سے دوسرے جنگل کی طرف پرواز کرتے اور پرواز کے دوران کسی پہاڑی کے دامن میں چناروں کے جھنڈ میں اترنے سے قبل (کہ جہاں اس کی ’بوجھو تو جانیں‘ والی موجودگی چھپ سکتی ہے) ہوا میں ایک باز کی طرح اپنی لمبی دم کی لرزش کے ساتھ معلق ہوئے دیکھتے ہیں تو ہم اس نظارہ کی دید سے گویا کھل اٹھتے ہیں۔ یہ کہنا فضول سی بات ہو گی کہ ماہر فطرت پرندوں کی زندگی کے مشاہدے میں ذرا بھی لطف محسوس نہیں کرتا۔ حقیقتاً اس کا لطف مستقل نوعیت کا ہوتا ہے اور بردباری اور جاں سپاری والا مشغلہ ہے۔ اس چیز کا موازنہ اس شخص کے صبح سویرے والے جوش و خروش سے کریں کہ جس نے کوئل کو پہلی مرتبہ دیکھا ہو اور اسے دنیا ایک جہان دیگر محسوس ہونے لگی ہو۔ یہی سبب ہے کہ مسرت چاہے وہ ماہر فطرت کی ہو، کسی نہ کسی حد تک اس کا دار و مدار اس کی لاعلمی پر ہے جو اس کے لیے ہنوز اس نوع کی دنیاؤں کی مسخر کرنے کا موقع چھوڑ جاتی ہے۔ وہ شاید کتابوں کی وساطت سے علم کی اس آخری ’ی‘ تک پہنچ پایا ہے، لیکن خود کو اب بھی اس لمحے تک نیم جاہل ہی محسوس کرتا ہے جس تک وہ ہر چمکتے ذرے کی اپنی نگاہوں سے چھان بین نہیں کر لیتا۔ اس کی یہ آرزو ہے کہ وہ کبھی تو اپنی آنکھوں سے مادہ کوئل کو دیکھ سکے … جس کا نظارہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے!… یعنی صرف اس وقت جب وہ زمین پر انڈہ دیتی ہے اور اسے اپنی چونچ میں پکڑ کر اس گھونسلے میں لے جاتی ہے جہاں اس کے لیے بچہ کو جنم دینا مقدر ہو چکا ہے۔ ماہر فطرت یکے دیگرے کئی دنوں تک دوربین کو اپنی آنکھوں سے لگائے بیٹھا رہے گا۔ صرف اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے کے لیے کہ کوئل گھونسلے میں نہیں بلکہ زمین پر انڈے دیتی ہے۔ اگر وہ تا حال اتنا خوش قسمت ہے کہ پرندوں میں سے اس انتہائی خفیہ مزاج پرندے کے بارے میں یہ جان چکا ہے کہ وہ کس انداز سے انڈے دیتا ہے، پھر بھی اس کے لیے فی الوقت ایسے متعدد میدانوں کو سر کرنے کا جواز باقی رہے گاجو اس نوع کے ڈھیروں نزاعی سوالات سے بھرے پڑے ہیں، جیسے یہ سوال کہ کوئل کے انڈوں کا رنگ ہمیشہ ان انڈوں کے مانند ہوتا ہے جو پہلے سے گھونسلے میں پڑے ہوتے ہیں یقیناً سائنسدانوں کے پاس اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ اب بھی اپنی گم شدہ لاعلمی پر آنسو بہائیں۔ اگر وہ بادی النظر میں ہر چیز کے بارے میں پوری طرح آگاہ دکھائی دیتے ہیں تو یہ محض اس وجہ سے ہے کہ میں اور آپ کم و بیش کچھ نہیں جانتے۔ ہر وہ صورت حال جو وقوع پذیر ہو رہی ہو وہاں ہمیشہ لاعلمی کی دولت ان کی منتظر ہو گی۔ سر تھامس براؤن کی طرح وہ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ وہ کون سا گیت تھا جو sirens نے یولیس کو سنایا تھا۔
اگر ایک عام آدمی کی جہالت کو بیان کرنے کے لیے میں نے کوئل کا ذکر کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پرندہ پر میری گفتگو ایک سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے کہ موسم بہار میں گرجوں کے قرب و جوار سے گزرتے ہوئے (جن پر یوں لگتا ہے جیسے افریقہ کی ساری کوئلوں نے ہلہ بول دیا ہے) مجھے ہمیشہ یہ خیال گزرا ہے کہ مجھے یا میرے واقف کاروں کو ان کے بارے میں کتنی کم واقفیت حاصل ہے لیکن میری اور آپ کی جہالت کوئلوں تک محدود نہیں ہے، یہ جملہ خلق شدہ اشیاء میں سرایت کر گئی ہے۔ مادہ مہر سے لے کر پھولوں کے ناموں تک پھیلی ہوئی ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ایک زیرک خاتون کو یہ استفسار کرتے ہوئے سنا کہ کیا ہلال ہمیشہ ہفتے کے دن ہی نمودار ہوتا ہے؟ اس نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے مزید کہا تھا کہ شاید بہتری اسی میں ہے کہ اس بات کا پتہ نہ چلنے پائے کیونکہ اگر کوئی یہ نہ جانے کہ ہلال کب نکلے گا یا آسمان کے کون سے گوشے میں وہ متوقع ہے تو اس کا ظہور ہمیشہ ایک خوشگوار تحیر کا سامان فراہم کرے گا۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ہلال ہمیشہ ایک حیرت زدہ انداز میں ظاہر ہوتا ہے بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی باعث حیرت ہوتا ہے جو اس کے اوقات کار سے واقفیت رکھتے ہیں اور بالکل یہی کچھ فصل بہار کی آمد اور پھولوں کی قطاروں کے نمودار ہونے کے سلسلے میں پیش آتا ہے۔ ہمیں گل نو دمیدہ کے اولین تحفہ کا نظارہ کرنے سے کچھ کم شادمانی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ ہم اس کے سال بھر کے معمولات کے بارے میں کافی حد تک آگاہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم ماہ اکتوبر کے بجائے مارچ یا اپریل کے مہینوں میں اسے تلاش کرتے ہیں۔ ہم اس بات سے باخبر ہیں کہ شگوفے سیب کے درخت پر پھل آنے سے پہلے آتے ہیں نہ کہ بعد میں لیکن اس سے ہماری وہ حیرت کم نہیں ہوتی جو مئی کے باغ میں ایک خوبصورت تعطیل گزار کر ہمیں ملتی ہے۔
فصل بہار کی آمد کے موقع پر شاید بیک وقت بہت سے پھولوں کے ناموں کو مکرر یاد کرنے میں بھی ایک خاص قسم کا لطف مضمر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اس کتاب کا از سر نو مطالعہ شروع کر دے جسے وہ تقریباً بھلا بیٹھا ہے۔ مانتین ہمیں بتاتا ہے کہ اس کی یادداشت اس قدر ناقص تھی کہ وہ ہمیشہ پرانی کتب کو یہ سمجھ کر دوبارہ پڑھ ڈالتا کہ اس نے اس سے پہلے ان کو پڑھا ہی نہیں تھا۔ خود میری اپنی قوت یادداشت بھی متلون اور رسنے والی ہے۔ پہلی اور دوسری قرأت کے درمیان اتنا کچھ ذہن سے محو ہو جاتا ہے کہ میں جب ’ہملٹ‘ کو پڑھتا ہوں نیز ’پک وک پیپرز‘ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ نئے مصنفین کی نگارشات ہوں اور ابھی ابھی چھاپہ خانہ سے برآمد ہوئی ہوں۔ ان میں سے بیشتر کا مواد پہلی اور دوسری اقساط کے مطالعہ کے دوران ہی دماغ سے محو ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب اس نوع کی طلب ہو۔ لیکن یہ صورت حال صرف اس وقت پیش آتی ہے جب زندگی کا مطمح نظر لطف اندوزی سے ماوراء ہو۔ محض تعیش کے باب میں یہ بات محل نظر ہے کہ آیا بری یادداشت کے خلاف جس حد تک کہا جا سکتا ہے، اتنا ہی کچھ اچھی یادداشت کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک بری یادداشت کے ساتھ کوئی بھی شخص پلوٹارک اور ہزار داستان کا تا حیات مطالعہ کر سکتا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ بدترین یادداشت رکھنے کے باوجود معمولی نوعیت کی دھجیاں اور ناہموار سرے اس سے چمٹے ہی رہ جائیں گے۔ بالکل ان بھیڑوں کی طرح جو جھاڑیوں کے درمیانی فاصلے کو پھلانگتے ہوئے اپنی اون کی چند چٹکیاں کانٹوں پر چھوڑ جاتی ہیں لیکن خود بھیڑیں اس میں سے گزر جاتی ہیں اور بڑے لکھاری بعینہٖ اپنی تساہل پسند یادداشت کو پھلانگ کر گزرتے جاتے ہیں اور اپنے پیچھے بہت ہی ناکافی آثار چھوڑ جاتے ہیں۔
لہٰذا اگر ہم کتابوں کو فراموش کر سکتے ہیں تو اتنی ہی آسانی سے ہم بیتے ہوئے مہینوں کو اور ان چیزوں کو جو ان مہینوں نے ہمیں دکھائی تھیں بھول سکتے ہیں۔ صرف لمحہ بھر کے لیے میں خود کو بتاتا ہوں کہ میں مئی کے مہینے کو ضربیں دینے والی ایک سلیٹ کی صورت میں پاس کرتا ہوں۔ آج میں یہ بات بڑے وثوق اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ بٹر کپ پھول پر پانچ پتیاں ہوتی ہیں (کہیں چھ تو نہیں؟) گذشتہ ہفتے تو میں یہ بات حتمی طور پر جانتا تھا، لیکن آیندہ برس میں اپنا یہ حساب کتاب بھول چکا ہوں گا اور شاید ایک بار پھر سے مجھے یہ سیکھنا پڑے گا تاکہ میں بٹرکپ پھول کو کیلنڈائن پھول سے خط ملط نہ کر دوں۔ ایک بار پھر میں اجنبی نگاہوں سے دنیا کو ایک گلستان کی حیثیت میں دیکھوں گا۔ میں اس بات پر خود کو غور و خوص کرتے ہوئے پاؤں گا کہ یہ سائنس ہے یا جہالت جو کہتی ہے کہ سوئفٹ (جو سیارہ چڑیا سے زیادہ کالی ہے اور اس کے باوجود گیت گانے والی چڑیا سے اس کا شجرۂ نسب ملتا ہے) کبھی ایک جگہ حتی کہ گھونسلے میں بھی نہیں ٹکتی، بلکہ رات کے وقت فضاؤں کی پہنائیوں میں گم ہو جاتی ہے۔ میں اس بات کوایک نئی حیرت کے ساتھ جان جاؤں گا کہ وہ جو گیت الاپتی ہے نرکوئل نہیں ہے بلکہ مادہ کوئل ہے۔ مجھے شاید دوبارہ یہ سیکھنا پڑے کہ ’کمپین‘ کو ایک خوش رنگ پتوں والا پودا کہہ کر نہ پکاروں اور یہ بات از سر نو دریافت کروں کہ آیا درختوں کی دنیا میں یہ پہلے آتا ہے یا بعد میں۔ ایک ہم عصر ناول نگار سے کسی بدیسی نے ایک مرتبہ یہ سوال کیا تھا کہ انگلستان کی اہم ترین فصل کون سی ہے تو اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر جواب دیا تھا: ’’رائی۔‘‘ جہالت اتنی مکمل تھی کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے عظمت کو چھو لیا ہو۔ لیکن جاہل آدمیوں کی لا علمی تو اس سے کہیں افزوں ہوتی ہے۔ ایک اوسط ذہن کا عام آدمی جو ٹیلی فون کو استعمال کرتا ہے اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتا کہ ٹیلی فون کیسے کام کرتا ہے۔ وہ ٹیلی فون، ریل گاڑی، لائن ٹائپ، ہوائی جہاز کے وجود کو بلا تامل قبول کر لیتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے باپ دادا انجیل مقدس کے معجزوں کو بغیر کسی ثبوت کے برضا و رغبت مان لیا کرتے تھے۔ وہ نہ ہی ان کے بارے میں استفسار کرتا ہے اور نہ ہی ان کے سلسلے میں سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم میں سے ہر ایک نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر خود اپنے گرد واقعات کا ایک تنگ سا حصار کھینچ لیا ہے۔ زیادہ تر لوگ روزمرہ کے کام کاج کے دائرے سے باہر کے علم کی قدر و منزلت دکھاوے کی چیز جان کر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم مسلسل اپنی جہالت کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ہم وقفوں وقفوں سے خود کو ٹھوکا لگا کر بیدار کرتے ہیں اور خیالی گھوڑے دوڑانے لگتے ہیں۔ ہم کسی بھی شے کے متعلق خیال ہی خیال میں خوب مزے لوٹتے ہیں … حیات بعد مرگ یا ایسے سوالات کے متعلق کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ارسطو تک کو گڑبڑا دیا تھا جیسے یہ سوال کہ دوپہر تا آدھی رات تک چھینکنا کیوں خوش فال ہے جب کہ رات سے لے کر دوپہر تک بد فال ہے؟ سب سے بڑا مزہ جو بندگان خدا کے احاطۂ علم میں ہے، یہ ہے کہ علم کی تلاش میں جہالت کے اندر غوطہ لگایا جائے۔ بہرحال جہالت کاسب سے بڑا لطف، سوالات پوچھنے میں ہے۔ وہ شخص جس نے یہ لطف گنوا دیا جس نے بے لچک عقیدے کے لطف سے اسے تبدیل کر لیا ہے جو فی الاصل جواب دینے کا مزہ ہے تو اس نے گویا ابتدا ہی میں تنگ نظری کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ ہم جووٹؔ ایسے متجسس آدمی پر رشک کرتے ہیں جو اپنی چھٹی دہائی میں علم عضویات کے مطالعہ کے لیے کمربستہ ہوا۔ ہم میں سے اکثر و بیشتر اس عمر تک پہنچنے سے کہیں پہلے اپنی جہالت کی حس کھو چکے ہوتے ہیں یہاں تک کہ ہم اپنے نہایت قلیل مقدار پر مشتمل علم کے متعلق جذبۂ افتخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بڑھتی ہوئی عمر رواں کو بجائے خود معرفت کل کا دبستان قرار دیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ سقراط اپنی دانش مندی کی بنا پر مشہور ہو گیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ہمہ بین و ہمہ دان تھا بلکہ اس وجہ سے کہ ستربرس کی عمر میں اس کو اس بات کا عرفان ہوا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
٭٭٭