ورجینیا وولف
مترجم: انور سدید
ان دنوں مختلف اقسام کے موسمی بھنورے فضا میں ہر طرف اڑتے دکھائی دیتے ہیں لیکن انہیں صحیح معنوں میں پتنگا شمار کرنا مناسب نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے بھنورے خزاں کی اندھیری راتوں اور عشق پیچاں کی شاخوں کا وہ خوشگوار اور طرب افزا تاثر پید انہیں کرتے جو کپڑوں کی پھولوں بھری اوٹ میں چھپا ہوا بسنتی پروں والا ایک عام سا پتنگا پیدا کر دیتا ہے۔ بھنورا تو موسمی مخلوق ہے جو نہ پتنگے کی طرح اداس ہے اور نہ تتلی کی طرح مسرور۔ بایں ہمہ میں جس پتنگے کی بات اب کر رہا ہوں اس کا رنگ گھسیا لا تھا۔ اس کے جسم کے ساتھ چھوٹے چھوٹے خوبصورت پر بھنچے ہوئے تھے اور ان پروں کے ساتھ۔ گھس رنگ کی سبز خوش وضع جھالریں بھی آویزاں تھیں۔ یہ پتنگا میرے سامنے والی کھڑکی کے ایک شیشے کے ساتھ لگا ہوا تھا اور موجودات حیات پر مطمئن نظر آتا تھا۔
وسط ستمبر کی اس شفیق، حلیم اور خوشگوار صبح کو میں اپنی میز پر بیٹھا کام کر رہا تھا۔ موسمِ گرما کی حدت اب ختم ہو چکی تھی اور فضا میں معطر خنکی سی پھیل گئی تھی۔ سامنے کھیت میں ایک کسان ہل چلا رہا تھا۔ ہل کا پھالا زمین میں اترتا تو مٹی دب جاتی اور اس کے اندر کا نم سورج کی کرنوں میں چمکنے لگتا۔ زمین کتنی جگ پال تھی۔ کسان کی محنت کو سرفراز کرنے کے لیے اس نے اپنا سینہ ہل کی انی کے سامنے رکھ دیا تھا۔ خیال کی اس پرواز نے میرے تن بدن میں ایک عجیب سا تحرّک پیدا کر دیا۔
کتاب میرے سامنے کھلی پڑی تھی۔ لیکن میں اس پر توجہ مرکوز کرنے سے قاصر تھا۔ میں نے زمین سے نظر ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھا، آسمان کی بسیط فضاؤں میں ہزاروں سیاہ رنگ پرند محوِ پر واز تھے، ارے! یہ تو کائیں کائیں کرنے اور بچوں کی روٹی اڑانے والے ندیدے کوّے تھے۔ لیکن آج ان پر سرشاری کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی اور وہ سب ہم آواز ہو کر موسیقی کا ایک لمبا لہرا اٹھا رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے جشنِ عید منا رہے ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ کوّے نہیں تھے بلکہ درختوں کی پھننگوں پر پھیلا ہوا ایک طویل و عریض جال تھا جس میں ہزاروں سیاہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور گرہوں سمیت یہ جال فضا میں مسلسل گردش کر رہا تھا۔ چند لمحے بعد یہ جال کسی بڑے درخت کو اوڑھ لیتا تو یوں لگتا جیسے درخت کی ہر شاخ میں ایک کالی سی گانٹھ پڑ گئی ہو۔ پھر اچانک غول کا غول چیختا، چلاتا اور شور مچاتا ہوا آسمان کی طرف اڑ جاتا اور آہستہ آہستہ ایک بڑے خوش شکل دائرے کی صورت اختیار کر لیتا۔ کوّوں کے اس جال کا فضا میں پھیلنا اور اچانک درخت میں سمٹنا …قبض وبسط کا ایک ایسا پر لطف نظارہ تھا جس کی مسرت لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ منظر تو آنکھوں کے راستے خود بخود دل میں اتر جانے والا منظر تھا۔
اس دلکش کیفیت میں میری نظر کھڑکی کے شیشے کے ساتھ اٹکے ہوئے گھس رنگے پتنگے میں اٹک گئی۔ آخاہ! آفت کا یہ پر کالہ اب شیشے کی شفاف اور لچک دار سطح کے ساتھ محوِ خرام تھا اور ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف وتری سمت میں چکر لگا رہا تھا۔ پتنگا اپنی تمام تر داخلی قوت سے سرشار تھا اور اس قوت کو بروئے کار لا کر ایک بڑی مہم کو سر کرنے کی کوشش کر رہا تھا مجھے محسوس ہوا کہ وہ طاقت جو کوّوں کو اڑنے، گھوڑوں کو دوڑنے اور کسان کو ہل چلانے کے لیے فعال اور متحرک رکھتی ہے وہی طاقت اب اس حقیر سے پرندے کے جسم میں بھی سرایت کر گئی تھی اور وہ شیشے کو پار کرنے کے لیے ایک ایسی مہم پر نکل کھڑا ہوا تھا جسے سر کرنا ممکن نہ تھا، لیکن پتنگے نے اپنی نا توانی کا احساس کیے بغیر اس بڑے چیلینج کو قبول کر لیا تھا۔ میرے دل میں ہمدردی کا طرفہ جذبہ بیدار ہوا۔ میں اسے مہم آرائی سے تو نہ روک سکا لیکن اپنے جذبۂ تجسس کو آسودگی فراہم کرنے کے لیے اسے مزید انہماک سے دیکھنے لگا۔
اس روز اکتسابِ مسرت کے ممکنات اتنے فراواں اور متنوع تھے کہ مجھے زندگی کے عمل میں اس پتنگے کی موجودگی بھی با معنی نظر آنے لگی۔ پتنگے کی مشقت آزما جد و جہد کی اس پوری زندگی کا مشکل ترین عمل نظر آتا تھا لیکن جس والہانہ سرخوشی، استقلال اور ولولہ سے وہ محدود امکانات سے مسرت کا آخری قطرہ تک نچوڑنے میں مصروف تھا وہ بذاتِ خود جذبات انگیز اور روح پر ور منظر تھا۔ پتنگا جوش اور سر گرمی سے شیشے کے ایک کونے کی طرف لپکتا، وہاں ایک لمحہ کے لیے رکتا، پھر پہلے سے بھی زیادہ وارفتگی کے ساتھ دوسرے کونے میں جا بیٹھتا۔ اس نے شیشے کے دو کھونٹوں کا سفر نپٹا ڈالا تھا اور ان کا مشاہدہ بچشمِ خود کر لیا تھا۔ اب تیسرا یا چوتھا کھونٹ ہی دیکھنا باقی رہ گیا تھا اور وہ اس میں ہمہ تن مصروف تھا۔ اسے دنیا و مافیہا کی کچھ خبر نہیں تھی۔ حالانکہ سامنے طویل و عریض پہنائیاں آسمان کی بیکراں وسعتیں حدِ نظر تک پھیلے ہوئے مکانات اور ان سے اٹھتا ہوا بل دار دھواں اور سمندر کی جانب سے جہازوں کی اکّا دکّا سیٹیاں سب فضا کی میکانیکی یکسانیت کو توڑنے میں معاونت کر رہی تھیں اور ان میں ایک خاص نوع کی جاذبیت بھی تھی لیکن پتنگے کو تو تن بدن کا ہوش نہیں تھا۔ اسے ان میں سے کسی کے ساتھ بھی کچھ واسطہ نہیں تھا۔ اس کا تو ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح شیشے سے پار ہو جائے۔ مقصد میں اس کی والہانہ شیفتگی کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ زندگی نے پتنگے کو عزم و عمل کے ایک بے حد باریک تار کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور اس وقت دنیا کی تمام قوت حوصلہ اور استقلال اس کے جسمِ نا تواں میں مجتمع کر دیا گیا تھا چنانچہ اس نے جتنی مرتبہ بھی شیشے کا میدان عبور کیا اتنی مرتبہ ہی وہ مجھے حقیقی زندگی کا سر چشمہ نظر آیا۔
بلاشبہ وہ جسمانی اعتبار سے بہت حقیر اور نا تواں تھا۔ کائنات میں اس کا وجود لغوی طور پر عنقا کے برابر تھا لیکن فی الوقت تو وہ ہمہ تن زندگی تھا۔ قوت کا یہ وجودِ حقیقی بظاہر لچکیلے شیشے پر لڑھکتا جا رہا تھا لیکن در حقیقت وہ میرے اور میرے جیسے ان گنت دوسرے لوگوں کے ذہنوں کی تنگ اور الجھی ہوئی گلیوں میں سے اپنا راستہ بنا رہا تھا۔ اس پتنگے میں ضرور کوئی نادر اور انوکھی بات تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے خاص زندگی کی چھوٹی سی مالا میں لطافت اور فنکاری سے نرم نرم بال اور چھوٹے چھوٹے پر ٹانک دئے ہیں اور اسے ہم جیسے دنیا دار انسانوں پر رازِ حیات منکشف کرنے لے لیے آڑھے ترچھے راستوں پر رقص کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو۔
پتنگا سرِ پر غرور اٹھائے باوقار انداز میں محوِ سفر تھا۔ وہ کھڑکی کے شیشے کو غریب و غیور انسان کی طرح زیرِ پا لاتا۔ اور جب زندگی افروز افتخار کے ساتھ سطح سے بلند ہو کر فاتحانہ انداز میں اپنے چاروں کھونٹ دیکھتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے یہ تمام عالمِ رنگ و بو اس کی جد و جہد کے سامنے حقیر تھا لیکن اسی لمحہ مجھے یہ خیال آتا کہ زندگی کا یہ پرکالہ اگر کسی اور صورت میں پیدا ہوتا تو کیا ہوتا اور اس خیال کے آتے ہی دل میں ایک مبہم سی اداسی، ایک موہوم سی افسردگی پھیلنے لگتی۔
چندے بعد مجھے محسوس ہوا کہ پتنگا اس مسلسل رقصِ درویش سے تھک سا گیا ہے اور آرام کے لیے شیشے کے کنارے کے ساتھ لگی ہوئی چوکھٹ کے ساتھ چمٹ کر دھوپ سینک رہا ہے۔ زندگی کے خارجی منظر پر اب قدرے جمود طاری ہو گیا تھا۔ گرد و پیش کا تحرک رکا ہوا تھا۔ میں نے پتنگے سے اپنی توجہ ہٹا لی اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا لیکن چند لمحے بعد جب اچانک اوپر دیکھا تو نگاہ پھر پتنگے پر جا پڑی۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے پر پھیلا کر دوبارہ ناچنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اب اس کا بدن تھکن سے چور تھا اور اس کے جسم میں پہلے جیسی والہانہ سر گرمی نظر نہیں آتی تھی چنانچہ جب ایک دفعہ زور لگا کر اس نے شیشے کے دوسرے کھونٹ میں جانے کی کوشش کی تو وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے اس کی سعیِ رائیگاں کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا بلکہ لا شعوری طور پر انتظار کرنے لگا کہ پتنگا ابھی اپنی جد و جہد کا آغاز خود کار انداز میں کر دے گا وہ مجھے اس مشین کی مثال لگا جو چلتے چلتے رک جاتی ہے تو نقص کا ازالہ کرنے یا اس کی وجہ دریافت کیے بغیر ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ مشین ابھی چل پڑے گی۔
پتنگے نے کم و بیش سات مرتبہ حرکت کرنے کی کوشش کی لیکن پھر اچانک اپنے پر پھڑپھڑا کر وہ کھڑکی کی دہلیز پر پشت کے بل گر پڑا۔ اب اس کی بے چارگی اور بے بسی نے میری اپنی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ مجھے احساس ہوا کہ پتنگا کسی بڑی مشکل سے دوچار ہے اور حرکت نہیں کر سکتا۔ اس کی پشت زمین کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی اور آ سمان کی طرف اٹھی ہوئی ٹانگیں بے ثمر جد و جہد کر رہی تھیں۔ میں نے انگیخت دینے کے لیے اس کی طرف پنسل بڑھائی لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس کی ناکامی اور ناکارگی در حقیقت موت کا پیش خیمہ تھی، میں نے پنسل میز پر رکھ دی اور پتنگے کو مزید توجہ سے دیکھنے لگا۔ اس کی ٹانگوں میں ایک دفعہ پھر ہیجانی تحرک پیدا ہوا۔ شاید وہ اپنے کسی دشمن سے نبرد آزما تھا۔ میں نے ادھر ادھر اس دشمن کو تلاش کرنے کے لیے دیکھا لیکن وہاں تو بس اوندھا پڑا ہوا پتنگا ہی موجود تھا۔
میں نے ایک نظر باہر دیکھا وہاں کیا ہو رہا تھا؟ شاید اب دوپہر ہو گئی تھی۔ کھیتوں میں کام رکا پڑا تھا۔ جہاں پہلے زندگی کا تحرک اور ہماہمی تھی وہاں اب سکوت اور خاموشی نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ کوّے پیاس بجھا نے کے لیے چشمے کی طرف اڑ گئے تھے۔ گھوڑے خاموشی سے سر نہوڑے کھڑے تھے۔ کھیت کے عین وسط میں کسان کا ہل اوندھا پڑا تھا اور بیل درخت کے نیچے بیٹھے ہانپ رہے تھے لیکن ان سب کی کیفیت گھس رنگے پتنگے سے مختلف تھی۔ ان سب میں حیات کی داخلی قوت موجود تھی۔ بس اس کا عمل چند لمحوں کے لیے رک گیا تھا اور اس کا اخراج کسی مخصوص جہت میں نہیں ہو رہا تھا لیکن پتنگا تو اپنی زندگی جیسے صرف کر چکا تھا۔ وہ جبرِ مشیت کا شکار تھا اور میں اس الم ناک لمحے میں اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا، ما سوا اس کے کہ اس کی ننھی منی ٹانگوں کی غیر معمولی نوعیت کی حرکت کا مشاہدہ کرتا رہوں اور سوچوں کہ مشیت نے پورے شہر کو اسی طرح اپنے پنجوں میں لے رکھا ہے۔ صرف ایک شہر ہی نہیں یہ پنجہ تو پورے عالمِ انسانیت پر محیط ہے اور اس سے کسی کو مفر نہیں۔
قنوطیت اور پژمردگی کے اس غلبے میں میں نے دیکھا کہ پتنگے نے اپنی تھکن اتار دی تھی۔ اس کی ٹانگیں ایک ہلّے میں پھڑ پھڑا اٹھی تھیں اور یہ ہلّہ اتنا شوریدہ اور مضطربانہ تھا کہ پتنگا اسی میں اپنی ٹانگوں کے بل کھڑا ہو گیا۔ بلا شبہ میری تمام ہمدردی زندگی کے ساتھ تھی اور مجھے قطعاً امید نہیں تھی کہ جہد للبقا کی اس کوشش میں پتنگا کامیاب بھی ہو سکے گا لیکن جب وہ اکڑ کر سیدھا کھڑا ہو گیا تو میں واقعی انگشت بدنداں رہ گیا اور میرے منہ سے بے اختیار صدائے تحسین نکل گئی۔
ایک دفعہ پھر میرے سامنے زندگی نے ایک زمردیں مالا کی متحرک صورت اختیار کر لی تھی۔ میں نے پتنگے کو شاباش دینے کے لیے پنسل آگے بڑھائی لیکن میری یہ کاوش بیکار گئی۔ پتنگے نے پنسل کے لمس کو محسوس تک نہ کیا اور اب جیسے مرحلۂ شوق طے ہو گیا تھا۔ اب سب کچھ بے کار تھا۔ زندگی اپنی بازی ہار چکی تھی۔ پتنگے کا جسدِ خاکی زندگی کے سمندر میں تیرتے تیرتے آسودۂ ساحل ہو چکا تھا۔ جہد للبقا ختم ہو چکی تھی۔ پتنگے نے موت کو چھو لیا تھا۔ میں نے جب مرے ہوئے پتنگے کو دیکھا تو ایک عجیب سی حیرت نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ موت کی عظیم قوت نے کتنی حقیر سی مخلوق کو اپنا حریف سمجھ لیا تھا؟ اسے اپنے پنجہ آز میں دبوچ کر کیا موت فتح یاب ہو گئی تھی؟ کیا اس کی یہ یلغار بہت بڑی کامیابی سے ہم کنار ہو چکی تھی؟ چند لمحے پہلے زندگی میرے لیے ایک پر اسرار قوت تھی لیکن اب موت مجھے اب ایک اجنبی طاقت نظر آنے لگی۔
پتنگا میرے سامنے سکون اور شائستگی کے ساتھ زمین پر پڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک بھی حرفِ شکایت نہیں تھا، اس کی آنکھیں مندی ہوئی تھیں لیکن اس کا جسم شانت تھا۔ شاید وہ کہہ رہا تھا کہ: ’میں قوی ہوں لیکن موت مجھ سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔‘
٭٭٭