آلڈس ہکسلے
مترجم: سلیم آغا قزلباش
تمام بنی نوع انسان کسی نہ کسی چیز کے بارے میں تفاخرپسندی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس میں یہ گرہ لگانے کو جی چاہتا ہے کہ ایسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے جس کے سلسلے میں بندگان خداتفاخرمحسوس نہ کرتے ہوں۔ تاہم یہ بلاشبہ ایک مبالغہ آمیز بات ہو گی۔ ایسی کئی ایک جسم کو بد وضع کرنے والی مہلک بیماریاں موجود ہیں جن کے بارے میں غالباً کبھی تفاخر پسندی کا اظہار نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کہیں جزام پر فخر کرنے والے بھی موجود ہوں گے۔ زیادہ نمایاں بیماریاں، جب کہ وہ خطرناک بھی ہوں اور نسبتاً کم موذی بیماریاں خاص طور پر جب وہ امرا کی بیماریاں ہوں … ایسی بیماریاں بالعموم خود نمائی پر مبنی تفاخر پسندی کا منبع ہوتی ہیں۔ گھلا دینے والی تپ دق میں مبتلا احساس برتری رکھنے والے متعدد بالغ نوجوانوں سے میں مل چکا ہوں جو اس بات کو رومان انگیز مانتے تھے کہ گل جوانی کے کھلنے کے عالم ہی میں وہ کیٹس یا میری باش کرسف کی طرح مرجھا جائیں۔ صد حیف کہ دق کے ہاتھوں مرنے والوں کے آخری ایام عموماً بڑی حد تک ان تفاخر پسند سادہ لوح نوجوانوں کے اندازے سے نسبتاً کم رومان آمیز ہوتے ہیں۔ وہ جوان آخری مراحل کو واقعی دیکھ چکا ہو، اسے ان نوجوانوں کی خوش دل، سخن گسترانہ باتیں اتنی ہی غصہ دلانے والی نظر آتی ہیں جتنی کہ وہ قابل رحم ہیں۔ بیماری پر فخر کرنے والے ان عامیوں کے معاملے میں جن کے امتیاز کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ رؤسا کو لاحق ہونے والے عارضوں میں سے کسی ایک عارضے میں مبتلا ہیں، ہمدردی، برہمی کو کم نہیں کرتی۔ وہ جو کافی فراغت، کافی مال و زر کے مالک ہیں اور جن کی صحت بھی کافی اچھی ہوتی ہے … ایسے لوگوں کا ایک صحت افزا مقام سے دوسرے کی طرف مائل بہ سفر رہنا، فرضی بیماریوں کا علاج ڈھونڈنے کی خاطر، ایک معالج سے دوسرے مقبول معالج کی طرف جانا، یہ سب ہم سے توقع نہیں رکھ سکتا کہ ہم اس معاملے میں ان سے فراواں ہمدردی کا مظاہرہ کریں گے۔ (ایسی بیماریاں جو اگر وجود بھی رکھتی ہیں تو ان کا باعث غالباً بسیار خوری ہے۔)
علالت والی تفاخر پسندی ان لاتعداد تفاخرات میں سے ایک ہے جسے قابل احترام قرار دینے میں کوئی نہ کوئی اپنی شان محسوس کرتا ہے۔ وجہ یہ کہ تفاخرات کے اپنے مد و جزر ہوتے ہیں۔ ان کی سلطنت انتہائی مصدقہ تاریخی اندازسے بام عروج پر جاتی ہے۔ پھر زوال آمادہ ہوتی ہے اور بالآخر انحطاط پذیر ہو جاتی ہے۔ سوسال قبل جس نوع کے تفاخرات اچھے سمجھے جاتے تھے آج ان کا رواج باقی نہیں رہا۔ چنانچہ خاندانی تفاخرات ہر جگہ رو بہ زوال ہیں۔ ثقافت والی تفاخر پسندی کو جو آج بھی توانا ہے، اب جہالت اور حماقت کی اس تفاخر پسندی کی مدد سے جو طمیرے خیال میں پوری تاریخ میں بے مثال ہے، ایک منظم اور فعال لیکن کم آن بان والی تحریک سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکی موانعات سے جنم لینے والی بد مست تفاخر پسندی بھی ہمارے زمانے کا کوئی کم امتیازی نشان نہیں ہے۔ اس تفاخر پسندی کے مردانگی سے مملو اثرات ساری دنیا میں نہایت سرعت سے پھیل رہے ہیں۔ حتیٰ کہ فرانس میں بھی جہاں لذیذ دخت رز کی بے شمار اقسام مدبرانہ قوت تمیز کا اطلاق کر چکی ہیں اور محض پینے پلانے کے عمل کو حیوانی قرار دے چکی ہیں اور جہاں امریکی شراب خوری کی تفاخر پسندی اپنے نفرت انگیز لوازمات یعنی ایک مے تند کے ذائقے کی صورت عمومی طور پر اور کاک ٹیل کی صورت میں خصوصی طور پر امراء میں مقبول ہو رہی ہے۔ مست حال جذبہ تفاخر پسندی نے سلجھے ہوئے مردوں اور تربیت یافتہ ہر عمر (یعنے پندرہ سے ستربرس تک) کی خواتین کو اب معاشرتی سطح پر اس بات کی اجازت دی ہے (اور بعض حلقوں میں اسے قابل احترام بھی قرار دے دیا ہے) کہ وہ پبلک میں نہ سہی کم از کم نجی محفلوں میں کھلم کھلا شراب خوری کرتی ہوئی نظر آنے لگیں۔
جدیدیت کی تفاخر پسندی ہر چند کہ ہمارے عہد سے مخصوص نہیں ہے اب ایک بے مثال اہمیت کی حامل متصور کی جانے لگی ہے۔ اس کے اسباب آسان اور انتہائی معاشی نوعیت کے ہیں۔ جدید مشینری کی مہربانی سے رسد، طلب سے بڑھ رہی ہے۔ صارفین کے ہاں اجتماعی طور پر تلف کرنے کا رجحان ہماری صنعتی خوش حالی کی پہلی شرط ہے۔ جس قدر جلد ایک صارف اس چیز کو جو اس نے خریدی تھی پھینک دیتا ہے اور دوسری خریدتا ہے آجر کے حق میں بہتر ہے۔ یقیناً ایک ہی وقت میں آجر کے لیے فقط یہ کام کرنا لازم ہے کہ وہ انتہائی جلدی ٹوٹ پھوٹ جانے والی اشیاء کے علاوہ کچھ پیدا نہ کرے۔ وہ آدمی جو ایسا سکائی سکیپر تعمیر کرے جو چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک قائم رہے، عمارت سازی کے کاروبار میں غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ الفاظ امریکہ کے ایک عظیم عمارت ساز کے ہیں۔ موٹر گاڑی، جوتا، کپڑوں کا جوڑا وغیرہ جو ایک سال تین ماہ یا چھ ماہ چلتے ہیں۔ اگر یہ بھی سکائی سیکپر کی طرح چالیس سال تک چلیں تو آپ کو جدید صنعت کے کسی بھی رہنما کے الہامی فرمودات کی خبر ہو جائے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ جدیدیت پر فخر کرنے والا اس صنعت کار کا بہترین دوست ہے۔ جدیدیت کی تفاخر پسندی رکھنے والے فطرتاً اپنے پرانے تصرفات کو پرے پھینک دینے کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابلے میں نسبتاً اونچی شرح پر نئی اشیاء خریدتے ہیں جو جدیدیت کی تفاخر پسندی میں اسیر نہیں ہیں۔ لہٰذا آجر کا فائدہ اس بات میں ہے کہ وہ جدیدیت کی حامل تفاخر پسندی کی حوصلہ افزائی کرے جس کا در حقیقت وہ خود بھی مظاہرہ کرتا ہے اور یہ مظاہرہ ایک بہت بڑے پیمانے پر اشتہار بازی کی صورت میں لاکھوں پاؤنڈ کے اصراف سے ہوتا ہے۔ اخبارات ان لوگوں کی خوب معاونت کرتے ہیں جو بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یوں اشتہار بازی کے سیلاب میں بالواسطہ انداز میں کم خرچ کا حامل وہ پروپیگنڈہ شامل ہو جاتا ہے جو تفاخر پسندی کی معاونت کرتا ہے۔ عوام الناس کو یہ رٹایا جاتا ہے کہ وقت کے ساتھ مطابقت، انسان کے اہم فرائض میں سے ہے۔ عاجز انسان، اس بار بار دہرائی گئی تجویز کو قبول کر لیتا ہے۔ لیجئے اب ہم سب کے سب جدیدیت کی تفاخر پسندی رکھنے والے بن گئے!
ہم میں سے بیشتر مصوری کی تفاخر پسندی میں مبتلا ہیں۔ فن مصوری کی تفاخر پسندی کی دو قسمیں ہیں …افلاطونی اور غیر افلاطونی۔ افلاطونی طرز والے، آرٹ میں محض دلچسپی لیتے ہیں۔ غیر افلاطونی آرٹ والے تفاخر پسندی اس سے آگے جاتے ہیں اور واقعتاً فن کو خریدتے ہیں۔ افلاطونی آرٹ سے متعلق تفاخر پسندی ثقافت سے متعلق تفاخر پسندی کی ایک شاخ ہے، غیر افلاطونی تفاخر پسندی خچر کی طرح دوغلی ہے۔ اسی لیے یہ بیک وقت کلچر والی تفاخر پسندی اور ملکیت والی تفاخر پسندی کی ذیلی قسم ہے۔ آرٹ کے فن پاروں کا ایک ذخیرہ، تمدنی علامات کا ایک مجموعہ ہے اور تمدنی علامتیں ہنوز سماجی وقار کی حامل ہیں۔ یہ دولت کی علامتوں کا بھی ایک مجموعہ ہے کیونکہ کاروں کے ایک پورے بیڑے کے مقابلے میں فن پاروں کا ذخیرہ زیادہ موثر سرمایہ کاری کی نمایندگی کرتا ہے۔
بقید حیات فن کاروں کے نزدیک آرٹ والی تفاخر پسندی کی قدر و منزلت بہت زیادہ ہے۔ بے شک زیادہ تر آرٹ والے تفاخر پسند صرف مرحومین کے فن پاروں کو ذخیرہ کرتے ہیں، کیونکہ پرانا فنی شاہ کار، زندہ شاہ کار کے مقابلے میں محفوظ سرمایہ کاری کا دھندہ بھی ہے اور ایک زیادہ مقدس تمدن کی علامت بھی۔ لیکن کچھ آرٹ والے تفاخر پسند جدیدیت والے تفاخر پسند بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ خاصی تعداد میں ہیں اور ان میں وہ چند سنکی بھی شامل ہیں جو آرٹ کے فن پاروں کو بہ حیثیت فن پارہ پسند کرتے ہیں اور یوں زندہ فن کاروں کو وسیلۂ آمدنی مہیا کرتے ہیں۔
عمومی حوالے سے تفاخر پسندی کی توقیر اور اس کا انسانیت سے مملو ’وصف‘ اس کی وہ قوت ہے جس کا مقصد کار کردگی کو تحریک دینا ہے۔ ایک معاشرہ جس میں لاتعداد تفاخر پسند ہوں اس کتے کے مانند ہے جس سے بے شمار پسو چمٹے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کنگھی کی ضرورت ہے۔ ہر تفاخر پسندی اپنے جاں نثاروں سے غیر مختتم کوششوں اور مسلسل قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ سماجی تفاخر پسند پر لازم ہے کہ وہ ہمہ وقت شیر کا شکار کرے اور جدیدیت والا تفاخر پسند وقت رواں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی سعی کرنے سے کبھی اجتناب نہیں برت سکتا۔ سوئزرلینڈ کے ڈاکٹروں کے سلسلے میں جو بہترین بات سوچی یا کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ روگ اور ثقافت والے ایسے تفاخر پسند ہیں جن کے شب و روز انھیں مشاغل میں بسر ہوتے ہیں۔
اگر ہم سرگرمی کو بذاتہٖ ایک اچھائی قرار دیتے ہیں تو پھر ہمیں لازماً تفاخر پسندیوں کو اچھا شمار کرنا ہو گا۔ کیونکہ یہ سب سرگرمی کو مہمیز لگاتی ہیں۔ اگر بدھ مت کے پیروکاروں کے نقطۂ نظر سے ہم اس فریب نظر کے حامل سارے سنسار کی سرگرمی کو لغو خیال کریں تو پھر ہمیں تمام تفاخر پسندیوں کی مذمت کرنا ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ ہم میں سے بیشتر دو انتہاؤں کے بیچ کسی مقام پر جم کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم کچھ سرگرمیوں کو اچھا قرار دیتے ہیں۔ باقیوں کو غیر متعلق یا صریحاً برا سمجھتے ہیں۔ ہم صرف ان تفاخر پسندوں کو قابل قبول سمجھیں گے جو ایسی کار روائیوں کو فعال بنائیں، جنھیں ہم بہتر سمجھتے ہیں۔ باقی سب کو یا تو ہم برداشت کریں گے یا ان سے بے حد نفرت کریں گے۔ مثال کے طور پر زیادہ پیشہ ور دانشور تمدن کی تفاخر پسندی کو بہ نظر استحسان دیکھیں گے (گو اسی لمحے انتہائی منفرد تمدن والے تفاخر پسندوں سے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کریں گے۔) کیونکہ یہ اجڈ لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کم از کم ذہن کی سوچوں کو ادنیٰ سا خراج تحسین تو پیش کریں اور یوں خیالات کے معاملے میں دنیا کو خطرناک حد تک غیر محفوظ ہونے کی حالت سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوں، دوسری جانب موٹر گاڑیاں بنانے والا ملکیت کی بڑائی کو تمدن کی بڑائی سے بلند مرتبہ بخشے گا۔ وہ لوگوں کو اس بات کی ترغیب دلانے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گا کہ وہ جونسبتاً کم چیزوں کے مالک ہیں (خصوصاً چار پہیوں پر قبضہ رکھنے کے حوالے سے) وہ ان لوگوں کے مقابلے میں کم تر درجہ رکھتے ہیں، جن کے پاس زیادہ چیزیں ہیں علیٰ ہذا اللقیاس۔ گویا ہر کلیسائی راج اپنے ہی خاص الخاص پوپ کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
٭٭٭