جے بی پریسٹلے
مترجم: سلیم آغا قزلباش
میں اپنے ایک دوست کے ساتھ جو ایک فن کار ہونے کے علاوہ خوش باش قسم کا ایک کاہل شخص بھی ہے، اس کے چوبی مکان میں قیام پذیر تھا جو ریلوے اسٹیشن سے کوئی دس کوس دور یورک شائر کے نشیب کے عین درمیان واقع ہے۔ اب اسے ہماری خوش قسمتی کہیے کہ ہماراسابقہ یکایک واقعی گرم موسم کی ایک لہر سے آن پڑا۔ ہم ہر نئی صبح کو روانہ ہوتے اور قریب ترین بیہڑم(moor land) والا راستہ پکڑ کر آرام سے اوپر چڑھتے جاتے حتی کہ سطح سمندر سے کوئی دو ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتے اور پھر طویل سنہری دوپہریں زمین پرچت لیٹ کر گزار دیتے۔ بغیر کوئی کام کیے۔ بیہڑ سے بہتر کوئی دوسری آرام دہ جگہ نہیں ہے۔ یہ ایک نوع کے بہشت سے متصل ایک صاف ستھرا، خالی سا مختصر ایوان ہے، جس کے زیر سایہ نمایاں طور پر دکھائی دینے والی یکسانیت فوری طور پر کوئی ہیجان پیدا نہیں کرتی۔ جہاں رنگ و صورت کا مسحور کن ڈراما کھیلا نہیں جاتا، جس میں آہستہ آہستہ زاویے والے ابر پاروں اور سایوں اور ہلکے رنگ و روپ والے افق پر ایک ایسا لطیف سا تنوع موجود رہتا ہے جو دن بھر ذہن میں دلچسپی کی لو کو قائم رکھنے کے لیے کافی و شافی ہے۔ بیہڑ کا عمدہ گھاس کا مخملی غرفہ جو ایک ڈرائنگ روم کے قالین سے بڑا نہیں ہے اور جس کی سطح سکون مہیا کرنے کی صلائے عام دیتی ہے۔ اس کا الگ تھلگ انداز، اس کا دوام، آدمی اور اس کے تفکرات سے بے اعتنائی برتنے والا اس کا کہنہ چلن، ذہن کو تسکین اور پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ جہاں دنیا بھر کی آوازیں ککڑی (کراکل) (curlew) کی فقط ایک یکسانیت سے لبریز چیخ میں غرق ہو جاتی ہیں۔
یوں ہر روز ہم خود کو بیہڑ کی سطح پر کھیل کر لیٹے ہوئے، آسمان کی جانب یا دور افق پر خوابناک نظریں گاڑے ہوئے دیکھتے رہتے۔ تاہم یہ بات کہنا پوری طرح درست نہیں ہے کہ ہم قطعی طور پر کچھ نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ ہم نے کافی زیادہ تمباکو نوشی کی، سینڈوچ اور چاکلیٹ سے بنی چھوٹی چھوٹی نلکیاں چبائیں، ٹھنڈی ٹھار جھاگ اڑاتی ان ندیوں سے پیاس بجھائی جو نجانے کہاں سے پھوٹ پڑتی ہیں، چند سو گز تک گھڑکتی چلی جاتی ہیں اور پھر دوبارہ غائب ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھار ہم آپس میں ایک یا دو جملوں کا تبادلہ بھی کر لیتے لیکن ہم غالباً کچھ نہ کرنے کی حالت کے اس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ جس سے آگے جانا ہماری نسل کے دو افراد کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہم کچھ نہیں بناتے تھے، حتیٰ کہ منصوبے تک بھی نہیں۔ کوئی اکیلا خیال تک ہمارے دماغوں میں داخل نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ ہم خوش طبع قسم کی وہ شیخی بھی نہیں بگھارتے تھے جو عموماً دو دوستانہ مراسم رکھنے والے مردوں کی وقت گزاری کا حصہ ہوتی ہے۔ ہم سے بہت دور ہمارے دوست احباب اور رشتہ دار روزمرہ کے معاملات میں الجھے ہوئے تھے اور دوڑ دھوپ میں مصروف تھے، منصوبہ بندی میں جتے ہوئے تھے، نیز جھگڑوں میں الجھے، جمع تفریق کے عمل میں کھوئے ہوئے تھے، لیکن ہم دیوتاؤں کی طرح تھے جو کچھ نہ کرنے میں پوری طرح مصروف تھے۔ ہمارے دماغ بے داغ خالی جگہوں کی طرح تھے، لیکن جب ہمارا بے فکری کا یہ مختصر زمانہ ختم ہو گیا اور ہم آخری مرتبہ چہروں پر اتنی سرخی سمیٹے ہوئے اترے جتنی غروب آفتاب کے وقت ہوتی ہے تو گویا ہم دنیا داروں اور اخبار کے مالکوں کے جہان میں اتر آئے۔ محض یہ جاننے کے لیے کہ ہم مسٹر گارڈن سلفرج کے ہاتھوں ابھی ابھی کھلم کھلا قابل مذمت گردانے گئے ہیں۔
مجھے علم نہیں کہ کب اور کہاں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ کن خوش دل لوگوں نے اسے مدعو کر کے اس کا اعتماد حاصل کیا تھا۔ اس موسم میں جب نامانوس سورج ہماری کجرویوں کو پختہ کر دیتا ہے تو عجیب و غریب چیزیں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں۔ یہ گزشتہ برس یا اس سے سال پہلے کا قصہ ہے کہ کسی مہم جو شخص نے بر اعظم یورپ کا باقاعدہ دورہ سیاحت ترتیب دیا تھا اور زیادہ مفکرانہ طرزسے تعطیلات منانے والوں کو ترغیب دلانے کے لیے یہ کہا تھا کہ سیر و سیاحت کے دوران مختلف مقامات پر معروف مصنفوں سے درس زبانی کے سلسلہ کا انتظام و انصرام بھی ہو گا۔ چنانچہ خوش و خرم سیر و سیاحت کے رسیا سیاح عازم سفر ہو گئے۔ ان کا رہبر مشاہدے کے باب میں اتنا ہی اچھا تھا جتنے کہ اس کے بول تھے۔ مثلاً پہلے ہی مقام قیام پر ڈین اینگ نے انھیں جدید شوق لطف اندوزی کے موضوع پر خطبہ دیا، لیکن مسٹر سلفرج چاہے وہ چھٹیاں گزارنے والوں کے مجمع سے یا ایمپوریم کے مالکان کی کسی سنجیدہ تقریب سے خطاب فرما رہے ہوں، اتنا مجھے پتہ ہے کہ وہ یہ ضرور فرمائیں گے کہ وہ ہر چیز سے زیادہ کاہلی سے نفرت کرتے ہیں اور اسے گناہ عظیم گردانتے ہیں مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ انھوں نے ان حضرات کے بارے میں بھی اپنے فیصلوں کا اظہار کیا ہو گا جو تضیع اوقات کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن میں ان کے امثال اور دلائل کو بھلا بیٹھا ہوں اور تکلف بر طرف ان کو دوبارہ یاد کرنا کہ وہ کیا کچھ تھے میرے خیال میں تضیع اوقات کا ایک شرم ناک عمل ہے۔ مسٹرسلفرج نے نام لے کر ہمارا ذکر اذکار تو نہیں کیا، لیکن اس بات پر شک و شبہ کرنا تقریباً محال ہے کہ کاہلی پر حملہ زن ہونے کے دوران ہمہ وقت ہم ہی ان کے پیش نظر رہے تھے۔ شاید ان کے ذہن میں ہم دونوں دوستوں کی تصویر تھی کہ ہم بیہڑ میں سبزے پر چت لیٹے ہوئے ہیں اور شاہانہ طریق سے وقت ضائع کر رہے ہیں، جب کہ تمام امور دنیا پایۂ تکمیل کو پہنچنے کے لیے سراپا انتظار ہیں اور جنھیں سوئے اتفاق سے بعد ازاں مسٹرسلفرج کے سٹور سے خریدا اور فروخت کیا جانا بھی ہے۔ میرا خیال ہے یہ تصویر اسے اچھی لگتی ہو گی۔ ہم تو ہمہ وقت نظروں کو آسودگی پہچانے والا منظر تھے لیکن جب ہم بے کار بیٹھے ہوں تو یہ منظر چاہے کتنا ہی نامکمل اور چکرا دینے والا کیوں نہ ہو ہر کسی کو دیکھنے میں ضرور بھلا لگے گا۔ شومیِ قسمت سے مسٹر سلفرج نے کاہلی کے گناہ کے بارے میں ایک رائے قائم کر لی ہوئی تھی۔ سو وہ اطمینان کلی پر آمادہ نہ تھے اور نہ ہی محظوظ ہونے کے لیے تیار تھے۔ یہ حالت قابل رحم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھے ان کے خیالات غلط اور یقینی طور پر مضرت رساں محسوس ہوتے ہیں۔
اس دنیا کا سارا شر ان لوگوں کا پیدا کردہ ہے جو سدا جاگتے اور کام میں مصروف رہتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ انھیں کب جاگنا چاہیے اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک ابلیس ہنوز کائنات کی مصروف ترین ہستی ہے اور میں اسے کاہلی کو مورد الزام ٹھہراتے اور وقت کے ادنیٰ ترین ضیاع پرسینح پا ہوتے ہوئے بہ آسانی دیکھ سکتا ہوں۔ اس کی سلطنت کے بارے میں میں شرط بدھ کر کہوں گا کہ اس میں کسی کو فارغ رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ فقط ایک سہ پہر کے لیے بھی نہیں۔ دنیا کے بارے میں ہم بہ آسانی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کیچڑ میں لت پت ہے، لیکن میں وہ واحد ہستی ہوں جس کے نزدیک اس صورت حال کے لیے کاہلی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا… یہ فعال نیکیاں نہیں بلکہ منفعل نیکیاں ہیں جن کا کاہلی میں فقدان ہوتا ہے۔ ہمدردی اور تھوڑی سی راست سوچ کے سوا یہ کچھ بھی کر گزرنے پر قادر ہیں۔ دنیا میں ابھی کافی مقدار میں شکتی موجود ہے … (پہلے کبھی بات کا بتنگڑ بنانے والوں کی اتنی فراوانی نہ تھی) لیکن اس کا زیادہ تر استعمال غلط نہج پر ہو رہا ہے۔ اگر مثال کے طور پر جولائی ۱۹۱۴ء میں جو ایک طرح مہا کاہلی والا دور تھا۔ حکمرانوں، بادشاہوں، نوابوں، سیاست دانوں، جرنیلوں اور صحافیوں میں سے ہر کوئی بے کار رہنے کی شدید خواہش میں مبتلا ہو جاتا۔ (محض سورج کی ضو میں گھومنے پھرنے اور تمباکو نوشی کی خاطر) تو ایسی صورت میں شاید ہم سب کا حال موجود حالت کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتا۔ لیکن نہیں، پر مشقت زندگی پر مبنی نظریہ ہنوز مبارزت طلبی کے بغیر جاری ہے کہ کہیں وقت کا ضیاع نہ ہونے پائے۔ کچھ تو لازماً ہوتا رہنا چاہیے اور جیسا کہ ہم آگاہ ہیں کچھ نہ کچھ تو بہر حال ہوتا ہی رہتا ہے۔ اس کے علاوہ فرض کیجئے کہ ہمارے سیاست دان ورسیلز کی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے نا پخت خیالات کے پشتارے باندھ کر اٹھ بھاگنے اور یوں توانائی کی وافر مقدار ضائع کرنے کے بجائے اگر دو ہفتوں کے لیے تمام مراسلت بازی نیز انٹرویو بازی اور ساری چیخ پخ سے دست کش ہو کر فقط کسی دامن کوہ یا کسی ایسی ہی پرسکون جگہ پر آرام سے ٹہلتے اور بادی النظر میں اپنی ہنگامہ خیز زندگیوں میں پہلی بار کہیں بیٹھ کر ’کچھ نہ کرنے کے‘ مرتکب ہوتے تو ایسی صورت میں وہ نام نہاد امن کانفرنس میں شرکت کے باوصف اپنی شہرت کو داغدار کیے بغیر دنیا کے کاموں کو سنوار کر واپس آ سکتے تھے۔ آج بھی اگر یورپ میں آدھے سیاست دان اس نظریہ کو ترک کر دیں کہ کاہلی ایک جرم سے اور کہیں جا کر کچھ مدت کے لیے کچھ نہ کریں تو ہمیں یقیناً اس سے فائدہ ہی پہنچے گا، کچھ اور مثالیں بھی ذہن میں آ رہی ہیں۔ مثلاً آئے دن مخصوص مذہبی فرقوں کے لوگ (اصلاح احوال کے لیے) اپنے اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ لیکن پہاڑوں جتنی برائیاں برابر موجود ہیں اور گو تہذیب کا انجام معلوم ہے۔ پھر بھی یہ لوگ جو ان جلسوں میں شرکت فرماتے ہیں اپنا بیشتر وقت خواتین کے سکرٹ کے گھیرے اور ناچ کے طنبوروں کی کل کل کی مذمت میں صرف کرتے ہیں۔ ان کے لیے اچھا ہوتا کہ وہ کہیں چت لیٹ جاتے آسمان کو ایک تار دیکھتے اور یوں ذہنی طور پر صحت یاب ہو جاتے۔
امریکہ میں ’کاہلی مہا پاپ‘ ہے اور اس سے منسلک پر مشقت زندگی کا عقیدہ بہت مروج ہے۔ ویسے ہم اس حقیقت کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے کہ امریکہ حیران کن طور پر ایک خوش حال ملک ہے، لیکن اس کے علی الرغم ہم اس سچائی سے رو گردانی بھی نہیں کر سکتے کہ وہاں کا معاشرہ اس حال میں ہے کہ اس کے تمام اچھے ہم عصر لکھاری طنز سے کام لینے لگے ہیں۔ یہ کافی عجیب بات ہے کہ امریکہ کے اکثر بڑے قلم کاروں نے کاہلی کو سراہنے میں تامل سے کام نہیں لیا ہے اور بالعموم ان کی کچھ نہ کرنے کی صلاحیت اور اپنے اس وصف کی تعریف کرنے کا عمل ہی ان کی نجات کا باعث ثابت ہوا ہے۔ چنانچہ اگر تھوریو Thoreau کاہل رہنے اور سوائے کہکشاں کی ستائش کرنے کے کچھ نہ کرنے کی سکت سے محروم ہوتا تو محض خود پسند شخص ہوتا اور وہٹ میں اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ادھر ادھر مٹر گشتی کرنے کی عادت اور اپنے ایام رفتہ کی اس معصوم شادمانی کو تج دیتا تو وہ محض ایک بڑی جسامت کا گدھا بن کر رہ جاتا۔ شور تو کوئی بھی احمق مچا سکتا ہے اور اپنی فاضل قوت سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن آدمی کے اپنے من میں کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے، اس سے قبل کہ وہ بے کار رہنے کا لائحہ عمل مرتب کر سکے، اس کے پاس لازماً آئندہ کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کو ہونا چاہیے۔ ضروری ہے کہ وہ اس قابل ہو کہ خوابوں اور خیالوں کے آہستہ خرام دریاؤں میں کود سکے۔ لازم ہے کہ وہ اندر سے ایک شاعر بھی ہو… ورڈزورتھ کہ جس کی طرف ہم اس وقت رجوع کرتے ہیں جب اکثر دوسرے شعرا ہمیں مایوس کر دیتے ہیں، بے کار رہنے کی قدر و منزلت سے آگاہ تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی دوسرا اس سے بہتر اس کام کو انجام نہیں دے سکتا تھا۔ چنانچہ آپ اس کے کلام میں اس میلان کی بہترین صورت تلاش کر سکتے ہیں۔ وہ طویل عمر زندہ رہا تاکہ اپنی جوانی کی بیشتر آرا سے دست کش ہو سکے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ کبھی اپنی جوانی کے اس تصور کی ٹوہ میں گیا ہو کہ آدمی کے پاس کاہلی سے گھومنے اور فطرت کا نظارہ کرنے سے بڑھ کر کوئی اور صحت مند اور رفعت آشنا مصروفیت نہیں ہے۔
یہ سچ ہے کہ وہ اپنی ایک نظم میں کچھ خانہ بدوشوں پر برہم ہوا کیونکہ اس وقت سے لے کر جب وہ پہلی باران کے پاس سے گزرا تھا۔ بارہ گھنٹے بیتنے کے بعد تک جب اس کا گزر وہاں سے دوبارہ ہوا تو بظاہر انھوں نے تقریباً کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ لیکن مجھے شک ہے کہ یہ ایک نسلی عصبیت ہے جس میں حسد کے رنگ کی آمیزش موجود ہے، کیونکہ ہر چند خود اس نے بھی اس عرصہ میں کچھ زیادہ کام نہیں کیا تھا۔ تاہم وہ لوگ اس سے بھی کم کام کے مرتکب ہوئے تھے۔ اگر آج وہ زندہ ہوتا تو مجھے اس میں شبہ نہیں کہ وہ اپنے نظریات کے پرچار میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ولولے اور تواتر سے کام لیتا۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ وہ مسٹر سلفرج پر چڑھ دوڑتا اور ہمارا دفاع اپنے ان متعدد سانٹیوں میں کرتا (جو اس مصرع سے شروع ہوتے کہ پچھلے ہفتے وہ ایک فراخ اور ویران بیہڑ میں گھومتے رہے تھے۔) لیکن جنھیں شمہ بھر توجہ حاصل نہ ہوتی۔ وہ ہمیں آگاہ کرتا کہ ساری دنیا کی حالت بہتر ہو جائے اگر دنیا والے آئندہ دس برس میں ممکنہ حد تک اپنا ہر وہ لمحہ جو انہیں نصیب ہو سکتا ہو۔ بیہڑ میں چت لیٹ کر اور بے کار رہنے کی حالت میں گزار دیں اور یہ بات کہنے میں وہ یقیناً حق بجانب ہوتا۔
٭٭٭