جی کے چسٹرٹن
مترجم: وقار النساء آغا
مجھے گرمیوں کی چھٹیوں کی وہ نیلی، چمکتی ہوئی سہانی صبح خوب یاد ہے جب میں نے بادل نخواستہ خود کو ’کچھ نہ کرنے‘ کے عالم سے گھسیٹ کر الگ کیا، ٹوپی قسم کی کوئی شے سر پر رکھی، چھڑی ہاتھ میں لی اور نصف درجن چمکتے ہوئے چاک اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ اس کے بعد باورچی خانے میں داخل ہوا (جس کی مالکن سسکس گاؤں کی ایک ہوشمند بوڑھی خاتون تھی) اور اس خاتون سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس بھورے رنگ کا کوئی کاغذ ہے؟ …کاغذ اس کے پاس کافی مقدار میں تھے بلکہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تھے لیکن اس کے صحیح استعمال کے بارے میں اس کا ذہن صاف نہیں تھا۔ اس کا غالباً یہ خیال تھا کہ اگر کوئی بھورے رنگ کا کاغذ مانگے تو اس کی ضرورت پارسل بنانا ہی ہو سکتی ہے۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں نہیں تھی۔ فی الواقع مجھے یہ کام ہمیشہ اپنی ذہنی صلاحیت سے ماورا نظر آیا ہے۔ چنانچہ وہ تفصیل کے ساتھ اس شے (کاغذ) کی مضبوطی اور دیر پائی ایسے متنوع اوصاف پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگی۔ میں نے وضاحت کی کہ میں تو اس پر صرف تصویریں بنانا چاہتا ہوں اور مجھے اس بات کی قطعاً آرزو نہیں کہ وہ دیر پا بھی ثابت ہوں۔ نیز میرے نقطۂ نظر سے سوال مضبوطی اور دیر پائی کا نہیں بلکہ جاذب سطح کا ہے جو پارس بنانے کے معاملے میں ایک نسبتاً مہمل بات ہے۔ جب اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ میں مصوری کرنا چاہتا ہوں تو اس نے اس مفروضہ کی بنا پر کہ میں کفایت شعاری کے تحت اپنی جملہ خط و کتابت بھی پرانے بھورے رنگ کے کاغذی ریپر پر کرنے کا عادی ہوں، مجھے لکھنے کے کاغذ کی پیش کش کر دی۔
تب میں نے بات کے لطیف منطقی پہلو کی وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ میں نہ صرف بھورے رنگ کے کاغذ کو پسند کرتا ہوں بلکہ کاغذ میں بھورے پن کے وصف کا بھی مداح ہوں بعینہٖ جیسے مجھے اکتوبر کے جنگل میں، جو کی شراب میں یا شمالی علاقے کی ندیوں میں بھورے رنگ کا وصف اچھا لگتا ہے۔ بھورا کاغذ تخلیق کی پہلی ضرب سے پھوٹنے والی ابتدائی شفقی روشنی کا مظہر ہے اور ایک یا دو تیز رنگ کے چاکوں سے آپ اس میں آگ کی اس تمازت کو بھی نمایاں کر سکتے ہیں جس میں سونے ایسی چنگاریاں لہو کی طرح سرخ اور سمندر کی طرح سبزہوتی ہیں جیسے ان کی حیثیت ان تند ستاروں کی سی ہو جو روز ازل تاریکی سے لپک کر باہر آ گئے تھے۔ میں نے بوڑھی خاتون سے یہ سب کچھ بڑے سرسری انداز میں میں کہا اور پھر بھورے کاغذ کو اپنی جیب میں ٹھونس لیا جہاں چاک اور دوسری اشیاء پہلے ہی سے موجود تھیں۔ میرا اندازہ ہے کہ ہر کسی نے اس بات پر ضرور غور کیا ہو گا کہ اس کی جیب میں کیسی کیسی نادر اور شعریت سے لبریز اشیاء موجود ہوتی ہیں جیسے مثلاً جیبی چاقو جو تمام انسانی اوزاروں کا باوا آدم اور تلوار کا شیر خوار بچہ ہے۔ ایک بار میں نے ارادہ کیا تھا کہ اپنی جیب کی اشیاء پر ایک پوری نظم قلم بند کروں مگر مجھے محسوس ہوا کہ نظم بہت طویل ہو جائے گی اور بڑی بڑی رزمیہ نظموں کا زمانہ بیت چکا ہے۔
چھڑی، چاقو، چاک اور بھورے کاغذ سے لیس ہو کر میں نے ایک کشادہ خطۂ زمین کا رخ کیا اور زمین کے ان اونچے نیچے حصوں پر سے رینگتا چلا گیا جو انگلستان کے سب سے اچھے وصف کے مظہر ہیں کیونکہ وہ بیک وقت نرم بھی ہیں اور مضبوط بھی! ان کی نرمی گاڑی میں جتے ہوئے گھوڑوں یا بیچ کے درختوں کی نرمی سے مشابہ ہے۔ جیسے جیسے میری نظریں زمین پر پھیلتی چلی گئیں، مجھے محسوس ہوا کہ یہ زمین ویسی ہی مہربان تھی جیسی اس کی جھونپڑیاں لیکن قوت کے اعتبار سے یہ زمین کسی زلزلے سے کم نہیں تھی۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ وسیع و بے کنار وادی کے دیہات صدیوں سے بالکل محفوظ کھڑے ہیں۔ پھر بھی یوں لگتا تھا جیسے ساری دھرتی ایک بہت بڑی لہر کی طرح اوپر کو اٹھ آئی ہو تاکہ انہیں بہا لے جائے۔
میں نے گھاس کی کئی سلوٹوں کو یکے بعد دیگرے عبور کیا تاکہ بیٹھنے اور تصویریں کھینچنے کے لیے کوئی مناسب جگہ مل جائے۔ خدا کے لیے یہ نہ سوچئے کہ میں مناظر فطرت کو ماڈل کے طور پر استعمال کرنے کا متمنی تھا۔ میں تو شیطانوں اور چھ پروں والی ہستیوں کی تصویریں کھینچنا چاہتا تھا اور ان اندھے پرانے دیوتاؤں کی جنھیں لوگ ’روشنی‘ طلوع ہونے سے قبل پوجتے تھے اور سرخ چغوں میں ملبوس اولیاؤں کی عجیب سے رنگ والے سمندروں کی اور ان تمام مقدس یا شیطانی علامتوں کی جو بھورے کاغذ پر تیز رنگوں سے کھنچی ہوئی اچھی لگتی ہیں۔ مصوری کے لیے یہ علامتیں فطری مناظر سے کہیں بہتر ہیں۔ پھر انہیں کھینچنا بھی تو نسبتاً آسان ہے۔ جب قریبی کھیت میں ایک گائے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ آ گئی تو ایک معمولی مصور بھی اس کی تصویر کھینچ سکتا تھا لیکن میرے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ چوپائے کی پچھلی ٹانگوں کی تصویر کھینچتے ہوئے میں گڑبڑا جاتا ہوں۔ اس لیے میں نے گائے کی اس ’روح‘ کی تصویر کھینچ ڈالی جسے میں نے سورج کی روشنی میں بالکل اپنے سامنے چلتے پھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور میں نے دیکھا تھا کہ یہ ’روح‘ یکسر سیمیں بدن تھی، اس کے سات سینگ تھے اور اس کے گرد وہ ساری پراسراریت بھی تھی جو ہر جانور کے ساتھ ہمیشہ سے وابستہ رہی ہے۔ لیکن گو میں ایک رنگین چاک کی مدد سے لینڈ سکیپ سے سب کچھ اخذ کر سکنے سے محروم رہا تاہم اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ خود لینڈ سکیپ بھی مجھ سے سب کچھ کشید کرنے میں ناکام ہو گئی۔ اور میرے خیال میں یہی وہ غلط فہمی ہے جو ورڈزورتھ سے پہلے کے پرانے شاعروں کے بارے میں عام ہے کہ وہ فطرت سے بے نیاز تھے کیونکہ انھوں نے فطرت کو بیان کرنے کی کچھ زیادہ کوشش نہیں کی۔
انھوں نے عظیم پہاڑیوں پر قلم اٹھانے کے بجائے عظیم انسانوں پر قلم اٹھانے کو ترجیح دی لیکن انھوں نے عظیم پہاڑیوں پر بیٹھ کر یہ کام سرانجام دیا۔ ان لوگوں نے فطرت کے بارے میں تو بہت کم لکھا لیکن شاید فطرت کے جوہر سے زیادہ متمتع ہوئے۔ انھوں نے مقدس کنواریوں کے ان سفید چغوں کی مصوری کی جنھیں وہ سارا دن تکتے رہے تھے اور بہت سے ڈوبتے ہوئے سورجوں کے سونے سے اپنے سورماؤں کی ڈھالوں پر نقش و نگار بنائے (چنانچہ) ہزاروں سبز پتوں کی ہریالی رابن ہڈ کی تڑپتی ہوئی سبز شخصیت میں سمٹ آئی اور بیسیوں فراموش شدہ آسمانوں کی نیلاہٹ کنواری مریم کے نیلے چغے میں ڈھل گئی۔ الہامی جذبہ سورج کی کرن کی طرح ایک طرف سے داخل ہوا اور دیوتا اپالو کی طرح دوسری طرف سے برآمد ہو گیا۔
لیکن بھورے کاغذ پر ان مہمل تصویروں کو بناتے ہوئے مجھ پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ میں ایک اہم اور ضروری چاک تو پیچھے ہی چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے اپنی تمام جیبوں کی تلاشی لی لیکن مجھے کوئی سفید چاک نہ ملا۔ اب وہ تمام لوگ جو بھورے کاغذ پر تصویر کھینچنے کے فلسفہ (بلکہ مذہب) سے آشنا ہیں، اس بات کو اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اس سلسلے میں سفید چاک کس قدر ضروری ہے یہاں میں ایک اخلاقی پہلو کا حوالہ دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بھورے کاغذ کا یہ آرٹ جن المناک سچائیوں کا انکشاف کرتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ سفیدی بھی ایک رنگ ہے۔ یہ محض رنگ کا فقدان نہیں بلکہ ایک چمکدار اور مثبت شے ہے … سرخ کی طرح خونخوار اور سیاہ کی طرح واقعی! جب پنسل گرم سرخ ہو تو یہ گلاب کے پھول بناتی ہے اور جب گرم سفید ہو جائے تو ستارے! اور بہترین مذہب کی دو یا تین بے پناہ سچائیوں میں سے ایک بالکل یہی ہے یعنی یہ کہ مذہبی اخلاقیات کے مطابق سفیدی بھی ایک رنگ ہے۔ نیکی، گناہ کے فقدان کا یا اخلاق کو درپیش خطرات سے محفوظ رہنے کا نام نہیں۔ نیکی تو ایک واضح اور الگ شے ہے جیسے ورد یا کوئی خاص خوشبو! رحم دلی سے مراد یہ نہیں کہ انسان ظالم نہ ہویا سزا اور انتقام سے اجتناب کرے۔ اس سے مراد ایک صاف اور مثبت شے ہے جیسے سورج جسے آپ نے یا تو دیکھا ہوا ہے یا دیکھا ہی نہیں۔ اس طرح کنوار پن سے مراد محض بے راہ روی سے اجتناب نہیں۔ بلکہ اس سے مراد کوئی شعلہ وش شے ہے جیسے جون آف آرک!
مختصر یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ بہت سے رنگوں میں مصوری کرتا ہے لیکن جس خوبصورتی اور شان سے وہ سفید رنگ میں تصویریں بناتا ہے اس کی بات ہی الگ ہے۔ ایک طرح سے ہمارے زمانے نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہے اور یہ ادراک ہمارے بد مزاج لباس میں ظاہر ہونے لگا ہے۔ کیونکہ اگر یہ بات سچ ہوتی کہ سفید ایک بے رنگ اور منفی شے ہے تو پھر اس قنوطی دور کے ماتمی لباس میں بھی سیاہ کی جگہ سفید ہی استعمال ہوتا اور ہم معزز شہریوں کو بے داغ سیمگوں ریشم میں ملبوس دیکھتے مگر ایسا نہیں ہے۔
اس اثنا میں مجھے (سفید) چاک نہیں مل رہا تھا!
میں مایوس ہو کر وہیں پہاڑی پرب یٹھ گیا۔ چائی چسٹر کے علاوہ اور کوئی قصبہ قریب نہیں تھا اور وہاں بھی اس بات کا قطعاً کوئی امکان نہیں تھا کہ مصوری کے سامان ایسی کوئی شے میسر آ سکے گی۔ ادھر سفید رنگ کے بغیر میری ننھی منی مہمل تصویریں اسی طرح بے معنی تھیں جیسے وہ دنیا جس میں شریف لوگ موجود نہ ہوں میں نے احمقوں کی طرح ارد گرد نظر دوڑائی اور اپنے دماغ پر زور دیا کہ کوئی متبادل راستہ سوجھ جائے۔ اور تب میں اچانک اچھل کر کھڑا ہو گیا اور میں نے اتنے زور سے بار بار قہقہے لگائے کہ گائیں (چرنا چھوڑ کر) مجھے گھورنے لگیں اور پھر انھوں نے (غور و فکر کے لیے) ایک سبھا سی جما لی۔ ایک ایسے شخص کا تصور کیجئے جو صحرائے اعظم میں کھڑا اس بات پر کف افسوس مل رہا ہو کہ اس کے پاس اپنے ساعت پیما کے لیے ریت نہیں ہے یا ایک شریف آدمی کا تصور کیجئے جو سمندر کے عین درمیان یہ سوچ رہا ہو کہ کاش وہ کیمیائی تجربات کے لیے اپنے ساتھ نمکین پانی بھی لایا ہوتا … میں تو سفید چاک کے ایک عظیم الشان انبار پر دھرنا مارے بیٹھا تھا۔
ساری لینڈ سکیپ سفید چاک کی بنی ہوئی تھی۔ سفید چاک کے انبار میلوں تک جمع ہوتے چلے گئے تھے حتیٰ کہ وہ آسمان کو چھونے لگے تھے۔ میں رک گیا اور میں نے اسی چٹان سے ایک ٹکڑا توڑ لیا جس پر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اتنا عمدہ نشان تو نہ بنایا جتنا دکان کا چاک بناتا ہے لیکن اس نے تاثر سا ضرور مہیا کر دیا اور اب میں مسرت کی نیم مد ہوش کیفیت میں اسیر کھڑا تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ سارے کا سارا جنوبی انگلستان ایک بہت بڑا جزیرہ نما روایت اور تہذیب ہی نہیں، چاک کا ایک ٹکڑا بھی ہے اور یہ چیز اس کے باقی جملہ اوصاف سے کہیں زیادہ دل فریب ہے!!
٭٭٭