ایلفا آف دی پلو (اے جی گارڈنر)
مترجم: ممتاز احمد خان
اگر ایک نوجوان لفٹ میں کسی کو ’پلیز‘ نہ کہنے پر لفٹ سے اٹھا کر باہر پھینک دے تو یقیناً آپ اسے بہت بری حرکت قرار دیں گے۔ یہ کچھ یوں ہوا کہ ایک صاحب نے لفٹ میں سے کہا…
آخری منزل… لفٹ میں کے نقطۂ نظر سے اسے کہنا چاہیے تھا… آخری منزل پلیز۔ بس پھر کیا تھا۔ موصوف اتنے غصے میں آئے کہ ان صاحب کو نیچے لڑھکا دیا۔
ناشائستگی اور بد تہذیبی کوئی قانونی جرم نہیں ہے کہ آپ کسی کو پلیز یا مہربانی کر کے … یا نوازش ہو گی جناب عالی… یا معاف کیجئے گا حضور… نہ کہیں تو مد مقابل ہاتھا پائی پر اتر آئے۔ اگراس طرح ہوتا رہا تو میرا خیال ہے کہ ہمارے مکے تو ہر وقت مصروف پیکار رہیں گے اور لوگوں کے دانت ٹوٹتے رہیں گے۔
در اصل میں بد تہذیب یا بد تمیز ہونے کا حق محفوظ رکھتا ہوں اور دنیا کا کوئی قانون مجھے اعلیٰ ترین مہذب نہیں بنا سکتا۔ میں رکھائی سے گفتگو کر سکتا ہوں۔ اس سے کسی کو کیا؟ میں بے تحاشا مونچھیں بڑھا کر ادھر ادھر مٹر گشت کرتا رہوں یا زبردستی اپنے بالوں پر مختلف رنگ چڑھا لوں یا سونے یا پیتل کے بندوں کو کانوں میں لٹکا لوں اور یوں … لوگوں کے جذبات مجروح کروں تو اس سے میری صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟ اس بارے میں کوئی اخلاقی اور عقلی قانون توہے نہیں جو مجھ سے ہرجانہ بھروائے محض اس لیے کہ میں نے کسی کے جذبات اپنے الٹے سیدھے حلیے سے مجروح کیے ہیں۔
لیکن جناب اس کا یہ حق نہیں ہے کہ ہم بالکل ہی بے پروا ہو جائیں اور لوگوں کے جذبات مجروح کرتے پھریں۔ ہو سکتا کہ وہ لفٹ میں زود حس ہو اسی لیے ’پلیز‘ نہ کہنے کے جرم میں اس نے اس بے چارے شخص کو اٹھا کر پھینک دینے کے جرم کا ارتکاب کیا۔ ہو سکتا ہے اسے کوئی پیٹ پاٹ دیتا تو وہ عدالت سے اپنے لیے انصاف حاصل کر کے اپنے مجروح جذبات کی تسکین حاصل کر لیتا لیکن ’پلیز‘ کے لفظ کی غیر موجودگی نے اسے ناقابل تلافی چرکہ لگایا ہو اور اس طرح اس کی عزت نفس مجروح ہوئی ہو اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ لفٹ مین نے زیادتی کی تھی خود اس شخص کے باس boss نے اسے حقیر سمجھ کر سلام نہ کیا ہو اسی لیے اس نے لفٹ مین سے انتقاماً پلیز نہ کہا ہو۔
در اصل خراب رویے زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں اور وہ سال بھر میں ہونے والے جرائم سے زیادہ مہلک ہوتے ہیں۔ مگر کوئی قانون ہمارے رویوں، ہماری گفتگو، ہمارے غصے اور ہمارے مخصوص آداب پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ اب اگر ایک طرف ہم لفٹ مین کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں تو دوسری طرف ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہمیں کسی بھی خدمت کے عوض اظہار تشکر ضرور کرنا چاہیے۔ آپ کا شکریہ۔ نوازش۔ مہربانی جناب۔ معاف کیجئے۔ معذرت خواہ ہوں۔ چند ایسے الفاظ ہیں جن سے ہر شخص کے دل میں اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جو خدمت یا زحمت اس نے انجام دی ہے اس کا مداوا ہو جاتا ہے۔ یہ وہ چکنا تیل ہیں جس سے زندگی کی مشین اٹکے بغیر رواں رہتی ہے۔ اور ہم ایک دوسرے کے کام آتے رہتے ہیں۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ زمین دوز ریلوے اسٹیشنوں کی انتظامیہ اپنے ملازمین کو با ادب اور مہذب رہنے کی تربیت دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسافروں کے سفر میں حسن پیدا ہو جاتا ہے اور ایک سماجی خدمت کا تقاضا بھی پورا ہو جاتا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میں جلدی میں ایک بس میں چڑھ گیا اور پتہ چلا کہ پیسے تو میں گھر میں بھول آیا ہوں۔ میری حالت کا اندازہ ہر صاحب دل اور صاحب احساس کر سکتا ہے۔ اب اگر کنڈکٹر بہت مہربانی کرے تو آپ کو نیچے اتار دے گا تاکہ آپ گھر واپس جائیں لیکن آپ جس کام سے جا رہے تھے یا جن صاحب سے ملنے جا رہے تھے اس کا کیا ہو گا؟ خیر میں نے بڑی ہمت سے کنڈکٹر سے کہا: ’’بھیا میں پیسے گھر بھول آیا ہوں۔ مجھے آپ یہیں اتار دیں۔‘‘
’’بالکل نہیں۔‘‘ کنڈکٹر نے کہا۔ ’’میں آپ کو ٹکٹ دوں گا۔‘‘
میں نے مزید کہا: ’’مگر میں بعد میں آپ کو ٹکٹ کے پیسے کہاں پہنچاؤں گا؟‘‘
وہ بولا: ’’اجی کسی دن آپ کو میں بس ہی میں مل جاؤں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اس خوش دلی سے ٹکٹ دینے لگا گویا وہ انگلستان سے ہانگ کانگ تک کا ٹکٹ دینے کو تیار ہو! لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ میں نے تمام جیبوں کو ٹٹولنا شروع کیا تو ایک شلنگ مل گیا اور حساب اسی وقت بے باک ہو گیا۔ لیکن اس کنڈیکٹر کے لیے میرے دل میں احترام قائم ہو گیا اور میں مزید بتاؤں کہ بس ہی کے ایک سفر کے دوران انہی موصوف کنڈیکٹر کے بھاری بوٹوں سے میرا پیر کچلا گیا۔ انھوں نے فوراً ہی مڑ کر مجھ سے کہا: ’’جناب میں معذرت خواہ ہوں۔ در اصل یہ بوٹ ہی کچھ بھاری ہیں۔ میرا خیال ہے آپ کو زیادہ چوٹ نہیں آئی ہے۔‘‘
ادھر میں اپنی تمام اذیت بھول گیا۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ وہ کنڈیکٹر اپنے رویے سے ہر مسافر کے سفر کا لطف دوبالا کرنے میں مصروف رہتا۔ اگر بارش ہو رہی ہوتی تو وہ دروازے پر جا کر پیدل چلنے والوں سے کہتا: ’’بس میں جگہ ہے … اندر آ جائیے جناب۔‘‘ بوڑھے مسافروں کے ساتھ تو وہ بیٹوں جیسا سلوک کرتا اور بچوں کے لیے مشفق باپ کارول ادا کرتا اور نوجوان طبقے پر وہ کچھ زیادہ ہی مہربان ہوتایعنی ادھرادھر گزرتے ہوئے ان سے کسی مزاحیہ جملے کا تبادلہ کرتا یا انہیں کسی جملے یا حرکت سے محظوظ کرتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر خراب رویے انسانی زندگی میں زہر گھولتے ہیں تو اسی طرح اچھے رویے بھی انسانی زندگی کو خوش گوار بناتے ہیں۔ اچھے رویے بھی موسم کی طرح ہوتے ہیں جو ہم پر خوش گوار انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی لیے مشہور رومانی شاعر کیٹس (Keats) نے ایک بار کہا تھا: ’’خوشگوار موسم میرے احساس کو تر و تازہ اور شگفتہ کر دیتا ہے۔‘‘ اور جس طرح ایک دوسرے مشہور رومانی شاعر ولیم ورڈزورتھ (Wordsworth) نے جونکیں جمع کرنے والے (leech gatherer) سے ذہانت اور عقل کا سبق لینے کا مشورہ دیا تھا اسی طرح میں بھی اس عظیم بس کنڈکٹر سے زندگی کے اصل حسن کا ادراک حاصل کرنے کا مشورہ دوں گا۔
آخیر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ہمیں خوشگوار زندگی کی خاطر تمام اچھے اخلاقی رویوں اور آداب کو اہمیت دینا ہو گی۔ ہمیں یہ تمام رویے اور آداب کسی قانون کے تحت نہیں پیدا کرنا ہیں کیونکہ قانون تو ہمیں صرف جسمانی حملوں کے خلاف انصاف دے سکتا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا اگر لفٹ مین اس شخص کو اٹھا کر پھینکنے کے بجائے اس سے مہذب طریقے سے پیش آتا۔ یہ اس کا زیادہ اچھا انتقام ہوتا۔ حقیقت میں ایک با اخلاق انسان مادی طور سے کچھ کھو سکتا ہے لیکن روحانی فتح تو اسی کے حصے میں آتی ہے۔
٭٭٭