بالائی منزل کی سیڑھیوں سے نیچے اترتا وہ مرکزی ہال میں آپہنچا۔چھت سے لٹکے ہیروں کی مانند جگمگ کر تے جھومر کے سوائے حویلی کی تقریباً ساری بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔نیم تاریکی میں ڈوبے گراؤنڈ فلور پر گولائی سے بنے کمروں کی سمت حیدر نے نظر دوڑائی۔دائیں طرف سب سے آخری کمرے پر اس کی نگاہیں جا رکیں۔
حریم آفندی کی دوست کا کمرہ حویلی کی کس سمت اور کس نمبر پر ہے ،اس بات سے حیدر آفندی لاعلم رہے یہ ناممکنات میں سے تھا ۔ کمرے کے نزدیک پہنچ کر آہستگی کے ساتھ اس نے ناب گھمایا ، حسب توقع دروازہ لاک نہیں تھا ۔جس کی وجہ تھی شفق کی منجھلی بھابھی کی بیٹی زونی، جو شفق کے ساتھ اسکے کمرے میں سوتی تھی۔محترمہ زونی کو خاموش و پرسکون رات کے تقریباً ہر پہر اُٹھ کر رونے اور شور ڈالنے کی بری عادت تھی۔اپنی بیٹی کی اس عادت سے تنگ آکر اپنے آرام کا خیال کرتے ہوئے راحت بھابھی نے اپنی دختر کو اس کے نخروں سمیت شفق کے کمرے کا مکین بنادیا۔تاہم اپنی اس اوچھی حرکت کی پردہ پوشی کے لیے کمال اطمینان سے سب گھر والوں کے سامنے باآواز بلند کہہ دیا
کہ "زونی ضد کرتی ہے پھوپھو کے پاس سونا ہے۔اپنی بچی کی فکر میں ہلکان رات بھر کئی چکر کاٹتی ہوں تمہارے کمرے کے, ایک کام کرنا شفق اب سے تم اپنے کمرے کا دروازا کھلا رکھکر سونا۔”
حسب عادت انکی بے ضرر نند نے حکم کی تعمیل کی تھی۔کمرے کی دہلیز پر پاؤں دھرتے ہی اسے جھٹکا لگا تھا۔باہرکی نسبت کمرا مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔اس لمحے اسے بے ساختہ حریم کے کمرے کو رات کے پہر روشن کرتے دو مختلف شیڈس کے زیرو بلب یاد آئے تھے۔ان رنگین روشنیوں کے بغیر حریم کو نیند نہیں آتی تھی کجا گھپ اندھیرے میں سونا نا ممکن ۔
"کیا جوان جہان لڑکیاں یوں قبر کی یاد دلاتے خوفناک اندھیرے میں سولیتی ہیں۔محترمہ خاصی بہادر معلوم ہوتی ہیں،خان زادی جو ٹھہری”۔
من ہی من وہ حیران ہوتا ہوا اسمارٹ فون کی فلیش لائٹ راہ میں حائل چیزوں پر مرکوز کرتا سنگھار میز تک پہنچا۔یہ علحیدہ کہانی تھی کہ رات کے وقت محترمہ زونی کو روشنی میں نیند نہیں آتی تھی۔ نتیجتاً شفق بھی اپنی راتیں خوفناک تاریکی میں گذارنے پر مجبور تھی ۔البتہ اس حقیقت سے حریم اور حیدر لاعلم تھے۔
سنگھار میز کی صاف سطح کو دیکھ آج کی تاریخ میں حیدر کو حیرت کا دوسرا جھٹکا لگا تھا۔نہ میک اپ کا سامان ، نہ پرفیوم کی بوتلیں نہ ہی رنگین چوڑیوں سے سجا چوڑیوں کا اسٹینڈ جو تقریباً ہر لڑکی کی سنگھار میز کو مزید جاذب نظر بنادیتا ہے۔
ایک دفعہ پھر اسے ایکدم سے حریم کی سنگھار میز یاد آئی تھی۔ جس پر تقریباً ہر مشہور برانڈ کی پرفیوم کی بوتلیں موجود ہوتیں۔حریم میک اپ کی شوقین نہیں تھی لیکن مہکتے ہوئے خوشبو بکھیرتے پرفیومس کی دیوانی تھی۔وہ ہمہ وقت مہکتی رہتی البتہ گھر سے باہر نکلتے وقت وہ پرفیوم کے استعمال سے پرہیز کرتی تھی۔
حیران ہوتے ہوئے اس نے سنگھار میز کی دراز کھولی تھی۔ خلاف توقع دراز بھی لڑکیوں کی بناؤسنگھار و زیبائش کے لوازمات سے پاک تھا ۔چند مذہبی کتابوں کے علاوہ وہاں کچھ نہیں تھا۔ اب کہ وہ بے طرح چڑھ گیا۔
"خوامخواہ ہی حریم اپنی دوست کی فکر میں ہلکان ہوئی جاتی ہے۔بناؤ سنگھار کے معاملے میں تو یقیناً کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی محترمہ پر ۔میڈم خودہی کوتاہ بین ہونگی اس معاملے میں اور بدنام بھابیوں کو کرتی ہوگی۔ نجانے یہ بدذوق قسم کی لڑکیاں ماسیوں والا حلیہ اپنا کر خود کو نیک بی بی کیوں تصور کرنے لگ جاتی ہیں”۔
سخت بدمزہ ہوتے ہوئے اس نے اپنی جیب سے چند رنگین کاغذات کا بنڈل بر آمد کیا اور دراز میں کچھ اس طرح رکھ دیا کہ وہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی عملی تفسیر بنے نظر آتے تھے۔کاغذات کو اپنی آرام گاہ تک پہنچاکر دراز کوبند کرتے ہوئےوہ پلٹا۔ دراز پٹ سے ٹکرایا تھا۔ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی آواز نے خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کیا۔حیدر اپنی جگہ ساکت رہ گیا تاہم بستر پر لیٹے وجود میں جنبش ہوئی تھی۔
اس نے سرعت سے فلیش لائٹ آف کرتے ہوئے اسمارٹ فون کو جیب میں ڈالا تھا۔کمرہ ایک دفعہ پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔
وہ بیدار ہوچکی تھی اس سے قبل کے وہ فرار کی راہ نکالتا وہ لرزتی ہوئی چیخ نما آواز میں بولی۔
کون۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہاں۔۔۔۔۔۔۔”
حیدر کے برعکس اس کی آنکھیں تاریکی میں دیکھنے کی عادی تھیں۔وہ با آسانی کہہ سکتی تھی کہ تاریکی میں نظر آتا ہیولہ کسی مرد کا تھا۔دراز قد مرد کا۔ ۔۔
رات کے اس پہر اسکے کمرے میں کوئی مرد گھس آیا تھا اس تصور سے ہی اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔
وہ لرزتے ہوئے قدموں سے بستر سے نیچے اتری۔ ہیولا ہنوز ساکت تھا۔تصدیق کر لینے کے بعد کہ اس کے مقابل کھڑا شخص کوئی چور ہےیقیناً وہ چینخنے والی تھی اس سے قبل کہ وہ چیخ اس کی حلق سے نکلتی حیدر نے دو قدموں کا فاصلہ عبور کرتے ہوئے سرعت سے اس کا بازو پکڑ کر اسے دیوار کے ساتھ لگایا اور اپنا آہنی ہاتھ اس کے لبوں پر رکھ دیا۔
"شش ۔۔۔۔۔۔۔ خبردار جو تم چیخی ۔۔۔۔ میرے پاس گن ہے۔اگر تم نے ذرا سی بھی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو اپنی پستول کی ساری گولیاں تمھارے اندر اُتار دونگا۔"
دبے ہوئے لہجے میں اپنی آواز میں کرختگی سموتے ہوئے حیدر نے اسے خوفزدہ کرنے کی سعی کی۔وہ چاہتا تھا شفق اسے پیشہ ور چور ہی سمجھے۔وہ دونوں ایک دوسرے کے ازحد قریب کھڑے تھے۔اس سے قبل کہ وہ کسی اور ردعمل کا اظہار کرتا معاً اسے اپنے سینے پر دو لرزتے ہوئے ہاتھوں کا دباؤ محسوس ہوا تھا۔اس نے سر جھکا کر تصدیق کرنی چاہی۔، تاریکی میں دونازک ہاتھ اس کے سینے پر نحیف سا دباؤ ڈالتے دکھائی دیتے تھے۔
پورے قد سے کانپتی ہوئی اس لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو درمیان میں حائل کرتے ہوئے اسے خود سے قدرے فاصلے پر رکھنے کی سعی کی تھی۔اس کے اس ردعمل پر وہ ششدر رہ گیا۔ اس کے لبوں سے اپنا ہاتھ ہٹاکر بے ساختہ وہ چار قدم پیچھے ہٹا تھا۔آنکھیں تاریکی سے قدر مانوس ہوئیں۔گو نین و نقش واضح نہیں تھے لیکن اس کےبیضوی چہرے پر بہتے آنسوؤں کو وہ دیکھ سکتا تھا۔پورے قد سے لرزتی اس لڑکی کے خوف و حراس کومحسوس کر سکتا تھا۔راستہ ملتے ہی وہ تیر کی تیزی سے بستر کے نزدیک پہنچی اور تاریکی میں قدرے نمایاں ہوتی ہلکے رنگ کی بڑی سی چادر کو اپنے نازک وجود کی گرد لپیٹ لیا۔
قد کے لحاظ سے وہ یقیناً حریم جیسی تھی البتہ جسمانی لحاظ سے غالباًقدرے نحیف و نازک تھی ،تاریکی میں درست اندازہ لگانے سے قاصر تھا وہ۔
"چلیں جائیں آپ یہاں سے ،اگر چوری کرنا مقصود تھا تو کسی اور کمر ے کا رخ کرلیتے ۔اسقدر وسیع و عریض حویلی میں کیا واحد میرا کمرہ ہی نظر آیا آپکو چوری کے لائق؟
آپکو ذرہ برابر بھی شرم نہیں آتی رات کے اس پہر لڑکیوں کے کمروں میں چوری چھپے گھستے ہوئے۔چوریاں کرنا مقصود ہے نا تو بینکوں میں ڈاکہ ڈالیں یا واردات انجام دینے کے لیے ایسے گھروں کا انتخاب کیا کریں جہاں صرف مرد رہائش پذیر ہوں۔یوں بے خوف و خطر لڑکیوں کے کمروں میں گھس پیٹ نہ کیا کریں۔یوں بھی مجھ جیسی لڑکیوں کی خواب گاہوں میں محض خواب ہوتے ہیں چوری کے لائق قیمتی سازوسامان نہیں ہوتا”۔
لرزتے ہوئے بھیگی ہوئی آواز میں وہ گویا ہوئی۔
وہ لڑکی مسلسل اسے حیران کیے دے رہی تھی۔محترمہ کو اس کے چور ہونے سے زائد اسکےمرد ہونے پر شکایت تھی۔چوری کی نیت سے خان حویلی میں گھس آئے اس چور کی اپنے گھر میں موجودگی پر نہیں بس اپنے کمرے میں اسکی موجودگی پر وہ معترض تھی۔
اس سے پہلے کے حویلی کا کوئی اور مکین بیدار ہوجاتا اس نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ایک ہی جست میں راستے میں حائل کرسی کو عبور کرتا وہ دروازے کے راستے باہر نکل گیا۔
اپنے آپ میں سمٹی وہ خوف و حراس میں ڈوبی خود کو کمپوزڈ کرتی ہوئی انگشت بدنداں تھی کہ وہ کیسا کا چور تھا جو دروازے کے راستے واپس لوٹا تھا۔
******
اگلے دن حریم کی طبیعت قدرے بہتر تھی ۔سہ پہر کو جب وہ گھر لوٹا تو آفندی صاحب اور آمنہ بیگم اسکے منتظر تھے۔
"کہاں رہ گئے تھے تم حیدر ؟گذشتہ چار دنوں سے ایک پل کے لیےبھی تم حریم کو تنہا نہیں چھوڑ رہے تھے اور آج یوں اچانک دو گھنٹوں کے لیے غائب ہوگئے ۔ یہاں حریم نے تمہاری تلاش میں کنوؤں میں بانس ڈلوادیئے”۔
چائے کے کپ کو میز پر رکھتے ہوئے آمنہ بیگم نے استفسار کیا۔
"کچھ دوست مل گئے تھے بس ان ہی کے ساتھ گپ شپ میں وقت گذر جانے کا احساس نہیں ہوا۔میں حریم کو لے کر آتا ہوں ساتھ چائے کا لطف اُٹھائیں گے”۔
میز پر دھری چھوٹی چھوٹی نمکین بسکٹوں سے سجی پلیٹ سے ایک بسکٹ اٹھا کر منہ میں رکھتا ہوا وہ بالائی منزل کی سیڑھیاں پھلانگتا حریم کے کمرے میں جا پہنچا۔حریم عصر کی نماز کے بعد دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھائے ہوئی دکھائی دی۔دروازے کی آہٹ پر وہ مڑی اور اسے دیکھ کر مسکرادی۔
پھیکی سی مسکراہٹ۔
"بھائی آپ کا کیا خیال ہے،میں حسن پرست ہوں؟عبداللّٰہ کو شفق کے شوہر کے روپ میں ناپسند کرنے کی کئی وجوہات میں سے ایک اس شخص کا شفق کے مقابلے کم صورت ہونا بھی ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ مجھ سے خفا ہونگے؟
کیا میری سوچ غلط ہے؟ کیا شادی بیاہ کے معاملات میں ظاہری شخصیت اہمیت نہیں رکھتی؟ کیا خوبصورت شوہر کی خواہش کرنا گناہ ہے؟کیا حسین ترین لڑکی کی شادی ازحد معمولی شکل وصورت کے لڑکے سے کردینا جائز ہے اسلام میں “؟
رخ موڑے کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہ جمائے وہ کھوئے ہوئے انداز میں مستفسر ہوئی۔
"تم حسن پرست قطعاً نہیں ہو حریم۔خوبصورتی کی پرستش کرنے والوں میں اور خوبصورتی کو پسند کرنے والوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔انسانوں سے بھری اس دنیا میں ایک بھی ایسے شخص کو ڈھونڈنکالنا ناممکن ہے جسے حسین چہرے پسند نہ ہو۔جسے خوبصورتی اٹریکٹ نہ کرتی ہو۔
حسن اور خوبصورتی کے لیے پسندیدگی کے جذبات دل میں امڈنا انسانی فطرت ہے۔اسی لیے خدا نے دنیا کو خوبصورت بنایا ہے اور جنت کوخوبصورت ترین اور تم نے ایسا کون سا گناہ کردیا جو خدانخواستہ اللّٰہ
تم سے خفا ہوگا۔تم کسی گناہ کی مرتکب نہیں ہوئی ہو ،تم شفق کی مخلص دوست ہو اور اس کی بہتری کی خواہش مند ہو۔مجھے تو لگتا ہے تم اللّٰہ تعالیٰ کے فیوریٹ بندوں کی لسٹ میں سر فہرست دکھائی دوگی اور ہو بھی کیوں نہ اس دنیا میں کتنے بندے ہونگے اللہ کے ،جو اپنی دوست کے غم میں بستر پکڑلینے کا حوصلہ رکھتے ہوں لہذا تمھیں گلٹی فیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بہت خوب سوال کیا تم نے کہ کیا شادی بیاہ کے معاملات میں ظاہری شخصیت اہمیت کی حامل نہیں ہوتی؟کیا خوبصورت لڑکی کی شادی معمولی صورت لڑکے کے ساتھ کردینا جائز ہے؟
جہاں تک شرعیت کا سوال ہے تو شرعی نقطہ نظر سے شادی کے معاملات میں ظاہری شخصیت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔جسطرح شریعت میں کسی لڑکے کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا حق دیا گیا ہے۔شادی سے قبل لڑکی کو دیکھنے کی رعایت دی گئی ہے اسی طرح لڑکی کو بھی اپنی پسند نا پسند کا اظہار کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ لڑکی کو بھی اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھنے کی اجازت ہے۔اسلام میں کسی خوبصورت لڑکی کی شادی کسی کم صورت لڑکے سے کرنے کی ممانعت ہے۔
حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا " تم میں سے کوئی اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کرتا ہے تو اپنی بیٹی کو بدصورت آدمی کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور نہ کرے پس بے شک وہ عورتیں بھی وہی پسند کرتی ہے جو تم پسند کرتے ہو”۔
اور ابنِ جوزی کی کتاب النساء میں لکھا ہے کہ” اس آدمی کے لیے مستحب ہے جو اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کرے کہ وہ اس کے لیے اچھی شکل و صورت والا نوجوان دیکھے اور اس کی شادی بدصورت آدمی سے نا کرائے”۔
شریعت میں عورت کے جذبات و احساسات کی رعایت رکھتے ہوئے اس کے نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔تم فکر نہ کرو میں نے اس معاملے میں پوری ریسرچ کرلی ہے۔تمہاری سوچ صد فی صد درست ہے غلطی پر خان زادے ہیں”۔
اس کی بات کا تفصیلاً جواب دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح حیدر نے اس کے اضطراب کو کم کیا تھا۔ اس کا جواب سنکر یک گونہ سکون حریم کے چہرے پر پھیل گیا ۔وہ ایک دفعہ پھر دعا مانگنے میں مصروف ہوگئی جبکہ حیدر اس کی پشت پر نگاہیں ٹکائے اس کی نماز پوری ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
رات کے کھانے کے دوران خلاف معمول آفندی حویلی میں خاموشی کا راج تھا۔حریم اپنے کمرے میں تھی اس کے سر میں درد تھا۔آفندی خاندان کے بقیہ تین افراد اپنی اپنی سوچوں میں گم کھانا کھانے میں مصروف تھے۔دفعتاً فضاء کے سکوت کو آفندی صاحب کی آواز نے توڑا۔
'آج عشاء کی نماز کے بعد مسجد کے باہر ہمارے ہمسائیوں اور ان کے ممکنہ داماد کے مابین بحث چھڑ گئی۔بات بحث پر شروع ہوکر تماشے پر ختم ہوئی۔میں تو نماز پڑھتے ہی جائے واردات سے دور نکل آیا تاہم فاروقی صاحب جو تماشے کے اختتام تک تماشائی بنے صورتحال کا لطف اٹھا رہے تھے انہوں نے مجھے اصل مدعا کہہ سنایا ۔میں تو تماشا کھڑا کرنے والے دونوں فریقین کے بے غیرتی اور بے حسی پر انگشتِ بدنداں ہوں۔اول تو خان زادوں نے اپنی اکلوتی بہن کا رشتہ عمر میں اس سے خاصے بڑے لڑکے کے ساتھ طے کردیا ہے۔خیر اس شخص کو لڑکا کہنا نامناسب ہے ۔ وہ تو پکی عمر کا مرد معلوم ہو رہا تھا۔(عبداللّٰہ کو پکی عمر کے مرد کے لقب سے نوازنے کے معاملے میں باپ بیٹی کی سوچ بلکل ایک سی تھی آمنہ بیگم سوچےبنا نہ رہ سکی )وہ چار نام و نہاد خان زادے جن کے پاس عقل کی کمی اور تکبر کی بہتات ہے۔ان کم بختوں نے غالباً بغیر کسی چھان بین کے اپنی اکلوتی بہن کا ہاتھ نہایت ہی جاہل اور نا قابل اعتبار شخص کے ہاتھ میں دینے کا فیصلہ لے لیا۔ اور آج جب وہ بے غیرت شخص جسے اپنی آدھی عمر کی لڑکی سے شادی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔بڑا ہی عزت دار بنا سرے بازار ان کی بہن کی پاکدامنی پر سوال اٹھارہا تھا تب ان احمقوں کے پاس چپ سادھ لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ان کی اپنی بے حسی و لاپروائی ان کے گلے جو پڑ گئی تھی ۔کسی ناآشنا لڑکے کی گل افشانی پرجو شخص شادی سے قبل ہی شفق کی کردار کشی اور الزام تراشیاں کرنے سے گریز نہیں برت رہا،وہ شادی کے بعد اس مظلوم کا کیا حال کرتا؟
افسوس ہوتا ہے مجھے ان اللّٰہ کے بندوں پر جو خود کو مومن کہلاتے ہیں جبکہ فعل شیطانوں والے انجام دیتے ہیں۔کوئی سمجھائے ان احمقوں کو کہ دن کے پانچ وقت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرلینے سے کوئی مومن نہیں بن جاتا۔اس کے لئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے”۔
متاسفانہ لہجے میں مخاطب آفندی صاحب نے حیدر کے سر پر بم پھوڑا۔ روٹی کا نوالہ بے طرح اس کی حلق میں پھنسا تھا۔بری طرح کھانستے ہوئے اس نے سر آسمان کی طرف اٹھا کر چند سانس لیتے ہوئے خود کو کمپوزڈ کرنے کی سعی کی۔آمنہ بیگم سرعت سے اس کے نزدیک آئیں۔
"کیا مسئلہ ہے حیدر کے ابا آپ کے ساتھ؟رات کے اس پہر آپ کا جذبہ ہمسائیگی کیوں جوش مار رہا ہے؟آپ بخوبی واقف ہیں کہ ان ہمسایوں کی بدولت ہی ہماری بیٹی نے بستر پکڑ لیا ہے۔باوجود اس کے آپ ان ہی لوگوں کا تذکرہ کرکے ایک دفعہ پھر منحوسیت پھیلانے پر مصر ہیں”۔
آمنہ بیگم نے حیدر کی پشت سہلاتے ہوئے اپنے شوہر کو لتاڑا تھا۔کھانسی کی شدت کے باعث اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ شاید آنکھوں کے بھیگ جانے کی وجہ محض حلق میں پھنس جانے والا نوالہ نہیں تھا۔ وہ پلیٹ پر جھک گیا، ایک آنسو پلکوں سے ٹوٹ کر کھانے کی پلیٹ میں گم ہوگیا۔سب کچھ غلط ہوگیا تھا وہ اپنے منصوبے کے پہلے ہی قدم پر بری طرح لڑکھڑایا تھا۔
احساس جرم ، افسردگی ، یاسیت ایک دم سے کئی جذبات اس کے وجود پر حملہ آور ہوئے تھے۔
رات گیارہ بجے کے بعد وہ ڈھیلی ڈھالی ٹی-شرٹ اور ٹریک پینٹ میں ملبوس چھت پر چلایا آیا۔
"وہ جب بھی اداس ہوتی ہے چھت پر چلی آتی ہے “۔
دفعتا حریم کی آواز نے اس کے ذہن کا چکر لگایا۔
غیر ارادتاً ہی اس کے قدم درمیانی دیوار کی طرف بڑھے تھے۔ دیوار کے اس پار جھانک کر دیکھنے پر زیرو بلب کی مدھم روشنی میں درمیانی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا ایک ہیولا دکھائی دیا۔وہ گھٹنوں میں سر دیے اکڑوں بیٹھی تھی۔اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی اس کی ہچکیوں کی آواز اس کی سماعت میں اتری ۔ ٹھنڈی سانس فضا کے سپرد کرتا ہوا وہ بھی درمیانی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اب وہ دونوں کا رخ ایک دوسرے کے مخالف سمت میں تھا۔ دونوں کے درمیان دیوار حائل تھی۔
"مجھے یقین تھا تم چھت پر ہی ہوگی اور حسبِ عادت رو رہی ہوگی۔ رات کے اس پہر چھت پر تمہاری موجودگی اور گریہ و زاری کی وجہ میں ہوں اس حقیقت سے میں بھی واقف ہوں اور تم بھی۔میں حریم کا بھائی ہوں، اگرچہ مجھے اپنا تعارف کرانے کی ضرورت تو نہیں ہے کیوں کہ تمہیں اندازہ تو ہوگا رات کے اس پہر حریم کے علاوہ حریم کا بھائی ہی تمہاری خدمت میں حاضر ہو سکتا ہے۔
مگر میں اپنا تعارف اس خدشہ کے زیراثر کروا رہا ہوں کہ کسی مرد کی آواز سنتے ہی تم راہ فرار نہ اختیار کر لو۔
جو انکشافات میں تمہارے سامنے کرنے جارہا ہوں انھیں سنکر یقیناً تمہیں حیرت تو ہوگی لیکن امید کرتا ہوں کہ تمہیں مایوسی اپنے حصار میں نہ لے لے۔تم مجھ سے اور حریم سے خفا نہ ہو۔ مجھے اندازہ ہے کہ آج خان حویلی میں ہنگامہ ہوا ہوگا۔ہنگامہ کی وجہ ہوگی عبداللہ کا شادی سے انکار اور اس انکار کی وجہ ہوگی تمہاری کردار کا مشکوک ہونا۔جتنے الزامات عبداللہ نے تم پر عائد کیے ہونگے ان سارے الزامات کو تمہارے گوش گذار کر تمہارے بھائیوں نے تمہیں اپنی صفائی دینے کا ایک موقع ضروردیا ہوگا۔مجھے یقین ہے اپنی صفائی میں تم نے ان سارے الزامات سے انکار کیا ہوگا۔کیونکہ حقیقتاً وہ سارے الزامات غلط ہیں۔حقیقت یہی ہے ،نا تم مجھے جانتی ہو نہ ہی میں تمہیں جانتا ہوں۔محبت کا معاملہ تو بہت دور کی بات ہے۔ اور آج سے قبل ہم دونوں ایک دوسرے سے نہیں ملے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے حریم کے حوالے سے منسلک رہے ہیں۔میں تم سے اسی حد تک واقفیت رکھتا تھا کہ تم حریم کی دوست ہو اور تم بھی مجھے اسی حد تک جانتی ہوگی کہ میں حریم کا بھائی ہوں۔تم پر لگے الزامات حقیقت پر مبنی نہیں ہے مگر میں نے ان الزامات میں سے کچھ کو حقیقت بناکر عبداللّٰہ کے سامنے پیش کیا تھا۔آج دوپہر میں عبداللّٰہ سے ملا۔ پورے آدھے گھنٹے تک میں مصروف گفتگو تھا۔اس پورے دورانیے میں میں بولتا جا رہا تھا اور وہ خاموشی کے ساتھ سنتا جا رہا تھا۔گفتگو کا لب لباب یہی تھا کہ گذشتہ چار سالوں سے ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہیں۔ہمارے خاندان کی آپسی رنجش کی بدولت ہماری محبت کو نکاح جیسے مقدس رشتے تک پہنچاپانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔میں نے اس سے گذارش کی کہ وہ شادی سے انکار کردے ساتھ ہی کوئی معقول جواز دینے کو بھی کہاجو کہ میری نظر میں عمروں کاتفاوت ہی تھا۔
میرا خیال تھا گو بظاہر وہ چاہے کتنا ہی مغرور اور بے حس دکھائی دیتا ہو لیکن ہر انسان کے پاس دل ہوتا ہے۔میری اور تمہاری رنج و الم میں ڈوبی فرضی محبت کی داستان اس کے دل کو چھولے گی اور وہ شادی سے انکار کردے گا۔ویسے بھی کونسا غیرت مند مرد اس لڑکی سے شادی پر مصر ہوگا جو کسی اور کہ عشق میں گرفتار رہیہو۔ مگر میری منصوبہ بندی آغاز میں ہی ناکام ہوتی دکھائی دی اور میری توقع کے عین خلاف اس جاہل شخص نے نہایت ہی سنجیدہ اور ذاتی معاملے کو سربازار اچھال دیا۔ بیچ محلے میں گفتگو کے دوران اس نے میرا نام لینے سے گریز کیا مگر تمہارے بھائیوں کو اس نے ساری حقیقت سے آگاہ کیا ہوگا اور اس تکلیف دہ حقیقت نے خان زادوں کے غیض و غضب کو مزید ہوا دی ہوگی۔
I am really sorry.
میری ایک نادانی کے باعث سربازار تمہاری تذلیل کی گئی۔ یقین جانو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کسی شخص کی محبت میں مبتلا لڑکی عبداللّٰہ کے نقطہ نظر سے بدکردار ہوتی ہوگی اور اپنے اسی نقطہ نظر کا بلاتردد اظہار وہ سرِ بازار کردے گا۔ مجھے اس شخص سے اس قدر جہالت کی توقع نہیں تھی۔اس رشتے کو ختم کروانا مقصود تھا تمھاری تذلیل کروانا نہیں۔
Once again I am really sorry.
میں جانتا ہوں سوری بہت چھوٹا لفظ ہے لیکن معذرت طلب کرنے کے علاوہ میں کر بھی کیا سکتا ہوں۔"
،
کیوں کیا آپ نے یہ سب ؟ کیوں رکوانا چاہتے تھے آپ میری شادی ؟میں تو آپ کو جانتی تک نہیں۔گزشتہ چار سالوں میں گھنٹوں آپ کی بہن سے باتیں کرتی رہی ہوں میں، مگر آپ موضوع گفتگو کبھی نہیں رہے۔میں نے آپ کے متعلق نہ کوئی بات کی نہ کبھی حریم کو کرنے دی۔کیوں آپ نے میرے نام کو اپنے نام کے ساتھ جوڑا ؟ ذلت کا طوق میرے گلے میں ڈال دیا۔میرے بھائیوں کے خدشوں کو صحیح ثابت کر دیا۔ برسوں پہلے جس خاندان کی ایک بیٹی اپنے عاشق کے ساتھ فرار ہوگئی تھی اس خاندان کی بیٹی ہونے کی سزا میں پچھلے اٹھارہ سالوں سےکاٹ رہی ہوں۔اسے تو خان زادوں نے ایک ہی بار میں موت کی گھاٹ اتار دیا تھا مگر میں اپنے بھائیوں کی بے رخی اور بھابیوں کے طعنوں سے ہر روز مرتی ہوں۔اس گناہ کی پاداش میں میرے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جاتا ہے جو میں نے کیا ہی نہیں۔
لیکن ان محرومیوں اور اذیت کے احساس کے باوجود ایک اطمینان تھا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا ،ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب میرے بھائیوں کو احساس ہوگا کہ ان کی بہن اس لڑکی سے مختلف ہے۔انھیں میر ے پاکدامن اور اعلیٰ کردار ہونے کا یقین آجائے گا۔اور تب وہ اپنے سابقہ رویوں پر نادم ہونگے۔
مگر آج آپ کی اس حرکت نے میری برسوں کی ریاضت کو مٹی میں ملا دیا۔اور اب میرے بھائیوں کو ایک دفعہ پھر اس حقیقت پر افسوس ہوگا کہ میں ان کی بہن ہوں۔اپنی غلطیوں پر نادم ہونا تو درکنار وہ اپنے سابقہ نارواسلوک پر خود کو حق بجانب سمجھیں گے”۔
دیوار کے اس پار سے مترنم بھیگی آواز اس کی سماعت میں اتری ۔ وہ پرشکوہ تھی۔معاً حریم کی آواز اس کے ذہن میں گونجی۔
"شفق کی آواز اسقدر پیاری ہے بھائی کہ آپ سنیں گے تو مسحور ہو جائیں گے۔ وہ بولتی ہے تو لگتا ہے جیسے ستار کے تاروں کو چھیڑ دیا گیا ہو”۔
فی الوقت اس کی آواز سن کر اسے حریم کی بات پر یقین آیا تھا۔کم ازکم آواز کے معاملے میں حریم نے مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا تھا۔اس کی آواز ازحد پیاری تھی۔ عجیب بات تھی اسقدر سنجیدہ صورت حال کے دوران اس کا ذہن کہاں بھٹک رہا تھا۔اس نے خود کو ڈپٹا۔
"تمھارے سوالوں کے جواب دینے کی غرض سے ہی تو میں تمہاری خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔مگر اس سوالنامہ کے جوابات سننے سے قبل کیا تم یہ نہیں پوچھو گی کہ حریم کہاں ہے؟پچھلے چار دنوں سے وہ تم سے ملنے کیوں نہیں آئی”؟
اپنے سوال کے جواب میں غیرمتوقع سوال سن کر اسے مزید رونا آیا تھا۔وہ بخوبی واقف تھی کہ حریم اس سے خفا ہے۔
"نہیں میں یہ سوال نہیں پوچھونگی کیونکہ میں جانتی ہوں حریم مجھ سے خفا ہے اسی لیے وہ مجھ سے ملنے نہیں آئی۔عبداللہ کے تعلق سے کچھ باتیں میں نے حریم سے مخفی رکھی تھی۔خفگی کی وجہ یہی ہے”۔
گیلی سانس اندر کھینچتے ہوئے شفق گویا ہوئی۔
'یہی تو مسئلہ ہے حریم کے ساتھ ایسے موقعوں پر وہ اپنوں سے خفا ہونے کے بجائے خود سے خفا ہو جاتی ہے۔
اچانک وارد ہوئی ناپسندیدہ صورتحال کا ذمہ دار وہ خود کو گردانتی ہے۔اگر تمہیں اندازہ ہوتا کہ تم سے خفا ہونے کے بجائے وہ شدید ذہنی دباؤ اور افسردگی کے زیر اثر بستر سے جا لگی ہے ،تو تمہیں اپنے اس سوال کا جواب ازخود مل جاتا کہ میں نے اس کھیل کا آغاز کیوں کیا ؟پچھلے چار دنوں سے وہ تمہاری فکر اور غم میں نڈھال ہوئی جارہی ہے۔وہ ایسی ہی ہے،از حد جذباتی تھوڑی پاگل سی ۔اس کے جذبات میں اعتدال نہیں رہا، کبھی بھی نہیں۔اس کے اسی شدید ردعمل کے خوف سے ہم نے چار سال قبل اس کی اور تمھاری ممنوعہ دوستی کے معاملے میں چپ سادھ لی تھی۔تمھاری شادی رکوانے کا فیصلہ میں نے حریم کی حالت کو دیکھ کر لیا ہے۔اس کھیل کا آغاز اس حریم آفندی کی وجہ سے ہوا ہے جو گزشتہ چار روز سے میری بہن کم تمھاری دوست زیادہ معلوم ہورہی ہے۔
تمھارے ساتھ ہورہی زیادتی ،تمھاری حق تلفی اس کی برداشت سے باہر ہے۔اپنی واحد عزیز ترین دوست پر ہورہے ظلم کے خلاف وہ احتجاج نہ کرسکی، اسے انصاف نہ دلاسکی یہ احساس جرم،یہ احساس ندامت اسے پاگل کیے دے رہا ہے۔اور میں اسےبے بسی،احساس جرم اور احساس ندامت کے اس اذیت دیتے بوجھ سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔
لہذا میں نے تمھاری شادی رکوانے کا پلان بنایا ۔
سارے فساد کی جڑ تمھاری شادی ہی تو تھی۔
شادی رکوانے کے منصوبہ کو کامیاب بنانے کےلئے میرے پاس دو راستے تھے۔اول میں کسی غیر آشنا لڑکے کے بہروپ میں عبداللہ سے ملتا اور اسے ہماری فرضی محبت کی داستان کہہ سناتا۔
نتیجتاً وہ رشتے سے انکار کر دیتا۔اس صورت حال میں تمھاری شادی تو رک جاتی لیکن یہ سکون عارضی ثابت ہوتا کیونکہ ایک رشتہ ختم ہوجانے کے بعد تمھارے بھائی شدومد سے دوسرے رشتے کی تلاش میں لگ جاتے۔اور وہ دوسرا رشتہ یقیناً عبداللّٰہ سے زیادہ برا ہوتا کیونکہ پہلا رشتہ ختم ہونے کی وجوہات کی بنا پر تم اپنے بھائیوں کی نظروں میں مزید ازراں اور بےمول ہوجاتی۔جبکہ میرا مقصد محض تمھاری شادی رکوانا نہیں تھا۔حریم کی خواہش ہے کہ تمھاری شادی ایسے شخص کے ساتھ ہو جو ہر لحاظ سے تمھارے قابل ہو۔ وہ تمھارا مستقبل مستحکم دیکھنا چاہتی ہے۔پہلا راستہ مجھے منزل مقصود تک پہنچانے سے قاصر تھا لہذا میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور وہ یہ تھا کہ میں اپنی حقیقی شناخت کے ساتھ عبداللہ سے ملاقات کرتا ،اسے ہماری محبت کے تعلق سے آگاہ کرتا اور وہ رشتہ سے انکار کر دیتا۔
اس راستہ کا انتخاب میں نے اسی لیے کیا کیونکہ اس دفعہ تمھارے بھائی کسی غیرمستحق لڑکے کے ساتھ تمھارا نکاح کرنے کی ہمت نہیں کر سکینگے کیونکہ معاملہ ہمسائے کم پرانے حریفوں کا ہے۔انھیں کامل یقین ہوگا کہ اس بار آفندی خاندان ان کے بیٹے کی محبت کی شادی کسی اور سے کسی صورت ہونے نہیں دینگیں اور تو اور انھیں یہ خوف لاحق ہوگا کہ ہمیں انکار اور تم پر جبر کی صورت میں معاملہ جماعت(جامع مسجد کے امام اور علاقے کے چند معزز افراد جماعت کا حصہ ہوتے ہیں۔جماعت کے ممبران مخصوص علاقے میں مقیم افراد کو درپیش پیچیدہ مسائل آپسی تبادلہ خیال اور تبصرے کے ذریعے حل کرتے ہیں۔علاقے کے سبھی افراد جماعت کے فیصلے کے تابع ہوتے ہیں۔)کے کانوں میں نہ پڑ جائے ۔کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ووٹ یقیناً آفندی خاندان کے حصے میں جائےگا۔
ویسے بھی خان خاندان برسوں پہلے اپنے ہی خاندان کی ایک بیٹی کو ناحق قتل کر دینے کے حوالے سے خاصا بدنام ہے۔اس زمانے میں بھلے ہی خان زادے قتل جیسے کبیرہ گناہ کو انجام دے کر صاف بچ نکلے ہوں مگر اب وقت بدل چکا ہے۔زمانہ بدل چکا ہے۔اب خان زادے نہ تو کسی کو قتل کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پائینگے نہ ہی دنیا والے انھیں ایسا کرنے کا انھیں موقع دینگے۔
نتیجتاً تمھارے بھائی کچھ عرصہ کے لیے خاموشی اختیار کرلینگے۔اس کے بعد باری آئیگی پلان کو آگے بڑھانے کی۔پلان کو آگے بڑھانے کے لیے اگلا قدم یہ تھا کہ میں دانستہ ہم دونوں کی محبت کی داستان اور ہم دونوں کے نکاح میں رکاوٹ بننےوالوں کے متعلق جماعت کو آگاہ کرونگا ۔اپنی محبت کے لیے ڈٹ جاؤنگا اور پھر محبت کے سارے علمبردار میری حمایت میں سڑکوں پر اتر آئینگے۔ جماعت اور محلے والوں کے دباؤ کے زیر اثر خان زادوں کو چاروناچار تمھارا ہاتھ میرے ہاتھ میں دینا ہوگا۔لیکن اب پلان کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہی درپیش نہیں رہی ۔ چونکہ عبداللہ نے یہ بات سر بازار اچھال دی ہے لہٰذا چند ہی دنوں میں جنگل کی آگ کی مانند یہ خبر پھیل جائے گی کہ وہ لڑکا کون ہے جسکے ساتھ خان خاندان کی بیٹی کا نام جڑا ہے ۔
یہ دنیا ہے اور دنیا والوں کو بال کی کھال نکالنا آتی ہے ۔خان زادے چاہ کر بھی ہماری محبت کے قصے کو محلے والوں اور جماعت سے مخفی نہیں رکھ پائینگے۔محلے والے بنا کسی تصدیق کے ہماری فرضی محبت کی داستان پر یقین کرلینگے، یوں بھی ان دو چھتوں کے درمیان محبت کا قصہ پرانا ہے۔خان زادے جماعت کے فیصلے کے خلاف جانے کی غلطی کبھی نہیں کرینگے۔تم فکر نہیں کرو ،جیت ہماری ہوگی ۔
ان ساری باتوں سے تم یہ مطلب مت اخذ کرلینا کہ ہم دونوں شادی کے حقیقی بندھن میں بندھنے والے ہیں ۔میرا تم سے شادی کا قطعاً ارادہ نہیں ہے۔میں بس تمہیں اس قفس سے رہائی دلانے کا خواہاں ہوں۔ایک بار تم خان حویلی سے آزاد ہوجاؤ بعد ازاں تمہاری جو مرضی ہو وہ کرنا، چاہے تعلیم حاصل کرنا یا شادی کرلینا ۔اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنا۔یہ نکاح تو محض ایک دکھاوا ہوگا۔جس طرح یہ محبت کی داستان فرضی ہے یہ نکاح بھی فرضی ہوگا۔
ہم دونوں دو متضاد شخصیتوں کے حامل افراد ہیں۔دو متضاد ماحول کے پروردہ۔
جیسے مشرق اور مغرب۔
میں نے تمہارے حوالے سے کبھی ایسا کچھ نہیں سوچا۔یوں سمجھ لو یہ ایک کھیل ہے، ڈرامہ ہے اور تم اس ڈرامہ کا مرکزی کردار ہو ۔ تمہیں اپنے حصے کی اداکاری احسن طریقے سے کرنا ہوگی۔
حوصلہ کرنا ہوگا ،ہمت دکھانا ہوگی۔
یقین جانو آج سے قبل میں تمہاری زندگی کی تلخ حقائق سے یکسر ناواقف تھا۔مجھے لگتا تھا حریم کی دوست حریم کی طرح آسان اور مکمل زندگی گزارتی آئی ہوگی۔
میرا خیال تھا خان شفق نیک ، ازحد خوبصورت اور خوشحال لڑکی ہوگی۔’
سونے کی گڑیا ، سنہری شہزادی ، نیک دل ، پاک دامن ، فرشتہ صفت شفق' حریم کے لبوں سے تمہاری تعریف کے علاوہ میں نے کبھی کچھ اور نہیں سنا ہے۔کیا تمہیں اندازہ ہے کہ حریم نے تمہاری محرومیوں کا ذکر میرے سامنے کیوں نہیں کیا”؟
وہ ایک لمحے کو رکا۔
"ہاں مجھے اندازہ ہے اس نے ایسا کیوں کیا۔میری زندگی کے اس باب سے محض حریم واقف تھی، یہ تلخ حقائق اس کے پاس میری امانت تھے۔میں نے اسے اپنی محرومیوں کو راز رکھنے کو کہا تھا”۔
ضبط کے کڑے مراحل سے گزرتی وہ آنسوؤں کا گولا نگلتی ہوئی بولی۔ ورنہ جی تو کررہاتھا کہ با آواز بلند بین کرے۔خدا نے اس کے نصیب میں اس قدرنایاب لوگوں کو کیسے لکھ دیا تھا۔اس کے خالی دامن میں حریم آفندی جیسا ہیرا کیسے آن گرا تھا۔
"حریم آفندی اس دنیا کا مشکل سے مشکل ترین فعل انجام دے سکتی تھی لیکن کوئی بات حیدر آفندی سے راز نہیں رکھ سکتی تھی۔اسے راز رکھنے نہیں آتے تھے بالخصوص مجھ سے تو نہیں ۔لیکن تمہاری دوستی نے اسے یہ ہنر بھی سیکھا دیا۔ خیر تمہارا جواب پوری طرح سے غلط نہیں تو مکمل طور پر صحیح بھی نہیں ہے۔حریم نے تمہاری زندگی کے تلخ حقائق اس لئے مجھ سے پوشیدہ نہیں رکھے کیونکہ اس نے تم سے وعدہ کیا تھا۔اس نے ایسا اسی لئے کیا کیونکہ خان شفق کی وہ تصوراتی شخصیت جو بالخصوص میرے سامنے پیش کرنے کے لئے اس نے تشکیل دی تھیوہ چاہتی تھی میں تمھیں ویسا ہی سوچوں،خان شفق نام کے اس بت کو وہ توڑنا نہیں چاہتی جو اس نے میرے خاطر بنایا تھا۔
وہ بخوبی جانتی تھی کہ مجھے بلند حوصلہ ، بااعتماد اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والی لڑکیاں پسند ہیں۔تمہاری شخصیت میرے معیار کے عین برعکس تھی۔مجھے ظلم سہنے والی خود ترسی میں مبتلا لڑکیوں سے چڑ ہے۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بھائی اس کی عزیز ترین دوست کو ناپسند کریں۔
اس کی کوشش تھی میں تمہیں شہزادیوں جیسی خوبصورت شہزادیوں جیسی حوصلہ والی اور شہزادیوں سی زندگی بسر کرنے والی شفق تصور کرو اور اپنی اس کوشش میں وہ گزشتہ چار سالوں سے کامیاب رہی ہے۔لیکن آج سے چار روز قبل اپنے ہی ہاتھوں سے اس نے خان شفق کا وہ بت زمین بوس کردیا۔وہ ہار گئی خود سے لڑتے لڑتے۔ وہ تھک گئی حقیقت کو چھپاتے چھپاتے اور ساری حقیقت روز روشن کی مانند مجھ پر عیاں ہوگئی۔"
وہ دیوار سے لگی موتیوں کی مانند خالص اور سچے الفاظ سنتی رہی۔وہ بالکل ساکت تھی بے حس و حرکت ۔ لگ رہا تھا ذرا سی جنبش پر سحر ٹوٹ جائے گا۔ وہ گویا کسی سحر کے حصار میں تھی۔اس شخص کا لہجہ طمانیت بخش تھا۔اس کی باتیں روح کو تسکین پہنچا رہی تھیں۔
اس کی باتوں سے حریم کی خوشبو آتی تھی۔وہ دونوں بالکل ایک جیسے تھے۔
"اس دنیا میں کیا کوئی اور بھائی بہن بھی اس قدر مشابہ شخصیت کے حامل ہونگے؟" وہ تحیر زادہ سوچے گئی۔
"حریم کی خوشی کی خاطر, حریم کے سکون کےلیے آپ نے اتنا خطرناک فیصلہ لے لیا، اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔کیا آپ کو انجام کا خوف نہیں ہے ؟ راہ میں درپیش مشکلات کی پروا نہیں ہے ؟ منزل مقصود تک نہ پہنچ پانے کا خدشہ لاحق نہیں ہے “؟
وہ مستفسرہوئی۔اس کے لہجے میں ذرہ برابر بھی اجنبیت کا عنصر شامل نہیں تھا۔اسے بھول گیا تھا کہ وہ اس شخص سے محض تین گھنٹے قبل ملی ہے۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا گویا دیوار کے اس پار بیٹھے شخص کو وہ گزشتہ چار سالوں سے جانتی ہے۔پہلی دفعہ وہ حیدر سے تب ملی تھی جب اس کی ملاقات حریم سے ہوئی تھی اور گزشتہ چار سالوں سے وہ ہمہ وقت ان دونوں کے ساتھ ہی ہوتا رہا ہے۔
حیدر اور حریم لازم و ملزوم تھے۔وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ کب ہوتے تھے۔
شفق کے سوال پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ اس کے لبوں کا احاطہ کر گئی۔
"جن کی محبت میں شدت نہیں ہوگی انہیں میرا یہ امر کسی پاگل پن سے کم نہ معلوم ہوگا۔خیر اگر جذباتیت کی بات کی جائے تو شاید ہم دونوں بھائی بہن ایک جیسے ہیں۔حریم کا تمہارے غم میں بیمار پڑ جانا اور حریم کی خوشی کے لئے میرا اس خطرناک ڈرامہ کا آغاز کرنا انہی لوگوں کی سمجھ میں آ سکتا ہے جو کسی سے ہم دونوں جیسی محبت کرتے ہو۔حریم کے حوالے سے میری جذباتیت کی وجوہات کو واضح کرنے کے لئے مجھے ہماری گذشتہ زندگی پر روشنی ڈالنا ہوگی۔عین ممکن ہے کہ تم ہماری زندگی کے ان پہلوؤں سے واقفیت رکھتی ہو لیکن اب تک تم نے یہ کہانی حریم کی زبانی سنی ہوگی۔ حریم نے اپنے جذبات کی عکاسی کی ہوگی سکہ کا ایک رخ دکھایا ہوگا۔آج میں تمہیں اپنی طرف کی کہانی سناؤں گا۔سکہ کا دوسرا رخ دکھاونگا۔
حریم اور میں جڑواں ہیں۔وہ مجھ سے پندرہ منٹ چھوٹی ہے ۔پیدائش کے وقت وہ میری نسبت ازحد نحیف و کمزور سی تھی ۔ میں نے ایک برس کی عمر میں چلنا شروع کردیا جبکہ دو سال کی ہوجانے کے باوجود وہ چلنے کے قابل نہیں ہوپائی تھی۔تین سال کی عمر میں اس نے چلنا شروع کیا۔ وہ اکثر اوقات بیمار رہتی۔موسم کے بدلتے ہی اسے بخار چڑھ جاتا۔مام ہمہ وقت اسکی خدمت میں لگی رہتیں۔ان دنوں میرے اندر یہ منفی احساس سر اٹھانے لگا کہ مام ڈیڈ اسے مجھ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ حریم کی وجہ سے وہ مجھے نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس گھر میں میری کوئی اہمیت نہیں رہی۔نتیجتا میرے ننھے سے دل میں میری جڑواں بہن کے تیئں نفرت وناپسندیدگی کے جذبات جڑ پکڑنے لگے۔
میں پانچ برس کا تھا جب میں نے اسے دوڑ کے مقابلے میں شکست دی۔ جسمانی لحاظ سے وہ کمزور تھی تاہم میں تندرست و صحت مند بچہ ہوا کرتا تھا۔باوجود اسکے اسے شکست دینے کے بعد ایک کمینی سی خوشی نے میری دل کو چھوا تھا۔اس مقابلے میں شکست کھانے کے بعد جس کا نتیجہ obvious تھاحریم سارا دن روتی رہی تھی۔
اس روز میرے والدین اور مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ حریم ازحد جذباتی اور کمزور دل کی مالک لڑکی ہے۔ اس دن کے بعد سے میں اسے مزید تنگ کرنا شروع ہوگیا ،وہ ذرا ذرا سی بات پر رو پڑتی اور میں خوش ہو جاتا۔
ان دنوں یہ مقولہ ہر لحاظ سے ہم دونوں پر جچتا تھا کہ جڑواں بھائی بہن ایک دوسرے کا متضاد ہوتے ہیں۔ وہ بیک وقت دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی۔ ان میں سے ایک وہ سب کچھ ہوتا ہے جو دوسرا بننے کی خواہش رکھتا ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پانچ برس کا تھا۔جون کا مہینہ تھا۔ برسات کے موسم کی آمد آمد تھی ۔ موسم کے بدلتے ہی حسب معمول ایک دفعہ پھر حریم بخار کی زد میں آگئی۔ البتہ اس دفعہ بخار کی نوعیت شدید تھی ۔ہر دو گھنٹہ بعد وہ ہوش کھودیتی۔مام اور ڈیڈ حریم کو لے کر ازحد فکرمند تھے۔
وہ جون کی قدرے معتدل شام تھی، مام مرکزی ہال میں بیٹھی رو رہی تھیں ۔مجھ سے انکی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی لہٰذا میں نے انکی دلجوئی کی سعی کی۔اس شام انہوں نے کچھ ایسا کہا کہ ایک پانچ سالہ بچے کی دنیا ہی پلٹ گئی۔ بقول ان کے حریم اس قدر نحیف و کمزور اسی لئے تھی کیونکہ وہ میرے ساتھ اس دنیا میں آئی تھی۔بعض اوقات ٹوینس بچوں میں سے ایک بچہ کمزور رہ جاتا ہے ۔ اسے ماں کے پیٹ سے ایک صحتمند جسم کے لیے درکار ضروری خون دستیاب نہیں ہوپاتا جوکہ دوسرے بچہ کو بآسانی دستیاب ہوتا ہے ۔نتیجتا ایک بچہ دوسرے کی نسبت کمزور پیدا ہوتا ہے۔آنسوؤں کوضبط کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے حریم کا خیال رکھنا چاہیے۔ میں اس کا بھائی ہوں۔اس کا محافظ ہوں ،اس کی کمزوریوں پر ہنسنے کے بجائے مجھے اس کی طاقت بننا چاہیے۔ اس کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔اسکا مینٹل اور ایموشنل سپورٹ بننا چاہیے۔ ان کی باتوں کا مقصد مجھے قصور وار محسوس کروانا قطعاً نہیں تھا مگر مجھے اسوقت اپنا آپ ازحد مجرم محسوس ہوا تھا۔
پانچ سالہ بچے کے ذہن پر اپنے والدین کی کہی ہر مثبت بات مثبت طریقے سے ہی اثر انداز نہیں ہو تی۔ گو میری والدہ کی کہی باتیں میرے دل ودماغ پر منفی طریقہ سے اثر انداز ہوئی تھیں لیکن اس کے نتائج مثبت حاصل ہوئے تھے۔جون کے مہینے کی وہ شام میری زندگی کی آخری شام تھی جب میں حریم کا جڑواں بھائی تھا ۔اس شام کے بعد حیدر آفندی حریم آفندی کا بڑا بھائی بن گیا۔ میری ماں کے چند الفاظوں نے میرے سوچنے کا انداز ہی بدل دیا۔اس دن کے بعد دوبارہ کبھی میں دوڑ کا مقابلہ نہیں جیت سکا۔رفتہ رفتہ حریم کو احساس ہونے لگا کہ اچانک سے دوڑ کا مقابلہ جیت جانے کی وجہ اس کا ایکدم سے تندرست و توانا ہوجانا نہیں بلکہ میرا دانستہ ہار جانا ہے۔اسے ادراک ہوا کہ میں اس کا خیال رکھنے لگا ہوں۔بس پھر کیا تھا ہم دونوں دو قالب ایک جان کی مثال بن گئے۔میرے خیال میں وہ محبت جس میں احساس جرم کے جذبات پنہاں ہوعام محبت سے شدید ہوتی ہے۔ان دنوں حریم کےیے میری محبت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ حریم کی بیمار و کمزور ہونے کا ذمہ دار میں خود کو سمجھتا تھا ۔حریم کی کمزوری اور حساسیت کی وجہ سے اکثر اوقات طلبہ اسے پریشان کرتے،ذرا ذرا سی بات پر رو دینے کی اس کی عادت سے حظ اٹھاتے۔ایسے میں وہ دوڑ کر میرے پاس آتی امداد طلب نگاہوں سے میری طرف دیکھتی اور میں تنہا سب سے لڑ جاتا۔
ان دنوں میں حریم کےلیے سپر ہیرو تھا۔وہی سپر ہیرو جو ہر مسئلہ چٹکی میں سلجھا دیتا ہے۔
گو میں سپر ہیرو نہیں تھا لیکن بڑا بھائی تھا اور میرے خیال میں بڑا بھائی ہونا سپر ہیرو ہونے سے بہتر ہوتا ہے۔
اکثر اوقات میں یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ لوگ بہنوں کے بغیر پوری زندگی کیسے گزار لیتے ہیں۔
خیر اب تک تو تمھیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ حریم کے تئیں میری جذباتیت کا۔"
جذبات سے لبریز حیدر کی آواز سن کر شفق کے کانوں میں حریم کی آواز گونجی تھی۔ان دونوں کی پہلی ملاقات کے اگلے ہی روز حریم نے اپنے بھائی کا تعارف کرواتے ہوئے محبت سے لبریز لہجے میں کہا تھا
"
بعض اوقات حیدر جیسے بھائی کی بہن ہونا شہزادی ہونے سے بہتر ہوتا ہے "۔
اور تب اس کی بات سن شفق کے چہرے پر بے ساختہ امڈ آنے والی محرومی کے تاثر کو دیکھ حریم چپ ہوگئی تھی ۔اس دن کے بعد پھر کبھی حریم نے شفق کے سامنے اپنے اور اپنے بھائی کے مابین رشتے کی نوعیت کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ شفق سے دوستی کے بعد حریم آفندی کو راز رکھنے آ گئے تھے۔ناپ تول کر بولنا آگیا تھا۔الفاظ کا چناؤ کرنا آ گیا تھا۔ جن باتوں سے شفق کی ذرا سی بھی دل آزاری کا اندیشہ ہوتا وہ ان باتوں کو اپنے گفتگو کے ذخیرے سے ڈیلیٹ کردیتی۔حالانکہ شفق سے دوستی سے قبل اسے سوچ سمجھ کر بولنے کی عادت نہیں تھی۔کیونکہ اس سے قبل حریم کا اپنے بھائی کے علاوہ کوئی دوست نہیں تھا اور بھائی بہن کے مابین ناپ تول کر بولنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔
ان دونوں بھائی بہن کے ایک دوسرے کے تئیں جذبات بھی کس قدر مشابہت رکھتے تھے ۔ وہ نم آنکھوں سے مسکرادی۔
"آج سے دو روز قبل جب حریم بخار میں پھنکتی بے آواز رو رہی تھی اسکی گریہ وزاری کو دیکھ میں نے اسے رونے سے منع کیا تب اس نے مجھ سے کہا کہ ۔ دوستوں کو دوستی کا حق ادا کرنا پڑتا ہے۔اور وہ یہ حق ادا نہ کرسکی ،تمھیں انصاف نہیں دلا سکی ۔ایسے میں اتنا تو حق بنتا ہے تمھارا اس پر کے وہ تمھارے غم میں آنسو بہائے اس کے علاؤہ وہ کر بھی کیا سکتی ہے۔
اس لمحے آنسوؤں میں ڈوبے حریم کے ان الفاظ کو سنکر مجھےحریم کے حقوق یاد آئے تھے، اپنے فرائض یاد آئے تھے۔ اس لمحے میں نے سوچا اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے، تب میرے دل سے آواز آئی کہ ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی اپنی بہن کے نصیب میں فتح رقم کروانے کے لیے مجھے بڑا قدم اٹھانا ہوگا۔ بڑی فتح حاصل کرنے کے لیے بڑے ارادے باندھنے پڑتے ہیں۔میں حریم کو شکستہ نہیں دیکھ سکتا تھا اسی لیے میں نے اس جنگ کا آغاز کردیا۔بچپن والی جسمانی و جذباتی لحاظ سے کمزور حریم کو آج بظاہر جسمانی اور جذباتی طور پر مضبوط نظر آتی حریم بنانے کےپیچھے مام ڈیڈ اور میری انتھک محنت کارفرما ہے۔بڑی کوششوں کے بعد وہ پر اعتماد ،ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی، اپنی جنگ خود لڑنے والی حریم بن سکی ہے۔تو اب میں ہماری برسوں کی ریاضت کو ضائع کیسے جانے دیتا۔
اسے ٹوٹنے کیسے دیتا ۔
جسمانی لحاظ سے خواہ وہ کتنی ہی تندرست و توانا نظر آتی ہو لیکن جذباتی لحاظ سے وہ اب بھی بچپن والی حریم ہی ہے۔ وہ جب جب کسی کے پریشان کرنے پر روتی میں اسے کہا کرتا تھا کہ چاہے ہم جذباتی لحاظ سے کتنے ہی کمزور ہو قدرے حساس ہو لیکن بظاہر ہمیں مضبوط اعصاب کا حامل نظر آنا چاہیے۔ تاکہ لوگ ہماری حساسیت کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔میں بارہا اس سے کہتا پائن ایپل کی مانند بن جاؤ۔
Stand tall ,
Wear crown
and be sweet on the inside.
اور وہ بالکل ویسی بن گئ۔اوہ! سوری مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ میں جانتا ہوں تم انگریزی زبان سے ناواقف ہو”۔
وہ جیسے شرمندہ ہوا۔
"اب اتنی بھی ان پڑھ نہیں ہوں میں۔ بنیادی انگریزی سکھائی ہے مجھے حریم نے “۔
درشت لہجے میں برجستہ جواب آیا۔
اس کے انداز پر حیدر کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ تہہ در تہہ شفق کی شخصیت اس کے سامنے کھلتی جارہی تھی۔
"Then sorry again .
اگر تمہیں برا لگا ۔ حریم نے ایک دفعہ ذکر کیا تھا تم کبھی اسکول یا کالج نہیں گئی گھر پر ہی تم نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ تمہارے حوالے سے حریم نے مجھ سے کئی باتیں راز رکھیں۔ وہ دشمنوں سے جاملی ہے، کان کھینچنے ہونگے اس کے۔
خیرحریم اور میرے مابین رشتے کی نوعیت پر تبصرہ شروع ہوگیا تورات ختم ہو جائے گی لیکن باتیں ختم نہیں ہونگی آج کے لئے بس اتنا ہی ۔ تم سے اس تفصیلی گفتگو کا مقصد یہی تھا کہ تمہیں اس ڈرامہ کا حصہ بننے پر رضامند کر سکوں ۔امید ہے اب تک تم رضامند ہو چکی ہوگی ۔ تمہاری دوست نے دوستی کا حق ادا کرنے کی پور سعی کی اب تمہاری باری ہے۔ہمت باندھوں، حوصلہ کرو اور جنگ کا آغاز کردو۔
اسی لیےکل جب تم قصوروار ہو یا نہیں اس معاملے کی تہہ تک جانے کی غرض سے تمہارے کمرے کی تلاشی لی جائیگی اور تمہارے قصوروار ہونے کے ثبوت چند رنگین لیٹرز (خطوط)کی شکل میں دستیاب ہونگے ۔اس وقت ان فرضی محبت کے پیاموں کو دیکھ کر یہ نہ کہہ دینا کہ تم نے اپنی اب تک کی زندگی میں اس قسم کے کاغذات تک نہیں دیکھے۔
کیونکہ مجھے یقین ہے تم نے نہیں دیکھے ہونگے۔بس کمال اطمینان وہ بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعتراف کرلینا کہ تم نے بقائمی ہوش و حواس یہ محبت کے پیغام قبول کیے ہیں۔ اور تم بھی میری محبت میں مبتلا ہو۔"
"لیٹرز (خطوط)؟ کونسے لیٹرز؟ کیسے لیٹرز ؟"
وہ شاک کی کیفیت میں تھی۔
خدارا! اب تم یہ نہ کہہ دینا کہ ابھی تک تم سمجھ نہیں سکی ہوکہ کل رات تمہارے کمرے میں گھس آنے والا چور جسے بینکوں میں ڈاکہ ڈالنے کی نادرونایاب ٹپس سے تم نواز رہی تھی وہ میں ہی تھا”۔
وہ تاسف زدہ لہجے میں گویا ہوا۔
: "یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میرے اللّٰہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
مارے صدمے کے وہ کچھ بول ہی نہیں سکی۔
چند لمحے خاموشی کی نذر ہوگئے۔
"I am sorry.
رات کے اس پہر تمہارے کمرے میں چوری چھپے گھس آنا میری مجبوری تھی۔مجھے اندازہ ہے تم ازحد ڈر گئی تھی۔ اول تو چور دوم مرد۔مردوں کے حوالے سے تمہاری فطری جھجھک سے میں واقف ہوں۔ تمہارا کمرہ مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔لہذا تمھاری صورت تو درکنار تمہارا ایک بال بھی دیکھ پانے سے قاصر تھا میں اسی لیے تم بے فکر ہو جاؤ تمہاری بے پردگی نہیں ہوئی۔
کل رات کے میرے برتاؤ پر میں شرمندہ ہوں ۔مجھے اندازہ تھا مجھے چور تصور کرکے یقیناً تم چیخیوگی غیر ارادتاً ہی میں وہ حرکت کر بیٹھا اگر میں ایسا نہ کرتا تو خان حویلی کے سارے مکین اگلے ہی لمحے کمرے میں موجود ہوتے۔مجھے اندازہ ہے وہ سب تمہارے لیے نہایت برا experience(تجربہ )رہا ہوگا”۔
وہ خجالت آمیز انداز میں بولا۔
اور وہ جو پچھلے دو گھنٹوں سے کمال اطمینان کے ساتھ اس شخص سے مصروفِ گفتگو تھی، اس کے لیے مزید وہاں پر بیٹھنا محال ہوگیا۔کل رات کا منظر اس کے ذہن کے دریچوں میں روشن ہوا۔شرم و گھبرا ہٹ کے مارے وہ پسینے میں بھیگ گئی۔ قبل اسکے وہ بھاگ کھڑی ہوتی دیوار کے اس پار سے آواز آئی تھی۔
"میری توقع کے عین مطابق بھاگ مت جانا یہاں سے، میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی”۔
وہ بلا کا قیافہ شناس تھا۔ شفق پر گویا گھڑوں پانی پڑگیا۔بادل نخواستہ اس نے خود کو بھاگ کھڑے ہونے سے روکا تھا۔
"تمہارے میرے منصوبے کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے ان خطوط کی کمرے میں موجودگی ضروری تھی۔یہ تو میری خوش نصیبی تھی کہ اتفاق سے رات کے اس پہر تم مجھے یہاں مل گئی اور مجھے تمہیں اس کھیل کا حصہ بننے پر رضامند کرنے کا موقع مل گیا۔اگر آج میری تم سے ملاقات نہ ہوتی اور مجھے یہ سارے انکشافات کرنے کا موقع نہ ملتا تو تم تمہاری رہائی کی اس تحریک سے یکسر ناواقف ہوتیں جسکا آغاز میں کر چکا ہوں۔ایسے میں یہ خطوط ہی میرے منصوبے کو آگے بڑھاتے۔عبداللہ کے عائد کردہ الزامات نے خان زادوں کے دلوں میں برسوں سے پنپ رہے تمہاری بغاوت سے منسلک خوف اندیشوں کو ہوا دی ہے۔ وہ معاملے کی تہہ تک جانے کے لئے بے تاب ہونگے۔مشکوک لڑکی کے سامان کی تلاشی سب سے پہلے لی جاتی ہے۔تاہم آج تمہارے سامان کی تلاشی اسی لئے نہیں لی گئی کیوں کہ تمہارے بھائیوں کو تم پر اعتماد ہے۔ متزلذل ہی سہی۔ انہیں اطمینان ہوگا کہ برسوں سے اپنی زندگی ایک قفس میں بسر کرتی آئی بے ضرر سی نظر آتی ان کی بہن اتنا بڑا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتی ۔ یقین ہے کہ کسی شخص کی محبت میں مبتلا ہوجانے کی غلطی کرنے والی خان خاندان کی ایک بیٹی کے انجام کے متعلق جانتے بوجھتے تم محبت جیسے ناقابل تلافی گناہ کے مرتکب ہونے کی جرات نہیں کرسکوں گی ۔
لیکن جلد یا بدیر تمہاری بھابھیاں خان زادوں کے متزلزل اعتماد کو اپنی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بالکل ہی ختم کردیتیں۔ نتیجتاً تمہارے سامان کی تلاشی لی جاتی اور تمہارے سامان سے تمہیں محبت کا مجرم ثابت کرنے والے کسی ثبوت کے دستیاب نہ ہونے پر خان زادے اس نتیجے پر پہنچتے کہ تم بے قصور ہو۔تمہارا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سارا بکھیڑا ان کے پرانے حریفوں نے ان کی تذلیل کرنے کی غرض سے کھڑا کیا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ پھر وہ شد و مد سے عبداللّٰہ جیسے کسی شخص کے ساتھ تمہیں رخصت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے۔
حسب توفیق تم خاموشی کے ساتھ کسی بھی ایرے غیرے کے سنگ رخصت ہوجاتی۔نکاح پڑھاکر تمہیں خان حویلی سے رخصت کرنے کے لئے انہیں آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت درکار نہ ہوتا،جبکہ جماعت اپنا فیصلہ سنانے میں وقت لیتی ہے ۔اپنے منصوبے کو کامیاب بنان کے لئے مجھے وقت چاہیے تھا کنفرمیشن چاہیے تھی کہ خان زادے چوری چھپے تمہیں کسی کے ساتھ رخصت نہ کر دیں۔ اسی لیے میں نے تمہارے کمرے میں ان خطوط کو رکھنے کا فیصلہ لیا۔یہ لیٹرز ہی فوری کمک کی طور پر میرے منصوبے کو فیل ہونے سے بچاتے۔تمہارے سامان سے لیٹرز کے برآمد ہو جانے سے انکا تم پر شک یقین میں بدل جاتا۔تم لاکھ انکار کرتی،قسمیں کھاتی،خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوششیں کرتی لیکن خان زادے تمہارا یقین نہ کرتے۔انھیں یقین ہوجاتا کہ تم مارے خوف کے غلط بیانی سے کام لے رہی ہو جبکہ حقیقتاً تم میرے ساتھ انوالو ہو۔کسی اور سے شادی کی صورت میں تمہارا اپنے عاشق کے ساتھ فرار ہوجانے کا خدشہ انھیں تمہیں کسی اور کے ساتھ رخصت کرنے سے باز رکھتا نتیجتاً وہ خاموشی اختیار کرلیتے۔جماعت کا فیصلہ آجاتا اور میرا منصوبہ کامیاب ہوجاتا”۔
وہ پورے انہماک کے ساتھ اس کی طرف متوجہ تھی تبھی فضاء میں فجر کی اذان کی صدائیں بلند ہوئیں۔
"باتوں میں وقت گزر جانے کا احساس ہی نہیں ہوا۔خیر امید کرتا ہوں تم میرا ساتھ دو گی۔حقِ خودارادیت کےلیے لڑوگی۔اس جنگ کو فتح کرنے کا عزم کروگی۔اپنے لئے۔۔۔۔۔
۔۔۔ حریم کے لئے
۔۔۔میں چلتا ہوں”۔
کپڑے جھاڑتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا چھت کی دہلیز عبور کرگیا۔
وہ ساکت بیٹھی اسکے قدموں کی چاپ کو دور جاتا سنتی رہی۔وہ چلا گیا۔سحر ٹوٹ گیا۔ اس کے چلے جانے سے ایک دفعہ پھر افسردگی اور یاسیت کے جذبات اس کے دل پر حاوی ہونے لگے۔ چند لمحے قبل دیوار کے اس پار جو شخص موجود تھا، اس شخص کے لیے اس کے دل میں ناقابل فہم جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔وہ لمحہ جذبات کی تبدیلی کا لمحہ تھا۔دل کے پلٹنے کا لمحہ تھا۔
فی الوقت شفق کے دل کی سب سے اونچی مسند پر وہ شخص براجمان تھا جسے اس نے دیکھا تک نہ تھا۔ساری عمر ایک قفس میں گذارنے والی رپنزل کو اس کی زندگی میں آنے والے پہلے مرد سے محبت ہوہی جاتی ہے۔اس معاملے میں وہ بےبس تھی۔
اپنے دل میں امڈ رہے جذبات کو معنی پہنانے سے وہ قاصر تھی۔وہ محبت کے 'م' سے تک ناواقف تھی۔اس نے محبت کے متعلق سنا نہیں تھا ، محبت کے متعلق پڑھا نہیں تھا۔
اسے محبت ہوگئی تھی لیکن وہ اس انقلاب سے انجان تھی۔
وہ شخص ساحر تھا۔
اپنی باتوں کے سحر میں جکڑلینے والا۔
اس شخص سے محبت ہوجانے کےلیے اس کی باتیں ہی کافی ہوتیں مقابل کو اس کی صورت دیکھنے کا خیال ہی نہیں گزرتا۔
وہ نمازوں میں دعاؤں کے وظیفوں جیسا
میں رعایا کی طرح ہوں وہ خلیفوں جیسا
******
جمعہ کے مبارک دن کا آغاز ہوچکا تھا۔آفندی حویلی کے صحن میں اتر آئیں چھوٹی چھوٹی چڑیا اپنی زبان میں خدا کی حمد وثناء میں مصروف تھیں۔فجر کی نماز سے فارغ ہوکر آفندی فیمیلی صبح کی چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔حریم کی طبیعت قدرے بحال تھی لہٰذا وہ بھی صحن کی ایک کرسی پر براجمان جائے گی چسکیاں لے رہی تھی۔
فضا پرسکوت تھی۔دفعتاً صحن کی دیوار کے پار سے خان عرفان کی دہاڑ دیوار کو چیرتی ہوئی آفندی خاندان کی سماعت میں اتری۔
شفق۔۔۔۔۔۔۔۔شفق۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں ہے وہ ؟
ےے بلاؤ اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسی وقت اسی صحن میں اسے زندہ دفن کر اس ذلت و بدنامی کے قصے کو تمام کردیتاہوں”۔
چائے کا کپ حریم کی گرفت سے آزاد ہو کر زمین بوس ہوا تھا۔وہ سینے پر ہاتھ رکھے متوحش سی اٹھ کھڑی ہوئی۔
میرے اللّٰہ۔۔۔۔۔۔۔”
وہ لرزتی ہوئی آواز میں بس اتنا ہی کہہ پائی۔خوف کے مارے اس کا حلق خشک ہو گیا تھا ۔حیدر کے لیے یہ آواز گویا صور پھونکنے کی آواز تھی اس کے بعد قیامت متوقع تھی۔
"حریم کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔تم حوصلہ رکھو ۔۔۔۔۔۔ اندر چلو۔۔۔۔۔۔
اس خوف کے زیر اثر کہ ان کی بیٹی جو ابھی ابھی بستر سے اٹھی تھی خان حویلی کی سمت دوڑ نا لگا دیں آمنہ بیگم نے حریم کو بازو سے پکڑ کر اندر لے جانے کی سعی کی۔
"خان زادوں کی بہن کا نام کسی" حیدر" کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ محلے والوں کو اصل قصہ کی خبر ہوگئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ موصوف کے غیظ و غضب میں ابال اٹھا ہے۔جلد یا بدیر اس حقیقت کا انکشاف تو ہونا ہی تھا اب ایسی باتیں کہاں چھپی رہتی ہیں”۔
افتخار صاحب نے متاسفانہ لہجے میں صحن کے اس پار ہورہے ہنگامہ کی وجہ بیان کی۔
"حریم کے ابّا ۔۔۔۔۔۔۔ کہیں وہ حیدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حیدر” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا حیدر تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ بیگم کی لرزتی ہوئی آواز کو سن افتخار صاحب نے سرعت سے سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے حیدر کی سمت دیکھا ان کا 'حیدر ‘چھت پر جا رہا تھا۔آمنہ بیگم پھٹی پھٹی نگاہوں سے یہ منظر دیکھتی رہیں۔انہوں نے اپنی بیٹی کو روک لیا تھا لیکن وہ اسے روکنا فراموش کربیٹھیں جسے روکنا سب سے زیادہ اہم تھا۔
وہ حریم آفندی کے 'بھائی' کو روکنا بھول گئیں۔
آفندی صاحب تیر کی رفتارسے حیدر کے پیچھے آئےتھے۔آمنہ بیگم نے ان تقلید کی۔حریم صحن کے وسط میں بے حس و حرکت کھڑی رہ گئی۔اس کا ذہن ماؤف ہورہا تھا۔پاؤں سن پڑ گئے تھے۔جوں ہی وہ چھت پر پہنچے سامنے کا منظر انھیں ساکت کرگیا۔ان کی نگاہوں کے عین مقابل انکے فرزند نے ایک ہی جست میں درمیانی دیوار عبور کر لی تھی ۔ یہ منظر دیکھ آمنہ بیگم سینے پر ہاتھ رکھتی فرش پر بیٹھتی چلی گئیں۔شاک کی کیفیت میں افتخار صاحب اپنی جگہ جم سےگئے۔
وہ تقریباً دوڑتا ہوا بالائی منزل پر پہنچا۔بالائی منزل سے مرکزی ہال کا منظر واضح دکھائ دیتا تھا۔سنہرے بالوں والی قدرے نازک سی لڑکی اپنے پورے قد سے لرزتی ہوئی کچھ کہہ رہی تھی۔ یہاں سے حیدر کو اسکا نیم رخ دکھائی دے رہا تھا۔اس کے اطراف دائرے کی صورت میں خان خاندان کا ہر فرد موجود تھا جن کے قدموں میں چند رنگین کاغذات بکھرے تھے۔ چند قدموں کی دوری پر سنہری رنگ کا چھوٹا سا صندوق اوندھا پڑا تھا۔جس کے نزدیک سنہری اور چاندی کے رنگ کی میٹل کی چوڑیاں اور ایک میک اپ کیس پڑا تھا۔میک اپ کے سارے لوازمات کیس سے باہر نکل کر فرش پر بکھرے تھے۔
وہ ان چوڑیوں کو پہچانتا تھا۔حریم میٹل کی چوڑیاں پہنتی تھی، اسے کانچ کی چوڑیاں پسند نہیں تھیں۔وہ اس میک اپ کیس کو پہچانتا تھا ایک کالج ٹور کے دوران اس نے یہ میک اپ باکس کوریا سے حریم کے لیےخریدا تھا۔
کچھ دوری پر گفٹ پیپر کے ٹکڑے پڑے دکھائی دیتے تھے۔ اسے حیرانی اس بات پر نہیں ہورہی تھی کہ حریم نے اپنی چیزیں شفق کو دے دی تھیں ۔عجیب بات تو یہ تھی کہ حریم نے شفق کو وہ چیزیں تحائف کی صورت میں دی تھی جو عام طور پر ہر لڑکی کے پاس موجود ہوتی ہیں۔اس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ معمولی سے چیزیں شفق کی دسترس سے باہر ہونگی۔ اگر شفق کو یہ زیبائش کی چیزیں دستیاب ہوتیں تو حریم اپنی خاص دوست کو یہ عام سی چیزیں تحائف کی صورت میں نہ دیتی۔
"اس رات شفق کے کمرے میں مجھے ان میں سے کوئی بھی چیز دکھائی نہیں دی تھی ۔ اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شفق نے یہ چیزیں چھپا کر رکھی تھی کیوں کہ شاید اسے اس حویلی میں ان بنیادی چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت نہیں تھی۔”
کوئی بھائی اپنی بہن پر زندگی کا دائرہ اس قدر تنگ کیسے کرسکتا ہے؟ اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو کیسے چھین سکتا ہے” ؟
سیکنڈ سے بھی کم وقفہ لگا تھا اسے اس منظر کے پیچھے چھپی کہانی کو سمجھنے میں۔ آج سے اسے احساس ہوا تھا حریم کا دل شفق کے لیے اس قدر کیوں تڑپتا ہے۔
شفق خان حویلی میں گزشتہ اٹھارہ سالوں سے کیسی زندگی گزارتی اس کا نمونہ اسکے سامنے تھا۔دکھ اور طیش کے جذبات نے ایکدم سے اس کے دل پر یلغار کی۔فشار خون ایکدم سے بلند ہوا تھا۔خان عرفان غیظ و غضب کی تصویر بنے شفق کی سمت بڑھے تھے۔ان کا انداز جارہانہ تھا۔حیدر کے پاس وقت کم تھا۔اس نے نگاہوں سے بالائی منزل اور مرکزی ہال کے فرش کے درمیان کی اونچائی کو جانچا بسمہ اللّٰہ پڑھی اور کود پڑا۔