" آج پھر تم عبداللہ بھائی کی تصویر لانا بھول گئی۔گزشتہ ایک ہفتے سے ہر دن باقاعدگی کے ساتھ تم تصویر لانا بھول جاتی ہو۔اب تو مجھے یقین ہو چلا ہے کہ تم اپنے منگیتر کی تصویر دکھانا ہی نہیں چاہتی مجھے، ورنہ اس درجے کی بھلکڑ تو تم کبھی نہ تھی”۔
دو چھتوں کو باہم جوڑتی درمیانی دیوار پر پیر لٹکائے بیٹھی حریم سخت کبیدہ خاطر نظر آرہی تھی۔
"وہ دراصل بات یہ ہے حریم ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔ میرے
منگیتر۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تمہیں پسند نہیں آئیں گے
۔۔۔۔۔۔ دراصل ہماری عمروں میں خاصہ تفاوت ہےاور ان کی گھنی لمبی داڑھی بھی ہے۔چونکہ میں بخوبی واقف ہو کہ گھنی لمبی داڑھی کے مالک سنجیدہ مزاج کے لڑکے تمہیں قطعاً پسند نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں تمہیں انکی تصویردکھانے سے گریز برت رہی تھی"۔
درمیانی دیوار کی دائیں طرف پڑی کرسی پر براجمان شفق نے جھجکتے ہوئے اصل مدعا اپنی دوست کے گوش گزار کیا۔
پیلی دھوپ نارنجی رنگ میں بدل چکی تھی۔سورج کی سنہری کرنیں لکڑی کی کرسی پر براجمان لڑکی کو سنہری گڑیا بنارہی تھی۔
شفق کی بات پر حریم نے ایک ٹھنڈا سانس فضا کے سپرد کیا۔چند لمحے سیاہ جھیل سی آنکھیں غزالی بھوری آنکھوں میں دیکھتی رہیں۔اتنا تو وہ بخوبی سمجھ چکی تھی کہ اس کی دوست کی شخصیت میں اچانک در آنے والی اس تبدیلی کے پسِ منظر میں کوئی ٹھوس وجہ تو یقیناً ہوگی۔
شفق اس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح تھی اور آج تک شفق نے اپنی زندگی کا کوئی بھی باب اس سے مخفی نہیں رکھا تھا۔
"اف! شفق ذرا سی بات کو لے کر تم اس قدر کانشییس ہو رہی تھی اور پچھلے ایک ہفتے سے مجھ سے جھوٹ بولے جا رہی تھی۔میں اتنی بھی نادان نہیں ہو شفق۔مانا کہ مجھے لمبی داڑھی رکھنے والے میچیور اور سنجیدہ قسم کےمرد پسند نہیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں اپنی مرضی تم پر تھوپنے کا حق رکھتی ہوں۔ تم بے فکر ہو جاؤں میں عبداللہ میاں کے نین و نقش میں کوئی عیب نہیں نکالونگی نہ ہی ان کی عمر پر اعتراض جتاؤنگی۔ ویسے بھی 5-4 سال کافرق اتنا زیادہ نہیں ہے"۔
وہ مسکراتی ہوئی فرینج فرائس کو منہ میں رکھتی ہوئی بولی۔
"اچھا ! اب میں چلتی ہوں۔
فرینچ فرائس فرائی کرتے ہوئے منجھلی بھابھی نے مجھے دیکھ لیا تھا۔خاصی مشکوک نگاہوں سے گھوررہی تھیں ۔میں نے بھی یوں ظاہر کیا جیسے فرائس کا پورا باؤل میں نے صرف اور صرف اپنے لیے لبالب بھرا ہے"۔
درمیانی دیوار کی اوپری سطح پر دھری بہیشتی زیور کتاب کو ہاتھ میں اٹھائے وہ عجلت بھرے انداز میں جانے کے لیے مڑی”۔
اللہ حافظ ، باؤل کل شام کو لوٹادو نگی"۔
حریم سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی نیچے چلی آئی۔افتخار صاحب اور آمنہ بیگم لاؤنج میں صوفے پر براجمان شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
"کتنی دفعہ منع کیا ہے تمہیں شام کے وقت چھت پر نہ جایا کرو ۔خدانخواستہ کسی دن تمہاری دوست کے بھائیوں کو خبر ہو گئی کہ ان کی اکلوتی ہمشیرہ نے آفندی حویلی کی بیٹی سے دوستی گانٹھ رکھی ہے تو اس غریب کی جان تو آفت میں آہی جائے گی وہ خان زادے ہمارا جینا بھی مشکل کر دیں گے"۔
ان کے عین مقابل صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھتی حریم کو تادیبی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے حسبِ عادت آمنہ بیگم نے ٹوکا۔
"کچھ نہیں ہوگا مام ۔ آپ بھی نا خوامخواہ کل کی فکر میں ہلکان ہوئی جاتی ہیں۔کل کی فکر کرنے والے آج کا لطف اٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جب جب آپ یوں خوف و اندیشوں سے بھری باتیں کرتی ہیں، کسی لحاظ سے آپ حریم اور حیدر آفندی کی والدہ نہیں لگتیں۔
Be brave Mom .
آپ بے فکر ہو جائیں شفق کو کھلی آب و ہوا اور پرسکون ماحول میں مطالعہ کرنا اچھا لگتا ہےاور اس حقیقت سے خان حویلی کے مکین بخوبی واقف ہیں۔گزشتہ چار سالوں سے کسی کو خبر نہیں ہوئی تو اب کیسے ہو جائے گی ؟یوں بھی اس حویلی میں کسی کے پاس ایک منٹ نہیں ہے شفق کو دینے کے لیے کجا اس کی جاسوسی کرنا impossible."
وہ شان بے نیازی سے فرینچ فرائس چباتی ہوئی گویا ہوئی. افتخار صاحب مسکرا دیئے۔ تاہم آمنہ بیگم سر ہلا کر رہ گئیں۔
پرانی دلّی کے چاندنی چوک میں دو حویلیاں ایسی تھیں جن کا وجود جتنا قدیم تھا اتنی ہی قدیم اور پختہ ان حویلیوں میں بسنے والے مکینوں کی دشمنی تھی۔یہ رقابت گزشتہ تین نسلوں سے چلی آ رہی تھی۔ اس رقابت کا آغاز دو ہمسایوں کی محبت کے نتیجے ہوا تھا۔ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا دونوں فریقین کو اندازہ نہیں تھا کہ برادری کا فرق دونوں حویلیوں کے درمیان برسوں سے رائج بھائی چارے اور محبت پر حاوی ہو جائے گا۔خان حویلی کے سربراہ کو کسی صورت منظور نہ تھا کہ وہ دوسری برادری کے لڑکے کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ دے ۔پھر چاہے وہ ان کے عزیز ترین دوست کا فرزند ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی محبت کو اندوہناک انجام کی طرف بڑھتا دیکھ دونوں پریمی گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے اور دور دیس میں جا بسے۔ یہ کہانی ابھی اختتام کو نہیں پہنچی تھی۔ ذلت و بدنامی کے بوجھ تلے دبے نام و نہاد خان زادوں نے سالوں کی محنت اور کوششوں کے بعد اپنی مفرور بہن اور اس کے شوہر کو ڈھونڈ نکالا اور غیرت کے نام پر دو بے گناہ و معصوم افراد کو ناحق قتل کر دیا۔ اس روز سے آج تک ان دونوں خاندان کی دشمنی مثالی تھی۔ محلے کے ہر بچے کو اس رقابت کے پیچھے چھپی بھیانک تاریخ کا علم تھا۔
*******
وہ پھسکڑامارے بستر پر بیٹھی تھی۔عین مقابل لیپ ٹاپ دھرا تھا ۔دائیں طرف فرینچ فرائس کاباؤل رکھا تھا گاہے بگاہے وہ فرینچ فرائس اٹھا کر منہ میں ڈالتی جارہی تھی۔
"اسلام وعلیکم بھائی ، آپ پورے دس منٹ لیٹ ہیں۔کہاں مصروف تھے اب تک"؟
وہ مصنوعی خفگی سے گویا ہوئی۔
"کچھ خاص نہیں اسائنمنٹ کی تیاری رہ گئی تھی وہی مکمل کر رہا تھا ۔تم سناؤ ایگزامز کی تیاری کیسی جا رہی ہے"؟
وہ کافی کا سپ لیتا ہوں بولا۔ جسم تھکن سے چور تھا تاہم اپنی عزیز ترین بہن کا چہرہ دیکھ اس کی ساری تھکن ہوا میں تحلیل ہو گئی۔
"آپکو اندازہ بھی نہیں ہے بھائی میں کتنی بے صبری سے آپ کی کال کا انتظار کر رہی تھی۔ایگزامز کی باتیں کسی اور دن کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الوقت تو مجھے ایک دھماکہ خیز خبر آپ کو سنانی ہے۔شفق کی منگنی ہو رہی ہے۔اس ہفتے کے آخر میں خیر منگنی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔اس کا رشتہ پکا ہو رہا ہے خان خاندان میں منگنی جیسی رسومات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ارادہ تو میرا یہ تھا کہ عبداللہ بھائی کی تصویر کے ساتھ یہ سنسنی خیز خبر آپ کو سناؤں گی مگر احمق شفق تصویر ساتھ لانا بھول گئی"۔
وہ پرجوش انداز میں بولی۔
"تمہاری دوست کی عمر کیا ہے؟”
غیر متوقع سوال پر وہ چونکی۔
“ اٹھارہ سال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
ایک لفظی جواب دیا۔
اپنی بہن کا جواب سن کر وہ اچھل پڑا۔
“Unbelievable. “
یہ کیاکہہ رہی ہو تم؟آج کے اس دور میں 18 کی عمر میں کونسی لڑکیاں شادی کرتی ہیں۔آئے ایم شاکڈ
(I am shocked).
کیا تمہیں ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی۔ تمہاری عزیز ترین دوست کی شادی ہورہی ہے وہ محض 18 سال کی ہے۔میری توقع کے عین برعکس تم خاصی مطمئن نظر آرہی ہو۔"
"بھائی آپ تو واقف ہیں کے خان خاندان کی روایات ویلیوز ، زندگی جینے کے طریقے آج کے اس دورسے میل نہیں کھاتے۔اس خاندان میں لڑکیوں کی شادیاں کم عمر میں ہی کر دی جاتی ہیں۔شفق تو پھر بھی اٹھارہ سال کی ہے، اس کی تایازاد تو محض 15 سال کی عمر میں رخصت کر دی گئی تھی۔ہم خان خاندان کے فرسودہ ذہنوں کو ان کے طور طریقوں کو نہیں بدل سکتے۔شفق خوش ہے میں اس کی خوشی میں خوش ہونا چاہتی ہوں۔یوں بھی فی الوقت شفق کی شادی اس کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔وہ بہت معصوم اور پیاری لڑکی ہے ۔میری دعا ہے کہ اسے بہت محبت کرنے والا پرواہ کرنے والا شوہر نصیب ہو"۔
اپنی دوست کی جدائی کے تصور سے حریم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
"اچھا چلو یہ بتاؤ تمہاری فزکس کی تیاری کہاں تک پہنچی؟”
اس نے موضوع بدلنے میں ہی عافیت جانی وہ واقف تھا حریم اپنی واحد دوست کے معاملے میں خاصی حساس ہے۔
حریم کی شفق سے ملاقات چار سال قبل ہوئی تھی۔وہ چھت پر کپڑے اتار رہی تھی جب شفق روتی ہوئی اپنی چھت پر آئی تھی۔اپنی بھابھی کی کسی بات پر جو اس کی دل شکنی کا باعث بنی تھی،وہ رنج و الم میں ڈوبی باآواز بلند روئے جارہی تھیں۔روتی ہوئی سنہری گڑیا جیسی وہ لڑکی حریم آفندی کو پہلی ہی نظر میں بھا گئی۔اس شام غیر ارادتاً حریم کے قدم درمیانی دیوار کی جانب بڑھے تھے۔اس دیوار کی طرف جس کے نزدیک جانا ان دونوں حویلیوں کے مکینوں پر حرام تھا۔گزشتہ تین نسلوں میں دونوں خاندانوں کے کسی بھی فرد نے اس دیوار کو عبور نہیں کیا تھا۔لیکن اس شام حریم آفندی نے خان شفق کی خاطر اس دیوار کو عبور کر لیا۔اس دن سے آج تک ان دونوں کی دوستی برقرار تھی۔حریم شفق سے تین سال بڑی تھی۔تاہم عمروں کا یہ تفاوت ان کی دوستی میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا تھا۔کچھ روز تک حریم نے بھی شفق کی دیکھا دیکھی اپنی دوستی گھر والوں سے راز رکھی لیکن زیادہ دنوں تک وہ اس راز کو راز نہ رکھ سکی۔کیوں کہ اس کا ایک بھائی تھا ‘حیدر آفندی'۔حریم آفندی کے لیے حیدر آفندی سے کوئی بات راز رکھناناممکنات میں سے تھا۔
وہ دونوں جڑواں تھے حیدر حریم سے 15منٹ بڑا تھا۔دونوں دو قالب ایک جان کے لقب سے پورے خاندان میں مشہور تھے۔ ان کی محبت مثالی تھی۔ دن کے چوبیسوں گھنٹے وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پائے جاتے۔ ساتھ اسکول جانا، ساتھ شرارتیں کرنا ، ساتھ سزا بھگتنا ایسا کوئی کام نہ تھا جو وہ دونوں علیحدہ رہ کر انجام دیتے ہوں۔ گزشتہ بیس برسوں میں پہلی دفعہ ایسا موقع آیا تھا جب وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے۔ اس کی وجہ تھی افتخار آفندی کے دیرینہ خواہش کہ ان کا بیٹا بیرون ملک کی بہترین یونیورسٹی میں بزنس کی تعلیم حاصل کرے۔والد کی دیرینہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھائی بہن نے یہ بیڑہ اٹھانے کا فیصلہ لے لیا۔ سارا محلہ متحیر تھا کے یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ کیونکر رہ پائیں گے۔حیدر مرد تھا۔ اس سے اپنے جذبات پر قابو رکھنا آتا تھا ۔مسئلہ حریم کے ساتھ تھا۔اول تو وہ عورت تھی۔ دوم ازحد جذباتی۔ تاہم تمام محلہ والوں کے توقع کے عین برعکس حریم نے یہ معرکہ بھی سر کرلیا تھا اور اس مشکل وقت میں سوشل میڈیا نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا ۔یہ اور بات تھی کے ایک ہفتے بخار میں پھنکنے کہ بعد لیپ ٹاپ کی اسکرین کے اس پار اپنے عزیز ترین بھائی کا متفکر چہرہ دیکھ اس کی طبیعت بحال ہوئی تھی۔
جس دن حیدر پر شفق اور حریم کی ممنوعہ دوستی کا عقدہ کھلا اس نے بلا تاخیر اپنے والدین کو حالات کی سنگینی سے با خبر کیا۔حقیقت سے آگاہی کہ باوجود حریم کے والدین کسی بھی ردِ عمل کا اظہار کرنے سے قاصر تھے۔وجہ تھی ان کی اکلوتی بیٹی کی حساس طبیعت۔ وہ خود سے منسلک کسی بھی شئے، کسی بھی رشتے سے دستبردار ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھی۔شفق سے ملاقات سے قبل حریم کا کوئی دوست نہیں رہا تھا۔حیدر ہی اس کا دوست تھا۔ لہذا کسی کو دوست بنانےکا خیال ہی اس کے من میں نہیں آیا تھا۔ شفق واحد لڑکی تھی جس کی طرف حریم نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ حریم کو اس کی واحد دوست سے الگ کرنے کا حوصلہ نہیں تھا ان میں۔لہٰذا انہوں نے صورتحال کو اللہ کی سپرد کردیا اس دن کے بعد سے راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔
******
نو بجنے میں آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے اور تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہو کالج ۔ جانے کے لئے ۔تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟”
صوفہ میں دھنسی وہ پورے انہماک کے ساتھ مارننگ شو کی طرف متوجہ تھی۔ اسے گردو پیش سے بے نیاز دیکھ آمنہ بیگم مستفسر ہوئیں۔
"میں آج کالج نہیں جارہی مام ۔ گھبرائیں نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ وہ ایکچولی آج عبداللہ میاں خان حویلی تشریف لا رہے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہیں کہ میری عزیز ترین دوست کے ہونے والے شوہر کو میں نہ دیکھوں۔اس سنہری موقع کو میں ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی۔ ویسے بھی ہمارے ہمسائے کونسا اس خوشی کے موقع پر ہمیں شرکت کی دعوت دینے والے ہیں۔ چنانچہ اس صورتحال میں مجھے اپنی دوست کے ممکنہ شوہر کے دیدار کے لیے تاک جھانک کے راستے کا ہی انتخاب کرنا ہوگا"۔
اپنی والدہ کے چہرے پر نگاہیں جمائے وہ کمال بے نیازی سے گویا ہوئی۔
"خبردار جو تم نے صحن میں اچھل کود کی کوشش کی۔ کرسیوں کا مینار بنا کر ہمسائے کے گھر میں جھانکنا کہاں کی شرافت ہے۔ خدانخواستہ ان خان زادوں کی نظر پڑ گئی تم پر تو قیامت آجائے گی"۔
آمنہ بیگم نے تادیبی نظروں سے دیکھتے ہوئے حریم کو خوف دلانے کی سعی کی۔
"کچھ نہیں ہوگا مام،آپ بھی نا ذرا ذرا سی بات پر قیامت کی مثال دینے لگ جاتی ہیں گویا شفق کے بھائی خان زادے نہیں یاجوج ماجوج قوم کے باشندے ہوں ۔جن کے وارد ہوتے ہی ہمیں غاروں میں چھپ جانا چاہیے۔گھبرائیں نہیں آپ کی دختر نیک اختر اس تاک جھانک میں مہارت رکھتی ہے"۔
وہ اپنی ازلی بے نیازی سے کہتی ہوئی مارننگ شو کی طرف متوجہ ہوگئی۔آمنہ بیگم سرد آہ بھر کر رہ گئیں۔ جانتی تھیں کہ وہ روکنے سے رکنے والی نہیں تھی باپ اور بھائی کے بے جا لاڈ پیار نے اسے خاصا ضدی بنا دیا تھا۔
جوں ہی گھڑی کی سوئیوں نے چار بجنے کا اعلان کیا حریم تین کرسیوں کے مینار پر چڑھ کر خان حویلی کے صحن میں جھانکنا شروع ہوگئی۔
چند لمحوں کے گزر جانے کے بعد دوادھیڑ عمر شخصیتوں کے ہمراہ تیسری شخصیت صحن میں داخل ہوئی تھی۔
سانولی رنگت،درمیانہ قد، گھنی گھنگھرالی داڑھی۔ سفید کرتا پاجامہ میں ملبوس پکّی عمر کے عبداللّٰہ کو دیکھ وہ بے یقینی سے ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔ نتیجتاً توازن بگڑا مینار کی صورت میں اوپر تلے جمائی ہوئی کرسیاں زمین بوس ہوئی تھیں۔بے ہنگم شور کوسن آمنہ بیگم حواس باختہ سی صحن میں آئیں ۔ لکڑی کی کرسیاں اوندھی پڑی تھی جبکہ حریم اکڑوں بیٹھی دکھائی دیتی تھی۔
"حریم تم ٹھیک تو ہو ، گر کیسے گئی؟ چوٹ تو نہیں آئی تمہیں؟”
"میرے خدا!"
اس کے چہرے سے ہوتی ہوئی زخم کی تلاش میں سرگرداں آمنہ بیگم کی نظر اس کی ہتھیلیوں پر آرکی۔دونوں ہتھیلیاں بے طرح چھل گئی تھیں۔
“کیا ہواہے حریم؟”
وہ متفکر لہجے میں گویا ہوئیں۔ فکر مند وہ اس کی چوٹ کولے کر نہیں حریم کے برتاؤ کو لے کر ہوئی تھیں۔ ذرا سی چوٹ پر سارے گھر کو سر پر اٹھا لینے والی ان کی بیٹی بری طرح زخمی اپنی ہتھیلیوں سے بیگانہ بے حس و حرکت کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
"ما م ، شفق کا ہونے والا شوہر لڑکا نہیں ہے۔ وہ تو ایک پکی عمر کامرد ہے۔ محض اٹھارہ سالہ سنہری گڑیا جیسی میری شفق کی شادی وہ خان زادے اس شخص کے ساتھ کیسے کر سکتے ہیں؟باکردار ، با حیا، صوم و صلوٰۃ کی پابند ، سات پردوں میں اپنے وجود کو چھپا کر رکھنے والی حسین ترین شفق کے لئے انہوں نے اس شخص کا انتخاب کیا ہے؟
کیا انہیں کم عمر خوبرو نوجوان دستیاب نہیں ہوا پورے شہر میں؟ کیا سبھی شریف النفس اعلٰی کردار اور سنتی داڑھی کے مالک مرد اتنے ہی کم صورت اور اسی عمر کے ہوتے ہیں۔"
وہ عجیب سے انداز میں بولی۔ اس کی بات پر آمنہ بیگم کی رنگت متغیر ہوئی۔فکر کی جگہ غصے نے لے لی۔ نرمی کے ساتھ تھامی ہوئی حریم کی ہتھیلی پر بے اختیار ان کی گرفت مضبوط ہوئی تھی۔
"حریم اٹھو ، اندر چلو۔ بہت ہوچکی تمہاری من مانی۔اب اور نہیں۔ وہ لوگ اپنی بہن کے لیے جیسا مرضی چاہے لڑکا پسند کریں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔اب سے اس گھر میں شفق کے منگیتر کے تعلق سے کوئی بات نہیں ہوگی ،سمجھ آئی تمہیں”۔
درشت لہجے میں کہتے ہوئے آمنہ بیگم نے اسے زمین سے اٹھانا چاہا ۔ کھڑی ہوکر حریم نے اپنا بازو ایک جھٹکے سے اپنی والدہ کی گرفت سے آزاد کرایا اور تقریبا بھاگتی ہوئی وہ صحن کو عبورکر گئی۔ داخلی دروازے کی دہلیز کو عبور کرنے سے قبل اس نے مڑکر آمنہ بیگم کی طرف دیکھا ۔ایک آنسو پلکوں کی ساحل سے ٹوٹ کر زمین کی وسعتوں میں گم ہو گیا۔ بس ایک نظر ان پر ڈال کر وہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔
کیا نہیں تھا اس ایک نظر میں شکوہ ، بے بسی ،اذیت ، رنج ،غصّہ ۔آمنہ بیگم کا دل گویا کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا۔
شام کے پانچ بج رہے۔ تھے۔سورج کی کرنوں کی گرمائش قریباالختم تھی۔ پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کی تیاری میں تھے۔
وہ پچھلے ایک گھنٹے سے درمیانی دیوار سے لگی حریم کی منتظر تھی۔مزید آدھا گھنٹہ انتظار کر لینے کے بعد جب اس کی آمد کے آثار دکھائی نہ دیئے تو وہ افسردہ دل کے ساتھ نیچےچلی گئی ۔
"حیدر کے ابّا آپ ابھی اسی وقت سارے کام چھوڑ کر گھر پہنچیں۔ رات کے نو بجنے والے ہیں پچھلے پانچ گھنٹوں سے حریم اپنے کمرے میں بند ہے ۔ میں دروازہ پیٹ پیٹ کر ہار گئی ہو ں مگر وہ دروازہ نہیں کھول رہی۔میرا دل بیٹھا جا رہا ہے"۔
آنسوؤں سے لبالب بھری آنکھوں کے ساتھ آمنہ بیگم فون کانوں سے لگائے آفندی صاحب سے مخاطب تھیں۔
"کیوں نہیں کھول رہی ہے حریم دروازہ ؟
اس سے قبل تو کبھی حریم نے اس قدر شدید ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا ؟
کیا ہوا ہے ؟ پوری بات بتائیں مجھے۔"
اسپیکر سے آفندی صاحب کی متفکر آواز ابھری تھی۔
“ شفق کے لیے پریشان ہے شاید"۔
آمنہ بیگم گلوگیر لہجے میں گویا ہوئیں۔
"آپ فوراً حیدر سے رابطہ کریں فی الوقت وہی اسے سنبھال سکتا ہے۔میں پہنچتا ہوں گھر"۔
رابطہ منقطع ہوتے ہی آمنہ بیگم نے حیدر کا نمبر ملایا تھا۔
وہ بستر پر آڑھی ترچھی لیٹی آنسو بہانے میں مصروف تھی معاً اس کے اسمارٹ فون کی اسکرین روشن ہوئی۔حیدر کی ویڈیو کال تھی۔
بادل نخواستہ حریم نے کال ریسیو کی ۔
"کیا ہوا ہے حریم ؟ ایک بات ذہن نشین کرلو ، چاہے تم کتنی ہی افسردہ یا پریشان ہو تمہیں اپنے کمرے میں بند ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ تمہیں اندازہ بھی ہے مام ، ڈیڈ کس قدر فکر مند ہیں تمھارےلیے۔ چلواٹھو، شاباش،سب سے پہلے ایک گلاس پانی پیو اور پھر دروازہ کھولو”۔
اپنے لہجے میں بشاشت سموئے ہوئے وہ تحکم بھرے انداز میں گویا ہوا۔
"حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس نےپانی پیا پھر دروازہ کھول کر اپنی سابقہ نشست پر آ بیٹھی۔ دروازہ کھلتے ہی آمنہ بیگم تیر کی تیزی سے کمرے کے اندر داخل ہوئی تھیں۔متورم چہرہ ، سرخ آنکھیں لیے ان کی بیٹی فون کی طرف متوجہ تھی۔ اپنی بیٹی کی حالت زار دیکھ ان کی پریشانی حد سے سوا ہو گئی۔
"مجھے اپنا آپ ازحد ہیلپ لیس محسوس ہو رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں بھائی؟ وہ لوگ شفق کی شادی پکی عمر کے عام سی صورت والے کسی آدمی سے کروا رہے ہیں۔ یہ ظلم میری برداشت سے باہر ہے۔ شہزادیوں سی میری شفق کی شادی اس شخص کے ساتھ کیسے ہو سکتی ہے۔
اپنی زندگی کے اٹھارہ سال اپنے بھائی اور بھابیوں کے رحم وکرم پر خاموشی کے ساتھ جیتی آئی ہے شفق ۔ ایک ہی خواب دیکھا تھا اس نے شہزادوں جیسی شان والا کوئی لڑکا آئے گا اور اسے اس قفس سے رہائی دلائے گا ۔اس کے واحد خوبصورت خواب کی تعبیر اس قدر بھیانک کیسے نکل آئی ؟
شفق عبداللہ جیسا شوہر ڈیزرو نہیں کرتی۔وہ شخص میری شفق کے قابل نہیں ہے۔میں کیا کروں بھائی؟
کیسے کروں؟
میں شفق کی زندگی سے عبداللّٰہ نام کے باب کو مٹا دینا چاہتی ہوں۔آپ نہیں جانتے بھائی شفق کی والدہ کی وفات کے بعد سے اس کے بھائیوں نے اس کی زندگی جہنم بنا کر رکھ دی ہے ۔اس کے والد تو والدہ کی وفات سے چند ماہ قبل ہی خالق حقیقی سے جاملے تھے۔بعد ازاں وہ اپنے بھائیوں کی سرپرستی میں قید ہو کر رہ گئی ۔
مذہب کے نام پر ،اصلاح کے بہانے ان خان زادوں نے اس مظلوم کو گھر کی چاردیواری میں قید کر کے رکھ دیا ۔ترقی کے اس دور میں جہاں ہر دوسرا شخص ایک عدد سمارٹ فون کا مالک ہوتا ہے،شفق تو ان ایجادات سے ہی ناواقف ہے۔اس کی عمر کی دوسری لڑکیاں ہمہ وقت سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ایکٹیو ہوتی ہیں ، مگر شفق کے لیے فون کا استعمال درکنار خان حویلی میں ٹی وی تک نہیں ہے۔ آج تک وہ کبھی کسی مال میں نہیں گئی ۔جب کبھی ملبوسات یا دوسری ضروریات زندگی کے سامان خریدنے کی نوبت آتی فوراً سے پیشتر سارا سامان خان حویلی منگوا لیا جاتا۔ اتنا ہی نہیں ایک واحد سنہری موقع تھا شفق کے پاس خان حویلی سے باہر نکلنے کا ,کھلی فضا میں سانس لینے کا ۔
وہ یہ کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے وہ کسی نزدیکی کالج یا یونیورسٹی میں ایڈمیشن لی لیتی مگر خان زادے اس معاملے میں بھی نہ چوٗکے اور گھر بٹھائے اسے عالماء کا کورس کروا دیا ۔گزشتہ چار سالوں سے اس کا طرز زندگی دیکھ میرا دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے ۔
کوئی اسقدر تعفن زدہ ماحول میں سانس کیسےلے سکتا ہے؟چلوٹھیک ہے ۔مان لیا خان زادے مذہب کے معاملے میں شدت پسند ہے۔
لیکن مجھے شفق کی گھٹن زدہ زندگی کو دیکھ زیادہ اذیت اسی لیے پہنچتی ہے کیونکہ یہ سارے قوانین و بندشیں محض شفق کے اوپر عائدہوتی ہیں۔ اس کی بھابیوں کے پاس مہنگے ترین اسمارٹ فون ہیں۔
وہ چاروں شاپنگ کرنے کی غرض سے آئے دن مالس کے چکر لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔
پردہ کے نام پر رنگین ستاروں سے مزین عبایہ زیب تن کیے چہرے کو میک اپ سے سجاکر اپنی نمائش کرتی ہوئیں ساحل سمندر کی سیر کو جاتی ہیں اور وہ تنہا اپنے بھائیوں کے بچوں کی نگرانی کے لیے خان حویلی میں چھوڑ دی جاتی ہے۔ خان زادوں کی ساری شدت پسندی محض شفق تک محدود ہے۔
اس کے ماں جائے کی یہ سفاکیت و بے حسی دیکھ میں ششدر رہ جاتی ہوں۔
مجھے شبہ ہونے لگتا ہے حقیقتاً خان زادے شفق کے سگے بھائی ہیں بھی یا نہیں”۔
اس کے دل میں مدفن رازوں کا صندوق کھلا تو باالترتیب کئی راز افشاں ہوئے۔
وہ سانس لینے کو رکی تھی۔ اپنی عزیز ترین دوست کی محرومیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ زار زار روئے جارہی تھی۔
"آج تک میں نے آپ سے ان باتوں کو شیئر نہیں کیا کیوں کہ میرا خیال تھا ایسا کرنے سے شفق کی تذلیل ہوگی۔ اس کی زندگی کی یہ تلخ حقیقت میرے پاس اس کی امانت تھی۔ میں آج بھی آپکے سامنے اس کی محرومیوں کا ذکر نہ کرتی ،مگر میں کیا کروں جب تک آپ سب اس کی زندگی سے منسلک اذیت ناک حقائق سے واقفیت حاصل نہیں کرلینگے، آپ لوگ نہیں سمجھ سکیں گے کہ یہ شادی میری شفق پر کتنا بڑا ظلم ہے"۔
وہ شدتوں سے روپڑی اسکرین کے اس پار اپنی بہن کی حالت زار دیکھ کر وہ بے طرح مضطرب ہوا۔
" حریم میری بات سنو۔ سب سے پہلے تو رونا بند کرو۔ تم جانتی ہو زیادہ رونے سے تمہیں بخار چڑھ جاتا ہے۔ خود کو بیمار مت کرو حریم"۔
نچلا ہونٹ داںتوں تلے دبائے وہ تھکن زدہ لہجے میں گویا ہوا۔
اس کی بات پر حریم کی شدت گریہ میں خاطر خواہ کمی آئی تھی۔
حریم کو بیماری سے خوف آتا تھا اور اس حقیقت سے سبھی واقف تھے۔ اس کا تیر نشانے پر لگا تھا۔
"خان حویلی میں شفق کی حیثیت گھر کے کسی کونے میں پڑےفرنیچر سے زیادہ نہیں ہے۔وہاں کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہے ۔ کوئی اسے عزت نہیں دیتا۔ کسی کو اس سے محبت نہیں ہے۔چند روز قبل شفق نے مجھ سے کہا تھا کہ اس کے بھائیوں کی خواہش ہے کہ اس کا ہونے والا شوہرصوم و صلوٰۃ کا پابند ہو ، شریف النفس ہو ، ہمیشہ شلوار قمیص میں ملبوس رہے اتنا ہی نہیں اس کی سنتی داڑھی ہونا بھی درکار تھا۔شفق کی زبانی خان زادوں کی شرائط سن کر یک بیک میرے ذہن کی پلیٹ پر ان لڑکوں کی شبیہہ روشن ہوئی تھی جن کا تعلق سعودی عربیہ سے ہوتا ہے۔ وہی لڑکے جونعت خوانی یا قرآن خوانی کی ویڈیوز میں یوٹیوب پر نظر آتے ہیں۔ شہابی رنگت ، ستواں ناک ، کالی گھنی داڑھی جونہ ضرورت سے زیادہ لمبی ہوتی ہے نہ چھوٹی ، سر پر عمامہ باندھے پرنور چہرے والے خدا کے نیک بندے ۔جن کے لہجے میں ایسی حلاوت ہوتی ہے آواز میں اس قدر شیرنی ہوتی ہے کہ بندہ پورے کا پورا خدا کی یاد میں ڈوب جاتا ہے۔جن کے روشن چہروں پر پہلی نگاہ پڑتے ہی ادراک ہوتا ہے کہ مومن بندے کیسے دکھتے ہیں۔روشن پیشانی کی چمک کیسی ہوتی ہے۔تصور کی آنکھ سے پرنور چہروں والے لڑکوں کی شبیہہ کو دیکھ زندگی میں پہلی دفعہ میں شفق کے بھائیوں کی کسی بات سے متفق ہوئی تھی۔ایک دم سے مجھے ان کی شرائط بھلی لگنے لگیں ۔ موقع دیکھ کر ایک روز بڑی مشکل سے میں قرآن خوانی سنانے کے بہانے شفق کو ایک ویڈیو دکھانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ورنہ اس کے نزدیک تو اسمارٹ فون کو چھو لینا بھی گناہ کے زمرے میں آتا تھا ۔ ویڈیو کے اختتام کے فوراً بعد میں نے اس سے کہا
'دیکھنا تمہارے بھائی تمھارے لیے بلکل ایسا ہی کوئی وجیہہ ،نیک اور روشن چہرہ والا لڑکا تلاش کریں گے"۔
میری بات پر ایک بے ساختہ شرمیلی مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا۔اور شام سے اسکی وہ مسکراہٹ کسی آسیب زدہ روح کی مانند میرے ذہن کے چکر کاٹ رہی ہے۔میں عبداللہ کی صورت کو برا نہیں کہہ رہی بھائی۔ ہر انسان کی صورت اللّٰہ نے بنائی ہے۔ہم کون ہوتے ہیں اس کی تخلیق میں عیب نکالنے والے مگر کیا شفق کو حق نہیں ہے کہ اسکا ہونے والا شوہر شکل و صورت ، عمر اور رتبہ کے لحاظ سے اسے سوٹ کریں ۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو کامپلیمنٹ کریں۔یہ کیسا جوڑ بنانا چاہ رہے ہیں خان زادے ؟ ایک مشرق تو دوسرا مغرب ۔ مان لیا کہ شفق کے بھائیوں کے لیے لڑکے کا مذہبی اور شریف النفس ہونا ہی اولین ترجیح ہے۔خوبصورتی اور عمر جیسی چیزیں ان کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ۔جبکہ وہ شخص تو کسی لحاظ سے نیک یا شریف النفس دکھائی نہیں دیتا۔
اس کے چہرے سے وہ نور ہی مفقود تھا جو نیک بندوں کے چہرے کی خاصیت ہوتا ہے ۔
اس شخص کے چہرے پر محض تکبر و رعونت کے تاثر کا ڈیرا تھا۔شفق کے بھائیوں کو ایسی کونسی نیکی یا اچھائی نظر آگئی اس شخص میں جو مجھے نظر نہیں آئی۔وہ کسی لحاظ سے شفق کے قابل نہیں ہے بھائی"۔
ایک دفعہ پھر سلسلہ تکلم جوڑ کروہ بنا رکے بولتی جا رہی تھی۔ اپنی بات کے اختتام پر اس نے مدد طلب نگاہوں سے حیدر کے چہرے کو دیکھا۔
"دیکھو حریم ،اس صورتحال میں جذباتیت کا مظاہرہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بعض اوقات ہم کتنے ہی آنسو بہالیں، کتنے ہی ہاتھ پاؤں مار لیں حالات ہمارے قابو میں نہیں آتے۔ کچھ بھی ہمارے موافق نہیں ہوتا ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خدا ہماری دعائیں نہیں سن رہا۔ وہ سب کچھ سن اور دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ وقت ہماری آزمائش کا وقت ہوتا ہے۔اللہ اپنے گناہگار بندوں کی دعاؤں کو تک رد نہیں کرتا ،پھر تم تو پنج وقتہ نمازی ہو اور تمہاری دوست تہجد گذار ۔ تمہیں ہمت نہیں ہارنا چاہیے ۔ خدا کی ذات سے مایوس ہونا کفر کے برابر ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے، تم خدا سے زیادہ محبت کرتی ہو تمہاری دوست سے؟ تمہیں اس کی خدا سے زیادہ پرواہ ہے؟ نہیں نا۔ تو پھر ان آنسوؤں کا، اس مایوسی کا کیا مطلب ہے؟
شفق جس امتحان سے گذر رہی ہے اس کے پس منظر میں یقیناً اس کے حق میں بہتری پوشیدہ ہو گی ۔ خدا کی مصلحت چھپی ہوگی اور ہم بندے اس قابل نہیں ہوتے کہ اس ذات برتر کی مصلحتوں کو وقت سے پہلے سمجھ سکیں۔
وہ بس کن کہتا ہے اور تقدیریں پلٹ جاتی ہیں۔ تم بس اس کے حضور میں اپنی دوست کے بہتر مستقبل کے لئے دعا کرو۔ دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ خدا کوئی راستہ دکھائے گا"۔
اپنی بیٹی کے تاثرات بحال ہوتے دیکھ آمنہ بیگم کمرے سے باہر نکل آئیں۔ وہ دونوں پورے دو گھنٹوں تک محو گفتگو تھے۔رابطہ منقطع کرنے کے بعد حریم خاموشی کے ساتھ کھانا کھا کر سو گئی تھی۔
صورتحال کو قابو میں آتا پاکر آمنہ بیگم اور آفندی
صاحب نے شکر کا کلمہ پڑھا تھا۔
*********
اگلی صبح کا سورج ہنگامہ خیز خبر کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ رونے کی زیادتی اور شدید ذہنی دباؤ کے زیر اثر تیز بخار نے حریم کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
حریم کو بخار چڑھ جانا آفندی خاندان کے لیے عام خبر نہیں تھی۔ اس کی پیدائش سے لے کر آج تک جب کبھی بخارنے حریم کو جکڑا دو سے تین ہفتہ بعد ہی وہ اس کی جان کی خلاصی کرتا تھا۔
اس کی زبوں حالی کو دیکھ یہ گماں ہوتا گویا وہ بخار میں نہیں خدانخواستہ کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہے۔ دو دنوں کے بعد بھی جب تمام کوششوں اور علاج کے باوجود حریم کی طبیعت بحال ہونے کا کوئی امکان نظر نہ آیا تواس ہنگامی صورتحال میں حیدر کو اپنے دیس واپس لوٹنا پڑا تھا۔ فی الوقت وہ حریم کے سرہانے بیٹھا اس کی پیشانی پر ٹھنڈی پٹیاں رکھ رہا تھا۔
"بھائی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں مر تو نہیں جاؤں گی ناں"؟
نقاہت زدہ لہجے اور گلوگیر آواز میں حریم گویا ہوئی ۔ علالت کے دوران وہ اسی خوف کے حصار میں رہتی کہ یہ مرض اس کی جان لے کر چھوڑے گا اور اپنے اس خوف کا اظہار وہ ہزار دفعہ کر اپنے عزیزوں کا صبر آزماتی تھی ۔ حریم کو موت سے بہت خوف آتا تھا۔
"بکواس بند کرو حریم ۔
کتنی دفعہ وران کیا ہے میں نے تمہیں ، اس قسم کےمنہوس الفاظ اپنے منہ سے نہ نکالا کرو مگر تمہیں پرواہ ہی کہاں ہے ہمارے احساسات کی ۔ تمہیں تو بس اپنی دوست عزیز ہےجس کے غم میں بستر سے لگ کر تم خالق حقیقی سے جا ملنے کی تیاری پکڑ رہی ہوں۔ کتنا سمجھایا تھا تمہیں کہ اس بات کو اپنے اعصاب پر سوار مت کر لینا لیکن تم پر تو کوئی اثر ہی نہیں ہوا میری باتوں کا ۔ کسی غیر کے غم میں اپنوں کو تکلیف پہنچانا کہاں کی عقلمندی ہے حریم؟ بھول جاؤ سب کچھ اپنی دوست کو ، اس کی شادی کو ، اس کی محرومیوں کو ،اپنے بارے میں سوچو ۔
ہمارے بارے میں سوچو کہ تمہیں اس حال میں دیکھ ہم پر کیا بیت رہی ہوگی"۔
اس کے چند جملوں میں شکوہ ، محبت، فکر کئی جذبات پنہاں تھے۔گرم ہو چکی پٹی کو ٹھنڈی پٹی سے تبدیل کرتے ہوئے حیدر ناصحانہ انداز میں گویا ہوا تھا۔
"وہ غیر نہیں ہے بھائی ، وہ میری دوست ہے۔ وہ میری شفق ہے۔ انسانوں سے بھری اس دنیا میں میرے علاوہ اس کا کوئی دوست نہیں ہے۔
میرے پاس تو آپ ہیں، مام ڈیڈ ہیں محبت نچھاور کرنے کے لیے۔ میری پرواہ کرنے کے لیے مگر وہ تو تنہا ہے ۔اس کے پاس سوائے میرے کوئی نہیں ہے۔
میں گذشتہ چار سالوں سے ہر مشکل وقت میں اس کے آنسو پونچھتی آئی ہوں۔اس کا ایموشنل سپورٹ بنی رہی ہوں ۔ پچھلے تین دنوں سے میں اسے ملنے نہیں جا سکی۔ وہ وقت کی بہت پابند ہے ۔ مجھے یقین ہے روزانہ ٹھیک پانچ بجے باقاعدگی کے ساتھ وہ چھت پر آتی رہی ہوگی لیکن میں وہاں موجود نہیں تھی۔ میرے پاس درکار ہمت نہیں ہے کہ میں اس کا سامنا کر سکو ں ۔ اس کے ہر غم کا مداوا کرنے والی اس کے ہر زخم پر پھاہے رکھنے والی حریم کے پاس اس بار کہنے کو ایک بھی مثبت لفظ نہیں ہے۔امید کا کوئی جگنو نہیں ہے جو میں اس کے ہاتھوں میں تھما سکوں۔میں اسکی واحد دوست ہوں مگر میں اس کی مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ دوستی کا حق ادا کرنا پڑتا ہے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنھیں پورا کرنا پڑتا ہے اور میں وہ حق ادا نہیں کر سکی ۔ ایک شخص کی آنکھوں کے عین سامنے اس کے دوست کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہو اور وہ شخص احتجاج نہ کرے، اپنے دوست کی مدد کو نہ پہنچے تو ایسے انسان کو دوست کہلائے جانے کا کوئی حق نھیں ھے۔
میں نے فیصلہ کرلیا ہے بھائی، آج کے بعد میں کبھی چھت پر نہیں جاؤں گی ۔ اپنی باقی زندگی میں خان شفق سے نہیں ملونگی۔
آپ سب ٹھیک ہی سمجھاتے تھے مجھے ، ان دو خاندانوں کے مکینوں کو دوستی راس نہیں آتی اور دیکھیں ہماری دوستی بھی اختتام کو پہنچیکے
۔خیر اپنی دوست کے غم میں آنسو تو بہا ہی سکتی ہوں۔اتنا تو کر لینے دیں مجھے اپنی دوست کےلئے ۔یہ حق تو نہ چھینیں مجھ سے۔
تھکن سے چور لہجے میں اپنی بات کا اختتام کر اس نے آنکھیں موند
لیں۔ دوآنسو پلکوں سے ٹوٹ کر اس کے ریشمی بالوں میں جذب ہوگئے۔
حیدر آفندی اپنی بہن کے لبوں سے ادا ہوئے الفاظ سن کر ساکت رہ گیا۔ ہردوسرے کو اپنی باتوں سے مطمئن کرنے والا ، مقابل کو اپنے لفظوں کے سحر میں جکڑ لینے والا حیدر آفندی خاموش بیٹھا رہ گیا۔
تسلی بخش الفاظ ، امید جگاتی باتیں، خواب دکھاتی آنکھیں سارا کچھ جیسےہوا میں تحلیل ہو گیا ۔اس کا ذہن ایک دم سے کورا کاغذ بن گیا۔
وہ کھالی ذہن کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔
"شاید یہ بات اتنی بڑی بھی نہیں جتنا میں اسے اپنے حواسوں پر سوار کر رہی ہوں۔
مگر میں کیا کروں؟ میں اپنے دل کے ہاتھوں بے بس ہوں ۔ شفق جیسی مشکلات و آزمائش سے بھری زندگی نہیں دیکھی میں نے , غالباً اسی لیے یہ پہلی آزمائش بھی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی ۔زندگی نشیب و فراز کا مجموعہ ہے اور میری اب تک کی زندگی میں آیا پہلا نشیب مجھے یہ احساس کر اگیا کہ اس دنیا میں سانس لیتے ہر ایک انسان پر خواہ وہ کتنی ہی پرمسرت و پرکیف زندگی جیتا آیا ہو، کبھی نہ کبھی ایسا موقع ضرور آتا ہے جب وہ زندگی سے ہار جاتا ہے ۔ تقدیر کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ایک دفعہ ہی سہی زندگی ہمیں شکست ضرور دیتی ہے"۔
وہ کمرے کی دہلیز کو عبور کرنے والا تھا جب حریم کی بھیگی ہوئی شکستہ آواز اس کی سماعت میں اتری ۔
ضبط کی آخری حدوں کوچھوتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا پہلے حریم کے کمرے اور پھر آفندی حویلی سے باہر نکل گیا۔
وہ رات حیدر آفندی نے آنکھوں میں کاٹی تھی۔وہ اپنی عزیز ترین بہن کو یوں شکستہ حال نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ وہ حریم کی جذباتیت سے واقف تھا ، وہ جانتا تھا اس واقعہ کو چاہے وقت کی گرد ان کے ذہنوں سے مٹا دے مگر حریم اس بات کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی ۔ وہ تاحیات اپنی دوست کے ساتھ ہوئی زیادتی کا حصہ دار خود کو بھی گردانتی رہے گی کیونکہ اسے یہی تعلیم دی گئی تھی کے ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا ظلم کرنے کے مترادف ہے اورحریم کیونکر فراموش کر پائے گی کہ اس کی عزیز ترین دوست پر ہورہے ظلم و زیادتی کے خلاف وہ احتجاج نہ کر سکی ۔ حیدر خان حویلی کے معاملات سے دور رہنا چاہتا تھا تاہم ان سارے انکشافات اور حریم کی یہ حالت دیکھنے کے بعد ،سب کچھ جانتے بوجھتے چشم پوشی سے کام لینا اس کے اختیار سے باہر تھا۔
مئی کی گرم دوپہر میں سورج اپنی تپش سے سارے شہر کو جھلسا رہا تھا ۔ پرندے درختوں کے پتوں کے سایوں میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔
فضاء میں عجیب سی سوگواری چھائی تھی۔
حریم کو کھانا کھلا کر فارغ ہوتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلا آیا۔ کھڑکی کے نزدیک کھڑے ہوکر اس نے نیلے روشن آسمان کو دیکھنے کی جسارت کی نتیجتاً آنکھیں چندھیا گئیں۔
اسکا ذہن تانے بانے بن رہا تھا ۔وہ منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
شفق کی رہائی کی منصوبہ بندی۔
کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں مرکوز کیے وہ تقریباً آدھے گھنٹے تک ایک ہی پوزیشن میں کھڑا رہا تھا۔
*****
وال کلاک نے رات کے ڈیڑھ بجنے کا اعلان کیا ۔ اس نے آہستگی کے ساتھ حریم کے کمرے کے نیم وا دروازے سے اندر جھانک کر دیکھا، وہ دوائیوں کے زیر اثر گہری نیند سو رہی تھی۔ مام ڈیڈ کی خواب گاہ کی بتیاں بجھی ہوئی تھی۔ سبھی کے محو خواب ہونے کی تصدیق کر لینے کے بعد وہ دبے پاؤں سیڑھیاں عبور کرتا چھت پر چلاآیا ۔ چہار سو تاریکی چھائی تھی۔
مستقل مزاجی کے ساتھ بولتے جھینگروں کی آوازیں رات کے ماحول کو مزید پراسرار بنارہی تھیں۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا وہ دو چھتوں کو باہم جوڑتی درمیانی دیوار کے نزدیک چلاآیا۔زیرو بلب کی روشنی میں خان حویلی کی چھت پر ایک عدد لکڑی کی کرسی اور چٹائی پڑی دکھائی دیتی تھی۔ بے سکونی و اضطراب کی زندہ تصویر بنا وہ چند لمحے درمیانی دیوار کی اوپری سطح پر ہاتھ جمائے گہری گہری سانسیں لیتا رہا ۔ جو کچھ وہ کرنے جارہا تھا پاگل پن سے کم نہ تھا۔
مگر دوسراکوئی راستہ نہ دکھائی دیا تھا ۔اور کوئی تدبیر نہیں سوجھی تھی ۔
بعض اوقات محبت ہمیں انتہا سے زیادہ بے بس کر دیتی ہے۔وہ کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے جسے کر گزرنے کے تصور سے تک ہمیں خوف آتا ہو۔اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب سنسان رات کے ڈیڑھ بجے دو حریفوں کی حویلیوں کی چھتوں کو باہم جوڑتی دیوار کو پھلانگ کر اسے دشمن کی حویلی میں قدم رکھنا ہوگا ۔ ایک لمبی سانس لے کر اس نے منتشر ذہن کو جھٹکا ،
بسم اللہ پڑھی اوراس رات حیدر آفندی نے حریم آفندی کے لیے وہ دیوار عبور کرلی۔
وہی ممنوعہ دیوار جسے چار سال قبل حریم آفندی نے خان شفق کی خاطر عبورکیا تھا۔
*******